قیصرانی
لائبریرین
جو گرد و نواح میں رہتے تھے اس پر ہزار جان سے عاشق تھے اسے راہ چلتے چھیڑتے تھے لیکن رائے کے سوا اسے کوئی پسند نہ تھا چونکہ اسے رائے سے محبت تھی۔
رائے کی اپنی تیسری محبوبہ لاہور ہی میں تھی۔ وہ بے حد معصوم اور خوبصورت تھی۔ اتنی معصوم تھی کہ ان دنوں ایک بدمعاش لڑکے نے اسے قابو کر رکھا تھا۔ اور وہ بیچاری ان جانے سیدھی راہ سے بھٹک گئی تھی بہر صورت رائے جانتا تھا کہ وہ دن دور نہیں جب وہ سمجھ جائے گی کہ وہ بدمعاش نوجوان محض اپنا مطلب پورا کر رہا ہے اور پھر وہ ایک نئے شوق اور تازہ عزم سے رائے کی طرف لوٹے گی اور ان کا رومان پھر سے تازہ ہو جائے گا۔ ان دنوں رائے کی سب سے بڑی خواہش یہ نہ تھی کہ گاؤں والی محبوبہ اسے بلائے یا شہر والی محبوبہ کو نوجوان تنگ کرنا چھوڑ دیں یا لاہور والی محبوبہ کی آنکھیں کھل جائیں۔
ان دنوں تو اس کی صرف یہ خواہش تھی کہ کالج کی ان چھ لڑکیوں میں سے کسی ایک کے ساتھ اس کا رومان چل پڑے اور اسے ہر ماہ دو بار اتنی دور گاؤں تک کا سفر نہ کرنا پڑے۔
اس سلسلے میں وہ اکثر ایلی سے مشورہ طلب کیا کرتا تھا۔
یار ایلی کوئی ایسی تجویز بتاؤ کہ اپنی بات بن جائے۔
اور اگر ایلی جواب دیتا۔ لو۔ اس میں کیا ہے جا کر کسی کا ہاتھ پکڑ لو۔
اور اس نے تھپڑ مار دیا تو۔
تھپڑ مار دیا تو سمجھو بات پکی ہو گئی۔ ایلی کہتا۔ ایکسپرٹس کا یہی فیصلہ ہے۔
کیسے؟
سیدھی بات ہے اگر ہاتھ چھوڑ دیا تو سمجھو بات ٹوٹ گئی۔ پکڑے رکھا تو تعلقات قائم ہو گئے اور اگر جرات کرکے اسی وقت آغوش میں لے لو تو ہمیشہ کے لیے اس کے دل میں دماغ پر مسلط ہو جاؤ گے۔
یہ تو ٹھیک ہے۔ رائے جواب دیتا۔ لیکن کبھی یار اکیلے میں کوئی ملے تو بات بنے۔ اسی کوشش میں لگا تھا کہ کبھی اکیلے میں کوئی مل جائے۔
ویسے ایلی کو کئی مرتبہ وہ اکیلے میں ملتی تھیں لیکن ایلی نے کبھی ہاتھ تھامنے کی کوشش نہ کی تھی۔ ہاتھ تھامنا چھوڑ کر۔۔۔۔اس وقت اسے نہ جانے کیا ہو جاتا تھا۔ دور سے کوئی اکیلی چلی آتی دکھائی دیتی تو ایلی کا دل دھک سے رہ جاتا جیسے لڑکی نہیں جگا ڈاکو آرہا ہو۔ اس کا جی چاہتا کہ کوئی لڑکا آجائے تاکہ اسے حوصلہ ہو۔ اس کا جی چاہتا کہ مڑ کر بھاگ لے۔ نہیں نہیں وہ سوچتا یہ ٹھیک نہیں ہے کیا کہے گی وہ۔ مجھے تو یوں ہی گزر جانا چاہیئے جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ آخر بات کیا ہے ایک لڑکی گزر رہی ہے ناں اور کیا اور لڑکی بھی وہ جو مجھے قطعی پسند نہیں۔ پھر گبھراہٹ کیسی۔ وہ گردن اٹھا کر یوں چلنے لگتا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ لیکن جب وہ لڑکی کے قریب پہنچتا تو اس کی گردن جھک جاتی۔ نگاہیں کونے تلاش کرنے لگتیں اور دل بیٹھ جاتا پسینے چھوٹ جاتے۔
لیکن ایلی کی بات چھوڑیئے اسے تو ان چھ لڑکیوں میں چنداں دلچسپی نہ تھی اور ایسی لڑکیوں سے رومان کیسے قائم کیا جا سکتا ہے بھلا۔ جنہیں انسان جب جی چاہے جا کر مل سکے۔ ان حالات میں محبت کا پیدا ہونا ایلی کی دانست میں ناممکن تھا۔
