علی پورکاایلی(936-965)

جاویداقبال

محفلین
کرآنسوبہانے لگتی ہے۔نہ جانے کیسی افسرہے گھڑی میں کچھ گھڑی میں کچھ ابھی معطل کرنے کی دھمکی دے رہی تھی اب چپڑاسی کے ہاتھ بادام بھیج دیئے کہ پشاورسے آئے ہیں تم بھی کھالو۔
’’محمودنے جب نئی آسامیوں کااشتہاردیکھاتوتفریحاً ایک عرضی دے دی تھی۔اس وقت اسے علم نہ تھاکہ ویلفیئر کے محکمہ میں زیادہ ترکارکن عورتیں اورمحکمہ کاچیف بھی عورت ہے۔عورتوں کے متعلق محمودکارویہ عجیب تھا۔اگرچہ وہ عاشق قسم کافردنہ تھاپھربھی اسے عورتوں سے بے حددلچسپی تھی۔ایسی دلچسپی جوایک نارمل مردعورت سے محسوس کرتاہے۔لیکن ساتھ ہی اسے عورت سے ڈرلگتاتھا۔وہ ان سے گھبراتاتھا۔ساتھ ہی انہیں اپنی طرف متوجہ کرنے کی شدیدکوشش کرتا۔یہ ظاہرنہ ہونے دیتاکہ توجہ جذب کرنے کی کوشش کررہاہے یاانہیں غیرازمعمول اہمیت دے رہاہے بلکہ اس کے برعکس وہ بے پروائی کالبادہ اوڑھے رکھتااورماتھے پریوں تیوری جمالیتاجیسے نسوانی سحرسے مستثنےٰ ہو۔پھرموقعہ ملنے پرایک شدت بھری نگاہ ڈالتا۔آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرمسکراتا۔گلیڈآئی چمکاتااورپھرتیوری چڑھاکریوں منہ موڑلیتاجیسے جانتاہی نہ ہو۔
میڈم اورمحمود:۔
جب وہ نیانیااس محکمے میں گیاتوعورتیں ہی عورتیں دیکھ کرگھبراگیا۔لیکن اس گھبراہٹ کے ساتھ ہی دلچسپی بھی محسوس کی ۔بہرحال اس نوکری میں سب سے بڑی دقت یہ تھی کہ اسے محمکہ کی چیف یعنی میڈم سے کام کرناپڑتاتھا۔میڈم کودیکھتے ہی محمودنے تیوری چڑھائی اوریوں کام میں محوہوگیا۔جیسے اسے عورت اورمردکی تمیزہی نہ ہو۔لیکن ویلفیئرکی کئی کارکن بڑی بانکی تھی۔کئی ایک شوخ تھیں۔ایسے حالات میں بھلاہروقت پیشانی پرتیوری چڑھائے رکھاکیسے ممکن ہوسکتاتھا۔لہٰذاجب میڈم کی توجہ ادھرہوتی تووہ کارکن پرآنکھ چمکاتااورپھرکام میں مصروف ہوجاتا۔
آنکھ چمکاکردفعتاً پھرسے پتھرہوجانے کے فن میں محمودکاجواب نہیں تھا۔لیکن دقت یہ تھی۔کارکنیں بالکل ہی نوجوان تھیں۔وہ اس کی نگاہ کی متحمل نہ ہوسکتی تھیں۔پگھل کرموم ہوجاتیں اورموم سے چھینٹے اڑتے اورمیڈم پرجاپڑتے۔اس پرمیڈم کوغصہ آجاتا۔
میڈم کواس بات پرغصہ آتاکہ ابھی یہ لڑکی مناسب طریقے سے باتیں کررہی تھی اب منہ بنانے لگی لفظوں کورولنے لگی۔ آنکھیں چمکانے لگی۔رکنے لگی۔گال تمتاگئے یہ گیاگڑبڑہے۔وہ یہ سمجھنے لگی کہ لڑکیاں محمودکے روبروآکردھک جاتی ہیں۔اسے پتہ نہ تھاکہ محموداپنے ماتھے کی شکن آتارسکتاہے۔دو ایک بارمیڈم نے اعلانیہ محمودسے اس تبدیلی کی بات کردی جواس کی موجودگی میںلڑکیوں میں ظاہرہوتی تھی۔اس پر محمودگھبراگیااوراسے غصہ آگیااوراس کارویہ میڈم سے اوربھی سخت ہوگیا۔
ایک روزجب میڈم نے کہا۔’’تم نے دیکھاکلرک جب اس لڑکی نے تمہیں دیکھاتواسکے ہاتھ میں پن شیک کرنے لگا۔حتیٰ کہ خط بدل گیا۔‘‘
میڈم کی ایسی بات پر محمودکوغصہ آتاتھا۔’’توپھرتمہیں کیا۔‘‘وہ دل میں کہاکرتا۔اس روزتواسے بہت ہی غصہ آیا۔
وہ ابھی غصے میں بھرابیٹھاتھاکہ مالی پھول لے آیا۔میڈم نے پھول دیکھ کرگویاخوشی سے چیخ ماری۔‘‘یہ دیکھاتم نے کلرک۔‘‘وہ چلائی’’کتنے خوبصورت پھول ہیں یہ دیکھوتو۔‘‘
محمودنے منہ موڑلیا۔’’نہیں میںنہیں دیکھتا۔‘‘اس کے منہ سے نکل گیا۔
میڈم نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
کسی ماتحت نے کبھی ایسانہیں کیاتھا۔شایداسے غلطی لگی ہو۔شایدکلرک نے غلطی سے بات کردی ہو۔یہ کیسے ہوسکتاہے ایک ادنیٰ ماتحت مجھ سے لڑنے کی کوشش کرے۔
’’تمہیں دیکھناپڑے گا۔‘‘وہ شدیدجوش میں بولی۔
’’یہ میرے فرائض میں سے نہیں ہے۔‘‘محمودنے گھورکرمیڈم کی طرف دیکھا۔
میدم کامنہ سرخ ہوگیا۔شایدخوشی سے پھروہ غصے میں چلانے لگی۔یاشایدلڑائی کے اس نئے امکان پرخوشی سے چیخ رہی ہو۔
’’یہ کوئی بات کرنے کاطریقہ نہیں ہے کلرک۔‘‘ وہ بولی۔
’’میڈم یادرکھئے کہ میرا نام کلرک نہیں محمودہے۔‘‘محمودنے کہااورپھرخراماں خراماں چل پڑا۔جیسے شاہ کاپارٹ اداکرنے کے بعدایکٹربڑے رعب سے سٹیج سے باہرچلاجاتاہے۔میڈم حیرت سے اس کی طرف دیکھتی رہی۔
اگلے روزجب محموددفترآیاتووہ جان بوجھ کراپنے کمرے میں جابیٹھا۔ورنہ عام طورپراس کادستورتھاکہ آتے ہی پہلے میڈم سے ملتاکام کاج کے متعلق پوچھتااورپھرکام میں مصروف ہوجاتا۔
کچھ دیرکے بعدمالی آیا۔’’میم صاحب بلاتی ہیں۔‘‘
’’اچھامحمودنے کہا۔‘‘کام سے فرصت ہوگئی توآؤںگا۔‘‘
مالی کوگئے ابھی دیرنہ ہوئی تھی کہ میڈم خودآگئی۔وہ بولی’’مجھے پھول نہیں دکھانے۔بلکہ خط کاجواب لکھواناہے۔‘‘
’’ہوں۔‘‘محمودنے سرہلایااوراپنی سیٹ پربیٹھارہا۔
اس روزمیڈم بے حد خوش تھی وہ باربارمحمودکے کمرے میں آتی اوراسے کوئی نہ کوئی بات سمجھاکریابتاکرچلی جاتی اورکچھ دیرکے بعدپھرلوٹ آتی۔محمودکوسمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ اس کارویہ کیوں بدلاہواہے۔اس نے کلرک کی جگہ مسٹرمحمودکہہ کرپکارناکیوں شروع کردیاہے۔
شایدوہ یہ سمجھتاتھاکہ میڈم اس کی امدادکے بغیرکام نہیں چلاسکتی تھی۔چونکہ دفترکے دوسرے کلرک قابلیت اورذہانت سے خالی تھے اورروزمرہ کے معمولی کام کے علاوہ کچھ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے۔محمودکواپنی قابلیت پراعتمادتھااوریہ اعتمادمزیدمشکلات کاباعث تھا۔
ایک روزمیڈم محمودکالکھاہواخط پڑھ کربولی۔‘‘ٹھیک ہے لیکن منتاژکے لفظ کے ہجے ٹھیک کرلو۔‘‘
’’ہوں۔‘‘محمودبولااوراس نے میڈم کے سامنے وہ خط لفافے میں بندکرکے ڈسپیچرکودے دیا۔‘‘اسے ابھی ڈسپیچ کردو۔‘‘ وہ بولا۔
محمودبڑے اطمینان سے خط کی نقل اٹھائی پھرآکسفورڈڈکشنری لے کروہ نقل اورڈکشنری میڈم کی طرف بڑھا دی۔
اس بات پر میڈم سیخ پاہوگئی۔’’میں نے کہاتھاتم ہجے دیکھ لو۔‘‘
’’میں تووثوق سے جانتاہوں کہ ہجے ٹھیک ہیں۔‘‘محمودبولامیڈم اپنی تسلی کرلیں۔
محمودکے اس کے اس قسم کے طرزعمل سے میڈم چونکی اوراسے محسوس ہوتاکہ وہ ایک مردسے بات کررہی ہے کلرک سے ہیں۔غالباً اسے اپنے خاوندیادآجاتااورپھرشایداس خیال پرکہ کلرک کومردوں کاسابرتاؤکرنے کاحق ہے یاشایداس لئے کہ اس کاخاونداتنی دورکیوں رہتاہے وہ غصے سے بھوت بن جاتی۔بہرصورت میڈم اورمحمودکے درمیان عجیب چپقلش شروع ہوگئی۔غالباً محمودکی خواہش تھی کہ کسی وجہ سے میڈم ناراض ہوکراسے واپس اپنے محکمے میں بھیج دے۔اس لئے اس نے جان بوجھ کر میڈم کی باتوں کوردکرناشروع کردیااسے قطعی طورپرعلم نہ تھاکہ ایسی باتیں کرکے وہ میڈم کو احساس دلارہاہے کہ وہ کلرک نہیں مردہے اورمیڈم چیف کے علاوہ عورت بھی ہے۔
اس کے بعدمحمودنے مسزفلپ کے نجی معاملات میں دخل دیناشروع کردیا۔یہی تووہ چاہتی تھی کہ کوئی اس کے معاملات میں دلچسپی لے اس سے جھگڑے مشورے دے تاکہ اسے ایک ساتھی کی موجودگی کااحساس ہو۔
