راشد اشرف
محفلین
سرورق:
عقبی ورق:
علی سردار جعفری-شخصیت اور فن-کتاب ہو تو ایسی
راشد اشرف
کراچی
اژدہام "کتب" سے انفرادیت کی نوا آئی
اک نئی صدا آئی
راہ شوق میں جیسے راہ رو کا خوں لپکے
اک نیا "جنوں" لپکے
جی ہاں، مکرمی عقیل عباس جعفری کی زیر تذکرہ کتاب پر کی گئی محنت کو دیکھ کر بے اختیار ن م راشد کو یاد کیا۔ اگلی سطور میں بھی تحریف کرکے خیال آتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ ع ۔ ۔ آدمی کا اس کتاب کو پڑھنا تو بعد کی بات ہے، دیکھ کر ہی کیوں نہ سیر ہوجائے ۔۔۔۔۔ اور پھر اردو کے معدوم ہونے، کتب بینی کے مٹنے کا غم جاتا رہے۔
آدمی ہنسے دیکھو، "کتب خانے" پھر بسے دیکھو
تم ابھی سے ڈرتے ہو ?
صاحبو! بات سیدھی سی ہے۔ کتاب لکھنا اور مرتب کرنا، دو علاحدہ علاحدہ باتیں ہیں۔ مگر موخر الذکر معاملے میں بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ محنت زیادہ درکار ہوتی ہے۔ مگر اس کا ایک فائدہ اور غالبا” سب سے اہم یہ ہوتا ہے کہ "ایک ہی چھت" کے نیچے آُپ کو اپنی پسندیدہ شخصیت کے بارے میں قیمتی مواد پڑھنے کو مل جاتا ہے۔ مضامین جمع کرنا، ان کا جائزہ لینا، شمولیت کا فیصلہ، لوگوں سے رابطے، اور سب سے بڑھ کر حواشی کا لکھنا اور پھر آخر میں دیدہ ریزی کے مسائل۔ ان مراحل سے بدقت تمام نمٹیے، طباعت کرایے تب کہیں جاکر قاری کو ایک عمدہ کتاب کا تحفہ میسر آتا ہے۔ ان سب سے عہدہ براں ہونے کے بعد مرتب کے حصے میں طمانیت کا احساس تو آتا ہی ہے۔ محنت ٹھکانے لگتی ہے، محققین کو آسانی رہتی ہے، تحریروں کی تلاش میں در در بھٹکنا نہیں پڑتا۔
کتاب کا سرورق بھی منسلک ہے اور فہرست مضامین بھی، اسے تو آپ یقینا دیکھیں گے مگر گزشتہ کل یعنی 29 مارچ 2015 کی صبح جب عقیل صاحب نے راقم کو کتاب کا نسخہ "پہلا نسخہ" لکھ کر دیا تو جی باغ باغ ہوا۔ دوسرا نسخہ بھی سید معراج جامی صاحب کے لیے گویا پہلا ہی تو تھا۔ "سردار جعفری-شخصیت اور فن" کے حصول کے لیے ہم پرانی کتابوں کے اتوار بازار سے کراچی کی معروف فوڈ اسٹریٹ برنس روڈ کا رخ پہلے ہی کرچکے تھے جہاں لذت کام و دہن کا پورا پورا انتظام تھا۔ انگریزی محاورے کے مصداق ہم نے اس کتاب کا دیدار
over a cup of tea
کیا تھا۔
پاکستان ہو یا بھارت، اب ترقی پسندوں کا تذکرہ صرف
over a cup of tea
ہی ہوتا ہے۔
مگر آگے بڑھنے سے قبل جامی صاحب کے تاثرات بھی ملاحظہ کیجیے:
