علی پور کا ایلی(816-845)

قیصرانی

لائبریرین
جو گرد و نواح میں رہتے تھے اس پر ہزار جان سے عاشق تھے اسے راہ چلتے چھیڑتے تھے لیکن رائے کے سوا اسے کوئی پسند نہ تھا چونکہ اسے رائے سے محبت تھی۔

رائے کی اپنی تیسری محبوبہ لاہور ہی میں تھی۔ وہ بے حد معصوم اور خوبصورت تھی۔ اتنی معصوم تھی کہ ان دنوں ایک بدمعاش لڑکے نے اسے قابو کر رکھا تھا۔ اور وہ بیچاری ان جانے سیدھی راہ سے بھٹک گئی تھی بہر صورت رائے جانتا تھا کہ وہ دن دور نہیں جب وہ سمجھ جائے گی کہ وہ بدمعاش نوجوان محض اپنا مطلب پورا کر رہا ہے اور پھر وہ ایک نئے شوق اور تازہ عزم سے رائے کی طرف لوٹے گی اور ان کا رومان پھر سے تازہ ہو جائے گا۔ ان دنوں رائے کی سب سے بڑی خواہش یہ نہ تھی کہ گاؤں والی محبوبہ اسے بلائے یا شہر والی محبوبہ کو نوجوان تنگ کرنا چھوڑ دیں یا لاہور والی محبوبہ کی آنکھیں کھل جائیں۔

ان دنوں تو اس کی صرف یہ خواہش تھی کہ کالج کی ان چھ لڑکیوں میں سے کسی ایک کے ساتھ اس کا رومان چل پڑے اور اسے ہر ماہ دو بار اتنی دور گاؤں تک کا سفر نہ کرنا پڑے۔
اس سلسلے میں وہ اکثر ایلی سے مشورہ طلب کیا کرتا تھا۔
یار ایلی کوئی ایسی تجویز بتاؤ کہ اپنی بات بن جائے۔
اور اگر ایلی جواب دیتا۔ لو۔ اس میں کیا ہے جا کر کسی کا ہاتھ پکڑ لو۔
اور اس نے تھپڑ مار دیا تو۔
تھپڑ مار دیا تو سمجھو بات پکی ہو گئی۔ ایلی کہتا۔ ایکسپرٹس کا یہی فیصلہ ہے۔
کیسے؟
سیدھی بات ہے اگر ہاتھ چھوڑ دیا تو سمجھو بات ٹوٹ گئی۔ پکڑے رکھا تو تعلقات قائم ہو گئے اور اگر جرات کرکے اسی وقت آغوش میں لے لو تو ہمیشہ کے لیے اس کے دل میں دماغ پر مسلط ہو جاؤ گے۔
یہ تو ٹھیک ہے۔ رائے جواب دیتا۔ لیکن کبھی یار اکیلے میں کوئی ملے تو بات بنے۔ اسی کوشش میں لگا تھا کہ کبھی اکیلے میں کوئی مل جائے۔
ویسے ایلی کو کئی مرتبہ وہ اکیلے میں ملتی تھیں لیکن ایلی نے کبھی ہاتھ تھامنے کی کوشش نہ کی تھی۔ ہاتھ تھامنا چھوڑ کر۔۔۔۔اس وقت اسے نہ جانے کیا ہو جاتا تھا۔ دور سے کوئی اکیلی چلی آتی دکھائی دیتی تو ایلی کا دل دھک سے رہ جاتا جیسے لڑکی نہیں جگا ڈاکو آرہا ہو۔ اس کا جی چاہتا کہ کوئی لڑکا آجائے تاکہ اسے حوصلہ ہو۔ اس کا جی چاہتا کہ مڑ کر بھاگ لے۔ نہیں نہیں وہ سوچتا یہ ٹھیک نہیں ہے کیا کہے گی وہ۔ مجھے تو یوں ہی گزر جانا چاہیئے جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ آخر بات کیا ہے ایک لڑکی گزر رہی ہے ناں اور کیا اور لڑکی بھی وہ جو مجھے قطعی پسند نہیں۔ پھر گبھراہٹ کیسی۔ وہ گردن اٹھا کر یوں چلنے لگتا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ لیکن جب وہ لڑکی کے قریب پہنچتا تو اس کی گردن جھک جاتی۔ نگاہیں کونے تلاش کرنے لگتیں اور دل بیٹھ جاتا پسینے چھوٹ جاتے۔

لیکن ایلی کی بات چھوڑیئے اسے تو ان چھ لڑکیوں میں چنداں دلچسپی نہ تھی اور ایسی لڑکیوں سے رومان کیسے قائم کیا جا سکتا ہے بھلا۔ جنہیں انسان جب جی چاہے جا کر مل سکے۔ ان حالات میں محبت کا پیدا ہونا ایلی کی دانست میں ناممکن تھا۔

ایلی کی دانست میں محبت کے لیے ضروری تھا کہ بندشیں ہوں قیود ہوں۔ پردے اور دیواریں حائل ہوں۔ برقعہ ہو گھونگھٹ ہو۔ نگاہ ترچھی۔ مسکراہٹ زیرلبی ہو۔ دور سے اشارے ہوں۔ ماتھے پر مکھی اڑانے کے بہانے سلام کیا جائے لو لیٹر لکھے جائیں۔ اور یہ کیا ہوا ہیلو مس بینا کہئے مزاج کیسے ہیں۔ لاحول ولا قوۃ۔

لڑکیوں کے بارے میں ایلی کو شام کا طرز عمل بے حد پسند تھا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ کسی روز کسی لڑکی سے اکیلے میں ملے اور کہے جسٹ اے منٹ مس یہ تو بتائیے کہ بھلا آپ کو دیکھ کر دل میں کچھ کچھ کیوں ہونے لگتا ہے۔ گردن کیوں لٹک جاتی ہے۔ نگاہیں کونے کیوں تلاش کرتی ہے۔۔۔۔اور اگر وہ جواب میں تھپڑ مار دے تو اس کا ہاتھ پکڑنے کی بجائے جھٹ جیب سے ٹنکچر اور روئی نکالے اور کہے اب ایک تکلیف اور کیجئے ذرا چوٹ پر ٹنکچر لگا دیجئے مجھے جگہ دکھتی نہیں۔

اسفند

شام میں دلچسپی کی ایک وجہ اور بھی تھی دونوں کو اسفند یار سے بغض تھا۔ اسفند نہایت خلیق محبتی ملنسار اور ذہین لڑکا تھا۔ وہ کسی مڈل سکول کا ہیڈ ماسٹر تھا اور ریفریشر کورس کے لئے بی ٹی کلاس میں داخل ہوا تھا۔ وہ راہ چلتے لڑکے کو روک لیتا۔ کہاں جا رہے ہو بھئی کہئے وقت کیسے گزرتا ہے۔ اور اس کے قریب تر ہو جاتا اور قریب حتٰی کہ آپ محسوس کرتے کہ ابھی وہ آپ سے بغل گیر ہو کر آپ کا منہ چوم لے گا۔ اور اس طرح ہمیشہ کے لئے آپ کا دوست بن جائے گا۔

وہ السلام علیکم کہ کر جی کے کے کمرے میں آپہنچتا۔ بھائی تم ملتے ہی نہیں کئی مرتبہ آچکا ہوں نہ جانے کہاں گم رہتے ہو تم دونوں۔ یار وہ ایک مشکل آن پڑی تھی۔ میں نے کہا کسی حسابی سے جا کر پوچھ لوں اپنے کو تو حساب سے کوئی دلچسپی نہیں۔ یہاں اے بی کورس والے صرف تم ہو نا۔

شام کی ڈار میٹری میں جا کر وہ شام سے پوچھتا۔ بھئی وہ ٹیچنگ آف کمسٹری نہیں ملتی۔ کوئی اتہ پتہ یار بتاؤ کچھ ہم بھی پڑھ لیں پڑھنے کو جی نہیں چاہتا۔ ایک زمانے کے بعد پھر پڑھنے کے چکر میں پڑ پڑھ گئے اب تو عادت بنتے بنتے بنے گی۔

اسفند ہر ایک سے ملتا تھا۔ بڑے پیار سے ملتا تھا۔ پیار کا اظہار کرتا تھا۔ اپنی ذہنی کم مائیگی کا اظہار بھی کرتا تھا محبت بھری نظریں بھی ڈالتا۔ قریب تر ہو کر اپنا بازو آپ کے شانے پر رکھ دیتا یا آپ کا بازو اپنی بغل میں ڈال لیتا۔ اس کے باوجود نہ جانے کس اصول کے تحت اسے لوگ بور سمجھتے تھے بور کا لفظ تو خیر اس زمانے میں رائج نہ تھا لیکن لڑکے اس سے کنی کتراتے تھے۔ اس کی مٹھاس کثیف سی محسوس ہوتی اس کا قرب کھلتا ایسے محسوس ہوتا جیسے ایک نرم نرم لیس دار چیز آپ سے چمٹی جا رہی ہو۔

نہ جانے قدرت کے کس قانون کے تحت اسفند کے آتے ہی دفعتا یاد آیا کہ آپ کو ضروری کام سے کہیں جانا ہے۔ اسے دیکھ کر آپ اپنا پروگرام بدل دیتے کسی اور سمت کی طرف جانے کا فیصلہ کر لیتے۔

شاید اس کی وجہ لڑکیاں ہوں؟

اسفند سب سے بڑا کوٹ بردار تھا۔ وہ ہروقت لڑکیوں کے جھرمٹ میں رہتا ہر وقت ان کا طواف کرتا۔ چاہے وہ واضح طور پر اس امر کا اظہار کرتیں۔ موڈ آف ہے آپ جایئے۔ چاہے ان کا ساتھ منہ موڑ لیتا یا پوچھ لیتا۔ کیوں اسفند صاحب آپ لائبریری کو جارہے ہیں نا۔ لیکن اسفند اپنی جگہ سے نہ ہلتا اور ہزار طنز کے باوجود اس کے ہونٹوں پر وہ لیسدار مسکراہٹ چپکی رہتی۔ اس کی طبعی مٹھاس جوں کی توں قائم رہتی اخلاق بدستور خوش گوار رہتا اس کی باتیں جاری اور ساری رہتیں حالانکہ باقی لوگ وضاحت سے اس امر کا اظہار کر چکے ہوتے کہ محفل میں گنجائش نہیں لیکن اسفند کا رویہ یہ ظاہر کرتا کہ وہ اپنے پیارے دوستوں کو چھوڑ کر نہیں جا سکتا وہ بے وفا نہیں۔ چاہے اس کا اپنا حرج ہی کیوں نہ وہ آداب محفل کو نظر انداز کرنے کو تیار نہیں۔
اگر کوئی لڑکا لڑکیوں کو آئس کریم کھانے کی دعوت دیتا تو اکثر وہ ساتھ یہ بھی کہہ دیتا کہ اسفند تو آئس کریم کھاتا ہی نہیں۔