اگرچہ مسزفلپ تنخواہ ملتے ہی ایک معقول رقم مسٹرفلپ کوبھیج دیاکرتی تھی۔لیکن جلدہی فلپ کی زیادتی کاتذکرہ ہوتااورعام ضروریات مثلاً سگریٹ وسکی کافی کی کمی شکایت ہوتی ۔ مسز فلپ پھرکچھ روپیہ بھیج دیتی۔لیکن جلدہی پھرایساخط موصول ہوتا۔پھرروپیہ بھیجنے کے علاوہ صبح شام مسٹرفلپ کی پریشانیوں کی باتیں کرتی رہتی تھی۔اس نے کبھی ان مطالبات کابرانہ ماناتھا۔بلکہ اکثروہ اس قدرروپیہ ارسال کردیتی کہ خوداپنی ضروریات میں تخفیف کرنی پڑتی اورایسابھی ہوتاتھاکہ اسے خودکھانے پینے کے لئے قرض لیناپڑتاتھا۔
سترھواں لے پالک
ایک روزجب وہ مسٹرلے پالک کودوسری قسط ارسال کررہی تھی تومحمودنے کہا۔
’’میڈم یہ آپ کیاکررہی ہیں۔آپ نقدروپیہ بھیج دیتی ہیںاورمسٹرفلپ اسے ادھرادھرخرچ کردیتے ہیں اورسگرٹ اس کی تمام ضروریات ویسی کی ویسی پوری ہوئے بغیررہ جاتی ہیں۔‘‘
’’تومیں کیاکرو۔‘‘میڈم چلائی۔
سیدھی بات ہے۔‘‘محمودبالا۔‘‘روپیہ کی جگہ سگرٹ وسکی چائے کافی وغیرہ بھیجئے تاکہ ضروریات پوری ہوجائیں۔
’’سچ ‘‘۔وہ چلائی اوربچوں کی طرح خوشی سے تالیاں پیلنے لگی۔’’یہ بات تومجھے سوجھی ہی نہیں۔‘‘
’’جبھی توسمجھارہاہوں۔‘‘ وہ ہنسا۔
’’سچ۔‘‘وہ سنجیدگی سے بولی۔‘‘تمہارے بغیر۔۔۔‘‘وہ دفعتاً رک گئی۔اس روزغالباً پہلی مرتبہ واضح طورپراس حقیقت کااظہارکرتے کرتے اس نے خودکوروک لیا۔محمودپھربھی بات کوپانہ سکااورمسزفلپ اس حقیقت کوواضح طورپرپانے کے بعدشدت سے اسے نظراندازکرنے اوربھول جانے کی کوشش میں کھوگئی۔جب ایلی ان کے ساتھ نیاشہرپہنچاتوان دونوں کی کچھ ایسی کیفیت تھی۔وہ پانہ سکاتھاوہ پاچکی تھی۔لیکن نظراندازکرنیکی کوشش میں شدت سے مصروف تھی ادھرمسٹرفلپ نقدروپیہ کی جگہ اشیاکی پیٹی موصول کرکے حیران رہ گیاتھا۔ایسی بات توکبھی نہ ہوئی تھی۔اس کی پیاری بیوی توہمیشہ اسے نقدروپیہ بھیجاکرتی تھی اورمنی آرڈرسے نہیں بلکہ تارکے ذریعے اورآج غیرازمعمول سگرٹ کے ڈبوں اوروسکی کی بوتلوں کی پیٹی اس کے روبروپڑی تھی۔خیراشیاتوکچھ بری نہ تھی لیکن وہ اس افراط سے بھیج گئی تھی کہ مہینہ بھرمطالبہ کرنے کی گنجائش نہ رہی تھی۔اورنقدروپیہ وصول کرنے کی کوئی امیدنہ تھی۔
یہ دیکھ کروہ چڑگیا۔نہ جانے میری بیوی کوکون ایسے گربتارہاہے ورنہ وہ توصرف محسوس کرناجانتی ہے۔سوچنانہیں۔
مسٹرفلپ نے اس بھیدکوجاننے کے لئے اپنے ذرائع استعمال کرنے شروع کردیئے اورغالباً گھرکے کسی نوکرنے مسٹرفلپ کوصورت حالات سے واقف کردیا۔
ایلی کے نیاشہرپہنچنے پرمیڈم کویادآیاکہ ویلفیئرکے طالب علموں کے پرچے جواس کے پاس دیکھنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔انہیں چیک کرکے واپس کرنے کی تاریخ سرپرآن پہنچی تھی۔اس لئے اس نے محمودکوبلایااوراس نئی مشکل کاتذکرہ کیا۔
محمودنے کہا۔’’میڈم اس میں کیامشکل ہے ۔اگرہم چارشخص بیٹھ جائیں توایک رات میںبارہ سوپرچے ختم کردیں گے۔میں ہوں ایلی ہے۔آپ ہیں اس کے علاوہ آپ کی ڈپٹی ناظمہ ہے۔‘‘
میڈم کویہ تجویزپسندآئی اورایک رات وہ چاروں میڈم کی کوٹھی کے بڑے کمرے میں بٹیھ گئے۔ تاکہ پرچے دیکھ کرصبح سویرے انہیں واپس بھجوادیں اوراس اہم فرض سے سبکدوش ہوجائیں۔
ادھرمسٹرفلپ کوجب معلوم ہواکہ میڈ م کاایک کلرک اسے ایسے ویسے مشورے دے رہاہے تواس نے سوچاکہ اس مصبیت کوکسی طرح شروع شروع میں ہی ٹالناچاہیے ورنہ اگرمسزفلپ اسی راستے پرچل نکلی ۔توپھراس کازاؤیہ نگاہ بدلنامشکل ہوجائے گا۔اس لئے صورت حالات کوجانچنے کے لئے اس نے آٹھ یوم کی رخصت لی۔اوراطلاع دیئے بغیرنئے شہرآگیا۔دن بھرسٹیشن پرویٹنگ روم میں بیٹھارہا۔جب رات پڑی توچھپ کرگھرآیا۔آکراس نوکرسے ملاجس نے اطلاع بہم پہنچائی تھی۔نوکرہنس کربولا۔’’صاحب وہ تو اس وقت بھی اندرکمرے میں بیٹھے ہیں۔دومردہیں ایک عورت اورمیڈم ہے۔‘‘
یہ سن کر مسٹرفلپ کی آنکھوں میں خون اترآیا۔اس نے سب نوکروں کواکٹھاکیا۔ایک پلان مرتب کیا۔جس کے مطابق ایک نوکرنے بجلی کامین سوئچ بندکردیااورباقی سب نے اس کمرے پریلغاربول دی جس میں ایلی محمودمیڈم اورناظمہ پرچے دیکھنے میں مصروف تھے۔
بجلی بندہوتے ہی کمرے میں ایک ہنگامہ مچ گیا۔محمودنے ایک چنگھاڑسی ماری۔میڈم چلانے لگی ناظمہ چیخ رہی تھی۔ایلی حیران تھاکہ ماجرا کیاہے ایک جوتااس کے سرپرپڑا ۔ ارے وہ اٹھ بیٹھا۔
کمرے میں عجیب وغریب آوازیں آرہی تھیں ۔وہ ڈرگیا۔
کمرے کی ایک کھڑی مکمل کھلی تھی۔محمودنے باہرچھلانگ لگادی اورپھرچیخنے لگا۔’’ایلی ایلی۔‘‘
محمودکی آوازسن کر ایلی کادل بیٹھ گیااس نے خطرے کوشدت سے محسوس کیااوروہ کھڑکی طرف بھاگا۔اس وقت رات کے دوبجے تھے۔محموداورایلی چپ چاپ ویران گلی میںدوڑرہے تھے۔
’’لیکن بات کیاتھی۔‘‘ایلی پوچھ رہاتھا۔
’’خاموش۔‘‘محمودکارویہ اسے اوربھی ڈرارہاتھا۔
اپنے مکان کے قریب پہنچ کر محمودرک گیا۔بولا۔’’گھرجانے میں خطرہ ہے۔‘‘
’’لیکن کیوں۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’شایدوہ پولیس لے کر ہمارے گھرآئیں۔‘‘
’’لیکن کون ۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’وہی۔‘‘محمودبولا۔‘‘جووہاں میڈم کے گھرآئے تھے۔‘‘
’’وہ کون تھے؟‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’معلوم نہیں۔۔لیکن مجھے خطرے کی بوآتی ہے۔دشمن وارکرنے سے نہیں چوکے گا۔‘‘
’’توپھر۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’ہمیں گھرنہیں جاناچاہیے۔‘‘
’’لیکن اس وقت گلیوں میں آوارگردی کرنابھی توٹھیک نہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘وہ چلایا۔’’چلوریلوے سٹیشن کے مسافرخانے میں بیٹھیں۔‘‘
صبح سویرے ہی محمودنے ایلی کوکہنی ماری۔‘‘اب دن چڑھنے کوہے۔’’وہ بولا۔’’اب یہاں بیٹھناٹھیک نہیں۔‘‘
’’توپھرجائیں کہاں۔‘‘
’’باہردور۔کسی ویرانے میں۔‘‘محمودبولا۔’’جب تک ہمیں صورت حال کاعلم نہ ہوہماراپایاجاناٹھیک نہیں۔‘‘وہ دونوں نیاشہرکی مشہورندی کرن کی طرف چل پڑے اورٹیلوں میں جاچھپے۔
ادھرمیڈم کوجب معلوم ہواکہ یہ حرکت اس کے خاوندنے کی تھی اوراسے شک تھاکہ میڈم اورمحمودکے درمیان ناجائزتعلقات ہیںتووہ ضدمیں آگئی اورایک جملے سے اس نے اپنے شوہرکرخاموش کردیا’’ناجائزتعلقات کوجائزبھی بنایاجاسکتاہے۔مسٹرفلپ مجھے روکنے والے تم کون ہو۔‘‘
پھرمسٹرفلپ اس کے قدموں میں گرکررورہاتھا۔اظہارمحبت کررہاتھااورمیڈم یوں پتھربنی بیٹھی تھی جیسے وہ ماں جو۔۔۔۔اپنااکلوتابیٹاسپردخاک کرنے کے بعدقبرستان سے لوٹی ہو۔غالباً وہ اپنے سترہواں لے پالک کے متعلق سوچ رہی تھی اوراس کاسترہواں لے پاک اس موہوم خطرے سے بے خبرسہماہوابیٹھاتھا۔
پہلی ٹھوکر:۔
ایلی واپس جاوراپہنچاتوسکو ل پر سکوت طاری تھا۔اساتذہ اداس تھے اورایلی کے ساتھی گھٹنوں میں سردیئے بیٹھے تھے۔جلدہی اسے معلوم ہوگیاکہ شیخ مسعوداوروہ خودتبدیل کردیئے ہیں اورجاوراکے تمام اساتذہ کووارننگ کاایک خط موصول ہواہے۔جس میں مسٹرمعروف نے اعلان کیاہے کہ اگرجاوراسکول میں مزیدکسی قسم کی گڑبڑہوئی توزبردست ایکش لیاجائے گا۔