"آج جب میں اور راشد ریگل کے اردو بازار گئے تو تھوڑی دیر بعد یار طرح دار عقیل کا فون آیا کہ آپ لوگ ریگل پہنچ گئے ہیں- جواب اثبات میں سن کر بولے میری نئی کتاب "علی سردار جعفری (شخصیت اور فن ) کل ہی پرنٹر سے آئی ہے اور میں آپ دونوں کے لیے نسخے لے کر آ رہا ہوں- ایسی خبر بلکہ خوش خبری اللہ ہمیں روز سنائے - ہم دونوں نے نیایت اضطراب سے کہا بسر و چشم - تھوڑی دیر بعد عقیل
آگئے اور پھر ہم تینوں برنس روڈ کے ایک ہوٹل میں گرما گرم چائے کے ہمراہ آمیٹ پراٹھہ کھا رہے تھے اور کتاب کو نہایت دلچسپی اور خوش گوار حیرت سے دیکھ رہے تھے - علی سردار جعفری پر یہ ایک مکمل حوالی جاتی کتاب ہے - عقیل کے جمالیاتی ذوق کی بھرپور ترجمانی اس کتاب سے ہو رہی تھی - اس کا سرورق ، اس کی ترتیب اور تدوین آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی- سرورق پر علی سردار جعفری کی تصویر دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ یہ تصویر جعفری صاحب نے خاص اس کتاب کے لیے کھنچوائی ہے - کتاب کا سائز رسالے کا ہے ، کتابت مشینی ہے مگر خوبصورت انداز میں ، طباعت نفیس ہے - غرض ہر لحاظ سے کتاب جعفری کے حسن ذوق کی ترجمانی کر رہی تھی- میرا اسکینر اس وقت کام نہیں کر رہا ہے ورنہ کتاب کا پورا عکس دکھاتا- اس کتاب کا بھرپور حسن راشد اشرف دکھائیں گے - اس کتاب پر بھی عقیل نے حسب عادت بہت محنت کی ہے - علی سردار جعفری کے خاندان سے روابط کرنے میں ، جگہ جگہ سے مضامین حاصل کرنے میں کتنی دقت اور مشقت اٹھانی پڑی ہے اس کو ایک محقق اور مولف ہی سمجھ سکتا ہے-"
------xx------
عقیل عباس جعفری نے جب سے ہوش سنبھالا، گھر میں علی سردار جعفری کا ذکر سنا، اور ایسا کیوں نہ ہوتا، آخر سردار صاحب سے ان کی رشتہ داری بھی تو ہے۔ پھر بقول ان کے یہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر سردار جعفری پر لکھی تحریروں کو پڑھا کیے۔ ایک زمانہ علی سردار جعفری کا اسیر تھا پھر ایسے شخص کو دیکھنا، اس سے ملنا کیا کم تھا کہ قدرت نے ایک مرتبہ یہ موقع بھی فراہم کیا کہ عقیل جعفری نے سردار جعفری کے ساتھ کراچی میں مشاعرہ بھی پڑھا۔
"علی سردار جعفری-شخصیت اور فن" کو 2013 میں سردار جعفری کے صد سالہ جشن ولادت پر شائع ہونا تھا مگر یہ منصوبہ بوجوہ تاخیر کا شکار ہوتا چلا گیا۔ "اوور اے کپ آف ٹی" یہ قصے بھی چھیڑے گئے اور عقیل عباس نے دل کے کچھ پھپھولے بھی پھوڑے مگر چونکہ ان میں کچھ "بے پردہ نشینوں" کے بھی نام آتے ہیں لہذا اس قضیے کو یا تو کسی اور موقع کے لیے اٹھا رکھتے ہیں یا پھر آپ خود ہی عقیل صاحب سے دریافت کرلیجیے گا۔