مگر اسفند فورا بولتا کھاتا تو نہیں لیکن تمہارے جیسا پیارا دوست کہے تو انکار نہیں کروں گا۔
دعوت سے زبردستی چمٹے رہنے کی خصوصیت چھوڑیئے اس سلسلے میں تو اسفند اس حد تک فراغ دل تھا کہ خود لوگوں کو دعوت دیتا۔ ٹک شاپ میں میزبان بن کر سب کو کھلاتا اور پھر چپکے سے ٹک شاپ والے سے کہہ دیتا۔
میاں یہ بل شام یا موہن ادا کرے گا۔ ویسے کسی دوسرے کی دعوت میں بھی اسفند کا رویہ کچھ ایسا ہوتا اور وہ انہماک اور شوق سے لوگوں کو کھلاتا تاکہ ہر کسی کے دل میں احساس پیدا ہو جائے کہ دعوت اسفند کی طرف سے تھی۔
ان ہی باتوں کی وجہ سے لوگ اسفند سے گھبراتے تھے لیکن ان باتوں کی وجہ سے تو صرف ان لڑکوں کو گھبرانا چاہیئے تھا جو لڑکیوں کے حلقے میں رہتے تھے۔ وہ لڑکے جنہیں لڑکیوں کے حلقے سے دور کا تعلق بھی نہ تھا انہیں گھبرانے کی کیا ضرورت تھی۔ لیکن اسفند کے متعلق ان کے جذبات بھی اسی قسم کے تھے اور یہ وبا اس قدر عام ہو چکی تھی کہ ایک روز ہنگامہ ہوگیا۔ ہوسٹل کے صدر دروازے سے باہر برگد کے درخت کے نیچے وسیع میدان میں شور شرابے کی آوازیں سنی گئیں۔ تمام لڑکے بورڈنگ سے باہر نکل آئے ادھر کالج سے بھی لڑکے آ موجود ہوئے برگد کے نیچے دو لڑکے آپس میں لڑ رہے تھے۔ لڑائی نے ہاتھا پائی کی صورت اختیار نہ کی تھی۔ دونوں بڑے غصے سے چیخ رہے تھے۔
ابے جا بے تیری حیثیت کیا ہے کل کا لونڈا ہے۔ تو ہمارا کیا مقابلہ کرے گا۔ میں وہ کمینہ ہوں، وہ کمینہ ہوں کہ۔۔۔۔
ابے ہٹ بے بڑا آیا ہے کہیں سے۔ میرے روبرو تیری دال نہیں گل سکتی۔ تو میری کمینگی سے واقف نہیں شکل و صورت تو دیکھ اپنی بھگوان کی سوگند جیسے چھپکلی ہو۔
ابے جا۔ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔

اس طرح دیر تک وہ چلاتے رہے۔
بات کیا ہے بات کیا ہے۔ لڑکوں نے چاروں طرف شور مچا دیا۔
بورڈنگ اور کالج میں ایک ہنگامہ ہوگیا۔ لڑکے بھاگے بھاگے آ پہنچے۔
چاروں طرف خبر مشہور ہو گئی کہ برگد تلے جھگڑا ہو رہا ہے۔ ایک لڑکا کہتا ہے میں کمینہ ہوں دوسرا کہتا ہے کہ تیری کیا حیثیت ہے اپنے سامنے۔ میں بہت بڑا کمینہ ہوں۔ عجیب جھگڑا تھا۔ لٰہذا سب برگد کے درخت کی طرف بھاگے حتٰی کہ پروفیسر اور چھ لڑکیاں بھی آ پہنچیں۔
دونوں لڑکے بڑی شدت سے چلا رہے تھے منہ سے کف جاری تھا آستینیں ٹنگی ہوئی تھیں جیسے ابھی ہاتھا پائی کی نوبت آجائے گی۔
میں کہتا ہوں میں کمینہ ہوں میں۔ ایک چیخ رہا تھا۔
ابے جا۔ دوسرا کہ رہا تھا۔ تو کیا ہے تیری اوقات کیا ہے۔
جب سے لڑکوں نے جھگڑے کا انداز دیکھا تو چاروں طرف سناٹا چھا گیا۔ لڑکے فورا تاڑ گئے کہ یہ جھگڑا نہیں کچھ اور ہے نہ جانے مداری کے پٹارے سے کیسا سانپ نکلے گا۔
دیر تک چخ چخ جاری رہی۔ حتٰی کہ سب لڑکیاں آپہنچیں پروفیسر بھگت سنگھ بھی آگئے۔ لالہ جی تو دور سے تماشہ دیکھتے رہے لیکن پروفیسر بھگت سنگھ بڑے سادہ لوح اور مخلص تھے وہ گھبرا گئے انہوں نے بچاؤ کرانے کی کوششیں کیں۔
عین اسی وقت دونوں لڑکوں نے جھگڑے کا نقطہ عروج پیدا کر دیا۔
ایک بولا۔ ابے کمینگی میں میں تیرا باپ ہوں۔
بے جا۔ دوسرا چلایا۔ گلیکسو بےبی تو دیکھو۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن کی پیدائش ہے اور آیا ہے ہم سے مقابلہ کرنے ابے میں تیرے باپ کا باپ ہوں وہ کمینہ ہوں میں۔
میں خالی کمینہ نہیں ذلیل بھی ہوں۔
کس قدر ذلیل ہو تم۔ دوسرے نے غصے سے پوچھا۔ میں۔ پہلا بولا۔ میں پروفیسر بھگت سنگھ کا جوٹھا کھا سکتا ہوں۔
ابے بس۔ دوسرا چلایا۔ ابے میں کتےکا جھوٹا کھا سکتا ہوں۔
پہلا بولا۔ میں اسفند کا جوٹھا کھا سکتا ہوں۔
دوسرا خاموش ہوگیا۔ بھئی میں اسفند کا جوٹھا نہیں کھا سکتا۔ میں ہار گیا ہار گیا۔
چاروں طرف قہقہوں کا شور اٹھا۔
دو لڑکوں نے بڑھ کر پہلے لڑکے کو شانوں پر اٹھا لیا۔ اور اسے لے بھاگے جیت گیا!!!! جیت گیا!!! جیت گیا!!! وہ چلا رہے تھے اس سے بڑی ذلت نہیں ہو سکتی زندہ باد شام زندہ باد شام۔
ارے۔ ایلی حیرت سے چلایا۔ یہ تو شام ہے۔
ادھر اسفند کھڑا مسکرا رہا تھا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو جیسے شام نے اس کا نام ہی نہ لیا ہو۔ اور لیا بھی ہو تو محض مذاق اور تفریح کے طور پر لیا ہو۔
لیکن بھگت سنگھ چلاتے جا رہے تھے۔ نالائقوں نے میرا نام خوامخواہ لے دیا ارے میں تو گرو کا پیارا ہوں۔ مجھے کیوں گھسیٹتے ہو اپنے جھگڑوں میں۔
پھر شام چپکے سے ایلی کے کان میں کہہ رہا تھا۔ وہ پچھاڑا ہے آج کہ سالا کبھی اٹھ نہ سکے گا۔ اور اسفند یوں دیکھ رہا تھا جیسے پوچھ رہا ہو۔ کسے بھائی؟۔
اس روز رات کو بورڈنگ میں بہت ہنگامہ ہوا۔ ہر ڈار میٹری میں لڑکے اس ڈرامے کو دہرا رہے تھے جو اس شام برگد کے درخت تلے شام نے کھیلا تھا۔ میں کمینہ ہوں۔ ایک ڈار میٹری سے آواز آتی۔ ابے تیری کیا ہمت ہے جو ہمارے ہوتے ہوئے یہ دعوٰی کرے۔ دوسری ڈار میٹری سے کوئی چلاتا۔ ابے جا بے۔ تیسری ڈار میٹری سے شور بلند ہوتا۔ اوپر چوبارے میں کھڑے لالہ جی مسکرا رہے تھے۔ میں کہتاہوں بھئی۔ وہ کہہ رہے تھے۔ اس بات کا تو فیصلہ شام کو ہو چکا اب کوئی اور دعوےٰ کرو۔
ڈائیننگ ہال میں کومن روم میں لان میں ہر جگہ لڑکے باتیں کر رہے تھے۔
یار شام نے وہ مار دی ہے وہ مار دی ہے اسفند کو کہ چاروں شانے چت گریا ہے۔
ارے لڑکیوں کو دیکھا تھا مارے ہنسی کے پیٹ میں بل پڑ رہے تھے۔
اب اسفند کا لڑکیوں پر جادو نہیں چلے گا۔
اونہوں۔ اندر شام کہہ رہا تھا۔ یار اپنی ساری محنت بیکار گئی۔ اسفند پر تو کوئی اثر ہی نہ ہوا مجھے سے پوچھ رہا تھا یار یہ گڑ بڑ کس بات پر تھی اپنی سمجھ میں نہیں آیا کچھ۔ اب بتاؤ ایسے آدمی سے کوئی کیا کرے۔
ارے نہیں یار بنتا ہے۔ ایک نے جواب دیا۔
ہاں اندر سے تو چکنا چور ہو گیا ہے۔
 

حجاب

محفلین
[align=right:2a1d22d1bf]نہ چکنا چور نہیں ۔“ دوسرا بولا۔بھئی وہ تو مٹی کا پہلوان ہے ادھر گرایا اُدھر اُٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
بھگوان جانے ٹھیک کہتے ہو۔شام ہنسنے لگا۔مٹی کے پہلوان کو کون گرا سکتا ہے۔چلو آج سے ہم نے اُسے بخش دیا۔معاف کردیا۔
شام کے اس اعلان پر ہوسٹل کے سب لڑکے تلملا اُٹھے۔چاروں طرف شور مچ گیا۔
ارے یار سُنا تم نے اتنی بڑی فتح حاصل کرنے کے بعد شام اسفند سے ہار گیا۔
نہیں یار اسفند نہیں ہار سکتا۔
جاکر پوچھ لو۔“
لڑکے شام کے پاس آئے لڑکوں کو اس کا بہت غم تھا اسفند کو پچھاڑنے کے لئے شام اُن کا واحد پہلوان تھا۔اگر اُس نے بھی میدان چھوڑ دیا تو ہوگا کیا۔یہ خیال اُن کے لئے سوہانِ روح ہو رہا تھا۔سبھی چاہتے تھے کہ اسفند کے ساتھ جنگ جاری رہے اگرچہ کسی کو بھی علم نہ تھا کہ وہ اسفند کے خلاف کیوں تھے۔اسفند نے کبھی کسی لڑکے کو شکایت کا موقع نہیں دیا تھا اُس کے باوجود اسفند ایک ایسا پلپلا کیڑا تھا کہ ہر لڑکے کا جی چاہتا تھا کہ پاؤں سے مسل دے۔
جی ۔کے کی ناک پر ڈھیر لگے ہوئے تھے ۔لہٰذا وہ چلّا رہا تھا ۔یہ سب کیا ہے کیا ہے یہ دکھلاوا اور کیا۔مقصد یہ ہے کہ لڑکیوں پر اثر ڈالا جائے۔
ایلی خاموش بیٹھا اُس کی طرف دیکھ رہا تھا۔
خالی۔“ ایگزیبیشن خالی کیوں غلط ہے۔“ اس نے ایلی کو مخاطب کرکے پوچھا۔
ٹھیک ہے۔“ ایلی نے جواب دیا۔
بڑا بدمعاش ہے یہ شام۔لڑکیوں کے دل میں اپنی جگہ بنا رہا ہے۔
عین اس وقت گاما نوکر داخل ہوا۔
کیوں گامے کیا بات ہے۔“ جی۔ کے نے پوچھا۔

