جاویداقبال
محفلین
’’توکیایہ سچ ہے؟‘‘وہ بولے۔
’’ہاں جی اوریہی میری بے وقوفی کی دلیل ہے۔‘‘
راغب صاحب بوکھلاگئے۔
اگلے روزراغب نے معروف صاحب سے احکامات کی وضاحت کی درخواست کرتے ہوئے ٹیلی فون پرانہیں بتایاکہ الیاس آصفی کے بیان کے مطابق انہیں اس بات کاحق دیاگیاتھاکہ اس امرکافیصلہ کریں کہ آیاارم پورہ کے سکول میں الیاس کام کرتے ہیں یانہیں۔
معروف فوراً بھانپ گئے کہ وہ بات جوانہیں کہنی چاہیے تھی۔ ایلی نے ازخودراغب سے کہہ دی ہے۔اس بات پروہ بے حدمسرورہوئے اوربولے۔’’یہ ٹھیک ہے راغب لیکن ہمارامشورہ ہے کہ آپ الیاس کواپنے پاس رکھنے پررضامندی دے دیںوہ ایک قابل شخص ہے۔
آپ کوکام سے تعلق ہے ناعورتوں کے اغواسے تونہیں۔‘‘
نتیجہ یہ ہواکے ایلی نے ارم پورہ میں کام شروع کردیا۔
جھوٹ سچ
ایلی نے زندگی میں نئی بات سیکھی تھی۔وہ سچ کے ذریعے جھوٹ بولتاتھا۔اس نے تجربہ کے زوراس حقیت کوپالیاتھاکہ سچی بات کہہ دی جائے توسننے والاحیران رہ جاتاہے۔اس کے دل میں نفرت کی بجائی دلچسپی اورہمدردی پیداہوتی ہے اورکبھی کبھاراحترام بھی۔اس کے علاوہ کہنے والے کے دل بوجھ نہیں رہتا۔اوربات کہہ دی جائے تووہ پھوڑانہیں بنتی۔اس میں پیپ نہیں پڑتی۔اکثراوقات توایساہوتاکہ سچی بات کواعلانیہ تسلیم کرلیاجائے تولوگ سمجھتے ہیں کہ مذاق کررہاہے انہیں یقین ہی نہیں آتا۔شایدایلی نے یہ انوکھاطریقہ شہزادسے سیکھاہو۔
بہرصورت جب اساتذہ اس سے ملے تواخباری خبروں کی بات چھڑگئی۔ایک صاحب اخلاقاًبولے۔’’اجی ان اخباروالوں کاکیاہے۔جوجی چاہتاہے اناپ شناپ لکھ دیتے ہیں۔سچ تھوڑے ہی لکھتے ہیں۔’’کیوں الیاس صاحب۔‘‘
’’اپناتجربہ تومختلف ہے۔‘‘ایلی نے کہا۔
’’کیامطلب ؟‘‘ایک اورصاحب بولے۔
’’مطلب یہ ہے کہ میرے متعلق آج تک صرف ایک خبرچھاپی ہے انہوںنے اوروہ سولہ
آنے سچی ہے۔‘‘
’’ارے ۔‘‘وہ چلائے ’’کیاواقعی؟‘‘
’’توکیاجوخبریں آپ کے متعلق چھپی تھیں وہ درست ہیں۔‘‘ایک صاحب نے پوچھا۔
’’بالکل۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔
وہ حیرت سے ایلی کی طرف دیکھ رہے تھے انہیں سمجھ نہیں آتاتھاکہ اب کیاکہیں دوایک مسکرارہے تھے۔دو ایک تحسین بھری نگاہیں سے ایلی کی طرف دیکھ رہے تھے۔
’’توآپ نے چھ بچوں کی ماں کواغواکرلیا۔‘‘ایک نے پوچھا۔
’’جی نہیں۔‘‘وہ بولا۔
’’ہائیں۔ابھی توآپ کہہ رہے تھے۔۔‘‘
’’خبرتوسچی ہے مگراندازبیان میں کچھ غلطی رہ گئی ہے۔‘‘ایلی نے کہا۔
’’کیا؟‘‘
’’یہ کہ چھ بچوں کی ماں نے مجھے اغواکرلیاہے۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔
’’ہی ہی ہی ہی۔۔۔‘‘ایک قہقہہ بلندہوا۔
ایلی اچھی طرح جانتاتھاکہ اگرکسی بات پرلوگ قہقہہ مارکرہنس لیں توبات اپنی سنگینی کھودیتی ہے۔اس لئے اس نے اس موضوی پرایک لیکچردیناشروع کردیاکہنے لگا’’بھائیومردوں کی قوم پرعورتوں کی قوم ہمیشہ ظلم کرتی آئی ہے۔وہ ہمیشہ مردوں کواغواکرتی رہیں اورنام بدنام ہوتاہے۔مردکومجرم گرداناجاتارہا۔مردجیل جارہامرد‘قیدکاٹتارہامرد۔معلوم ہوتاہے۔تعزیرات ہندکی اغواء کی دفعہ لکھتے وقت مصنف کی بیوی بھی پاس بیٹھی تھی۔اس ظالم نے ساری دفعہ ہی غلط لکھوادی۔‘‘
مرداورعورت کی بات کرتے وقت ایلی یوں محسوس کیاکرتاتھا۔جیسے بطخ خشکی سے اترکرپانی میں جاپہنچی ہو۔
پہلے روزہی جملہ اساتذہ کوایلی سے ہمدردی پیداہوگئی۔اوروہ اس کے دوست بن گئے۔جب بھی تفریح کی گھنٹی بجتی اورایلی کے لے کرکسی مقام پرجابیٹھتے اوراسے چھیڑکراس کی باتیں سنتے۔لڑکے دوردورسے اسے دیکھتے اورمسکراتے اورہیڈماسٹراسے معروف آدمی سمجھ کراس سے اخلاق سے پیش آتے۔
آٹھ بچے
سکول میں ہیروبن کرگھومنے کے بعدوہ سائیکل اٹھاکرچوروں کی طرح گھرکی طرف چل پڑتا۔جان بوجھ کرلمبے راستے سے گھرجاتاتاکہ کوئی یہ نہ سمجھ لے کروہ رہتاکہاں اورکوئی اس کے گھرکاپتہ پوچھتاتوصاف کہہ دیتا’’بھائی گھرکاپتہ نہ پوچھواورکوئی خدمت بتاؤجواغواکرتے ہیں وہ گھرکاپتہ صیغہ رازمیں رکھتے ہیں۔‘‘
گھرپہنچتاتوگھرکے ہنگامے میں کھوجاتا۔
گھرمیں وہ آٹھ بچے تھے۔کبھی کسی نے محسوس نہیں کیاتھاکہ گھرمیں کوئی بڑابھی ہے۔بڑاگھرمیں کوئی تھاہی نہیں۔وہ مان کیابڑی بن سکتی ہے۔جوچھ بچے ساتھ لے کرگھرسے بھاگ آئی ہو۔وہ مردکیابڑابن سکتاہے ۔جوچھ بچوں کی ماں کواغواکرلایاہو۔ان حالات میں جوتھوڑی بہت بزرگی اوربڑائی شہزاداورایلی میں تھی ۔وہ بھی خارج ہوچکی تھی۔کس منہ سے وہ عقل و ادراک اخلاق یاسنجیدگی کاڈھونگ رچاتے اورپھران بچیوں کے روبروجوجوان تھیں۔صبیحہ تیرہ سال کی تھی۔نفیسہ بارہ کی اورریحانہ نوسال کی البتہ ایک بات ضرورتھی۔شہزاداورایلی نے کبھی بڑائی ہاتھ سے جانے پرافسوس نہ کیاتھا۔
اگرشہزادکبھی کبھارلڑکیوں کے شورسے تنگ آجاتی اورچلاکرکہتی’’اے لڑکیوسنتی ہو۔‘‘
’’امی۔‘‘نفیسہ ہنستی’’ذرازروسے بولوکچھ سنائی بھی دے۔‘‘
’’کانوں میں تیل ڈال ہواہے کیا؟‘‘
’’تیل تونہیں۔‘‘صبیحہ کہتی۔’’کانوں پرصرف بال ڈالے ہوئے ہیں۔‘‘
’’تمہارادماغ خراب ہوگیاہے۔‘‘
’’دل تواچھاہے ناامی۔‘‘وہ قہقہہ مارکرہنستیں۔
پھروہ سب جھرمٹ ڈال کرامی کے گردآکھڑی ہوتیں اورناچتیں گاتیں ہنستیں۔ایلی کہتا۔
’’شورنہ مچاؤ۔اگرکسی کوہمارے گھرکاپتہ چل گیاتو۔‘‘
’’توکیا۔‘‘وہ جواب دیتیں۔’’یہی ناکہ وہ چٹھی لکھ دے گاہمیں اورچٹھی رساں چٹھی لے آئے گااورہم پڑھ لیں گے۔‘‘
’’اوراگرکسی نے آکرتمہیں چوٹی سے پکڑلیاتو۔‘‘ایلی چلاتا۔
’’توچوٹی کاٹ ڈالیں گے۔‘‘وہ قہقہہ مارکرہنس پڑتیں۔
ان کی زندگی میں ایک مشکل تھی۔جوروزبروزبڑھتی جارہی تھیں۔
ایلی کی تنخواہ صرف سنتالیس روپے تھی۔ایلی اس زمانے میں جوان ہواتھا۔جب پہلی عالمی جنگ کے اثرات رونماہوئے تھے اوردنیامیں مالی بحران کادوردورہ تھا۔بنیادی طورپرایک ٹرینڈگریجویٹ کاگریڈاسی روپے سے شروع ہوتاتھا۔لیکن مالی بحران کی وجہ سے گورنمنٹ کے ملازمین کی تنخواہوں میں تخفیف کردی گئی تھی اوراسی (۸۰)کی جگہ اب پینسٹھ روپے کاگریڈ مقررکردیاگیاتھا۔لیکن پینسٹھ روپے کے گریڈ پرملازم رکھاجائے اورپینسٹھ روپے ایم اے بی ٹی کودیئے جائے۔اس لئے ایلی کی تنخواہ پینتالیس روپے سے شروع ہوئی تھی۔اوراب وہ سنتالیس روپے پارہاتھا۔سنتالیس روپے اتنے بڑے کنبے کے لئے بے حدناکافی تھے۔خصوصاًایک ایساکنبہ جومالی مشکلات کے تصورسے ہی بیگانہ تھا۔
ان کے پاس جوآثاثہ تھاوہ ختم ہوچکاتھااوراب وہ شدت سے مالی مشکلات کومحسوس کرنے لگے تھے۔اس امرکوصرف ایلی ہی محسوس کرتاتھا۔لڑکیاںاس بات سے بے نیازواقع ہوئی تھیں۔روایتی ملکہ کی طرح سوچتی تھیں کہ غریبوں کواگرکھانے کوروٹی نہیں ملتی تووہ کیک پیسٹری کیوں نہیں کھاتے۔
بہرحال یہ امرمسلمہ تھاکہ اگرمالی مشکلات کااحساس ان کے گھرمیں صدردروازہ سے داخل نہ ہواتھا۔توعقبی دروازے سے ضرورداخل ہورہاتھا۔لاشعوری طورپرجانے بغیران کی زندگی میں ان جانی تلخی بڑھنے لگی تھی۔
’’ڈول ہان‘‘
لاہورمیں صرف ایک آدمی تھا۔جو ان کے مکان سے واقف تھا۔وہ تھامحمودکبھی کبھارمحمودآنکلتااورایلی کومیم کی باتیں سناتااورکالج کے قصے بیان کرتا۔محمودسترھواں لے پالک ہونے کے باوجودگھرمیں یوں رہتاتھا۔جیسے الف لیلیٰ میں شہزادیوں کے جھرمٹ میں سلطان رہتے ۔ان کے تالی بجانے پرحبشی جلادہاتھ میں تلواراٹھائے حاضرہوجاتا۔لیکن کبھی کبھارایلی کوشک پڑتاکہ محمودمیں بھی ایک ایلی چھپاہواہے۔جومامتابھری گودمیں لیٹنے کے لئے بلکتاہے۔جسے یہ آرزوہے کوئی اس کی دیکھ بھال کرے۔اس کی ناک پونچھے منہ دھوئے اورپھرپیارسے جھڑک کر
سکول بھیج دے ایلی جذباتی طورپرڈراہوابچہ تھااورذہنی طورپرایک نڈرمفکر۔
ایک روزوہ سب بیٹھے تھے تومحمودآگیا۔اس کے ساتھ ساری میں لپٹی ہوئی ایک گوری چٹی عورت تھی۔جسے اس نے اندربھجوادیا۔
’’ارے یہ کون ہے۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’یہ بھی ہے۔‘‘محمودبولا۔
’’کوئی نئی پھنسی ہے؟‘‘
پھنستی ہی رہتی ہیں۔اب ایک کام کرو۔‘‘محمودبولا۔
’’کیا؟‘‘
’’ایک مولوی بلوادو۔‘‘
’’بھئی نکاح پڑھواناہے۔‘‘
’’اوروہ میم کیاہوئی؟‘‘
ایلی ادھرادھربھاگ دوڑکرایک مولوی لے آیا۔
مولوی صاحب پہلے تومحمودکوکلمے پڑھاتے رہے۔پھرجب ایجاب وقبول کاوقت آیا۔تومولوی صاحب نے کہا۔’’کیاآپ کومحمودولداحمدسکنہ رام پورکی زوجیت میں آناقبول ہے؟‘‘
وہ خاتون بولی’’ہام کومنجوڑہے۔‘‘
اس پرلڑکیاں ہنسنے لگیں۔
ایلی نے حیرت سے خاتون کی طرف دیکھا۔’’ارے آپ تومیم ہیں۔‘‘وہ بولا
میم نے کہا’’ہام’’ڈول ہان‘‘ہے میم ناہیں۔‘‘
مولوی کی جانے کے بعدایلی کے گھرمیں ہنگامہ مچ گیا۔لڑکیاں میم کے سہاگ گانے لگیں۔اسے چھیڑنے لگیں۔میم ہنسے جارہی تھی۔محمودمسکرارہاتھا۔شہزادکی آنکھوں میں مسرت کی پھوہارپڑرہی تھی۔
محموداورمیم کے نکاح کے چندروزبعدمحمودبھاگابھاگاایلی کے پاس آیا۔’’ایلی۔‘‘وہ بولا’’وہ وہ نہیں آئی!‘‘
’’کون نہیں آئی۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’آج ویک انڈہے۔‘‘وہ بولا’’ہرویک انڈپروہ آیاکرتی ہے۔بلاناغہ لیکن اب کی بارنہیںآئی۔‘‘
ایلی نے قہقہہ لگا’’تم پاگل ہو۔‘‘وہ بولا’’خواہ مخواہ پریشان ہورہے ہوجیسے وہ بچی ہو۔‘‘
’’تم نہیں جاتنے ۔‘‘وہ ہنسنے لگا۔’’واقعی وہ بچی ہے۔‘‘
’’بچی ہے۔‘‘ایلی ہنسا۔
’’ہاں۔‘‘محمودنے کہایہ سب بچیاں ہوتی ہیں۔ان کی عمرنہ دیکھوشکل نہ دیکھوصورت نہ دیکھو۔یہ سب بچیاں ہوتی ہیں اورجبھی تک ٹھیک رہتی ہیں جب تک ان پربچی حاوی رہے۔‘‘
’’لیکن گھبرانے کیابات ہے۔‘‘ایلی بولا’’گھبرانے کی بات تونہیں۔‘‘محمودنے کہا’’وہ آئی جونہیں۔‘‘
’’مجھے سمجھ نہیں آئی بات۔‘‘
ڈارٹگنیں
’’مجھے بھی نہیں آئی نا!‘‘محمودنے کہا’’میرادل کہہ رہاہے کہ معاملہ گڑبڑہے۔‘‘
دوروزمحمودمیم کاانتظارکرتارہالیکن وہ نہ آئی۔وہ پھرنئے شہرچلاگیا۔وہاںجاکراپناآپ ظاہرکئے بغیراس نے حالات کاجائزہ لیامعلوم ہواکہ وہاں موجودنہیں۔اس پروہ گھبراگیا۔مزیدپوچھ گچھ پراسے معلوم ہواکہ ایک صاحب اسے ساتھ لے گئے ہیں۔اس کے علاوہ اسے کچھ علم نہ ہوسکا۔
لاہورواپس آکروہ سیدھاایلی کے پاس آیا۔’’غضب ہوگیا۔‘‘وہ بولا۔’’وہ نئی شہرمیں بھی نہیں ہے۔کہتے ہیں کوئی گوراصاحب اسے آکرلے گیاہے۔‘‘
’’کیازبردستی لے گیاہے۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’بھئی ۔‘‘وہ بولا’’اسے کوئی زبردستی لے جائے تواس کے لئے اس سے بڑھ کررومینس کوئی نہ ہوسکتا۔یہ سبھی ایسی ہوتی ہیں۔پہلے روتی ہیں۔چیختی ہیں چلاتی ہیں پھرغم سے نڈھال ہوکرلے جانے والے سے چمٹ جاتی ہیں۔اللہ اللہ خیرسلا۔‘‘
’’کس کی بات کررہے ہو۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
محمودخاموش رہا۔’’کیامیموں کی بات کررہے ہو۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’اونہوں‘‘وہ بولاعورت ہمیشہ عورت رہتی ہے۔چاہے وہ میم ہودیسی ہویاحبشن ہو۔
کوئی فرق نہیںپڑتا۔‘‘
محمودکی بات صحیح نکلی چندہی دنوں کے بعداسے ایک خط موصول ہواجس میں درج تھا۔