جب وہ گھرپہنچاتوافضل خاموش بیٹھاتھا۔’’تم آگئے۔‘‘وہ بولا۔
’’ہوں۔‘‘ایلی نے کہا۔
’’کہاں رہے اتنے دن۔‘‘
’’پھنس گیا۔‘‘
’’ہوں۔‘‘وہ خاموش بیٹھاحسب عادت پاؤں ہلاتارہا۔
’’ایلی ۔‘‘وہ بولا۔
’’جی۔‘‘
’’تمہیں معلوم ہوا۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’تمہاری تبدیلی ہوگئی ہے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’توتم جاؤگے؟‘‘
’’جاناہی پڑے گا۔‘‘
’’ہوں۔۔۔تم چلے جاؤگے تومیں کیاکروں گا۔‘‘افضل کی آوازکانپ رہی تھی۔
’’اگرہمیں معلوم ہوتا۔‘‘شبیربولا۔’’تویہ کام ہی نہ کرتے۔‘‘
’’پتہ ہے۔‘‘احمدنے کہا’’شیخ کی ترقی رک گئی ہے۔‘‘
’’اس سے ہمیں کیافائدہ۔‘‘افضل نے کہا۔’’پتہ ہے مولوی کاکیاحشرہوا۔‘‘
’’کیا؟‘‘شبیرنے پوچھا۔
’’پاگل خانے میں ہے۔‘‘
’’کیاواقعی۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’سچ ۔ایک آدمی خودمل کرآیاہے اسے ہوش کھوبیٹھاہے۔ہماری محنت بالکل اکارت گئی۔نہ مولوی کوبچاسکے نہ شیخ کوتوڑسکے پتہ ہے مسٹرمعروف نے کیاکہاتھا۔‘‘شبیرنے پوچھا۔
’’کب۔‘‘
’’تمہارے جانے کے بعدایک دن پھرآئے تھے۔‘‘سب اساتذہ کواکٹھاکرکے وعظ فرمایاتھا۔
’’کیاکہاتھا۔‘‘
’’کہنے لگے۔سب ہیڈماسٹرایسے ہی ملیں گے۔تم خودہیڈماسٹربنوگے توایسے ہی ہوجاؤگے۔‘‘
’’سچ کہتاہے۔‘‘افضل بولا۔
’’اللہ بچائے۔‘‘ایلی نے کہا۔
اوروہ سب گہری سوچ میں پڑگئے۔
دروازہ بجاتووہ چونکے۔
’’میںاندرآسکتاہوں۔‘‘کسی نے باہرسے پکارا۔
’’آجاؤمیاں۔‘‘افضل بولا۔’’یہاں ۔‘‘
کسی نے نوواردکی طرف نہ دیکھا۔
’’یہ شیخ مسعودبڑاحرامی ہے۔‘‘افضل بولا۔’’اس کاہم کچھ نہ بگاڑسکے۔‘‘
’’یہ تو غلط ہے۔‘‘نوواردنے کہا۔
’’انہوںنے نوواردکی طرف دیکھا۔سامنے خودشیخ مسعودکھڑامسکرارہاتھا۔
’’انہوںنے میری وہ پٹائی کی ہے۔‘‘وہ قہقہہ مارکرہنسا۔’’جوآج تک کوئی نہ کرسکاتھا۔میں تمہاری عظمت کااعتراف کرنے آیاہوں۔‘‘
’’نہیں شیخ صاحب۔‘‘افضل نے کہا۔’’جوتم نے مولوی کے ساتھ کیاہم اس کاانتقام نہیں لے سکے۔‘‘
’’اچھاتم مولوی کاانتقام لے رہے تھے اورمیں سوچ رہاتھایااللہ آخرآصفی کامیرے خلاف ہوجاناکس وجہ سے ہے میںنے توآج تک آصفی کے خلاف کچھ نہیں کیاالٹامجھے آصفی سے اک لگاساہے۔کیوں آصفی صاحب کیایہ سچ ہے کہ تم مولوی کاانتقام لے رہے تھے۔‘‘سچ ہے۔‘‘ ایلی بولا۔
’’ہاں۔‘‘شیخ نے سرجھکالیا۔’’مولوی سے مذاق میں زیادتی ہوگئی۔‘‘
’’بہرحال میں چاہتاہوں کہ ہم دوستوں کی طرح جداہوں۔‘‘اس نے ہاتھ بڑھایا۔
آج سے تم میرے دوست ہو۔ہمیشہ ہی تھے۔میرے دل میں تمہارے خلاف غصہ بہت تھا۔لیکن اس کے ساتھ میں تمہاری قابلیت کابھی معترف ہوں۔‘‘شیخ کی آوازجذبے سے کانپ رہی تھی اس کی آنکھیں نم ناک تھیں۔
’’میں حرامی ہی سہی لیکن ایسے آدمی کی دوستی اچھی ہوتی ہے۔‘‘ہاتھ ملاتے ہوئے وہ کہنے لگا۔‘‘زندگی میں میری یہ پہلی ٹھوکرہے۔‘‘
’’ٹھوکرتولگی ہی نہیں۔‘‘افضل مسکراکربولا۔
’’لگی ہے۔‘‘شیخ نے جواب دیا۔
’’صرف ترقی ہی بندہوئی ہے نا۔‘‘افضل نے کہا۔
’’ٹھوکردل پرلگتی ہے تنخواہ پرنہیں۔اچھاخداحافظ۔‘‘
بیراگن:۔
جاوراچھوڑے کے بعدایلی کادل پھرسے اچٹ ہوگیا۔محبت کے متعلق اس کے احساسات میں تلخی پیداہوچکی تھی۔اب زندگی میں پہلی مرتبہ اسے دوسرے پہلو کی تلخی کااحساس ہواتھا۔وہ گہری سوچ میں پڑگیاتھا۔کیایہ زندگی ہے۔کیازندگی میں انصاف کودل نہیں۔کیااللہ میاں بھی مسٹرمعروف کی طرح خالی ایڈمسٹریشن کررہے ہیں۔کیاوہ بھی ایک ہیڈماسٹرہیں۔
سکول کی فضاسے وہ بے زارہوچکاتھا۔یہ ادارے جہاں ملک کی آئندہ نسلوں کی تشکیل ہورہی تھی۔اساتذہ اورہیڈماسٹرکی عجیب وغریب ذہنیتوں کی وجہ سے تعفن سے بھرے ہوئے تھے۔اساتذہ کے اندازمیں خودپرستی جابریت اورجھوٹے وقارکی جھلک تھی اوران پربے بسی کاکلف لگاہواتھا۔ان کے خیالات میں وسعت کافقدان تھا۔گھریلومعاملات کے الجھاؤکاعکس ان کی شخصیتوں میں جھلکتاتھا۔وہ علم کی ظاہری شکل پر مرکوزتھے۔مفہوم ان کی نگاہ سے اوجھل تھا۔ایلی کی نگاہ میںوہ سب کیڑے تھے۔رینگنے والے کیڑے،سینٹرل ماڈل سکول کے کلاس انچارج کیطرح وہ چھری کے سہارے چل رہے تھے۔ان کاایمان تھاکہ چھڑی ہاتھ میں ہوتوسب مشکلات دورہوجاتی ہیں۔
اورایلی کوسب بڑاڈرتھاکہ ایک روزوہ بھی ویساہی ہوجائے گا۔وہ بھی خلاصوںمیں لکھی ہوئی تاویلوں کوعلم سمجھنے لگے گا۔بچوں کے ذہن پرآہنی پابندیاں ڈالنے کواخلاق سے تعبیرکرے گااورپھروہ بھی ہیڈماسٹربن جائے گا۔۔اس خیال پر اس کادل دھک سے رہ جاتا
’’نہیں نہیںایسانہیں ہوگا۔ایسانہیں ہوسکتا۔‘‘
جاوراکی سازش سے ایک فائدہ ضرورہواتھا۔اس کے ذہن سے شہزادکی بے وفائی کی تلخی دورہوچکی تھی۔اگرچہ کانٹاویسے ہی لگاتھالیکن اب وہ دورمیٹھے دردکی حیثیت اختیارکرچکاتھا۔
شہزادکی بے وفائی نے ایلی کے جذے کوکم نہیں کیاتھاالٹااسے قائم کردیاتھا۔تقویت بخش دی تھی۔طبعی طورپرایلی بے وفامحبوب سے محبت کرنے والاشخص تھا۔اس کے نزدیک محبت فرحت بخش جذبہ نہ تھا۔بلکہ فرحت بخش جذبات تواس کی نگاہ میں عیش پرستی کے مظہرتھے اورمحبوب پرشک وشبہ کرنے کی عادت جواس نے پال رکھی تھی اسی وجہ سے تھی۔اگرمحبوب بے وفائی نہ کرے تواس کی محبوبیت کی حیثیت قائم رکھنے کے لئے ضروری تھاکہ اس پر موہوم بے وفائی تھوپ دی جائے اورخیالی رقیب قائم کرکے محبت کے جذبہ کوحقیقی بنالیاجائے۔
جب سے وہ شہزادکے گھرسے نکلاتھا۔ایلی کے ذہن میں شہزادکی محبوبیت کوچارچاندلگ گئے تھے۔اب وہ بے وفاحسینہ ایلی کے تخیل میں رقیب سے ہنستی کھیلتی نظرآتی تھی اور ایلی کی طرف دیکھ کرنفرت بھراقہقہہ لگاتی’’تم۔‘‘اس کے ہونٹ تحقیرسے بٹواسابن جاتے اوراس کاقہقہہ گونجتا۔اس پرایلی محسوس کرتاکہ واقعی اسے شہزادسے محبت ہے اوراس کی محبت کوعیش پرستی سے دورکاواسطہ بھی نہیں۔
اب وہ ایک سچے عاشق کی طرح اس امیدپرجی رہاتھاکہ ایک روزشہزادکی آنکھیں کھلیں گی اوروہ محسوس کرے گی کہ واقعی ایلی اس کاسچاعاشق تھااوررقیب توصرف مطلب پرستی کے لئے اس کاساتھ بناہواتھا۔پھروہ عفوکی طلب گارہوگی اورآکراس کے قدموں پرگرپڑے گی۔مگروہ سوچتا۔میں اسے قدموں میں گرنے نہیں دوں گا۔اس نے مجھے ذلیل کیاتھالیکن میں اسے ذلیل نہ ہونے دوں گا۔قدموں پرگرناتومیراکام ہے۔میں قدموں پرگرپڑوں گااوراس کاہاتھ بڑ ھ کر مجھے تھپکے گااوراس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جائے گی اوروہ رک رک کرکہے گی۔مجھے معاف کردوایلی مجھے معلوم نہ تھااس وقت اس کے منہ پرہاتھ رکھ دوں گااورپھر۔۔۔۔‘‘
لیکن پھرکاکیاسوال۔جس مقصدکے لئے وہ جی رہاتھا۔وہ توپوراہوچکاہوگا۔پھراس کازندہ رہنے کابھلا کیافائدہ۔پھراس کے قدموں میں پڑے پڑے اس کی روح قفس عنصری سے پروازکرجائے گی اوریہ دیکھ کرشہزادکی چیخیں نکل جائیں گی اوروہ بیراگن ہوجائے اورگلی گلی اک تارے پرگاتی پھرے گی۔
اے ری میں توپریم دیوانی میرادردنہ جانے کو
