(صفحہ نمبر 1239)
ہے۔ شہزاد بھی جب دیکھو “چھن سے۔“ اس کی طرف آجاتی ہے۔ اس مبہم مگر دلچسپ محبت میں جنس داخل ہوئےبغیر نہیں رہتا اور ایک دفعہ جب شہزاد سامان کی الگ کوٹھری میں ہے تو ایلی اس پر حملہ کر دیتا ہے مگر ناکامیاب رہتا ہے۔ اس سے ان دونوںکے تعلقات میں فرق نہیں آتا اور آگے چل کر ایک دن طے ہو جاتا ہے کہ ایلی شہزاد کوبھگالے جائےگا۔ وہ اس کام کے قانونی پہلو پر ایک مشہور وکیل سے رائے لیتا ہے۔ اور وکیل یہ سن کر کے محبوبہ چھ بچوں کی ماں ہے۔ ایلی کوکسی دماغ کے ڈاکٹر سے رائے لینے کا مشورہ دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس عشق میں دماغی خلل کو بہت کچھ دخل ہے۔ شہزاد ایلی کے ذہن میں بس جاتی ہے اور ہر وقت اس کے تصور میں “چھن سے۔“ آجاتی ہے۔ وہ لاھور میں تعلیم کی غرض سے آکر رہتا ہے اور قریب کے گھر میں رہنے والی ایک اونچے خاندان کی لڑکی سے اس کی پینگ کافی بڑھتے ہیں۔ اس لڑکی کو سائیکل پر لئے ہو ئےوہ لاہور کے مختلف مقامات پر جاتا ہے۔ دونوں بہت قریب آجاتے ہیں اور یہ بھی امکان نظر آتا ہے کہ دونوں کی شادی ہو جائےمگر اس عشقیہ معاملے کے دوران بھی شہزاد اس کے تصور میں آتی رہتی ہے۔ ایلی کی ماں اس کی ایک جگہ منگنی کی رسم بھی پوری کر دیتی ہے۔ مگر اس سے بھی ایلی کی شہزاد کی طرف توجہ میں کوئی فرق نہیں آتا۔ علی احمد جس کا خاص مشغلہ عورتوں سے لگاوءکرتے رہنا ہے ایلی کو رنڈیوں سے بھی متعارف ہونے کا موقعہ دیتا ہے۔ اور ایلی کو ایک رنڈی پھانس لینے کی بھی ناکام کوشش کرتی ہے۔ ایلی خود بھی ایک دن ایک گندے رنڈی خانہ کی گندگی میں کود ہی پڑتا ہے۔ مگر آخر میں ایسا کچھ ہوتا ہے کہ ایلی اپنی تعلیم ختم کر کے اسکول کی ملازمت پر آتا ہے اور شہزاد سے اس کی شادی ہو ہی جاتی ہے۔ دونوں کی زندگی بڑی خوشگوار نظر آتی ہے مگر آگے چل کر شہزاد کو اپنی پہلے شوہر کی لڑکی کی غلط شادی کی بنا پر ایلی کی توجہ اپنے شہزاد سے لڑکے عالی کی طرف رہتی ہے۔ وہ بمبئی میں صحافی کی حیثیت ملازم ہوتا ہے اور جب تقسیم ہند کے سلسلے میں لاہور میں فسادات ہوتے ہیں تو “عالی عالی۔“ کرتا ہوا لاہور بھاگ آتا ہے۔
یہ خاص پلاٹ بہت ہی زیادہ مختصر خلاصہ ہے اس میں بہت سے چھوٹے چھوٹے پلاٹ معاون کی طرح شامل ہوتے رہتے ہیں۔ علی احمد کے ٹیں کا سپاہی بن کر متعدد معاشقے کرنے کا طویل قصہ ہے۔ ایلی کے تعلیم اور اس کے بعد ملازمت حاصل کرنے کا بھی ایک الگ پلاٹ ہے۔ اس کے مختلف عزیزوں کے بھی قصے ضمنا ساتھ ہوجاتے ہیں۔ ہر پلاٹ مناسب تفصیل
(صفحہ نمبر 1240)