’’مجھے اچھی سے معلوم ہے کہ تم غنڈوں کے ایک گروہ سے تعلق رکھتے ہواورتم نے ایک برٹش نیشنل خاتون کوعرصہ درازسے اغواکررکھاہی اورتم نے اسے زبردستی مسلمان کرنے کی قبیح کوشش کی ہے اوردھوکے سے اس کے ساتھ عقدکیاہے۔حالانہ تعزیرات ہندکے تحت کوئی ہندوستانی کسی برٹش نیشنل خاتون سے شادی نہیں کرسکتا۔جب تک خاص اجازت نامہ حاصل نہ کرے لہٰذاتم اورتمہارے دوست دھوکہ دہی اوراغواء کے مرتکب ہوئے ہواورمیں تمہارے خلاف قانونی چارہ جوئی سے گریزنہیں کروں گااوراگرتم اس خاتون سے دوبارہ ملنے کی سعی کی تواپنے اختیارات کوکام میں لاکرمیں تمہیں کیفرکردارتک پہنچاؤں گا۔
خط کے نیچے لمبے چوڑے دستخط کئے ہوئے تھے۔نیچے لکھاتھاکمشنربیجاپور
’’ارے۔‘‘ایلی چلایا۔’’یہ کوئی کمشنرہے۔‘‘
’’یہی تومصیبت ہے۔‘‘محمودبولا’’وہ اسے اغواکرکے لے گیاہے۔اس کی مدت سے آرزوتھی کہ کوئی اسے زبردستی اغواکرکے لے جائے پھرجب تم ان سب کولے آئے اوراس نے یہ قصہ سناتوگویاجلتی پرتیل پڑگیاوہ بھڑک اٹھی۔اس کی یہ خواہش اوربھی مچلی اوراب‘اب یہ ڈارٹگنیںنہ جانے اسے کہاں سے مل گیاہے۔‘‘
محمودسخت گھبرایاہواتھا۔
محمودکے کہنے پرایلی بیجاپورگیا۔۔تاکہ وہاں سے کوائف حاصل کرے۔پہلے تووہ شہرکاجائزہ لینے میں مصروف رہا۔پھراس نے کمشنرکی کوٹھی کاپتہ لگایااوروہاں پہنچ کرباہرانتظارکرتارہاکہ کب کمشنردفترجائے توکوٹھی کے کسی نوکرسے ملے آخرکمشنرکی کارکوٹھی سے باہرنکلی۔کچھ دیرکے انتظارکے بعدوہ کوٹھی کے آؤٹ ہاؤس کی طرف گیااورچوکیدارسے ملا۔چوکیدارایک بوڑھامسلمان تھا۔ایک دیکھ کرایلی کی امیدبندھ گئی۔اس نے چوکیدارکوپانچ روپے تھمادیئے۔’’بابایہ صاحب کس قسم کاآدمی ہے؟‘‘
’’توبہ ہے‘‘بابانے جواب دیا۔’’یہ صاحب توسمجھ کرلوآفت ہے آفت ۔‘‘
’’کیاسخت مزاج ہے ۔‘‘
’’اونہوں بابایہ توبدہے بد۔سارادن بیٹھ کرشراب پیتاہے۔سارادن۔‘‘
’’کیاعمرہوگی؟‘‘
’’بوڑھاہے۔لیکن سخت زانی ہے اورشرابی بھی۔‘‘
’’ایک بات بتاؤں بابا۔‘‘ایلی نے کہااورپھرقدرے توقف کے بعداس نے چوکیدارسے کہا۔
’’تمہاراصاحب ایک مسلمان عورت کوبھگالایاہے۔نئے شہرسے۔‘‘
’’نہ بابو۔‘‘وہ بولا’’یہاںایسی دیسی عورت کبھی نہیں آئی یہاں تومیمیں آتی ہیں۔جواب بوڑھی ادھیڑسبھی آتی ہیں۔‘‘
’’لیکن بابا۔‘‘ایلی نے کہا’’وہ ہے تومیم مگرمسلمان میم ہے۔‘‘
’’باباقہقہہ مارکرہنسا۔‘‘
’’سچ کہتاہوں بابا۔‘‘ایلی نے کہا۔
’’نہ بھئی۔‘‘وہ بولا’’میم مسلمان نہیں ہوتی۔ان میموں کااسلام سے کیاواسطہ۔‘‘
ایلی نے باباکوسمجھانے کی کوشش کی لیکن اس کے ذہن میں میم کامسلمان ہوناممکن ہی نہ تھا۔اس لئے ایلی کی تجویزناکام ہوگئی۔
’’اچھا۔‘‘وہ بولا’’باباایک کام توکرومجھے اس میم کے سامنے لے چلو۔جواس وقت صاحب کے گھرمیں ہے۔‘‘
’’اونہوں۔‘‘بابانے جواب دیا۔‘‘گھرمیں جانے کی کسی کواجازت نہیں۔‘‘
’’توچلوباہرسے ہی جھانکوں گا۔‘‘
باباکویہ بات بھی منظورنہ تھی۔بولا’’نہ بابووہ دیکھ لے یااسے پتہ چل جائے توکھاجائے گا۔
’’ایساسخت ہے ہو۔‘‘
بہرحال ایلی نے کوٹھی کے باہر دوایک چکرلگائے کوٹھی چاروں طرف سے بندتھی۔اس نے کھڑکیوں کے شیشوں سے جھانکنے کی کوشش کی لیکن اندردبیزپردے لٹک رہے تھے۔
ابھی وہ وہیں کھڑاتھاکہ خانساماں کالڑکاآگیا۔
وہ ایلی کوگھورنے لگا۔
ایلی نے اس سے پوچھا’’کوٹھی میں کوئی ہے کیا؟‘‘
’’نہیں بابو۔‘‘وہ بولا’’صاحب اکیلے ہی رہتے ہیں۔‘‘
’’کوئی مہمان عورت تونہین آئی ہوئی؟‘‘
’’نہیں۔وہ بولا۔
’’جھوٹ نہ بولو۔‘‘ایلی نے کہا۔’’مجھے معلوم ہے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘لڑکے نے اقبال کرتے ہوئے اشارہ کیا۔’’پروہ بندہے۔‘‘
’’بندہے۔‘‘ایلی بولا۔
’’ہاں۔‘‘لڑنے نے ڈرتے ہوئے ادھرادھردیکھ کرکہا’’صاحب تالہ لگاکرجاتاہے۔‘‘
ابھی وہ بات ہی کررہے تھے کہ ایک موٹرکے آنے کی آوازسنائی دی۔وہ سب بھاگ کرآؤٹ ہاؤس کی طرف چلے گئے۔تاکہ صاحب انہیں دیکھ نہ لے۔ایلی نے دورسے چھپ کردیکھا۔ڈارٹگنیں ادھیڑعمرختم کرچکاتھا۔اس کاجسم بھداتھا۔چہرے پرشراب نوشی کے واضح آثارتھے اور اس کے ساتھ ہی جابرانہ رحجانات مترشح ہورہے تھے ۔اس کی شکل وصورت ان فلمی غنڈوں کی سی تھی۔جوہیروئین کواٹھاکرلے آتے ہیںاوراسے قلعہ کے زیرین کمرے مین مقفل کردیتے ہیں۔
محمودنے جب یہ سناتواس نے سرپیٹ لیا۔’’بس سمجھ لوقصہ ختم ہوگیااسے تودیرسے یہ خواہش تھی کہ کوئی ظالم قسم کاجابرآدمی اسے پکڑکرلے جائے اورکسی قلعہ میں بندکردے۔‘‘
محمودکی بات سچ ثابت ہوئی۔میم نے اسے ملنے کی کوئی کوشش نہ کی۔ممکن ہے اسے کوشش کرنے کاموقعہ ہی نہ ملاہو۔وہ لمبی رخصت پررہی اس لئے نئے شہرواپس نہ آئی۔بلکہ وہیں سے ڈارٹگنیں نے اپنے قلم سے درخواست بھیج دی جس میں تحریرتھاکہ مسزفلپ (سابقہ)کوریٹائرکردیاجائے اورجورقوم اسے واجب الاداہیں ان کی تفیصل بھیج دی جائے۔
مسٹرڈراٹگنیں خودبنشن پارہاتھا۔نیتجہ یہ ہواکہ ایک ماہ کے اندراندروہ دونوں ہندوستان چھوڑکرساؤتھ افریقہ چلے گئے اورسترہواں لے پالک لاہورمیںبے بس بیٹھاحالات کامنہ تکتارہا۔
لذت مظلومیت
شایداس لئے کہ وہ اسم باسمےٰ تھایاویسے ہی شریف ایک مظلوم شخص تھا۔اس نے فطرتاً
یاعادتاً اپنی تمام تراہمیت کاانحصاراپنی مظلومیت پراستوارکررکھاتھا۔پہلے وہ انورکے عشق میں سرشارتھا۔اس حدتک سرشارکہ شہزادسی رنگیلی بیوی کے ہوتے ہوئے بھی مظلومیت کی لذت میں کھویارہا۔یہ کہناکہ اسے شہزادسے محبت نہ تھی غلط ہوگا۔اسے واقعی شہزادسے محبت تھی۔اسے شہزادپرنازتھا۔وہ اس کی رنگینی سے کماحقہ‘واقف تھا۔وہ شہزادکے لئے سبھی کچھ کرنے کوتیارتھا۔لیکن مظلومیت کے احساس کوردنہ کرسکتاتھایہ احساس اس کی گھٹی میں پڑاہواتھا۔سال ہاسال کے عشق نے اسے اوربھی اجاگرکردیاتھا۔اب وہ تقریباً اپنی مظلومیت اورنام عشق کاپرچارکرتاتھا۔اسے خیال نہ آیاتھاکہ ایک نگین بیوی کی موجودگی میں کسی اورعورت کے عشق میں آہیں بھرنااچھے نتائج پیدانہیں کرتا۔
شریف کویقین تھاکہ خودشہزاداس کے عشق میں گرفتارہے۔چونکہ اسے تھیلی کے مینڈک کی بات نہ بھولی تھی۔
بہرصورت انورکے عشق کی ناکامی تواس کے لئے ایک رنگین غم تھا۔چونکہ ازلی طورپرشریف ایک سچااورخالص عاشق نہ تھا۔بلکہ ایک سچے عاشق کی طرح ہجرپسندواقع ہواتھا۔انورسے محروم ہوجانے پراسے صدمہ توضرورہوا۔۔۔۔مگروہ صدمہ ایسے ہی تھاجیسے بطخ کے لئے پانی کاطوفان ہوتاہے۔
شہزاداوربچوں کااپنی مرضی سے شریف کے گھرسے نکل آناشریف کے لئے ایک شدیدصدمہ تھا۔ایک ایساصدمہ جس میں رنگینی کاعنصرنہ تھا۔الٹااس میں خفت اوررسوائی تھی۔ایسی رسوائی جوعشق کی رسوائی سے قطعی طورپرمختلف ہوتی ہے۔لہٰذااس پرہسٹیریاکادورہ پڑگیاتھا۔اوراس دورے کے تحت وہ اپنے آپ سے باہرنکل آیاتھا۔اورمحلے میں آکراس نے غیرازمعمول آگ لگادی تھی۔
کچھ دیرکے بعدجب ہسٹیریاکی شدت مدھم پڑگئی تواس نے محسوس کیاکہ اس رویے سے تورسوائی اوربھی بڑھ رہی تھی۔اس کی بنیادی انانے اسے للکارااوروہ چپ چاپ علی پورسے روانہ ہوگیااوراپنی نوکری پرحاضرہوگیا۔
اس صدمہ کی شدت کے ختم ہونے پرشریف نے محسوس کیاکہ وہ میٹھامیٹھادردجوباقی رہ گیاتھا۔اس کے لئے باعث تسکین ہے۔ایک غم خورکوگویاہمیشہ کے لئے غم کی ایک دولت گراں مایہ مل گئی تھی۔
اس دولت کوپاکروہ اپنے پرانے کوئے میں گھس گیااوراس نے اپنی طبعی قنوطیت کالبادہ اوڑھ لیا۔
غم خورکے لئے سب سے بڑی ضرورت ایک ساتھی کی ہوتی ہے جس سے اظہارغم کیاجاسکے اوراپنی محرومیت اورزمانے کے مظالم کارونارویاجاسکے اس لئے شریف نے فیصلہ کرلیاکہ وہ اپنی پرانی زندگی کویکسربھول جائے گااورایک نیاورق الٹے گا۔یہ نیاورق ایک نئی شادی اورنئی بیوی تھی۔لیکن ایسی بات اپنے منہ سے کہہ دینایاشعوری طورپراس پرسوچناایک غم خورکے لئے ممکن نہ تھا۔لہٰذا اس نے جلدہی ایسے حالات پیداکرلئے کہ اس کی ہمشیرہ نے یہی تجویزبھائی کے سامنے پیش کردی اس پروہ حیرت سے بہن کامنہ تکنے لگا’’یہ تم کیاکہہ رہی ہوحمیدی۔‘‘ اس نے ملامت سے بہن کی طرف دیکھااورمجبورہوکربہن کی بات مان لی شادی کے روزوہ بہت رویاجیسے اسے اپنی طبیعت کے خلاف کسی بات پرمجبورکردیاگیاہو۔نتیجہ یہ ہواکہ حمیدی نے نیازمرحومہ کی بڑی بیٹی رشیدہ بانوسے شریف کابیاہ کردیا۔رشیدہ کے لواحقین کویہ ڈرتھاکہ کہیں شریف کی بیوی شہزاداپنے چھ بالکوں کو لے کرپھرسے شریف کے گھرنہ آدھمکے اس لئے انہوں نے صاف کہہ دیاکہ شہزادکوطلاق دے دوتومناسب ہے۔شریف اعلانیہ شہزادکوطلاق دینے کے حق میں نہ تھا۔وہ چاہتاکہ شہزادقانونی طورپرآزادنہ ہوسکے۔اس لئے اس نے چوری چوری طلاق نامے پردستخط کردیئے اوراس بات کومخفی رکھا۔
شریف کے گھرایک نئی بیوی آگئی۔جس کے سامنے وہ صبح وشام اپنی مظلومیت کاقصہ بیان کرسکتاتھا۔آہیں بھرسکتاتھا۔چھت کوٹکٹکی باندھ کردیکھ سکتاتھاگویامینڈک کوپھرکیچڑبھراکنارہ مل گیااورپھرسے اپنے آشیاں میں آبیٹھا۔
محض اتفاق سے اس خفیہ طلاق کی خبرایلی اورشہزادتک پہنچ گئی۔اس روزوہ یوں محسوس کررہے تھے۔جیسے انہوں نے ایک دوسرے کوپہلی مرتبہ دیکھاہو۔جیسے وہ ازسرنوعشق میں گرفتارہوگئے ہوں۔اگرچہ جہاں تک ظاہرکاتعلق تھا۔وہ دونوں سمجھتے تھے کہ یہ قانوی نقطہ ایک بے معنی بات ہے۔وہ دونوں توعرصہ درازسے ایک دوسرے کے ہوچکے تھے۔اس کے باوجودوہ بے حدخوش تھے اورساتھ ہی اس خوشی کوتسلیم کرنے کے لئے تیارنہ تھے۔
جب وہ دونوں ایک بوڑھے مولوی کے سامنے بیٹھے توایلی کادل دھک دھک کررہاتھا۔۔۔شہزادپھرسے مونگیاگٹھڑی بنی بیٹھی تھی۔پھرجب وہ گھرواپس پہنچے تولڑکیوں نے ان کے گردجھرمٹ لگالیا۔نفیسہ ناچنے لگی۔صبیحہ گارہی تھی۔وہ سب مل کرانہیں چھیڑرہے تھے۔تنگ کررہے تھے۔ان سے مذاق کررہے تھے۔
اس واقعہ کو ایک سال گزرگیا۔اب وہ قطعی طورپرآزادتھے۔اب انہیں چھپ کررہنے کی ضرورت نہ رہی تھی۔سکول میں لوگ بھول چکے تھے ایلی کے متعلق اخبارات میں خبریں چھپی تھیں۔مسٹرمعروف کویہ امریادنہ رہاتھاکہ اس کے خلاف خطوط موصول ہوتے رہے تھے۔محلے والوں کے دلوں میں ان کے لئے نفرت نہ رہی تھی ایک دوشریف کے رشتہ دارتھے جوایلی کانام سن کرتیوری چڑھاتے یانفرت سے منہ پھیرلیتے باقی لوگوں کوان کے ساتھ کوئی عنادنہ رہاتھا۔
دو ابن الوقت
پھرایک روزان کے ہاں علی احمدآگئے۔شہزادکے آنے کے بعدیہ پہلاموقعہ تھاکہ علی احمدان کے ہاں آئے تھے۔آتے ہی انہوں نے شورمچادیا۔کیوں بھئی شہزادکوئی حقہ وقہ بھروکوئی چائے وائے پلاؤ۔مہمان آئے ہیں۔ایلی اورشہزادعلی احمدکودیکھ کربے حدخوش ہوئے۔’’میں نے کہا۔‘‘وہ بولے۔’’جب توہم سے آنکھ بھی نہیں ملاتی تھی۔اب بولو۔‘‘شہزادہنسنے لگی۔’’اب ہنستی ہے ۔جب دیکھ کرتیوری چڑھاتی تھی۔‘‘
’’جب کی بات جب کے ساتھ۔‘‘وہ وبولی ۔’’اب کی اب کے ساتھ۔‘‘
’’تو تم اب الوقت ہو۔‘‘علی نے قہقہہ لگایا’’کہ جب اوراب کاخیال رکھتی ہو۔‘‘
’’آپ بھی توہیں ابن وقت۔‘‘وہ چلانے لگی۔