ساوی کے نقوش ایلی کے دل سے معدوم ہوتے جارہے تھے ۔غالباً اس لئے کہ اس کاچہرہ ہمیشہ متبسم دکھائی دیتا۔اس کاجذبہ ہمیشہ جواں نظرآتا۔اس کاخیال ہمیشہ ایلی کے دل میں زندگی اوررنگینی کاتصورپیش کرتا۔ساوی کے خیال کے ساتھ آتش رقابت کی جلن محسوس نہ ہوتی تھی۔اسے ساوی کی محبت پرکبھی شک پیدانہیں ہواتھا۔اس نے کبھی کسی رقیب کے وجودکے امکان کے متعلق نہ سوچاتھا۔کوئی خیالی رقیب پیدانہ کیاتھا۔شایداس کی ضرورت نہ محسوس کی تھی۔ساوی کاخیال ایلی کے لئے زندگی اوررنگینی کے سوااورکچھ نہ تھاوہ اکثرسوچتا اگروہ ساوی سے منسلک ہوجاتا۔اگررکاوٹیں نہ ہوتیں اگرابایوں قطعی طورپرانکارنہ کرتے اگران کے انکارکے باوجودوہ آگے قدم بڑھاسکتا۔اگرساوی یہ اعلان نہ کرتی کہ وہ اس سلسلے میں مجبورہے۔اگراس کے اندازمیں قطعیت نہ ہوتی۔اگروہ اتنی دورگروکل ریاست کومراجعت نہ کرجاتے۔ایسی ریاست جس کاوجودایلی کے لئے اس قدرموہوم تھا۔جیسے وہ الف لیلیٰ کاشہرہو۔توایلی ساوی سے شادی کرکے کتنی اچھی زندگی بسرکرسکتا۔لیکن شایدیہ خیال اسے صرف اس لئے آتاکہ وہ ساوی سے شادی کرکے شہزادسے انتقام لے سکتاتھا۔
جاوراسے تبدیل ہوکرجب وہ چک بالاپہنچاتوچندہی دنوں کے بعداسے جمیل کاایک تارملا۔جس میں لکھاتھاگروکل ریاست سے ایک خط موصول ہواہے یہاں آؤتوملے گا۔
جمالواورچنگاری۔
جب وہ خان پورپہنچاتوعلی احمدپنجے جھاڑکراس پر جھپٹ پڑے۔
’’بھئی ایلی نے توحدکردی۔‘‘وہ بولے۔‘‘مسٹرمعروف کہہ رہے تھے کہ انکوائری میں وہ باتیں کیں آپ کے فرزندنے کہ کیابتاؤں اس کوتووکیل ہوناچاہیے تھا۔ہی ہی ہی ہی۔‘‘وہ ہنسے۔’’مسٹرمعروف نے ایلی کی بڑی تعریف کی اورنصیرکی ماں پتہ ہے کیاکہنے لگتے۔آخرکیوں نہ ہوکس باپ کابیٹاہے۔ہی ہی ہی ۔ساری تان مجھ پرتوڑدی۔لیکن ایک بات ہے نصیرکی ماں کہتے تھے دستورکے مطابق ایلی کوسپنڈکردیناچاہیے تھا۔‘‘
’’وہ کیاہوتاہے۔‘‘راجونے پوچھا۔
’’ہی ہی ہی ہی۔‘‘وہ ہنسے۔’’تمہیں کیامعلوم کہ کیاہوتاہے۔مطلب یہ ہے کہ نوکری سے چھٹی۔‘‘
’’ہے۔‘‘وہ چلائی۔
’’ہاں۔‘‘علی احمدبولے۔’’لیکن ہمارابیٹاہے نا۔سمجھی۔کیاسمجھی؟‘‘
ایلی کواس پرغصہ آگیا۔
’’یعنی آپ کامطلب ہے کہ آپ کی وجہ سے نوکری پرقائم ہوں۔‘‘ایلی نے دبی زبان سے کہا۔
’’بالکل۔‘‘وہ بولے۔’’ورنہ ایک دن بھی نوکری نہیں کرسکتے تم۔‘‘علی احمدجلال میں آگئے۔
’’یعنی مجھ میں ذاتی طورپرقابلیت نہیں کہ نوکری پرفائزرہ سکوں۔‘‘
’’لو۔‘‘راجوبولی۔‘‘ابھی توآپ کہہ رہے تھے کہ معروف ایلی کی تعریف کررہے تھے۔‘‘
’’ہی ہی ہی ہی۔‘‘وہ ہنسے۔’’تمہیں کیاپتہ۔قابلیت کئی قسم کی ہوتی ہے۔یہ قابلیت جوایلی میں ہے ۔نوکرشاہی کی قابلیت نہیں۔یہ تواپنے ہی چلانے کی قابلیت ہے۔نہ یہ تیل دیکھ سکتاہے۔نہ تیل کی دکھایہ توپڑول میں چلتی ماچس پھینک سکتاہے۔ہی ہی ہی ہی۔‘‘وہ ہنسنے لگے۔
پھرانہوںنے ایلی کونصحیت کرناشروع کردیں۔
’’دیکھوایلی۔نوکری میں ہمیشہ اپنے امی جیٹیٹ افسرکاساتھ دیناچاہیے۔سمجھے چاہے وہ اچھاہویابراغلطی کررہاہویاظلم۔تمہیں اس سے کیااوریادرکھوتم پرکوئی ظلم نہیں کرے گا۔کیسے کرے گاکیااسے معلوم نہیں کہ تم کس کے بیٹے ہواورہمارے معروف سے کتنے تعلقات ہیں۔یہ لوگ آنکھوں کے اندھے ہوتے ہربات کی خبررکھتے ہیں اوردیکھونااگراپنے افسرکے خلاف کوئی کاروائی کرنی ہوتو۔‘‘وہ بولے۔’’توخودکچھ نہیں کیاکرتے بلکہ دوسروں کواکسادیا۔وہ سناہے ناتم نے نصیرکی ماں تم سے کیاچھپاہے ہی ہی ہی ہی۔ذراایلی کوسمجھادویہ گربڑاآرام دہ رہتاہے۔‘‘
اباکی باتوں سے اکتاکرایلی جمیل کی طرف چل پڑا۔راستے میں نقی کے مکان پررک گیا۔دروازہ کھٹکھٹایا۔
’‘نقی صاحب کہاں ہیں؟‘‘اس نے نوکر سے پوچھا۔
’’جی وہ توشکارپرگئے ہیں۔‘‘نوکرنے کہا۔
’’شکارپر؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘وہ بولا۔
’’کسی خاص تقریب پرگئے ہیں کیا؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘وہ بولا۔’’وہ تواکثرشکارپرجاتے ہیں۔‘‘
’’ارے۔وہ توجوتے سیاکرتے تھے۔‘‘
’’جی بابوجی۔‘‘نوکرہنسا۔’’پہلے جوتے سیاکرتے تھے آج کل شکارکھیلتے ہیں۔‘‘
’’ارے۔‘‘ایلی ہنس پڑا۔’’پہلے چڑیاں کاڑھتے تھے۔پھرجوتے سینے لگے اوراب شکار۔‘‘
مالٹامٹھا:۔
ایلی کودیکھ کرجمیل کی باچھیں کھل گئیں۔
’’یارتم آگئے۔‘‘وہ بولا۔’’بڑااچھاکیاتم نے دوچارروزرونق رہے گی۔مزاآجائے گا۔‘‘
’’اوروہ خط؟کیاصرف مجھے بلانے کابہانہ تھا؟‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’نہیں نہیں۔‘‘وہ بولا۔’’تمہاری قسم۔تم سے جھوٹ نہیں۔تم سے جھوٹ نہیں بولا۔آج تک کوئی چالاکی نہیں کی۔‘‘
ایلی نے غورسے اس کی طرف دیکھا۔’’پئے ہوئے ہوکیا؟‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’بھئی واہ۔‘‘وہ ہنسا۔’’یہ کیاچھپانے کی بات ہے۔بڑی بہادری کی تم نے کہ بوجھ لیا۔اے بھائی جب خاموشی سے تمہاری بات سنوں توسمجھ لوکہ خالی ہوں اورجب بات کروں توسمجھ لوکہ قائم ہوں۔‘‘
’’نشہ وشہ نہیں ہوتااونہوں۔زبان سے رنگ اترجاتاہے۔بس اتناصرف اتنا۔‘‘وہ خاموش ہوگیا۔
’’تم سمجھتے ہو۔‘‘جمیل بولاکہ صرف تمہیں ہی سوجھتی ہیں۔یہ غلط ہے شایدمجھے تم سے بھی زیادہ سوجھتی ہیں تم سے بھی زیادہ انوکھی۔لیکن جب تک مالٹامٹھاکاادھیااندرنہ ہوزبان گنگ رہتی ہے۔سال کو وہ زنگ لگاہواہے کہ اترتانہیں۔تم پی کرآپے میں نہیں رہتے پی کراپنے آپ میں آجاتاہوں۔بس اتنافرق ہے۔‘‘
’’بکونہیں۔‘‘ایلی بولا۔
’’لو۔‘‘جمیل چلایا۔’’ہم بات کریں توبکونہیں۔بھئی واہ اورتم خودباتیں کروتوPurewisdom تمہاری بات عقل کانچوڑہماری بکواس اچھاانصاف ہے۔‘‘
’’اچھاوہ خط نکالو۔‘‘ایلی نے کہا۔
’’خدا کی قسم۔‘‘جمیل بولا۔کیاخط ہے۔واہ واہ اگرمجھے کوئی ایک محبت بھراخط لکھ دیتی توکبھی بوتل کامحتاج نہ ہوتاعمربھرلیکن کسی حرام زادی نے نہیں لکھااورنتیجہ یہ ہے۔جب تک ندرمالٹا مٹھانہ جائے بات نہیں بنتی۔‘‘
’’تمہاری بیوی نہیں منع کرتی تمہیں۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’پہلے پہل جب نئی نئی آئی تھی توکیاکرتی تھی۔اب نہیں خداکی قسم اب تواکساتی ہے۔‘‘
’’وہ کیوں؟‘‘
’’کبھی توبہ کرلوں تومصیبت پڑجاتی ہے اسے پھروہ بہانے بہانے مجھے اکساتی ہے کہ توبہ توڑدوں۔‘‘
’’لیکن کیوں؟‘‘ایلی نے پوچھا۔
وہ ہنسنے لگا۔’’اسے معلوم ہوگیاہے کہ یہ ناؤپانی بغیرنہیں چلے گی۔‘‘
’’تمہاری ناؤواقعی اس پانی کے بغیرنہیں چلتی ۔‘‘ایلی نے کہا۔
’’اونہوں۔‘‘جمیل ہنسنے لگا۔’’میری ناؤکوکون پوچھتاہے چاہے چلے نہ چلے۔‘‘
’’توپھر۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’بھئی اس کی ناؤنہیں چلتی عجب چکرہے نا۔مالٹامٹھامیں پیوں اورناؤاس کی چلے۔‘‘وہ قہقہہ مارکرہنسنے لگا۔
’’لیکن وہ خط تودکھاؤ۔‘‘ایلی نے کہا۔