اندر مہاراج۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
جی ۔ جی۔“ وہ۔“ گاما بولا۔شام بابو نے حلوہ بھیجا ہے کہتے ہیں گاؤں سے آیا ہے۔
حلوہ دکھاؤ نا۔ارے یہ تو گاجر کا ہے۔جی۔ کے پلیٹ کو دیکھ کر چلاّیا حلوے کو دیکھ کر اُس کی ناک سُکڑ کر اپنی جگہ آ گئی۔اچھا۔“ وہ بولا۔“ شام بابو سے کہو ہم نے تمہاری سب خطائیں معاف کردیں۔“
کیا کردیں۔“ گاما پوچھنے لگا۔
لڑکیوں کو خوش کرنے کے لئے جو تماشا کھیلا ہے ۔شام نے۔“ جی۔ کے نے وضاحت کی۔
اجی جو تماشا پچھلے سال ہوا تھا اُس کا تو جواب نہیں۔“
ہائیں۔“ جی۔ کے نے حیرت سے گامے کی طرف دیکھا۔
اونہوں ۔“ گاما مسکرا کر بولا۔جی یہ تو کچھ بھی نہیں۔جی پچھلے سال ایک بابو تھے ایس بی میں انہوں نے تو حد کردی تھی۔سات کی سات لڑکیوں کو ساتھ لئے پھرتے تھے بس سمجھ لو اندر مہاراج تھے وہ اپنے وقت کے ------------------
ساتھ لئے پھرتے تھے سات کی سات ۔“ ایلی نے حیرت سے دہرایا۔
جی۔“ گاما بولا ۔ کالج والوں نے دھمکیاں دیں لالہ جی نے کہا نکال دیں گے بورڈنگ سے پرنسپل نے لکھ کر بھیج دیا کہ کالج سے نام کاٹ دو پر اُس پٹھے نے جرا پرواہ نہ کی۔اور خدا جھوٹ نہ بلوائے بابو جی۔ہر روج رات کے وقت وہ یہاں آ جاتی تھیں۔سب لڑکیاں بورڈنگ کے باہر والے لان میں اور بابو جی دیوار پھلانگ کر باہر نکل جاتے تھے لان میں۔پھر وہ آدھی آدھی رات تک وہاں گھومتے رہتے تھے۔سب کو معلوم ہوتا تھا کہ وہ کالج کے لان میں گھوم رہے ہیں لالہ جی کو بھی پتہ ہوتا پھر جب وہ دیوار پھلانگ کر واپس آتے تو لالہ جی پوچھتے چوٹ تو نہیں لگی اور وہ ہنس کر جواب دیتے لالہ جی میری الماری میں ٹینچر رکھی ہوئی ہے۔لگالوں گا تو ٹھیک ہو جائے گی یہ حالت تھی ۔گاما ہنسنے لگا۔
گاما باتیں کر رہا تھا تو ام کے داخل ہوا ۔
ارے تم۔“ جی۔ کے چلایا۔تم کہاں۔ اور تم بورڈنگ کے اندر کیسے آ گئے۔؟؟؟؟؟
ام کے ہنسنے لگا۔دیکھ لو۔ وہ بولا پھر گامے کو دیکھ کر اس سے مخاطب ہوا۔
کیوں بھئی گامے کیا حال چال ہے۔“
گامے کی آنکھوں میں عجیب سا تبسّم جھلک رہا تھا۔اچھا ہوں بابو جی بڑی مہربانی ہے۔اور بابو جی بڑی عمر ہے آپ کی ابھی آپ ہی کی بات کر رہا تھا۔“
آپ ہی کی بات۔“ جی ۔کے نے حیرت سے گامے کی طرف دیکھا۔
جی ہاں۔گاما بولا۔ تم وہ رستم زمان ہو۔
دیکھ لو۔ ام کے ہنسنے لگا۔
بلکل بکواس جھوٹ۔“ جی۔کے بولا۔تمہیں تو بات کرنے کا ڈھنگ نہیں آتا تھا۔“
اب بھی نہیں آتا۔“ وہ بولا۔
تو پھر۔“
صرف بانہہ پکڑنے کا ڈھنگ آتا ہے۔ام کے ہنسنے لگا۔
اکٹھی سات بانہیں۔“ ایلی نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
نہیں۔“ ام کے بولا۔ میں تو ایک ہی پکڑتا تھا باقی چھ میری بانہہ پکڑتی تھیں۔اور قہقہہ مار کر ہنسنے لگا۔
اچھا تو یہ آپ کے بھی دوست ہیں۔“ لالہ جی کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولے اور پھر ام کے سے مخاطب ہو کر کہنے لگے ۔کہو بھئی آج کل کہاں ہو۔کیا ابھی قصور ہی میں ہو۔“
جی ہاں۔“ اس نے جواب دیا۔لیکن وہ مجھے سسپنڈ کرنے والے ہیں۔
کیوں وہاں بھی کیا لڑکیوں کا قصّہ ہے۔لالہ جی ہنسے۔“
نہیں لالہ جی۔“
تو پھر کیوں۔“
ویسے ہی جلتے ہیں۔“ ام کے ہنسنے لگا۔شہر میں تو ہوں گی نا لڑکیاں۔“ جی۔ کے نے لالہ جی سے کہا۔
شہر میں تو وہ وہ چیز ہے کہ لالہ جی کیا بتاؤں،طوفان بپا ہے۔
کیا رات یہیں رہنے کا ارادہ ہے۔“ لالہ جی نے پوچھا۔
نہیں لالہ جی۔“ ام کے بولا۔البتہ جی چاہتا ہے کہ پھر سے کالج میں داخل ہو جاؤں۔“
تو ہو جاؤ۔“ لالہ جی بولے۔
کر لیں گے آپ۔“ ام کے ہنسنے لگا۔
لالہ جی کے جانے کے بعد کچھ دیر وہ باتیں کرتے رہے پھر ام کے تیار ہوگیا۔
اچھا یار میں چلتا ہوں۔مجھے ایک ضروری کام ہے پھر آؤں گا۔اب تو آتا ہی رہوں گا۔“
پھر ایلی سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔“ چلو یار ذرا کچھ دیر میرے ساتھ چلو پھر واپس آ جانا۔“

زنانہ ہوسٹل۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
دیر تک ایم کے اور ایلی لاہور کی ویران سڑکوں پر چلتے رہے ۔ایک دو مرتبہ ایلی نے کہا مجھے اب جانے دو یار۔لیکن ام کے نے بس تھوڑی دیر اور کہہ کر اسے مطمئن کردیا۔پھر وہ لڑکیوں کی باتوں میں مصروف ہوگئے ۔اور ایلی کو خیال ہی نہ رہا کہ اُسے واپس جانا ہے اور نامانوس علاقے میں وہ اتنی دور نکل آیا ہے کہ واپس بورڈنگ میں پہنچنا مشکل ہوجائے گا۔ام کے اسے ٹریننگ کالج میں لڑکیوں سے متعلق کارنامے سنا رہا تھا۔
ایک وسیع کوٹھی کے سامنے ام کے رک گیا ۔کوٹھی کے چاروں طرف قد آدم دیوار بنی ہوئی تھی۔اور سڑک کی جانب ایک بہت بڑا دروازہ تھا۔
ایک بات مانو گے۔“ اُس نے ایلی سے کہا۔اگر تم صرف 15 منٹ یہاں میرا انتظار کرو تو میں اپنے دوست سے مل کر واپس آ جاؤں گا پھر ہم اکھٹے واپس جائیں گے تم بورڈنگ چلے جانا اور میں بھاٹی دروازے چلا جاؤں گا۔
اس وقت آدھی رات ہوچکی تھی ایلی اس ویران جگہ انتظار کرنے کے لئے تیار نہ تھا لیکن اُسے واپسی کے راستے کا بھی تو علم نہ تھا۔اس لئے مجبوری میں اُس نے ام کے کی بات مان لی۔اور بڑے دروازے کے قریب ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔
دیر تک ایلی وہاں بیٹھا رہا پھر وہ گھبرا کر ٹہلنے لگا۔ام کے کو گئے تقریباً آدھ گھنٹہ ہوچکا تھا۔دور کسی گھڑی نے ساڑھے بارہ بجائے ۔اُسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے ٹہلتے ٹہلتے تھک کر وہ بیٹھ گیا۔
دفعتاً مکان کے اندر شور اُٹھا ۔لوگ دوڑ رہے تھے۔کون ہے ؟ کیا ہے ؟
دو ایک عورتیں چیخ رہی تھیں ۔ایلی وہ آوازیں سُن کر چونکا۔پھر اُس نے سمجھا شائد کوئی بات ہو، ہوگی کوئی بات۔پھر قریب ہی لوگ چل پھر رہے تھے ٹھک ٹک ٹک جیسے کوئی اونچی ایڑیاں فرش پر مار رہا ہو۔
پھر دھڑام سے صدر دروازہ کُھل گیا۔کچھ لوگ لالٹین اُٹھائے باہر نکل آئے۔ایلی بیٹھے بیٹھے چپ چاپ اُن کی طرف دیکھ رہا تھا۔نہ جانے کون ہیں یہ لوگ۔وہ سوچ رہا تھا۔
ایک نوجوان ہاتھ میں لٹھ سنبھالے دوسرے میں لالٹین پکڑے اُس کے قریب آ گیا اُس کے پیچھے دو مرد تھے اور ایک ادھیڑ عمر کی میم تھی ۔
کون ہو تم۔“ اُس نے درشت لہجے میں پوچھا۔
میں ہوں۔“ ایلی نے جواب دیا۔
یہاں کیوں بیٹھے ہو۔“
تھک گیا تھا بیٹھ گیا۔“ ایلی نے بے پروائی سے کہا۔
اس پر میم آگے بڑھی اور انگریزی میں پوچھنے لگی۔
زنانہ بورڈنگ ہاؤس کے سامنے بیٹھنے کا مطلب۔“
زنانہ بورڈنگ ہاؤس ۔“ ایلی نے حیرت سے اُس کی طرف دیکھا ۔مجھے یہ معلوم نہ تھا۔ایلی اُٹھ بیٹھا۔آئی ۔ایم ۔سوری۔“
لیکن تم ہو کون۔“ وہ بولی۔
زنانہ بورڈنگ کا نام سُن کر ایلی کو خیال آیا کہ ضرور ام کے نے کوئی شرارت کی ہوگی۔اس خیال پر وہ محتاط ہوگیا۔دیکھیئے محترمہ۔“ وہ بولا۔ میں راہ گیر ہوں بھاٹی دروازے جانا ہے تھک گیا۔تو ذرا سستانے بیٹھ گیا مجھے علم نہ تھا کہ یہ زنانہ بورڈنگ ہاؤس ہے۔
کیا کرتے ہو۔“ وہ بولی۔
پردیسی ہوں۔کام سے لاہور آیا ہوں۔“
ہوں۔“ وہ غور سے ایلی کی طرف دیکھنے لگی ---------- پھر اُس کا رویہ بدل گیا۔ بولی۔تم نے ادھر سے کوئی آدمی گزرتے دیکھا ہوئے نہیں دیکھا ہے کیا۔“
نہیں تو۔“ وہ بولا۔ کیوں کیا بات ہے۔“
یہاں چوری کی وارداتیں ہو رہی ہیں آج کل۔“ وہ بولی۔
اچھا۔“ ایلی نے کہا۔“ تو مجھے چلے جانا چاہیئے یہاں سے۔“
ٹھہرو۔“ لالٹین والا جوان چلاّیا۔
نہیں نہیں جانے دو شریف آدمی ہے۔“ میم نے کہا۔اور ایلی چپ چاپ چلتا رہا۔
ابھی چند ہی قدم چلا ہوگا کہ اندھیرے سے ایک سایہ اُس کی طرف لپکا۔وہ گھبرا کر رکا۔
ڈر گئے کیا۔“ ام کے کی آواز آئی۔
ارے تم ہو۔“
ہاں میں ہوں۔“
کسی سہیلی سے ملنے آئے تھے کیا۔“
ارے یار۔“ وہ بولا۔مصیبت یہ ہوئی کہ دیوار پھلانگتے ہوئے کسی چوکیدار نے دیکھ لیا۔“
تو کیا دیوار پھلانگ کر اندر گئے تھے۔“
اور تو کیا صدر دروازے سے جاتا۔بیٹا زنانہ بورڈنگ ہے اندر جانے دیتا ہے کوئی۔“
کسی روز مار کر بھرکس نکال دیں گے تمہارا۔“ ایلی نے کہا۔
یار کیا کروں۔“ ام کے ہنسنے لگا۔اس ظالم سے ملے بغیر رہا بھی نہیں جاتا۔جانِ من ان لڑکیوں کے دل میں عزت اور محبت پیدا کرنی ہو تو دلیری دکھانی پڑتی ہے سیکھ لو گُر یہ ہم سے۔“
ایلی کے روبرو سادی آ کھڑی ہوئی ۔ نہ “ وہ بولی۔ یوں نہیں ملے گا ڈوپٹہ لینا ہے تو خود آکر سر سے اُتار کر لے جاؤ ۔پھر مانوں گی آپ کی ہمت۔
پھر ایک سبز رنگ کی گھٹڑی لڑھک کر اس کے پاؤں میں آ گری اور سادی مسکرا کر کہنے لگی۔گھونگٹ کے پٹ کھول رہے تو ملیں گے رام۔“
نہ جانے ام کے کیا کہہ رہا تھا۔ غالباً وہ زنانے بورڈنگ میں داخل ہونے کا قصّہ یا تفصیل سُنا رہا تھا۔وہ اسے بتا رہا تھا کہ اس کی سہیلی کس قدر حسین ہے اور کتنی رنگین۔لیکن ایلی کے روبرو ایک اور حسین رنگین تصویر کھڑی تھی۔وہ اُس سے باتیں کر رہی تھی۔“ میں یہاں ہوں اس نگری میں ۔اگر ہمت ہے تو یہاں آ جاؤ ۔ آ جاؤ نا۔ آ بھی جاؤ آ جاؤ گے تو سب کچھ مل جائے گا ۔سب کچھ لیکن تم کیوں آنے لگے ۔نہ جانے تمہیں کس کی لگن لگی ہے تمہارے لئے تو میں محض تفریح تھی۔“
دوسری طرف شہزاد کھڑی اُس کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔
چلو تفریح ہی سہی ۔“ وہ آہ بھر کر کہہ رہی تھی ۔“ تمہارے لئے باعثِ تفریح ہوں نا۔یہ بھی میری خوش قسمتی ہے اور میں تمہیں دے ہی کیا سکتی ہوں۔میرے پاس ہے ہی کیا جو دوں۔“
اگلے روز سارا دن ایلی اسی خیال میں کھویا رہا اُسے بار بار زنانہ بورڈنگ کا خیال آتا اور پھر اس کی نگاہوں تلے سادی کی سفید منزل آ جاتی اور وہ اُس کے پیچھے بھاگتا اور دو بہنیں چیختیں ۔“ آ گئے !! آ گئے !! ----------- ۔“ سارا دن وہ اسی خیال میں کھویا رہا شام کے وقت چپ چاپ کالج کے لان کے ایک اندھیرے کونے میں جا بیٹھا اس کا جی نہیں چاہتا تھا کہ کسی سے ملے یا جی کے کے پاس بیٹھے۔