’’وہ کس طرح۔‘‘علی احمد نے پوچھا۔
’’جب آپ کی نگاہ اورہوتی تھی اب اورہے۔‘‘
’’ہی ہی ہی ہی۔‘‘وہ ہنسے۔’’تو تم نگاہ کوپہچانتی ہو۔ہی ہی ہی ہی۔لیکن ہمارے کمال کی بھی داددونابھئی موقعہ اورمحل سمجھتے ہیں کیاکہتی ہے۔‘‘
پھروہ لڑکیوں کی طرف متوجہ ہوگئے۔’’توتم نگاہ کوپہچانتی ہو۔ہی ہی ہی ہی۔لیکن ہمارے کمال کی بھی داددونابھئی موقعہ اورمحل سمجھتے ہیں کیاکہتی ہے۔‘‘
پھروہ لڑکیوں کی طرف متوجہ ہوگئے۔’’بائی بائی۔‘‘وہ چلانے لگے۔’’یہ توسب جوان ہوگئی ہیں۔عورت نے دنیامیں دھاندلی مچارکھی ہے۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘شہزادبولی۔
’’آج دیکھوتوبچی ہوتی ہے کل دیکھوتوجوان اورپرسوں دیکھوتوماں بن کربیٹھی ہوتی ہے۔عورت ذات توہاتھ پرسرسوں ہے ادھررکھی ادھراگی۔کیاکہتاہے ۔اب توبھائی اپناآپ بھول جاؤاوران کافکرکروکیوں شہزادلیکن شہزادکہاں اپناآپ بھولتی ہے۔اب بھی آئینہ کے سامنے کھڑی ہوجاؤتو۔۔۔کیوں۔ہی ہی ہی ہی۔‘‘وہ قہقہہ ماکرہنسنے لگے۔
’’میں نے کہا۔‘‘شہزادبولی۔’’اب توآپ پنشن پاچکے ہیں۔‘‘
’’ہاں ہاں۔‘‘وہ بولے۔
’’اورمحلے ہی میں رہتے ہیں۔‘‘
’’لواورکہاں رہناہے ہم نے ۔‘‘
’’تومحلے میں جوہنگامہ ہواتھااس کی وجہ سے آپ بڑے پریشان ہوئے ہوں گے۔‘‘وہ قہقہہ مارکرہنسے’’ہاں۔‘‘وہ بولے۔’’بڑافسادمچاتھامحلے میں۔آگ لگ گئی تھی۔لیکن شورزیادہ تھااورفسادکم‘ہمیں بڑی بڑی دھمکیاں دیں۔میدان میں کھڑے ہوہوکرہمیں للکارا۔لیکن ان باتوں سے کیاہوتاہے ہمارے لئے کوئی نئی بات نہیں۔‘‘وہ قہقہہ مارکرہنسے۔’’ہم نے بھی ایسی چال چلی کہ سب کوالوبنادیا۔ہی ہی ہی ہی۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘شہزادنے پوچھا۔
’’جب وہ ہمارے پاس آئے محلے کے معززلوگ۔کہنے لگے کہ بتائیے اس معاملے میں آپ ایلی کاساتھ دیں کے محلے والوں کا‘تومیں نے کہا:۔
’’بھئی محلے والے توشریف کاساتھ دے رہے ہیںنا؟ہاں ہاں وہ بولے چونکہ شریف شرافت اورسچائی پرہے‘بالکل درست ہم مانتے ہیں کہ شریف بے حدشریف ہے اورایلی نے اس سے زیادتی کی ہے بلکہ ظلم کیاہے‘اس پروہ بولے توپھرآپ شریف کاساتھ دیں گے۔بالکل‘میں نے کہا۔دل وجان سے۔اس حدتک شریف کاساتھ دینے کے لئے تیارہوں کہوتوایلی کوعاق کردوں اوراس کی والدہ کوطلاق دے دوں۔لیکن میری ایک شرط ہے۔’’کیاہے؟‘‘وہ پوچھنے لگے۔
’’شرط یہ ہے کہ شریف سب کے روبروقسم کھاکرکہے کہ میں پورے عزم اوراستحکام سے اس معاملے کی پیروی کروں گا۔‘‘میں نے کہا۔’’دیکھوناشریف ایک سادھوقسم کاآدمی ہے اسے دنیاسے لگاؤ نہیںکسی سے دشمنی اس کے دل میں نہیں۔اس کاکیاہے کل اس جھگڑے کوچھوڑچھاڑکرچلاجائے اوراعلان کردے کہ میں نے سب کومعاف کیاتوپھرہماراکیاہوگا۔دیکھونابزرگو‘میں نے کہا۔’’ہم دنیادارلوگ ہیں ایسانہ ہوناکہ ہم شریف کاساتھ دیں لیکن شریف ہماراساتھ نہ دے اورہم اپنے عزیزوں سے بھی محروم ہوجائیں۔‘‘علی احمدقہقہہ مارکرہنسے۔
’’نتیجہ یہ ہوا۔‘‘علی احمدبولے۔’’کہ ان میں پھوٹ پڑگئی۔کچھ لوگوں نے یہی اعتراض پکڑلیااورپھرہواوہی ایک روزشریف چپکے سے محلہ چھوڑکرچلاگیا۔ہی ہی ہی ہی۔اس روزہم نے محلے والوں سے کہا دیکھاہم نے کہاتھا۔ہمیں اس بات کاڈرتھا۔پھرتووہ سب شریف کے خلاف ہوگئے۔‘‘علی احمدہنسنے لگے۔
علی احمدکے آنے کے بعدگویاعزیزوں کاتانتابندھ گیا۔ہاجرہ کئی مرتبہ ایلی اورشہزادسے ملنے آئیں۔فرحت نے بھی دوباران سے ملاقات کی ۔پھرمحلے کے لوگ بلاتکلف آنے جانے لگے۔
دوطوفان
ایک روزجب ایلی ارم پورہ میں اپنے فرائض سے فارغ ہوکرگھرپہنچاتواس نے دیکھاکہ لڑکیاں چپ چاپ بیٹھی ہیں اورگھرپراداسی چھائی ہوئی ہے۔
’’شہزادکہاں ہے۔‘‘اس نے پوچھا۔’’امی کوہسپتال لے گئے ہیں۔وہ بیمارہوگئی تھیں۔‘‘نفیسہ بولی۔
’’کون لے گئے ہیں؟‘‘اس نے پوچھا۔
’’پڑوسیوں نے انہیں ہسپتال پہنچادیاہے۔‘‘
ایلی ہسپتال پہنچاتواسے معلوم ہواکہ معاملہ نازک ہے اورشہزادکی زندگی خطرے میں ہے اس کے پیٹ کابچہ مرچکاہے اورمردہ بچے کازھراس کے جسم میں سرایت کرچکاہے۔
وہ رات خوفناک رات تھی۔سردیوں کے دن تھے۔بارش اورہواکاطوفان چل رہاتھا۔ہسپتال کے چوکیدارکے پاس ایلی کمبل میں لپٹاہوابیٹھاتھا۔نرس کی اطلاع کے مطابق اندرشہزادآپریشن ٹیبل پرپڑی تھی۔اورڈاکٹرسوچ رہے تھے کہ آیاوہ آپریشن کی تکلیف برداشت کرسکے گی یانہیں۔
ایلی آگ کے پاس بیٹھاتھا۔اس کے ذہین میں بیرونی طوفان سے زیادہ شدیدطوفان چل رہاتھا۔کیایہی اسے قصے کاانجام تھا۔سالہاسال کی تگ ودوکے بعدجب کہ وہ جیون ساتھی بن چلے تھے کیاقدرت کویہی منظورتھاکہ وہ پھرجداہوجائیں۔اگرشہزادکوکچھ ہوگیاتوبچوں کاکیاہوگا؟وہ سوچ رہاتھا۔
بیتے ہوئے لمحات اس کے سامنے پردہ فلم کی طرح آرہے تھے۔جب وہ شہزادکوپہلی دفعہ بیاہ کرلائے تھے اورملحقہ ڈبے میں مونگیاگٹھڑی بنی ہوئی تھی۔حنامالیدہ ہاتھ گٹھڑی سے نکلے تھے۔یہ ہے ایلی۔کسی نے کہااوردوناگ اس کے سرپرمنڈلانے لگے تھے۔
پھرجب وہ کہانی سنارہی تھی اورایلی نے محسوس کیاتھاکہ اس کے انگوٹھے پرایک رنگین بوجھ ساپڑگیاتھااوراس کاسربھن سے اڑگیاتھاجیسے کسی نے ہوائی کوآگ دی ہواوران جانے میں اس نے حنامالیدہ ہاتھ تھام لئے تھے اورنہ جانے جذبے کی شدت میں کیاکہہ دیاتھا۔’’تم ایلی ہو۔۔۔‘‘شہزادنے حیرت سے اس کی طرف دیکھاتھا۔
پھربندبیٹھک میں اپنے مردانہ پن کی دھاک جمانے کے لئے وہ سکندرکی طرح حملہ آورتھااورپھرپورس کی طرح منہ میں گھاس لئے اس کے قدموں میں پڑاہواتھا۔
پھروہ بے نیازورزن اس کے روبروبیٹھی تھی۔جوقریب ہوکراس سے دورہوجاتی تھی اوردورہوتی توگویااس کے گودمیں آبیٹھتی ۔وہ اجنبی عورت کی طرح اس کے روبروکھڑی تھی۔وہ صفدرسے ہنس ہنس کرباتیں کررہی تھی اورایلی کی طرف حقارت سے دیکھ کرکہہ رہی تھی ’’تم!‘‘اس تم میں کتنی دھارتھی۔اس کادل ٹکڑے ٹکڑے ہوگیاتھا۔
پھروہ چلارہاتھا۔’’تم رذیل کمینی عورت ہو۔آج پھرمیرے روبروآتے ہوئے تمہیں شرم نہیں آتی کیا؟‘‘اوروہ اس کے قدموں میں گرکرکہہ رہی تھی’’ہاں۔۔ہوں۔‘‘پھرصفدرچلارہاتھا۔’’میں نہیں مروں گامیں نہیں مروں گا۔۔۔مجھے معاف کردو۔مجھے معاف کردو۔۔۔‘‘اوراب شہزادآپریشن ٹیبل پرپڑی ایلی سے کہہ رہی تھی۔’’مجھے معلوم تھا۔میں تم سے پہلے مروں گی۔ہمیشہ سے مجھے اس کاعلم تھا۔میرادل گواہی دیتاتھا۔مجھے کوئی غم نہیں صرف میری بچیاں۔‘‘اس نے آخری ہچکی لی۔۔۔ایلی گھبراکرچونک پڑا۔چوکیدارجاچکاتھا۔آسمان پرہلکی ہلکی سفیدی چھائی ہوئی تھی۔طوفان تھم چکاتھا۔نرس اسے جھنجھوڑرہی تھی۔’’آپریشن کامیاب رہا۔تمہیں مبارک ہو۔‘‘ایلی کویقین نہیں آتاتھا۔اس کے دل میں کوئی خوشی پیدانہ ہوئی اوروہ اسی طرح دیوانہ وار بیٹھارہا۔اسے سمجھ نہیں آرہاتھاکہ کہاں جائے۔کیاکرے۔
پھرہسپتال کابھنگی اس کے روبروکھڑاتھا۔مردہ بچے کی لاش لے جاؤ۔‘‘وہ کہہ رہاتھا۔
لاش!ایلی سوچنے لگا۔لاش کوکہاں لے جاؤں۔کیاکروں۔لاش!!
بھنگی اسے جھنجھوڑرہاتھا۔’’ابھی لے جاؤ۔‘‘وہ کہہ رہاتھا۔’’اسی وقت ۔اٹھانے والاہے
کوئی۔‘‘ایلی حیرت سے اس کامنہ دیکھ رہاتھا۔
بوندبوند
شہزادہسپتال سے واپس آئی توایلی اسے دیکھ کرگھبراگیا۔یہ وہ شہزادنہیں تھی۔جس سے وہ واقف تھا۔یہ کوئی اورہی شہزادتھی۔اس کاجسم ہڈیوں کاڈھانچہ تھا۔گال بری طرح پچک گئے۔ہڈیاں ابھرآئی تھیں۔ماتھے کاتل گویاگل ہوگیاتھا۔اس میں وہ روشنی نہ رہی تھی۔جیسے کسی نے دیپ بجھاکراس کی گذشتہ روشنی کی یادتازہ رکھنے کے لئے اسے ان طاقوں پررکھ دیاہو۔آنکھوں میں چمک باقی تھی۔لیکن اس چمک میں مایوسی کادھندلکاشامل ہوگیاتھا۔ناک ابھرآئی تھی۔ہونٹ گویابھنچ گئے تھے۔دانت نکل آئے تھے۔
اسے ڈسچارج کرتے ہوئے ڈاکٹرنے کہااسے اچھی غذاکی ضرورت ہے اچھی غذااورکیلشیم لیکن جب وہ گھرپہنچی تھی توان کے ہاں کچھ آٹااورتھوڑی سی دال کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ان کی غربت روزبروزبڑھتی جارہی تھی۔سرپرقرض کاطومارکھڑاہوگیاتھاجسے اداکرنے کی کوئی صورت نہ تھی۔لیکن اس سے بڑی مشکل یہ تھی کہ قرض حاصل کرنے کے مزیدامکانات بالکل ختم ہوچکے تھے۔
لاہورمیں ایلی کے ماموں زادبھائیوں رفیق جمیل اورخلیق نے اس کی بے حدامدادکی تھی۔جمیل ابھی تک خان پورمیں تھا۔رفیق لاہوررہتاتھاچونکہ اس کی تبدیلی ہیڈآفس میں ہوچکی تھی ۔خلیق اب ڈاکٹربن چکاتھااوراکثرلاہورآیاکرتاتھا۔ان کے علاوہ اس کے خالہ زادبھائی یوسف نے ان کی ساتھ بہت ہمدردی کی تھی۔لیکن انہیں توآئے دن امدادکی ضرورت رہتی تھی۔کبھی کبھارکی بات ہوتی توبھی وقت گزرجاتا۔روزکی حاجت مندی کاکیاعلاج ہوسکتاتھا۔
دوسری مشکل یہ تھی کہ دولڑکیاں اب جوان ہوچکی تھیں۔ان میں شہزادکی سی رنگینی تونہ تھی۔لیکن پھربھی وہ شہزادکی بیٹیاںتھیںاوراسی گھرمیں پل کرجوان ہوئی تھیں۔لہٰذاان کی طبائع میں وہ گھٹاگھٹاپن نہ تھا۔محلے کی تمام عورتیں ان کے سحرسے مخدوش تھیں۔وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کے شوہریابھائی یابیٹے شہزادکے گھرجائیں اوران سے ملیں۔اس لئے یہ سب لوگ چوری چھپے وہاں آتے تھے۔
ان کے آتے ہی فرش بچھادیاجاتااورپھرسب مل کرتاش یاچوپٹ کھیلنے بیٹھ جاتے اورکھیل میں وہ سب ہنستے چیختے چلاتے قہقہے لگاتے۔گیت گنگناتے اورشورمچاتے۔ایک دھماچوکڑی لگی رہتی۔لیکن اس کے جاتے ہی مالی دقتوں کااحساس بیدارہوتااورشہزادایک طرف لیٹ کرسوچتی اورآہیں بھرتی۔
لڑکیاں طبعاً ہنسنے پرمجبورتھیں یاان کاعنفوان شباب انہیں مسکرانے پرمجبورکرتاتھا۔اس لئے وہ ہنستی رہتی تھیں۔لیکن اس کے دل کی گہرائیوں میں بھی پچھتاوے کی بونداباندی شروع ہوچکی تھی۔غالباً وہ اس احساس کااظہارصرف ماں کے ساتھ کیاکرتی تھیں۔جس کی وجہ سے وہ مغموم اورافسردہ رہنے لگی تھی۔شہزادکوذاتی طورپرکوئی غم نہ تھانہ وہ پچھتانے کی قائل تھی غالباً اسے بیٹیوں کے غم نے اندرسے کھوکھلاکردیاتھا۔
ایلی نے آنے سے پہلے باربارشہزادسے کہاتھاکہ مالی مشکلات ہوں گی۔اس لئے سوچ لوکیاتم انہیں برداشت کرسکوگی۔لیکن ان دنوں شہزاداس کے اس سوال کواہمیت نہ دیتی تھی۔ایلی کواس بات پرغصہ آتاتھاکہ اب وہ کیوںاکیلی پری رہتی ہے کیوں آہیں بھرتی ہے۔کیوں غم کھاتی ہے۔
شہزادکواپنی بڑی لڑکیوں کی تعلیم کابھی غم تھا۔جب وہ گروپتن سے آئی تھیں۔تودونوں نویں جماعت میں تعلیم پارہی تھیں۔ان کے دوسال پہلے ہی ضائع ہوچکے تھے۔پہلے سال توانہیں کسی سکول میں داخل کرنے کاسوال ہی پیدانہ ہوتاتھا۔دوسرے سال میں انہیں نے کئی بارکوشش کی تھی کہ گروپتن سے ان کے سرٹیفکیٹ دستیاب ہوجائیں۔لیکن شریف نے ہیڈمسٹرس کولکھ کردے دیاتھاکہ جب تک وہ خودان کے سرٹیفکیٹ طلب نہ کرے۔سرٹیفکیٹ جاری نہ کئے جائیں۔لہٰذاان کادوسراسال بھی ضائع ہوگیاتھااورشہزادکوڈرتھاکہیں تیسراسال بھی ضائع نہ ہوجائے۔بوندبوندغم اس کی روح میں سرایت کررہاتھا۔
دوپاگل
پھرایلی کاتبادلہ شاہ وال ہوگیااوروہ سب شاہ وال چلے گئے!