’’وہ خط دکھانے والانہیں۔‘‘جمیل بولا۔’’تعویزبناکرگلے میں ڈالنے کی قابل ہے۔میں نے ایساخط کبھی نہیں دیکھا۔تم بڑے خوش قسمت ہوخداکی قسم بڑے خوش قسمت ہواگرمجھ سے کوئی اس کادسواں حصہ پیارکرتاتومیں نہ جانے کیاہوجاتا۔خداکی قسم اورپھروہ توعالم ہے۔عالم اور سب بڑی بات یہ ہے کہ پائے کاعالم ہونے کے باوجوداس میں لڑکی بے حدنمایاں ہے ورنہ پڑھ لکھ کریہ آج کل کی چھوکریاں نسائیت کھودیتی ہیں۔سچ کہناٹھیک کہتاہوں یانہیں اورپھریہ خط اس نے تمہیں نہیں لکھا۔‘‘
’’توپھرکس کولکھاہے؟‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’اپنی بھابھی کو۔‘‘
’’کون سی بھابی؟‘‘
’’اس کاکوئی بھائی ہے۔‘‘وہ بولا۔’’انصرنام ہے یانصیرمجھے معلوم نہیں۔معلوم ہوتاہے اس کانیانیابیاہ ہواہے ۔اس کی بیوی کوخط لکھاہے۔‘‘۔۔’’توپھریہاں کیسے آگیاوہ خط۔‘‘ایلی نے پوچھا۔
’’وہ شعرسناہے تم نے ۔۔شراب سیخ پہ ڈالی کباب شیشے میں۔‘‘جمیل گانے لگا۔
’’تویہ کسی کے آنے کااعجازہے۔‘‘ایلی نے کہا۔
جمیل ہنسنے لگا۔’’خط اسے لکھاہے ۔لیکن اس بیچاری کے نام صرف سرنامہ ہے باقی سارے خط میں تمہارا تذکر ہ ہے اورتمہارے خیال سے اس قدربھری بیٹھی تھی کہ لفافے پرپتہ بھی تمہاراہی لکھ دیا۔واہ واہ ۔لگن ہوتوایسی ہو۔‘‘وہ ہنسنے لگا۔
ایلی نے وہ خط پڑھا تواس کادل ڈوب گیا۔ساوی کے جذبہ کی شدت مجسم ہوکراس کے روبرو آکھڑی ہوئی۔اس کے اندازبیان میں اس قدرجذبہ اس قدرلطافت اوررنگینی تھی کہ وہ تڑپ گیا۔اس نے بھی ساوی کے دکھ کومحسوس نہیں کیاتھا۔اس کے لاشعورمیںساوی اورغم دومتضادچیزیں تھیں۔
لیکن ساوی کاخط پڑھ کرایلی پرگویادکھ کاایک پہاڑآگرا۔اس کاجی چاہتاتھاکہ کپڑے پھاڑکرباہرنکل جائے اورپھرجوگی بن کر پہاڑی پرجابیٹھے۔
دوایک دن تووہ پڑاآہیں بھرتارہاپھرشدت جذبہ سے مجبورہوکرعلی احمدکے سامنے جاکھڑا اوراس نے ساوی کاتذکرہ پھرسے چھیڑدیا۔علی احمدپہلے تواس کے تیوردیکھ کرگھبراگئے۔لیکن جلدہی انہوںنے پینترابدلااوراپنی عادت کے مطابق ہنسناشروع کردیا۔’’نصیرکی ماں یہ سن تم نے ہی ہی ہی ہی۔‘‘اوراس ہی ہی ہی ہی میں بات دب کررہ گئی۔

تجدید:۔
کیڑااورکویا:۔
ایلی کے بن باس کوچارسال گزرچکے تھے۔
یہ چارسال اس نے مسلسل مطالعہ میں صرف کیے تھے۔جس کی وجہ سے اس کے خیالات میں خاصی پختگی پیداہوچکی تھی مطالعہ سے حاصل کئے ہوئے کئی ایک نظریات کووہ عملی زندگی میں آزماچکاتھا۔اب اس میں خوداعتمادی پیداہورہی تھی۔اگرچہ بنیادی طورپراس کے کرداراورشخصیت کی دیواریں اسی احساس کمتری پرکھڑی تھیں،لیکن اب اس کے برتاؤ سے اس کے برتاؤسے اس حقیقت کااظہارنہیں ہوتا۔اب وہ گونگانہ رہاتھا۔بلکہ اس کی گفتگومیں ایک جاذبیت پیداہوچکی تھی۔
اس کے دوست اورساتھی اس کی باتیں سنتے اورسردھنتے تھے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ایلی نے التزاماً زندگی کے متعلق ایک انوکھانکتہ نظراستوارکررکھاتھا۔جورسمی زاویوں سے ہٹ کرتھا۔
دراصل اس کاانٹلکچول سلف ایک کولے کی حیثیت رکھتاتھا۔جس کے تلے اس کی جذباتی اناکیڑے کی طرح چھپی ہوئی تھی۔مطالعہ نظریات اورپختگی خیالات کواس کے جذباتی تاروبودپرکچھ اثرنہ ہواتھا۔جذباتی طورپروہ ایک بچہ تھا۔وہ بچہ مارکھاکرروتے روتے سوگیاتھا۔ایلی کویہ خوف دامن گیررہتاتھاکہ بچہ پھرنہ جاگ پڑے۔اس ڈرتھاکہ وہ جاگ پڑے گا۔اورپھرسے بسورناشروع کردے گا۔اس بات کامطالبہ کرے گا۔کہ ماں اسے تھپکے مامتاسے اس کی وابستگی جوں کی توں قائم تھی۔اس کے گردوپیش کئی ایک نوجوان لڑکیاں تھیں جوپردوں سے جھانکتی تھیں قہقہے لگاکرآوازنشرکرتی تھیں۔شرماکرچھپ کرڈھونڈنے کی دعوت دیتی تھیں۔ان میں دلفریبی تھی حسن رعنائی تھی۔لیکن مامتانہ تھی۔وہ جگاتی تھیں تھپک کرسلاتی نہ تھیں ان کی سپردگی تھی۔لیکن گردنیں اٹھانے کی صلاحیت نہ تھی۔اس لئے وہ ایلی کواپنی طرف متوجہ نہ کرسکیں اورمامتابھری تھپکی کی عدم موجودگی میں ایلی اپنے محنت سے پیداکئے ہوئے انٹلکچول کوئے میں سوتارہا۔وہ ڈرتاتھاکہ کہیں بچہ جاگ نہ پڑے اسے آرزو تھی کہ وہ جاگ اٹھے۔ڈھکی چھپی آرزواورممتابھرے ہاتھ اسے تھپکیں تھپکتے اٹھاکرممتابھری گودمیں ڈال لیں۔
اسی ڈرکے مارے چارسال وہ علی پورنہ گیاتھا۔اسے ڈرتھاکہ کہیں سویاہوابچہ پھرسے نہ جاگ پڑے وہ کویاجواس نے بڑی محنت سے بنایاتھا۔ٹوٹ نہ جائے اورلوگ اس حقیقت سے واقف نہ ہوجائیں کہ وہ وہی پراناکیڑاہے۔پلپلا۔رینگتاہواکیڑا۔
اس کے باوجودجب کبھی علی پورسے کوئی آتا۔وہاں سے خبرآتی توایلی کے کان کھڑے ہوجاتے۔بظاہربے پروائی دکھاتے ہوئے بڑی توجہ سے علی پورکی باتیں سنتااورپھرتنہائی میں بیٹھ کر بڑے انہماک سے خبروں کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے جوڑتااورپھراندازے سے لگاتاکہ شہزادکاکیاحال ہے اورصفدراورشہزادکے تعلق کے متعلق محلے والوں کاکیاخیال ہے کیاشریف حالات سے بے خبرہے۔کیاشہزادشریف کے ساتھ نہیں جاتی۔
شروع شروع میں محلے سے جوخبریں آتی تھیں ان میں شہزاداورصفدرکابہت چرچاتھا۔کہاجاتاتھاکہ دونوں کاایک دوسرے کے بغیر،دم نکلتاہے وہ کھڑکی میں کھڑی ہوکرآوازیں دیتی رہتی ہے۔وہ منڈیرسے جھانکتاہے۔’’چچی سودامنگواؤگی۔آج توکریلے پکاؤاورجوزیورتم نے بنوایاتھا۔‘‘کھڑکی میں کھڑارہتاہے دونوں ہنس ہنس کرباتیں کرتے ہیں۔وہیں کھڑے دوپہرسے شام ہوجاتی ہے۔نہ جانے ان کی باتیںختم کیوں نہیں ہوتیں رات کوگراموفون کوسرہانے بیٹھ کرگیت سنتے ہیں۔آدھی رات بیت جاتی ہے۔لیکن وہ اللہ کے بندے نہیں تھکتے۔
پھرآہستہ آہستہ باتیں رگ بدلتی گئیں۔صفدرکے شراب کے نشے میں دھت رہنے کی باتیں چل نکلی توبہ ہے۔ہروقت بوتل منہ سے لگائے رہتاہے۔اورکیوں نہ ہو۔شہزادکامال ہے کیوں نہ لٹائے مفت کی توکہتے ہیں قاضی بھی نہیں چھوڑتااورصفدرتوبچپنے کاشرابی ہے پی کرونگاکرتاہے۔بیوی کوپیٹتاہے۔ چیخ چیخ کرشعرگاتاہے۔
اگرچہ ایلی کویقین تھاکہ اسے ان باتوں سے قطعی دلچسپی نہیں اسے قطعی طورپرپروانہیں کہ شہزادکھڑکی میں کھڑی رہتی ہے یابازارمیں صفدرنمازیں پڑھتاہے یاشراب کے نشے میں دھت رہتاہے۔ان باتوں سے کیافرق پڑتاہے۔لیکن یہ باتیں بڑی اہمیت کی رکھتی تھیں۔صفدر کے شراب پی کرچلانے کی بات سن کر اسے بے حدخوشی ہوتی تھی۔ایسی خوشی جس کااعتراف وہ اپنے آپ سے بھی نہیں کرتاتھاایک پرائیویٹ خفیہ خوشی۔اب شہزادکوسمجھ آئیگی۔اب وہ جانے گی کہ سچے اورجھوٹے عشق میں کیافرق ہوتاہے۔
ان چاربرس میں علی پورکے کئی ایک موقعے طے تھے لیکن ایلی نے جان بوجھ کرعلی پورجانے سے احترازکیاوہ علی پورسے ڈرتاتھا۔وہ شہزادکی آوازسننے سے ڈرتاتھاوہ آوازجومحلے میں گونجتی تھی جس کے سرے محلے والیوں سے قطعی طورپرمختلف تھے۔جس میں لے تھی زیروبم تھا۔وہ عجیب سی جھنجلاہٹ تھی۔جو سیدھی دل پراثرکرتی اورپھرنس نس میں دھنکی بجتی۔
ہرسال جب سکول گرمی کی چھٹیوں کی وجہ سے ڈیرھ ماہ کے لئے بندہوجاتاتوایلی مشکل میں پڑجاتاچھٹیاں گزارنے کے لیے جب وہ خان پورجاتاتوکوئی نہ کوئی علی پورکی بات چھیڑدیتا۔مثلاً علی احمدکہتے۔
’’نصیرکی ماں کتنی خوشی کی بات ہے کہ ایلی چھٹیاں ہمارے پاس بسرکرتاہے۔‘‘
