علی پورکاایلی(1086-1115)

جاویداقبال

محفلین
’’ایک بات کہوں۔‘‘ایلی نے اسے تھپکتے ہوئے کہا۔
’’کہو۔‘‘
’’مانوگی؟‘‘
’’کہوتو۔‘‘
’’نہیں۔‘‘وہ بولا۔’’پہلے کہومانوگی۔‘‘
’’مانوں گی۔‘‘وہ پیارسے بولی۔
’’آج ہماراہنی مون ہے۔‘‘وہ بولا۔
شہزادنے مسکراکرآنکھیں نیچی کرلیں۔
’’آج ہم پرانے زمانے کی یادمنائیں گے۔‘‘
’’کیسی یاد۔‘‘
’’جب تم مونگیہ گٹھڑی تھیں۔تب کی یاد۔‘‘
وہ مسکرائی۔
’’اب کہاں۔‘‘وہ بولی۔’’اب وہ بات کہاں؟‘‘
’’اب بھی ہے۔‘‘اس نے کہا۔
’’کیسے؟‘‘
’’میرے لئے ہے۔‘‘اس نے ہاتھ بڑھایا۔
شہزادنے پیارسے اس کاہاتھ پکڑلیا۔
’’یادہے وہ زمانہ۔‘‘وہ بولا۔
’’ہوں۔‘‘شہزادہنسی۔’’بھول سکتاہے کیا۔‘‘
ایلی نے زیرلب کہا۔’’آج میں آؤں گا۔‘‘
شہزادنے اس کی طرف تعجب سے دیکھا۔
ایلی نے پھرسرگوشی کی۔’’کھڑکی کھلی رکھنا۔‘‘
شہزادبامعنی اندازسے مسکرائی اوراثبات میں سرہلادیا۔
ایلی باہرنکل گیاشام کووہ ادھرادھرٹہلتارہا۔حتیٰ کہ نوبج گئے۔پھروہ سنیمامیں جابیٹھا۔جب وہ فلم دیکھ کرنکلاتوساڑھے گیارہ بجے تھے۔وہ چپ چاپ گھرکی طرف چل پڑا۔شاہ وال کی گلیاں ویران پڑی تھیں۔کتے بھونک رہے تھے۔ایلی کادل دھک دھک کررہاتھا۔وہ بڑی احتیاط سے دبے پاؤں چل رہاتھا۔گھرکے پاس جاکروہ رک گیااس نے چاروں طرف دیکھا۔پھرجست بھرکروہ کھڑکی کے پاس آپہنچا۔پٹ کوآہستہ سے دبایا۔پٹ کھل گیا۔دبے پاؤں وہ اندرداخل ہوگیا۔چارپائی پرشہزادسبزچادراوڑھے مشین سامنے رکھے کام کررہی تھی۔
ایلی نے اسے دیکھ کرہونٹوں پرانگلی رکھ لی۔’’چپ۔‘‘وہ بولا۔
شہزادمسکرائی
’’چائے پلاؤگی۔‘‘
اس نے اثبات میں سرہلادیا۔
ساری رات وہ ہاتھ میں ہاتھ دئیے بیٹھے چائے پیتے رہے۔جب بھی کوئی کھٹکاہوتاوہ دونوں خاموش ہوجاتے۔
’’کون ہے۔‘‘وہ زیرلب کہتا۔
’’میں دیکھتی۔‘‘وہ گنکناتی اورپھرباہرنکل جاتی اورکچھ دیرکے بعدپھراس کے پاس آبیٹھتی۔
یونہی صبح ہوگئی اورایلی اسے الواع کہہ کرکھڑکی سے باہرنکل گیااورپھرصدردروازے سے گھرمیں داخل ہوکراپنے بسترپرپڑکرسوگیا۔
سراب
شاہ وال ایک بہت بڑاقصبہ تھا۔وہاں کامدرسہ بھی کافی بڑاتھااگرچہ عمارت پرانی تھی۔لیکن عمارت کے ساتھ وسیع وعریض میدان تھے۔سکول کے قریب ہی بورڈنگ کی عمارت تھی۔جس میں شاہ وال کے گردونواح کے دیہات کے لڑکے رہتے تھے۔بورڈنگ کے سپرنٹنڈنٹ کاکواٹربورڈنگ کی عمارت کے اوپردوسری منزل پرتھا۔
سکول کاہیڈماسٹرکانام سراب تھا۔اس کاقدچھوٹاتھا۔جسم گول مٹول رنگ گورااورچہرہ فٹ بال کی طرح تھا۔جس میں اس قدرہوابھری ہوئی معلوم ہوتی تھی کہ سراب کی آنکھیں دکھائی ہی نہ دیتی تھیں۔کبھی طلوع ہوتیں بھی توجیسے وہ لکیریں ہوں اورپھروہ جلدہی غروب ہوجاتیں چونکہ سراب کوبات بات پرہنسنے کی عادت تھی۔جب وہ ہنستاتوگوشت کاایک طوفان چہرے پرچلتا۔بڑھتاسمٹتا۔آنکھیں کشتیوں کی طرح لہروں میں ڈوب جاتیں۔لیکن جب کبھی وہ سنجیدہ ہوتایاجان بوجھ کرغصے میں آجاتاتودوبھوری دھاریاں ابھرتیں حتیٰ کہ وہ کٹاریں بن جاتیں۔ان میں دھارپیداہوجاتی اوروہ بری طرح سے کاٹنے لگتیں۔ایلی سراب کومل کربے حدخوش تھا۔اس نے اپنی زندگی کاایک بڑاحصہ اساتذہ کے درمیان گزاراتھااوراس نے محسوس کیاتھا۔کہ اساتذہ زیادہ تررسمی یاکتابی زندگی بسرکرتے تھے۔وسعت نظرسے قطعی طورپربیگانہ تھے۔چونکہ ان کامطالعہ محدودتھا۔شایداس لئے کہ وہ زیادہ ترزندگی بچوں میں بسرکرتے تھے۔ان کی شخصیت رسمی خیالات وجذبات اورحرکات کامجموعہ تھی۔وہ سب ایک ہی دائرے میں گھومتے تھے اوراپنے خیالات علم اورنظریات کوناجائزطورپربے حداہمیت دیتے تھے۔ہاتھی دانت کی طرح انہوں نے اخلاقی معیارپال رکھتے تھے۔
ایلی اساتذہ سے اکتاچکاتھا۔ان میں نہ توذہنی چمک تھی نہ وسعت قلب اورنہ ہی وہ رنگینی جذبات سے واقف تھے۔لیکن ہیڈماسٹرتوبالکل ہی ایلی کے لئے ناقابل قبول تھے۔وہ اساتذہ سے بھی یوں پیش آتے ۔جیسے وہ بچے ہوں۔مدرسے میں وہ ایک جزیرے کی طرح الگ تھلگ رہتے اوریااساتذہ کے قریب آتے یہ توقع رکھتے کہ وہ ان کی ہربات کوسراہیں۔ان کے ہرخیال پرواہ واہ کریں۔
سراب میں خوستائی کی واضح جھلک توتھی۔لیکن ان کی طبیعت میں رنگینی کاعنصرمفقودنہ ہواتھا۔جسے وہ بڑی محنت سے چھپائے پھرتے تھے۔اسی وجہ سے بڑو ں کی نسبت وہ بچوں سے قریب ترتھے۔ان کے گھرمیں نوجوان طلباء کی بھیڑلگی رہتی تھی۔وہ انہیں پڑھاتے تھے۔چھیڑتے تھے گھورتے تھے اورپیارکرتے تھے۔
نہ جانے کیوں ایلی نے پہلے روزمحسوس کیاگویاوہ ہیڈماسٹرنہیں۔جیسے کسی میم نے زبردستی سوٹ پہن رکھاہویاکوئی دلہن شرم وحیاکوبالائے طاق رکھ کرمردانہ لباس میں باہرنکل آئی ہو۔
ان کی بیگم ایک معززخاندان کی خاتون تھیں۔نہ جانے کیوں یہ وہم اس کے گلے کاہارہورہاتھاکہ ان کامکان پاک صاف نہیں۔لہٰذاوہ بہت سے طالب علموں کواکٹھاکرکے گھرکی صفائی میں لگی رہتی تھی۔فرش دھلواتی۔دیواریں جھاڑتی۔دروازوں کے تختوں کوپانی سے دھوتی حتیٰ کہ دروازے کی زنجیروں کوپاک کرنے لئے ان پرصابون ملتی۔
گھرکے اندرزنانے میں وہ ہروقت صفائی میں مصروف رہتی تھی۔
باہرمردانے میں سراب نوجوان طلباء کے جھرمٹ مین راجہ اندربنے بیٹھے رہتے۔لیکن اس اندرمیں راجہ کی نسبت رانی کی زیادہ جھلک تھی۔
سراب کودیکھتے ہی لاشعوری طورپرایلی نے فیصلہ کرلیاتھاکہ ان سے کسی قسم کاتعلق روانہ رکھے گا۔
مثلاً سراب اس سے پوچھتے۔’’آصفی صاحب آج آپ لیٹ کیوں آئے ہیں۔‘‘
’’جی آج کی بات تونہیں۔‘‘ایلی جواب دیتا۔’’میں توروزلیٹ آتاہوں۔‘‘
’’کیوں لیٹ آتے ہیں آپ۔‘‘وہ پوچھتے۔
’’جی میں نے بہت کوشش کی ہے کہ اس نکتے کاحل کروں۔لیکن۔۔۔‘‘
’’کیاآپ کااخلاقی فرض نہیں کہ آپ وقت پرسکول آئیں۔‘‘وہ بصدمشکل اپنے آپ پرسنجیدگی طاری کرکے کہتے۔
’’اخلاقی فرض تونہیں سراب صاحب۔‘‘
’’کیوں۔‘‘
’’نوکرہوں لہٰذا۔وقت پرآناچاہیئے۔‘‘
’’تویہ فرض ہوانا۔‘‘
’’جی اخلاق فرض تونہیں نا۔دیکھئے سراب صاحب۔آپ میرے افسرہیں اورمیں آپ کاماتحت ہوں۔‘‘ایلی کہتا۔’’میرافرض یہ ہے کہ آپ کوخوش رکھوں۔اوربس ۔‘‘
سراب کے گال سرخ ہوجاتے۔چہرے پرگوشت کی لہریں چلنے لگتیں اورآنکھیں غروب ہوجاتیں۔
’’بہرصورت آپ وقت پرآیاکریں۔‘‘وہ کہتے۔
’’بہت اچھاصاحب۔‘‘
اگلے روزایلی پھرلیٹ آتا۔
سراب نے سوچاکہ ایلی کوشرمندہ کرنے کاایک ہی طریقہ ہے۔انہوں نے خودوقت پرآناشرو ع کردیا۔آتے ہی وہ ایلی کوتلاش اورپھراس کی جماعت میں جاکرخودپڑھاناشروع کردیتے۔ان کاخیال تھاکہ ایلی دوایک روزصورت حالات کاجائزہ لے گاتوشرمندگی محسوس کرے گا۔ایلی نے یہ دیکھ کرکہ سراب صاحب اس کی جماعت کوپڑھارہے ہیں۔پہلے پریڈمیں آناہی بندکردیا۔اس پرسراب صاحب بہت سٹ پٹائے اوراساتذہ کی میٹنگ میں انہوں نے اس بات کاتذکرہ کیابولے۔’’شرمندہ ہونے کی بجائے آصفی صاحب نے پہلے پریڈمیںآناہی چھوڑدیاہے۔