شاہ وال ایک بڑاقصبہ تھاجولاہورسے تیس چالیس میل کے فاصلہ پرواقع تھا۔ابھی دوشاہ وال پہنچے ہی تھے کہ شہزادپھربیمارپڑگئی۔اسے خون جاری ہوگیا۔لیڈی ڈاکٹرنے جواب دے دیا۔بولی۔’’اس لاہورہسپتال میں لے جائیے۔لاہورہسپتال کے ڈاکٹروں نے معائنہ کرنے کے بعدفیصلہ کہ مریضہ کااندرونی جسم مردہ بچے کے زہرکی وجہ سے گل گیاہے۔آپریشن ہوگا۔
کیاآپریشن کے بعدمریضہ یقینی طورپرٹھیک ہوجائے گی۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’یقین سے نہیں کہاجاسکتا۔‘‘ڈاکٹربولا۔زیادہ امیدنہیں۔‘‘
’’اوہ۔‘‘ایلی سوچ میں پڑگیا۔
جب وہ شہزادسے ملاتوبولی’’میں آپریشن نہیں کراؤں گی۔‘‘
’’کیوں۔‘‘اس نے پوچھا۔
’’بے کارہے۔‘‘ وہ بولی۔
’’بے کارکیوں۔‘‘
’’وہ کہتے ہیں سڑاندپچھلی جھلی تک پہنچ چکی ہے اورخون بندنہیں ہوگا۔‘‘
’’توپھر۔‘‘
’’مجھے لڑکیوں کے پاس لے چلو۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ایلی نے سرجھکالیا۔
جب شہزادلیڈی ڈاکٹرسے ہسپتال چھوڑنے کی اجازت طلب کرنے گئی توڈاکٹرنے صاف انکارکردیا۔’’بے وقوف مت بنو۔‘‘وہ بولی۔’’اگرتم ہسپتال چھوڑکرچلی گئی توزیادہ سے زیادہ پندرہ روزجیئوگی۔
’’اوراگرمیں ہسپتال میں رہوں تو۔‘‘
’’توتو۔۔۔شاید۔‘‘
شہزادنے اپنے کپڑوں کی گٹھڑی اٹھالی۔ڈاکٹرگھبراگئی۔’’نہیں نہیں۔‘‘وہ بولی۔
’’مجھے کون روک سکتاہے۔‘‘شہزادنے کہااورباہر نکل آئی۔ڈاکٹراس کے پیچھے پیچھے تھی۔ڈاکٹرنے ایلی کودیکھ کرشورمچادیا۔’’اے مسٹر۔یہ تمہاری مسزدیوانی ہوگئی ہے۔جان بوجھ کرخودکشی کررہی ہے۔اے مسٹر۔‘‘
ایلی رک گِا۔’’یہ عورت پاگل ہے۔‘‘ڈاکٹرچلائی۔
’’ہم دونوں پاگل ہیں۔‘‘وہ بولا
’’ارے ۔‘‘ڈاکٹربولی۔’’تم پڑھے لکھے نظرآتے ہو۔‘‘
’’ہاں۔‘ایلی نے کہا’’میں پڑھالکھاپاگل ہوں۔‘‘
’’ارے ۔‘‘وہ گھبراکرپیچھے ہٹ گئی۔دونوں پاگل باہر نکل آئے۔شہزادنے ایلی کاہاتھ تھام لیا۔بولی۔’’ایلی ۔‘‘
’’جان من ۔‘‘وہ بولا۔
’’پندرہ دن ہیں۔‘‘اس کی آنکھ میں مسرت کی چمک تھی۔
’’ہاں۔‘‘
’’پندرہ دن ہم اکٹھے رہیں گے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’پندرہ دن بہت ہوتے ہیں۔‘‘
’’ہاں ہاں۔‘‘وہ بولا۔
’’تم نے کہیں باہرتونہیں جانا۔‘‘
’’نہیں جاؤں گا۔‘‘
’’ہم اکٹھے بیٹھ رہیں گے۔‘‘
’’بالکل ۔‘‘
’’اورپھرہم بیٹھ کرسب باتیں دہرائیں گے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’جب میں نے تمہیں پہلی مرتبہ دیکھاتھا۔‘‘
پن۔درہ۔دن
اپنی ہی دھن میں پاگل پیدل چلے جارہے تھے۔
’’بابوجی تانگہ چاہیئے۔‘‘تانگے والے نے قریب آکرپوچھا۔
’’تانگے پرچلوگی۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’کیاکرتاہے۔‘‘ وہ بولی۔
’’چلتے ہوئے تمہیں تکلیف ہوگی۔‘‘وہ بولا۔
’’تکلیف ‘‘۔۔وہ ہنسی ۔’’اب کیاہے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘وہ بولا۔’’اب کیاہے۔‘‘
’’ایلی ۔‘‘وہ بولی۔
’’جی۔‘‘
’’ایک بات کہوں۔‘‘
’’کہو۔‘‘
’’مانوگے؟‘‘
’’مانوں گا۔‘‘
’’شروع سے ہی مجھے معلوم تھا۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’کہ میں پہلے مروں گی۔‘‘
’’واقعی؟‘‘
’’ہاں۔جب بھی تم میرے پاس آیاکرتے تھے توکوئی میرے کان میں کہتا۔تم پہلے مروں گی۔‘‘
’’اچھا۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’کون کہتاتھا؟‘‘
’’معلوم نہیں۔لیکن مجھے معلوم تھاوہ سچ کہتاہے۔‘‘
’’بس اتناہی کہتاتھا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘وہ بولی۔
’’تو؟‘‘
’’ایک بات اورکہتاتھا۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘
’’کہتاتھا۔۔نہیں بتاؤں گی۔‘‘اس کی آنکھوں میں آنسوبھرآئے۔
’’نہ بتاؤ۔‘‘وہ بولا۔’’لیکن تم روتی کیوں ہو۔‘‘
’’ہاں روتی ہوں۔‘‘وہ بولی۔
’’اچھاجیسے تمہاراجی چاہے۔‘‘
’’اس لئے نہیں روتی کہ پندرہ دن اورہیں۔‘‘
’’توکس لئے؟‘‘
’’وہ دوسری بات کہتاتھا۔اس پر نہ جانے کیوں اس کی دوسری بات سن کرمیںہمیشہ روتی رہی چھپ چھپ کرروتی رہی۔‘‘!
’’کیاکہتاوہ ایسی کیابات ہے؟‘‘
’’کہتاتھا۔۔بتادوں؟‘‘
’’تمہاری مرضی۔‘‘
’’کہتاتھا۔تمہارے مرنے کے بعداس کی زندگی شروع ہوگی۔‘‘
’’کس کی زندگی؟‘‘
’’تمہاری۔‘‘
’’زندگی ختم ہوجائے گی یاشروع ہوجائے گی۔‘‘
’’شروع ہوگی۔‘‘وہ بولی۔
’’اس میں رونے کی کیابات ہے؟‘‘
’’مجھے محسوس ہوتاتھا۔جیسے میں تمہارے راستے کی رکاوٹ ہوں۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
’’اورتمہاری زندگی شروع نہیں ہوسکتی جب تک رکاوٹ دورنہ ہو۔‘‘
’’بے وقوف تم رکاوٹ نہیں زندگی ہو۔تم چلی گئی توسب کچھ ختم ہوجائے گا۔‘‘
’’سچ۔‘‘وہ بولی۔
’’تمہاری قسم۔‘‘
وہ مسکرائی۔’’بس مجھے ایک غم ہے ۔میری بچیاں۔‘‘اس کی آنکھوں میں آنسوآگئے پھروہ گاڑی میں بیٹھے ہوئے شاہ وال جارہے تھے۔انجن ہونک رہاتھا۔
’’پن۔درہ۔دن۔۔۔۔پن۔درہ۔دن۔‘‘
دفعتاً ایلی کی توجہ سامنے بیٹھے ہوئے مسافروں کی طرف منعطف ہوگئی۔
’’پندرہ ‘‘’’دن ‘‘ایک چلارہاتھا۔’’صرف پندرہ دن۔‘‘
ایلی نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔کیاوہ ان کے رازسے وقف تھا۔
’’کیوںبھائی‘‘۔وہ ایلی کومخاطب کرکے کہنے لگا۔’’لوتم ہی بتاؤپندرہ دن بھی کوئی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘اس نے چٹکی بجائی۔’’یوں گئے ہے نا۔‘‘وہ قہقہہ مارکرہنسنے لگااورپھراپنے ساتھیوں کومخاطب کرکے بولا۔’’ہم نے بس وہی ڈاکٹردیکھاہے۔دوسال میری بیوی میوہسپتال میں پڑی رہی۔دوسال آخرانہوں نے جواب دے دیااورمیں اسے دوراہے لے گیااوراس اللہ کے بندے نے پندرہ روزمیں ایساکردیاکہ وہ اپنے پاؤں چل کرگھرآئی اوراللہ اس کابھلاکرے۔آج ہم ہنسی خوشی زندگی بسرکررہے ہیں۔‘‘
’’کون ہے وہ ڈاکٹر؟‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’دوراہے کاہومیوپیتھ ہے جی۔‘‘
’’کیانام ہے؟‘‘ایلی نے پوچھا۔
ڈاکٹرہاشم
’’بھئی واہ۔‘‘وہ بولا۔’’تم ڈاکٹرہاشم کونہیں جانتے۔‘‘
’’جی ڈاکٹرہاشم کوکون نہیں جانتا۔‘‘اس کاساتھ بولا۔
اگلے روزہی ایلی دوراہے میں ڈاکٹرہاشم کے معمل میں بیٹھاتھا۔
ڈاکٹرہاشم کامعمل ایک وسیع وعریض صحن پرمشتمل تھا۔جس کے ایک طرف دوتنگ کمروں میں ادویات رکھی تھیں اوردوکمپاؤنڈربیٹھے تھے۔دوسری طرف ایک برآمدہ تھا۔جس کے پیچھے دووسیع کمروں میں کتابیں پڑی تھیں۔تیسری طرف ایک دروازے کے پیچھے ڈاکٹرکامکان تھا۔صحن میں ایک درخت کے نیچے ایک تخت پڑاتھا۔جس پرایک پراناساتکیہ لگاتھا۔نیچے ایک سادہ ساگدابچھاہواتھاایک چھوٹے سے ڈسک پرایک پراناقلمدان پڑاتھا۔یہ ڈیسک تخت پرلگاہواتھا۔اوراس کے پاس ہی کاغذکی پرچیاں سی پڑی تھیں۔تخت کے ایک طرف بوسیدہ کالاکمبل ڈھیر ہورہاتھا۔
صحن میں کوئی کرسی نہ تھی۔کتابوں والے کمرے میں بیٹھنے کے لئے فرش کے علاوہ کوئی کرسی یاکاؤچ نہ تھا۔صحن میں لوگ ادھرادھرزمین پرچوکیاں رکھے بیٹھے ہوئے تھے۔وہ سب ایک دوسرے سے باتیں کرنے میں مصروف تھے۔اوریوں شورمچارہے تھے۔جیسے وہ ڈاکٹرکامعمل نہیں بلکہ سٹہ منڈی ہو۔ڈاکٹرابھی زنان خانے سے باہرنہیں نکلاتھا۔
دفعتاً زنان خانے کادروازہ کھلا۔ایک لڑکاایک حقہ اٹھائے باہرنکلا۔اسے دیکھ کرسب خاموش ہوگئے۔اس کے پیچھے پیچھے ایک دیوانہ ساآدمی یوں لڑھکتاہواآرہاتھا۔جیسے کسی نے اسے دھکادے کرمتحرک کردیاہو۔اس نے ایک لمباچغہ رکھاتھا۔نیچے سیاہ جرابیں تھیںایک پھٹی ہوئی گرگابی۔
اس کے بال پریشان تھے۔چہرہ گویاسوجاہواتھا۔آنکھیں چندھیائی ہوئی تھیں۔تخت کے قریب پہنچ کروہ رکااس نے بڑھ کرکمبل اٹھالیااوراسے اپنے گردلپیٹ کرتخت پرڈھیرہوگیا۔
مجمع پرخاموشی طاری تھی۔
ایک ساعت کے بعداس نے سراٹھایااورمجمع پراچٹتی نگاہ ڈالی۔اس کی نگاہ ایک آدمی پررکی۔’’ہوں۔‘‘وہ بولا۔’’تم۔‘‘
’’جی۔‘‘وہ شخص بولا۔
’’تمہاری بیوی مرگئی ہے کیا؟‘‘ڈاکٹرنے پوچھا۔
’’جی نہیں۔‘‘وہ شخص بولا۔
’’تواس کابراحال ہے کیا۔‘‘
’’جی نہیں۔‘‘الٹاوہ روصحت ہے۔‘‘
’’توپھرتم کیوں آئے ہو۔‘‘ڈاکٹرنے اسے ڈانٹا۔
’’جی دوالینے ۔‘‘
’’کیسی دوا۔‘‘
’’جی دوائی۔‘‘وہ گھبراگیا۔
’’جب وہ روصحت ہے تودوائی کامطلب۔دوائیاں لینے کاشوق ہے کیا۔‘‘ڈاکٹرنے کہا۔
’’جی نہیں۔‘‘وہ بولا۔’’میں نے سمجھاکہ مزیددوائی۔۔۔‘‘
’’بے وقوف۔‘‘ڈاکٹربولا۔’’میں نے سمجھاکہ تم میں سمجھنے کی صلاحیت ہے۔‘‘
’’جی نہیں۔‘‘ وہ بولا۔
’’توپھرمت سمجھو۔‘‘
’’جی بہت اچھا۔‘‘
’’جاؤمزے کرو۔اب کسی دوائی کی ضرورت نہیں۔‘‘وہ شخص سرجھکائے چل پڑا۔
’’ہوں تم۔‘‘ڈاکٹرکی نگاہ ایک اورشخص پرپڑی۔’’تم۔‘‘وہ بولا۔
’’جی۔‘‘اس شخص نے جواب دیا۔’’میرانام ماجدہے۔‘‘
ڈاکٹرنے قہقہہ لگایانام کومیں کیاکروں۔تمہیں تپ دق ہے نا۔‘‘
’’جی ہاں۔‘‘وہ بولا۔
’’توجاؤتمہارے لئے میرے پاس کوئی دوانہیں جاؤ۔‘‘
’’لیکن ڈاکٹرصاحب۔‘‘وہ بولا۔’’میں کہاں جاؤں؟‘‘
’’تم اللہ کے پاس جاؤ۔‘‘ڈاکٹرنے جواب دیا۔‘‘وہاں سکھی رہوگے۔‘‘جاؤجاؤجاؤ۔‘‘
وہ شخص مایوس ہوکرچل پڑا۔
’’ہوں۔‘‘ڈاکٹرنے ایلی کی طرف دیکھا۔
’’جی میں۔‘‘ایلی بولا۔’’میں شاہ وال سے آیاہوں۔‘‘
’’توکیامجھ پراحسان کیاہے۔‘‘ڈاکٹربولا’’میاں لوگ حیدرآبادسے آتے ہیں۔‘‘وہ رک گیا۔
’’میسورسے آتے ہیں۔تم شاہ وال سے آگئے توکیاہوا۔‘‘اس نے دوبارہ کہا۔
ایلی گھبراگیا۔’’جی آپ بجافرماتے ہیں۔‘‘وہ بولا۔
’’کیافائدہ ہواشاہ وال سے آنے کاکیافائدہ ہوا۔بے وقوف۔‘‘ڈاکٹراسے گھورتارہا۔
ایلی کوغصہ آرہاتھا۔
’’لوبھائی اس شخص کی طرف دیکھا۔‘‘ڈاکٹرنے جملہ لوگوں کومخاطب کرکے کہا۔’’یہ شاہ وال سے آیاہے لیکن بے وقوف مریض کوساتھ نہیں لایا۔‘‘
’’ارے۔‘‘ایلی حیرت سے ڈاکٹرکی طرف دیکھنے لگا۔
’’میاں۔‘‘ڈاکٹرکہنے لگا۔‘‘اگرتم مریض کوساتھ نہین لائے توکیامیرامنہ دیکھنے آئے ہو۔‘‘
’’جی ہاں۔‘‘وہ بولا۔
ڈاکٹرقہقہہ مارکرہنس ۔بولا۔’’اچھادیکھو۔‘‘
عین اس وقت ایک معززہندوداخل ہوااوردروازے میں ہی ہاتھ جوڑکربولا۔’’نمستے ڈاکٹرصاحب۔‘‘ڈاکٹرصاحب کی توجہ قوواردکی طرف منعطف ہوگئی۔
’’یہ لالہ جی دوراہے کے تحصیلدارہیں۔‘‘قریب سے ہی آوازیں آئیں۔
لالہ جی قریب آگئے۔وہ ایک معززاورشریف آدمی نظرآتے تھے اوراندازمیں بلاکاتحمل تھا۔جب وہ قریب آئے توڈاکٹرنے بغوران کی طرف دیکھا۔
’’لالہ جی۔‘‘ڈاکٹربولا۔’’مہربانی کرکے تشریف لے جائیں۔‘‘
تحصیلدارنے ڈاکٹرکی طرف دیکھا۔
’’تشریف لے جائیں۔’’ڈاکٹرنے دہرایا۔’’پھرسے داخل ہوں اورالسلام علیکم کہیں۔‘‘
تحصیلدارکھڑے ہوکرڈاکٹرکی طرف دیکھنے لگے۔
’’جب تک آپ ایسانہیں کریں گے۔‘‘ڈاکٹرنے کہا۔’’میں آپ کودوانہیں دوں گا۔‘‘
’’لیکن ڈاکٹرصاحب۔‘‘تحصیلدارنے کہا۔’’میں نے داخل ہوتے وقت ہاتھ باندھ کرآپ کونمستے کی ہے۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے۔‘‘ڈاکٹرنے کہا۔
’’نمستے کرنے کیابرائی ہے؟‘‘تحصیلدارنے پوچھا۔
’’کوئی نہیں۔‘‘
’’الٹااس میں توبے حدعجزہے۔‘‘
’’جی۔‘‘ڈاکٹرنے کہا۔’’آپ بالکل بجافرمارہے ہیں۔اس میں بہت عجز ہے۔لیکن ازراہ کرم واپس جائیے اورپھرداخل ہوکرالسلام علیکم کہیے تاکہ میں آپ کودوائی دوں۔‘‘
اس پرتحصیلدارصاحب مسکرائے اوراحاطے سے باہر نکل گئے۔پھرداخل ہوتے ہوئے بولے۔‘‘
’’السلام علیکم ۔‘‘
’’وعلیکم اسلام۔‘‘ڈاکٹرنے کہا۔’’فرمائیے کس کے لئے دوائی لیناہے آپ نے ۔‘‘