زرد دوپٹہ۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
لان میں بیٹھے بیٹھے دفعتاً اسے احساس ہوا کہ قریب ہی کوئی ٹھنڈی آہ بھر رہا ہے وہ چونکا سامنے پیڑ کے پیچھے کوئی بیٹھا تھا۔شائد کوئی لڑکی ہو۔وہ گھبرا گیا۔لیکن اس نے اُٹھ کر جانا مناسب نہ سمجھا۔پھر کچھ دیر کے بعد پودے کے پیچھے کسی نے ماچس جلا کر سگرٹ سلگایا۔ارے شام کو پہچان کر وہ چلاّیا۔
تم ہو شام ۔“ وہ بولا شام اُسے دیکھ کر گھبرا گیا۔
شام آہیں کیوں بھر رہے تھے ؟“ ایلی نے پوچھا۔
اب عمر بھر آہیں ہی بھروں گا اور کیا۔“
لیکن کیوں۔“
یار کیا بتاؤں ۔“ شام بولا۔مسخروں نے میری منگنی ایک ایسی لڑکی کے ساتھ کر دی ہے جو زرد دوپٹہ اوڑھتی ہے۔“
تو کیا ہوا۔“؟
اپنی تو زندگی ہی تباہ ہو گئی۔“
کیوں۔؟ کیا وہ خوبصورت نہیں۔؟
جو سر پر زرد دوپٹہ اوڑھ سکتی ہو وہ کیا خوبصورت ہو سکتی ہے۔تمہیں نہیں معلوم الیاس۔“ شام دفعتاً سنجیدہ ہوگیا۔میں ایسی لڑکی سے محبت نہیں کر سکتا جو زرد دوپٹہ اوڑھتی ہو۔“ وہ بے حد سنجیدہ تھا۔شام اور یوں سنجیدہ ہو یہ بات ایلی کے لئے حیران کُن تھی۔
لیکن تمہاری منگنی کب ہوئی؟“ ایلی نے پوچھا۔
آج۔ابھی ابھی وہاں سے آ رہا ہوں۔چلو یار چلیں۔کہیں چلیں کسی ایسی جگہ جہاں جا کر کھو جائیں سب بھول جائیں۔“
ایلی چپ چاپ اس کے ساتھ ہو لیا۔کچھ دیر تو وہ خاموشی سے چلتے رہے پھر شام سے ضبط نہ ہو سکا اور وہ باتیں کرنے لگا۔دراصل وہ اپنی دل کی بھڑاس نکالنا چاہتا تھا وہ چاہتا تھا کہ سب کچھ کہہ دے سب کچھ اور اپنے دل کو ہلکا کرلے۔اس کے اندازِ بیان میں دکھ تھا اس کے تبسم میں بلا کی طنز تھی۔
مجھے کسی سے محبت کرنی پڑے گی۔ہاں۔ابھی فوراً ورنہ زندگی کیسے کٹے گی۔لیکن مجھ سے محبت کرنے والا کوئی بھی تو نہیں ماتا جی بچپنے میں چلی گئیں ۔کوئی بڑی بہن ہوتی تو شائد بات بن جاتی میری کوئی بہن نہیں اور پِتا جی -------- لیکن کبھی پِتا نے بھی محبت کی ہے۔اونہوں۔آج تک مجھ سے کسی نے محبت نہیں کی اور اب انہوں نے میرا ناطہ ایسی لڑکی سے جوڑ دیا ہے جو زرد دوپٹہ اوڑھتی ہے۔مجھ سے زیادہ دکھی کون ہوگا۔“وہ باتیں کئے گیا اور ایلی چپ چاپ سنتا رہا۔
ارے۔“ انہوں نے تعجب سے اس گلی کی طرف دیکھا جس کی طرف لوگ بھاگے جا رہے تھے ان کے گلے میں ہار تھے۔ہونٹوں پر تبسم اور انداز میں عجب جوش و خروش تھا۔
یہاں کیا شادی ہے؟“ شام نے پوچھا۔
معلوم نہیں۔“ ایلی نے جواب دیا۔
مسلمانوں کی معلوم ہوتی ہے۔“
شائد۔“