ایلی نے کہا۔’’جناب عالی دراصل با ت یہ ہے کہ چونکہ آپ مجھ سے بہترپڑھاتے ہیں۔لہٰذامیراجی نہیں چاہتاکہ اپنی جماعت کوآپ کے درس سے محروم کروں۔‘‘
سراب صاحب کوجلدہی پتہ چل گیاتھاکہ الیاس کابرتاؤباقی اساتذہ سے ہٹ کرہے۔اوروہ دل ہی دل میں اس پرخوش تھے۔
ایک روزایلی سے سراب نے پوچھا۔’’آصفی صاحب آپ کارویہ باقی اساتذہ کاسانہیں۔کیاوجہ ہے؟‘‘
’’وجہ یہ ہے۔‘‘وہ بولاکہ آپ کارویہ باقی ہیڈماسٹروں کاسانہیں۔‘‘
وہ مسکرائے ’’کیافرق ہے؟‘‘وہ بولے۔
’’وہ فرق جوسوکھے اورہرے بھرے درخت میں ہوتاہے۔‘‘
چندایک روزتوایلی باتوں کی مددسے اپنے قدم جماتارہا۔پھرجب اس کی خوداعتمادی بڑھ گئی توایک روزجب وہ اکیلے تھے۔ایلی نے نہ جانے کس بات کے جواب میں اپنے دل کی بات ازراہ مذاق کہہ دی۔کہنے لگا۔’’سراب صاحب کسی وقت تومیں ایسے محسوس کرتاہوں جیسے آپ دلہن ہوں۔‘‘دفعتاً سراب صاحب میں چھپی ہوئی عورت تمام احتیاط اورضبط کوتوڑپھوڑکرباہرنکل آئی۔اس نے نوچ کراپنے کپڑے پھاڑدیئے اوربرہنہ ایلی کے روبروآکھڑی ہوئی۔
سراب کے چہرے پرسرخی جھلکی۔وہ سرخی نہیں جودوران خون تیزہونے پرجھلکتی ہے۔بلکہ وہ سرخی جودلہن کاگھونگھت اٹھنے پرظاہرہوتی ہے۔ایلی حیران رہ گیا۔اسے اس برہنگی کاخیال نہ تھا۔توقع نہ تھی۔وہ گھبراکرچلاآیا۔اس بعدسراب اورایلی کے درمیان ایک حجاب سادیواربن کرحائل ہوگیا۔جیسے وہ دونوں کسی رازسے واقف ہوں۔
کپوراورریاض
مدرسے میں سراب کے علاوہ دوشخص پیش پیش تھے۔ایک توسکول کے دفترکاکلر ک تھا۔اس کانام ریاض
تھا۔اس کاجسم فربہی کی طرف مائل تھا۔رنگ کالاتھااورطبیعت میں حکمرانی کی بوکے علاوہ اخلاق،نیکی اورسچائی کی طلب کاجنون تھا۔
دوسراشخص کپورتھا۔کپورسینٹیرانگلش ٹیچر تھا۔اس کاقددرمیانہ تھا۔طبیعت میں بلاکاعجزاورمٹھاس تھی۔کپوراپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کے لئے جیتاتھا۔وہ دوسروں کے لئے جیتاتھا۔وہ ہروقت کسی نہ کسی کی جائزیاناجائزامدادپرکمربستہ رہتاتھا۔صبح سویرے گھرسے نکلتااورپھررات گئے گھرلوٹتااورسارادن کسی نہ کسی حاجت مندکے کام میں مصروف رہتا۔کوئی اسے کچہری لے جاتاتاکہ مقدمے میں اس کی امدادکرے۔کوئی اسے اپنی بیٹی کی شادی کے جملہ انتظامات سونپ دیتا۔کوئی کہتابھائی کپور۔تھوڑاساقرض چاہئے۔کہیں سے انتظام کردو۔کوئی اسے ٹیوشن کے لئے فرمائش کرتااوراگرکوئی کام نہ ہوتاتوکپورگھرگھرلوگوں سے ملتا’’کوئی سیوابتائیے صاحب۔‘‘وہ کہتا’’میں آپ کاسیوک ہوں۔‘‘ایلی کے لئے ریاض اورکپوردونوں نعمت غیرمترقیہ تھے۔وہ دونون ایلی کے کاموں میں مصروف رہتے تھے۔کپوراسے ادھارسودالادیتاتھا۔ریاض لڑکیوں کوسرٹیفکیٹ کے بغیرگرلزسکول میں داخل کرنے کے لئے تگ ودوکررہاتھا۔پھرکپورنے ان کی فیس معاف کرانے کاذمہ لے لیااورریاض ان کے لئے کتابیں حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
اسی طرح وہ دونوں ہرممکن طریقے سے اس کی مددکرتے رہے۔سراب کوایلی کے حالات سے بے حدہمدردی تھی۔لیکن سراب کی ہمدردی کوعمل سے کوئی تعلق نہ تھا۔ایلی کی جملہ مشکلات مالی نوعیت کی تھیں تنخواہ میں اس کاگزارانہیں ہوتاتھا۔اس لئے اس پرقرض کاطومارلگاجارہاتھا۔اس کے قرض خواہ ادائیگی کے لئے تقاضہ کرتے اورایلی دوڑکرکپورکوبنیئے کی طرف بھیجتاتاکہ اسے کچھ دیراورانتظارکرنے پرراضی کرے۔اگلے روزکپڑے والاآجاتااورایلی ریاض کی طرف دوڑتا۔
کپوراللہ واسطے کام کرنے کاقائل تھا۔مگرریاض طبیعت کاسخت تھاوہ کام توکرتاتھامگرساتھ لکچربھی پلاتااوراس با ت کامطالبہ کرتاکہ ایلی اس کی عظمت اورنیکی کااقرارکرے۔اس کے علاوہ وہ ایلی پرخوش نہ تھا۔اس کاکہناتھاکہ آخریوں کب تک گزاراہوگا۔اس کاکوئی عملی تدارک کرناچائیے۔ریاض اورکپورچاہتے تھے کہ ایلی ٹیوشن کرے اوراس طرح اپنی آمدنی میں اضافہ کرے۔لیکن ایلی ٹیوشن کاقائل نہ تھا۔اس کی زندگی نظم سے خالی تھی۔وہ بلاناغہ مقررہ وقت پرحاضرہوکرکام کرنے کی اہلیت نہ رکھتاتھا۔اس کی یہ وجہ تھی کہ ایلی محنت سے گریزکرتاتھااورریاض کویہ بات پسندنہ تھی۔
کپوراورریاض کے علاوہ شاہ وال سکول میں ایک اورشخص بھی تھاجوجونئیرٹیچرتھا۔اس کانام ثناء اللہ تھا۔ثناء اللہ میں کوئی ایسی خصوصیت نہ تھی۔جوایلی کے لئے جاذب توجہ ہوتی۔اس کاجسم موٹاتھا۔منہ سوجاسوجاساطبیعت میں شوخی اوررنگینی کاعنصرنام کونہ تھا۔وہ سرسے پاؤں تک ایک معززآدمی تھا۔البتہ اسے افسروں کے خلاف شکایت کرنے کی عادت تھی۔کسی کواکیلادیکھ پاتاتواسے پکڑکرزیرلب افسروں کی شکایات کادفترکھول لیتازندگی میں وہ اس کی واحددلچسپی تھی۔ثناء اللہ کی ایلی سے راہ ورسم صرف اس لئے ہوگئی کہ ان دونوں کے مکانات ایک ہی محلے میںواقع تھے۔ایلی سکول سے واپس آتاتوثناء اللہ آنکلتا۔
’’یہ سراب بڑاحرامی ہے۔‘‘وہ ادھرادھردیکھ کرزیرلب کہتا۔’’اس کے کارنامے سنوگے۔بھائی صاحب تودنگ رہ جاؤگے۔بس اندرکااکھاڑہ بنارکھاہے اس سے مدرسے کے بچوں کے اخلاق تباہ ہورہے ہیں۔
تعلیم تومحض بہانہ ہے۔‘‘
’’ایلی صاحب کپورکوزیادہ منہ نہ لگاؤ۔اوپرسے دھرماتمابناہواہے۔ویسے اندرسے کٹرہندوہے اوربے انتہامتصب۔آپ کوعلم نہیں۔آپ توصرف ظاہرپرجاتے ہیں۔یہ لالے بڑے چالاک ہوتے اوریہ جوسیواسمتی شروع کررکھی ۔۔۔۔اس نے یہ محض دکھلاواہے۔‘‘
’’یہ جوموٹاریاض ہے نا۔مدرسے کاساراپیسہ کھاگیاہے۔لیکن ہے اس قدرچالاک کہ کسی کوپتہ نہیں چلنے دیا۔ایک روزبھانڈاپھوٹے گاتوپتہ چلے گا۔اس کے ساتھ اٹھنابیٹھناٹھیک نہیں ورنہ جب بات نکلے گی توساتھ دھرلئے جاؤگے۔‘‘
ایلی کوثناء اللہ سے قطعہ کوئی دلچسپی نہ تھی۔نہ ہی وہ اس کی باتوں کوغورسے سناکرتاتھا۔لیکن اس میں اتنی جرات نہ تھی کہ ثناء اللہ سے اپناپیچھاچھڑاتا۔اس کے برعکس وہ اس کی باتیں سن کرمجبوری سے تعجب بھری آوازیں کہتا۔’’اچھاتویہ بات ہے۔‘‘
یا۔’’کیاواقعی۔‘‘یا’’ارے ایسامعلوم تونہیں ہوتا۔‘‘
شاہ وال پہنچ کرزندگی میں پہلی مرتبہ ایلی محسوس کرنے لگاتھاکہ سبھی اساتذہ اس کے رازسے واقف تھے۔وہ جانتے تھے کہ وہ چھ بچوں کی ماں کوبھگالے آیاہے اوروہ اس بات پرشرم محسوس کرنے لگاتھا۔
ایلی کے لئے سب سے بڑی دقت یہ تھی کہ لڑکیاں جوان ہورہی تھیں۔ان کے قہقہے گھرسے باہرنشرہونے لگے تھے۔ان کی آوازیں سن کرراہ گیررک جاتے تھے۔اورکہتے اچھایہ ہے آصفی صاحب کاگھرجب وہ سکول جاتی تھیں توراستے میں لوگ خصوصاً نوجوان لڑکے ایک دوسرے کوکہنی مارتے۔مسکراتے اورکوئی عاشقانہ گیت گنگناتے ہوئے بامعنی نگاہوں سے ان کی طرف دیکھتے۔