’’بے چارہ اپنی ماں سے ملنے سے بھی گیا۔‘‘راجودبی زبان سے کہتی۔
’’اس کانام زندگی ہے نصیرکی ماں۔‘علی احمدچلاتے’’کبھی دھوپ کبھی چھاؤں۔‘‘
’’میںنے کہا۔‘‘راجواسے دیکھ کربولی’’ایلی آیاہے۔‘‘
’’لیکن۔۔۔‘‘راجوکہتے کہتے رک گئی۔
’’لیکن کیا۔‘‘علی چلانے لگے۔
راجو کی آوازمدھم پڑگئی۔‘‘ہم توعلی پورجارہے ہیں۔‘‘
’’توپھر۔۔تومطلب کی بات کر۔‘‘
’’مطلب یہ‘‘اس کی آوازاورمدھم پڑگئی۔’’وہ کہاں رہے گاچھٹیوں میں۔‘‘
’’ہی ہی ہی ہی۔‘‘علی احمدہنسے۔نصیرکی ماں توبھی ہمیشہ باؤنڈری لگاتی ہے۔اسے بھی ساتھ لے چلوآخرایک دن جاناہی پڑے گا۔آج نہیں توکل سہی۔کل نہیں پرسوں۔بکرے کی ماں کب تک خیرمنائے گی۔ ہی ہی ہی ہی وہ ہنسنے لگے۔‘‘
جب وہ علی پورپہنچے تومحلے کااحاطہ محلے والیوں کی آوازوں سے گونجنے لگاوہ سب علی احمدکوچھیڑنے لگیں۔
قافلہ:۔
دفعتاً ایلی کوخیال آیا۔وہ گھبراگیااس نے محسوس کیاکہ احاطے کے میدان میں کھڑے رہناخطرے سے خالی نہیں۔اس نے چندلمبے لمبے ڈگ بھرے اورڈیوڑھی میں جاکررک گیا۔اس کادل ابھی تک دھڑک رہاتھا۔باہرچیلیں چیخ رہی تھیں۔کوئے کائیں کائیں کررہے تھے اور ان میں علی احمدکے قہقہوں کی آوازصاف سنائی دے رہی تھی۔
’’کون؟‘علی احمد آیاہے؟‘‘
دفعتاً ایک مختلف نوعیت کی آوازسنائی دی۔انوکھی۔سریلی۔پنچم آواز۔ایلی کودل ڈوب گیا۔جسم میں لہریں سی چلنے لگین۔
’’ہئے یہ توساراقافلہ ہے کسی کوچھوڑتونہیں آئے پیچھے۔‘‘
’’توگھبراؤنہیں۔‘‘علی احمدبولے۔’’سبھی ساتھ ہیں۔سبھی۔‘‘علی احمدنے قہقہہ لگایا۔’’تواپنی بات سناشہزادسناہے تو نے اپنے میاں کوعاق کردیاہے۔‘‘
’’وہ کیسے۔‘‘
’’لوگ کہتے ہیں کہ تونے اسے ریٹائرکردیاہے۔‘‘
’’عمرعمرکی بات ہوتی ہے‘وہ ہنسی۔‘‘
’’عمرتوڈیوٹی کی ہے۔کیوں چاچی۔جھوٹ کہتاہوں کیا؟ ہی ہی ہی ہی۔‘‘
’’اب کیارہاہے پیچھے۔‘‘پنچم گونجی۔
’’نگاہیں کھاگئیں تجھے۔‘‘علی احمد نے قہقہہ لگایا۔
’’نگاہوں کی بھینٹ جوچڑھادیااپنے آپ کو۔‘‘ماں مدھم آوازمیں بولی۔
’’ہی ہی ہی ہی۔‘‘علی احمدکاقہقہہ ایلی کے بندبندمیں ناچنے لگا۔ایلی نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔
محلے میں کئی ایک تبدیلیاں ہوچکی تھیں۔عورتوں نے احاطے کے میدان میں بیٹھ کرچرخا کاتناآزاربندبنناترک کردیاتھا۔سرجھکاکرچلنے والے بڈھے تعدادمیں کم رہ گئے تھے۔محلے کے نوجوانوں کی وہ حالت نہ رہ تھی۔اب وہ چھاتی نکال کرچلنے لگے تھے ۔نوجوان لڑکیاں بوڑھیوں کی موجودگی میں سینہ ابھارکرکھڑی ہوجاتیں۔نظربچاکرمسکراتیں۔بال جھٹکتیں۔بچے بڑوں کاکہانہ مانتے ضدکرتے بڑوں کومنہ پرجواب دیتے محلے کی بوڑھیاں بالکل ویسی ہی تھیں جیسے کہ پہلے ہواکرتی تھیں ان میں قطعی طورپرکوئی تبدیلی واقع نہ ہوئی تھی۔البتہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوگیاتھا۔بہت سی ادھیڑعمرکی عورتیں ان کی صف میں شامل ہوگئی تھیں۔
ایک نئی چیزجومحلے میںزندگی میں داخل ہوئی تھی۔گراموفون باجہ تھاپہلے تومحلے میں صرف ایک باجاہواکرتاتھا۔جوبالاکرے کمرے میں یوں بجاکرتاتھاجیسے مکھیاں بھن بھنارہی ہوں بالاکے پاس چندایک پرانے ریکارڈتھے۔جن کی آوازاس کے کمرے میں گھٹ کررہ جاتی تھی جوچلتے چلتے میرانام جانکی بائی الہ آبادوالی کہہ کرختم ہوجاتے تھے۔جنہیںسن کر بوڑھیاں ہاتھ چلا چلا کرچلاتیں۔’’آے ہے یہ باؤلاکیاتوے سے گھساتارہتاہے ہروقت کی ٹیں ٹیں نہ شرم نہ حیا۔‘‘لیکن بالاتوباؤلاتھا۔اس سے جھگڑنے کاسوال ہی پیدانہیں ہوتاتھا۔آسیب زدہ لوگوں سے بھلاکیاجھگڑااس لیے بالاباجہ محلے میں سکیاں لیتارہتاتھا۔بوڑھیاں چلملاتی رہتیں۔بالاہی ہی ہی کرکے سنتارہتا۔
اب محلے میں کئی ایک باجے آگئے تھے ان پر ایسے ریکارڈچلتے جوہنہاتے نہیں بلکہ گاتے تھے اورگانے کے بول دوردورتک صاف سنائی دیتے تھے روزرات کے وقت کوئی نہ کوئی باجابجنے لگتااوردیرتک گیتوں کی آوازیں محلے میں گونجتیں اکثرایساہوتاکہ دوباجوں کی آپس میں شرط باندھی جاتی اوروہ باری باری ریکارڈبجاتے مقابلے کے شوق کی وجہ سے باجے والے نئے نئے ریکارڈخریدتے تاکہ حریفوں سے بازی لے جائیں۔
محلے والیوں نے انکے باجے کے خلاف ضروراحتجاج کیاہوگا۔ظاہرتھاکہ ان کی آوازمیں اب وہ اثرنہ رہاتھا۔بولتیں تووہ اب تھیں۔انہیں توبولنے سے دلچسپی تھی اثرپیداکرنے سے نہیں محلے کے جوان اب ان باتوں کودرخوداعتنانہیں سمجھتے تھے۔بولتی ہیں توپڑی بولیں آپ ہی تھک جائیں گی۔بہرحال ابھی تک ان میں اتنی جرات پیدانہ ہوئی تھی کہ بوڑھیوں کی بات کاٹیں یاان کی بات کاجواب دیں۔
بکھری کہانی:۔
اتنی دیرکے بعدایلی سے مل کرمحلے والیاں بے حدخوش ہوئیں گویاانہوںنے اس کے پرانے گناہ سب کے سب معاف کردیئے تھے۔
’’اے ایلی ہے۔‘‘وہ اسے دیکھ کرچلاتیں۔اے اتنی دیرکے بعددیکھاہے تجھے۔جی نہیں چاہتاتھاتیراوطن آنے ۔اے تونے توحدکردی۔محلہ چھوڑاتوبالکل ہی چھوڑدیاپہلے توباہرجانے کانام نہ لیتاتھا۔پھرجوچھوڑاتوبالکل ہی چھوڑدیا۔‘‘
پھروہ ایلی کے قریب ترہوجاتیں۔’’اچھاہی کیاتونے جواس دلدل سے نکل گیامردوں کاکیاکام کہ دلدل میں پھنسے بیٹھے رہیں مردتوچلتے پھرتے گھوڑے ہوتے ہیں۔‘‘
’’اے کوئی جگہ ہوتی توتوجان کی بازی لگاتا۔وہ توبارہ دری ہے بارہ دری ایک آیاایک گیااچھاہواتیری جان چھوٹی۔‘‘
اے میںنے کہا ایلی کچھ معلوم ہے تمہیں اس اللہ مارے شرابی نے کیاکیابیچ کرکھایااسے۔ سمجھ لونچوڑلیا۔اچھاہوااسے بھی سمجھ آئی کی کیاکیاہوتاہے۔لیکن اسے کیاسمجھ آئے گی۔وہ تو کہتی ہے لوٹ لووہ خودلٹنے کے لیے بے قرارہے خاوندسے بگاڑہوچکاہے۔لیکن وہ توبدھو ہے بدھو۔ورنہ عورت کی کیامجال ہے کہ خاوندکاکہانہ مانے۔اس بے چارے نے ہزارمنتیں کیں کہ چل میرے ساتھ چل لیکن اس اللہ کی بندی پرکوئی اثرنہ ہوا۔
’’اے ہے۔اب تولڑکیاں جوان ہوچکی ہیں۔پھربھی یہ اپنی ہٹ سے بازنہیں آتی۔ادھروہ کالے منہ والاشرابی روزپی کی بیوی کوپیٹتاہے پھرڈھیٹ کہیں کااسے آوازیں دیتاہے چیختاہے چلاتاہے منتیں کرتاہے جب کھڑکی نہیں کھلتی توپھرسے بیوی کوپیٹنے لگتاہے ۔توبہ ہے اتنے بے شرم ہوگئے ہیں۔کہ توبہ ہے نہ کسی کی شرم نہ لحاظ۔‘‘
ایلی ان کی باتیں سن سن کر ان ٹکڑوں کوجوڑتارہابہرحال وہ خوش تھا۔ہنگامہ ہوااچھاہوااسے سمجھ میں آگیا۔اسے معلوم ہوگیاکہ سچاعشق کسے کہتے ہیں۔
خوشی کے باوجودایسی باتیں سن کر اس کے دل پرٹھیس لگتی۔اس نے اپناآپ تباہ کرلیاعزت وناموس گنوادیا۔اپنی جوانی بربادکردی۔
ہاجرہ نے ایلی کوگلے سے لگالیا۔اس کے آنسوٹپ ٹپ گرنے لگے۔’’ہے ایلی توتوہم سے ملنے سے بھی گیاپہلے ہمارے پاس رہ کرہمارانہ تھا۔اب ساتھ ہم کوبھی چھوڑدیا۔تیراجی نہیں چاہتاتھاعلی پورآنے کواس سے تووہی دوراچھاتھا۔تمہیں دیکھ تولیتے تھے۔اب تودیکھنے سے بھی گئے۔‘‘
ہاجرہ روئے جارہی تھی۔اس کے پیچھے فرحت چپ چاپ کھڑی تھی۔ایلی کوسمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ کیاکہے۔