ایلی کی دانست میں محبت کے لیے ضروری تھا کہ بندشیں ہوں قیود ہوں۔ پردے اور دیواریں حائل ہوں۔ برقعہ ہو گھونگھٹ ہو۔ نگاہ ترچھی۔ مسکراہٹ زیرلبی ہو۔ دور سے اشارے ہوں۔ ماتھے پر مکھی اڑانے کے بہانے سلام کیا جائے لو لیٹر لکھے جائیں۔ اور یہ کیا ہوا ہیلو مس بینا کہئے مزاج کیسے ہیں۔ لاحول ولا قوۃ۔
لڑکیوں کے بارے میں ایلی کو شام کا طرز عمل بے حد پسند تھا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ کسی روز کسی لڑکی سے اکیلے میں ملے اور کہے جسٹ اے منٹ مس یہ تو بتائیے کہ بھلا آپ کو دیکھ کر دل میں کچھ کچھ کیوں ہونے لگتا ہے۔ گردن کیوں لٹک جاتی ہے۔ نگاہیں کونے کیوں تلاش کرتی ہے۔۔۔۔اور اگر وہ جواب میں تھپڑ مار دے تو اس کا ہاتھ پکڑنے کی بجائے جھٹ جیب سے ٹنکچر اور روئی نکالے اور کہے اب ایک تکلیف اور کیجئے ذرا چوٹ پر ٹنکچر لگا دیجئے مجھے جگہ دکھتی نہیں۔
اسفند
شام میں دلچسپی کی ایک وجہ اور بھی تھی دونوں کو اسفند یار سے بغض تھا۔ اسفند نہایت خلیق محبتی ملنسار اور ذہین لڑکا تھا۔ وہ کسی مڈل سکول کا ہیڈ ماسٹر تھا اور ریفریشر کورس کے لئے بی ٹی کلاس میں داخل ہوا تھا۔ وہ راہ چلتے لڑکے کو روک لیتا۔ کہاں جا رہے ہو بھئی کہئے وقت کیسے گزرتا ہے۔ اور اس کے قریب تر ہو جاتا اور قریب حتٰی کہ آپ محسوس کرتے کہ ابھی وہ آپ سے بغل گیر ہو کر آپ کا منہ چوم لے گا۔ اور اس طرح ہمیشہ کے لئے آپ کا دوست بن جائے گا۔
وہ السلام علیکم کہ کر جی کے کے کمرے میں آپہنچتا۔ بھائی تم ملتے ہی نہیں کئی مرتبہ آچکا ہوں نہ جانے کہاں گم رہتے ہو تم دونوں۔ یار وہ ایک مشکل آن پڑی تھی۔ میں نے کہا کسی حسابی سے جا کر پوچھ لوں اپنے کو تو حساب سے کوئی دلچسپی نہیں۔ یہاں اے بی کورس والے صرف تم ہو نا۔
شام کی ڈار میٹری میں جا کر وہ شام سے پوچھتا۔ بھئی وہ ٹیچنگ آف کمسٹری نہیں ملتی۔ کوئی اتہ پتہ یار بتاؤ کچھ ہم بھی پڑھ لیں پڑھنے کو جی نہیں چاہتا۔ ایک زمانے کے بعد پھر پڑھنے کے چکر میں پڑ پڑھ گئے اب تو عادت بنتے بنتے بنے گی۔
اسفند ہر ایک سے ملتا تھا۔ بڑے پیار سے ملتا تھا۔ پیار کا اظہار کرتا تھا۔ اپنی ذہنی کم مائیگی کا اظہار بھی کرتا تھا محبت بھری نظریں بھی ڈالتا۔ قریب تر ہو کر اپنا بازو آپ کے شانے پر رکھ دیتا یا آپ کا بازو اپنی بغل میں ڈال لیتا۔ اس کے باوجود نہ جانے کس اصول کے تحت اسے لوگ بور سمجھتے تھے بور کا لفظ تو خیر اس زمانے میں رائج نہ تھا لیکن لڑکے اس سے کنی کتراتے تھے۔ اس کی مٹھاس کثیف سی محسوس ہوتی اس کا قرب کھلتا ایسے محسوس ہوتا جیسے ایک نرم نرم لیس دار چیز آپ سے چمٹی جا رہی ہو۔
نہ جانے قدرت کے کس قانون کے تحت اسفند کے آتے ہی دفعتا یاد آیا کہ آپ کو ضروری کام سے کہیں جانا ہے۔ اسے دیکھ کر آپ اپنا پروگرام بدل دیتے کسی اور سمت کی طرف جانے کا فیصلہ کر لیتے۔
شاید اس کی وجہ لڑکیاں ہوں؟