ان باتوں کودیکھ کراس کے دل میں شبہات کاایک طوفان پیداہورہاتھا۔ایلی ان لڑکیوں کی معصومیت سے واقف نہ تھا۔اسے یہ علم نہ تھاکہ ہرلڑکی اپناآپ نشرکرنے پرفطری طورپرمجبورہے۔اسے اس کاشعورنہ تھاکہ لڑکیوں کی مسکراہٹیں کسی ٹھوس مقصدکے شعورسے خالی ہوتی ہیں۔ان کے قہقہے لوگوں کی توجہ جذب کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔لیکن کسی خاص شخص کولبھانے کے لئے نہیں ہوتے۔وہ اس امرسے ناواقف تھاکہ عنفوان شباب میں لڑکی کسی حسین بھری نگاہ کوردنہیں کرسکتی۔حالانکہ اس سے اس کاکوئی خاص مقصدنہیں ہوتا۔
ان وجوہات کی بناپرایلی کومعصوم لڑکیوں سے شکایات پیداہوتی جارہی تھیں اوریہ شکایات تعصب کی صورت اختیارکررہی تھیں۔
اقتصادی مشکلات کی وجہ سے شہزادمیں ایک اداسی اوراحساس محرومیت پیداہورہاتھا۔اس کی وہ رنگینی ختم ہوچکی تھی۔اس کی طبعی شوخی اب محض روایت سی معلوم ہوتی تھی۔اگرچہ اس کی صحت پہلے کی نسبت بہتر ہوگئی تھی۔لیکن اس مین وہی تلخی پیداہوئی جارہی تھی۔جوایک ایسی عورت میں پیداہوجاتی ہے جو کبھی بہت خوبصورت رہی ہواورجسے احساس ہوکہ وہ اپناحسن کھوچکی ہے۔شہزادکوایلی کے خلاف کوئی شکایت نہ تھی۔اسے اب بھی ایلی سے وہی لگاؤتھا۔لیکن اس کے اظہارکے موقعے معدوم ہوتے جارہے تھے۔وہ جب بھی کوئی بات شروع کرتے تونہ جانے کیسے وہ بات کسی نہ کسی اقتصادی مشکل پرآختم ہوتی اوربات کی رنگینی تلخی میں بد ل جاتی۔
کبھی کبھارلاہورسے محمودآجاتا۔میم کے چلے جانے کے بعدوہ تنہارہ گیاتھا۔لیکن اس کی شخصیت میں بلاکی جاذبیت تھی۔میم کے جانے کااس پراثرضرورہواتھا۔لیکن وہ اس قدرگہرانہ تھا۔کہ اس کی شخصیت کی بنیادوں کوہلادیتا۔ایلی کی دانست میں محمودازلی طورپرایک لڑھکتاہواپتھرتھا۔جسے ہرلڑکھن نئی چمک عطاکرتی ہے۔
دوراہے سے واپس آئے ابھی انہیں دومہینے ہی ہوئے تھے کہ ایلی کومعلوم ہواکہ شہزادامیدسے ہے۔لیکن شہزادکوشبہات تھے۔یہ کیسے ہوسکتاہے وہ کہہ رہی تھی۔لاہورہسپتال والوں نے صاف کہہ دیاتھاکہ بچے کااب سوال ہی پیدانہیں ہوتااوراگرہوابھی توماں کے لئے خطرے کاباعث ہوگا۔لیکن امیدکی تمام علامات واضح تھیں۔
’’نہ جانے کیاہے۔‘‘شہزادنے کہا۔’’یہ علامات شایدکسی آنے والی بیماری کاپیش خیمہ ہوں۔‘‘
ادھریاپاگل خانہ
’’تم توخواہ مخواہ شک کرتی ہو۔‘‘ایلی نے کہا۔
’’میری طبیعت توشکی نہیں۔‘‘وہ بولی ۔’’شکی توتم ہو۔‘‘
’’پھرمجھے شک کیوں نہیں پڑتا۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’مجھے کیامعلوم۔‘‘شہزادبولی۔
’’میں بتاؤں۔‘‘ایلی نے کہا’’چلوایک بارپھردوراہے جاکرہاشم سے ملیں۔
ہاشم کانام سنتے ہی وہ گھبراگئی۔’’نہ میں نہیں جاتی۔‘‘
’’کیوں۔‘‘
’’وہ تودیوانہ ہے۔‘‘
’’پڑاہوہمیں اس سے مطلب۔‘‘
شہزاددوراہے جانے کے لئے تیارنہ ہوئی تووہ اسے ایک لیڈی ڈاکٹرکے پاس لے گیا۔
لیڈی ڈاکٹرنے شہزادکامعائنہ کیااورپھرمسکرانے لگی۔’’تمہیں بچہ ہونے والاہے ظاہرہے کہ تم امیدسے ہو۔۔لیکن تمہاری صحت اچھی نہیں تمہیں خوارک کی ضرورت ہے۔‘‘
اب بھی شہزادکویقین نہیں آتاتھا۔
چھ مہینے کے بعدوہ بیمارپڑگئی اورصاحب فراش ہوگی۔ایلی گھبراگیااوراس کی منتیں کرنے لگاکہ ایک مرتبہ دوراہے چلے ۔پہلے تووہ انکارکرتی رہی لیکن جب تکلیف بہت بڑھ گئی تووہ راضی ہوگئی اوروہ دونوں دوراہے جانے کے لئے تیارہوگئے۔
اس مرتبہ بھی وہ صبح کی گاڑی سے روانہ ہوکرشام کوتین بجے کے قریب دوراہے پہنچے۔
ہاشم کامعمل خالی پڑاتھا۔ڈاکٹرہاشم اسی طرح کمبل میں لپٹاہوابیٹھاتھا۔
ایلی نے اپنی آمدکااعلان نہ کیا۔بلکہ شہزادکوسمجھادیاکہ تم چپکے سے اپناہاتھ بڑھادیناتاکہ ڈاکٹرنبض دیکھ لے۔ایلی ڈرتاتھاکہ کہیں ڈاکٹراپنے طبعی جنون کی وجہ سے اسے دیکھنے سے انکارنہ کردے۔
’’کون ہے۔‘‘ڈاکٹرنے آوازسن کرپوچھا۔
’’مریضہ۔‘‘وہ بولی۔
’’اس وقت نہیں۔‘‘وہ بولا۔’’صبح آنا۔‘‘
’’بہت دورسے آئی ہوں۔‘‘شہزادنے کہا۔ایلی خاموش بیٹھارہا۔
’’کتنی دورسے ۔‘‘
’’شاہ وال سے ۔‘‘وہ بولی۔’’آج ہی واپس بھی جاناہے۔‘‘
’’ہوں۔‘‘وہ بولا۔’’تودکھاؤنبض۔‘‘ڈاکٹرنے اپناہاتھ کمبل سے باہرنکالااورشہزادکی نبض دیکھنے لگا۔ دفعتاً وہ چونکا۔’’اوہ۔‘‘وہ بولا۔‘‘معاملہ توخراب ہے۔بہت خراب ہے۔‘‘
شہزادخاموش بیٹھی رہی۔
’’بچہ توگل گیاہے۔‘‘وہ بولا۔’’اوراگرتم بروقت نہ آتے تو۔۔۔۔‘‘
’’آپ نے پہلے بھی دوائی دی تھی۔‘‘ایلی بولا۔
’’کب؟‘‘
’’چھ مہینے ہوئے۔‘‘وہ بولا۔’’آپ نے کہاتھاجسم اندرسے گل گیاہے۔‘‘
’’دی ہوگی دی ہوگی۔‘‘ڈاکٹرچلایا۔’’لیکن معاملہ پھربگڑاہواہے۔‘‘اس نے کمبل سے سرنکالا۔’’یہاں روزمریض آتے ہیں۔‘‘وہ چلایا۔’’سینکڑوں آتے ہیں۔ہمیں کیایادرہتاہے۔کہ کس کوکیادوائی دی تھی۔یہ دیکھو۔‘‘ڈاکٹرنے اس قالین کاکونہ اٹھایاجس پروہ بیٹھاتھا۔اس نیچے خطوط کاایک ڈھیرلگاتھا۔’’دیکھو۔‘‘وہ بولا۔’’یہ سب مریضوںکے خط ہیں۔ان سب کوکون جواب لکھے۔خواہ مخواہ خط لکھتے چلے جاتے ہیں۔‘‘وہ خاموش ہوگیا۔
’’میاں۔‘‘وہ پھربولا۔’’ہم کیاخداہیں۔صحت اورموت اللہ کے ہاتھ میں ہے جسے صحت دینی مطلوب ہوتی ہے۔ہمارے ہاتھ سے صحیح دوالکھوادیتے ہیں۔ورنہ یونہی اناپ شناپ دوائی مل جاتی ہے۔سب اللہ کی شعبدہ بازی ہے کون حکیم ہے اورکون ڈاکٹرسب ڈھونگ ہے۔ڈھونگ ‘‘وہ خاموش ہوگیا۔
’’تم کیاکام کرتے ہو۔‘‘اس نے ایلی سے پوچھا۔
’’جی میں بچے پڑھاتاہوں۔‘‘وہ بولا۔
’’تم بچے پڑھاتے ہو۔‘‘اس نے ایلی کوگھورتے ہوئے پوچھا۔
’’جی۔‘‘ایلی نے کہا۔
’’تم اس کام کی اہلیت نہیں رکھتے۔‘‘
’’جی۔‘‘ایلی نے کہا۔
’’اورتم یہ کام کروگے بھی نہیں۔‘‘
’’جی۔۔۔؟‘‘
’’چھوڑجاؤگے۔‘‘ڈاکٹرنے پھرسے اپنامنہ کمبل سے ڈھانپ لیااوراپنی بات جاری رکھی۔
’’تمہاری زندگی میں گڑبڑہے۔‘‘وہ بولا۔’’ذرانبض دکھاؤ۔’’اس نے ایلی سے کہااوراپناہاتھ کمبل سے نکال کرایلی کی نبض دیکھنے لگا۔دیرتک نبض ہاتھ میں پکڑکربیٹھارہا۔،
’’سب کچھ غلط ہے۔‘‘وہ بولا۔’’سرے سے سب کچھ غلط ۔دل ودماغ اعضاء سب غلط ہیں۔سب الٹ پلٹ ہورہاہے۔سوداکی طرف مائل ہو۔صفراحدتک پہنچ چکاہے۔پاگل ہوجاؤگے۔‘‘وہ بولا’’یقینا‘‘ہوجاؤگے۔بچاؤکی صرف ایک صورت ہے۔‘‘اس نے صرف ایک اگرادھرنہ پہنچے تومینٹل ہسپتال میں پہنچ جاؤگے۔اوروہیں مروگے۔‘‘
’’ادھرکدھر۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’‘وہ بھی ایک سمت ہے۔ایک ایسی سمت جس سے تم واقف نہیںہو۔‘‘ڈاکٹرنے جواب دیا۔تمہارے پیٹ میں جوبچہ ہے جوگل چکاہے۔انشاء اللہ وہ ٹھیک ہوجائے گا۔یہ بچہ معمولی بچہ نہیں۔بہت کچھ لے کرآئے گابہت کچھ عالی ظرف ہوگا۔فنکارہوگاسبحان اللہ۔‘‘
وہ دفعتاًاٹھ بیٹھا۔’’آؤتمہیں پڑیادیں۔‘‘وہ بولا۔’’آؤ۔‘‘
’’ہاشم سے فارغ ہوکروہ چپ چاپ سٹیشن پربیٹھے رہے۔شہزاداپنے ہی خیالات میں کھوئی ہوئی تھی۔
’’کیاسوچ رہی ہو۔‘‘وہ شہزادسے پوچھنے لگا۔
’’کچھ بھی نہیں۔‘‘وہ بولی۔
ڈاکٹرکی باتوں پردھیان نہ دوایلی نے کہا۔’’وہ صرف ڈاکٹرہی نہیں۔دیوانہ بھی ہے۔بہت بڑافلسفی بھی ہے۔روحانیات سے بھی شغف رکھتاہے۔عجیب آدمی ہے۔شایدتم سوچ رہی ہوکہ واقعی ہم دونوں اکی دوسرے سے اگ ہوجائیں گے۔‘‘
