علی سرمد کی غزل کا ترجمہ کرنے کی ایک کوشش از محمد خلیل الرحمٰن

فاخر رضا

محفلین
بہت خوب خلیل بھائی ماشاءاللہ
میں نے اس نظم کو بطور ترجمہ نہیں پڑھا تھا اور نہ ضرورت محسوس کی
 
آخری تدوین:
مشفقی خلیل بھائی !

میں سرائیکی سے نابلد ہوں لیکن چونکہ یہ کچھ خاص مشکل زبان نہیں چنانچہ اندازہ ہورہا ہے کہ نظم میں شاعر کیا کہنا چاہ رہا ہے -شعر کا ترجمہ ، شعر ہی کی صورت میں کماحقہ کرنا ،جوئے شیر لانا ہے- میرے نزدیک آپ کی نظم اصل سے خاصی دور رہ گئی ہے -کچھ تو زبان و بیان کے مسائل کی وجہ سے -لگتا ہے آپ بھی سرائیکی سے کچھ خاص واقف نہیں لہٰذا ہوبہو ترجمہ کرنے کی کوشش بار آور ثابت نہیں ہو پائی -مَثَلاً <میڈی جان چھڈن دا کِی گھِنسو ؟> کا ترجمہ <مری جاں بخشو گے، کیا لوگے>کر کے آپ نے ایک جملے کو دو جملوں میں توڑ دیا-جس سے روانی و مفہوم دونوں میں حرج ہوا اور اس قبیل کا ترجمہ اپ نے ہر مصرع ثانی میں کیا لہٰذا ایک تیسری چیز بھی مجروح ہوئی جسے کہتے ہیں نظم کا آہنگ -پھر ہر زبان کا روز مرّہ و محاورہ الگ ہوتا ہے اس لیے ہوبہو شعری ترجمے کے مقابلے میں مفہوم ادا کر دینا بہتر آپشن ہوتا ہے -مَثَلاً <مرے دِل کے مرشد، ڈھول پیا!--مری بانہہ پکڑو گے، کیا لو گے> سرائیکی کا ڈھول جدا ہے اردو کا ڈھول الگ -پھر <بانہہ پکڑنا> ایں چہ چیز است ؟:)

سرائیکی نظم شاعر کی دلی کیفیت کی ترجمان ہے اور یہ کیفیت نظم کے آہنگ کی صورت میں جھلکتی ہے جسے زبان نہ جانتے ہوئے بھی محسوس کیا جا سکتا ہے -علی سرمد کی پوری نظم میں ایک اضطراری ،دردانگیز و والہانہ کیفیت ہے جبکہ آپ کی نظم کا آہنگ بہت دھیما سا ہے -یوں لگ رہا ہے بھابھی جی سے ارشاد فرما رہے ہوں ،امتیاز اسٹور جا رہا ہوں، کیا کیا چاہیے ؟ :D
محبت ہے آپ کی، یاسر شاہ بھائی کہ اتنی اپنائیت کے ساتھ آپ نے تنقید کی۔ ہم بھی مطمئین نہیں تھے۔ اپنے چھوٹے بھائی @محمدحفیظ الرحمٰن کے بقول جب بھی ہم کچھ لکھ لیتے ہیں، کاتا اور لے بھاگی کے مصداق اسے فوراً محفل پر پیش کردیتے ہیں۔
 

یاسر شاہ

محفلین
محبت ہے آپ کی، یاسر شاہ بھائی کہ اتنی اپنائیت کے ساتھ آپ نے تنقید کی۔ ہم بھی مطمئین نہیں تھے۔ اپنے چھوٹے بھائی @محمدحفیظ الرحمٰن کے بقول جب بھی ہم کچھ لکھ لیتے ہیں، کاتا اور لے بھاگی کے مصداق اسے فوراً محفل پر پیش کردیتے ہیں۔