اسفند سب سے بڑا کوٹ بردار تھا۔ وہ ہروقت لڑکیوں کے جھرمٹ میں رہتا ہر وقت ان کا طواف کرتا۔ چاہے وہ واضح طور پر اس امر کا اظہار کرتیں۔ موڈ آف ہے آپ جایئے۔ چاہے ان کا ساتھ منہ موڑ لیتا یا پوچھ لیتا۔ کیوں اسفند صاحب آپ لائبریری کو جارہے ہیں نا۔ لیکن اسفند اپنی جگہ سے نہ ہلتا اور ہزار طنز کے باوجود اس کے ہونٹوں پر وہ لیسدار مسکراہٹ چپکی رہتی۔ اس کی طبعی مٹھاس جوں کی توں قائم رہتی اخلاق بدستور خوش گوار رہتا اس کی باتیں جاری اور ساری رہتیں حالانکہ باقی لوگ وضاحت سے اس امر کا اظہار کر چکے ہوتے کہ محفل میں گنجائش نہیں لیکن اسفند کا رویہ یہ ظاہر کرتا کہ وہ اپنے پیارے دوستوں کو چھوڑ کر نہیں جا سکتا وہ بے وفا نہیں۔ چاہے اس کا اپنا حرج ہی کیوں نہ وہ آداب محفل کو نظر انداز کرنے کو تیار نہیں۔
اگر کوئی لڑکا لڑکیوں کو آئس کریم کھانے کی دعوت دیتا تو اکثر وہ ساتھ یہ بھی کہہ دیتا کہ اسفند تو آئس کریم کھاتا ہی نہیں۔
مگر اسفند فورا بولتا کھاتا تو نہیں لیکن تمہارے جیسا پیارا دوست کہے تو انکار نہیں کروں گا۔
دعوت سے زبردستی چمٹے رہنے کی خصوصیت چھوڑیئے اس سلسلے میں تو اسفند اس حد تک فراغ دل تھا کہ خود لوگوں کو دعوت دیتا۔ ٹک شاپ میں میزبان بن کر سب کو کھلاتا اور پھر چپکے سے ٹک شاپ والے سے کہہ دیتا۔
میاں یہ بل شام یا موہن ادا کرے گا۔ ویسے کسی دوسرے کی دعوت میں بھی اسفند کا رویہ کچھ ایسا ہوتا اور وہ انہماک اور شوق سے لوگوں کو کھلاتا تاکہ ہر کسی کے دل میں احساس پیدا ہو جائے کہ دعوت اسفند کی طرف سے تھی۔
ان ہی باتوں کی وجہ سے لوگ اسفند سے گھبراتے تھے لیکن ان باتوں کی وجہ سے تو صرف ان لڑکوں کو گھبرانا چاہیئے تھا جو لڑکیوں کے حلقے میں رہتے تھے۔ وہ لڑکے جنہیں لڑکیوں کے حلقے سے دور کا تعلق بھی نہ تھا انہیں گھبرانے کی کیا ضرورت تھی۔ لیکن اسفند کے متعلق ان کے جذبات بھی اسی قسم کے تھے اور یہ وبا اس قدر عام ہو چکی تھی کہ ایک روز ہنگامہ ہوگیا۔ ہوسٹل کے صدر دروازے سے باہر برگد کے درخت کے نیچے وسیع میدان میں شور شرابے کی آوازیں سنی گئیں۔ تمام لڑکے بورڈنگ سے باہر نکل آئے ادھر کالج سے بھی لڑکے آ موجود ہوئے برگد کے نیچے دو لڑکے آپس میں لڑ رہے تھے۔ لڑائی نے ہاتھا پائی کی صورت اختیار نہ کی تھی۔ دونوں بڑے غصے سے چیخ رہے تھے۔
ابے جا بے تیری حیثیت کیا ہے کل کا لونڈا ہے۔ تو ہمارا کیا مقابلہ کرے گا۔ میں وہ کمینہ ہوں، وہ کمینہ ہوں کہ۔۔۔۔
ابے ہٹ بے بڑا آیا ہے کہیں سے۔ میرے روبرو تیری دال نہیں گل سکتی۔ تو میری کمینگی سے واقف نہیں شکل و صورت تو دیکھ اپنی بھگوان کی سوگند جیسے چھپکلی ہو۔
ابے جا۔ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔
اس طرح دیر تک وہ چلاتے رہے۔
بات کیا ہے بات کیا ہے۔ لڑکوں نے چاروں طرف شور مچا دیا۔
بورڈنگ اور کالج میں ایک ہنگامہ ہوگیا۔ لڑکے بھاگے بھاگے آ پہنچے۔
چاروں طرف خبر مشہور ہو گئی کہ برگد تلے جھگڑا ہو رہا ہے۔ ایک لڑکا کہتا ہے میں کمینہ ہوں دوسرا کہتا ہے کہ تیری کیا حیثیت ہے اپنے سامنے۔ میں بہت بڑا کمینہ ہوں۔ عجیب جھگڑا تھا۔ لٰہذا سب برگد کے درخت کی طرف بھاگے حتٰی کہ پروفیسر اور چھ لڑکیاں بھی آ پہنچیں۔
دونوں لڑکے بڑی شدت سے چلا رہے تھے منہ سے کف جاری تھا آستینیں ٹنگی ہوئی تھیں جیسے ابھی ہاتھا پائی کی نوبت آجائے گی۔
میں کہتا ہوں میں کمینہ ہوں میں۔ ایک چیخ رہا تھا۔
ابے جا۔ دوسرا کہ رہا تھا۔ تو کیا ہے تیری اوقات کیا ہے۔