’’وہ تومیں دیرسے جانتی ہوں۔‘‘شہزادبولی۔
’’کیا؟‘‘
یہی کہ تم اکیلے رہ جاؤگے اورمیں چلی جاؤںگی۔لیکن ایلی ایک بات ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
شہزادنے اس کاہاتھ تھام لیا’’میرے جانے سے پہلے کہیں مجھے چھوڑنہ جانا۔‘‘
’’پاگل ہوگئی ہو۔‘‘وہ بولا۔
’’بس مجھے یہی ایک فکرہے۔‘‘شہزادکی آنکھوں میں آنسوآگئے۔
’’تمہیں مجھ پربھروسہ نہیںکیا؟‘‘
’’ہے۔‘‘وہ بولی۔’’لیکن پتہ نہیں کیوں یہ خیال باربارمیرے دل میں اٹھتاہے۔‘‘
وہ قہقہہ مارکرہنس پڑا۔
جب وہ شاہ وال پہنچے توشہزادکی طبیعت پہلے کی نسبت بہتر تھی۔پھرروزبروزاس کی طبیعت بہتر ہوتی گئی۔حتیٰ کہ وہ صحت یاب ہوگی۔
صحت ہونے کے بعدبھی وہ اداس رہتی تھی۔کئی باربیٹھے بیٹھے جب اس کی نگاہ بڑی لڑکیوں پرپڑتی تواس کی آنکھوں میںآنسوآجاتے۔دراصل اسے لڑکیوں کاغم کھائے جارہاتھا۔اس کاخیال تھاکہ ان لڑکیوں کے لئے کوئی رشتہ نہیں ملے گا۔چونکہ وہ اس کی بیٹیاں تھیں۔کوئی عزیزیارشتہ داران سے شادی کرنے کے لئے تیارنہ ہوگا۔شہزادنے اپنے خیال کے متعلق ایلی سے بھی کئی باربات کی تھی لیکن ایلی اس کی بات پرہنس دیتاتھا۔’’ابھی سے کیوں فکرکرتی ہو۔‘‘وہ کہتا۔
’’میرے پاس زیادہ وقت بھی ہو۔‘‘شہزادجواب دیتی۔
اس پرایلی چڑجاتا۔’’کیاواقعی تم یہ خیال دل میں لیے بیٹھی ہوکہ تمہارے پاس زیادہ وقت نہیںہے۔‘‘
’’کیاتمہیں ابھی تک یقین نہیںآیا۔‘‘شہزادپوچھتی۔
’’پاگل ہو‘‘وہ چلاتا۔’’خواہ مخواہ کے فکرلگائے بیٹھی ہو۔‘‘اسے واقعی اس بات پرغصہ آجاتاتھا۔لیکن اس کے غصے نے کبھی لڑائی کی صورت اختیارنہ کی تھی۔
بھارت سیتم
ایک روزثناء اللہ اپنی بیوی کوان کے ہاں لے آیا۔اس کی بیوی بڑی لڑکی صبیحہ کودیکھتے ہی چلانے لگی۔ ’’ہائے کتنی پیاری بیٹی ہے۔تمہاری۔آمیں واری جاؤں۔آمیں تجھے پیارکروں۔‘‘اس نے صبیحہ کواپنے پاس بیٹھالیااوراسے پیارکرنے لگی۔
صبیحہ حیران تھی وہ زیرلب ہنسے جارہی تھی۔اسے سمجھ نہیں آرہاتھاکہ ایک بیگانہ عورت اس پراس قدرمفتون کیوں ہوئی جارہی ہے۔شہزادکوبھی حیرت ہورہی تھی۔
اگلے روزبھانڈاپھوٹ گیا۔ثناء اللہ اپنے چھوٹے بھائی کاپیغام لے کرآگیا۔
’’صبیحہ کوتوہم نے اپنی بیٹی بنالیاہے۔‘‘وہ بولا۔’’میری بیوی تواسے دیکھ کراپنادل دے چکی ہے۔کل سے اسی کی باتیں کرتی ہے۔بات با ت پراسی کاتذکرہ اگرآپ ہم غریبوں کاپیغام منظورکرلیں توبہت کرم نوازی ہوگی۔‘‘
چندروزکے بعدثناء اللہ نے اپنے دونوں بھائیوں کوشاہ وال بلالیاتاکہ وہ ایلی سے مل سکیں۔
اس کابڑابھائی ذکاؤاللہ شکل و صورت اوربات چیت سے خالص فنکاردکھائی دیتاتھا۔اس کے بال گیسوؤں کی طرح لمبے تھے۔چہرے سے خوشی مذاقی اورذہنی چمک واضح تھی۔گفتگونہایت پراخلاق اورآوازرسیلی تھی۔ثناء اللہ کے بیان کے مطابق وہ سیکرٹریٹ میں ایک اعلیٰ عہدے پرفائزتھا۔
چھوٹابھائی ضیاء ابھی نوجوا ن ہی تھا۔اس نے ایف ۔اے تک تعلیم پائی تھی اورآنکھوں میں نسوانی چمک تھی۔
شہزاداورایلی ان سے مل کربے حدخوش ہوئے۔
’’لو۔‘‘ایلی نے کہا۔’’تمہارایہ غم بھی دورہوگیا۔صبیحہ کواچھارشتہ مل گیا۔‘‘
’’اونہوں۔‘‘شہزادبولی۔’’میں خوش نہیں ہوں۔ایف اے سے کیاہوتاہے آج کل لڑکاپوری طرح تعلیم یافتہ نہیں اورجب تک اسے مناسب ملازمت نہ مل جائے میں یہ کام نہیں کروں گی۔‘‘
بہرصورت اس بات چیت کایہ نیتجہ ہواکہ صبیحہ اورضیاء نام زدہوگئے۔
نامزدگی سے پہلے ایلی ایلی ایک روزثناء اللہ کومدرسے میںایک طرف لے گیااورکہنے لگا۔’’بھئی پیشتراس کے کہ اس امرکافیصلہ ہومیں یہ ضروری سمجھتاہوں کہ تمہیں اپنے حالات سے آگاہ کردوں تاکہ ایسانہ ہوکہ کل تمہیں ان تفصیلات کاعلم ہوتم ہم سے گلہ کروکہ ہم نے تمہیں دھوکے میں رکھا۔‘‘یہ کہہ کرایلی نے ایلی نے اپنی زندگی کے متعلق اہم باتیں اسے بتادیں۔
ثناء اللہ غورسے اس کی باتیں سنتارہااورپھرمسکراکربولا۔’’ہمیں سب علم ہے۔آپ نے کوئی نئی بات نہیں سنائی۔‘‘
’’توکیا۔‘‘ایلی نے پوچھا۔’’آپ نے یہ سب جانتے ہوئے پیغام دیاتھا۔‘‘
’’ہاں۔‘‘وہ بولا۔’’ذکاء زندگی بھربیرونی ممالک میں گھوماہے۔وہ ان باتوں کودرخوراعتنانہیں سمجھتااورچونکہ ضیاء اے کے زیراثرہے اس لئے اس کانقطہ نظربھی رسمی نہیں ہے۔‘‘
دوایک ماہ کے بعدایک روزشہزاداورایلی کواکٹھے لاہورجانے کااتفاق ہواوہاں پہنچ کرشہزادنے کہا۔’’اب جویہاں آئے ہیں توذکاء اورضیاء سے مل کرجاناچاہئے۔انہیں علم ہوگاکہ ہم لاہورآئے تھے اورملے بغیرچلے گئے تووہ برامانیں گے۔‘‘
یہ سوچ کروہ دونوں انارکلی گئے وہاں سے انہوں نے پھل وغیرہ خریدااورپھرمال روڈکی طرف چل پڑے ۔انہیں صرف یہ معلوم تھاکہ ضیاء اورذکاء اکٹھے نمبر113کی کوٹھی میں رہتے ہیں۔دیرتک وہ مال روڈپرگھومتے پھرے۔لیکن انہیں113نمبرکی کوٹھی کاپتہ نہیں چلا۔آخرایلی ایک دوکان پرگیا۔پان فروش سے پوچھا۔’’بھائی 113کابنگلہ کدھرہے۔‘‘
نمبر113پنواڑی سوچ میں پڑگیا۔اس نے قریب کھڑے ایک اورآدمی کوآوازدی۔’’کیوں بھاجی۔‘‘وہ بولا۔بھلانمبر113کی کوٹھی کون سی ہوئی۔‘‘
’’113۔‘‘وہ بھی سوچ میں پڑگیا۔اس پردوچارآدمی اورآگئے۔
’’بھائی صاحب کچھ اتاپتہ دیجئے خالی نمبرسے توکام نہیں چلے گا۔‘‘ایک آدمی نے کہا۔
’’بھئی ان کانام ذکاء اللہ ہے یہاں سیکرٹریٹ میں اعلیٰ عہدے پرفائزہیں۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔
’‘ہوں۔‘‘وہ سوچ میں پڑگئے۔
’’کتنے بھائی ہیں۔‘‘ایک نے پوچھا۔
’’دوبھائی ہیں۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔
’’ارے۔‘‘ایک چلایا۔‘‘وہ ناچے تونہیں کیا۔‘‘
اس پران سب نے غورسے ایلی اورشہزادکاجائزہ لیا۔
’’ارے نہیں۔‘‘ایک بولا۔’’وہ کیسے ہوسکتے ہیں۔بھئی انہیں ملنے تومیمیں آتی ہیں۔‘‘
’’ناچے۔‘‘ایلی سن کرمسکرایا۔’’ناچے کاکیامطلب۔‘‘ا س نے دل ہی دل میں سوچا۔
’’معلو م نہیںجی۔‘‘ایک شخص بولا۔’’آپ ان پچھلے بنگلوں میں دیکھیں۔شایدوہیں ہوں۔‘‘
ایلی ان بنگلوں کی طرف چل پڑا۔شہزادتانگے میں بیٹھی رہی۔
سامنے بنگلے سے موسیقی کی آوازیں آرہی تھیں۔بنگلے کے گول کمرے پربورڈآویزاں تھا۔’’بھارت سیتم۔‘‘گول کمرے میں سازسنگیت کاریکارڈچل رہاتھا۔کس قدرصاف آوازتھی۔کیسااچھاباجہ تھا۔ایلی نے قریب جاکراندرجھانکا۔کمرے میںایک جوان حسین وجمیل لڑکی ناچ رہی تھی۔
’’ارے ۔‘‘وہ گھبراگیا۔’’کس قدرخوبصورت لڑکی ہے۔انگریزتونہیں۔ہندوستانی معلوم ہوتی ہے۔‘‘ایک ساعت کے لئے وہ کھڑادیکھتارہا۔
دفعتاً اس کمرے سے ایک نوجوان باہرنکلا۔’’ارے ۔‘‘وہ ضیاء تھا۔
شریمتی گن گلی
’’آخاہ ضیاء ہے۔‘‘ایلی چلایا۔’’یارہمیں نمبر113ملتاہی نہیں تھا۔دیرسے تلاش کررہے ہیں۔‘‘
ایلی نے یوں محسوس کیاجیسے ضیاء چپ چاپ کھڑااس کے منہ کی طرف دیکھ رہاہو۔ایک ساعت کے بعدضیاء بولا۔