’’گھروالی کے لئے ۔‘‘وہ بولے۔
’’اپنی گھروالی کواپنی طرح تحمل پسندبنائیے نا۔‘‘ڈاکٹربولا۔’’وہ اپنی طبیعت کی تلخی کی وجہ سے بیماررہتی ہے۔‘‘
’’یہ میرے بس کاروگ نہیں۔‘‘تحصیلدارنے شرمندگی محسوس کرتے ہوتے کہا۔’’آپ ان کی بیماری کی تفصیلات سن لیجئے۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ڈاکٹرنے کہا۔’’پہلے ہمیں ایسی دوائی دنیاہوگی۔جس سے ان کی طبیعت بدل جائے۔‘‘
’’دوائی سے طبیعت بد ل جائے ۔‘‘تحصیلدارنے کہا۔
ڈاکٹرنے قلم نیچے رکھ دیاآپ دوائی کوکیاسمجھتے ہیں لالہ جی۔‘‘اس نے پوچھا۔
شایدآپ سمجھتے ہیں کہ دوائی صرف پیٹ کادرددورکرتی ہے۔کھانسی کوروکتی ہے۔اسہال کوبندکرتی ہے۔‘‘
’’جی ڈاکٹرصاحب۔‘‘وہ
’’ہاں جی اوریہی میری بے وقوفی کی دلیل ہے۔‘‘
راغب صاحب بوکھلاگئے۔
اگلے روزراغب نے معروف صاحب سے احکامات کی وضاحت کی درخواست کرتے ہوئے ٹیلی فون پرانہیں بتایاکہ الیاس آصفی کے بیان کے مطابق انہیں اس بات کاحق دیاگیاتھاکہ اس امرکافیصلہ کریں کہ آیاارم پورہ کے سکول میں الیاس کام کرتے ہیں یانہیں۔
معروف فوراً بھانپ گئے کہ وہ بات جوانہیں کہنی چاہیے تھی۔ ایلی نے ازخودراغب سے کہہ دی ہے۔اس بات پروہ بے حدمسرورہوئے اوربولے۔’’یہ ٹھیک ہے راغب لیکن ہمارامشورہ ہے کہ آپ الیاس کواپنے پاس رکھنے پررضامندی دے دیںوہ ایک قابل شخص ہے۔
آپ کوکام سے تعلق ہے ناعورتوں کے اغواسے تونہیں۔‘‘
نتیجہ یہ ہواکے ایلی نے ارم پورہ میں کام شروع کردیا۔
جھوٹ سچ
ایلی نے زندگی میں نئی بات سیکھی تھی۔وہ سچ کے ذریعے جھوٹ بولتاتھا۔اس نے تجربہ کے زوراس حقیت کوپالیاتھاکہ سچی بات کہہ دی جائے توسننے والاحیران رہ جاتاہے۔اس کے دل میں نفرت کی بجائی دلچسپی اورہمدردی پیداہوتی ہے اورکبھی کبھاراحترام بھی۔اس کے علاوہ کہنے والے کے دل بوجھ نہیں رہتا۔اوربات کہہ دی جائے تووہ پھوڑانہیں بنتی۔اس میں پیپ نہیں پڑتی۔اکثراوقات توایساہوتاکہ سچی بات کواعلانیہ تسلیم کرلیاجائے تولوگ سمجھتے ہیں کہ مذاق کررہاہے انہیں یقین ہی نہیں آتا۔شایدایلی نے یہ انوکھاطریقہ شہزادسے سیکھاہو۔
بہرصورت جب اساتذہ اس سے ملے تواخباری خبروں کی بات چھڑگئی۔ایک صاحب اخلاقاًبولے۔’’اجی ان اخباروالوں کاکیاہے۔جوجی چاہتاہے اناپ شناپ لکھ دیتے ہیں۔سچ تھوڑے ہی لکھتے ہیں۔’’کیوں الیاس صاحب۔‘‘
’’اپناتجربہ تومختلف ہے۔‘‘ایلی نے کہا۔
’’کیامطلب ؟‘‘ایک اورصاحب بولے۔
’’مطلب یہ ہے کہ میرے متعلق آج تک صرف ایک خبرچھاپی ہے انہوںنے اوروہ سولہ
آنے سچی ہے۔‘‘
’’ارے ۔‘‘وہ چلائے ’’کیاواقعی؟‘‘
’’توکیاجوخبریں آپ کے متعلق چھپی تھیں وہ درست ہیں۔‘‘ایک صاحب نے پوچھا۔
’’بالکل۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔
وہ حیرت سے ایلی کی طرف دیکھ رہے تھے انہیں سمجھ نہیں آتاتھاکہ اب کیاکہیں دوایک مسکرارہے تھے۔دو ایک تحسین بھری نگاہیں سے ایلی کی طرف دیکھ رہے تھے۔
’’توآپ نے چھ بچوں کی ماں کواغواکرلیا۔‘‘ایک نے پوچھا۔
’’جی نہیں۔‘‘وہ بولا۔
’’ہائیں۔ابھی توآپ کہہ رہے تھے۔۔‘‘
’’خبرتوسچی ہے مگراندازبیان میں کچھ غلطی رہ گئی ہے۔‘‘ایلی نے کہا۔
’’کیا؟‘‘
’’یہ کہ چھ بچوں کی ماں نے مجھے اغواکرلیاہے۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔
’’ہی ہی ہی ہی۔۔۔‘‘ایک قہقہہ بلندہوا۔
ایلی اچھی طرح جانتاتھاکہ اگرکسی بات پرلوگ قہقہہ مارکرہنس لیں توبات اپنی سنگینی کھودیتی ہے۔اس لئے اس نے اس موضوی پرایک لیکچردیناشروع کردیاکہنے لگا’’بھائیومردوں کی قوم پرعورتوں کی قوم ہمیشہ ظلم کرتی آئی ہے۔وہ ہمیشہ مردوں کواغواکرتی رہیں اورنام بدنام ہوتاہے۔مردکومجرم گرداناجاتارہا۔مردجیل جارہامرد‘قیدکاٹتارہامرد۔معلوم ہوتاہے۔تعزیرات ہندکی اغواء کی دفعہ لکھتے وقت مصنف کی بیوی بھی پاس بیٹھی تھی۔اس ظالم نے ساری دفعہ ہی غلط لکھوادی۔‘‘
مرداورعورت کی بات کرتے وقت ایلی یوں محسوس کیاکرتاتھا۔جیسے بطخ خشکی سے اترکرپانی میں جاپہنچی ہو۔
پہلے روزہی جملہ اساتذہ کوایلی سے ہمدردی پیداہوگئی۔اوروہ اس کے دوست بن گئے۔جب بھی تفریح کی گھنٹی بجتی اورایلی کے لے کرکسی مقام پرجابیٹھتے اوراسے چھیڑکراس کی باتیں سنتے۔لڑکے دوردورسے اسے دیکھتے اورمسکراتے اورہیڈماسٹراسے معروف آدمی سمجھ کراس سے اخلاق سے پیش آتے۔
آٹھ بچے
سکول میں ہیروبن کرگھومنے کے بعدوہ سائیکل اٹھاکرچوروں کی طرح گھرکی طرف چل پڑتا۔جان بوجھ کرلمبے راستے سے گھرجاتاتاکہ کوئی یہ نہ سمجھ لے کروہ رہتاکہاں اورکوئی اس کے گھرکاپتہ پوچھتاتوصاف کہہ دیتا’’بھائی گھرکاپتہ نہ پوچھواورکوئی خدمت بتاؤجواغواکرتے ہیں وہ گھرکاپتہ صیغہ رازمیں رکھتے ہیں۔‘‘
گھرپہنچتاتوگھرکے ہنگامے میں کھوجاتا۔
گھرمیں وہ آٹھ بچے تھے۔کبھی کسی نے محسوس نہیں کیاتھاکہ گھرمیں کوئی بڑابھی ہے۔بڑاگھرمیں کوئی تھاہی نہیں۔وہ مان کیابڑی بن سکتی ہے۔جوچھ بچے ساتھ لے کرگھرسے بھاگ آئی ہو۔وہ مردکیابڑابن سکتاہے ۔جوچھ بچوں کی ماں کواغواکرلایاہو۔ان حالات میں جوتھوڑی بہت بزرگی اوربڑائی شہزاداورایلی میں تھی ۔وہ بھی خارج ہوچکی تھی۔کس منہ سے وہ عقل و ادراک اخلاق یاسنجیدگی کاڈھونگ رچاتے اورپھران بچیوں کے روبروجوجوان تھیں۔صبیحہ تیرہ سال کی تھی۔نفیسہ بارہ کی اورریحانہ نوسال کی البتہ ایک بات ضرورتھی۔شہزاداورایلی نے کبھی بڑائی ہاتھ سے جانے پرافسوس نہ کیاتھا۔
اگرشہزادکبھی کبھارلڑکیوں کے شورسے تنگ آجاتی اورچلاکرکہتی’’اے لڑکیوسنتی ہو۔‘‘
’’امی۔‘‘نفیسہ ہنستی’’ذرازروسے بولوکچھ سنائی بھی دے۔‘‘
’’کانوں میں تیل ڈال ہواہے کیا؟‘‘
’’تیل تونہیں۔‘‘صبیحہ کہتی۔’’کانوں پرصرف بال ڈالے ہوئے ہیں۔‘‘
’’تمہارادماغ خراب ہوگیاہے۔‘‘
’’دل تواچھاہے ناامی۔‘‘وہ قہقہہ مارکرہنستیں۔
پھروہ سب جھرمٹ ڈال کرامی کے گردآکھڑی ہوتیں اورناچتیں گاتیں ہنستیں۔ایلی کہتا۔
’’شورنہ مچاؤ۔اگرکسی کوہمارے گھرکاپتہ چل گیاتو۔‘‘
’’توکیا۔‘‘وہ جواب دیتیں۔’’یہی ناکہ وہ چٹھی لکھ دے گاہمیں اورچٹھی رساں چٹھی لے آئے گااورہم پڑھ لیں گے۔‘‘
’’اوراگرکسی نے آکرتمہیں چوٹی سے پکڑلیاتو۔‘‘ایلی چلاتا۔
’’توچوٹی کاٹ ڈالیں گے۔‘‘وہ قہقہہ مارکرہنس پڑتیں۔
ان کی زندگی میں ایک مشکل تھی۔جوروزبروزبڑھتی جارہی تھیں۔
ایلی کی تنخواہ صرف سنتالیس روپے تھی۔ایلی اس زمانے میں جوان ہواتھا۔جب پہلی عالمی جنگ کے اثرات رونماہوئے تھے اوردنیامیں مالی بحران کادوردورہ تھا۔بنیادی طورپرایک ٹرینڈگریجویٹ کاگریڈاسی روپے سے شروع ہوتاتھا۔لیکن مالی بحران کی وجہ سے گورنمنٹ کے ملازمین کی تنخواہوں میں تخفیف کردی گئی تھی اوراسی (۸۰)کی جگہ اب پینسٹھ روپے کاگریڈ مقررکردیاگیاتھا۔لیکن پینسٹھ روپے کے گریڈ پرملازم رکھاجائے اورپینسٹھ روپے ایم اے بی ٹی کودیئے جائے۔اس لئے ایلی کی تنخواہ پینتالیس روپے سے شروع ہوئی تھی۔اوراب وہ سنتالیس روپے پارہاتھا۔سنتالیس روپے اتنے بڑے کنبے کے لئے بے حدناکافی تھے۔خصوصاًایک ایساکنبہ جومالی مشکلات کے تصورسے ہی بیگانہ تھا۔
ان کے پاس جوآثاثہ تھاوہ ختم ہوچکاتھااوراب وہ شدت سے مالی مشکلات کومحسوس کرنے لگے تھے۔اس امرکوصرف ایلی ہی محسوس کرتاتھا۔لڑکیاںاس بات سے بے نیازواقع ہوئی تھیں۔روایتی ملکہ کی طرح سوچتی تھیں کہ غریبوں کواگرکھانے کوروٹی نہیں ملتی تووہ کیک پیسٹری کیوں نہیں کھاتے۔
بہرحال یہ امرمسلمہ تھاکہ اگرمالی مشکلات کااحساس ان کے گھرمیں صدردروازہ سے داخل نہ ہواتھا۔توعقبی دروازے سے ضرورداخل ہورہاتھا۔لاشعوری طورپرجانے بغیران کی زندگی میں ان جانی تلخی بڑھنے لگی تھی۔
’’ڈول ہان‘‘
لاہورمیں صرف ایک آدمی تھا۔جو ان کے مکان سے واقف تھا۔وہ تھامحمودکبھی کبھارمحمودآنکلتااورایلی کومیم کی باتیں سناتااورکالج کے قصے بیان کرتا۔محمودسترھواں لے پالک ہونے کے باوجودگھرمیں یوں رہتاتھا۔جیسے الف لیلیٰ میں شہزادیوں کے جھرمٹ میں سلطان رہتے ۔ان کے تالی بجانے پرحبشی جلادہاتھ میں تلواراٹھائے حاضرہوجاتا۔لیکن کبھی کبھارایلی کوشک پڑتاکہ محمودمیں بھی ایک ایلی چھپاہواہے۔جومامتابھری گودمیں لیٹنے کے لئے بلکتاہے۔جسے یہ آرزوہے کوئی اس کی دیکھ بھال کرے۔اس کی ناک پونچھے منہ دھوئے اورپھرپیارسے جھڑک کر
سکول بھیج دے ایلی جذباتی طورپرڈراہوابچہ تھااورذہنی طورپرایک نڈرمفکر۔
ایک روزوہ سب بیٹھے تھے تومحمودآگیا۔اس کے ساتھ ساری میں لپٹی ہوئی ایک گوری چٹی عورت تھی۔جسے اس نے اندربھجوادیا۔
’’ارے یہ کون ہے۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’یہ بھی ہے۔‘‘محمودبولا۔
’’کوئی نئی پھنسی ہے؟‘‘
پھنستی ہی رہتی ہیں۔اب ایک کام کرو۔‘‘محمودبولا۔
’’کیا؟‘‘
’’ایک مولوی بلوادو۔‘‘
’’بھئی نکاح پڑھواناہے۔‘‘
’’اوروہ میم کیاہوئی؟‘‘
ایلی ادھرادھربھاگ دوڑکرایک مولوی لے آیا۔
مولوی صاحب پہلے تومحمودکوکلمے پڑھاتے رہے۔پھرجب ایجاب وقبول کاوقت آیا۔تومولوی صاحب نے کہا۔’’کیاآپ کومحمودولداحمدسکنہ رام پورکی زوجیت میں آناقبول ہے؟‘‘
وہ خاتون بولی’’ہام کومنجوڑہے۔‘‘
اس پرلڑکیاں ہنسنے لگیں۔
ایلی نے حیرت سے خاتون کی طرف دیکھا۔’’ارے آپ تومیم ہیں۔‘‘وہ بولا
میم نے کہا’’ہام’’ڈول ہان‘‘ہے میم ناہیں۔‘‘
مولوی کی جانے کے بعدایلی کے گھرمیں ہنگامہ مچ گیا۔لڑکیاں میم کے سہاگ گانے لگیں۔اسے چھیڑنے لگیں۔میم ہنسے جارہی تھی۔محمودمسکرارہاتھا۔شہزادکی آنکھوں میں مسرت کی پھوہارپڑرہی تھی۔
محموداورمیم کے نکاح کے چندروزبعدمحمودبھاگابھاگاایلی کے پاس آیا۔’’ایلی۔‘‘وہ بولا’’وہ وہ نہیں آئی!‘‘
’’کون نہیں آئی۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’آج ویک انڈہے۔‘‘وہ بولا’’ہرویک انڈپروہ آیاکرتی ہے۔بلاناغہ لیکن اب کی بارنہیںآئی۔‘‘
ایلی نے قہقہہ لگا’’تم پاگل ہو۔‘‘وہ بولا’’خواہ مخواہ پریشان ہورہے ہوجیسے وہ بچی ہو۔‘‘
’’تم نہیں جاتنے ۔‘‘وہ ہنسنے لگا۔’’واقعی وہ بچی ہے۔‘‘
’’بچی ہے۔‘‘ایلی ہنسا۔
’’ہاں۔‘‘محمودنے کہایہ سب بچیاں ہوتی ہیں۔ان کی عمرنہ دیکھوشکل نہ دیکھوصورت نہ دیکھو۔یہ سب بچیاں ہوتی ہیں اورجبھی تک ٹھیک رہتی ہیں جب تک ان پربچی حاوی رہے۔‘‘
’’لیکن گھبرانے کیابات ہے۔‘‘ایلی بولا’’گھبرانے کی بات تونہیں۔‘‘محمودنے کہا’’وہ آئی جونہیں۔‘‘
’’مجھے سمجھ نہیں آئی بات۔‘‘
ڈارٹگنیں
’’مجھے بھی نہیں آئی نا!‘‘محمودنے کہا’’میرادل کہہ رہاہے کہ معاملہ گڑبڑہے۔‘‘
دوروزمحمودمیم کاانتظارکرتارہالیکن وہ نہ آئی۔وہ پھرنئے شہرچلاگیا۔وہاںجاکراپناآپ ظاہرکئے بغیراس نے حالات کاجائزہ لیامعلوم ہواکہ وہاں موجودنہیں۔اس پروہ گھبراگیا۔مزیدپوچھ گچھ پراسے معلوم ہواکہ ایک صاحب اسے ساتھ لے گئے ہیں۔اس کے علاوہ اسے کچھ علم نہ ہوسکا۔
لاہورواپس آکروہ سیدھاایلی کے پاس آیا۔’’غضب ہوگیا۔‘‘وہ بولا۔’’وہ نئی شہرمیں بھی نہیں ہے۔کہتے ہیں کوئی گوراصاحب اسے آکرلے گیاہے۔‘‘
’’کیازبردستی لے گیاہے۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’بھئی ۔‘‘وہ بولا’’اسے کوئی زبردستی لے جائے تواس کے لئے اس سے بڑھ کررومینس کوئی نہ ہوسکتا۔یہ سبھی ایسی ہوتی ہیں۔پہلے روتی ہیں۔چیختی ہیں چلاتی ہیں پھرغم سے نڈھال ہوکرلے جانے والے سے چمٹ جاتی ہیں۔اللہ اللہ خیرسلا۔‘‘