جب سے لڑکوں نے جھگڑے کا انداز دیکھا تو چاروں طرف سناٹا چھا گیا۔ لڑکے فورا تاڑ گئے کہ یہ جھگڑا نہیں کچھ اور ہے نہ جانے مداری کے پٹارے سے کیسا سانپ نکلے گا۔
دیر تک چخ چخ جاری رہی۔ حتٰی کہ سب لڑکیاں آپہنچیں پروفیسر بھگت سنگھ بھی آگئے۔ لالہ جی تو دور سے تماشہ دیکھتے رہے لیکن پروفیسر بھگت سنگھ بڑے سادہ لوح اور مخلص تھے وہ گھبرا گئے انہوں نے بچاؤ کرانے کی کوششیں کیں۔
عین اسی وقت دونوں لڑکوں نے جھگڑے کا نقطہ عروج پیدا کر دیا۔
ایک بولا۔ ابے کمینگی میں میں تیرا باپ ہوں۔
بے جا۔ دوسرا چلایا۔ گلیکسو بےبی تو دیکھو۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن کی پیدائش ہے اور آیا ہے ہم سے مقابلہ کرنے ابے میں تیرے باپ کا باپ ہوں وہ کمینہ ہوں میں۔
میں خالی کمینہ نہیں ذلیل بھی ہوں۔
کس قدر ذلیل ہو تم۔ دوسرے نے غصے سے پوچھا۔ میں۔ پہلا بولا۔ میں پروفیسر بھگت سنگھ کا جوٹھا کھا سکتا ہوں۔
ابے بس۔ دوسرا چلایا۔ ابے میں کتےکا جھوٹا کھا سکتا ہوں۔
پہلا بولا۔ میں اسفند کا جوٹھا کھا سکتا ہوں۔
دوسرا خاموش ہوگیا۔ بھئی میں اسفند کا جوٹھا نہیں کھا سکتا۔ میں ہار گیا ہار گیا۔
چاروں طرف قہقہوں کا شور اٹھا۔
دو لڑکوں نے بڑھ کر پہلے لڑکے کو شانوں پر اٹھا لیا۔ اور اسے لے بھاگے جیت گیا!!!! جیت گیا!!! جیت گیا!!! وہ چلا رہے تھے اس سے بڑی ذلت نہیں ہو سکتی زندہ باد شام زندہ باد شام۔
ارے۔ ایلی حیرت سے چلایا۔ یہ تو شام ہے۔
ادھر اسفند کھڑا مسکرا رہا تھا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو جیسے شام نے اس کا نام ہی نہ لیا ہو۔ اور لیا بھی ہو تو محض مذاق اور تفریح کے طور پر لیا ہو۔
لیکن بھگت سنگھ چلاتے جا رہے تھے۔ نالائقوں نے میرا نام خوامخواہ لے دیا ارے میں تو گرو کا پیارا ہوں۔ مجھے کیوں گھسیٹتے ہو اپنے جھگڑوں میں۔
پھر شام چپکے سے ایلی کے کان میں کہہ رہا تھا۔ وہ پچھاڑا ہے آج کہ سالا کبھی اٹھ نہ سکے گا۔ اور اسفند یوں دیکھ رہا تھا جیسے پوچھ رہا ہو۔ کسے بھائی؟۔
اس روز رات کو بورڈنگ میں بہت ہنگامہ ہوا۔ ہر ڈار میٹری میں لڑکے اس ڈرامے کو دہرا رہے تھے جو اس شام برگد کے درخت تلے شام نے کھیلا تھا۔ میں کمینہ ہوں۔ ایک ڈار میٹری سے آواز آتی۔ ابے تیری کیا ہمت ہے جو ہمارے ہوتے ہوئے یہ دعوٰی کرے۔ دوسری ڈار میٹری سے کوئی چلاتا۔ ابے جا بے۔ تیسری ڈار میٹری سے شور بلند ہوتا۔ اوپر چوبارے میں کھڑے لالہ جی مسکرا رہے تھے۔ میں کہتاہوں بھئی۔ وہ کہہ رہے تھے۔ اس بات کا تو فیصلہ شام کو ہو چکا اب کوئی اور دعوےٰ کرو۔
ڈائیننگ ہال میں کومن روم میں لان میں ہر جگہ لڑکے باتیں کر رہے تھے۔
یار شام نے وہ مار دی ہے وہ مار دی ہے اسفند کو کہ چاروں شانے چت گریا ہے۔
ارے لڑکیوں کو دیکھا تھا مارے ہنسی کے پیٹ میں بل پڑ رہے تھے۔
اب اسفند کا لڑکیوں پر جادو نہیں چلے گا۔
اونہوں۔ اندر شام کہہ رہا تھا۔ یار اپنی ساری محنت بیکار گئی۔ اسفند پر تو کوئی اثر ہی نہ ہوا مجھے سے پوچھ رہا تھا یار یہ گڑ بڑ کس بات پر تھی اپنی سمجھ میں نہیں آیا کچھ۔ اب بتاؤ ایسے آدمی سے کوئی کیا کرے۔
