مشفقی خلیل بھائی !
میں سرائیکی سے نابلد ہوں لیکن چونکہ یہ کچھ خاص مشکل زبان نہیں چنانچہ اندازہ ہورہا ہے کہ نظم میں شاعر کیا کہنا چاہ رہا ہے -شعر کا ترجمہ ، شعر ہی کی صورت میں کماحقہ کرنا ،جوئے شیر لانا ہے- میرے نزدیک آپ کی نظم اصل سے خاصی دور رہ گئی ہے -کچھ تو زبان و بیان کے مسائل کی وجہ سے -لگتا ہے آپ بھی سرائیکی سے کچھ خاص واقف نہیں لہٰذا ہوبہو ترجمہ کرنے کی کوشش بار آور ثابت نہیں ہو پائی -مَثَلاً <میڈی جان چھڈن دا کِی گھِنسو ؟> کا ترجمہ <مری جاں بخشو گے، کیا لوگے>کر کے آپ نے ایک جملے کو دو جملوں میں توڑ دیا-جس سے روانی و مفہوم دونوں میں حرج ہوا اور اس قبیل کا ترجمہ اپ نے ہر مصرع ثانی میں کیا لہٰذا ایک تیسری چیز بھی مجروح ہوئی جسے کہتے ہیں نظم کا آہنگ -پھر ہر زبان کا روز مرّہ و محاورہ الگ ہوتا ہے اس لیے ہوبہو شعری ترجمے کے مقابلے میں مفہوم ادا کر دینا بہتر آپشن ہوتا ہے -مَثَلاً <مرے دِل کے مرشد، ڈھول پیا!--مری بانہہ پکڑو گے، کیا لو گے> سرائیکی کا ڈھول جدا ہے اردو کا ڈھول الگ -پھر <بانہہ پکڑنا> ایں چہ چیز است ؟
سرائیکی نظم شاعر کی دلی کیفیت کی ترجمان ہے اور یہ کیفیت نظم کے آہنگ کی صورت میں جھلکتی ہے جسے زبان نہ جانتے ہوئے بھی محسوس کیا جا سکتا ہے -علی سرمد کی پوری نظم میں ایک اضطراری ،دردانگیز و والہانہ کیفیت ہے جبکہ آپ کی نظم کا آہنگ بہت دھیما سا ہے -یوں لگ رہا ہے بھابھی جی سے ارشاد فرما رہے ہوں ،امتیاز اسٹور جا رہا ہوں، کیا کیا چاہیے ؟