سچ تو یہ ہے کہ "علی سردار جعفری -شخصیت اور فن" لائق مطالعہ بھی ہے اور لائق محبت بھی۔ سردار جعفری کی مختصر آپ بیتی سے یہ کتاب شروع ہوتی ہے مگر اس سے قبل سردار اور بیگم سردار کی ایک خوب صورت تصویر دیکھ کر جی کھل اٹھتا ہے جس کا عنوان ہے:
ہر عاشق ہے سردار یہاں
ہر معشوق سلطانہ ہے
پہلا باب ہے "زندگی نامہ" جس کے تمام ہی مضامین اہم ہیں مگر سردار جعفری کی بہن ستارہ جعفری کا تحریر کردہ خاکہ تو لاجواب ہے۔ سردار جعفری کو دنیا ایک ایسے شخص کی حیثیت سے جانتی ہے جس نے تمام زندگی اپنے نظریات پر کاربند رہ کر اور اس کے پرچار میں گزاری مگر مذکورہ خاکے میں ہمیں ان کی نجی زندگی کے کئی دلنشیں پہلو بھی نظر آتے ہیں۔ وہ پہلو جن کو گھر کا ایک فرد ہی بیان کرسکتا ہے۔ ان کی دوسری بہن رباب جعفری کا خاکہ "میرے بھائی" بھی ایک اہم اور دل چسپ تحریر ہے۔
"زندگی نامہ" میں ڈاکٹر قمر رئیس، انور جعفری، خواجہ تصور علی حیدر اور عشرت آفرین کے مضامین و خاکے بھی لائق مطالعہ ہیں جبکہ اسی حصے میں عقیل عباس جعفری نے سردار جعفری کے سوانحی اشارے کے علاوہ دکن کی شاہانہ مریم شان کی اہم کتاب سے سردار جعفری پر ہندوستان کی مختلف جامعات میں ہونے والے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالوں کی تفصٰیل کو یک جا کرکے نہایت جامع کام کیا ہے۔
حصہ دوم "خاکے اور مضامین" میں جن مشاہیر کی تحریریں ہیں ان میں شامل ہیں: سبط حسن، سجاد ظہیر، بیدار بخت، شوکت کیفی، ساجد رشید، عبداللہ ملک، باقر مہدی، حمید اختر، صدیق الرحمن قدوائی، مظہر امام، گوپی چند نارنگ، یوسف ناظم اور اٹل بہاری واجپائی۔ کہنے کو تو یہ تمام تحریریں ہی رنگا رنگ ہیں اور سردار جعفری کی زندگی کے گوشوں کو بے نقاب کرتی ہیں مگر ان میں کیفی اعظمی کی اہلیہ شوکت کیفی کا لکھا خاکہ مزے دار ہے۔ پر لطف واقعات سے مزین یہ تحریر بلاشبہ ایک یادگار تحریر کہلائے جانے کی حق دار ہے۔ واضح رہے کہ شوکت کیفی اداکارہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کہنہ مشق ادیبہ بھی ہیں جو اپنی خودنوشت سوانح عمری کے سبب ادب میں بھی ایک مقام رکھتی ہیں۔
حصہ سوم کا نام یاروں کے روبرو ہے جس میں سردار جعفری کے انٹرویو شامل ہیں۔
حصہ چہارم "علی سردار جعفری کی منتخب تحریریں" میں مرتب نے سردار جعفری کے دیگر مشاہیر ادب پر لکھے چند اہم مضامین کو یک جا کیا ہے۔
سردار جعفری کی نظریاتی تحریروں پر مشتمل اگلے حصے کا نام "شاعر سردار جعفری" ہے جبکہ "انتخاب شاعری" کے تحت سردار جعفری کا کلام شامل کیا گیا ہے۔