ارے نہیں یار بنتا ہے۔ ایک نے جواب دیا۔
ہاں اندر سے تو چکنا چور ہو گیا ہے۔
رائے کی اپنی تیسری محبوبہ لاہور ہی میں تھی۔ وہ بے حد معصوم اور خوبصورت تھی۔ اتنی معصوم تھی کہ ان دنوں ایک بدمعاش لڑکے نے اسے قابو کر رکھا تھا۔ اور وہ بیچاری ان جانے سیدھی راہ سے بھٹک گئی تھی بہر صورت رائے جانتا تھا کہ وہ دن دور نہیں جب وہ سمجھ جائے گی کہ وہ بدمعاش نوجوان محض اپنا مطلب پورا کر رہا ہے اور پھر وہ ایک نئے شوق اور تازہ عزم سے رائے کی طرف لوٹے گی اور ان کا رومان پھر سے تازہ ہو جائے گا۔ ان دنوں رائے کی سب سے بڑی خواہش یہ نہ تھی کہ گاؤں والی محبوبہ اسے بلائے یا شہر والی محبوبہ کو نوجوان تنگ کرنا چھوڑ دیں یا لاہور والی محبوبہ کی آنکھیں کھل جائیں۔
ان دنوں تو اس کی صرف یہ خواہش تھی کہ کالج کی ان چھ لڑکیوں میں سے کسی ایک کے ساتھ اس کا رومان چل پڑے اور اسے ہر ماہ دو بار اتنی دور گاؤں تک کا سفر نہ کرنا پڑے۔
اس سلسلے میں وہ اکثر ایلی سے مشورہ طلب کیا کرتا تھا۔
یار ایلی کوئی ایسی تجویز بتاؤ کہ اپنی بات بن جائے۔
اور اگر ایلی جواب دیتا۔ لو۔ اس میں کیا ہے جا کر کسی کا ہاتھ پکڑ لو۔
اور اس نے تھپڑ مار دیا تو۔
تھپڑ مار دیا تو سمجھو بات پکی ہو گئی۔ ایلی کہتا۔ ایکسپرٹس کا یہی فیصلہ ہے۔
کیسے؟
سیدھی بات ہے اگر ہاتھ چھوڑ دیا تو سمجھو بات ٹوٹ گئی۔ پکڑے رکھا تو تعلقات قائم ہو گئے اور اگر جرات کرکے اسی وقت آغوش میں لے لو تو ہمیشہ کے لیے اس کے دل میں دماغ پر مسلط ہو جاؤ گے۔
یہ تو ٹھیک ہے۔ رائے جواب دیتا۔ لیکن کبھی یار اکیلے میں کوئی ملے تو بات بنے۔ اسی کوشش میں لگا تھا کہ کبھی اکیلے میں کوئی مل جائے۔
ویسے ایلی کو کئی مرتبہ وہ اکیلے میں ملتی تھیں لیکن ایلی نے کبھی ہاتھ تھامنے کی کوشش نہ کی تھی۔ ہاتھ تھامنا چھوڑ کر۔۔۔۔اس وقت اسے نہ جانے کیا ہو جاتا تھا۔ دور سے کوئی اکیلی چلی آتی دکھائی دیتی تو ایلی کا دل دھک سے رہ جاتا جیسے لڑکی نہیں جگا ڈاکو آرہا ہو۔ اس کا جی چاہتا کہ کوئی لڑکا آجائے تاکہ اسے حوصلہ ہو۔ اس کا جی چاہتا کہ مڑ کر بھاگ لے۔ نہیں نہیں وہ سوچتا یہ ٹھیک نہیں ہے کیا کہے گی وہ۔ مجھے تو یوں ہی گزر جانا چاہیئے جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ آخر بات کیا ہے ایک لڑکی گزر رہی ہے ناں اور کیا اور لڑکی بھی وہ جو مجھے قطعی پسند نہیں۔ پھر گبھراہٹ کیسی۔ وہ گردن اٹھا کر یوں چلنے لگتا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ لیکن جب وہ لڑکی کے قریب پہنچتا تو اس کی گردن جھک جاتی۔ نگاہیں کونے تلاش کرنے لگتیں اور دل بیٹھ جاتا پسینے چھوٹ جاتے۔
لیکن ایلی کی بات چھوڑیئے اسے تو ان چھ لڑکیوں میں چنداں دلچسپی نہ تھی اور ایسی لڑکیوں سے رومان کیسے قائم کیا جا سکتا ہے بھلا۔ جنہیں انسان جب جی چاہے جا کر مل سکے۔ ان حالات میں محبت کا پیدا ہونا ایلی کی دانست میں ناممکن تھا۔
ایلی کی دانست میں محبت کے لیے ضروری تھا کہ بندشیں ہوں قیود ہوں۔ پردے اور دیواریں حائل ہوں۔ برقعہ ہو گھونگھٹ ہو۔ نگاہ ترچھی۔ مسکراہٹ زیرلبی ہو۔ دور سے اشارے ہوں۔ ماتھے پر مکھی اڑانے کے بہانے سلام کیا جائے لو لیٹر لکھے جائیں۔ اور یہ کیا ہوا ہیلو مس بینا کہئے مزاج کیسے ہیں۔ لاحول ولا قوۃ۔