’’اس بلاک کے پچھواڑے میں ہے ۔ہماراگھر۔‘‘
ایلی اورضیاء شہزادکوساتھ لے آئے اورضیاء انہیں اس بلاک کے پچھواڑے کے طرف لے گیا۔گول کمرے کے قریب پہنچ کرایلی نے دیکھاکہ موسیقی بالکل بندہوچکی ہے اورکمرے میں کوئی بھی نہیں۔
ذکاانہیں بہت تپاک سے ملا۔’’آپ نے آنے کی اطلاع کیوں نہ دی۔‘‘وہ بولا۔
’’ویسے ہی آئے تھے۔‘‘شہزادبولی۔’’توہم نے کہاآپ کومل لیں۔‘‘
’’پھربھی اطلاع دینامناسب ہوتاہے۔۔۔خواہ مخواہ آپ کوکوفت ہوئی۔‘‘ذکاء نے دفعتاًبات بدلی۔
چندمنٹ کے بعدایلی اورشہزادنے اجازت طلب کی ۔’’گاڑی چلنے میں ایک گھنٹہ رہ گیاہے۔‘‘ایلی نے کہا۔
ضیاء اورذکاء انہیں تانگے تک چھوڑنے آئے۔
جب وہ اکیلے رہ گئے توشہزادبولی۔’’ان کے گھرتوکوئی بھی عورت نہیں۔‘‘
’’ذکاء کی بیوی تومرچکی ہے۔‘‘ایلی نے کہا۔
’’مجھے ہربات یادہی نہ تھی۔میراخیال تھاکہ کوئی عورت ہوگی گھرمیں۔‘‘شہزادبولی۔
ابھی ان کاتانگہ سڑک پرپہنچاہی تھاکہ ایلی تانگے والے سے بولے۔’’بھئی ذراٹھہرنامیں ذراسگریٹ لے آؤں۔‘‘
اوروہ اسی دکان پرسگریٹ خریدنے چلاگیا۔جہاں سے انہوں نے پتہ پوچھاتھا۔
پنواڑی نے مسکراکراس کی طرف دیکھااوربڑے بامعنی اندازسے کہنے لگا۔’’کیوں بھاجی مل گئے تمہیں وہ لوگ۔‘‘
’’جی۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔’’مل گئے۔‘‘
’’میں نے توپہلے ہی کہاتھابھاجی۔‘‘وہ بولا۔’’کہ وہی ہوں گے۔‘‘
’‘نہیں۔‘‘ایلی بولا۔’’وہ توپچھلے بلاک میں رہتے ہیں۔‘‘
’’اجی وہی ہیں ناجوابھی آپ کوتانگے تک چھوڑنے آئے تھے۔‘‘پنواڑی بولا۔’’دوبھائی ہیں اورایک بہن بہت اچھاناچتی ہے وہ بھائی خودسکھاتاہے اسے ساری عمرمدارس میں رہاہے ناوہیں سے سیکھ کرآیاہے۔‘‘
بھارت سیتم !ایلی کے روبروگول کمرے کابورڈآگیا۔
’’آج ہی شوہے بھاجی ۔‘‘پنواڑی بولا۔’’اپنے کیپٹل میں ہوگا۔ہم بھی جارہے ہیں۔دیکھنے کے لئے۔‘‘
ایلی نے محسوس کیاجیسے کسی نے اس کے منہ پرتھپڑماردیاہو۔
جب شہزادکوایلی نے پنواڑی کی بات بتائی تووہ پنجے جھاڑکراس کے پیچھے پڑگئی۔
’’لوگوں کاکیاہے۔‘‘وہ بولی’’خواہ مخواہ بہتان لگاتے ہیں۔اگران کی بہن ہوتی توکیاوہ ہمارے سامنے نہ آتی۔اتنی دیرہم بیٹھے رہے ان کے گھراورگھرکی صورت ہی سے ظاہر تھاکہ کوئی عورت نہیں رہتی وہاں۔‘‘
اس پرایلی کووہ لڑکی یادآگئی جوگول کمرے میں ناچ رہی تھی۔
’’کیاوہی ان کی ہمشیرہ تھی۔کتنی خوبصورت تھی وہ۔‘‘ایلی سوچنے لگا۔
’’توپھرآج کی رات ہم یہی رہ جاتے ہیں۔‘‘ایلی نے شہزادسے کہا۔
’’کیوں۔‘‘وہ بولی۔
’’وہ کہتاہے آج شام کوان کاشوہے اوران کی بہن ناچے گی۔چلوآج دونوں شودیکھیں گے۔‘‘
شہزاداس کے لئے تیارنہ تھی۔لیکن اس کے بغیرانہیں حقیقت کاپتہ نہیں چل سکتاتھا۔لہٰذاوہ مجبوری میںایلی کی بات مان گئی۔
شام کوجب وہ کیپٹل میں پہنچے تواشتہارمیں لکھاتھا۔بھارت سیتم کاشاہکارشریمتی گن گلی پیش کریںگی۔
شہزادچلانے لگی۔’’ناچ دیکھنے کااپناجی چاہتاتھااس لئے بہانہ بناکرلاہوررک گئے۔
ایلی خودحیران تھا۔شریمتی گن گلی پڑھ کروہ خودسوچ بچارمیں کھوگیاتھا۔
کھیل شروع ہوا۔وہی حسین وجمیل لڑکی جسے ایلی نے گول کمرے میں دیکھاتھا۔سٹیج پرآگئی۔اس نے ناظرین کودونوں ہاتھ جوڑکرسلام کیاپھریورپین فیشن کے مطابق جھکی اورپھرتتلی کی طرح محورقص ہوگئی۔اس کی حرکات میں لے تھی۔اعضاہ میں بلاکی چمک تھی اورچہرہ مسکراہٹوں سے بھرپورتھا۔ایلی بھول گیاکہ وہ کیوں شوردیکھنے آئے تھے اورانہیں کس بات کاپتہ چلاناتھا۔
شریمتی نے تین سولوناچ پیش کئے۔چوتھے ناچ میں اس کے ہمراہ ایک نوجوان تھا۔نوجوان کودیکھ کرشہزادٹھٹھکی ۔‘‘یہ تومجھے ضیاء معلوم ہوتاہے۔‘‘وہ بولی۔
’’ضیائ؟‘‘ایلی چونکااسے یادہی نہ رہاتھاکہ ضیاء کون تھا۔۔۔‘‘اوہ ضیائ‘‘کچھ دیرکے بعدایلی بولا۔‘‘نہیں نہیں۔کہاںضیاء کہاں یہ لڑکا۔یہ کوئی مدراسی معلوم ہوتاہے۔‘‘
چوتھے ناچ کے بعدانٹرول ہوگیااورذکاء بنفس نفیس سٹیج پرآکرناظرین کاشکریہ اداکرنے لگا۔شہزادنے ایلی کی طرف دیکھا۔غصے سے اس کامنہ سرخ ہورہاتھا۔
اگلے روزشاہ وال آتے ہوئے شہزادگاڑی میں بیٹھی ہوئی رورہی تھی۔
’’آخررونے کامطلب۔‘‘ایلی بولا۔
’’کچھ نہیں۔‘‘وہ کہنے لگی۔
’’ناچناتوایک فن سمجھاجاتاہے۔‘‘ایلی نے کہا۔’’یہ ناچ کوئی طائفہ ناچ تونہیں ہے نا۔پھرتم کیوں دل براکرتی ہو۔‘‘
’’نہیں ایلی ۔‘‘وہ بولی۔’’وہ میری صبیحہ کونچائیں گے۔اس کے شوکریں گے۔‘‘
’’توکیاہوا۔‘‘ایلی نے کہا۔’’یہ توبھارت نیتم ہے بھارت نیتم توفن ہے۔عیب تونہیں۔‘‘
’’لیکن لوگ کیاکہیں گے ۔‘‘وہ بولی۔
’’تم تولوگوں کی پرواہ نہیں کیاکرتی تھی۔‘‘ایلی نے کہا۔
’’اپنے لئے نہیں کرتی تھی نا۔‘‘وہ بولی’’لڑکیوں کے متعلق پرواہ کرنی ہی پڑتی ہے۔‘‘
’’توکیاانہیں جواب دے دوگی۔منگنی توڑدوگی۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’ہائے توکیاناچوں کودے دوں اپنی بچی ۔‘‘شہزادنے جواب دیا۔
لاہورسے آنے کے بعدشہزادپرمایوسی چھاگئی۔ایک توصبیحہ کی بنی بنائی بات ٹوٹ گئی تھی دوسرے وہ بچے سے تھے۔نتیجہ یہ ہواکہ اس کے دل کی تہوں میں بیٹھاہواغم چڑچڑاہٹ اورغصے میں بدل گیا۔بات بات پراس کاغصہ جوش میں آجاتااورپھربھوکی شیرنی کی طرح کچھارمیں بیٹھ کرغراتی رہتی۔ایلی اس کی اس تبدیلی پرسیخ پاہوجاتاہے۔
وہ دن ان کے لئے نہایت تلخ تھے۔وہ گھرجہاں ہروقت دھماچوکڑی مچی رہتی تھی۔تاش اورچوپٹ کی بازی لگی رہتی تھی جہاں لڑکیاں ناچتی تھیں۔بچے قہقہہ لگاتے تھے وہ گھرویرانے میںبد ل چکاتھا۔حالانکہ ان کی مالی مشکلات کسی حدتک کم ہوگئی تھیں۔چونکہ ریاض اورکپورکی کوششوں کی وجہ سے ایلی کوبورڈنگ کاسپرنٹنڈنٹ بنادیاگیااوراب وہ کرایہ کے مکان کوچھوڑکرسرکاری کوارٹرمیں مقیم ہوگئے تھے اس طرح اسے کچھ مالی امدادحاصل ہوگئی تھی۔ایک تواسے مکان کاکرایہ نہیں دیناپڑتاتھااوردوسرے ایک قلیل رقم الاؤنس کے طورپرملنے لگی تھی۔
ناظم
انہی دونوں ڈائریکٹرتعلیم نے ان کے سکول میں ایک جونیرکلرک کی آسامی منظورکردی تھی اورایک نیاکلرک اس آسامی پرمامورہوکروہاں پہنچ گیاتھا۔
وہ ایک نوجوان بی اے تھا۔اس کانام ناظم تھا۔اگرچہ دیکھنے میںنہ توبی اے نظرآتاتھااورنہ ہی نظم سے کوئی تعلق معلوم ہوتاتھا۔چونکہ ناظم شادی شدہ نہ تھا اورشاہ وال میں نوواردتھااس لئے اسے بورڈنگ میں قیام کرنے کی وجہ سے ایلی اوروہ روزانہ ملاکرتے تھے۔
پہلے روزجب ایلی نے ناظم کی طرف دیکھاتواسے کچھ بھی سمجھ میں نہ آیا۔اگرچہ ناظم نے سوٹ پہن رکھاتھالیکن اس کاسوٹ گویاسوٹ معلوم ہی نہیں ہوتاتھا۔اس کی شخصیت سوٹ اوربی اے دونوں سے بے نیازتھی۔ناظم اے بی کورس کاگریجویٹ تھا۔جب ایلی کواس تفیصل کاعلم ہواتووہ اوربھی حیران ہوااس کے علاوہ جب اسے یہ علم ہواکہ ناظم ریاضی پڑھانے میں بڑی دسترس رکھتاہے توایلی بالکل ہی کھوگیا۔شخصیت کوسمجھنے کے متعلق ایلی کواپنے اندازوں پربڑانازتھااس کاخیال تھا۔کہ وہ شخصیت اورکردارکوسمجھنے کی صلاحیت رکھتاہے لیکن ناظم کو دیکھ کراسے کچھ سمجھ نہیں آیاتھاکہ وہ کیاشے ہے۔
