عمران خان صاحب مان لیں کہ آپ فیل ہو چکے ہیں

زیرک

محفلین
عمران خان صاحب مان لیں کہ آپ فیل ہو چکے ہیں
ایم کیو ایم نے چائے کی پیالی میں طوفان مچا دیا ہے، ترمیمی بل کے بعد خلاؤں میں محوِ پرواز خود کو سیاسی ہنی مون پارٹ ٹو کے لیے تیار کرنے والی حکومت کے پاؤں اس وقت واپس زمین پر آن لگے جب ایم کیوایم کے خالد مقبول صدیقی نے وزارت سے علیحدگی کا اعلان کر دیا، اس پر میٹھی نیند سوئی ہوئی وفاقی حکومت ایکشن میں آ گئی، بوکھلاہٹ میں فون کھڑکنے لگے، "صدیقی صاحب یار یہ کیا کر رہے ہیں، ایسا مت کیجیئے، دیکھیں اس سے اپوزیشن کو فائدہ ہو گا، خراب معیشت کے باعث حالات پہلے ہی مشکل ہیں، آپ مزید مشکل بنانے لگے ہیں، فیصلہ کرنے سے پہلے ہم سے رابطہ کر لیتے"۔ ایم کیو ایم کے اس اعلان کے بعد حکومت کو قدرے سکون محسوس ہوا کہ "ہم حکومت کی حمایت جاری رکھیں گے، فروغ نسیم بدستور وفاقی کابینہ کا حصہ رہیں گے"۔ لیکن اب حکومتی حلقوں میں ڈر کا ماحول بن گیا ہے کہ ایم کیو ایم کا کوئی بھروسہ نہیں رہا، یہ کسی وقت بھی پلٹا مار سکتی ہے۔ بلاول زرداری کی ایم کیو ایم کو آفر کی گونج ایک بار پھر حکومتی حلقوں کے لیے اختلاجِ قلب کا باعث بننے لگی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ "ایم کیو ایم پاکستان کے مطالبات جائز ہیں، ان کے ساتھ کیے گئے تمام وعدے وفا کریں گے۔ ایم کیو ایم پاکستان حکومت کی بہترین اور بااعتماد اتحادی ہے، کراچی ملک کی معاشی حب ہے، کراچی کو کسی صورت نظراندازنہیں کر سکتے۔ کراچی کے عوام نے تحریک انصاف پر اعتماد کیا ہے، اسے ٹھیس نہیں پہنچائیں گے"۔ یعنی حکومت بچاؤ کی ہر ممکن کوشش جاری رہے گی چاہے دوری جانب عوام بیروزگاری اور اصل و مصنوعی مہنگائی سے مرتی رہے، مہاتما نے گورنس کو بہتر نہیں کرنا کیونکہ اس کا انہیں کوئی تجربہ نہیں ہے۔ اناڑی بندر کے ہاتھ استرا آ گیا ہے اور غریب کے کان، ناک اور پیٹ تک کٹ رہے ہیں۔ کافی دنوں سے مجھ سمیت بہت سے لوگ لکھ رہے تھے کہ معیشت کے بگاڑ میں بدانتظامی کا عنصر بدرجۂ اتم موجود شامل ہے۔ اب تو سٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی کہہ دیا ہے کہ مہنگائی کی بڑی وجہ بیڈ گورنس ہے۔ کہا جاتا ہے ملک خسارے میں جا رہا ہے، زرمبادلہ قرضوں اور قرض کے سود میں باہر چلا جاتا ہے، روپے کی قدر گرنے سے ہر شے مہنگی ہوئی ہے(حالانکہ روپے کی قدر حکومت نے خود گرائی ہے)، چلیں امپورٹڈ مال کی قیمت بڑھنے کی وجوہات کو ہم مان لیتے ہیں، لیکن آٹا اور چینی کیا ڈالروں میں آتے ہیں؟ نہیں ناں، تو جناب اسے عمران خان حکومت کی بی حسی سمجھیں، کہ شوگر اور فلور ملز مافیا کو رج کے لوٹنے کو کھلا میدان دے دیا گیا ہے، پوری قیمت پر مہنگا اور کم وزن آٹا بیچا جا رہا ہے اور حکومت اس ظلم کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کر رہی سوائے اس کے کہ لوٹ مار کے مال سے میں سے کچھ حصہ لے کر شیلٹر ہوم جیسےشو آف کام کیے جا رہے ہیں جہاں بھوکے کو کھانا اور سونے کو بستر دے دیا جاتا ہے، اس پروگرام کی آڑ میں لیڈروں کے فوٹو سیشن ہوتے ہیں، اشتہارات میں لیڈر نمائی ہوتی ہے، غرین مرتا ہےتو مرے انہیں اس سے کیا لینا دینا۔