کتاب کے بالترتیب ساتویں اور آٹھویں حصوں کے عنوان ہیں: " سردار جعفری کا فن" اور "رثائی ادب اور سردار جعفری"۔ اول الذکر میں سردار جعفری کے ہم عصروں کے مضامین شامل ہیں۔
کتاب کا آخری باب "گوشہ سلطانہ جعفری" ہے جس میں اول اول سلطانہ جعفری پر بمبئی فلمی صنعت کے معروف کہانی نویس جاوید صدیقی کی حالیہ دلچسپ کتاب روشن دان سے سلطانہ جعفری کا خاکہ شامل کیا گیا ہے جبکہ اس میں چند دیگر لکھنے والوں کی تحریریں شامل ہیں۔
------xx--------
اب کچھ بیان کتاب کی اشاعتی تفصیلات کا:۔
سچ پوچھیے تو "علی سردار جعفری -شخصیت اور فن" کی طباعت، اس کا سرورق اور سب سے بڑھ کر اس کا زردی مائل بہترین، پھسلواں آفسٹ کاغذ دیکھ کر بے اختیار جی چاہتا ہے کہ اسے "ہر قیمت پر" حاصل کرلیا جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ "ہر قیمت" آخر ہے کتنی۔ تو عرض یہ ہے کہ کتاب کے معیار کو دیکھتے ہوئے 1200 روپے ادا کرنا کچھ ایسا کھلتا بھی نہیں۔ آخر ہم دیگر مکروہات پر بھی تو بے دریغ خرچ کرتے ہی ہیں تو کیوں نا ایک عمدہ و دل چسپ کتاب کی خریداری پر کچھ رقم صرف کی جائے۔
کتاب بڑے سائز میں شائع ہوئی ہے اور تعداد اشاعت صرف دو سو ہے۔ اس کے پرنٹر کراچی کے فضلی سنز ہیں جبکہ اسے مرتب نے اپنے ادارے ورثہ پبلی کیشنز سے شائع کیا ہے۔ جلد ہی یہ فضلی سنز اردو بازار کراچی اور کتاب سرائے لاہور پر دستیاب ہوگی۔ جبکہ ہندوستان سے بھی اس کی اشاعت متوقع ہے۔
جبکہ عقیل عباس جعفری صاحب کا برقی پتہ یہ ہے:
aqeelabbasjafri@gmail.com------xx----------
یہاں مشفق خواجہ مرحوم یاد آرہے ہیں۔ ایک "جان لیوا" کتاب کو دیکھ کر بے اختیار کہہ اٹھے تھے کہ سو گرام کے کاغذ پر دس گرام کی بات کی گئی ہے۔
اتفاق دیکھیے کہ "علی سردار جعفری -شخصیت اور فن" کا کاغذ سو گرام کے آس پاس ہی رہا ہوگا مگر یقین رکھیے کہ اس پر ثبت باتیں چار سو گرام سے کم نہیں۔
عقبی ورق:
علی سردار جعفری-شخصیت اور فن-کتاب ہو تو ایسی
راشد اشرف
کراچی
اژدہام "کتب" سے انفرادیت کی نوا آئی
اک نئی صدا آئی
راہ شوق میں جیسے راہ رو کا خوں لپکے
اک نیا "جنوں" لپکے
جی ہاں، مکرمی عقیل عباس جعفری کی زیر تذکرہ کتاب پر کی گئی محنت کو دیکھ کر بے اختیار ن م راشد کو یاد کیا۔ اگلی سطور میں بھی تحریف کرکے خیال آتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ ع ۔ ۔ آدمی کا اس کتاب کو پڑھنا تو بعد کی بات ہے، دیکھ کر ہی کیوں نہ سیر ہوجائے ۔۔۔۔۔ اور پھر اردو کے معدوم ہونے، کتب بینی کے مٹنے کا غم جاتا رہے۔
آدمی ہنسے دیکھو، "کتب خانے" پھر بسے دیکھو
تم ابھی سے ڈرتے ہو ?