ناظم کے چہرے سے ذہانت کے آثارمترشح نہیں ہوتے تھے۔اس کے خدوخال عام سے ہونے کے باوجودیہ احساس دیتے کہ ان کوسمجھناآسان نہیں۔اس کی آنکھوں میں ہلکاسافرق تھا۔اس قدرہلکاکہ کسی وقت دکھائی نہ دیتااورنہ محسوس ہوتالیکن کسی وقت وہ اس قدرشدت سے واضح ہوتاجیسے ڈھول بجابجاکراپنے وجود کااحساس دلارہاہو۔
ناظم سے چارایک مرتبہ ملنے کے بعدایلی نے محسو س کیاکہ وہ اکی مجموعہ اضدادتھا۔مثلاً اس کے چہرے پرذہانت کافقدان تھا۔اس کے باوجودوہ اکثرذہانت بھری بات کرتااورایلی حیرانی سے اس کی طرف دیکھتا۔ناظم کے اندازسے ظاہرتھاکہ وہ مجلسی آدمی نہیں اورسوسائٹی سے دوررہناپسندکرتاہے۔لیکن چندہی دونوں میں ایلی نے دیکھاکہ بورڈنگ کے تمام لڑکے اس کے گردجھرمٹ کئے بیٹھے ہیں تمام لڑکے تھوڑے ہی عرصے میں ناظم کے مداح ہوگئے تھے۔اوراس کے علم وقابلیت کے متعلق سارے سکول میں دھوم مچ گئی تھی۔اس کے علاوہ ناظم کے چہرے پرہٹودوررہوقسم کی علامات ہروقت موجودرہتی تھی جولوگوں سے میل جول پیداکرنے میں رکاوٹ بنی رہتیں۔اس میں ایک واضح جھجک تھی۔لیکن درحقیقت اس کادل جذبات کی شدت سے بھراہواتھا۔اسے دیکھ کرشک پڑتاکہ وہ جذبات سے خالی ہے اورحسیات سے کوراہے لیکن درحقیقت جذبات اورخصوصاً شدت اس کے کردارکے بنیادی پہلو تھے۔
بی اے ہونے اورسوٹ پہننے کے باوجودناظم کی طبیعت امرتسرکے ’’بھاجی۔‘‘قسم کی تھی۔جوبہترین دوست اوربدترین دشمن ہوتے ہیں جودکھلاوے سے دوربھاگتے ہیں اورکسی کارعب برداشت کرنے کے لئے تیارنہیں ہوتے۔
ناظم اورایلی کی دوستی روزبروزبڑھتی گئی اس کی تمام ترذمہ داری ناظم پرعائدہوتی تھی۔ہرروزشام کے وقت وہ ایلی کوآوازدیتا۔’’آصفی صاحب۔‘‘اورپھراسے ساتھ لے کرباہرنکل جاتا۔ایلی سیروتفریح کامشتاق نہ تھا۔اس لئے وہ شامیں گھرپرہی بسرکرنے کاعادی تھا۔عام طورپروہ اپناوقت مطالعہ میں بسرکرتا۔ناظم زبردستی اسے باہر لے جاتااوروہ دیرتک گھومتے رہتے۔ایلی کی ناظم میں دلچسپی محض کتابی قسم کی تھی۔وہ اس کی شخصیت کے متعلق معلومات حاصل کرناچاہتاتھا۔اسے ایسی عجیب وغریب شخصیت سے کبھی سابقہ نہ پڑاتھا۔
ناظم کوبازارمیں کھانے پینے کی بہت عادت تھی۔مثلاًوہ سوڈاپینے کھڑاہوتاتوسوڈے کی چھ بوتلیں پی جاتاکباب کھاناشروع کرتاتودودرجن کباب کھاجاتاپہلے روزہی جب اس نے دودرجن کباب کھائے اوراس کے اوپرتین میٹھی بوتلیں پیں توایلی گھبراکربولا۔’’کیاہواہے تمہیں ناظم صاحب۔‘‘
’’یار۔‘‘اس نے کہا۔’’بہت دکھ لگاہواہے آج۔‘‘
’’مجھے توبہت لگتی ہے اتنی لگتی ہے کہ جی چاہتاہے کہ دنیابھرکی چیزیں پیٹ میں جھونک دوں۔اندرایک خلاء پیداہوجاتاہے جوبھرتاہی نہیں’’ناظم نے جواب دیا۔
’’کیاواقعی ؟‘‘
’’ایمان سے ۔‘‘
’’عجیب بات ہے۔‘‘
’’عجیب کہاں۔‘‘وہ بولایہ تومیرادستورہے بچپن سے ہی ایساہے۔‘‘
’’آج کیاغم ہے تمہیں۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’میرادوست بیمارہے۔‘‘ناظم بولا۔
’’دوست بیمارہے؟کون سادوست؟‘‘
’’آج ہی خط آیاہے ساری دنیااندھیرہورہیہے۔‘‘ناظم بولا۔
’’ارے بس اتنی سی بات پرغم ہے تمہیں۔‘‘
’’اتنی سی بات۔‘‘اتناناظم نے غصے سے ایلی کی طرف دیکھا۔’’دوست کی بیماری سے بڑھ کراورکیابات ہوسکتی ہے۔کیادکھ ہوسکتاہے۔‘‘
ایلی حیران تھا۔لیکن وہ خاموش رہا۔ناظم کی آنکھوں کافرق نمایاں ہوتاجارہاتھااورتجربے کی بناپرایلی کوعلم ہوچکاتھاکہ اس کی آنکھوں کازاویہ جذبات کی شدت کی وجہ سے بدلتاہے۔ایسی صورت میں ناظم سے عقل کی بات کہنااچھے اثرات پیدانہیں کرسکتا۔بہرحال ناظم کے آنے سے ایلی کے دوستوں کی تعدادمیں اضافہ ہوگیاتھا۔
نصیراورشیر
پھران کے گھرنصیراورشیرعلی آگئے۔
شیراورنصیرایلی کے بھائی تھے وہ دونوں راجوکے بطن سے تھے۔فرق صرف یہ تھاکہ شیرعلی راجوکے پہلے خاوندسے تھااورجب وہ علی احمدکے گھرآئی تھی تواس کی گودمیںتھا۔اورنصیرعلی احمد سے تھا۔
نصیراس زمانے کی پیداوارتھا۔جب علی احمدبڑھاپے کے اولین دورمیں قدم رکھ چکے تھے۔اس لئے علی احمدنے غیرازمعمولی محبت سے پالاتھا۔اگرچہ یہ محبت خصوصی محبت تھی۔جس میں علی احمدیت کی جھلک تھی۔لیکن اس کے باوجودنصیرکی جسمانیت یاشخصیت پھل پھول نہ سکی تھی۔جسمانی طورپرکمزورتھااوراکثربیماررہتاتھا۔طبیعت کے لحاظ سے وہ جذباتی کمزوراورنیکی کی طرف مائل تھا۔وہ بڑوں کاادب کیاکرتاتھا۔ماں باپ کااحترام کرتاتھااورایلی سے بہت متاثرتھا۔
نصیرکے برعکس شیرعلی جسمانی طورپرمضبوط تھا۔اس کے جسم کے ساخت ہی اس بات کوواضح کرتی تھی کہ وہ آصفیوں میں سے نہیں اورعلی احمدکے خاندان سے ہٹ کرہے وہ طبعاً خاموش تھا۔لیکن اسے دیکھ کرمحسوس ہوتاتھا۔جیسے وہ دل کی بات چھپاکررکھتاتھااوراس کی آرزوتھی کہ بڑاآدمی بنے۔شیرعلی میں جنسی پہلو کی شدت تھی اوراس شدت میں پراسرارئیت کاعنصرتھا۔
دسویں پاس کرنے کے بعدشیرعلی دوراہے میں ایک ٹیکنیکل کورس کرنے کے لئے چلاگیاتھااورایک سال کی ٹریننگ حاصل کرنے کے بعدواپس آیاتھا۔
جب وہ واپس آیاتواس کاقدبہت بڑھ گیا۔یوں دکھائی دیتاتھا۔جیسے جوان ہونے سے پہلے ہی جوان ہوگیاہو۔وہ گھرکی کسی بات میں باآوازبلندداخل نہیں دیتاتھا۔شایداس کی یہ وجہ ہوکہ گھرمیں اس کی پوزیشن ایسی نہ تھی ۔جیسے ایلی یانصیرکی تھی شایدطبعاً وہ بات کہہ دینے کی صلاحیت سے بے گانہ تھا۔لیکن ایلی محسوس کرتاتھاکہ اس کے دل کی تہوں میںان کہی باتوں کاطومارلگاہے۔ایلی کواس کی شخصیت کایہ پہلو پسندنہ تھا۔
دوراہے سے ٹریننگ حاصل کرنے کے بعدعلی پورآتے ہی شیرعلی کوایلی کی پرانی منگیترثمرہ کی چھوٹی بہن عاصمہ سے محبت ہوگئی تھی۔وہ ایک دوسرے کوخفیہ خط لکھاکرتے تھے اورلب بام کھڑے ہوکرایک دوسرے کودیکھتے اوراشارے کیاکرتے تھے۔لیکن شیرعلی نے اس کے متعلق کبھی کسی سے بات نہ کی تھی۔
شیرعلی کومحلف والے ہمیشہ بیگانہ سمجھتے تھے۔چونکہ وہ آصفیوں میں سے نہ تھا۔حالانکہ محلے میں بیشترلوگ ایسے تھے۔جنہیں آصفی خاندان سے دورکاتعلق بھی نہ تھا۔کیونکہ بہت سے لوگ باہر سے آکروہاں مقیم ہوگئے تھے۔لیکن انہوں نے اپنے متعلق کبھی صحیح جائزہ نہ لیاتھا۔
شیرعلی کے رومان کی بات نکلی توعاصمہ کی والدہ غصے سے بھوت بن گئی۔اسے پہلے ہی علی احمدکے خاندان کے خلاف شکایت تھی۔چونکہ ایلی نے اعلانیہ اس کی بڑی بیٹی ثمرہ سے شادی کرنے سے انکارکردیاتھا۔حالانکہ وہ دونوں منسوب تھے اوران کی منگنی بڑی دھوم دھام سے ہوئی تھی۔
اب جب اسے علم ہواکہ شیرعلی جان بوجھ کرعاصمہ کوورغلارہاہے۔تووہ سمجھی کہ شیرعلی کامقصدصرف اس کے گھرانے کوبدنام کرناہے۔