’’چل ادھرفرحت کی طرف۔‘‘ہاجرہ بولی۔’’توکیاادھرعلی احمدکے گھررہے گا۔اکیلاہی۔نہ بیٹاچل ہمارے ساتھ رہ جیسے ہمیشہ رہا کرتاتھا۔‘‘
فرحت کی طرف جاکررہنا۔۔۔گویاپھرسے منجدھارمیں کودنے کے مترادف تھا۔وہاں شہزادتھی ۔صرف ایک چھت اورایک زینہ حائل تھاایلی ادھرجانے کے لئے تیارنہ تھا۔اس لیے چپ چاپ کھڑارہا۔
’’توبھی حدکرتی ہے اماں۔‘‘فرحت بولی۔’’اگرایلی کاجی ادھررہنے کوچاہتاہے۔توتواسے کیوں مجبورکرتی ہے۔ادھرلے جاکرخواہ مخواہ پھرسے مصیبت سرپرکھڑی کرنی ہے کیا۔مشکل سے جان چھٹی ہے پہلے ہی۔‘‘
’’اچھا‘‘ہاجرہ بولی۔جس طرح توخوش رہے ۔جیسے تیری مرضی۔‘‘
ایلی کویقین تھاکہ شہزادعلی احمدکے گھرآنے کی جرات نہ کرے گی اوراگرآئی بھی تواتنے لوگوں کی موجودگِ میں وہ اس کاسامناکرسکتاہے اسے توصرف ایک بات کاڈرتھاکہ کہیں وہ اکیلے میں ایلی کے روبروآکھڑی ہوپھراسے خیال آتاکہ آخروہ کیوں آئیں گی۔اس کی آمدکاخطرہ دراصل محض خوشی فہمی ہے۔آخراسے آنے کی ضرورت ہی کیاہے۔
چارایک دن کے بعدایک روزعلی احمداورگھر کے جملہ لوگ علی احمدکے کسی دوست کے ہاں جانے کے لیے تیارہوگئے انہیں صرف چندایک گھنٹے کیلئے باہررہناتھا۔ایلی نے اس بات کو چنداں اہمیت نہ دی۔اس لیے وہ کتاب اٹھاکرایک الگ کمرے میں جابیٹھااورمطالعے میں مصروف ہوگیا۔
وہ چونکا۔کون ہے؟‘‘
گٹھڑی سے دبی ہوئی سسکیوں کی آوازآرہی تھی۔ایلی گھبراگیا۔
اس نے چوٹی کواٹھایا۔۔۔ماتھے پرتل دیکھ کراس کادل ڈوب گیااس نے چوٹی کوچھوڑدیادھم سے گٹھڑی پھرسے گرگئی۔سسکیوں کی آوازاوربلندہوگئی۔
اس کا جی چاہتاتھاکہ ٹھوکرمارکراس ریشمی گٹھڑی کوپرے ہٹادے اورپھرخراماں خراماں کمرے سے باہرنکل جائے جیسے ہیروسٹیج سے نکلتاہے۔اس کاجی چاہتاتھاکہ ریشمی گٹھڑی کواٹھاکرسینے سے لگالے۔
اس کاجی چاہتاتھاگٹھڑی پرڈھیرہوجائے۔اسے بانہوں میں سمیٹ لے اوردبی آوازسے کہے۔’’قدموں پرگرناتمہاراکام نہیںدیوی۔تم کیاکررہی ہو۔‘‘
اس کاجی چاہتاتھاکہ کچھ نہ کہے۔بیٹھارہے۔’’کیااپنے شرابی محبوب سے اکتاگئیں۔کیادل بہلاوے کے لیے کوئی اورنہیں ملتا۔‘‘
’’مجھے معاف کردو۔‘‘وہ اس کے قدموں میں گری ہوئی تھی۔اس سے زیادہ اس کی عظمت کااعتراف کس طرح ہوسکتاتھا۔اس سے عظیم ترلمحہ اس کی زندگی میں کیاہوسکتاتھا۔وہ خوش تھااس کی تذلیل پرخوش تھا۔اس کے اعتراف شکست پرخوش تھا۔وہاں وہ چاہتاتھاکہ یوں ہی بیٹھارہے ۔دیوتابن کربیٹھارہے اوراس کے قدموں پروہ سرنگوں رہے۔
تمام دنیاپرسناٹاچھایاہواتھا۔کائنات گویارک گئی تھی۔روئے زمین پرکوئی اورنہ تھا۔صرف دیوتا اورپشیمان پجاری کائنات کی تخلیق کامقصدپوراہورہاتھا۔صرف وہ دونوں باقی رہ گئے تھے۔یاپھرایک خلاتھا۔وسعتوں کوگھیرے میں لہے ایک عظیم ترخلاء۔
صدیوں خاموشی طاری صرف ہچکیاں ۔لمبی ۔دبی ۔دبی ہچکیاں پھرکپڑوں کی گٹھڑی میں حرکت ہوئی حرکت ہوئی۔پیشانی کاسیاہ تل ابھرا۔
’’میں میں۔۔۔تم۔‘‘آبدیدہ ہچکی نے اس کی بات کاٹ دی۔
’’تم ہو؟‘‘ایلی نے نفرت بھرے انداز سے کہابناوٹی نفرت۔
’’ہاں۔۔۔میں۔‘‘
’’تم۔‘‘ایلی کی نگاہ کندچھری کی طرح پڑی۔
’’ہاں میں۔‘‘چورچورہوکرتمہارے قدموں میں آگری ہوں۔‘‘
’’جوشرابی کے ہاتھ کاگلاس بنے۔۔۔‘‘
’’تم مجھے شرابی کے ہاتھ دے گئے تھے نا۔‘‘
’’میں دے گیاتھا؟‘‘نفرت سے اس نے ہونٹ بھ
 

جاویداقبال

محفلین
’’میں دے گیاتھا؟‘‘نفرت سے اس نے ہونٹ بھیچ لیے۔
’’تم نہ جاتے تو۔۔‘‘
’’اب کیارکھاہے؟‘‘وہ بولا۔
’’سچ ہے۔‘‘وہ اٹھ بیٹھی۔اس نے معافی بھرے اندازسے چہرے سے بال ہٹائے اوراپنامنہ ننگاکرکے بولی۔’’اب کیادھراہے۔‘‘
وہ اسے دیکھ کرچونکا۔‘اس کے روبروہ شہزادنہ تھی۔ایک لٹاچہرہ۔ویران آنکھیں۔ہڈیوں بھرے گال،داغ دارجلد،بجھادیپ،وہ اسے دیکھ کربھونچکارہ گیا۔جیسے کسی نے اس کے سینے پرگھونساماردیاہو۔اس کادل ڈوب گیا۔
’’ہاں۔‘‘وہ بولی’’اب کیارکھاہے۔ویرانی،تباہی لئے ہوئے کوکون منہ لگاتاہے۔چورچورہوجائے توکون ٹکڑے چنتاہے۔‘‘وہ خاموش کھڑی رہ گئی ۔
کمرے کی فضاگویامنوں بوجھل ہوگئی۔
ایک اداس بھاری خاموشی چھاگئی۔
دورکوئی کراہ رہاتھا۔رورہاتھا۔سسکیاں لے رہاتھا۔
’’مجھے معلوم تھا۔‘‘وہ بولی’’اب تم بھی منہ نہ لگاؤگے۔اب رکھاہی کیاہے۔‘‘اس نے سسکی زدہ قہقہہ لگایا۔
’’توپھر‘‘وہ بولا۔
’’پھر۔۔ہونہہ۔۔۔‘‘
’’آخرپھرمجھ پرنوازش کیوں کی گئی؟‘‘
’’تو پرمیں کیانوازش کروں گی؟‘‘
’’توکیایہ نئی چال ہے؟‘‘
’’چال‘‘وہ قہقہہ مارکرہنسی۔اس ہنسی میں دھارتھی۔ایسی دھارجسکارخ اس کی اپنی طرف تھا۔
’’گناہ بخشوانے آئی تھی۔کیا؟‘‘
’’جبھی خدابن کربیٹھ گئے ہوتم۔‘‘
ایلی بھونچکارہ گیااسے کوئی جواب نہ سوجھا۔
’’تم نے اپنے آپ کو کیاسمجھتے ہو۔‘‘
’’ہونہہ‘‘نفرت سے اس کی ناک دھاربن گئی ۔’’تم ۔۔مجھے سمجھتے کیاتم۔تم مجھے کیاسمجھوگے،تم میں اتنی وسعت ہی نہیں کہ دوسرے کوسمجھ سکو۔دوسرے کودیکھ سکو۔سمجھناتواوربات ہے۔‘‘
’’جی‘‘وہ غصے میں بولا’’میں تمہیں نہیں سمجھ سکا۔نہیں سمجھ سکتا۔‘‘
’’خودپرست شخص کسی کونہیں سمجھ سکتا۔‘‘
’’جی میں خودپرست ہوں۔‘‘
’’تمہاری خودپرستی نے ہم سب کوتباہ کردیا۔
’’اس شرابی کوبھی۔۔۔‘‘اس کی آوازمیں تمسخرتھا۔
’’ہاں اس نالی کے کیڑے کوبھی۔‘‘
’’نالی کاکیڑا؟‘‘
’’ہاں۔اس کامقصدمجھے لوٹناتھا۔اس نے مجھے دل بھرکرلوٹا۔اورمیں جان بوجھ کرلٹتی رہی ۔مجھ میں اب بھی اپناآپ لٹانے کی جرات ہے۔‘‘
’’اوہ۔۔۔‘‘
’’تمہاری طرح نہیں کہ مجھے اکیلی چھوڑکرچلے گئے۔‘‘
’’میں چلاگیا؟‘‘
’’تمہیں مجھ پراعتمادنہ تھا۔تم کسی پراعتمادنہیں کرسکتے تم میں اتنی وسعت نہیں۔تم شک کے زورپرپیارکرتے ہو۔محبت کرنانہیں جانتے۔آح تم بھی میرامذاق اڑارہے ہو۔گری ہوئی کوپاؤ ں میں روندرہے ہومیں صرف تمہارے سامنے گری ہوں۔کسی اورکے سامنے نہیں۔اتنی گری ہوئی بھی نہ سمجھومجھے۔‘‘
شہزادکی آنکھیں آنسوؤں س لبریزتھیں۔اس نے دونوں بازوسینے پرتہہ کیے ہوئے تھے اوروہ یوں کھڑی تھی جیسی جلتے ہوئے جہازمیں کوئی کیسابیانکاکھڑاہو۔
دیرتک وہ یوں ہی کھڑی ٹکٹکی باندھ کر ایلی کی طرف دیکھتی رہی۔اس کی نگاہ تلے ایلی ایک انجانی گھبراہٹ محسوس کررہاتھا۔اسے لٹاپٹادیکھ کروہ محسوس کررہاتھا۔کہ اسے وہ اکیلانہیں چھوڑسکتاجیسے اس کاساتھ دینااس پر فرض ہوچکاہو۔
سکھ میں چاہے وہ اس کاساتھی نہ بنتالیکن دکھ میں وہ اسے چھوڑنہیں سکتا۔اب شہزادکے پاس رہاکیاتھا۔جوانی ڈھل گئی تھی۔جوبن ختم ہوچکاتھا۔ایلی کاجی چاہتاتھاکہ اٹھ کراس کے قدمو ں پرگرجائے اورروروکراس سے معافی مانگ لے لیکن اس میں اتنی جرات نہ تھی۔
دفعتاً وہ آگے بڑھی۔اس نے دونوں ہاتھوں سے ایلی کاسرتھام لیا’’لیکن تم یوں چوہے کی طرح کیوں دبکے بیٹھے ہو۔کیوں منہ چھپائے پھرتے ہو۔کبھی علی پورنہیں آئے۔اوراب آئے تو سامنے کیوں نہیں آتے۔مجھ سے دلچسپی نہیں تونہ سہی مجھے اس کی ضرورت نہیں لیکن مجھ سے نفرت ہی سہی اعلانیہ نفرت کروتھوک،میرے منہ پرتھوکو۔ٹھوکرمارکرمجھے باہرنکال دو۔‘‘اس نے دونوں ہاتھوں سے ایلی کامنہ اپنی طرف موڑلیا۔