کے ساتھ سامنے آتا رہتا ہے۔ ہر سلسلے میں درامائی سین بڑی مناسب اور موزوں مکالموںکے ساتھ سامنے آتے رہتے ہیں۔ کتاب کی ضخامت میں اضافہ رہتا ہے مگر کہیں یہ محسوس نہیں ہوتا کہ کوئی جملہ کیا لفظ بھی بلا ضروری اور اسے ناول سے خارج کر کے ناول کو بہتر فارم دہا جا سکتا ہے۔ بنیادی طور پر ناول کرداری قسم کی ہے یعنی اس کا مقصد اہل فرد کو مختلف واقعات سے گزرتے ہوئے دکھانا ہے مگر اس میں ڈرامائی ناول یعنی ایسی ناول کے جو مختلف لوگوں کے درمیان کشمکش دکھائے اور وقت کے ساتھ اس کشمکش کے درجہ طے ہوں۔ عناصر بھی شامل ہو جاتے ہیں اور یہ کہتے ہی بنتا ہے کہ یہ ناول زور کے ساتھ ڈرامائی بھی ہے۔ مقامات بھی بدلتے ہیں مگر یہ محسوس ہوتا ہے کہ علی پور اور اس کا آصفی محلہ اور اس میں بھی ایلی کا خاندانی محل ایک سٹیج ہے اور اسی پر سارا قصہ دکھایا جارہا ہے۔ امرتسر‘ لاہور اور دوسرے مقامات پر کچھ ضمنی سین ضرور دکھائے گئےہیں مگر یہ مرکزی اسٹیج سے اس قدر متعلق ہیں کہ اتحاد تاثر میں کسی طرح فرق نہیں آتا۔ آخر میں قاری کے تصور میں جو دنیا رہ جاتی ہے اس میں علی پور اس کے خاص قسم کے مکانات۔ آصفی محلہ اور اس کے خاص محل کے رہنے والے بڑے دلکش طریقہ پر زندہ نظرآتے رہتے ہیں۔ اتحاد کے ساتھ تو تنوع کو ہم آہنگ کرنے کی بڑی اچھی مثال قائم ہوتی ہے۔ مفتی صاحب فنکاری سے زیادہ زندگی کی طرف متوجہ ضرور ہیں اور اس کی اہمیت دیتے ہیں اور ناول کو ایک ڈھیر کہہ دینے میں کوئی سبکی محسوس نہیں کرتے مگر ان کی ناول شاید لاشعوری اور قدرتی طور پر مواد کو اس طرح سمیٹتی اور ایک مستقل شکل یاہیت میں تبدیل کرتی جاتی ہے کہ ان کی غیر معمولی فنکارانہ صلاحیت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ ضخامت ڈرا دینے والی چیز ضرور ہے۔ اور بیشتر ضخیم ناولوں کا مواد ناول نگاری کی گرفت سے نکل ہی جایا کرتا ہے اس لئےسطحی نظر رکھنے والے لوگ ضخامت اور بے ترتیبی کو ہم معنے سمجھتے ہیں۔ :علی پور کا ایلی۔“ ایسے کلیوںکی صاف رو ہے۔ اتنے وسیع مواد کو ترتیب میں لے آنا۔ ایک مستقل فارم کا تاثر دینا اور دلچسپی کو قائم رکھنا ہی وہ کمال ہے جو مفتی صاحب کو ناول نگاروںکی صف اول میں کھڑا کردیتا ہے۔ طفیل صاحب نے ضخامت میں لطف پیدا کرنے کا خیال کرتے ہوئے “علی پور کا ایلی۔“ کا سرشار کے فسانہ آزاد سے مقابلہ کیا ہے۔ “علی پور کا ایلی“ فسانہ آزاد کا سا جنگل کا جنگل ضرور سامنے لاتا ہے مگر اس جنگل کی ایک بڑی اہم اور فنکارانہ ترتیب بھی ہے جو فسانہ آزاد ایسی بے تکان چیزوں کو بہت پیچھے چھوڑ آتی اور اردو ناول کو ایک کڑبڑ جھالے سے ایک دلکش تعمیر میں ارتقا کر