ایلی کواس بات کاپتہ چلاتووہ راجوسے بات کرنے کے بعدخودعاصمہ کی والدہ زبیدہ سے ملااوراس نے کوشش کی کہ زبیدہ شیرعلی اورعاصمہ کی شادی پررضامندہوجائے اس پرزبیدہ کواوربھی غصہ آیا۔ایلی کی اتنی ہمت کہ وہ شیرعلی کاپیغام لے کرآئے جب کہ اس نے ثمرہ کے سلسلے میں اس سے اس حدتک بدسلوکی کی تھی کہ آخروہ ثمرہ کونورعلی سے بیاہنے پرمجبورہوگئی تھی۔حالانکہ ثمرہ اورنورعلی میں بیس پچیس سال کافرق تھا اورنورعلی کی پہلی شادی سے ایک بیٹی تھی جس کی عمرثمرہ سے کم نہ تھی۔
نصیراورشیرعلی بہت دیرکے بعدایلی سے ملے تھے۔کیونکہ شہزاداورایلی توبن باسیوں کی سی زندگی بسر کررہے تھے اورمحلے میں نہیں جاسکتے تھے۔نصیربڑی محبت سے ایلی کوملاشیرعلی اپنی طبیعت کے مطابق خاموش تھا
اگرچہ اس کے اندازمیں رسمی ادب اوراخلاق بدرجہ اتم موجودتھے ۔وہ دونوں دوایک روزشال وا ل رہے اورپھرواپس علی پورچلے گئے۔
ان کے جانے کے چندروزبعدایک دن صبح سویرے ہی لڑکیوں نے ایلی کوجگایا۔’’امی کی طبیعت اچھی نہیں۔انہوں نے کہا۔ایلی شہزادکی طرف گیا۔شہزادنے اٹھنے کی کوشش کی اوردھڑام سے گرکربے ہوش ہوگئی۔۔۔ایلی گھبراگیا۔اوراٹھ کرڈاکٹرکی طرف بھاگا۔لڑکیاں سہم گئیں۔
جب وہ ڈاکٹرکولے کرآیاتودیکھاکہ شہزادچارپائی پرپڑی کراہ رہی ہے اور اس کے پاس چارپائی پرایک بچہ چپ چاپ پڑاہے۔لڑکیوں کے پاس ان کی پڑوسن بیٹھی مسکرارہی تھی۔
ایلی نے غورسے بچے کی طرف دیکھا۔
اس کے سامنے ڈاکٹرہاشم آکھڑاہوا۔’’یہ بچہ۔‘‘وہ بولا۔’’بہت کچھ لائے گا۔بہت کچھ‘عالی ظرف عالی۔عالی۔عالی۔‘‘ایلی کے کانوں میں ہاشم کی آوازگونج رہی تھی۔
’’عالی۔‘‘!ایلی نے بچے کی طرف دیکھا۔
’’اورتم لڑکی۔‘‘ہاشم نے شہزادکی طرف دیکھا۔’’تم چلی جاؤگی۔‘‘
’’ہاں مجھے معلوم ہے۔‘‘شہزادنے نگاہیں جھکالیں۔
ایلی باہر جنگلے میں نکل گیااورکھڑکی سے سٹیشن کی طرف دیکھنے لگا۔سٹیشن پرایک گاڑی کھڑی تھی۔پلیٹ فارم پرلوگ ادھرادھرچل رہے تھے اس کے باوجودایسے دکھائی دے رہاتھا۔جیسے تمام دنیاپرجمودطاری ہو۔جیسے لوگ نیندمیں چل رہے ہوں۔
عالی کی آمدکے بعدایلی کے گھرمیں ایک نئی دل چسپی پیداہوگئی۔شہزادکی بدمزاجی دورہوگئی۔لڑکیاں عالی میں کھوگئیں۔سارادن وہ اسے کھلاتیں۔اٹھائے پھرتیں۔عالی کے آنے سے گھرمیںایک بارپھرزندگی پیداہوگئی۔
ایک مرتبہ شہزاداورایلی کولاہورجاناپڑا۔
محموداورنقلیہ
جب وہ لاہورسے لوٹے توشاہ وال میں محمودان کی آمدکاانتظارکررہاتھا۔
ان دونوں محمودبی اے کرچکاتھا۔اب وہ لاہور میں محکمہ تعلیم کے ہیڈآفس میں سپرنٹنڈنٹ تھا۔ایلی محمودسے مل کرہمیشہ خوش ہوتاتھا۔وہ پرانے ساتھی تھے اورجب بھی آپس میں ملتے تھے علم وادب کے علاوہ نفسیات پربحث کرتے یاپرانی باتوں کودہرادہراکرہنساکرتے۔
شام کے وقت محموداورایلی دونوں سیرکے لئے باہر نکل گئے۔تومحمودنے بات چھیڑدی۔کہنے لگا۔’’ایلی یارتم ان لڑکیوں کی شادی کیوںنہیں کردیتے۔وہ اس گھرمیں خوش نہیںہیں۔‘‘
شادی کی بات توخیرٹھیک تھی۔لیکن یہ سن کروہ گھرمیں خوش نہیں ایلی چونکا۔
’’خوش نہیں ہیں۔‘‘ایلی نے محمودکی طرف دیکھا۔’’تم کیسے کہہ سکتے ہوکہ وہ خوش نہیں۔‘‘
محموداپنے پراسراراندازسے مسکرایا۔عورتوں کے معاملے میں اس کی شخصیت میں ایک عجیب سی پراسراریت تھی۔وہ بات کھل کرنہیں کرتاتھا۔
’’انہوں نے مجھے خودبتایاہے۔‘‘وہ بولا۔
’’خودبتایاہے۔‘‘ایلی نے اس کی طرف دیکھا۔
’’ہاں۔‘‘وہ شرمانے ہوئے بولا۔’’جب میں ک
 

جاویداقبال

محفلین
’’خودبتایاہے۔‘‘ایلی نے اس کی طرف دیکھا۔
’’ہاں۔‘‘وہ شرمانے ہوئے بولا۔’’جب میں کل یہاں پہنچااورمجھے معلوم ہواکہ تم گھرپرنہیں ہوتوتمہاری غیرحاضری میں میں نے تمہارے ہاں ٹھہرنامناسب نہ سمجھا۔لیکن۔‘‘۔۔۔وہ رک گیا۔
پھروہ خودہی بولا۔’’انہوں نے خودمجھے ٹھہرنے پرمجبورکیا۔میرامطلب ہے۔‘‘وہ مسکرایا۔’’نوفاؤل پلے آفسٹ اورپھررات کونفیسہ میرے پاس آگئی اوردیرتک بیٹھی رہی۔روتی رہی۔‘‘روتی رہی۔‘‘ایلی سے پھرحیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
’’لڑکیاں سمجھتی ہیں کہ انکی زندگی تباہ ہوچکی ہے۔اوران کامستقبل تاریک ہے اوروہ چاہتی ہیں کہ ان جلد انکی شادیاں ہوجائیں تاکہ وہ اپنے اپنے گھرچلی جائیں۔‘‘محمودنے کہا۔
’’لیکن شہزاداورمیں۔۔۔۔‘‘ایلی نے کچھ کہناچاہا۔
’’اونہوں۔‘‘محمودبولا۔’’تم دونوں لڑکیوں کے صرف ایک پہلو سے واقف ہو۔تم سمجھتے ہوکہ انکی زندگی کاظاہری پہلوہی حقیقت ہے۔‘‘
’’توکیاان کی زندگی کااورپہلوبھی ہے۔‘‘ایلی نے حیرانی سے پوچھا۔
’’ہاں۔‘‘محمودبولا۔’’اوراسی پہلوکے تحت وہ میرے پاس آئی تھیں۔صبیحہ اندردروازے میں کھڑی رہی اورنفیسہ میرے پاس آبیٹھی اوروہ دونوں باتیں کرتی رہیں۔‘‘
’’تمہیں معلوم ہے ۔‘‘ایلی نے ’’صبیحہ کے لئے رشتہ آیاتھا۔‘‘
’’ہاں وہ ناچے ۔‘‘وہ بولا۔’’مجھے انہوں نے سب بتایاتھا۔‘‘
’’توپھرمیں کیاکروں۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’نفیسہ کانکاح کردو۔‘‘محمودبولا۔
’’لیکن کس سے۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
محمودمسکرایا۔۔۔‘‘تمہااربوجھ ہلکاہوجائے گا۔میں اس کاتمام خرچہ برداشت کروںگااورجب تک وہ چاہے گی اسے تعلیم دلاؤں گا۔اسے تعلیم حاصل کرنے کابہت شوق ہے۔‘‘
’’تم۔۔۔‘‘ایلی نے محمودکی طرف دیکھا۔
’’ہاں۔‘‘وہ بولا۔’’میں!مجھ پرتم بھروسہ کرسکتے ہو۔‘‘
’’لیکن لیکن۔‘‘ایلی بولا۔’’کیاوہ رضامندہوجائے گی۔‘‘
’’کون۔‘‘محمودنے پوچھا۔
’’نفیسہ اورکون۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔
’’نفیسہ رضامندہے۔‘محمودنے کہا۔’’بلکہ وہ خودچاہتی ہے اورمیں اسی کے کہنے پرتم سے بات کررہاہوں۔‘‘
ایلی کودھچکاسالگا۔اسے محمودکے خلاف شکایت نہ تھی اسے لڑکیوں پرحیرت تھی ’’دیکھومحمود۔‘‘وہ بولا۔’’مجھے کوئی اعتراض نہیں بشرطیکہ نفیسہ اس بات کی خواہاں ہواوراگروہ خواہاں ہے توشہزادکومیں منالوں گا۔‘‘
محمودکے جانے کے بعدایلی نفیسہ کوایک طرف لے گیا۔
’’نفیسہ ۔‘‘اس نے بات شروع کی ۔’’نفیسہ ایک بات بتاؤمجھے۔‘‘
نفیسہ نے پراسرارنگاہ سے اس کی طرف دیکھا۔
’’شرمانے کی کوئی بات نہیں۔‘‘وہ بولا۔’’جو بھی تمہاری صحیح رائے ہومجھے بتادوچونکہ میں تمہاری رائے کے بغیرتمہاری رضامندکے بغیرکچھ نہ کروں گا۔‘‘
نفیسہ نے آنکھیں جھکالیں۔
’’کیاتم چاہتی وہ کہ تمہاری شادی کردی جائے۔‘‘
وہ چپ چاپ بت بنی کھڑی رہی۔
’’اگرتمہاری شادی محمودسے کردی جائے توتمہیں اعتراض تونہ ہوگا۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
نفیسہ جوں کی توں چپ چاپ کھڑی رہی۔
’’جواب دونا۔‘‘وہ بولا۔
وہ خاموش رہی۔
’’اچھا۔‘‘وہ بولا’’اگرتم نے جواب نہ دیاتومیں سمجھوں گاکہ تم رضامندہو۔
وہ جوں کی توں خاموش کھڑ ی رہی۔