ایلی نے یوں محسوس کیاجیسے پٹاخے کوآگ دکھادی گئی ہو۔بھن سے اس کاسرہوائی کی طرح چل گیااس نے ان جانے میں اٹھ کرشہزادکودونوں بانہوں میں تھام لیااورپھردیوانگی بھرے جوش سے اس ریشمی گٹھڑی کوسمیٹ کراپنی گودمیں ڈال لیا۔پھروہ نہ جانے غصے میں جوش یانفرت کی شدت کی وجہ سے چیخنے لگا۔
’’تم کمینی ہو۔حرام زادی ہو۔فاحشہ ہو۔تمہیں دوسروں کو تباہ کرنے میں دلچسپی ہے تم انسانوں سے کھیلتی ہو۔تم حرام خورہو۔‘‘
’’ہاں ہوں۔‘‘وہ بولی’’کرلومیراکیاکرتے ہو۔‘‘اورپھرگٹھڑی سی بن کرپڑ گئی۔
ایلی لے اس گٹھڑی کی طرف دیکھا۔جواس کی گودمیں پڑی تھی۔پھردفعتاً اس کے ذہن میں گاڑی کی کوک سنائی دی۔گاڑی اونچے اونچے ٹیلوں کے درمیان چھکاچھک چلی جارہی تھی۔ایک ڈبے میں مونگیارنگ کی گٹھڑی پڑی جھول رہی تھی۔
’’ارے یارغضب ہوگیا۔تباہی بربادی ،لٹ گئے۔بربادہوگئے۔‘‘ارجمندچلارہاتھا۔پھرگٹھڑی کے پٹ کھلے اوردوحنائی ناگ باہر نکلے۔
سارے عالم پرسناٹاچھایاہواتھا۔ایلی نے گودمیں پڑی ہوئی گٹھڑی کی طرف دیکھا۔’’یہ میں نے کیاکردیاپھرسے اپنے آپ کوبدرومیں پھینک دیا۔یہ میں نے کیاکردیا’’غصے سے اس کامنہ سرخ ہوگیا۔‘‘کرلومیراکیاکرسکتے ہو۔کرلومیراکیاکرسکتے ہو۔‘‘کوئی اس کامنہ چڑارہی تھی۔غصے سے ایلی کے تن بدن میں آگ لگ گئی اوروہ اس ریشمی گٹھڑی پرپل پڑا۔
لفافہ:۔
اگلے روزجب وہ جنگلے میں بیٹھاپڑھ رہاتھاتونیچے زینے سے شوربلندہوا ۔’’راجوشمیم۔ کوئی ہے بھی اس گھر میں کہ کانوں میں تیل ڈالے بیٹھے ہو۔‘‘
ایلی شہزادکی آوازسن کر چونکا۔وہ توعلی احمدکے گھرکبھی نہ آئی تھی۔کبھی آتی بھی توسال میں ایک مرتبہ۔لیکن اس طرح گھروالوں کوآوازیں دے رہی تھی جیسے روزکی آنے والی ہو۔
اورپھر اس کی آوازاسی طرح گھنٹی کی طرح بج رہی تھی جیسے ٹن جوں کاتوں قائم ہو۔بات کااندازبھی وہی تھا۔جیسے ہمیشہ ہواکرتاتھا۔
’’ہی ہی ہی ہی‘‘علی احمدہنستے ہوئے آگئے بڑھے’’لو‘‘وہ بولے’’ہماری قسمت مفت میں جاگ اٹھی‘‘
’’کس نے جگادی آپ کی قسمت ‘‘راجو نے پوچھا۔
’’دیکھ لوشہزادآئی ہمارے گھر۔‘‘
’’اب توآئے گی ہی۔‘‘
’’کیوں ‘‘علی احمدبولے۔
’’اب سودابک گیا۔‘‘شہزادچلائی ’’اب خطرہ کیسا۔‘‘
’’ابھی توگودام بھرے ہیں۔‘‘علی احمد بولے۔’’کیوں نصیرکی ماں ٹھیک ہے نا۔‘‘
’’تم آپس میں ہی فیصلہ کرولو۔‘‘راجوہنسنے لگی۔
’’جبھی تومیں آئی ہوں‘‘شہزادنے کہا۔’’میں نے کہاآج روبروفیصلہ ہوجائے۔‘‘
’’توآؤبیٹھو۔ہمارے پاس توکبھی بیٹھی ہی نہیں۔بس کھڑکیوں پرچیل کی طرح منڈلاتی رہتی ہو۔
کبھی ہمیں بھی موقعہ دیاہوتا۔ہی ہی ہی ہی‘‘علی احمدہنسنے لگے۔
’’جسے سدھ بدھ ہی نہ ہواسے کیاموقعہ دینا‘‘وہ ہنسی۔
’’اب آئے گی بھی اندریاان کی باتوں میں الجھی رہوگی۔‘‘اندرسے راجوبولی۔
’’آتی ہوں۔یہاں توصرف باتیں ہی باتیں ہیں۔‘‘
علی احمدہنسنے لگے۔‘‘بھئی بڑی تیزہے یہ شہزادو۔‘‘
’’ابھی کیادیکھاہے۔‘‘وہ اندرجانے کی بجائے سیدھی ایلی کی طرف آتے ہوئے بولی اوربے پروائی سے برسبیل تذکرہ ایلی سے مخاطب ہوکرکہنے لگی’’توکیایہ پڑھنے کی جگہ ہے۔اوریہ وقت پڑھنے کاہے۔میرایہ خط توڈال آؤذراڈاک میں۔‘‘شہزادنے ایک لفافہ اس کی طرف بڑھادیا۔پھرجیسی کوئی بات ہی نہ ہو۔علی احمد سے بولی۔’’اے ہے مہمان آئے ہیں کچھ تواضع کرو۔کچھ منگواؤشہزادآئی ہے۔‘‘
ان کی گھبراہٹ دیکھ کرشہزادمسکرائی پھرمڑکرایلی سے کہنے لگی’’یہ خط تمہارے لئے ہے کہیں ڈاک میں ڈالاتومیں پٹ جاؤں گی۔‘‘
ایلی نے دیکھاتولفافے پرشریف کاپتہ لکھاہواتھا۔
لفافہ کھولاتواندرمختصرطورپرلکھاتھا۔’’مجھ سے آج ہی ملومیںنے تم سے بہت باتیں کرنی ہیں وہ بیٹھک جواحاطے میں کھلتی ہے۔اس کی تیسری کھڑکی اندرسے کھلی ہوگی کھڑکی میں اندرٹارچ پڑی ہوگی۔اٹھالینا۔بارہ بجے سے پہلے نہ آنا۔‘‘
رابعہ کے چوبارے کے نیچے کی بیٹھک جس کی کھڑکیاں احاطے کے میدان میں کھلتی تھیں سال ہاسال سے بندپڑی تھیں۔اس میں گھرکاکاٹھ کبارڈھیڑکیاہواتھا۔رابعہ اورشہزادکے مکان کاصدردروازہ چھتی گلی میں کھلتاتھاجیسے گلیارہ کہتے تھے۔لیکن یہ ڈیوڑھی مشترکہ تھی۔یہاں سے چارایک مکانات کوراستے جاتے تھے۔اس لیے صدردروازے کوچوری چھپے شہزادکے گھرجانے کے لیے استعمال نہیں کیاجاسکتاتھا۔میدان میں کھلنے والی بیٹھک کی کھڑکیاں ان کے گھرمیں داخل ہونے کابراہ راست ذریعہ تھاوہ بھی صرف اس لیے ممکن العمل تھاکہ رابعہ ان دونوں باہرگئی ہوئی تھی۔اورشہزادنہ جانے کس وجہ سے اپنے چوبارے میں آگئی تھی شایداس کی وجہ صفدرہو۔جس کامکان شہزادکے چوبارے سے عین ملحق تھا۔
اس رات وہ جنگل میں لیٹاہواسوچ رہاتھا۔گھرکے زیادہ ترلوگ اوپرچھت پرسوئے تھے۔باہر صحن میں زینے کے پاس ہاجرہ کی چارپائی تھی۔جس کے پاس ہی وہ جائے نماز پربیٹھی نہ جانے کیاپڑ رہی تھی۔انہی دونوں ہاجرہ نے دلی کے ایک بزرگ جنہیں حاجی صاحب کہتے تھے کی بیعت کی تھی اورنمازوں اوروظائف میں مصروف رہتی تھی۔
نیچے احاطے کے میدان میں چاندنی چٹکی ہوئی تھی۔ایلی نے پہلی مرتبہ محسوس کیاکہ چاندنی خطرناک نتائج بھی پیداکرسکتی ہے محلے میں چاروں طرف سے آوازیں آرہی تھیں۔برتن بج رہے تھے چارپائیاں گھسیٹی جارہی تھیں۔۔۔دروازوں کے پٹ بندہورہے تھے۔
آہستہ آہستہ محلے پرخاموشی طاری ہوئے جارہی تھی۔خاموشی کے وقفے لمبے ہوتے جارہے تھے پھرمحلے کی مسجدسے نمازی وظائف سے فارغ ہوکرگھروں کولوٹ رہے تھے۔قدموں کی مدہم آوازیں آرہی تھیںٹپ ٹپ قدموں کی چاپ آہستہ آہستہ معدوم ہوجاتی تھی۔کوئی دروازہ چراؤں کرکے کھلتااورٹھک سے بندہوجاتا۔پھرخاموشی چھاجاتی۔چندسماعت کے بعدپھرٹپ ٹپ قدموں کی آوازآتی آہستہ آہستہ مدھم ہوتی جاتی اورپھرچراؤں ٹھک کے بعدخاموشی کاایک اوروقفہ شروع ہوجاتا۔
ماجھا:۔
احاطے کے میدان کے عین درمیان میں کنوئیں کومنڈیرکے قریب ماجھاڈھیرہورہی تھی۔ماجھاایک مستانی تھی۔جوسارادن نہ جانے کہاں کہاں گھومتی پھرتی اورشام کے وقت محلے کے احاطے میں آجاتی اورکنوئیںکی منڈیرکے قریب رات بسرکرتی تھی۔
ماجھاکواپنی سدھ بدھ نہ تھی۔اس کی عمرکچھ زیادہ نہ تھی۔لیکن جسم پھولاہواتھا۔غالباً اس کے جسم میں حسیات مفقودہوچکی تھی۔اگرکوئی ماجھاکے جسم پرچٹکی بھرتاتوماجھاکوقطعی طورپراحساس نہ ہوتاوہ آپ ہی آپ بیٹھی قہقہہ مارکرہنسنے لگتی یاپھوٹ پھوٹ کرروتی یاچیخیں مارتی رہتی۔اس کے جسم پرایک لمباچغہ پڑارہتاتھا۔سراورجسم میں جوئیں چلتی تھیں اوررات کوجاگتے میں بیٹھے بیٹھے اس کاپیشاب اورپاخانہ خطاہوجاتاتھا۔
کوئی نہیں جانتاتھاکہ ماجھاکون ہے،کہاں سے آئی ہے کس کی بیٹی ہے اوراس کی یہ حالت کیوں ہوگئی ہے؟
کوئی کہتاکہ وہ امیرکبیرگھرانے سے ہے اورکشتۂ محبت ہے۔محبت کی شدت کی وجہ سے دیوانی ہوگئی ہے کوئی کہتاکہ نوجوانی میں غنڈوں نے اس سے زیادتی اوراس عف مآب لڑکی کواس قدرصدمہ ہواکہ وہ ہمیشہ کی لیے ہوش کھوبیٹھی۔
رات کے وقت محلے کے کتے اسے چاٹتے رہتے تھے پھرنہ جانے کون کتااسے چاٹ گیاکہ
 
Top