صاحبو! بات سیدھی سی ہے۔ کتاب لکھنا اور مرتب کرنا، دو علاحدہ علاحدہ باتیں ہیں۔ مگر موخر الذکر معاملے میں بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ محنت زیادہ درکار ہوتی ہے۔ مگر اس کا ایک فائدہ اور غالبا” سب سے اہم یہ ہوتا ہے کہ "ایک ہی چھت" کے نیچے آُپ کو اپنی پسندیدہ شخصیت کے بارے میں قیمتی مواد پڑھنے کو مل جاتا ہے۔ مضامین جمع کرنا، ان کا جائزہ لینا، شمولیت کا فیصلہ، لوگوں سے رابطے، اور سب سے بڑھ کر حواشی کا لکھنا اور پھر آخر میں دیدہ ریزی کے مسائل۔ ان مراحل سے بدقت تمام نمٹیے، طباعت کرایے تب کہیں جاکر قاری کو ایک عمدہ کتاب کا تحفہ میسر آتا ہے۔ ان سب سے عہدہ براں ہونے کے بعد مرتب کے حصے میں طمانیت کا احساس تو آتا ہی ہے۔ محنت ٹھکانے لگتی ہے، محققین کو آسانی رہتی ہے، تحریروں کی تلاش میں در در بھٹکنا نہیں پڑتا۔
کتاب کا سرورق بھی منسلک ہے اور فہرست مضامین بھی، اسے تو آپ یقینا دیکھیں گے مگر گزشتہ کل یعنی 29 مارچ 2015 کی صبح جب عقیل صاحب نے راقم کو کتاب کا نسخہ "پہلا نسخہ" لکھ کر دیا تو جی باغ باغ ہوا۔ دوسرا نسخہ بھی سید معراج جامی صاحب کے لیے گویا پہلا ہی تو تھا۔ "سردار جعفری-شخصیت اور فن" کے حصول کے لیے ہم پرانی کتابوں کے اتوار بازار سے کراچی کی معروف فوڈ اسٹریٹ برنس روڈ کا رخ پہلے ہی کرچکے تھے جہاں لذت کام و دہن کا پورا پورا انتظام تھا۔ انگریزی محاورے کے مصداق ہم نے اس کتاب کا دیدار
over a cup of tea
کیا تھا۔
پاکستان ہو یا بھارت، اب ترقی پسندوں کا تذکرہ صرف
over a cup of tea
ہی ہوتا ہے۔
مگر آگے بڑھنے سے قبل جامی صاحب کے تاثرات بھی ملاحظہ کیجیے:
"آج جب میں اور راشد ریگل کے اردو بازار گئے تو تھوڑی دیر بعد یار طرح دار عقیل کا فون آیا کہ آپ لوگ ریگل پہنچ گئے ہیں- جواب اثبات میں سن کر بولے میری نئی کتاب "علی سردار جعفری (شخصیت اور فن ) کل ہی پرنٹر سے آئی ہے اور میں آپ دونوں کے لیے نسخے لے کر آ رہا ہوں- ایسی خبر بلکہ خوش خبری اللہ ہمیں روز سنائے - ہم دونوں نے نیایت اضطراب سے کہا بسر و چشم - تھوڑی دیر بعد عقیل
آگئے اور پھر ہم تینوں برنس روڈ کے ایک ہوٹل میں گرما گرم چائے کے ہمراہ آمیٹ پراٹھہ کھا رہے تھے اور کتاب کو نہایت دلچسپی اور خوش گوار حیرت سے دیکھ رہے تھے - علی سردار جعفری پر یہ ایک مکمل حوالی جاتی کتاب ہے - عقیل کے جمالیاتی ذوق کی بھرپور ترجمانی اس کتاب سے ہو رہی تھی - اس کا سرورق ، اس کی ترتیب اور تدوین آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی- سرورق پر علی سردار جعفری کی تصویر دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ یہ تصویر جعفری صاحب نے خاص اس کتاب کے لیے کھنچوائی ہے - کتاب کا سائز رسالے کا ہے ، کتابت مشینی ہے مگر خوبصورت انداز میں ، طباعت نفیس ہے - غرض ہر لحاظ سے کتاب جعفری کے حسن ذوق کی ترجمانی کر رہی تھی- میرا اسکینر اس وقت کام نہیں کر رہا ہے ورنہ کتاب کا پورا عکس دکھاتا- اس کتاب کا بھرپور حسن راشد اشرف دکھائیں گے - اس کتاب پر بھی عقیل نے حسب عادت بہت محنت کی ہے - علی سردار جعفری کے خاندان سے روابط کرنے میں ، جگہ جگہ سے مضامین حاصل کرنے میں کتنی دقت اور مشقت اٹھانی پڑی ہے اس کو ایک محقق اور مولف ہی سمجھ سکتا ہے-"