مائی اور بیٹا۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
چلو یار چلیں ہم بھی شادی میں شریک ہوجائیں۔دیکھیں تو بن بلائے مہمان بننے میں کیا مزا ہے۔“گلی میں داخل ہوتے ہی شام نے حیرت سے چیخ سی ماری۔ارے“ وہ بولا۔یہ تو چکلا ہے۔سب بیسوائیں بیٹھی ہیں۔“ پہلی مرتبہ شام کی ہنسی میں دکھ کا عنصر نہ تھا۔“ آؤ یار آؤ۔“ وہ بچوں کی طرح چلایا۔دیکھیں تو یہ نظارہ بھی تو شادی سے کم نہیں۔“
گلی میں جگہ جگہ کھلے دروازوں اور کھڑکیوں میں بیسوائیں بیٹھی تھیں۔ہر بیسوا کے سامنے لوگ کھڑے اس کی طرف گرسنہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔کچھ ویسے ہی گھور رہے تھے۔کچھ انہیں چھیڑ رہے تھے۔
پہلے ہی کھلے دروازے پر شام رک گیا۔کچھ دیر تو وہ اُسے جانچتا رہا پھروہ بھول گیا کہ کہاں کھڑا ہے اور اس کی منگیتر کس رنگ کا دوپٹہ پہنتی ہے اور وہ کالج کا طالب علم ہے ۔وہ ایسے خصوصی رنگ میں چہکنے لگا۔
کیوں جی۔“ وہ بیسوا سے مخاطب ہوکر بولا۔کوئی ہے مال وال۔“
بیسوا نے گھور کر اُس کی طرف دیکھا اور پھر مسکرا دی۔دروازے کے سامنے کھڑے لوگوں نے شام کی طرف دیکھا۔ان کی نگاہوں میں حیرت جھلکی کوٹ پتلون میں مسکراتا ہوا نوجوان لڑکا اس گلی میں شائد کبھی نہ دیکھا گیا تھا چونکہ وہ جگہ مزدوروں اور جاٹوں کے لئے مخصوص تھی اور سب بیسوائیں نچلے درجے کی تھیں۔
ہے کوئی مال وال۔“ شام نے اپنا سوال دہرایا۔
بیسوا پھر مسکرائی اور اپنی چتون سے اشارہ کیا ۔جیسے کہہ رہی ہو بہت ہے آ جاؤ۔
تو ذرا دکھاؤ نا ہمیں۔“ شام مسکرایا۔
اس پر لوگ ہنسنے لگے۔
کچھ ہو تو دکھائے ۔“ ایک نے قہقہہ مارا۔
سب لٹا ہوا ہے ۔“ دوسرا بولا۔
نہیں نہیں ضرور کچھ چھپا کر رکھا ہوگا۔“ شام بولا۔“ کیوں ---------- مہارانی ہے نا یہ بات۔“
بیسوا نے اپنی آنکھیں شام کی آنکھوں میں ڈال دیں۔
اندر صندوق میں ہوگا۔“ ایک بولا۔ یہاں تو نہیں ۔“
اونہوں۔“ دوسرے نے کہا۔صندوقچی تو لٹ گئی۔“
بیسوا نے غصّے بھری نگاہ سے لوگوں کی طرف دیکھا اور دروازہ بند کر لیا لوگوں نے قہقہہ لگایا اور دوسرے دروازے کی طرف چل پڑے۔
شام کی باتوں پر ایلی خواہ مخواہ شرمندگی محسوس کر رہا تھا۔ایسی بے تکلف باتیں کرنا اور پھر ایسی جگہ جہاں پائے جانا بھی باعثِ شرم تھا ۔نہ جانے شام کو کیا ہوگیا ہے۔
چلو چلیں۔“ اس نے شام سے کہا۔“ یہ جگہ ٹھیک نہیں ۔“
جائیں گے کہاں۔“ وہ بولا۔دیکھو تو کتنی رونق ہے ۔ایسی جگہ کہاں ملے گی ہمیں واہ۔“
دوسرے دروازے پر جا کر وہ چلایا۔“ اونہوں دیوی یہ کیا قمیض پہن رکھی ہے ۔سبز رنگ کی چھی چھی۔ سرخ قمیض پہنو تو ہمیں جوش بھی آئے۔“
بیسوا نے اُس کی طرف دیکھا۔“ خالی باتیں ہی بناؤ گے یا آؤ گے بھی۔“
کیوں نہیں آئیں گے۔“ وہ چلایا۔“ آئیں گے ضرور آئیں گے۔“
تو پھر آ جاؤ۔“ وہ نہایت قبیح انداز سے ننگے اشارے کرنے لگی۔
آگئی جوش میں بھئی۔“ ایک بولا۔
خود جوش میں آنے کا فائدہ ہمیں جوش دلائے تو بات ہے۔“ شام چلایا۔
لوگ ہنسنے لگے ۔“ بھئی بات تو ٹھیک ہے۔“ ایک نے کہا۔
بیسوا نے نہایت بے حیائی سے اپنی قمیض اتار دی اور لپک کر سرخ قمیض کھونٹی سے اتار کر پہننے لگی۔اس کی میلی انگیا دیکھ کر سب چلانے لگے۔
ذرا آہستہ ذرا آہستہ اتنی جلدی اچھی نہیں ہوتی۔“ شام نے کہا۔
سرخ قمیض پہن کر وہ شام سے مخاطب ہوکر بولی۔“ آ اب مرد کا بچّہ ہے تو۔“
میں تو مرد ہوں۔“ وہ بولا۔بچّہ نہیں ہوں۔“
اس پر لوگ ہنسے۔
تو پھر آ نا۔“ وہ بولی۔
آئیں گے آئیں گے۔کل آئیں گے۔“ یہ کہہ کر وہ آگے چل پڑا۔
اس طرح وہ ہر جگہ رک کر باتیں کرتا رہا۔ایلی کو اس پر غصّہ آ رہا تھا۔فضول ایسی باتیں کرنا۔نہ جانے شام کو کیا ہوگیا ہے اور پھر ایسی غلیظ جگہ اور وہ عورتیں لاحول ولا قوۃ وہ کیا عورتیں تھیں۔
دفعتاً شام کی نگاہ ایک اندھیری کوٹھڑی پر پڑی جہاں کوئی بتّی روشن نہ تھی۔اور دروازے کے باہر ایک بڑھیا بیٹھی حقّہ پی رہی تھی۔
ارے۔“ وہ چلایا۔“ یہ دادی اماں یہاں کس اُمید پر بیٹھی ہے۔آؤ الیاس آؤ۔“
اس کے قریب جا کر شام کہنے لگا۔“ مائی تم یہاں کس لئے بیٹھی ہو؟“
وہ خاموش بیٹھی حقّہ پیتی رہی۔
کیا تم بھی بیٹھی ہو۔“ شام نے اپنا سوال پھر دہرایا۔
دکھتا نہیں۔“ وہ بولی۔
کیا تمہارے پاس بھی کوئی آتا ہے مائی۔“ شام نے پوچھا۔
بیٹا اتنا ہی ترس آتا ہے تو تم خود کیوں نہیں آ جاتے ۔“ وہ نہایت بے شرمی سے کہنے لگی۔شرم کے مارے ایلی ڈوب گیا۔پھر وہ بھاگ پڑا۔
ارے ٹھہرو تو۔میں نے کہا ٹھہرو نا۔“ شام چلا رہا تھا۔لیکن ایلی بھاگے جا رہا تھا۔پیچھے پیچھے شام آ رہا تھا۔اور گلی کے سب تماش بین ان کی طرف دیکھ رہے تھے۔

ٹھہراؤ۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
ٹریننگ کالج کی زندگی کے پہلے دور میں ایک مسلسل کش مکش تھی اضطراب تھا ہر کوئی پر جوش تھا۔پر امید تھا۔کوشاں تھا۔لیکن چھ ایک ماہ کے بعد لڑکیوں کی زندگی نے دوسرا رخ پلٹ لیا۔بیشتر لڑکے جو لڑکیوں پر اثر ڈالنے کے لئے بے تاب تھے۔مایوس ہوگئے۔اور ان کی توجّہ کسی اور طرف منعطف ہو گئی۔
ادھر لڑکیوں نے اپنا اپنا حلقہ اور اپنا اپنا مرکز متعین کر لیا۔اس طرح زندگی میں ایک ٹھہراؤ پیدا ہوگیا۔جیسے گدلے پانی کا بھرا گلاس کچھ دیر کے بعد نتھر کر صاف ہوجاتاہے گردوغبار سب بیٹھ جاتا ہے۔
لڑکیوں کی وہ پُر شور محفلیں ختم ہو چکی تھیں ۔اب ہر لڑکی نے امتحان کی تیاری کے لئے ایک مخصوص کونہ مقرر کر لیا تھامثلاً مس رومواسی اس بینچ پر بیٹھا کرتی جو لان کے شمالی کونے میں جھاڑیوں کے نیچے رکھا ہوا تھا۔مس رادہا نے سائنس روم کے عقب میں بنی ہوئی گیلری اپنے لئے مخصوص کر رکھی تھی۔جہاں سے ادھر اُدھر جانے کا کوئی راستہ نہ تھا۔کالج کے لان میں پڑے ہوئے بینچ سب غائب ہو چکے تھے اور مخصوص مقامات پر رکھ دیئے گئے تھے۔
ظاہر ہے کہ امتحان کی تیاری اکیلے میں تو نہیں ہوسکتی ایک ساتھی کا ہونا ضروری ہوتا ہے اور ایک سے زیادہ ساتھی ہوں تو بھیڑ لگ جاتی ہے اور پوری توجّہ سے کام نہیں ہوتا۔۔غالباً اسی وجہ سے لڑکیاں تقریباً تقریباً عنقا ہو چکی تھیں۔عام طور پر وہ دکھائی نہیں دیتی تھیں۔البتہ کوئی خاص لیکچر ہوتا تو وہ اپنے اپنے ڈربوں سے نکل آتیں اور لیکچر ختم ہونے کے بعد پھر وہیں لوٹ جاتیں۔
رائے نے پھر سے گاؤں جانا شروع کر دیا تھا۔اور ہر بار گاؤں سے واپس آنے کے بعد ایلی کو اُس لڑکی کے قصے سناتا جو اتنی بولڈ تھی کہ حد نہیں اور جس کی بولڈنیس کی وجہ سے اس کے پیرنٹس نے احتجاجاً کھانسنا اور تیوری چڑھانا چھوڑ دیا تھا۔
بابا کی تمام تر توجہ بورڈنگ کے پچھواڑے کے ایک مکان پر مرکوز ہوچکی تھی اور وہ روز ایلی کو بتایا کرتا تھا کہ لاجونتی بیچاری سارا سارا دن دھوپ میں کھڑی رہتی ہے۔پاگل لڑکی اس طرح وہ اپنی صحت خراب کرے گی۔لیکن بابا کے سمجھانے کے باوجود لاجونتی اپنے مکان کی کھڑکی میں کھڑی ہوکر بابا کو دیکھنے پر مجبور تھی۔