(صفحہ 1241)
کے پہنچ جاتی ہوئی دکھاتی ہے۔ فسانہ آزاد کو اگر اس سے مقابلہ میں لایا جاسکتا ہے۔ تو تضاد کے لئے یعنی یہ واضح کرنے کے لئے کہ محض ناول نما فسانہ اور صحیح معنوںمیں ناول کے درمیان کیا فرق ہے “علی پور کا ایلی۔“ کے بعد شبہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ ناول اپنے پورے رنگ و روپ کے ساتھ اردو ادب میں کھب گئی۔ مفتی صاحب اس کے لیے داستان سرگزشت‘ ڈھیر وغیرہ کے الفاظ استعمال کریں۔ یعنی نقاد کی حیثیت سے اس کی بابت ناول کا لفظ استعمال کرنے سے پہچانیں مگر ان کے اندر جو فن کار ہے وہ تنقیدی شکوک سے بالا تر ہے۔ اور اس کی موج خرام نے گل کترے ہیں اور ایک بالکل نیا انفرادی اور دلکش چمن ایجاد کردیاہے۔
(3)
مفتی صاحب کی تخلیقی قوت کا سکہ ان کے افسانوں ہی سے جم چکاتھا مگر “علی پور کا ایلی۔“ اس کے بڑے پیمانہ پر عمل اور کامیاب عمل کی مثال سامنے لاتا ہے۔ تخلیق قصہ گوئی کے ذریعہ بھی ظاہر ہو سکتی ہے۔ مگر اس کا خاص میدان باوجود کچھ جدید ناول نگاروں کے سخت اختلاف کے کرداری نگاری ہی رہا۔ “علی پور کا ایلی۔“ میں ہر جگہ کردار امنڈتے نظر آتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنی منفرد زندگی کا واضح اور دلکش نقش ضرورچھوڑ جاتا ہے مگر ناول نگار کی عظیم تخلیقی قوت کا بیان بظاہر تین لافانی کردار کے ذریعہ خاص طور پر ہوتا ہے اور کردار پہلو بدلتے۔ ارتقا کرتے حقیقت سے ہمکنار رہتے ہوئے حقیقت سے ہمکنار رہتے ہوئے حقیقت سے زیادہ حقیقی ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ اردو ادب میں ان کا کوئی ثانی نہیں نظر آتا۔
علی احمد کا کردار سب میں پہلے سامنے آتا ہے اور پوری ناول پر ایک مستقل نہ بدلنے والے شخص کی طرح چھایا رہتا ہے۔ اس کی زندگی ہر دلچسپی مقر ر ہوکرایک خاص ٹھپہ کی ہو گئ ہے۔ وہ اپنے کام میں چوکس ہے۔ اس کے ابا عام طور پر ایک چٹائی پر بیٹھےڈیسک پر رکھے ہوئے رجسٹر میں لکھنے مصروف رہتے تھے۔ وہ قمیض اتار کر بیٹھا کرتے تھے اور ان کی دھوتی میلی ہونے کے علاوہ پھٹی ہوتی تھی اور اس کے پلووءں کو ادھر ادھر سر کے رہنے کی عادت تھی جو ایلی پر بے حد گراں گزرتی تھی۔
اس عالم میں وہ ہمیشہ بیٹھےنظر آتے ہیں اور بیٹھے بیٹھے آواز لگاتے ہیں۔ “ایلی حقہ بھر دو۔“ حقہ بھی اس کے کردار کا ایک حصہ ہے اور پھر ان سب سے زیادہ دلچسپی عورتوں میں ہے ان کی ایک بیاہتہ بیوی ہاجرہ ایلی کی ماںہیں۔ جو اب محض نوکرانی ہو کر رہ گئی ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ
(صفحہ نمبر 1242)
ایک بنی ٹھنی بیوی صفیہ ہیں جو زیادہ تر ان کے کمرے کی زینت رہتی ہیں۔ مگر صفیہ ان انکے بے پناہ جنسی رحجان کی ایک مثال ہے ورنہ
“ دادا کی وفات کے بعد علی احمد نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ہاجرہ کو ہمشیہ کے لئےآلو چھیلنے اور آٹا گوندھنے پر مامور کر دیااور خود کمر ہمت باندھ کر اپنے جزبہ تسخیر کو مطمئن کرنے چل نکلے۔ وہ اپنی ایستادہ چال- ابھری ہوئی چھاتی۔ فراخ پیشانی اور رنگین متبسم نگاہوں سے مردانہ وار تسخیر کرتے پھر تخلیے میں ڈان کو ہٹے کی سی پر جوش لڑائی لڑنے کے بعد اس میدان کارزار کی دہلیز پر بچے کی طرح اس امید پر گر پڑتےکہ انہیں کوئی شفقت بھرا ہاتھ تھپک تھپک کر سلا دے گا۔ اس لحاظ سے ان کی شخصیت جنگجو سورماٹین کے سپاہی اور دودھ پیتے بچے کی دلچسپ آمیزش سے بنی تھی اور چونکہ ان کا جنسی پہلو شخصیت کے جملہ پہلووءں پر حاوی تھا اس لئے یہ آمیزش در حقیقت ان کی تمام تر زندگی کا تار پود تھا۔ ٹین کا سپاہی جنگجو سورما۔“
علی احمد اس صفت کے تمام تر بندے ہونے کی وجہ سے یک طرفہ کردار یا کری کیچر بھی کہا جا سکتا ہے۔ حالانکہ ان کی زندگی کے اور بھی پہلو ہیں۔ وہ ایلی کے محبت دار باپ ہیں اور اس کی ترقی کے لئے اپنی بساط بھر سب کچھ کرتے ہیں۔ وہ گھر کے اپنی حدتک اچھے خاصے منتظم بھی ہیں اور عام انسانی فرائض کی ادایئگی میں کوئی خاص کو تاہی نہیںکرے ہیں۔ مگر زیادہ تر ان کا ٹین کے سپاہی والا پہلو ہی سامنے آتا رہتا ہے اور بڑی والہانہ دلچسپی کے ساتھ وہ عورتوںکی فتح پر فتح حاصل کرتے ہیں۔ ایسے ہیرو کی طرح مصروف نظر آتے ہیں۔ جس کا ایک اور ایک ہی مقصد حیات ہو۔ ان میں مجلسی زندگی کی جملہ صلاحیتیں بھی موجود تھیں۔ انہیںلکھنے سے عشق تھا عشق۔ یہ عشق گھر کا حساب اور پیدائش اور موت کی تاریخوں کے نوٹ کرنے پر محدود تھا۔ ایک جنرل رجسٹر کے علاوہ گھر سے متعلقہ ہر فرد کاایک رجسٹر کے علاوہ وہ گھر سے متعلقہ ہر فرد کا ایک رجسٹر کھولے ہو ئے تھے۔ پھر ان کے کردار میں روپے پیسے کی احتیاط کا پہلوبے حد اہم تھا۔
حتَی کہ وہ عورت پر روپیہ خرچ کرنے کے قائل نہ تھے اور انکا خیال تھا کہ عورت کو تسخیر کرنے کے لئے سب سے ضروری چیز وعدے ہیں روپے کا تصرف نہیں ۔ ان کا ایمان تھا کہ عورت کی خوشی حقیقت سے تعلق نہیںرکھتی۔ بلکہ محض تخیل سے وابستہ ہے اور اسے روپے پیسے جیسی ٹھوس چیز سے کیا تعلق۔
ان کے کردار پورے طور پر پہلودار(Round) کرنے کی مفتی صاحب کوشش کرتے
(صفحہ نمبر 1243)