------xx------
عقیل عباس جعفری نے جب سے ہوش سنبھالا، گھر میں علی سردار جعفری کا ذکر سنا، اور ایسا کیوں نہ ہوتا، آخر سردار صاحب سے ان کی رشتہ داری بھی تو ہے۔ پھر بقول ان کے یہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر سردار جعفری پر لکھی تحریروں کو پڑھا کیے۔ ایک زمانہ علی سردار جعفری کا اسیر تھا پھر ایسے شخص کو دیکھنا، اس سے ملنا کیا کم تھا کہ قدرت نے ایک مرتبہ یہ موقع بھی فراہم کیا کہ عقیل جعفری نے سردار جعفری کے ساتھ کراچی میں مشاعرہ بھی پڑھا۔
"علی سردار جعفری-شخصیت اور فن" کو 2013 میں سردار جعفری کے صد سالہ جشن ولادت پر شائع ہونا تھا مگر یہ منصوبہ بوجوہ تاخیر کا شکار ہوتا چلا گیا۔ "اوور اے کپ آف ٹی" یہ قصے بھی چھیڑے گئے اور عقیل عباس نے دل کے کچھ پھپھولے بھی پھوڑے مگر چونکہ ان میں کچھ "بے پردہ نشینوں" کے بھی نام آتے ہیں لہذا اس قضیے کو یا تو کسی اور موقع کے لیے اٹھا رکھتے ہیں یا پھر آپ خود ہی عقیل صاحب سے دریافت کرلیجیے گا۔
سچ تو یہ ہے کہ "علی سردار جعفری -شخصیت اور فن" لائق مطالعہ بھی ہے اور لائق محبت بھی۔ سردار جعفری کی مختصر آپ بیتی سے یہ کتاب شروع ہوتی ہے مگر اس سے قبل سردار اور بیگم سردار کی ایک خوب صورت تصویر دیکھ کر جی کھل اٹھتا ہے جس کا عنوان ہے:
ہر عاشق ہے سردار یہاں
ہر معشوق سلطانہ ہے
پہلا باب ہے "زندگی نامہ" جس کے تمام ہی مضامین اہم ہیں مگر سردار جعفری کی بہن ستارہ جعفری کا تحریر کردہ خاکہ تو لاجواب ہے۔ سردار جعفری کو دنیا ایک ایسے شخص کی حیثیت سے جانتی ہے جس نے تمام زندگی اپنے نظریات پر کاربند رہ کر اور اس کے پرچار میں گزاری مگر مذکورہ خاکے میں ہمیں ان کی نجی زندگی کے کئی دلنشیں پہلو بھی نظر آتے ہیں۔ وہ پہلو جن کو گھر کا ایک فرد ہی بیان کرسکتا ہے۔ ان کی دوسری بہن رباب جعفری کا خاکہ "میرے بھائی" بھی ایک اہم اور دل چسپ تحریر ہے۔
"زندگی نامہ" میں ڈاکٹر قمر رئیس، انور جعفری، خواجہ تصور علی حیدر اور عشرت آفرین کے مضامین و خاکے بھی لائق مطالعہ ہیں جبکہ اسی حصے میں عقیل عباس جعفری نے سردار جعفری کے سوانحی اشارے کے علاوہ دکن کی شاہانہ مریم شان کی اہم کتاب سے سردار جعفری پر ہندوستان کی مختلف جامعات میں ہونے والے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالوں کی تفصٰیل کو یک جا کرکے نہایت جامع کام کیا ہے۔