لاجونتی۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
لاجونتی کا قصّہ بھی عجیب تھا۔سب سے پہلے لاجونتی کو شام نے دیکھا تھا۔
شام دوڑا دوڑا ایلی کے پاس آیا ۔“ لو بھئی۔“ وہ چلانے لگا۔اپنا تو جیون سپھل ہوگیا۔“
وہ کیسے۔“ ایلی نے پوچھا۔
اپنا بھی ایک گاہک پیدا ہوگیا۔“
کیوں کیا کالج والیوں میں سے کوئی مہربان ہوگئی۔“
اونہوں۔ وہ سب سخت مٹی سے بنی ہیں۔یار ان پر اثر ہی نہیں ہوتا۔انہیں وہ وہ باتیں سناتی ہیں کہ ذرا شرم ہوتی تو میرے پریم میں ڈوب جاتیں۔اور صرف باتیں ہی نہیں تماشے دکھائے ہیں کرتب دکھائے ہیں مسخرا بن کر رانیوں کو محظوظ کیا ہے اور پھر کلاس میں وہ وہ بریلینٹ باتیں کی ہیں۔اپنی لیاقت کی دھاک بٹھا دی ہے۔اتنا اثر ڈالا ہے کہ کوئی حد نہیں۔“
تو کیا ان سب باتوں کا اثر نہیں ہوا۔“ ایلی نے پوچھا۔
اثر تو ہوتا ہے۔ہنساتا ہوں تو ہنستی ہیں۔اتنا ہنستی ہیں اتنا ہنستی ہیں کہ پیٹ میں بل پڑ جاتے ہیں۔چمکدار بات کرتا ہوں تو اتنی بڑی بڑی آنکھیں کھول کر دیکھتی ہیں جب لیاقت کی دھاک جماتا ہوں تو مڑ مڑ کر دیکھتی ہیں۔“
تو پھر۔“ ایلی نے پوچھا۔
بس چند ایک منٹ تو بھیگی رہتی ہیں پھر پر خشک ہوجاتے ہیں تو سالی پُھر سے اُڑ جاتی ہیں اور پھر جیسے جانتی ہی نہ ہوں۔“
تو پھر یہ نیا گاہک کون ہے۔“ ایلی نے پوچھا۔
پتہ نہیں یار کون ہے۔کوئی سکول کی دکھتی ہے۔ہماری ڈار میٹری کے پچھواڑے میں ان کا مکان ہے۔ایک روز میں نے ویسے چھیڑخانی کے لئے دو ایک اشارے کر دیئے تھے اب سالی کھڑکی میں یوں جمی رہتی ہے جیسے سریش لگا کر جوڑ دیا ہو کسی نے اپنے لئے جتی ستی ہو رہی ہے۔“
ٹھیک ہے۔“ ایلی بولا۔تمہیں بھی لٹکنے کے لئے ایک کھونٹی ہی چاہیئے۔“
وہ تو ٹھیک ہے۔“ شام ہنسا۔لیکن وہ تو خود لٹک رہی ہے۔“
یہ تو بلکہ اور بھی اچھا ہے۔“ ایلی نے کہا۔پکا پکایا مل گیا۔“
اونہوں۔ وہ بولا۔ یار لوگوں کو تو مار کر کھانے کی لت پڑی ہے۔“ عجیب بات ہےنا۔“ وہ بولا۔اگر وہ لٹک جائے تو اپنی طبعیت نہیں جمتی اور اگر وہ پرواہ نہ کرے تو ہم خود لٹک جاتے ہیں۔“
ایلی ہنسنے لگا۔
ایک بات اور ہے۔“ شام بولا۔
وہ کیا؟“
لاجونتی کی عمر بہت چھوٹی ہے۔“
اس میں کیا برا ہے۔جتنی چھوٹی عمر ہوگی۔اتنا جذبہ بے لوث ہوگا۔
اونہوں۔ہمیں تو مٹیار چاہیئے جو ہمیں لوریاں دے دے کر سلائے لپٹ لپٹ کر جگائے اپنے بازوؤں میں سنبھالے۔“
اسی شام وہ دونوں بورڈنگ سے نکل کر اس مکان کی طرف سیر کے لئے نکل گئے جہاں لاجونتی کا گھر تھا تاکہ قریب سے لاجونتی کو دیکھ سکیں۔
لاجونتی چودہ سال کی لڑکی تھی۔اس کا رنگ سانولا تھا لیکن نقوش جاذبِ نظر تھے نگاہوں میں عجیب دیوانگی سی تھی اور انداز سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے محبت کی دنیا کے طور طریقے سے ابھی ناواقف ہو جیسے کوئی دہلیز پر کھڑا ہو اور زندگی کے ایوان میں داخل ہونے کے لئے بے تاب ہو۔
واپسی پر ایلی کو سوجھی۔یار ایک بات کہوں بڑا مزا رہے گا جو تم مان جاؤ تو۔“
اس روز ایلی نے مل کر سازش کی کہ کسی طرح بابا کو یہ غلط فہمی دے دی جائے کہ لاجونتی اسے دیکھنے کے لئے کھڑکی میں کھڑی ہوتی ہے۔چونکہ بابا جس ڈار میٹری میں رہتا تھا وہاں سے بھی لاجونتی کا مکان صاف دکھائی دیتا تھا۔
اس مذاق کی وجہ یہ تھی کہ ایلی بابا کی باتیں سن کر تنگ آ چکا تھا۔بابا یوں بات کیا کرتا جیسے ہر جوان لڑکی اس پر رینجھی ہوئی ہو۔اسے یہ خیال کبھی نہیں آیا تھا کہ وہ بوڑھا ہو چکا ہے۔منہ پر جھریاں پڑی ہوئی ہیں اور جوان لڑکیاں بھلا بابا سے کیسے محبت کر سکتی ہیں۔
چند ہی روز میں ایلی نے بابا کو یقین دلا دیا تھا۔کہ لاجونتی اس پر دل و جان سے فدا ہوچکی ہے اور اُس کے لئے ہر وقت کھڑکی میں کھڑی رہتی ہے۔
اس کے بعد بابا روز ایلی کو لاجونتی کے قصّے سنایا کرتا تھا۔اور ایلی سمجھتا کہ بابا نے ایک الف لیلےٰ کی دنیا بسا رکھی ہے۔جسکا حقائق سے کوئی تعلق نہیں اس لئے وہ بابا کے قصّے یوں سُنا کرتا تھا جیسے طوطا مینا کی کہانیاں ہوں اُس نے انہیں کبھی اہمیت نہ دی تھی۔دل ہی دل میں وہ بابا کی حماقت پر ہنسا کرتا تھا پھر ایک روز رات کے نو بجے کے قریب بابا ایلی کے پاس آیا۔اُس وقت وہ خوب بن ٹھن کر آیا تھا۔
ارے۔“ ایلی نے کہا۔ آج تو دولہا بنے ہوئے ہو۔“
ہاں یار۔آج وہاں جانا ہے نا۔اس لئے میں نے کہا ذرا اچھے کپڑے پہن لوں۔“
کہاں جانا ہے؟“
بھئی وہیں۔“ بابا بولا۔اُس نے اشارہ کرکے کہا۔
وہاں کہاں؟“
لاجونتی نے بلایا ہے۔“ بابا نے اُس کے کان میں کہا۔
ارے -------------- ایلی کو بھولی ہوئی لاجونتی یاد آگئی۔اُس نے بلوایا ہے۔“
ہاں۔“ وہ بولا۔بیچاری کتنے دنوں سے بُلا رہی ہے۔کہتی ہے گھر والے کہیں گئے ہوئے ہیں ۔گھر میں وہ اکیلی ہے۔“
ارے ۔“ ایلی سمجھ رہا تھا بابا ویسے ہی گپ چلا رہا ہے۔شائد لاجونتی اُسے بلا رہی ہو۔
ذرا میرے ساتھ چلو گے ۔“ بابا نے کہا۔وہاں تک۔“
کیوں۔“؟
ایسے معاملے میں ساتھی ہو تو اچھا رہتا ہے۔صرف مکان تک چلنا پھر چلے آنا۔“بابا نے کہا۔
کب۔“ ایلی نے حیرت سے پوچھا۔
ابھی اور کب۔“
ابھی --------------- ! “ ایلی نے حیرانی سے بابا کی طرف یوں دیکھا --------- جیسے وہ پاگل ہو گیا ہو وہ دونوں چل پڑے ایلی سمجھ رہا تھا کہ شائد بابا کا دماغ چل گیا ہے۔وہ چپ چاپ چلتے چلے گئے۔ایلی دل ہی دل میں بابا کی سادہ لوحی پر ہنس رہا تھا۔
لاجونتی کے مکان کے نیچے دونوں رک گئے ۔بابا بے کھڑے ہو کر سگرٹ سلگانا شروع کردیا بابا بے ایک ایک دو ماچسیں جلائیں اور اُنہیں بجھا دیا تاکہ اُنہیں وہاں رکنے کا بہانہ ملے ۔جب اُس نے چوتھی ماچس جلائی تو آہستہ سے مکان کا دروازہ کُھلا۔ہاتھ میں لالٹین اُٹھائے لاجونتی دروازے میں کھڑی تھی۔اچھا بھئی۔“ کہہ کر بابا اندر داخل ہوگیا ----اور ایلی حیرت سے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتا رہ گیا۔