’’اچھا۔‘‘ایلی نے کہا۔’’توفکرنہ کرومیں کوشش کروں گاکہ تمہاری شادی محمودسے ہوجائے۔فکرنہ کرومیں تمہاراساتھ دوں گا۔‘‘
اس شام وہ بغورنفیسہ کی حرکات وسکنات کودیکھتارہااوراس نے محسوس کیاکہ نفیسہ خوش تھی۔
اسی رات جب ایلی نے شہزادسے بات کی تووہ بگڑگئی بولی۔’’کیاہرنتھوخیراکے لئے میری ہی لڑکیاں رہ گئی ہیں۔‘‘ایلی نے التزماًاسے حالات سے آگاہ نہ کیاتاکہ نفیسہ کی شکایت کاپہلونہ نکلے۔
ایلی کومحموداورنفیسہ کی شادی سے قطعی کوئی دلچسپی نہ تھی۔وہ اس سلسلے میں صرف اس لئے کوشش کرہاتھاکہ نفیسہ چاہتی تھی کہ وہ محمودکی ہوجائے۔ایلی نے شہزادکوسمجھایابجھایااوررضامندکرلیا۔
نتیجہ یہ ہواکہ ایک روزمحمودکانفیسہ سے نکاح ہوگیا۔
محمودایلی کے گھرمیں دس روزنفیسہ کے ساتھ رہاپھراس نے نفیسہ کوزنانے بورڈنگ ہاؤس میں داخل کرادیاچونکہ نفیسہ کامطالبہ تھاکہ اسے بورڈنگ میں داخل کرادیاجائے تاکہ وہ بورڈنگ میں محنت کرسکے اوردسویں پاس کرلے۔
جب دسویں کاامتحان ہوچکاتومحمودنفیسہ کولینے کے لئے آگیااس نے لاہورکالج میں داخل کرانے کے جملہ انتظام کررکھے تھے۔
جب ایلی نفیسہ کوبورڈنگ سے لینے گیاتونفیسہ نے آنے سے انکارکردیا۔پھرسکول کی استانیاں اکٹھی ہوگئیں اوروہ ایلی کوبرابھلاکہنے لگیں۔ان کی باتوں سے مترشح ہوتاتھاکہ وہ سمجھتی تھیں کہ نفیسہ کی شادی زبردستی کی گئی تھی۔
ایلی حیران تھا۔اسے کچھ سمجھ نہ آرہاتھا۔غصے کی وجہ سے اس کاذہین شل ہوچکاتھا۔اس نے شورمچادیاحتیٰ کہ سکول کی عزت کے خیال سے انہیں نفیسہ کوباہربھیجناہی پڑاایلی نے اس کابازوتھام لیااوراسے سمجھانے لگا۔’’یہ کیاحماقت ہے نفیسہ!تمہاری شادی ہوچکی ہے تم دس روزاکٹھے رہ چکے ہواوراب۔۔لیکن یہ شادی توتمہاری رضامندی سے کی گئی تھی۔‘‘نفیسہ نے چلتے چلتے زورسے جھٹکامارااورہاتھ چھڑاکربورڈنگ کی طرف بھاگی۔
طلاق
جب وہ گھرپہنچاتوشہزادیوں کھڑی تھی۔جیسے شیرنی کچھارمیں کھڑی ہووہ غصے سے کانپ رہی تھی۔‘‘اگراپنابھلاچاہتے ہو’’وہ بولا‘‘توابھی میری بیٹی کوطلاق دلواؤ۔ورنہ۔‘‘
’’توکیاتم بھی۔۔۔‘‘وہ شہزادکی طرف حیرانی سے دیکھنالگا۔
’’تم نے میری بچی کوایک بدمعاش کے ہاتھ بیچاہے۔‘‘شہزادبولی۔
’’یہ تم کیاکہہ رہی ہو۔‘‘ایلی نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔
’’ہاں میں کہہ رہی ہوں۔‘‘شہزادبولی۔
’’تم نے اپنی بیٹی سے پوچھاہے کیا۔‘‘
’’میں سب جانتی ہوں۔‘‘وہ بولی۔
شہزادکے عقب میں صبیحہ اورریحانہ کھڑی مسکرارہی تھیں۔
فرش پرعالی بیٹھاگنگنارہاتھا۔’’ابو ‘ابو۔‘‘
شہزادگھرسے باہرنکل گئی۔وہ بورڈنگ کی طرف جارہی تھی۔
’’غصہ میں نہ آؤ۔‘‘محمودایلی کے پاس آکھڑاہوا۔
’’تم جاؤمحمود۔‘‘وہ بولا۔تمہارایہاں رہناٹھیک نہیں ۔نہ جانے یہاں کیاہونے والاہے تم چلے جاؤ۔‘‘
’’کیوں۔‘‘ وہ بولا۔
’’بات بڑھ جائے گی۔‘‘ایلی نے کہا۔’’بہت بڑھ جائے گی اگرتم یہیں رہے تو۔‘‘
’’ہوںیہ توٹھیک ہے۔‘‘محمودنے لپک کراپناسوٹ کیس اٹھالیا۔
’’میں تمہیں اطلاع دوں گا۔‘‘ایلی نے کہا۔محمودچپ چاپ گھرسے نکل گیا۔
ایلی صحن میں دیوانہ وارگھوم رہاتھا۔وہ شہزادکے انتظارمیں بیٹھاتھا۔اسے سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ آخروہ سب یک لخت بدل کیوںگئے تھے۔آخرکیاوجہ تھی۔وہ محسوس کررہاتھا۔جیسے وہ سب کچھ جو ہورہاتھا۔ایک سوچے سمجھے پلان کے مطابق ہورہاتھا۔لیکن کیوں؟وہ سوچ رہاتھا۔اس کامقصدکیاتھا؟اسے کچھ سمجھ نہیں آرہاتھا۔
رات کے بارہ بج چکے تھے۔
باہر محلہ سنسان پڑاتھا۔
دورکتے بھونک رہے تھے۔
کمرے میں لڑکیاں کاناپھوسی کررہی تھیں۔
پلنگڑی پرعالی بیٹھابیٹھاسوگیاتھا۔اس کامنہ ایلی کی طرف تھا۔
دفعتاً شہزادداخل ہوئی۔اس کے ساتھ نفیسہ تھی اورسکول کی ایک ادھیڑعمرکی استانی۔
ایلی انہیں چپ چاپ دیکھتارہا۔
شہزادخاموش تھی۔نفیسہ آتے ہی لڑکیوں کے کمرے میں داخل ہوگئی۔انہوںنے اندرسے کنڈی لگالی۔
استانی بولی۔’’بہتریہی ہے کہ آپ لڑکی کافیصلہ کرادیں۔‘‘اس کاروئے سخن ایلی کی طرف تھا۔
’’آپ سمجھتی ہیں کہ لڑکی کی شادی زبردستی کی گئی ہے۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’لڑکی یہی کہتی ہے۔‘‘وہ بولی۔
’’اوروہ ٹھیک کہتی ہے۔‘‘شہزادبولی۔’’لڑکی کودھوکے سے پھانس لیاگیاہے۔‘‘
’’لڑکی کومیرے سامنے بلاکرپوچھ لیجئے۔‘‘ایلی نے استانی سے کہا۔
’’وہ سامنے نہیں آئے گی۔‘‘شہزاددونوں ہاتھ کمرپررکھ کے سامنے کھڑی ہوگئی۔
’’کیوں۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’بس نہیں آئے گی۔‘‘وہ غرائی۔
’’کیاآپ کومجھ پراعتمادنہیں۔‘‘ایلی نے استانی سے کہا۔’’میں نے یہ رشتہ لڑکی کی منشاکے مطابق کیاہے۔بلکہ اس کے اشارے پرکیاہے۔کیاآپ کومجھ پراعتمادنہیں۔‘‘
’’بالکل غلط ہے۔‘‘شہزادبولی۔‘‘’’بالکل غلط۔یہ شادی ایک سازش تھی۔بہتریہی ہوگاکہ فوراً اسے طلاق دلادی جائے۔‘‘
’’ورنہ۔۔۔‘‘ایلی بولا۔
’’ورنہ میں طوفان کھڑاکردوں گی۔‘‘شہزادچلائی۔
’’ہوں۔‘‘ایلی بولا۔’’طلاق مل جائے گی لیکن ہماراآپس میں کوئی سمبندھ نہیں رہے گا۔
تمہیں منظورہے۔‘‘
اس نے پوچھا۔
’’منظورہے۔‘‘شہزادنے جواب دیا۔
ایلی اندرچلاگیا۔اس نے سوٹ کیس میں اپنے کپڑے بندکئے اورپھرسوٹ کیس اٹھاکرباہر نکل آیا’’آیئے۔‘‘وہ استانی سے کہنے لگا۔’’میں آپ کوبورڈنگ تک چھوڑآؤں۔‘‘
شہزادنے ایک مرتبہ حیرت سے ایلی کی طرف دیکھا۔شایدوہ سمجھتی تھی کہ ایلی خالی دھمکی دے رہاہے۔
’’طلاق تمہیں مل جائے گی۔‘‘ایلی نے دہرایا۔‘‘خرچ بھی ملتارہے گا۔حسب توفیق۔‘‘
’’لیکن آپ جائیں گے کہاں۔اس وقت۔‘‘استانی نے پوچھا۔
’’میں ایسے گھرمیں نہیں رہ سکتاجہاں اپنی مرضی سے شادی کرنے کے باوجوددن دن کے بعدبلاوجہ طلاق مانگی جائے۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔
شہزاددونوں بازوکولہوں پررکھ کرصحن میں کھڑی ہوکرایلی کوگھورنے لگی۔
’’ایسانہ کیجئے۔‘‘استانی نے کہا۔
’’توکیایہاں رہ کربے عزتی کی زندگی بسرکروں۔‘‘وہ بولا۔
’’اب توعزت والے بن بیٹھے ہو۔‘‘شہزادچلائی۔
’’لڑنابیکاہے۔‘‘وہ بولا۔’’صرف ایک بات پوچھتاہوں کیاتم طلاق مانگتی ہو۔تم چاہتی ہوکہ نفیسہ طلاق لے لے۔‘‘
’’چاہتی۔‘‘وہ غرائی۔’‘میں دیکھوں گی کہ کیسے نہیں ہوتی طلاق‘‘’’اس کی کیاوجہ ہے۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’تمہیں اس سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘وہ غرائی۔
’’اچھا۔‘‘و ہ بولا۔’’مجھے کوئی تعلق نہیں توخداحافظ۔‘‘ایلی باہرنکل گیا۔
’’ابو۔ابو۔‘‘عالی سوتے سوتے جاگ پڑا۔۔۔’’ابو۔‘‘وہ رورہاتھا۔ایلی بھاگ رہاتھااسے ڈرتھاکہ کہیں عالی چیخیں سن کروہ واپس جانے پرمجبورنہ ہوجائے۔ابوابو دورایک چکی ہونک رہی تھی۔
ابو۔ابوریل نہ جانے کدھرجارہی تھی۔وہ ہاتھوں میں سردبائے چپ چاپ ڈبے میں بیٹھاتھا۔
 
Top