لڑکیوں کے بارے میں ایلی کو شام کا طرز عمل بے حد پسند تھا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ کسی روز کسی لڑکی سے اکیلے میں ملے اور کہے جسٹ اے منٹ مس یہ تو بتائیے کہ بھلا آپ کو دیکھ کر دل میں کچھ کچھ کیوں ہونے لگتا ہے۔ گردن کیوں لٹک جاتی ہے۔ نگاہیں کونے کیوں تلاش کرتی ہے۔۔۔۔اور اگر وہ جواب میں تھپڑ مار دے تو اس کا ہاتھ پکڑنے کی بجائے جھٹ جیب سے ٹنکچر اور روئی نکالے اور کہے اب ایک تکلیف اور کیجئے ذرا چوٹ پر ٹنکچر لگا دیجئے مجھے جگہ دکھتی نہیں۔
اسفند
شام میں دلچسپی کی ایک وجہ اور بھی تھی دونوں کو اسفند یار سے بغض تھا۔ اسفند نہایت خلیق محبتی ملنسار اور ذہین لڑکا تھا۔ وہ کسی مڈل سکول کا ہیڈ ماسٹر تھا اور ریفریشر کورس کے لئے بی ٹی کلاس میں داخل ہوا تھا۔ وہ راہ چلتے لڑکے کو روک لیتا۔ کہاں جا رہے ہو بھئی کہئے وقت کیسے گزرتا ہے۔ اور اس کے قریب تر ہو جاتا اور قریب حتٰی کہ آپ محسوس کرتے کہ ابھی وہ آپ سے بغل گیر ہو کر آپ کا منہ چوم لے گا۔ اور اس طرح ہمیشہ کے لئے آپ کا دوست بن جائے گا۔
وہ السلام علیکم کہ کر جی کے کے کمرے میں آپہنچتا۔ بھائی تم ملتے ہی نہیں کئی مرتبہ آچکا ہوں نہ جانے کہاں گم رہتے ہو تم دونوں۔ یار وہ ایک مشکل آن پڑی تھی۔ میں نے کہا کسی حسابی سے جا کر پوچھ لوں اپنے کو تو حساب سے کوئی دلچسپی نہیں۔ یہاں اے بی کورس والے صرف تم ہو نا۔
شام کی ڈار میٹری میں جا کر وہ شام سے پوچھتا۔ بھئی وہ ٹیچنگ آف کمسٹری نہیں ملتی۔ کوئی اتہ پتہ یار بتاؤ کچھ ہم بھی پڑھ لیں پڑھنے کو جی نہیں چاہتا۔ ایک زمانے کے بعد پھر پڑھنے کے چکر میں پڑ پڑھ گئے اب تو عادت بنتے بنتے بنے گی۔
اسفند ہر ایک سے ملتا تھا۔ بڑے پیار سے ملتا تھا۔ پیار کا اظہار کرتا تھا۔ اپنی ذہنی کم مائیگی کا اظہار بھی کرتا تھا محبت بھری نظریں بھی ڈالتا۔ قریب تر ہو کر اپنا بازو آپ کے شانے پر رکھ دیتا یا آپ کا بازو اپنی بغل میں ڈال لیتا۔ اس کے باوجود نہ جانے کس اصول کے تحت اسے لوگ بور سمجھتے تھے بور کا لفظ تو خیر اس زمانے میں رائج نہ تھا لیکن لڑکے اس سے کنی کتراتے تھے۔ اس کی مٹھاس کثیف سی محسوس ہوتی اس کا قرب کھلتا ایسے محسوس ہوتا جیسے ایک نرم نرم لیس دار چیز آپ سے چمٹی جا رہی ہو۔
نہ جانے قدرت کے کس قانون کے تحت اسفند کے آتے ہی دفعتا یاد آیا کہ آپ کو ضروری کام سے کہیں جانا ہے۔ اسے دیکھ کر آپ اپنا پروگرام بدل دیتے کسی اور سمت کی طرف جانے کا فیصلہ کر لیتے۔
شاید اس کی وجہ لڑکیاں ہوں؟
اسفند سب سے بڑا کوٹ بردار تھا۔ وہ ہروقت لڑکیوں کے جھرمٹ میں رہتا ہر وقت ان کا طواف کرتا۔ چاہے وہ واضح طور پر اس امر کا اظہار کرتیں۔ موڈ آف ہے آپ جایئے۔ چاہے ان کا ساتھ منہ موڑ لیتا یا پوچھ لیتا۔ کیوں اسفند صاحب آپ لائبریری کو جارہے ہیں نا۔ لیکن اسفند اپنی جگہ سے نہ ہلتا اور ہزار طنز کے باوجود اس کے ہونٹوں پر وہ لیسدار مسکراہٹ چپکی رہتی۔ اس کی طبعی مٹھاس جوں کی توں قائم رہتی اخلاق بدستور خوش گوار رہتا اس کی باتیں جاری اور ساری رہتیں حالانکہ باقی لوگ وضاحت سے اس امر کا اظہار کر چکے ہوتے کہ محفل میں گنجائش نہیں لیکن اسفند کا رویہ یہ ظاہر کرتا کہ وہ اپنے پیارے دوستوں کو چھوڑ کر نہیں جا سکتا وہ بے وفا نہیں۔ چاہے اس کا اپنا حرج ہی کیوں نہ وہ آداب محفل کو نظر انداز کرنے کو تیار نہیں۔