ونڈر لینڈز۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
وہاں سے واپس آتے ہی ایلی شام کی طرف گیا۔وہ شام کو لاجونتی اور بابا کی ملاقات کا قصّہ سنانے کے لئے بےقرار ہورہا تھا ۔ڈارمیٹری میں شام اُسے دکھائی نہ دیا تو اس نے گوبند اور پریم سے پوچھا کہ شام کہاں ہے۔
یہیں‌ تو تھا ابھی۔“ وہ بولے۔شائد کسی اور ڈارمیٹری میں بیٹھا گپیں ہانک رہا ہو۔“ ایلی دیر تک ڈارمیٹریوں میں گھومتا رہا۔جب وہ باہر آنے لگا تو راستے میں لالہ جی مل گئے۔
کسے تلاش کر رہے ہو۔“ وہ بولے۔
شام کو ڈھونڈ رہا ہوں۔“ ایلی نے کہا۔کہیں چھٹّی پر تو نہیں گیا۔“
نہیں وہ تو حاضر ہے۔“ وہ بولے۔داس کہہ رہا تھا کہ اس کی طبعیت خراب ہے اور وہ سو گیا ہے۔“
اوہ۔“ ایلی بولا۔طبعیت خراب ہے۔“
لالہ جی کے جانے کے بعد وہ پھر سے شام کی ڈارمیٹری میں داخل ہوا۔
شام کہاں ہے۔“ اس نے داس سے پوچھا۔
اس کی طبعیت اچھی نہیں ۔“ داس نے جواب دیا۔سو گیا ہے۔“
ایلی شام کی سیٹ کی طرف جانے لگا تو داس نے اس کی بانہہ پکڑ لی ۔نہیں یار۔“ وہ منت سے بولا۔“ اُسے نہ جگاؤ۔مشکل سے آنکھ لگی ہے۔“
ایلی باہر نکل آیا لیکن باہر آتے ہی اُس نے محسوس کیا جیسے کوئی بات ہو۔کہیں شام نے کچھ کھا تو نہیں لیا۔شائد زرد دوپٹے والی منگیتر کی وجہ سے وہ رک گیا۔اور پھر سے دبے پاؤں شام کی طرف چل پڑا۔اب کی بار وہ اس کی سمت سے داخل نہ ہوا جدھر داس کی سیٹ تھی بلکہ پرلی طرف سے داخل ہوکر دبے پاؤں شام کی سیٹ کی طرف چلا آیا--------
چارپائی کے قریب پہنچ کر وہ رک گیا۔واقعی یہ تو سو رہا ہے۔اُس نے سوچا۔خواہ مخواہ تنگ کرنے کا فائدہ۔نہیں میں نہیں جگاتا اسے۔وہ چارپائی کے قریب تر ہوگیا۔پھر اس نے جانے کس خیال پر سرہانے کی طرف سے چادر کا پلّو اُٹھایا۔ارے وہ بھونچکا رہ گیا۔بستر میں شام نہیں تھا۔چارپائی پر چادر تلے اوور کوٹ اور جانے کیا کیا یوں رکھا ہوا تھا جیسے کوئی سویا ہوا ہو۔
جب ایلی اپنے کمرے میں پہنچا اس وقت تقریباً بارہ کا وقت تھا۔ان دنوں جی۔کے اور ایلی اپنے کمرے کو چھوڑ کر بورڈنگ کے ہسپتال کے ان ڈور وارڈ میں رہتے تھے۔
ایک روز فٹ بال کھیلتے ہوئے جی۔کے گر پڑا تھا اور اس کی شن بون ٹوٹ گئی تھی۔اور ڈاکٹر نے اس کی ٹانگ کو پلستر کر دیا تھا۔چونکہ بورڈنگ اور کالج کے تمام لڑکوں سے جی۔کے کے مراسم تھے لہٰذا ان کے کمرے میں اکثر بھیڑ لگی رہتی تھی لڑکے اس کی عیادت کو آتے تھے ہر وقت کوئی نہ کوئی جی۔کے کے پاس بیٹھا رہتا تھا اس بات کو محسوس کرکے لالہ جی نے خود انہیں کہا تھا کہ وہ ان ڈور وارڈ میں چلے جائیں تو ان کے لئے آسانی رہے گی۔
ان ڈور وارڈ بورڈنگ کے ساتھ ملحق تھا لیکن وہ بورڈنگ سے الگ سمجھا جاتا تھا۔اور وارڈ میں رہنے والے ان تمام پابندیوں سے مبرّا تھے جو بورڈنگ میں رہنے والوں پر عائد تھیں۔مثلاً بورڈنگ میں دس بجے باقاعدہ حاضری لگتی تھی اور پھر باہر کے دروازے مقفل کردیئے جاتے تھے اور لالہ جی کی اجازت کے بغیر کوئی شخص نہ تو باہر جاسکتا تھا اور نہ اندر داخل ہوسکتا تھا۔اس کے علاوہ بورڈنگ میں مہمانوں کو آنے کی اجازت نہ تھی۔ان ڈور وارڈ میں یہ پابندیاں نہ تھیں۔وارڈ کا ایک دروازہ باہر کھلتا تھا۔اس لئے وہ باہر جانے یا اندر آنے کے لئے قطعی طور پر آزاد تھے ۔اور باہر کے مہمان بے روک ٹوک ان کے پاس آ سکتے تھے۔
یہ وارڈ ایک فراخ ہال کمرہ تھا جس میں متعدد کھڑکیاں اور دروازے تھے اسکی ساخت ڈارمیٹریوں سے مختلف تھی۔دراصل یہ ایک نیا وِنگ تھا جو حال ہی میں بنایا گیا تھا۔اور چونکہ ابھی باقی انتظامات مکمل نہ ہوئے تھے اس لئے نہ تو وہاں کوئی نرس تھی نہ ڈاکٹر صرف چار ایک خالی بیڈ پڑے ہوئے تھے۔لہٰذا جی۔کے اور ایلی نے اپنا تمام سامان کتابیں صندوق چارپائیاں میز کرسیاں وہاں منتقل کردی تھیں۔
چونکہ جی۔کے ڈیڑھ ماہ سے صاحبِ فراش تھا اس لئے کالج اور بورڈنگ کے لڑکے اکثر تفریح کے لئے وہاں آجایا کرتے ۔سارا سارا دن وہاں تاش کھیلا جاتا کیرم چلتا۔شطرنج کی بازیاں کھیلی جاتیں۔اس طرح وہ کمرہ کومن روم کی حیثیت اختیار کر گیا تھا ایک ایسا کومن روم جہاں ہر وقت دھماچوکڑی رہتی۔اور جہاں شور مچانا اور دنگا فساد کرنا قابلِ اعتراض نہیں سمجھا جاتا تھا۔
وارڈ میں منتقل ہونے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا تھا کہ ایلی کو ہر وقت بورڈنگ میں داخل ہونے یا وہاں سے باہر جانے کی اجازت مل چکی تھی۔دروازے پر بیٹھا ہوا چوکیدار اُسے دیکھ کر آپ ہی آپ اٹھتا اور پھر بن پوچھے آہنی دروازہ کھول دیتا۔شام کی ڈارمیٹری سے نکل کر جب وہ باہر آیا تو چوکیدار نے حسبِ معمول دروازہ کھول دیا اس وقت گیارہ بجے تھے جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو بتّی جل رہی تھی اور جی۔کے اکڑوں بیٹھا کچھ لکھ رہا تھا۔اُس کے سامنے لکھنے کا پیڈ پڑا تھا اور قلم ہاتھ میں تھا۔
وہ چپ چاپ اپنے بستر کی طرف بڑھا ۔بستر جھاڑتے ہوئے اس نے جی۔کے سے پوچھا۔
کیا لکھ رہے ہو؟“
جی۔کے نے کوئی جواب نہ دیا۔
میں کیا پوچھ رہا ہوں۔“ ایلی نے کہا۔
دفعتاً اس کی نگاہ پیڈ پر پڑی عنوان کو دیکھ کر وہ بھونچکا رہ گیا۔لکھا تھا میری پیاری سفینہ۔
سفینہ۔ارے سفینہ کون تھی اور پھر پیاری جی۔کے اور پیاری۔یہ کیسے ہوسکتا ہے ایلی جی۔کے کے سب قریبی رشتہ داروں کو جانتا تھا اسے جی۔کے کی ہمشیرہ والدہ کے نام معلوم تھے۔لیکن یہ سفینہ کون تھی ۔کیا جی ۔کے بھی کسی کی محبت میں گرفتار تھا۔نہیں نہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے اسے لڑکیوں سے محبت کرنے کے شغل سے سخت نفرت تھی وہ محبت کا مذاق اڑایا کرتا تھا اور اسے ہوس سے تعبیر کرتا تھا۔صراطِ مستقیم پر چلنے والا شخص کسی کو میری پیاری سفینہ لکھے ایک حساب دان۔ایک اصولی آدمی۔نہیں یہ نہیں ہوسکتا شائد یہ خط کسی عزیز کو لکھا ہو۔ایلی نے پیڈ اُٹھا لیا اور باہر نکل گیا تاکہ چھپ کے خط پڑھ سکے۔
واقعی وہ ایک محبت بھرا خط تھا۔جی ۔کے اور یہ جذبات ! ایلی حیرت سے اس سوئی ہوئی گٹھڑی کی طرف دیکھ رہا تھا۔اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا سمجھے کیا جی۔کے کی وہ شخصیت جس سے ایلی واقف تھا محض ایک بہروپ تھی۔
ایلی کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ابھی اسے انسانی کردار کے تضاد کا شعور نہ تھا۔اس نے پیڈ کو رکھ دیا اور سوچ بچار میں کھو گیا۔دفعتاً اس نے محسوس کیا کہ کمرے میں اس کا دم گُھٹ رہا ہے۔پھر وہ چپکے سے باہر نکل گیا۔
باہر برگد کے درخت کے نیچے سادی کھڑی ہنس رہی تھی۔آؤ مہاراج جی آیاں نوں۔“ وہ مسکرانے لگی ایلی نے ماچس کی ڈبیہ ہاتھ میں تھام رکھی تھی۔سگرٹ ہونٹوں میں دبا رکھا تھا جسے سلگانا وہ بھول گیا تھا۔
سادی نے اس ان سلگے سگرٹ کی طرف دیکھا۔سگرٹ خود لگائیں گے مہاراج یا میں لگا دوں۔“ وہ مسکرائی ایلی چونکا اس کو وہ رات یاد آگئی جب وہ سفید منزل کی سیڑھیوں میں ضد کئے بیٹھا تھا کہ سادی خود سگرٹ سلگا کر دے۔
توبہ ہے۔“ سادی بولی۔کوئی ایسا ضدی بھی نہ ہو۔“
ایلی نے سگرٹ سلگایا اور پھر کالج کی طرف چل پڑا۔
کالج کی عمارت چاندنی میں چمک رہی تھی ۔عمارت کی چھت پر شہزاد کھڑی تھی۔ارے وہ گھبرا کر رکا واقعی کالج کی چھت پر کوئی تھا۔نہ جانے کون ہے۔کوئی ہوگا اس نے سوچا۔شائد چوکیدار ہو۔وہ گھبرا گیا کالج کا چوکیدار بہت سخت آدمی تھا۔وہ پرنسپل کو رپورٹ کرنے سے نہ چوکتا تھا۔اسی وجہ سے لڑکے رات کے وقت ادھر آنے سے ڈرتے تھے۔
ایلی نے اپنا رخ بدل لیا۔وہ مغربی سمت کو چل پڑا جس طرف کالج کا لان تھا۔اس وقت سارا لان چاندنی میں جگمگا رہا تھا۔ایلی کا جی چاہتا تھا کہ کسی بنچ پر بیٹھ کر اس پھیلی ہوئی چاندنی کو دیکھے جو اسے سادی اور شہزاد کی یاد دلا رہی تھی لیکن لان میں جانا خطرناک تھا۔اوپر سے چوکیدار نے دیکھ لیا تو۔لان میں کوئی بنچ بھی تو نہ تھا۔تمام بنچ لڑکوں نے لان سے اٹھا کر اس سے ملحقہ باغ میں رکھ دیئے تھے جہاں بڑی بڑی جھاڑیاں تھیں۔ایلی ان جھاڑیوں کی طرف چل پڑا۔
دفعتاً وہ رکا۔ان جھاڑیوں سے آوازیں آ رہی تھیں۔وہ محتاط ہو گیا اور ایک پودے کے نیچے چھپ گیا۔
بھگوان کی سوگند میں زہر کھا لوں گا۔“ کوئی چلا رہا تھا۔میرے پاس ہے۔میرے ٹرنک میں پڑی ہے سچ کہہ رہا ہوں۔صبح آؤ گی تو دکھا دوں گا۔“
زہر -------------- ٹرنک -------------- ارے ۔“ ایلی نے شام کی آواز پہچان لی۔
شام یہاں ---------- اور یہ ساتھ کون ہے۔ایلی چپکے سے بیٹھ گیا تاکہ کسی کو نظر نہ آئے کچھ دیر خاموشی طاری رہی۔پھر آواز آئی --------- بس اس قصّے کا یہی انجام ہوگا ---------- اور۔۔۔۔۔“
آواز یوں دفعتاً بند ہوگئی جیسے کسی نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیاہو۔
ایسی باتیں مت کیجیئے۔“ کوئی بولی۔
تو کیسی باتیں کروں۔“
پیار کی باتیں۔“
اس پیار نے اپنا دیوالیہ نکال دیا ہے۔“
کیوں۔: وہ بولی۔
شام ہنسا۔بس صبح شام مر رہے ہیں۔پڑھنے کی فرصت کسے ہے۔اور بھگوان جانے امتحان میں بطخ کا انڈا ملے گا مرغی کا نہیں۔“
ایلی ہنسنے لگا واقعی شام ہے اس نے سوچا۔
وہ ہنسی۔
لیکن کچھ پرواہ نہیں۔“ شام نے کہا۔چاہے شتر مرغ کا ملے پر اگر تم نے ایسی بے پروائی کی تو پھر ----------“
اونہوں۔“ وہ بولی۔ پھر وہی بات۔“
بھگوان جانے میں جھوٹ ----------“
اس کی بات ادھوری رہ گئی باغیچے میں خاموشی چھا گئی پراسرار خاموشی ایلی نے محسوس کیا کہ اسے وہاں سے چلے جانا چاہیئے وہ اُٹھ بیٹھا اور دبے پاؤں باہر نکل آیا پھر وہ اپنے کمرے کی طرف چل پڑا کمرے میں پہنچ کر اس نے بجلی بجھادی اس کے دل میں ایک عجیب طوفان مچا ہوا تھا۔اس نے پہلی مرتبہ محسوس کیا کہ وہ سب اپنی اپنی دھن میں کھوئے ہوئے تھے۔ہر کوئی اپنی ڈفلی بجا رہا تھا۔اپنی مرلی کی دُھن پر ناچ رہا تھا۔وہ ایک دوسرے سے اس قدر قریب تھے ۔لیکن اتنی دور ---------- بہت دور ایک کو دوسرے کی خبر نہ تھی ایک کو دوسرے سے کوئی سروکار نہ تھا۔وہ رات ایلی کے لئے گویا الف لیلےٰ کی ایک رات تھی غالباً اس نے پہلی مرتبہ محسوس کیا کہ وہ اس ونڈر لینڈ میں ایلس کی حیثیت رکھتا ہے اور ایلس بذاتِ خود ایک ونڈر لینڈ تھی۔
پہلا سبق۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
امتحان کے قریب آنے پر لڑکوں کے پریکٹیکل لیسنز شروع ہو گئے اور اسباق کی تیاری میں مصروف ہوگئے پھر انہیں پریکٹیکل کے لئے مختلف سکولوں کی جماعتیں مل گئیں جہاں انہیں بچوں کو ایک مہینے کے لئے عملی طور پر پڑھانا تھا۔
بی ٹی اور ایس ڈی کے طلبہ کی ڈیوٹیاں مختلف سکولوں میں لگ گئیں۔کسی کو ولی دروازے کے مدرسے میں متعین کردیا گیا کسی کو بھاٹی دروازے اور کوئی شیرانوالے بھیج دیا گیا۔ان تعیناتیوں کی وجہ سے کالج کی زندگی کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا۔کالج لان کی جھاڑیوں میں رکھی ہوئی تمام بنچیں ویران ہوگئیں۔جماعتوں کے کمرے خالی دکھائی دینے لگے ۔بورڈنگ میں آنے جانے اور ملنے ملانے کے اوقات اور بورڈنگ کے معمولات بلکل بدل کر رہ گئے۔
خوش قسمتی سے ایلی کی ڈیوٹی سنٹرل ماڈل سکول میں لگ گئی جو اُن کے ہوسٹل کے متصل واقع تھا۔اس بات پر اسے بے حد خوشی تھی۔اس کے علاوہ سنٹرل ماڈل سکول لاہور کے تمام سکولوں میں ایک معیاری سکول مانا جاتا تھا۔وہاں کے اساتذہ جدید طریقہء تعلیم سے واقف تھے اور بچّے بہت ذہین سمجھے جاتے تھے۔
پہلی مرتبہ جب ایلی سنٹرل ماڈل سکول کی جماعت میں داخل ہوا تو کلاس ٹیچر نے اُس کی طرف گھور کر دیکھا لڑکے ایک دوسرے کو کہنی مار کر ہنسنے لگے۔
کلاس ٹیچر ایک بھاری اور بھدّے جسم کا شخص تھا۔اس کے ماتھے پر دائمی شکن تھا جیسے پیشانی میں کھود دیا گیا ہو۔آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔چہرے پر بے حسی کا دبیز پردہ پڑا تھا۔اور ہونٹ موٹے تھے۔اُس کے ہاتھ میں چھڑی تھی جسے وہ بار بار میز پر بجاتا تھا۔
میں سنٹرل ٹریننگ کالج سے آیا ہوں۔“ ایلی نے کہا۔میرا نام الیاس ہے۔“
ہوں۔“ کلاس ٹیچر نے اُسے گھورتے ہوئے کہا اور ویسے ہی بیٹھا رہا۔پیچھے لڑکوں کی ہنسی کی آوازیں آ رہی تھیں۔
ایلی نے ایک بار پھر ملتجیانہ نگاہ سے کلاس ٹیچر کی طرف دیکھا لیکن وہ جوں کا توں بیٹھا اسے گھورتا رہا۔
تو مجھے کب سے کام شروع کرنا ہے۔“ ایلی نے پوچھا۔
ہوں۔“ کلاس ٹیچر کی تیوری اور گہری ہوگئی۔
لڑکے قہقہہ مار کر ہنس پڑے۔
اس پر کلاس ٹیچر کی توجہ لڑکوں کی طرف مبذول ہوگئی۔اس نے چھڑی اٹھا کر زور سے میز پر ماری۔اور پھر اُٹھ بیٹھا۔
یہ کیا بدتمیزی ہے۔“ وہ غرّایا۔
کیا اسے اپنی تمیزداری کے متعلق کچھ علم ہے۔“ ایلی نے سوچا۔
ادھر آؤ حیدر۔“ وہ غرّایا۔نیچے اترو۔
ایلی نے محسوس کیا جیسے وہ بھی اس جماعت کا ایک لڑکا ہو اور کلاس ماسٹر نے وحید کی طرح اسے بھی نیچے بلا رکھا ہو اور اب وحید کے بعد اس کی باری ہو۔گھبرا کر وہ کمرے سے باہر نکل آیا اور برآمدے میں کھڑا ہوگیا۔
کچھ دیر بعد کلاس ٹیچر باہر نکلا۔
ہوں۔“ وہ ایلی کو ڈانٹتے ہوئے بولا۔تو تمہیں ملی ہے یہ جماعت۔“
جی۔“ ایلی نے جواب دیا۔
اور ایک ماہ میں تم اس کا ستیاناس کردوگے؟“
ایلی محسوس کر رہا تھا کہ اب وہ کہے گا۔نکالو ہاتھ۔“
دیکھو۔“ کلاس ٹیچر نے اسے پھر ڈانٹا۔کیا تمہیں علم ہے کہ ایک ماہ کے بعد مجھے تمہاری رپورٹ دینا ہوگی۔“
جی۔“ ایلی بولا۔
اور اگر میں نے گندی رپورٹ دی تو تم فیل کردئیے جاؤ گے۔“
جی۔“
اگر مجھ سے اچھی رپورٹ لینی ہے۔“ وہ بولا۔تو وعدہ کرو۔“
اس کے انداز میں اس قدر واضح دھونس تھی کہ ایلی جھٹ بول اُٹھا۔جی کرتا ہوں۔کرتا ہوں۔“
وعدہ کرو کہ جو جدید طریقے تعلیم کے تم نے سیکھے ہیں وہ میری جماعت پر نہیں برتو گے۔انہیں آج سے بھول جاؤ گے۔وہ محض ہاتھی کے دانت ہیں۔“
ایلی کا منہ کُھلا کا کُھلا رہ گیا۔
یہ ڈنڈا ہے۔“ کلاس ٹیچر چھڑی ہلاتے ہوئے بولا۔اس کا استعمال فراخدلی سے کرنا ہوگا۔“
جی ہاں ۔جی ہاں۔ایلی چلایا۔
سبق رٹوا کر یاد کرانا ہوگا چاہے سمجھیں یا نہ سمجھیں۔“
جی۔“
ہمیں نتیجہ دکھانا ہے پڑھانا نہیں۔“
جی اچھا۔“
تو تم وعدہ کرتے ہو۔“
جی کرتا ہوں۔“
تو جاؤ پڑھاؤ۔“ اس نے ڈرامائی انداز سے جماعت کی طرف اشارہ کیا۔
بہت اچھا۔“ کہہ کر ایلی چل پڑا۔
ٹھہرو۔“ وہ بولا ------- تم ڈنڈا تو بھول گئے۔“
اوہ۔“
کلاس ٹیچر نے چھڑی ایلی کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کئی بار پھر اسے ڈانٹا۔
خبردار جو اسے بھولے۔ورنہ تمہاری رپورٹ --------------
ایلی کانپتے ہوئے جماعت میں داخل ہوگیا۔
لڑکے کھڑے ہوگئے۔
سٹ ڈاؤن۔“ ایلی نے کہا اور پیشانی سے پسینہ پونچھنے لگا۔
لڑکے جوں کے توں کھڑے رہے۔
سٹ ڈاؤن ۔“ اس نے دہرایا۔
وہ ہنسنے لگے۔
بیٹھ کر ہنسو۔“ ایلی بولا۔
انہوں نے ایلی کو منہ چڑانا شروع کردیا۔جماعت سے عجیب و غریب قسم کی آوازیں پیدا ہونے لگیں اس کونے میں گھڑی چل رہی تھی ٹک ٹک ٹک ٹک ۔ادھر چکّی آٹا پیس رہی تھی گھمر۔گھمر۔گھمر۔گھمر ۔پرلی طرف موٹر سٹارٹ ہورہی تھی۔دور الّو بول رہا تھا۔کہیں مرغا اذان دے رہا تھا۔بلیاں لڑ رہی تھیں۔
ایلی حیرت سے لڑکوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔
دیر تک وہ اُن کی طرف دیکھتا رہا۔
پھر کلاس ٹیچر نے دروازے سے جھانکا۔
دفعتاً کمرے پر بھیانک خاموشی طاری ہوگئی۔
تم ڈنڈے کو پھر بھول گئے۔“ ماسٹر نے ایلی کو ڈانٹا۔“ اور تم نے وعدہ کیا تھا۔کیا تھا یا نہیں؟“
ایلی نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
تم اچھی رپورٹ کے قابل نہیں ہو۔“ وہ بولا۔
پھر کلاس ٹیچر جس سرعت سے آیا تھا اسی سرعت سے چلا گیا۔
جماعت میں پھر سے آوازیں گونجنے لگیں۔
فول۔ فول۔“ کوئی چلا رہا تھا اگرچہ سب کے ہونٹ بند تھے۔
سلی سلی۔ٹون --------- میاؤں دھپ ۔دھڑاڑاڑدم۔“
ایلی سر تھام کر کرسی میں بیٹھ گیا۔