’’کس کی بات کررہے ہو۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
محمودخاموش رہا۔’’کیامیموں کی بات کررہے ہو۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’اونہوں‘‘وہ بولاعورت ہمیشہ عورت رہتی ہے۔چاہے وہ میم ہودیسی ہویاحبشن ہو۔
کوئی فرق نہیںپڑتا۔‘‘
محمودکی بات صحیح نکلی چندہی دنوں کے بعداسے ایک خط موصول ہواجس میں درج تھا۔
’’مجھے اچھی سے معلوم ہے کہ تم غنڈوں کے ایک گروہ سے تعلق رکھتے ہواورتم نے ایک برٹش نیشنل خاتون کوعرصہ درازسے اغواکررکھاہی اورتم نے اسے زبردستی مسلمان کرنے کی قبیح کوشش کی ہے اوردھوکے سے اس کے ساتھ عقدکیاہے۔حالانہ تعزیرات ہندکے تحت کوئی ہندوستانی کسی برٹش نیشنل خاتون سے شادی نہیں کرسکتا۔جب تک خاص اجازت نامہ حاصل نہ کرے لہٰذاتم اورتمہارے دوست دھوکہ دہی اوراغواء کے مرتکب ہوئے ہواورمیں تمہارے خلاف قانونی چارہ جوئی سے گریزنہیں کروں گااوراگرتم اس خاتون سے دوبارہ ملنے کی سعی کی تواپنے اختیارات کوکام میں لاکرمیں تمہیں کیفرکردارتک پہنچاؤں گا۔
خط کے نیچے لمبے چوڑے دستخط کئے ہوئے تھے۔نیچے لکھاتھاکمشنربیجاپور
’’ارے۔‘‘ایلی چلایا۔’’یہ کوئی کمشنرہے۔‘‘
’’یہی تومصیبت ہے۔‘‘محمودبولا’’وہ اسے اغواکرکے لے گیاہے۔اس کی مدت سے آرزوتھی کہ کوئی اسے زبردستی اغواکرکے لے جائے پھرجب تم ان سب کولے آئے اوراس نے یہ قصہ سناتوگویاجلتی پرتیل پڑگیاوہ بھڑک اٹھی۔اس کی یہ خواہش اوربھی مچلی اوراب‘اب یہ ڈارٹگنیںنہ جانے اسے کہاں سے مل گیاہے۔‘‘
محمودسخت گھبرایاہواتھا۔
محمودکے کہنے پرایلی بیجاپورگیا۔۔تاکہ وہاں سے کوائف حاصل کرے۔پہلے تووہ شہرکاجائزہ لینے میں مصروف رہا۔پھراس نے کمشنرکی کوٹھی کاپتہ لگایااوروہاں پہنچ کرباہرانتظارکرتارہاکہ کب کمشنردفترجائے توکوٹھی کے کسی نوکرسے ملے آخرکمشنرکی کارکوٹھی سے باہرنکلی۔کچھ دیرکے انتظارکے بعدوہ کوٹھی کے آؤٹ ہاؤس کی طرف گیااورچوکیدارسے ملا۔چوکیدارایک بوڑھامسلمان تھا۔ایک دیکھ کرایلی کی امیدبندھ گئی۔اس نے چوکیدارکوپانچ روپے تھمادیئے۔’’بابایہ صاحب کس قسم کاآدمی ہے؟‘‘
’’توبہ ہے‘‘بابانے جواب دیا۔’’یہ صاحب توسمجھ کرلوآفت ہے آفت ۔‘‘
’’کیاسخت مزاج ہے ۔‘‘
’’اونہوں بابایہ توبدہے بد۔سارادن بیٹھ کرشراب پیتاہے۔سارادن۔‘‘
’’کیاعمرہوگی؟‘‘
’’بوڑھاہے۔لیکن سخت زانی ہے اورشرابی بھی۔‘‘
’’ایک بات بتاؤں بابا۔‘‘ایلی نے کہااورپھرقدرے توقف کے بعداس نے چوکیدارسے کہا۔
’’تمہاراصاحب ایک مسلمان عورت کوبھگالایاہے۔نئے شہرسے۔‘‘
’’نہ بابو۔‘‘وہ بولا’’یہاںایسی دیسی عورت کبھی نہیں آئی یہاں تومیمیں آتی ہیں۔جواب بوڑھی ادھیڑسبھی آتی ہیں۔‘‘
’’لیکن بابا۔‘‘ایلی نے کہا’’وہ ہے تومیم مگرمسلمان میم ہے۔‘‘
’’باباقہقہہ مارکرہنسا۔‘‘
’’سچ کہتاہوں بابا۔‘‘ایلی نے کہا۔
’’نہ بھئی۔‘‘وہ بولا’’میم مسلمان نہیں ہوتی۔ان میموں کااسلام سے کیاواسطہ۔‘‘
ایلی نے باباکوسمجھانے کی کوشش کی لیکن اس کے ذہن میں میم کامسلمان ہوناممکن ہی نہ تھا۔اس لئے ایلی کی تجویزناکام ہوگئی۔
’’اچھا۔‘‘وہ بولا’’باباایک کام توکرومجھے اس میم کے سامنے لے چلو۔جواس وقت صاحب کے گھرمیں ہے۔‘‘
’’اونہوں۔‘‘بابانے جواب دیا۔‘‘گھرمیں جانے کی کسی کواجازت نہیں۔‘‘
’’توچلوباہرسے ہی جھانکوں گا۔‘‘
باباکویہ بات بھی منظورنہ تھی۔بولا’’نہ بابووہ دیکھ لے یااسے پتہ چل جائے توکھاجائے گا۔
’’ایساسخت ہے ہو۔‘‘
بہرحال ایلی نے کوٹھی کے باہر دوایک چکرلگائے کوٹھی چاروں طرف سے بندتھی۔اس نے کھڑکیوں کے شیشوں سے جھانکنے کی کوشش کی لیکن اندردبیزپردے لٹک رہے تھے۔
ابھی وہ وہیں کھڑاتھاکہ خانساماں کالڑکاآگیا۔
وہ ایلی کوگھورنے لگا۔
ایلی نے اس سے پوچھا’’کوٹھی میں کوئی ہے کیا؟‘‘
’’نہیں بابو۔‘‘وہ بولا’’صاحب اکیلے ہی رہتے ہیں۔‘‘
’’کوئی مہمان عورت تونہین آئی ہوئی؟‘‘
’’نہیں۔وہ بولا۔
’’جھوٹ نہ بولو۔‘‘ایلی نے کہا۔’’مجھے معلوم ہے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘لڑکے نے اقبال کرتے ہوئے اشارہ کیا۔’’پروہ بندہے۔‘‘
’’بندہے۔‘‘ایلی بولا۔
’’ہاں۔‘‘لڑنے نے ڈرتے ہوئے ادھرادھردیکھ کرکہا’’صاحب تالہ لگاکرجاتاہے۔‘‘
ابھی وہ بات ہی کررہے تھے کہ ایک موٹرکے آنے کی آوازسنائی دی۔وہ سب بھاگ کرآؤٹ ہاؤس کی طرف چلے گئے۔تاکہ صاحب انہیں دیکھ نہ لے۔ایلی نے دورسے چھپ کردیکھا۔ڈارٹگنیں ادھیڑعمرختم کرچکاتھا۔اس کاجسم بھداتھا۔چہرے پرشراب نوشی کے واضح آثارتھے اور اس کے ساتھ ہی جابرانہ رحجانات مترشح ہورہے تھے ۔اس کی شکل وصورت ان فلمی غنڈوں کی سی تھی۔جوہیروئین کواٹھاکرلے آتے ہیںاوراسے قلعہ کے زیرین کمرے مین مقفل کردیتے ہیں۔
محمودنے جب یہ سناتواس نے سرپیٹ لیا۔’’بس سمجھ لوقصہ ختم ہوگیااسے تودیرسے یہ خواہش تھی کہ کوئی ظالم قسم کاجابرآدمی اسے پکڑکرلے جائے اورکسی قلعہ میں بندکردے۔‘‘
محمودکی بات سچ ثابت ہوئی۔میم نے اسے ملنے کی کوئی کوشش نہ کی۔ممکن ہے اسے کوشش کرنے کاموقعہ ہی نہ ملاہو۔وہ لمبی رخصت پررہی اس لئے نئے شہرواپس نہ آئی۔بلکہ وہیں سے ڈارٹگنیں نے اپنے قلم سے درخواست بھیج دی جس میں تحریرتھاکہ مسزفلپ (سابقہ)کوریٹائرکردیاجائے اورجورقوم اسے واجب الاداہیں ان کی تفیصل بھیج دی جائے۔
مسٹرڈراٹگنیں خودبنشن پارہاتھا۔نیتجہ یہ ہواکہ ایک ماہ کے اندراندروہ دونوں ہندوستان چھوڑکرساؤتھ افریقہ چلے گئے اورسترہواں لے پالک لاہورمیںبے بس بیٹھاحالات کامنہ تکتارہا۔
لذت مظلومیت
شایداس لئے کہ وہ اسم باسمےٰ تھایاویسے ہی شریف ایک مظلوم شخص تھا۔اس نے فطرتاً
یاعادتاً اپنی تمام تراہمیت کاانحصاراپنی مظلومیت پراستوارکررکھاتھا۔پہلے وہ انورکے عشق میں سرشارتھا۔اس حدتک سرشارکہ شہزادسی رنگیلی بیوی کے ہوتے ہوئے بھی مظلومیت کی لذت میں کھویارہا۔یہ کہناکہ اسے شہزادسے محبت نہ تھی غلط ہوگا۔اسے واقعی شہزادسے محبت تھی۔اسے شہزادپرنازتھا۔وہ اس کی رنگینی سے کماحقہ‘واقف تھا۔وہ شہزادکے لئے سبھی کچھ کرنے کوتیارتھا۔لیکن مظلومیت کے احساس کوردنہ کرسکتاتھایہ احساس اس کی گھٹی میں پڑاہواتھا۔سال ہاسال کے عشق نے اسے اوربھی اجاگرکردیاتھا۔اب وہ تقریباً اپنی مظلومیت اورنام عشق کاپرچارکرتاتھا۔اسے خیال نہ آیاتھاکہ ایک نگین بیوی کی موجودگی میں کسی اورعورت کے عشق میں آہیں بھرنااچھے نتائج پیدانہیں کرتا۔
شریف کویقین تھاکہ خودشہزاداس کے عشق میں گرفتارہے۔چونکہ اسے تھیلی کے مینڈک کی بات نہ بھولی تھی۔
بہرصورت انورکے عشق کی ناکامی تواس کے لئے ایک رنگین غم تھا۔چونکہ ازلی طورپرشریف ایک سچااورخالص عاشق نہ تھا۔بلکہ ایک سچے عاشق کی طرح ہجرپسندواقع ہواتھا۔انورسے محروم ہوجانے پراسے صدمہ توضرورہوا۔۔۔۔مگروہ صدمہ ایسے ہی تھاجیسے بطخ کے لئے پانی کاطوفان ہوتاہے۔
شہزاداوربچوں کااپنی مرضی سے شریف کے گھرسے نکل آناشریف کے لئے ایک شدیدصدمہ تھا۔ایک ایساصدمہ جس میں رنگینی کاعنصرنہ تھا۔الٹااس میں خفت اوررسوائی تھی۔ایسی رسوائی جوعشق کی رسوائی سے قطعی طورپرمختلف ہوتی ہے۔لہٰذااس پرہسٹیریاکادورہ پڑگیاتھا۔اوراس دورے کے تحت وہ اپنے آپ سے باہرنکل آیاتھا۔اورمحلے میں آکراس نے غیرازمعمول آگ لگادی تھی۔
کچھ دیرکے بعدجب ہسٹیریاکی شدت مدھم پڑگئی تواس نے محسوس کیاکہ اس رویے سے تورسوائی اوربھی بڑھ رہی تھی۔اس کی بنیادی انانے اسے للکارااوروہ چپ چاپ علی پورسے روانہ ہوگیااوراپنی نوکری پرحاضرہوگیا۔
اس صدمہ کی شدت کے ختم ہونے پرشریف نے محسوس کیاکہ وہ میٹھامیٹھادردجوباقی رہ گیاتھا۔اس کے لئے باعث تسکین ہے۔ایک غم خورکوگویاہمیشہ کے لئے غم کی ایک دولت گراں مایہ مل گئی تھی۔
اس دولت کوپاکروہ اپنے پرانے کوئے میں گھس گیااوراس نے اپنی طبعی قنوطیت کالبادہ اوڑھ لیا۔
غم خورکے لئے سب سے بڑی ضرورت ایک ساتھی کی ہوتی ہے جس سے اظہارغم کیاجاسکے اوراپنی محرومیت اورزمانے کے مظالم کارونارویاجاسکے اس لئے شریف نے فیصلہ کرلیاکہ وہ اپنی پرانی زندگی کویکسربھول جائے گااورایک نیاورق الٹے گا۔یہ نیاورق ایک نئی شادی اورنئی بیوی تھی۔لیکن ایسی بات اپنے منہ سے کہہ دینایاشعوری طورپراس پرسوچناایک غم خورکے لئے ممکن نہ تھا۔لہٰذا اس نے جلدہی ایسے حالات پیداکرلئے کہ اس کی ہمشیرہ نے یہی تجویزبھائی کے سامنے پیش کردی اس پروہ حیرت سے بہن کامنہ تکنے لگا’’یہ تم کیاکہہ رہی ہوحمیدی۔‘‘ اس نے ملامت سے بہن کی طرف دیکھااورمجبورہوکربہن کی بات مان لی شادی کے روزوہ بہت رویاجیسے اسے اپنی طبیعت کے خلاف کسی بات پرمجبورکردیاگیاہو۔نتیجہ یہ ہواکہ حمیدی نے نیازمرحومہ کی بڑی بیٹی رشیدہ بانوسے شریف کابیاہ کردیا۔رشیدہ کے لواحقین کویہ ڈرتھاکہ کہیں شریف کی بیوی شہزاداپنے چھ بالکوں کو لے کرپھرسے شریف کے گھرنہ آدھمکے اس لئے انہوں نے صاف کہہ دیاکہ شہزادکوطلاق دے دوتومناسب ہے۔شریف اعلانیہ شہزادکوطلاق دینے کے حق میں نہ تھا۔وہ چاہتاکہ شہزادقانونی طورپرآزادنہ ہوسکے۔اس لئے اس نے چوری چوری طلاق نامے پردستخط کردیئے اوراس بات کومخفی رکھا۔
شریف کے گھرایک نئی بیوی آگئی۔جس کے سامنے وہ صبح وشام اپنی مظلومیت کاقصہ بیان کرسکتاتھا۔آہیں بھرسکتاتھا۔چھت کوٹکٹکی باندھ کردیکھ سکتاتھاگویامینڈک کوپھرکیچڑبھراکنارہ مل گیااورپھرسے اپنے آشیاں میں آبیٹھا۔
محض اتفاق سے اس خفیہ طلاق کی خبرایلی اورشہزادتک پہنچ گئی۔اس روزوہ یوں محسوس کررہے تھے۔جیسے انہوں نے ایک دوسرے کوپہلی مرتبہ دیکھاہو۔جیسے وہ ازسرنوعشق میں گرفتارہوگئے ہوں۔اگرچہ جہاں تک ظاہرکاتعلق تھا۔وہ دونوں سمجھتے تھے کہ یہ قانوی نقطہ ایک بے معنی بات ہے۔وہ دونوں توعرصہ درازسے ایک دوسرے کے ہوچکے تھے۔اس کے باوجودوہ بے حدخوش تھے اورساتھ ہی اس خوشی کوتسلیم کرنے کے لئے تیارنہ تھے۔
جب وہ دونوں ایک بوڑھے مولوی کے سامنے بیٹھے توایلی کادل دھک دھک کررہاتھا۔۔۔شہزادپھرسے مونگیاگٹھڑی بنی بیٹھی تھی۔پھرجب وہ گھرواپس پہنچے تولڑکیوں نے ان کے گردجھرمٹ لگالیا۔نفیسہ ناچنے لگی۔صبیحہ گارہی تھی۔وہ سب مل کرانہیں چھیڑرہے تھے۔تنگ کررہے تھے۔ان سے مذاق کررہے تھے۔
اس واقعہ کو ایک سال گزرگیا۔اب وہ قطعی طورپرآزادتھے۔اب انہیں چھپ کررہنے کی ضرورت نہ رہی تھی۔سکول میں لوگ بھول چکے تھے ایلی کے متعلق اخبارات میں خبریں چھپی تھیں۔مسٹرمعروف کویہ امریادنہ رہاتھاکہ اس کے خلاف خطوط موصول ہوتے رہے تھے۔محلے والوں کے دلوں میں ان کے لئے نفرت نہ رہی تھی ایک دوشریف کے رشتہ دارتھے جوایلی کانام سن کرتیوری چڑھاتے یانفرت سے منہ پھیرلیتے باقی لوگوں کوان کے ساتھ کوئی عنادنہ رہاتھا۔
دو ابن الوقت
پھرایک روزان کے ہاں علی احمدآگئے۔شہزادکے آنے کے بعدیہ پہلاموقعہ تھاکہ علی احمدان کے ہاں آئے تھے۔آتے ہی انہوں نے شورمچادیا۔کیوں بھئی شہزادکوئی حقہ وقہ بھروکوئی چائے وائے پلاؤ۔مہمان آئے ہیں۔ایلی اورشہزادعلی احمدکودیکھ کربے حدخوش ہوئے۔’’میں نے کہا۔‘‘وہ بولے۔’’جب توہم سے آنکھ بھی نہیں ملاتی تھی۔اب بولو۔‘‘شہزادہنسنے لگی۔’’اب ہنستی ہے ۔جب دیکھ کرتیوری چڑھاتی تھی۔‘‘
’’جب کی بات جب کے ساتھ۔‘‘وہ وبولی ۔’’اب کی اب کے ساتھ۔‘‘
’’تو تم اب الوقت ہو۔‘‘علی نے قہقہہ لگایا’’کہ جب اوراب کاخیال رکھتی ہو۔‘‘
’’آپ بھی توہیں ابن وقت۔‘‘وہ چلانے لگی۔
’’وہ کس طرح۔‘‘علی احمد نے پوچھا۔
’’جب آپ کی نگاہ اورہوتی تھی اب اورہے۔‘‘
’’ہی ہی ہی ہی۔‘‘وہ ہنسے۔’’تو تم نگاہ کوپہچانتی ہو۔ہی ہی ہی ہی۔لیکن ہمارے کمال کی بھی داددونابھئی موقعہ اورمحل سمجھتے ہیں کیاکہتی ہے۔‘‘
پھروہ لڑکیوں کی طرف متوجہ ہوگئے۔’’توتم نگاہ کوپہچانتی ہو۔ہی ہی ہی ہی۔لیکن ہمارے کمال کی بھی داددونابھئی موقعہ اورمحل سمجھتے ہیں کیاکہتی ہے۔‘‘
پھروہ لڑکیوں کی طرف متوجہ ہوگئے۔’’بائی بائی۔‘‘وہ چلانے لگے۔’’یہ توسب جوان ہوگئی ہیں۔عورت نے دنیامیں دھاندلی مچارکھی ہے۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘شہزادبولی۔
’’آج دیکھوتوبچی ہوتی ہے کل دیکھوتوجوان اورپرسوں دیکھوتوماں بن کربیٹھی ہوتی ہے۔عورت ذات توہاتھ پرسرسوں ہے ادھررکھی ادھراگی۔کیاکہتاہے ۔اب توبھائی اپناآپ بھول جاؤاوران کافکرکروکیوں شہزادلیکن شہزادکہاں اپناآپ بھولتی ہے۔اب بھی آئینہ کے سامنے کھڑی ہوجاؤتو۔۔۔کیوں۔ہی ہی ہی ہی۔‘‘وہ قہقہہ ماکرہنسنے لگے۔
’’میں نے کہا۔‘‘شہزادبولی۔’’اب توآپ پنشن پاچکے ہیں۔‘‘
’’ہاں ہاں۔‘‘وہ بولے۔
’’اورمحلے ہی میں رہتے ہیں۔‘‘
’’لواورکہاں رہناہے ہم نے ۔‘‘
’’تومحلے میں جوہنگامہ ہواتھااس کی وجہ سے آپ بڑے پریشان ہوئے ہوں گے۔‘‘وہ قہقہہ مارکرہنسے’’ہاں۔‘‘وہ بولے۔’’بڑافسادمچاتھامحلے میں۔آگ لگ گئی تھی۔لیکن شورزیادہ تھااورفسادکم‘ہمیں بڑی بڑی دھمکیاں دیں۔میدان میں کھڑے ہوہوکرہمیں للکارا۔لیکن ان باتوں سے کیاہوتاہے ہمارے لئے کوئی نئی بات نہیں۔‘‘وہ قہقہہ مارکرہنسے۔’’ہم نے بھی ایسی چال چلی کہ سب کوالوبنادیا۔ہی ہی ہی ہی۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘شہزادنے پوچھا۔
’’جب وہ ہمارے پاس آئے محلے کے معززلوگ۔کہنے لگے کہ بتائیے اس معاملے میں آپ ایلی کاساتھ دیں کے محلے والوں کا‘تومیں نے کہا:۔
’’بھئی محلے والے توشریف کاساتھ دے رہے ہیںنا؟ہاں ہاں وہ بولے چونکہ شریف شرافت اورسچائی پرہے‘بالکل درست ہم مانتے ہیں کہ شریف بے حدشریف ہے اورایلی نے اس سے زیادتی کی ہے بلکہ ظلم کیاہے‘اس پروہ بولے توپھرآپ شریف کاساتھ دیں گے۔بالکل‘میں نے کہا۔دل وجان سے۔اس حدتک شریف کاساتھ دینے کے لئے تیارہوں کہوتوایلی کوعاق کردوں اوراس کی والدہ کوطلاق دے دوں۔لیکن میری ایک شرط ہے۔’’کیاہے؟‘‘وہ پوچھنے لگے۔
’’شرط یہ ہے کہ شریف سب کے روبروقسم کھاکرکہے کہ میں پورے عزم اوراستحکام سے اس معاملے کی پیروی کروں گا۔‘‘میں نے کہا۔’’دیکھوناشریف ایک سادھوقسم کاآدمی ہے اسے دنیاسے لگاؤ نہیںکسی سے دشمنی اس کے دل میں نہیں۔اس کاکیاہے کل اس جھگڑے کوچھوڑچھاڑکرچلاجائے اوراعلان کردے کہ میں نے سب کومعاف کیاتوپھرہماراکیاہوگا۔دیکھونابزرگو‘میں نے کہا۔’’ہم دنیادارلوگ ہیں ایسانہ ہوناکہ ہم شریف کاساتھ دیں لیکن شریف ہماراساتھ نہ دے اورہم اپنے عزیزوں سے بھی محروم ہوجائیں۔‘‘علی احمدقہقہہ مارکرہنسے۔
’’نتیجہ یہ ہوا۔‘‘علی احمدبولے۔’’کہ ان میں پھوٹ پڑگئی۔کچھ لوگوں نے یہی اعتراض پکڑلیااورپھرہواوہی ایک روزشریف چپکے سے محلہ چھوڑکرچلاگیا۔ہی ہی ہی ہی۔اس روزہم نے محلے والوں سے کہا دیکھاہم نے کہاتھا۔ہمیں اس بات کاڈرتھا۔پھرتووہ سب شریف کے خلاف ہوگئے۔‘‘علی احمدہنسنے لگے۔
علی احمدکے آنے کے بعدگویاعزیزوں کاتانتابندھ گیا۔ہاجرہ کئی مرتبہ ایلی اورشہزادسے ملنے آئیں۔فرحت نے بھی دوباران سے ملاقات کی ۔پھرمحلے کے لوگ بلاتکلف آنے جانے لگے۔
دوطوفان
ایک روزجب ایلی ارم پورہ میں اپنے فرائض سے فارغ ہوکرگھرپہنچاتواس نے دیکھاکہ لڑکیاں چپ چاپ بیٹھی ہیں اورگھرپراداسی چھائی ہوئی ہے۔
’’شہزادکہاں ہے۔‘‘اس نے پوچھا۔’’امی کوہسپتال لے گئے ہیں۔وہ بیمارہوگئی تھیں۔‘‘نفیسہ بولی۔
’’کون لے گئے ہیں؟‘‘اس نے پوچھا۔
’’پڑوسیوں نے انہیں ہسپتال پہنچادیاہے۔‘‘
ایلی ہسپتال پہنچاتواسے معلوم ہواکہ معاملہ نازک ہے اورشہزادکی زندگی خطرے میں ہے اس کے پیٹ کابچہ مرچکاہے اورمردہ بچے کازھراس کے جسم میں سرایت کرچکاہے۔
وہ رات خوفناک رات تھی۔سردیوں کے دن تھے۔بارش اورہواکاطوفان چل رہاتھا۔ہسپتال کے چوکیدارکے پاس ایلی کمبل میں لپٹاہوابیٹھاتھا۔نرس کی اطلاع کے مطابق اندرشہزادآپریشن ٹیبل پرپڑی تھی۔اورڈاکٹرسوچ رہے تھے کہ آیاوہ آپریشن کی تکلیف برداشت کرسکے گی یانہیں۔
ایلی آگ کے پاس بیٹھاتھا۔اس کے ذہین میں بیرونی طوفان سے زیادہ شدیدطوفان چل رہاتھا۔کیایہی اسے قصے کاانجام تھا۔سالہاسال کی تگ ودوکے بعدجب کہ وہ جیون ساتھی بن چلے تھے کیاقدرت کویہی منظورتھاکہ وہ پھرجداہوجائیں۔اگرشہزادکوکچھ ہوگیاتوبچوں کاکیاہوگا؟وہ سوچ رہاتھا۔
بیتے ہوئے لمحات اس کے سامنے پردہ فلم کی طرح آرہے تھے۔جب وہ شہزادکوپہلی دفعہ بیاہ کرلائے تھے اورملحقہ ڈبے میں مونگیاگٹھڑی بنی ہوئی تھی۔حنامالیدہ ہاتھ گٹھڑی سے نکلے تھے۔یہ ہے ایلی۔کسی نے کہااوردوناگ اس کے سرپرمنڈلانے لگے تھے۔
پھرجب وہ کہانی سنارہی تھی اورایلی نے محسوس کیاتھاکہ اس کے انگوٹھے پرایک رنگین بوجھ ساپڑگیاتھااوراس کاسربھن سے اڑگیاتھاجیسے کسی نے ہوائی کوآگ دی ہواوران جانے میں اس نے حنامالیدہ ہاتھ تھام لئے تھے اورنہ جانے جذبے کی شدت میں کیاکہہ دیاتھا۔’’تم ایلی ہو۔۔۔‘‘شہزادنے حیرت سے اس کی طرف دیکھاتھا۔
پھربندبیٹھک میں اپنے مردانہ پن کی دھاک جمانے کے لئے وہ سکندرکی طرح حملہ آورتھااورپھرپورس کی طرح منہ میں گھاس لئے اس کے قدموں میں پڑاہواتھا۔
پھروہ بے نیازورزن اس کے روبروبیٹھی تھی۔جوقریب ہوکراس سے دورہوجاتی تھی اوردورہوتی توگویااس کے گودمیں آبیٹھتی ۔وہ اجنبی عورت کی طرح اس کے روبروکھڑی تھی۔وہ صفدرسے ہنس ہنس کرباتیں کررہی تھی اورایلی کی طرف حقارت سے دیکھ کرکہہ رہی تھی ’’تم!‘‘اس تم میں کتنی دھارتھی۔اس کادل ٹکڑے ٹکڑے ہوگیاتھا۔
پھروہ چلارہاتھا۔’’تم رذیل کمینی عورت ہو۔آج پھرمیرے روبروآتے ہوئے تمہیں شرم نہیں آتی کیا؟‘‘اوروہ اس کے قدموں میں گرکرکہہ رہی تھی’’ہاں۔۔ہوں۔‘‘پھرصفدرچلارہاتھا۔’’میں نہیں مروں گامیں نہیں مروں گا۔۔۔مجھے معاف کردو۔مجھے معاف کردو۔۔۔‘‘اوراب شہزادآپریشن ٹیبل پرپڑی ایلی سے کہہ رہی تھی۔’’مجھے معلوم تھا۔میں تم سے پہلے مروں گی۔ہمیشہ سے مجھے اس کاعلم تھا۔میرادل گواہی دیتاتھا۔مجھے کوئی غم نہیں صرف میری بچیاں۔‘‘اس نے آخری ہچکی لی۔۔۔ایلی گھبراکرچونک پڑا۔چوکیدارجاچکاتھا۔آسمان پرہلکی ہلکی سفیدی چھائی ہوئی تھی۔طوفان تھم چکاتھا۔نرس اسے جھنجھوڑرہی تھی۔’’آپریشن کامیاب رہا۔تمہیں مبارک ہو۔‘‘ایلی کویقین نہیں آتاتھا۔اس کے دل میں کوئی خوشی پیدانہ ہوئی اوروہ اسی طرح دیوانہ وار بیٹھارہا۔اسے سمجھ نہیں آرہاتھاکہ کہاں جائے۔کیاکرے۔
پھرہسپتال کابھنگی اس کے روبروکھڑاتھا۔مردہ بچے کی لاش لے جاؤ۔‘‘وہ کہہ رہاتھا۔
لاش!ایلی سوچنے لگا۔لاش کوکہاں لے جاؤں۔کیاکروں۔لاش!!
بھنگی اسے جھنجھوڑرہاتھا۔’’ابھی لے جاؤ۔‘‘وہ کہہ رہاتھا۔’’اسی وقت ۔اٹھانے والاہے
کوئی۔‘‘ایلی حیرت سے اس کامنہ دیکھ رہاتھا۔
بوندبوند
شہزادہسپتال سے واپس آئی توایلی اسے دیکھ کرگھبراگیا۔یہ وہ شہزادنہیں تھی۔جس سے وہ واقف تھا۔یہ کوئی اورہی شہزادتھی۔اس کاجسم ہڈیوں کاڈھانچہ تھا۔گال بری طرح پچک گئے۔ہڈیاں ابھرآئی تھیں۔ماتھے کاتل گویاگل ہوگیاتھا۔اس میں وہ روشنی نہ رہی تھی۔جیسے کسی نے دیپ بجھاکراس کی گذشتہ روشنی کی یادتازہ رکھنے کے لئے اسے ان طاقوں پررکھ دیاہو۔آنکھوں میں چمک باقی تھی۔لیکن اس چمک میں مایوسی کادھندلکاشامل ہوگیاتھا۔ناک ابھرآئی تھی۔ہونٹ گویابھنچ گئے تھے۔دانت نکل آئے تھے۔
اسے ڈسچارج کرتے ہوئے ڈاکٹرنے کہااسے اچھی غذاکی ضرورت ہے اچھی غذااورکیلشیم لیکن جب وہ گھرپہنچی تھی توان کے ہاں کچھ آٹااورتھوڑی سی دال کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ان کی غربت روزبروزبڑھتی جارہی تھی۔سرپرقرض کاطومارکھڑاہوگیاتھاجسے اداکرنے کی کوئی صورت نہ تھی۔لیکن اس سے بڑی مشکل یہ تھی کہ قرض حاصل کرنے کے مزیدامکانات بالکل ختم ہوچکے تھے۔
لاہورمیں ایلی کے ماموں زادبھائیوں رفیق جمیل اورخلیق نے اس کی بے حدامدادکی تھی۔جمیل ابھی تک خان پورمیں تھا۔رفیق لاہوررہتاتھاچونکہ اس کی تبدیلی ہیڈآفس میں ہوچکی تھی ۔خلیق اب ڈاکٹربن چکاتھااوراکثرلاہورآیاکرتاتھا۔ان کے علاوہ اس کے خالہ زادبھائی یوسف نے ان کی ساتھ بہت ہمدردی کی تھی۔لیکن انہیں توآئے دن امدادکی ضرورت رہتی تھی۔کبھی کبھارکی بات ہوتی توبھی وقت گزرجاتا۔روزکی حاجت مندی کاکیاعلاج ہوسکتاتھا۔
دوسری مشکل یہ تھی کہ دولڑکیاں اب جوان ہوچکی تھیں۔ان میں شہزادکی سی رنگینی تونہ تھی۔لیکن پھربھی وہ شہزادکی بیٹیاںتھیںاوراسی گھرمیں پل کرجوان ہوئی تھیں۔لہٰذاان کی طبائع میں وہ گھٹاگھٹاپن نہ تھا۔محلے کی تمام عورتیں ان کے سحرسے مخدوش تھیں۔وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کے شوہریابھائی یابیٹے شہزادکے گھرجائیں اوران سے ملیں۔اس لئے یہ سب لوگ چوری چھپے وہاں آتے تھے۔
ان کے آتے ہی فرش بچھادیاجاتااورپھرسب مل کرتاش یاچوپٹ کھیلنے بیٹھ جاتے اورکھیل میں وہ سب ہنستے چیختے چلاتے قہقہے لگاتے۔گیت گنگناتے اورشورمچاتے۔ایک دھماچوکڑی لگی رہتی۔لیکن اس کے جاتے ہی مالی دقتوں کااحساس بیدارہوتااورشہزادایک طرف لیٹ کرسوچتی اورآہیں بھرتی۔
لڑکیاں طبعاً ہنسنے پرمجبورتھیں یاان کاعنفوان شباب انہیں مسکرانے پرمجبورکرتاتھا۔اس لئے وہ ہنستی رہتی تھیں۔لیکن اس کے دل کی گہرائیوں میں بھی پچھتاوے کی بونداباندی شروع ہوچکی تھی۔غالباً وہ اس احساس کااظہارصرف ماں کے ساتھ کیاکرتی تھیں۔جس کی وجہ سے وہ مغموم اورافسردہ رہنے لگی تھی۔شہزادکوذاتی طورپرکوئی غم نہ تھانہ وہ پچھتانے کی قائل تھی غالباً اسے بیٹیوں کے غم نے اندرسے کھوکھلاکردیاتھا۔
ایلی نے آنے سے پہلے باربارشہزادسے کہاتھاکہ مالی مشکلات ہوں گی۔اس لئے سوچ لوکیاتم انہیں برداشت کرسکوگی۔لیکن ان دنوں شہزاداس کے اس سوال کواہمیت نہ دیتی تھی۔ایلی کواس بات پرغصہ آتاتھاکہ اب وہ کیوںاکیلی پری رہتی ہے کیوں آہیں بھرتی ہے۔کیوں غم کھاتی ہے۔
شہزادکواپنی بڑی لڑکیوں کی تعلیم کابھی غم تھا۔جب وہ گروپتن سے آئی تھیں۔تودونوں نویں جماعت میں تعلیم پارہی تھیں۔ان کے دوسال پہلے ہی ضائع ہوچکے تھے۔پہلے سال توانہیں کسی سکول میں داخل کرنے کاسوال ہی پیدانہ ہوتاتھا۔دوسرے سال میں انہیں نے کئی بارکوشش کی تھی کہ گروپتن سے ان کے سرٹیفکیٹ دستیاب ہوجائیں۔لیکن شریف نے ہیڈمسٹرس کولکھ کردے دیاتھاکہ جب تک وہ خودان کے سرٹیفکیٹ طلب نہ کرے۔سرٹیفکیٹ جاری نہ کئے جائیں۔لہٰذاان کادوسراسال بھی ضائع ہوگیاتھااورشہزادکوڈرتھاکہیں تیسراسال بھی ضائع نہ ہوجائے۔بوندبوندغم اس کی روح میں سرایت کررہاتھا۔
دوپاگل
پھرایلی کاتبادلہ شاہ وال ہوگیااوروہ سب شاہ وال چلے گئے!