ہیں
ہے۔ شہزاد بھی جب دیکھو “چھن سے۔“ اس کی طرف آجاتی ہے۔ اس مبہم مگر دلچسپ محبت میں جنس داخل ہوئےبغیر نہیں رہتا اور ایک دفعہ جب شہزاد سامان کی الگ کوٹھری میں ہے تو ایلی اس پر حملہ کر دیتا ہے مگر ناکامیاب رہتا ہے۔ اس سے ان دونوںکے تعلقات میں فرق نہیں آتا اور آگے چل کر ایک دن طے ہو جاتا ہے کہ ایلی شہزاد کوبھگالے جائےگا۔ وہ اس کام کے قانونی پہلو پر ایک مشہور وکیل سے رائے لیتا ہے۔ اور وکیل یہ سن کر کے محبوبہ چھ بچوں کی ماں ہے۔ ایلی کوکسی دماغ کے ڈاکٹر سے رائے لینے کا مشورہ دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس عشق میں دماغی خلل کو بہت کچھ دخل ہے۔ شہزاد ایلی کے ذہن میں بس جاتی ہے اور ہر وقت اس کے تصور میں “چھن سے۔“ آجاتی ہے۔ وہ لاھور میں تعلیم کی غرض سے آکر رہتا ہے اور قریب کے گھر میں رہنے والی ایک اونچے خاندان کی لڑکی سے اس کی پینگ کافی بڑھتے ہیں۔ اس لڑکی کو سائیکل پر لئے ہو ئےوہ لاہور کے مختلف مقامات پر جاتا ہے۔ دونوں بہت قریب آجاتے ہیں اور یہ بھی امکان نظر آتا ہے کہ دونوں کی شادی ہو جائےمگر اس عشقیہ معاملے کے دوران بھی شہزاد اس کے تصور میں آتی رہتی ہے۔ ایلی کی ماں اس کی ایک جگہ منگنی کی رسم بھی پوری کر دیتی ہے۔ مگر اس سے بھی ایلی کی شہزاد کی طرف توجہ میں کوئی فرق نہیں آتا۔ علی احمد جس کا خاص مشغلہ عورتوں سے لگاوءکرتے رہنا ہے ایلی کو رنڈیوں سے بھی متعارف ہونے کا موقعہ دیتا ہے۔ اور ایلی کو ایک رنڈی پھانس لینے کی بھی ناکام کوشش کرتی ہے۔ ایلی خود بھی ایک دن ایک گندے رنڈی خانہ کی گندگی میں کود ہی پڑتا ہے۔ مگر آخر میں ایسا کچھ ہوتا ہے کہ ایلی اپنی تعلیم ختم کر کے اسکول کی ملازمت پر آتا ہے اور شہزاد سے اس کی شادی ہو ہی جاتی ہے۔ دونوں کی زندگی بڑی خوشگوار نظر آتی ہے مگر آگے چل کر شہزاد کو اپنی پہلے شوہر کی لڑکی کی غلط شادی کی بنا پر ایلی کی توجہ اپنے شہزاد سے لڑکے عالی کی طرف رہتی ہے۔ وہ بمبئی میں صحافی کی حیثیت ملازم ہوتا ہے اور جب تقسیم ہند کے سلسلے میں لاہور میں فسادات ہوتے ہیں تو “عالی عالی۔“ کرتا ہوا لاہور بھاگ آتا ہے۔
یہ خاص پلاٹ بہت ہی زیادہ مختصر خلاصہ ہے اس میں بہت سے چھوٹے چھوٹے پلاٹ معاون کی طرح شامل ہوتے رہتے ہیں۔ علی احمد کے ٹیں کا سپاہی بن کر متعدد معاشقے کرنے کا طویل قصہ ہے۔ ایلی کے تعلیم اور اس کے بعد ملازمت حاصل کرنے کا بھی ایک الگ پلاٹ ہے۔ اس کے مختلف عزیزوں کے بھی قصے ضمنا ساتھ ہوجاتے ہیں۔ ہر پلاٹ مناسب تفصیل
(صفحہ نمبر 1240)