جزا ک الله خلیل بھائی آپ نے مجھ دیوانے کی بڑ پہ توجہ دی -:)
ایک اور مشوره یہ ہے کہ آپ انگریزی نظموں کا ترجمہ کریں -خصوصا نیچر پہ جو لکھی ہیں ،ولیم ورڈزورتھ وغیرہ نے -مجھے لگتا ہے آج کل جو آپ ترجمے لکھ رہے ہیں ان کے مقابلے میں بہت بہتر ترجمے آپ انگریزی نظموں کے کر سکتے ہیں کیونکہ آپ کی اردو اور انگلش پہ اچھی گرفت ہے اور پھر اردو ادب میں نیچر پہ بہت کم لکھا گیا ہے لہٰذا یہ اردو کی خدمت بھی ہوگی -

باقی خطوط نگاری اردو ادب کی علیحدہ سے ایک صنف ہے جس کی مقبولیت کا راز ہی خط میں بے تکلّفانہ گفتگو ہے -ایسے میں ایک ادبی صنف کو دوسری ادبی صنف میں تبدیل کرنا اور وہ بھی وزن کے تکلّف سے میری نظر میں مفید نہیں -

ایک نظم دیکھیے ،مجھے پسند ہے،آخر کی سطریں تو غضب کی ہیں - شاید اردو منظوم مفہوم کے لیے آپ کی توجہ کھینچ پائے -

Stopping by Woods on a Snowy Evening
BY ROBERT FROST


Whose woods these are I think I know
His house is in the village though
He will not see me stopping here
To watch his woods fill up with snow

My little horse must think it queer
To stop without a farmhouse near
Between the woods and frozen lake
The darkest evening of the year

He gives his harness bells a shake
To ask if there is some mistake
The only other sound’s the sweep
Of easy wind and downy flake

The woods are lovely, dark and deep
But I have promises to keep
And miles to go before I sleep
And miles to go before I sleep
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
پھر <بانہہ پکڑنا> ایں چہ چیز است ؟

یاسر بھائی ، بانہہ پکڑنا ایک عام اور مستند محاورہ ہے بمعنی دستگیری کرنا ، اپنا بنانا ، سہارا دینا ۔ یہ محاورہ اردو کی تمام دستیاب لغات میں موجود ہے ۔ دیکھ لیجئے ۔ (انہی معنوں میں ہاتھ پکڑنا بھی مستعمل ہے)۔ اصل سرائیکی یا پنجابی کلام میں بھی ہتھ پھڑن کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور جہاں تک میرا علم ہے ان زبانوں میں بھی اس کا وہی مطلب ہے جو اردو میں ہے ۔
 

یاسر شاہ

محفلین
جی ظہیر بھائی بجا فرمایا -اس اصطلاح کو گیتوں میں رائج دیکھا -جیسے موری بھیاں ،میری بانھیں تھام لو وغیرہ وغیرہ یہاں کھٹکی اس لیے فارسی بگھاری - میری ہر بات اتنی سنجیدگی سے نہ لیا کریں -:)
 

عاطف ملک

محفلین
چھوٹا منہ بڑی بات، لیکن سرائیکی ہونے کے ناطے گفتگو کرنے کی ہمت کر رہا ہوں۔
خلیل سر نے ترجمہ درست کیا ہے لیکن یاسر شاہ والی بات بھی کچھ کچھ ٹھیک ہے کہ سرائیکی زبان میں نظم کا جو ماحول ہے وہ اس ترجمے میں محسوس نہیں ہو رہا۔بہرحال اس میں ترجمے کا کوئی قصور نہیں ہے۔ہر زبان کا الگ ماحول ہوتا ہے۔
کیا علی کی اوریجنل غزل کے قوافی درست ہیں؟
قوافی تو غالباً درست ہیں۔لیکن
سرکار کرم کرن دا کی گھنسو
اس مصرعے میں مسئلہ لگ رہا ہے، یا شاید نقل کرنے والے سے چُوک ہوئی ہے۔
 
Top