شاہ وال ایک بڑاقصبہ تھاجولاہورسے تیس چالیس میل کے فاصلہ پرواقع تھا۔ابھی دوشاہ وال پہنچے ہی تھے کہ شہزادپھربیمارپڑگئی۔اسے خون جاری ہوگیا۔لیڈی ڈاکٹرنے جواب دے دیا۔بولی۔’’اس لاہورہسپتال میں لے جائیے۔لاہورہسپتال کے ڈاکٹروں نے معائنہ کرنے کے بعدفیصلہ کہ مریضہ کااندرونی جسم مردہ بچے کے زہرکی وجہ سے گل گیاہے۔آپریشن ہوگا۔
کیاآپریشن کے بعدمریضہ یقینی طورپرٹھیک ہوجائے گی۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’یقین سے نہیں کہاجاسکتا۔‘‘ڈاکٹربولا۔زیادہ امیدنہیں۔‘‘
’’اوہ۔‘‘ایلی سوچ میں پڑگیا۔
جب وہ شہزادسے ملاتوبولی’’میں آپریشن نہیں کراؤں گی۔‘‘
’’کیوں۔‘‘اس نے پوچھا۔
’’بے کارہے۔‘‘ وہ بولی۔
’’بے کارکیوں۔‘‘
’’وہ کہتے ہیں سڑاندپچھلی جھلی تک پہنچ چکی ہے اورخون بندنہیں ہوگا۔‘‘
’’توپھر۔‘‘
’’مجھے لڑکیوں کے پاس لے چلو۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ایلی نے سرجھکالیا۔
جب شہزادلیڈی ڈاکٹرسے ہسپتال چھوڑنے کی اجازت طلب کرنے گئی توڈاکٹرنے صاف انکارکردیا۔’’بے وقوف مت بنو۔‘‘وہ بولی۔’’اگرتم ہسپتال چھوڑکرچلی گئی توزیادہ سے زیادہ پندرہ روزجیئوگی۔
’’اوراگرمیں ہسپتال میں رہوں تو۔‘‘
’’توتو۔۔۔شاید۔‘‘
شہزادنے اپنے کپڑوں کی گٹھڑی اٹھالی۔ڈاکٹرگھبراگئی۔’’نہیں نہیں۔‘‘وہ بولی۔
’’مجھے کون روک سکتاہے۔‘‘شہزادنے کہااورباہر نکل آئی۔ڈاکٹراس کے پیچھے پیچھے تھی۔ڈاکٹرنے ایلی کودیکھ کرشورمچادیا۔’’اے مسٹر۔یہ تمہاری مسزدیوانی ہوگئی ہے۔جان بوجھ کرخودکشی کررہی ہے۔اے مسٹر۔‘‘
ایلی رک گِا۔’’یہ عورت پاگل ہے۔‘‘ڈاکٹرچلائی۔
’’ہم دونوں پاگل ہیں۔‘‘وہ بولا
’’ارے ۔‘‘ڈاکٹربولی۔’’تم پڑھے لکھے نظرآتے ہو۔‘‘
’’ہاں۔‘ایلی نے کہا’’میں پڑھالکھاپاگل ہوں۔‘‘
’’ارے ۔‘‘وہ گھبراکرپیچھے ہٹ گئی۔دونوں پاگل باہر نکل آئے۔شہزادنے ایلی کاہاتھ تھام لیا۔بولی۔’’ایلی ۔‘‘
’’جان من ۔‘‘وہ بولا۔
’’پندرہ دن ہیں۔‘‘اس کی آنکھ میں مسرت کی چمک تھی۔
’’ہاں۔‘‘
’’پندرہ دن ہم اکٹھے رہیں گے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’پندرہ دن بہت ہوتے ہیں۔‘‘
’’ہاں ہاں۔‘‘وہ بولا۔
’’تم نے کہیں باہرتونہیں جانا۔‘‘
’’نہیں جاؤں گا۔‘‘
’’ہم اکٹھے بیٹھ رہیں گے۔‘‘
’’بالکل ۔‘‘
’’اورپھرہم بیٹھ کرسب باتیں دہرائیں گے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’جب میں نے تمہیں پہلی مرتبہ دیکھاتھا۔‘‘
پن۔درہ۔دن
اپنی ہی دھن میں پاگل پیدل چلے جارہے تھے۔
’’بابوجی تانگہ چاہیئے۔‘‘تانگے والے نے قریب آکرپوچھا۔
’’تانگے پرچلوگی۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’کیاکرتاہے۔‘‘ وہ بولی۔
’’چلتے ہوئے تمہیں تکلیف ہوگی۔‘‘وہ بولا۔
’’تکلیف ‘‘۔۔وہ ہنسی ۔’’اب کیاہے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘وہ بولا۔’’اب کیاہے۔‘‘
’’ایلی ۔‘‘وہ بولی۔
’’جی۔‘‘
’’ایک بات کہوں۔‘‘
’’کہو۔‘‘
’’مانوگے؟‘‘
’’مانوں گا۔‘‘
’’شروع سے ہی مجھے معلوم تھا۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’کہ میں پہلے مروں گی۔‘‘
’’واقعی؟‘‘
’’ہاں۔جب بھی تم میرے پاس آیاکرتے تھے توکوئی میرے کان میں کہتا۔تم پہلے مروں گی۔‘‘
’’اچھا۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’کون کہتاتھا؟‘‘
’’معلوم نہیں۔لیکن مجھے معلوم تھاوہ سچ کہتاہے۔‘‘
’’بس اتناہی کہتاتھا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘وہ بولی۔
’’تو؟‘‘
’’ایک بات اورکہتاتھا۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘
’’کہتاتھا۔۔نہیں بتاؤں گی۔‘‘اس کی آنکھوں میں آنسوبھرآئے۔
’’نہ بتاؤ۔‘‘وہ بولا۔’’لیکن تم روتی کیوں ہو۔‘‘
’’ہاں روتی ہوں۔‘‘وہ بولی۔
’’اچھاجیسے تمہاراجی چاہے۔‘‘
’’اس لئے نہیں روتی کہ پندرہ دن اورہیں۔‘‘
’’توکس لئے؟‘‘
’’وہ دوسری بات کہتاتھا۔اس پر نہ جانے کیوں اس کی دوسری بات سن کرمیںہمیشہ روتی رہی چھپ چھپ کرروتی رہی۔‘‘!
’’کیاکہتاوہ ایسی کیابات ہے؟‘‘
’’کہتاتھا۔۔بتادوں؟‘‘
’’تمہاری مرضی۔‘‘
’’کہتاتھا۔تمہارے مرنے کے بعداس کی زندگی شروع ہوگی۔‘‘
’’کس کی زندگی؟‘‘
’’تمہاری۔‘‘
’’زندگی ختم ہوجائے گی یاشروع ہوجائے گی۔‘‘
’’شروع ہوگی۔‘‘وہ بولی۔
’’اس میں رونے کی کیابات ہے؟‘‘
’’مجھے محسوس ہوتاتھا۔جیسے میں تمہارے راستے کی رکاوٹ ہوں۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
’’اورتمہاری زندگی شروع نہیں ہوسکتی جب تک رکاوٹ دورنہ ہو۔‘‘
’’بے وقوف تم رکاوٹ نہیں زندگی ہو۔تم چلی گئی توسب کچھ ختم ہوجائے گا۔‘‘
’’سچ۔‘‘وہ بولی۔
’’تمہاری قسم۔‘‘
وہ مسکرائی۔’’بس مجھے ایک غم ہے ۔میری بچیاں۔‘‘اس کی آنکھوں میں آنسوآگئے پھروہ گاڑی میں بیٹھے ہوئے شاہ وال جارہے تھے۔انجن ہونک رہاتھا۔
’’پن۔درہ۔دن۔۔۔۔پن۔درہ۔دن۔‘‘
دفعتاً ایلی کی توجہ سامنے بیٹھے ہوئے مسافروں کی طرف منعطف ہوگئی۔
’’پندرہ ‘‘’’دن ‘‘ایک چلارہاتھا۔’’صرف پندرہ دن۔‘‘
ایلی نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔کیاوہ ان کے رازسے وقف تھا۔
’’کیوںبھائی‘‘۔وہ ایلی کومخاطب کرکے کہنے لگا۔’’لوتم ہی بتاؤپندرہ دن بھی کوئی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘اس نے چٹکی بجائی۔’’یوں گئے ہے نا۔‘‘وہ قہقہہ مارکرہنسنے لگااورپھراپنے ساتھیوں کومخاطب کرکے بولا۔’’ہم نے بس وہی ڈاکٹردیکھاہے۔دوسال میری بیوی میوہسپتال میں پڑی رہی۔دوسال آخرانہوں نے جواب دے دیااورمیں اسے دوراہے لے گیااوراس اللہ کے بندے نے پندرہ روزمیں ایساکردیاکہ وہ اپنے پاؤں چل کرگھرآئی اوراللہ اس کابھلاکرے۔آج ہم ہنسی خوشی زندگی بسرکررہے ہیں۔‘‘
’’کون ہے وہ ڈاکٹر؟‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’دوراہے کاہومیوپیتھ ہے جی۔‘‘
’’کیانام ہے؟‘‘ایلی نے پوچھا۔
ڈاکٹرہاشم
’’بھئی واہ۔‘‘وہ بولا۔’’تم ڈاکٹرہاشم کونہیں جانتے۔‘‘
’’جی ڈاکٹرہاشم کوکون نہیں جانتا۔‘‘اس کاساتھ بولا۔
اگلے روزہی ایلی دوراہے میں ڈاکٹرہاشم کے معمل میں بیٹھاتھا۔
ڈاکٹرہاشم کامعمل ایک وسیع وعریض صحن پرمشتمل تھا۔جس کے ایک طرف دوتنگ کمروں میں ادویات رکھی تھیں اوردوکمپاؤنڈربیٹھے تھے۔دوسری طرف ایک برآمدہ تھا۔جس کے پیچھے دووسیع کمروں میں کتابیں پڑی تھیں۔تیسری طرف ایک دروازے کے پیچھے ڈاکٹرکامکان تھا۔صحن میں ایک درخت کے نیچے ایک تخت پڑاتھا۔جس پرایک پراناساتکیہ لگاتھا۔نیچے ایک سادہ ساگدابچھاہواتھاایک چھوٹے سے ڈسک پرایک پراناقلمدان پڑاتھا۔یہ ڈیسک تخت پرلگاہواتھا۔اوراس کے پاس ہی کاغذکی پرچیاں سی پڑی تھیں۔تخت کے ایک طرف بوسیدہ کالاکمبل ڈھیر ہورہاتھا۔
صحن میں کوئی کرسی نہ تھی۔کتابوں والے کمرے میں بیٹھنے کے لئے فرش کے علاوہ کوئی کرسی یاکاؤچ نہ تھا۔صحن میں لوگ ادھرادھرزمین پرچوکیاں رکھے بیٹھے ہوئے تھے۔وہ سب ایک دوسرے سے باتیں کرنے میں مصروف تھے۔اوریوں شورمچارہے تھے۔جیسے وہ ڈاکٹرکامعمل نہیں بلکہ سٹہ منڈی ہو۔ڈاکٹرابھی زنان خانے سے باہرنہیں نکلاتھا۔
دفعتاً زنان خانے کادروازہ کھلا۔ایک لڑکاایک حقہ اٹھائے باہرنکلا۔اسے دیکھ کرسب خاموش ہوگئے۔اس کے پیچھے پیچھے ایک دیوانہ ساآدمی یوں لڑھکتاہواآرہاتھا۔جیسے کسی نے اسے دھکادے کرمتحرک کردیاہو۔اس نے ایک لمباچغہ رکھاتھا۔نیچے سیاہ جرابیں تھیںایک پھٹی ہوئی گرگابی۔
اس کے بال پریشان تھے۔چہرہ گویاسوجاہواتھا۔آنکھیں چندھیائی ہوئی تھیں۔تخت کے قریب پہنچ کروہ رکااس نے بڑھ کرکمبل اٹھالیااوراسے اپنے گردلپیٹ کرتخت پرڈھیرہوگیا۔
مجمع پرخاموشی طاری تھی۔
ایک ساعت کے بعداس نے سراٹھایااورمجمع پراچٹتی نگاہ ڈالی۔اس کی نگاہ ایک آدمی پررکی۔’’ہوں۔‘‘وہ بولا۔’’تم۔‘‘
’’جی۔‘‘وہ شخص بولا۔
’’تمہاری بیوی مرگئی ہے کیا؟‘‘ڈاکٹرنے پوچھا۔
’’جی نہیں۔‘‘وہ شخص بولا۔
’’تواس کابراحال ہے کیا۔‘‘
’’جی نہیں۔‘‘الٹاوہ روصحت ہے۔‘‘
’’توپھرتم کیوں آئے ہو۔‘‘ڈاکٹرنے اسے ڈانٹا۔
’’جی دوالینے ۔‘‘
’’کیسی دوا۔‘‘
’’جی دوائی۔‘‘وہ گھبراگیا۔
’’جب وہ روصحت ہے تودوائی کامطلب۔دوائیاں لینے کاشوق ہے کیا۔‘‘ڈاکٹرنے کہا۔
’’جی نہیں۔‘‘وہ بولا۔’’میں نے سمجھاکہ مزیددوائی۔۔۔‘‘
’’بے وقوف۔‘‘ڈاکٹربولا۔’’میں نے سمجھاکہ تم میں سمجھنے کی صلاحیت ہے۔‘‘
’’جی نہیں۔‘‘ وہ بولا۔
’’توپھرمت سمجھو۔‘‘
’’جی بہت اچھا۔‘‘
’’جاؤمزے کرو۔اب کسی دوائی کی ضرورت نہیں۔‘‘وہ شخص سرجھکائے چل پڑا۔
’’ہوں تم۔‘‘ڈاکٹرکی نگاہ ایک اورشخص پرپڑی۔’’تم۔‘‘وہ بولا۔
’’جی۔‘‘اس شخص نے جواب دیا۔’’میرانام ماجدہے۔‘‘
ڈاکٹرنے قہقہہ لگایانام کومیں کیاکروں۔تمہیں تپ دق ہے نا۔‘‘
’’جی ہاں۔‘‘وہ بولا۔
’’توجاؤتمہارے لئے میرے پاس کوئی دوانہیں جاؤ۔‘‘
’’لیکن ڈاکٹرصاحب۔‘‘وہ بولا۔’’میں کہاں جاؤں؟‘‘
’’تم اللہ کے پاس جاؤ۔‘‘ڈاکٹرنے جواب دیا۔‘‘وہاں سکھی رہوگے۔‘‘جاؤجاؤجاؤ۔‘‘
وہ شخص مایوس ہوکرچل پڑا۔
’’ہوں۔‘‘ڈاکٹرنے ایلی کی طرف دیکھا۔
’’جی میں۔‘‘ایلی بولا۔’’میں شاہ وال سے آیاہوں۔‘‘
’’توکیامجھ پراحسان کیاہے۔‘‘ڈاکٹربولا’’میاں لوگ حیدرآبادسے آتے ہیں۔‘‘وہ رک گیا۔
’’میسورسے آتے ہیں۔تم شاہ وال سے آگئے توکیاہوا۔‘‘اس نے دوبارہ کہا۔
ایلی گھبراگیا۔’’جی آپ بجافرماتے ہیں۔‘‘وہ بولا۔
’’کیافائدہ ہواشاہ وال سے آنے کاکیافائدہ ہوا۔بے وقوف۔‘‘ڈاکٹراسے گھورتارہا۔
ایلی کوغصہ آرہاتھا۔
’’لوبھائی اس شخص کی طرف دیکھا۔‘‘ڈاکٹرنے جملہ لوگوں کومخاطب کرکے کہا۔’’یہ شاہ وال سے آیاہے لیکن بے وقوف مریض کوساتھ نہیں لایا۔‘‘
’’ارے۔‘‘ایلی حیرت سے ڈاکٹرکی طرف دیکھنے لگا۔
’’میاں۔‘‘ڈاکٹرکہنے لگا۔‘‘اگرتم مریض کوساتھ نہین لائے توکیامیرامنہ دیکھنے آئے ہو۔‘‘
’’جی ہاں۔‘‘وہ بولا۔
ڈاکٹرقہقہہ مارکرہنس ۔بولا۔’’اچھادیکھو۔‘‘
عین اس وقت ایک معززہندوداخل ہوااوردروازے میں ہی ہاتھ جوڑکربولا۔’’نمستے ڈاکٹرصاحب۔‘‘ڈاکٹرصاحب کی توجہ قوواردکی طرف منعطف ہوگئی۔
’’یہ لالہ جی دوراہے کے تحصیلدارہیں۔‘‘قریب سے ہی آوازیں آئیں۔
لالہ جی قریب آگئے۔وہ ایک معززاورشریف آدمی نظرآتے تھے اوراندازمیں بلاکاتحمل تھا۔جب وہ قریب آئے توڈاکٹرنے بغوران کی طرف دیکھا۔
’’لالہ جی۔‘‘ڈاکٹربولا۔’’مہربانی کرکے تشریف لے جائیں۔‘‘
تحصیلدارنے ڈاکٹرکی طرف دیکھا۔
’’تشریف لے جائیں۔’’ڈاکٹرنے دہرایا۔’’پھرسے داخل ہوں اورالسلام علیکم کہیں۔‘‘
تحصیلدارکھڑے ہوکرڈاکٹرکی طرف دیکھنے لگے۔
’’جب تک آپ ایسانہیں کریں گے۔‘‘ڈاکٹرنے کہا۔’’میں آپ کودوانہیں دوں گا۔‘‘
’’لیکن ڈاکٹرصاحب۔‘‘تحصیلدارنے کہا۔’’میں نے داخل ہوتے وقت ہاتھ باندھ کرآپ کونمستے کی ہے۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے۔‘‘ڈاکٹرنے کہا۔
’’نمستے کرنے کیابرائی ہے؟‘‘تحصیلدارنے پوچھا۔
’’کوئی نہیں۔‘‘
’’الٹااس میں توبے حدعجزہے۔‘‘
’’جی۔‘‘ڈاکٹرنے کہا۔’’آپ بالکل بجافرمارہے ہیں۔اس میں بہت عجز ہے۔لیکن ازراہ کرم واپس جائیے اورپھرداخل ہوکرالسلام علیکم کہیے تاکہ میں آپ کودوائی دوں۔‘‘
اس پرتحصیلدارصاحب مسکرائے اوراحاطے سے باہر نکل گئے۔پھرداخل ہوتے ہوئے بولے۔‘‘
’’السلام علیکم ۔‘‘
’’وعلیکم اسلام۔‘‘ڈاکٹرنے کہا۔’’فرمائیے کس کے لئے دوائی لیناہے آپ نے ۔‘‘
’’گھروالی کے لئے ۔‘‘وہ بولے۔
’’اپنی گھروالی کواپنی طرح تحمل پسندبنائیے نا۔‘‘ڈاکٹربولا۔’’وہ اپنی طبیعت کی تلخی کی وجہ سے بیماررہتی ہے۔‘‘
’’یہ میرے بس کاروگ نہیں۔‘‘تحصیلدارنے شرمندگی محسوس کرتے ہوتے کہا۔’’آپ ان کی بیماری کی تفصیلات سن لیجئے۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ڈاکٹرنے کہا۔’’پہلے ہمیں ایسی دوائی دنیاہوگی۔جس سے ان کی طبیعت بدل جائے۔‘‘
’’دوائی سے طبیعت بد ل جائے ۔‘‘تحصیلدارنے کہا۔
ڈاکٹرنے قلم نیچے رکھ دیاآپ دوائی کوکیاسمجھتے ہیں لالہ جی۔‘‘اس نے پوچھا۔
شایدآپ سمجھتے ہیں کہ دوائی صرف پیٹ کادرددورکرتی ہے۔کھانسی کوروکتی ہے۔اسہال کوبندکرتی ہے۔‘‘
’’جی ڈاکٹرصاحب۔‘‘وہ