کے ساتھ سامنے آتا رہتا ہے۔ ہر سلسلے میں درامائی سین بڑی مناسب اور موزوں مکالموںکے ساتھ سامنے آتے رہتے ہیں۔ کتاب کی ضخامت میں اضافہ رہتا ہے مگر کہیں یہ محسوس نہیں ہوتا کہ کوئی جملہ کیا لفظ بھی بلا ضروری اور اسے ناول سے خارج کر کے ناول کو بہتر فارم دہا جا سکتا ہے۔ بنیادی طور پر ناول کرداری قسم کی ہے یعنی اس کا مقصد اہل فرد کو مختلف واقعات سے گزرتے ہوئے دکھانا ہے مگر اس میں ڈرامائی ناول یعنی ایسی ناول کے جو مختلف لوگوں کے درمیان کشمکش دکھائے اور وقت کے ساتھ اس کشمکش کے درجہ طے ہوں۔ عناصر بھی شامل ہو جاتے ہیں اور یہ کہتے ہی بنتا ہے کہ یہ ناول زور کے ساتھ ڈرامائی بھی ہے۔ مقامات بھی بدلتے ہیں مگر یہ محسوس ہوتا ہے کہ علی پور اور اس کا آصفی محلہ اور اس میں بھی ایلی کا خاندانی محل ایک سٹیج ہے اور اسی پر سارا قصہ دکھایا جارہا ہے۔ امرتسر‘ لاہور اور دوسرے مقامات پر کچھ ضمنی سین ضرور دکھائے گئےہیں مگر یہ مرکزی اسٹیج سے اس قدر متعلق ہیں کہ اتحاد تاثر میں کسی طرح فرق نہیں آتا۔ آخر میں قاری کے تصور میں جو دنیا رہ جاتی ہے اس میں علی پور اس کے خاص قسم کے مکانات۔ آصفی محلہ اور اس کے خاص محل کے رہنے والے بڑے دلکش طریقہ پر زندہ نظرآتے رہتے ہیں۔ اتحاد کے ساتھ تو تنوع کو ہم آہنگ کرنے کی بڑی اچھی مثال قائم ہوتی ہے۔ مفتی صاحب فنکاری سے زیادہ زندگی کی طرف متوجہ ضرور ہیں اور اس کی اہمیت دیتے ہیں اور ناول کو ایک ڈھیر کہہ دینے میں کوئی سبکی محسوس نہیں کرتے مگر ان کی ناول شاید لاشعوری اور قدرتی طور پر مواد کو اس طرح سمیٹتی اور ایک مستقل شکل یاہیت میں تبدیل کرتی جاتی ہے کہ ان کی غیر معمولی فنکارانہ صلاحیت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ ضخامت ڈرا دینے والی چیز ضرور ہے۔ اور بیشتر ضخیم ناولوں کا مواد ناول نگاری کی گرفت سے نکل ہی جایا کرتا ہے اس لئےسطحی نظر رکھنے والے لوگ ضخامت اور بے ترتیبی کو ہم معنے سمجھتے ہیں۔ :علی پور کا ایلی۔“ ایسے کلیوںکی صاف رو ہے۔ اتنے وسیع مواد کو ترتیب میں لے آنا۔ ایک مستقل فارم کا تاثر دینا اور دلچسپی کو قائم رکھنا ہی وہ کمال ہے جو مفتی صاحب کو ناول نگاروںکی صف اول میں کھڑا کردیتا ہے۔ طفیل صاحب نے ضخامت میں لطف پیدا کرنے کا خیال کرتے ہوئے “علی پور کا ایلی۔“ کا سرشار کے فسانہ آزاد سے مقابلہ کیا ہے۔ “علی پور کا ایلی“ فسانہ آزاد کا سا جنگل کا جنگل ضرور سامنے لاتا ہے مگر اس جنگل کی ایک بڑی اہم اور فنکارانہ ترتیب بھی ہے جو فسانہ آزاد ایسی بے تکان چیزوں کو بہت پیچھے چھوڑ آتی اور اردو ناول کو ایک کڑبڑ جھالے سے ایک دلکش تعمیر میں ارتقا کر