اگر کوئی لڑکا لڑکیوں کو آئس کریم کھانے کی دعوت دیتا تو اکثر وہ ساتھ یہ بھی کہہ دیتا کہ اسفند تو آئس کریم کھاتا ہی نہیں۔
مگر اسفند فورا بولتا کھاتا تو نہیں لیکن تمہارے جیسا پیارا دوست کہے تو انکار نہیں کروں گا۔
دعوت سے زبردستی چمٹے رہنے کی خصوصیت چھوڑیئے اس سلسلے میں تو اسفند اس حد تک فراغ دل تھا کہ خود لوگوں کو دعوت دیتا۔ ٹک شاپ میں میزبان بن کر سب کو کھلاتا اور پھر چپکے سے ٹک شاپ والے سے کہہ دیتا۔
میاں یہ بل شام یا موہن ادا کرے گا۔ ویسے کسی دوسرے کی دعوت میں بھی اسفند کا رویہ کچھ ایسا ہوتا اور وہ انہماک اور شوق سے لوگوں کو کھلاتا تاکہ ہر کسی کے دل میں احساس پیدا ہو جائے کہ دعوت اسفند کی طرف سے تھی۔
ان ہی باتوں کی وجہ سے لوگ اسفند سے گھبراتے تھے لیکن ان باتوں کی وجہ سے تو صرف ان لڑکوں کو گھبرانا چاہیئے تھا جو لڑکیوں کے حلقے میں رہتے تھے۔ وہ لڑکے جنہیں لڑکیوں کے حلقے سے دور کا تعلق بھی نہ تھا انہیں گھبرانے کی کیا ضرورت تھی۔ لیکن اسفند کے متعلق ان کے جذبات بھی اسی قسم کے تھے اور یہ وبا اس قدر عام ہو چکی تھی کہ ایک روز ہنگامہ ہوگیا۔ ہوسٹل کے صدر دروازے سے باہر برگد کے درخت کے نیچے وسیع میدان میں شور شرابے کی آوازیں سنی گئیں۔ تمام لڑکے بورڈنگ سے باہر نکل آئے ادھر کالج سے بھی لڑکے آ موجود ہوئے برگد کے نیچے دو لڑکے آپس میں لڑ رہے تھے۔ لڑائی نے ہاتھا پائی کی صورت اختیار نہ کی تھی۔ دونوں بڑے غصے سے چیخ رہے تھے۔
ابے جا بے تیری حیثیت کیا ہے کل کا لونڈا ہے۔ تو ہمارا کیا مقابلہ کرے گا۔ میں وہ کمینہ ہوں، وہ کمینہ ہوں کہ۔۔۔۔
ابے ہٹ بے بڑا آیا ہے کہیں سے۔ میرے روبرو تیری دال نہیں گل سکتی۔ تو میری کمینگی سے واقف نہیں شکل و صورت تو دیکھ اپنی بھگوان کی سوگند جیسے چھپکلی ہو۔
ابے جا۔ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔
اس طرح دیر تک وہ چلاتے رہے۔
بات کیا ہے بات کیا ہے۔ لڑکوں نے چاروں طرف شور مچا دیا۔
بورڈنگ اور کالج میں ایک ہنگامہ ہوگیا۔ لڑکے بھاگے بھاگے آ پہنچے۔
چاروں طرف خبر مشہور ہو گئی کہ برگد تلے جھگڑا ہو رہا ہے۔ ایک لڑکا کہتا ہے میں کمینہ ہوں دوسرا کہتا ہے کہ تیری کیا حیثیت ہے اپنے سامنے۔ میں بہت بڑا کمینہ ہوں۔ عجیب جھگڑا تھا۔ لٰہذا سب برگد کے درخت کی طرف بھاگے حتٰی کہ پروفیسر اور چھ لڑکیاں بھی آ پہنچیں۔
دونوں لڑکے بڑی شدت سے چلا رہے تھے منہ سے کف جاری تھا آستینیں ٹنگی ہوئی تھیں جیسے ابھی ہاتھا پائی کی نوبت آجائے گی۔
میں کہتا ہوں میں کمینہ ہوں میں۔ ایک چیخ رہا تھا۔
ابے جا۔ دوسرا کہ رہا تھا۔ تو کیا ہے تیری اوقات کیا ہے۔
