قیصرانی
لائبریرین
نہیں بھئی۔ ایلی چلایا۔ جب انہیں دخل اندازی نا پسند ہے تو۔۔۔۔۔۔۔۔
اونہوں۔جمال بولا۔ انہیں کیا پتہ کہ یہ دخل اندازی نہیں وہ تمہارے قدر کیا جانیں مجھ سے پوچھو یار۔ اپنی قدر و منزلت مجھ سے پوچھو۔
ایلی خاموش ہو گیا۔
نہ جانا۔ خدا کے لئے۔ جمال نے اس کی منتیں کرنا شروع کر دیں۔ کچھ دن ٹھہر جاؤ پھر چلے جانا۔ میں تمہیں نہیں روکوں گا۔
سیڑھیوں میں شہزاد امید بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ وہ چپ چاپ کھڑی تھی۔ چپ چاپ۔ اس کی نگاہ میں حسرت کی جھلک تھی۔ ہونٹوں میں گویا سسکی دبی ہوئی تھی۔
جمال کی نگاہ میں منت تھی۔ عین اس وقت بھا اوپر سے آگیا۔ کیا ہو رہا ہے؟ اس نے سرسری طور پر جمال سے پوچھا۔
ایلی گھر جانے کی تیاری کر رہا ہے۔ وہ بولا۔ میں کہتا ہوں نہ جا۔
بھا ہنسنے لگا۔ مجھے بھی یہی خیال پیدا ہوا تھا۔ میں سمجھا ایلی جا رہا ہے۔ لیکن وہ نہیں جا رہا۔ چاہے توپوچھ لو۔
ارے۔ جمال چلایا۔تم نہیں جا رہے۔
نہیں۔ ایلی نے کہا۔
اچھا یار؟۔ جمال نے فرط انبساط سے ایلی کے شانے پر زور سے ہاتھ مارا۔ تم تو کہ رہے تھے۔ جا رہا ہوں۔
ویسے مذاق میں کہا ہوگا۔ بھا مسکرایا اور سیڑھیاں اترنے لگا۔
تمہارا بھی کوئی پتہ نہیں چلتا، جمال خوشی سے چلانے لگا۔ تم بڑے ہی پیارے ہو لیکن مجھے تنگ کرتے ہو۔ یار بہت تنگ کرتے ہو۔ میں پہلے ہی تنگ ہوں۔ وہ کھجانے لگا۔ تم جلتی پر تیل چھڑک کر تماشہ دیکھتے ہو۔ ہے نا۔ اس نے قہقہہ لگایا۔ بڑے تماش بین ہو۔
ارے۔ وہ دفعتا چلایا۔ ہمیں تو ان کے خط کا جواب دینا ہے۔
تو دو نا۔ ایلی نے کہا۔ اب میں کال کلوٹے کے بارے میں کیا لکھوں۔
یار تم اپنی طرف سے ایک خط کیوں نہیں لکھتے۔
کیا فائدہ۔۔
بڑا مزہ رہے گا اور پھر تم بھی ہمارے ساتھ شامل ہو جاؤ گے۔
مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ ایلی نے کہا۔ پھر کس حیثیت سے لکھوں۔
برادرانہ طور پر لکھ دو۔
کیوں؟ ایلی نے غصے سے کہا جیسے جمال نے اس کی توہین کر دی ہو۔
میں بھی لکھتا ہوں۔ تمہارے متعلق وضاحت کر دوں گا۔ لیکن یار تم میرا لکھا صحیح کر دینا مجھے نہیں آتا خط لکھنا۔ ٹھیک ٹھاک کر دینا۔ بے عزتی نہ ہو جائے کہیں۔
اگرچہ بظاہر ایلی خط لکھنے پر آمادہ نہ تھا لیکن دل میں شاید اسے بہت خوشی ہو رہی تھی کہ اپنی طرف سے خط لکھنے کا موقعہ ملا۔ رومانی خط تو وہ لکھ نہیں سکتا تھا چلو مزاحیہ ہی سہی۔ کسی نہ کسی طور پر وہ اپنی شخصیت کا اظہار تو کر سکے گا۔ شاید اس کے دل کی گہرائیوں میں کال کلوٹا کا کانٹا لگا ہوا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ ان پر اس حد تک اثر انداز ہو کہ اس کانٹے کا گھاؤ بھر جائے یا شاید یہ کہ انہیں بھی کانٹا لگ جائے۔
بہر حال پہلا خط جو ایلی نے لکھا بے حد مختصر تھا گوری سانورے کنائی توری سدھ بسرائی۔
جمال نے اپنے خط میں ایلی کی عظمت کے گن گائے ہوئے تھے۔ ایلی کے بغیر میں ادھورا ہوں اس کی مدد کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔ خدا کے لئے اس سے ایسا سلوک نہ کرو۔ وہ میرا دوست ہے۔ بہت گہرا دوست۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایلی کو گوارا کر لیا گیا اور گوارا بھی نہیں بلکہ ہر بار دو چھٹیاں موصول ہوتیں۔ ایک سنہرے بالوں کے نام اور دوسری میں کال کلوٹے سے مذاق کیے جارے اور آج کی فلموں کی طرح اس پریم کتھا میں جو چوباروں اور چھتوں پر کھیلی جا رہی تھی۔ ہیرو کے ساتھ ایک مسخرا بھی شامل کر لیا گیا۔ لیکن ادھر وہ دونوں گوریاں ہیروئن ہی رہیں۔ بلکہ جمال اور ایلی پر یہ عقدہ نہ کھلا کہ ان کو خطوط کون لکھتی ہے اور وہ خطوط دونوں کی جانب سے لکھے جاتے تھے یا ایک کی۔
البتہ اتنا ضرور ہوا کہ جمال کو معلوم ہو گیا کہ کون کون سی ہے۔ اسے یہ بھی علم ہو گیا کہ چھوٹی بے حد شریر ہے۔ اس کا چہرہ ہنستا چہرا ہے اور بڑی کی شکل کتابی ہے اور اس کے انداز میں غم کی جھلک ہے۔
کوٹھے پر ان کے روبرو آزادانہ آنے جانے کے باوجود ایلی کے لئے وہ دونوں دھندلے سے دھبوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی تھیں۔ کوشش کے باوجود وہ ان کے خدوخال نہ دیکھ سکا تھا نہ ہی اسے معلوم تھا کہ کون کونسی ہے نہ ہی اسے اس میں کوئی دلچسپی تھی۔ کئی مرتبہ جب ایلی یہ سمجھتا کہ ان میں سے ایک سامنے آئی ہے تو جمال شور مچا دیتا۔
اونہوں مت دیکھو۔ ہٹ جاؤ۔ یہ تو کوئی اور ہے۔ شاید ان کا بھائی ہے۔ اس پر ایلی گھبرا جاتا اور کئی بار جب وہ سامنے آتیں تو ایلی سمجھتا کہ ان کا بھائی آگیا ہے۔ غالبا اسی وجہ سے وہ سامنے کھرا نہ ہوتا تھا کہ اپنی کوتاہ نظری کی وجہ سے ان جانے میں کوئی فتنہ نہ کھڑا کردے اور ویسے بھی اس کی حیثیت کال کلوٹے کے سوا کیا تھی۔
شاید اس ایک لقب یعنی کال کلوٹے کی بنا پر۔ گوریوں کو روزانہ محبت بھرے خطوط لکھنے کے باوجود اور ان کے رنگین اور رومان بھرے خطوط موصول کرنے کے باوجود وہ ان سے کوئی خاص دلچسپی محسوس نہ کر سکا۔
قیصرانی
اونہوں۔جمال بولا۔ انہیں کیا پتہ کہ یہ دخل اندازی نہیں وہ تمہارے قدر کیا جانیں مجھ سے پوچھو یار۔ اپنی قدر و منزلت مجھ سے پوچھو۔
ایلی خاموش ہو گیا۔
نہ جانا۔ خدا کے لئے۔ جمال نے اس کی منتیں کرنا شروع کر دیں۔ کچھ دن ٹھہر جاؤ پھر چلے جانا۔ میں تمہیں نہیں روکوں گا۔
سیڑھیوں میں شہزاد امید بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ وہ چپ چاپ کھڑی تھی۔ چپ چاپ۔ اس کی نگاہ میں حسرت کی جھلک تھی۔ ہونٹوں میں گویا سسکی دبی ہوئی تھی۔
جمال کی نگاہ میں منت تھی۔ عین اس وقت بھا اوپر سے آگیا۔ کیا ہو رہا ہے؟ اس نے سرسری طور پر جمال سے پوچھا۔
ایلی گھر جانے کی تیاری کر رہا ہے۔ وہ بولا۔ میں کہتا ہوں نہ جا۔
بھا ہنسنے لگا۔ مجھے بھی یہی خیال پیدا ہوا تھا۔ میں سمجھا ایلی جا رہا ہے۔ لیکن وہ نہیں جا رہا۔ چاہے توپوچھ لو۔
ارے۔ جمال چلایا۔تم نہیں جا رہے۔
نہیں۔ ایلی نے کہا۔
اچھا یار؟۔ جمال نے فرط انبساط سے ایلی کے شانے پر زور سے ہاتھ مارا۔ تم تو کہ رہے تھے۔ جا رہا ہوں۔
ویسے مذاق میں کہا ہوگا۔ بھا مسکرایا اور سیڑھیاں اترنے لگا۔
تمہارا بھی کوئی پتہ نہیں چلتا، جمال خوشی سے چلانے لگا۔ تم بڑے ہی پیارے ہو لیکن مجھے تنگ کرتے ہو۔ یار بہت تنگ کرتے ہو۔ میں پہلے ہی تنگ ہوں۔ وہ کھجانے لگا۔ تم جلتی پر تیل چھڑک کر تماشہ دیکھتے ہو۔ ہے نا۔ اس نے قہقہہ لگایا۔ بڑے تماش بین ہو۔
ارے۔ وہ دفعتا چلایا۔ ہمیں تو ان کے خط کا جواب دینا ہے۔
تو دو نا۔ ایلی نے کہا۔ اب میں کال کلوٹے کے بارے میں کیا لکھوں۔
یار تم اپنی طرف سے ایک خط کیوں نہیں لکھتے۔
کیا فائدہ۔۔
بڑا مزہ رہے گا اور پھر تم بھی ہمارے ساتھ شامل ہو جاؤ گے۔
مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ ایلی نے کہا۔ پھر کس حیثیت سے لکھوں۔
برادرانہ طور پر لکھ دو۔
کیوں؟ ایلی نے غصے سے کہا جیسے جمال نے اس کی توہین کر دی ہو۔
میں بھی لکھتا ہوں۔ تمہارے متعلق وضاحت کر دوں گا۔ لیکن یار تم میرا لکھا صحیح کر دینا مجھے نہیں آتا خط لکھنا۔ ٹھیک ٹھاک کر دینا۔ بے عزتی نہ ہو جائے کہیں۔
اگرچہ بظاہر ایلی خط لکھنے پر آمادہ نہ تھا لیکن دل میں شاید اسے بہت خوشی ہو رہی تھی کہ اپنی طرف سے خط لکھنے کا موقعہ ملا۔ رومانی خط تو وہ لکھ نہیں سکتا تھا چلو مزاحیہ ہی سہی۔ کسی نہ کسی طور پر وہ اپنی شخصیت کا اظہار تو کر سکے گا۔ شاید اس کے دل کی گہرائیوں میں کال کلوٹا کا کانٹا لگا ہوا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ ان پر اس حد تک اثر انداز ہو کہ اس کانٹے کا گھاؤ بھر جائے یا شاید یہ کہ انہیں بھی کانٹا لگ جائے۔
بہر حال پہلا خط جو ایلی نے لکھا بے حد مختصر تھا گوری سانورے کنائی توری سدھ بسرائی۔
جمال نے اپنے خط میں ایلی کی عظمت کے گن گائے ہوئے تھے۔ ایلی کے بغیر میں ادھورا ہوں اس کی مدد کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔ خدا کے لئے اس سے ایسا سلوک نہ کرو۔ وہ میرا دوست ہے۔ بہت گہرا دوست۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایلی کو گوارا کر لیا گیا اور گوارا بھی نہیں بلکہ ہر بار دو چھٹیاں موصول ہوتیں۔ ایک سنہرے بالوں کے نام اور دوسری میں کال کلوٹے سے مذاق کیے جارے اور آج کی فلموں کی طرح اس پریم کتھا میں جو چوباروں اور چھتوں پر کھیلی جا رہی تھی۔ ہیرو کے ساتھ ایک مسخرا بھی شامل کر لیا گیا۔ لیکن ادھر وہ دونوں گوریاں ہیروئن ہی رہیں۔ بلکہ جمال اور ایلی پر یہ عقدہ نہ کھلا کہ ان کو خطوط کون لکھتی ہے اور وہ خطوط دونوں کی جانب سے لکھے جاتے تھے یا ایک کی۔
البتہ اتنا ضرور ہوا کہ جمال کو معلوم ہو گیا کہ کون کون سی ہے۔ اسے یہ بھی علم ہو گیا کہ چھوٹی بے حد شریر ہے۔ اس کا چہرہ ہنستا چہرا ہے اور بڑی کی شکل کتابی ہے اور اس کے انداز میں غم کی جھلک ہے۔
کوٹھے پر ان کے روبرو آزادانہ آنے جانے کے باوجود ایلی کے لئے وہ دونوں دھندلے سے دھبوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی تھیں۔ کوشش کے باوجود وہ ان کے خدوخال نہ دیکھ سکا تھا نہ ہی اسے معلوم تھا کہ کون کونسی ہے نہ ہی اسے اس میں کوئی دلچسپی تھی۔ کئی مرتبہ جب ایلی یہ سمجھتا کہ ان میں سے ایک سامنے آئی ہے تو جمال شور مچا دیتا۔
اونہوں مت دیکھو۔ ہٹ جاؤ۔ یہ تو کوئی اور ہے۔ شاید ان کا بھائی ہے۔ اس پر ایلی گھبرا جاتا اور کئی بار جب وہ سامنے آتیں تو ایلی سمجھتا کہ ان کا بھائی آگیا ہے۔ غالبا اسی وجہ سے وہ سامنے کھرا نہ ہوتا تھا کہ اپنی کوتاہ نظری کی وجہ سے ان جانے میں کوئی فتنہ نہ کھڑا کردے اور ویسے بھی اس کی حیثیت کال کلوٹے کے سوا کیا تھی۔
شاید اس ایک لقب یعنی کال کلوٹے کی بنا پر۔ گوریوں کو روزانہ محبت بھرے خطوط لکھنے کے باوجود اور ان کے رنگین اور رومان بھرے خطوط موصول کرنے کے باوجود وہ ان سے کوئی خاص دلچسپی محسوس نہ کر سکا۔
قیصرانی