(صفحہ 1241)
کے پہنچ جاتی ہوئی دکھاتی ہے۔ فسانہ آزاد کو اگر اس سے مقابلہ میں لایا جاسکتا ہے۔ تو تضاد کے لئے یعنی یہ واضح کرنے کے لئے کہ محض ناول نما فسانہ اور صحیح معنوںمیں ناول کے درمیان کیا فرق ہے “علی پور کا ایلی۔“ کے بعد شبہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ ناول اپنے پورے رنگ و روپ کے ساتھ اردو ادب میں کھب گئی۔ مفتی صاحب اس کے لیے داستان سرگزشت‘ ڈھیر وغیرہ کے الفاظ استعمال کریں۔ یعنی نقاد کی حیثیت سے اس کی بابت ناول کا لفظ استعمال کرنے سے پہچانیں مگر ان کے اندر جو فن کار ہے وہ تنقیدی شکوک سے بالا تر ہے۔ اور اس کی موج خرام نے گل کترے ہیں اور ایک بالکل نیا انفرادی اور دلکش چمن ایجاد کردیاہے۔
(3)
مفتی صاحب کی تخلیقی قوت کا سکہ ان کے افسانوں ہی سے جم چکاتھا مگر “علی پور کا ایلی۔“ اس کے بڑے پیمانہ پر عمل اور کامیاب عمل کی مثال سامنے لاتا ہے۔ تخلیق قصہ گوئی کے ذریعہ بھی ظاہر ہو سکتی ہے۔ مگر اس کا خاص میدان باوجود کچھ جدید ناول نگاروں کے سخت اختلاف کے کرداری نگاری ہی رہا۔ “علی پور کا ایلی۔“ میں ہر جگہ کردار امنڈتے نظر آتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنی منفرد زندگی کا واضح اور دلکش نقش ضرورچھوڑ جاتا ہے مگر ناول نگار کی عظیم تخلیقی قوت کا بیان بظاہر تین لافانی کردار کے ذریعہ خاص طور پر ہوتا ہے اور کردار پہلو بدلتے۔ ارتقا کرتے حقیقت سے ہمکنار رہتے ہوئے حقیقت سے ہمکنار رہتے ہوئے حقیقت سے زیادہ حقیقی ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ اردو ادب میں ان کا کوئی ثانی نہیں نظر آتا۔
علی احمد کا کردار سب میں پہلے سامنے آتا ہے اور پوری ناول پر ایک مستقل نہ بدلنے والے شخص کی طرح چھایا رہتا ہے۔ اس کی زندگی ہر دلچسپی مقر ر ہوکرایک خاص ٹھپہ کی ہو گئ ہے۔ وہ اپنے کام میں چوکس ہے۔ اس کے ابا عام طور پر ایک چٹائی پر بیٹھےڈیسک پر رکھے ہوئے رجسٹر میں لکھنے مصروف رہتے تھے۔ وہ قمیض اتار کر بیٹھا کرتے تھے اور ان کی دھوتی میلی ہونے کے علاوہ پھٹی ہوتی تھی اور اس کے پلووءں کو ادھر ادھر سر کے رہنے کی عادت تھی جو ایلی پر بے حد گراں گزرتی تھی۔
اس عالم میں وہ ہمیشہ بیٹھےنظر آتے ہیں اور بیٹھے بیٹھے آواز لگاتے ہیں۔ “ایلی حقہ بھر دو۔“ حقہ بھی اس کے کردار کا ایک حصہ ہے اور پھر ان سب سے زیادہ دلچسپی عورتوں میں ہے ان کی ایک بیاہتہ بیوی ہاجرہ ایلی کی ماںہیں۔ جو اب محض نوکرانی ہو کر رہ گئی ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ
(صفحہ نمبر 1242)
ایک بنی ٹھنی بیوی صفیہ ہیں جو زیادہ تر ان کے کمرے کی زینت رہتی ہیں۔ مگر صفیہ ان انکے بے پناہ جنسی رحجان کی ایک مثال ہے ورنہ
“ دادا کی وفات کے بعد علی احمد نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ہاجرہ کو ہمشیہ کے لئےآلو چھیلنے اور آٹا گوندھنے پر مامور کر دیااور خود کمر ہمت باندھ کر اپنے جزبہ تسخیر کو مطمئن کرنے چل نکلے۔ وہ اپنی ایستادہ چال- ابھری ہوئی چھاتی۔ فراخ پیشانی اور رنگین متبسم نگاہوں سے مردانہ وار تسخیر کرتے پھر تخلیے میں ڈان کو ہٹے کی سی پر جوش لڑائی لڑنے کے بعد اس میدان کارزار کی دہلیز پر بچے کی طرح اس امید پر گر پڑتےکہ انہیں کوئی شفقت بھرا ہاتھ تھپک تھپک کر سلا دے گا۔ اس لحاظ سے ان کی شخصیت جنگجو سورماٹین کے سپاہی اور دودھ پیتے بچے کی دلچسپ آمیزش سے بنی تھی اور چونکہ ان کا جنسی پہلو شخصیت کے جملہ پہلووءں پر حاوی تھا اس لئے یہ آمیزش در حقیقت ان کی تمام تر زندگی کا تار پود تھا۔ ٹین کا سپاہی جنگجو سورما۔“
علی احمد اس صفت کے تمام تر بندے ہونے کی وجہ سے یک طرفہ کردار یا کری کیچر بھی کہا جا سکتا ہے۔ حالانکہ ان کی زندگی کے اور بھی پہلو ہیں۔ وہ ایلی کے محبت دار باپ ہیں اور اس کی ترقی کے لئے اپنی بساط بھر سب کچھ کرتے ہیں۔ وہ گھر کے اپنی حدتک اچھے خاصے منتظم بھی ہیں اور عام انسانی فرائض کی ادایئگی میں کوئی خاص کو تاہی نہیںکرے ہیں۔ مگر زیادہ تر ان کا ٹین کے سپاہی والا پہلو ہی سامنے آتا رہتا ہے اور بڑی والہانہ دلچسپی کے ساتھ وہ عورتوںکی فتح پر فتح حاصل کرتے ہیں۔ ایسے ہیرو کی طرح مصروف نظر آتے ہیں۔ جس کا ایک اور ایک ہی مقصد حیات ہو۔ ان میں مجلسی زندگی کی جملہ صلاحیتیں بھی موجود تھیں۔ انہیںلکھنے سے عشق تھا عشق۔ یہ عشق گھر کا حساب اور پیدائش اور موت کی تاریخوں کے نوٹ کرنے پر محدود تھا۔ ایک جنرل رجسٹر کے علاوہ گھر سے متعلقہ ہر فرد کاایک رجسٹر کے علاوہ وہ گھر سے متعلقہ ہر فرد کا ایک رجسٹر کھولے ہو ئے تھے۔ پھر ان کے کردار میں روپے پیسے کی احتیاط کا پہلوبے حد اہم تھا۔
حتَی کہ وہ عورت پر روپیہ خرچ کرنے کے قائل نہ تھے اور انکا خیال تھا کہ عورت کو تسخیر کرنے کے لئے سب سے ضروری چیز وعدے ہیں روپے کا تصرف نہیں ۔ ان کا ایمان تھا کہ عورت کی خوشی حقیقت سے تعلق نہیںرکھتی۔ بلکہ محض تخیل سے وابستہ ہے اور اسے روپے پیسے جیسی ٹھوس چیز سے کیا تعلق۔
ان کے کردار پورے طور پر پہلودار(Round) کرنے کی مفتی صاحب کوشش کرتے
(صفحہ نمبر 1243)
ہیں