جب سے لڑکوں نے جھگڑے کا انداز دیکھا تو چاروں طرف سناٹا چھا گیا۔ لڑکے فورا تاڑ گئے کہ یہ جھگڑا نہیں کچھ اور ہے نہ جانے مداری کے پٹارے سے کیسا سانپ نکلے گا۔
دیر تک چخ چخ جاری رہی۔ حتٰی کہ سب لڑکیاں آپہنچیں پروفیسر بھگت سنگھ بھی آگئے۔ لالہ جی تو دور سے تماشہ دیکھتے رہے لیکن پروفیسر بھگت سنگھ بڑے سادہ لوح اور مخلص تھے وہ گھبرا گئے انہوں نے بچاؤ کرانے کی کوششیں کیں۔
عین اسی وقت دونوں لڑکوں نے جھگڑے کا نقطہ عروج پیدا کر دیا۔
ایک بولا۔ ابے کمینگی میں میں تیرا باپ ہوں۔
بے جا۔ دوسرا چلایا۔ گلیکسو بےبی تو دیکھو۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن کی پیدائش ہے اور آیا ہے ہم سے مقابلہ کرنے ابے میں تیرے باپ کا باپ ہوں وہ کمینہ ہوں میں۔
میں خالی کمینہ نہیں ذلیل بھی ہوں۔
کس قدر ذلیل ہو تم۔ دوسرے نے غصے سے پوچھا۔ میں۔ پہلا بولا۔ میں پروفیسر بھگت سنگھ کا جوٹھا کھا سکتا ہوں۔
ابے بس۔ دوسرا چلایا۔ ابے میں کتےکا جھوٹا کھا سکتا ہوں۔
پہلا بولا۔ میں اسفند کا جوٹھا کھا سکتا ہوں۔
دوسرا خاموش ہوگیا۔ بھئی میں اسفند کا جوٹھا نہیں کھا سکتا۔ میں ہار گیا ہار گیا۔
چاروں طرف قہقہوں کا شور اٹھا۔
دو لڑکوں نے بڑھ کر پہلے لڑکے کو شانوں پر اٹھا لیا۔ اور اسے لے بھاگے جیت گیا!!!! جیت گیا!!! جیت گیا!!! وہ چلا رہے تھے اس سے بڑی ذلت نہیں ہو سکتی زندہ باد شام زندہ باد شام۔
ارے۔ ایلی حیرت سے چلایا۔ یہ تو شام ہے۔
ادھر اسفند کھڑا مسکرا رہا تھا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو جیسے شام نے اس کا نام ہی نہ لیا ہو۔ اور لیا بھی ہو تو محض مذاق اور تفریح کے طور پر لیا ہو۔
لیکن بھگت سنگھ چلاتے جا رہے تھے۔ نالائقوں نے میرا نام خوامخواہ لے دیا ارے میں تو گرو کا پیارا ہوں۔ مجھے کیوں گھسیٹتے ہو اپنے جھگڑوں میں۔
پھر شام چپکے سے ایلی کے کان میں کہہ رہا تھا۔ وہ پچھاڑا ہے آج کہ سالا کبھی اٹھ نہ سکے گا۔ اور اسفند یوں دیکھ رہا تھا جیسے پوچھ رہا ہو۔ کسے بھائی؟۔
اس روز رات کو بورڈنگ میں بہت ہنگامہ ہوا۔ ہر ڈار میٹری میں لڑکے اس ڈرامے کو دہرا رہے تھے جو اس شام برگد کے درخت تلے شام نے کھیلا تھا۔ میں کمینہ ہوں۔ ایک ڈار میٹری سے آواز آتی۔ ابے تیری کیا ہمت ہے جو ہمارے ہوتے ہوئے یہ دعوٰی کرے۔ دوسری ڈار میٹری سے کوئی چلاتا۔ ابے جا بے۔ تیسری ڈار میٹری سے شور بلند ہوتا۔ اوپر چوبارے میں کھڑے لالہ جی مسکرا رہے تھے۔ میں کہتاہوں بھئی۔ وہ کہہ رہے تھے۔ اس بات کا تو فیصلہ شام کو ہو چکا اب کوئی اور دعوےٰ کرو۔
ڈائیننگ ہال میں کومن روم میں لان میں ہر جگہ لڑکے باتیں کر رہے تھے۔
یار شام نے وہ مار دی ہے وہ مار دی ہے اسفند کو کہ چاروں شانے چت گریا ہے۔
ارے لڑکیوں کو دیکھا تھا مارے ہنسی کے پیٹ میں بل پڑ رہے تھے۔
اب اسفند کا لڑکیوں پر جادو نہیں چلے گا۔
اونہوں۔ اندر شام کہہ رہا تھا۔ یار اپنی ساری محنت بیکار گئی۔ اسفند پر تو کوئی اثر ہی نہ ہوا مجھے سے پوچھ رہا تھا یار یہ گڑ بڑ کس بات پر تھی اپنی سمجھ میں نہیں آیا کچھ۔ اب بتاؤ ایسے آدمی سے کوئی کیا کرے۔
ارے نہیں یار بنتا ہے۔ ایک نے جواب دیا۔
ہاں اندر سے تو چکنا چور ہو گیا ہے۔