وہ ۔ وہ ۔ وہ ۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
جوں جوں امتحان قریب آتا جا رہا تھا کالج پر اداسی کا ایک دبیز پردہ پڑتا جا رہا تھا۔لڑکوں کی وہ خوش گپیاں ختم ہوتی جارہی تھیں۔لڑکیوں کے چہروں سے مسکراہٹیں مفقود ہوتی جا رہی تھیں۔پروفیسروں کا رویہ حیرت انگیز طور پر بدل چکا تھا۔اب وہ کالج کے لڑکوں سے یوں سلوک کرنے لگے تھے جیسے وہ طالب علم نہیں بلکہ ہم کار ہوں۔
کونوں میں پڑے ہوئے بنچوں سے رنگین قہقہے سنائی دینے بند ہوگئے تھے۔وہاں یا تو خاموشی چھائی رہتی اور یا کبھی کبھار ہچکیوں کی آوازیں سنائی دیتیں۔وہاں سے لڑکیاں باہر نکلتیں تو ایسے معلوم ہوتا جیسے روئی روئی ہوں۔
شام کی رنگین باتیں بلکل ختم ہو چکی تھیں۔اس کی گھنی بھنویں اور بھی بوجھل ہوگئی تھیں۔
کیا ہو گیا ہے تمہیں۔“ ایلی شام سے پوچھتا۔تم وہ شام دکھائی نہیں دیتے۔“
وہ شام ہوں تو دکھائی دوں۔“ وہ جواب دیتا۔
تو وہ شام کیا ہوا ؟“
شام ختم۔ اب تو رات پڑ چکی ہے۔جدائی کی رات۔“
ارے اتنے ہی مر چکے ہو تم اس مرہٹن رادھا پر۔“ ایلی نے بھانڈا پھوڑ دیا۔شائد تم سمجھ رہے ہو مجھے معلوم نہیں وہ چلایا۔مجھے معلوم ہے۔“
شام نے مسکرانے کی کوشش کی۔
تمہیں ہی کیا ۔“ وہ بولا۔سب کو معلوم ہے۔“ سب جانتے ہیں حتٰی کہ ہماری لیبارٹری کا بھنگی بھی جانتا ہے۔صرف ہم دو ہیں۔رادھا اور میں جو ابھی تک اپنے آپ کو فریب دئیے جا رہے ہیں کہ کوئی نہیں جانتا۔“
ایک بات پوچھوں۔“ ایلی نے کہا۔
پوچھو۔“ شام بولا۔
رادھا میں وہ کون سی خوبی ہے ۔جو تمہیں پسند آ گئی ہے۔“
وہ قہقہہ مار کر ہنسنے لگا۔اور پھر اپنی مست آنکھیں ایلی کی آنکھوں میں ڈال کر کہنے لگا۔
صرف ایک۔ اور اس ایک خوبی پر ساری دنیا قربان کی جاسکتی ہے۔“
وہ کیا ؟“
وہ مجھ سے محبت کرتی ہے۔عورت میں بس یہی ایک خوبی ہوتی ہے جس پر مرد مرتا ہے۔تم تو نفسیات پڑھتے ہو۔تمہیں تو جاننا چاہیئے۔باقی جو ناک نقشے اور رنگ کی بات ہے۔سب باتیں ہیں منہ زبانی باتیں۔“
کیا واقعی وہ محبت کرتی ہے تم سے ۔سچّی محبت۔“
[/align:2a1d22d1bf]
 
Top