حصہ دوم "خاکے اور مضامین" میں جن مشاہیر کی تحریریں ہیں ان میں شامل ہیں: سبط حسن، سجاد ظہیر، بیدار بخت، شوکت کیفی، ساجد رشید، عبداللہ ملک، باقر مہدی، حمید اختر، صدیق الرحمن قدوائی، مظہر امام، گوپی چند نارنگ، یوسف ناظم اور اٹل بہاری واجپائی۔ کہنے کو تو یہ تمام تحریریں ہی رنگا رنگ ہیں اور سردار جعفری کی زندگی کے گوشوں کو بے نقاب کرتی ہیں مگر ان میں کیفی اعظمی کی اہلیہ شوکت کیفی کا لکھا خاکہ مزے دار ہے۔ پر لطف واقعات سے مزین یہ تحریر بلاشبہ ایک یادگار تحریر کہلائے جانے کی حق دار ہے۔ واضح رہے کہ شوکت کیفی اداکارہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کہنہ مشق ادیبہ بھی ہیں جو اپنی خودنوشت سوانح عمری کے سبب ادب میں بھی ایک مقام رکھتی ہیں۔
حصہ سوم کا نام یاروں کے روبرو ہے جس میں سردار جعفری کے انٹرویو شامل ہیں۔
حصہ چہارم "علی سردار جعفری کی منتخب تحریریں" میں مرتب نے سردار جعفری کے دیگر مشاہیر ادب پر لکھے چند اہم مضامین کو یک جا کیا ہے۔
سردار جعفری کی نظریاتی تحریروں پر مشتمل اگلے حصے کا نام "شاعر سردار جعفری" ہے جبکہ "انتخاب شاعری" کے تحت سردار جعفری کا کلام شامل کیا گیا ہے۔
کتاب کے بالترتیب ساتویں اور آٹھویں حصوں کے عنوان ہیں: " سردار جعفری کا فن" اور "رثائی ادب اور سردار جعفری"۔ اول الذکر میں سردار جعفری کے ہم عصروں کے مضامین شامل ہیں۔
کتاب کا آخری باب "گوشہ سلطانہ جعفری" ہے جس میں اول اول سلطانہ جعفری پر بمبئی فلمی صنعت کے معروف کہانی نویس جاوید صدیقی کی حالیہ دلچسپ کتاب روشن دان سے سلطانہ جعفری کا خاکہ شامل کیا گیا ہے جبکہ اس میں چند دیگر لکھنے والوں کی تحریریں شامل ہیں۔
------xx--------
اب کچھ بیان کتاب کی اشاعتی تفصیلات کا:۔
سچ پوچھیے تو "علی سردار جعفری -شخصیت اور فن" کی طباعت، اس کا سرورق اور سب سے بڑھ کر اس کا زردی مائل بہترین، پھسلواں آفسٹ کاغذ دیکھ کر بے اختیار جی چاہتا ہے کہ اسے "ہر قیمت پر" حاصل کرلیا جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ "ہر قیمت" آخر ہے کتنی۔ تو عرض یہ ہے کہ کتاب کے معیار کو دیکھتے ہوئے 1200 روپے ادا کرنا کچھ ایسا کھلتا بھی نہیں۔ آخر ہم دیگر مکروہات پر بھی تو بے دریغ خرچ کرتے ہی ہیں تو کیوں نا ایک عمدہ و دل چسپ کتاب کی خریداری پر کچھ رقم صرف کی جائے۔
کتاب بڑے سائز میں شائع ہوئی ہے اور تعداد اشاعت صرف دو سو ہے۔ اس کے پرنٹر کراچی کے فضلی سنز ہیں جبکہ اسے مرتب نے اپنے ادارے ورثہ پبلی کیشنز سے شائع کیا ہے۔ جلد ہی یہ فضلی سنز اردو بازار کراچی اور کتاب سرائے لاہور پر دستیاب ہوگی۔ جبکہ ہندوستان سے بھی اس کی اشاعت متوقع ہے۔
جبکہ عقیل عباس جعفری صاحب کا برقی پتہ یہ ہے:
aqeelabbasjafri@gmail.com------xx----------
یہاں مشفق خواجہ مرحوم یاد آرہے ہیں۔ ایک "جان لیوا" کتاب کو دیکھ کر بے اختیار کہہ اٹھے تھے کہ سو گرام کے کاغذ پر دس گرام کی بات کی گئی ہے۔
اتفاق دیکھیے کہ "علی سردار جعفری -شخصیت اور فن" کا کاغذ سو گرام کے آس پاس ہی رہا ہوگا مگر یقین رکھیے کہ اس پر ثبت باتیں چار سو گرام سے کم نہیں۔
آخری تدوین: