سارا
محفلین
یہ ------‘‘ایلی نے پہلی مرتبہ اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا۔۔اس کے ہاتھوں میں ایک کاغذ تھا جسے وہ انجانے میں مڑور رہا تھا۔۔‘‘یہ۔۔‘‘ ایلی نے کہا۔۔‘‘یہ تو کاغذ ہے۔۔اس نے وہ کاغذ بخاری کو دیتے ہوئے کچھ اس انداز میں کہا جیسے انہیں دکھانا چاہتا ہو کہ واقعی وہ کاغذ ہے اور ان پر ثابت کرنا چاہتا ہو کہ اسے کچھ بھی نہیں وہ قطعی طور پر بھول چکا تھا کہ وہ کاغذ سادی کا کاغذ تھا۔۔
بخاری نے وہ کاغذ ایلی کے ہاتھ سے لے لیا اور اسے دیکھنے لگا۔۔
‘‘چائے پئیو۔۔‘بخشی مسکرایا۔۔
ایلی چائے پینے لگا۔۔
‘‘اب کیا گھر جاؤ گے۔۔؟‘‘بخشی نے پوچھا۔۔
‘‘ہاں۔۔‘‘
‘‘تمہیں چھوڑ آئیں۔۔؟‘‘
‘‘نہیں میں چلا جاؤں گا۔۔‘‘ایلی بولا
‘‘اچھی بات ہے۔۔‘‘بخشی نے کہا۔۔
‘‘تم ذرا بیٹھو میں بل دے دوں۔۔‘‘بخاری نے کہا۔۔
‘‘میرے پاس ہیں۔۔‘‘ایلی نے اپنی جیب کی طرف اشارہ کیا۔۔‘‘میرے پاس ہیں۔۔‘‘
‘‘نہیں میں دوں گا۔۔‘‘بخاری نے مسکرا کر کہا۔۔
پھر بخاری نے بخشی کو اشارہ کیا۔۔‘‘ذرا ادھر آنا‘‘۔۔اور وہ دونوں اٹھ کر چلے گئے۔۔
ایلی کی نگاہوں میں اب چیزیں اور ان کا مفہوم ابھر رہا تھا اور وہ شرمندگی سی محسوس کرنے لگا تھا۔۔وہ سوچ رہا تھا۔۔سوچ رہا تھا۔۔
کچھ دیر بعد بخشی اور بخاری دونوں واپس آ گئے۔۔‘‘چلو ہم بھی تمہارے ساتھ چلیں گے۔۔‘‘بخاری نے کہا۔۔
‘‘نہیں نہیں۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔‘‘آپ تکلیف نہ کریں۔۔‘‘
‘‘نہیں۔۔‘‘ بخاری نے کہا۔۔‘‘ہم ادھر ہی جا رہے ہیں۔۔‘‘
‘‘اچھا۔۔‘‘ایلی لاجواب ہو گیا اور تینوں چل پڑے۔۔
جب وہ ناؤ گھر کے مقابل میں پہنچے تو دفتعاً ایلی کو یاد آیا اور وہ دیوانہ وار اپنی جیبیں ٹٹولنے لگا۔۔
‘‘کچھ کھو گیا ہے کیا؟۔۔‘‘بخاری نے پوچھا۔۔
ہوٹل میں تم نے ایک کاغذ اس جیب میں ڈالا تھا۔۔‘‘بخاری نے یہ کہتے ہوئے ایلی کے کوٹ کی اوپر والی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک کاغذ نکالا۔۔
‘‘یہی ہے نا؟۔۔‘‘بخاری نے ایلی سے پوچھا۔۔
ایلی نے دیوانہ وار اسے کھولا۔۔دیکھا اور پھر اسے کہنے لگا۔۔‘‘ہاں یہی ہے۔۔‘‘ اس کی آنکھیں جذبہ شکر گزاری سے پر نم ہو گئیں۔۔
‘‘اچھا تو ہم کل صبح آئیں گے۔۔‘‘بخاری نے کہا۔۔‘‘کہیں چلے نہ جانا ہمارے آنے سے پہلے۔۔‘‘
‘‘نہیں تو۔۔‘‘وہ بولا۔۔‘‘میں کہاں جاؤں گا۔۔‘‘
اگلے روز صبح سویرے ہی بخشی اور بخاری آ گئے۔۔
‘‘آج تو طبعیت اچھی معلوم ہوتی ہے۔۔‘‘بخاری نے بات شروع کی۔۔
‘‘جی ہاں۔۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘کل کیا ہوا تھا؟‘‘ بخاری نے پوچھا۔۔
‘‘کچھ بھی تو نہیں ہوا تھا۔۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘تو کہاں گھوم رہے تھے تم؟‘‘
‘‘بس گھوم رہا تھا۔۔‘‘
‘‘کسی کام سے نکلے تھے کیا؟‘‘
‘‘نہیں تو ویسے ہی یہاں بیٹھے بیٹھے طبیعت گھبرا گئی تھی۔۔جدھر منہ اٹھایا چل پڑا۔۔‘‘ ایلی نے ہنسنے کی کوشش کی۔۔
‘‘آج تو نہیں گھبرا رہی طبیعت؟‘‘
‘‘نہیں تو۔۔‘‘وہ ہنسنے لگا۔۔‘‘آج تو ایسی کوئی بات نہیں۔۔‘‘
‘‘کل کیا بات تھی؟‘‘ بخشی نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔۔
شاید ہم کچھ مدد کر سکیں۔۔بخاری نے کہا۔۔
‘‘بات تو کوئی نہیں۔۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘تو اس بات کے متعلق کیا فیصلہ کیا ہے؟۔۔‘‘
بخاری نے وہ کاغذ ایلی کے ہاتھ سے لے لیا اور اسے دیکھنے لگا۔۔
‘‘چائے پئیو۔۔‘بخشی مسکرایا۔۔
ایلی چائے پینے لگا۔۔
‘‘اب کیا گھر جاؤ گے۔۔؟‘‘بخشی نے پوچھا۔۔
‘‘ہاں۔۔‘‘
‘‘تمہیں چھوڑ آئیں۔۔؟‘‘
‘‘نہیں میں چلا جاؤں گا۔۔‘‘ایلی بولا
‘‘اچھی بات ہے۔۔‘‘بخشی نے کہا۔۔
‘‘تم ذرا بیٹھو میں بل دے دوں۔۔‘‘بخاری نے کہا۔۔
‘‘میرے پاس ہیں۔۔‘‘ایلی نے اپنی جیب کی طرف اشارہ کیا۔۔‘‘میرے پاس ہیں۔۔‘‘
‘‘نہیں میں دوں گا۔۔‘‘بخاری نے مسکرا کر کہا۔۔
پھر بخاری نے بخشی کو اشارہ کیا۔۔‘‘ذرا ادھر آنا‘‘۔۔اور وہ دونوں اٹھ کر چلے گئے۔۔
ایلی کی نگاہوں میں اب چیزیں اور ان کا مفہوم ابھر رہا تھا اور وہ شرمندگی سی محسوس کرنے لگا تھا۔۔وہ سوچ رہا تھا۔۔سوچ رہا تھا۔۔
کچھ دیر بعد بخشی اور بخاری دونوں واپس آ گئے۔۔‘‘چلو ہم بھی تمہارے ساتھ چلیں گے۔۔‘‘بخاری نے کہا۔۔
‘‘نہیں نہیں۔۔‘‘ایلی نے کہا۔۔‘‘آپ تکلیف نہ کریں۔۔‘‘
‘‘نہیں۔۔‘‘ بخاری نے کہا۔۔‘‘ہم ادھر ہی جا رہے ہیں۔۔‘‘
‘‘اچھا۔۔‘‘ایلی لاجواب ہو گیا اور تینوں چل پڑے۔۔
جب وہ ناؤ گھر کے مقابل میں پہنچے تو دفتعاً ایلی کو یاد آیا اور وہ دیوانہ وار اپنی جیبیں ٹٹولنے لگا۔۔
‘‘کچھ کھو گیا ہے کیا؟۔۔‘‘بخاری نے پوچھا۔۔
ہوٹل میں تم نے ایک کاغذ اس جیب میں ڈالا تھا۔۔‘‘بخاری نے یہ کہتے ہوئے ایلی کے کوٹ کی اوپر والی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک کاغذ نکالا۔۔
‘‘یہی ہے نا؟۔۔‘‘بخاری نے ایلی سے پوچھا۔۔
ایلی نے دیوانہ وار اسے کھولا۔۔دیکھا اور پھر اسے کہنے لگا۔۔‘‘ہاں یہی ہے۔۔‘‘ اس کی آنکھیں جذبہ شکر گزاری سے پر نم ہو گئیں۔۔
‘‘اچھا تو ہم کل صبح آئیں گے۔۔‘‘بخاری نے کہا۔۔‘‘کہیں چلے نہ جانا ہمارے آنے سے پہلے۔۔‘‘
‘‘نہیں تو۔۔‘‘وہ بولا۔۔‘‘میں کہاں جاؤں گا۔۔‘‘
اگلے روز صبح سویرے ہی بخشی اور بخاری آ گئے۔۔
‘‘آج تو طبعیت اچھی معلوم ہوتی ہے۔۔‘‘بخاری نے بات شروع کی۔۔
‘‘جی ہاں۔۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘کل کیا ہوا تھا؟‘‘ بخاری نے پوچھا۔۔
‘‘کچھ بھی تو نہیں ہوا تھا۔۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘تو کہاں گھوم رہے تھے تم؟‘‘
‘‘بس گھوم رہا تھا۔۔‘‘
‘‘کسی کام سے نکلے تھے کیا؟‘‘
‘‘نہیں تو ویسے ہی یہاں بیٹھے بیٹھے طبیعت گھبرا گئی تھی۔۔جدھر منہ اٹھایا چل پڑا۔۔‘‘ ایلی نے ہنسنے کی کوشش کی۔۔
‘‘آج تو نہیں گھبرا رہی طبیعت؟‘‘
‘‘نہیں تو۔۔‘‘وہ ہنسنے لگا۔۔‘‘آج تو ایسی کوئی بات نہیں۔۔‘‘
‘‘کل کیا بات تھی؟‘‘ بخشی نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔۔
شاید ہم کچھ مدد کر سکیں۔۔بخاری نے کہا۔۔
‘‘بات تو کوئی نہیں۔۔‘‘ایلی نے جواب دیا۔۔
‘‘تو اس بات کے متعلق کیا فیصلہ کیا ہے؟۔۔‘‘