اس پر دھرا ظلم یہ ہو رہا ہے کہ ہر ماہ بجلی اور گیس کے فی یونٹ نرخوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے، یہی نہیں بلکہ سرکاری اداروں، کارخانوں اور کاروباری سینٹروں کی بجلی چوری کا بل بھی غریب عوام سے لیا جا رہا ہے جو کہ صراصر ظلم ہے، عمران خان پاکستان کو اوپر اٹھانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پاکستانیوں کو ہی دنیا سے اٹھا دیا جائے۔ پتہ بھی ہے عوام کیا کہہ رہی ہے؟ روٹی سستی کرو، کھانے پینے کی اشیاء سستی کرو، بجلی سستی کرو، گیس سستی کرو، پٹرول سستا کرو، بیروزگاری کم کرو،، مہنگائی کم کرو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جھوٹ بولنا کم کرو۔ اب تو یہ حال ہے کہ مہنگائی اور بیروزگاری سے سیف سٹیز لاہور، اسلام آباد، رالپنڈی سمیت پنجاب کے تمام بڑے چھوٹے شہروں میں لوگ بھوک سے تنگ آ کر چوریاں اور ڈاکے مارنا شروع ہو گئے ہیں، لیکن خبر آئے گی تو یہی کہ عمران خان کے بھانجے شیر شاہ کے گھر میں ڈاکا مارنے والے ڈاکو پکڑے گئے، باقی افراد جن کے گھر ڈاکے پڑے ہیں یاجن کے گھر چوریاں ہوئی ہیں کیا وہ پاکستان کے شہری نہیں؟ کیا اس ملک میں صرف حکمران سے منسلک افراد کے لیے ہی قانون حرکت میں آئے گا؟ کسی بزرگ کا قول ہے کہ "اگر کوئی اپنی بھوک مٹانے کے لیے چوری کرتا ہے تو اس کے بجائے حکمران کے ہاتھ کاٹے جائیں"۔ جب جب مہنگائی، بیروزگاری، بیڈ گورنس میں اضافہ ہو گا تو جرائم اور کرپشن کے ریٹ میں بھی اضافہ ہو گا۔ عوام نے ووٹ دے دیا، آپ حکمران بن گئے، اب بطور حکمران آپ کا فرض بنتا ہے کہ عوام کو ان کا حق دیں، امن عامہ کو بہتر بنائے، روزگار کے مواقع پیدا کرے اور عوام کو سہولیات دے، اگر ایسا نہیں کر سکتے تو پھر آپ کو حکمرانی کا حق حاصل نہیں، اقتدار سے چمٹے رہنے سے مزید بدنامی ہی حاصل ہو گی۔ اپنی حکومت بچانی ہو تو آپ نیند سے جاگ اٹھتے ہیں لیکن بھوک اور بیروزگاری سے عوام کی نیند اڑی ہوئی ہے لیکن اس طرف جناب کی توجہ نہیں جاتی، افسوس۔
 

جاسم محمد

محفلین
عمران خان صاحب مان لیں کہ آپ فیل ہو چکے ہیں
ایم کیو ایم نے چائے کی پیالی میں طوفان مچا دیا ہے، ترمیمی بل کے بعد خلاؤں میں محوِ پرواز خود کو سیاسی ہنی مون پارٹ ٹو کے لیے تیار کرنے والی حکومت کے پاؤں اس وقت واپس زمین پر آن لگے جب ایم کیوایم کے خالد مقبول صدیقی نے وزارت سے علیحدگی کا اعلان کر دیا، اس پر میٹھی نیند سوئی ہوئی وفاقی حکومت ایکشن میں آ گئی، بوکھلاہٹ میں فون کھڑکنے لگے، "صدیقی صاحب یار یہ کیا کر رہے ہیں، ایسا مت کیجیئے، دیکھیں اس سے اپوزیشن کو فائدہ ہو گا، خراب معیشت کے باعث حالات پہلے ہی مشکل ہیں، آپ مزید مشکل بنانے لگے ہیں، فیصلہ کرنے سے پہلے ہم سے رابطہ کر لیتے"۔ ایم کیو ایم کے اس اعلان کے بعد حکومت کو قدرے سکون محسوس ہوا کہ "ہم حکومت کی حمایت جاری رکھیں گے، فروغ نسیم بدستور وفاقی کابینہ کا حصہ رہیں گے"۔ لیکن اب حکومتی حلقوں میں ڈر کا ماحول بن گیا ہے کہ ایم کیو ایم کا کوئی بھروسہ نہیں رہا، یہ کسی وقت بھی پلٹا مار سکتی ہے۔ بلاول زرداری کی ایم کیو ایم کو آفر کی گونج ایک بار پھر حکومتی حلقوں کے لیے اختلاجِ قلب کا باعث بننے لگی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ "ایم کیو ایم پاکستان کے مطالبات جائز ہیں، ان کے ساتھ کیے گئے تمام وعدے وفا کریں گے۔ ایم کیو ایم پاکستان حکومت کی بہترین اور بااعتماد اتحادی ہے، کراچی ملک کی معاشی حب ہے، کراچی کو کسی صورت نظراندازنہیں کر سکتے۔ کراچی کے عوام نے تحریک انصاف پر اعتماد کیا ہے، اسے ٹھیس نہیں پہنچائیں گے"۔ یعنی حکومت بچاؤ کی ہر ممکن کوشش جاری رہے گی چاہے دوری جانب عوام بیروزگاری اور اصل و مصنوعی مہنگائی سے مرتی رہے، مہاتما نے گورنس کو بہتر نہیں کرنا کیونکہ اس کا انہیں کوئی تجربہ نہیں ہے۔ اناڑی بندر کے ہاتھ استرا آ گیا ہے اور غریب کے کان، ناک اور پیٹ تک کٹ رہے ہیں۔ کافی دنوں سے مجھ سمیت بہت سے لوگ لکھ رہے تھے کہ معیشت کے بگاڑ میں بدانتظامی کا عنصر بدرجۂ اتم موجود شامل ہے۔ اب تو سٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی کہہ دیا ہے کہ مہنگائی کی بڑی وجہ بیڈ گورنس ہے۔ کہا جاتا ہے ملک خسارے میں جا رہا ہے، زرمبادلہ قرضوں اور قرض کے سود میں باہر چلا جاتا ہے، روپے کی قدر گرنے سے ہر شے مہنگی ہوئی ہے(حالانکہ روپے کی قدر حکومت نے خود گرائی ہے)، چلیں امپورٹڈ مال کی قیمت بڑھنے کی وجوہات کو ہم مان لیتے ہیں، لیکن آٹا اور چینی کیا ڈالروں میں آتے ہیں؟ نہیں ناں، تو جناب اسے عمران خان حکومت کی بی حسی سمجھیں، کہ شوگر اور فلور ملز مافیا کو رج کے لوٹنے کو کھلا میدان دے دیا گیا ہے، پوری قیمت پر مہنگا اور کم وزن آٹا بیچا جا رہا ہے اور حکومت اس ظلم کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کر رہی سوائے اس کے کہ لوٹ مار کے مال سے میں سے کچھ حصہ لے کر شیلٹر ہوم جیسےشو آف کام کیے جا رہے ہیں جہاں بھوکے کو کھانا اور سونے کو بستر دے دیا جاتا ہے، اس پروگرام کی آڑ میں لیڈروں کے فوٹو سیشن ہوتے ہیں، اشتہارات میں لیڈر نمائی ہوتی ہے، غرین مرتا ہےتو مرے انہیں اس سے کیا لینا دینا۔اس پر دھرا ظلم یہ ہو رہا ہے کہ ہر ماہ بجلی اور گیس کے فی یونٹ نرخوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے، یہی نہیں بلکہ سرکاری اداروں، کارخانوں اور کاروباری سینٹروں کی بجلی چوری کا بل بھی غریب عوام سے لیا جا رہا ہے جو کہ صراصر ظلم ہے، عمران خان پاکستان کو اوپر اٹھانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پاکستانیوں کو ہی دنیا سے اٹھا دیا جائے۔ پتہ بھی ہے عوام کیا کہہ رہی ہے؟ روٹی سستی کرو، کھانے پینے کی اشیاء سستی کرو، بجلی سستی کرو، گیس سستی کرو، پٹرول سستا کرو، بیروزگاری کم کرو،، مہنگائی کم کرو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جھوٹ بولنا کم کرو۔ اب تو یہ حال ہے کہ مہنگائی اور بیروزگاری سے سیف سٹیز لاہور، اسلام آباد، رالپنڈی سمیت پنجاب کے تمام بڑے چھوٹے شہروں میں لوگ بھوک سے تنگ آ کر چوریاں اور ڈاکے مارنا شروع ہو گئے ہیں، لیکن خبر آئے گی تو یہی کہ عمران خان کے بھانجے شیر شاہ کے گھر میں ڈاکا مارنے والے ڈاکو پکڑے گئے، باقی افراد جن کے گھر ڈاکے پڑے ہیں یاجن کے گھر چوریاں ہوئی ہیں کیا وہ پاکستان کے شہری نہیں؟ کیا اس ملک میں صرف حکمران سے منسلک افراد کے لیے ہی قانون حرکت میں آئے گا؟ کسی بزرگ کا قول ہے کہ "اگر کوئی اپنی بھوک مٹانے کے لیے چوری کرتا ہے تو اس کے بجائے حکمران کے ہاتھ کاٹے جائیں"۔ جب جب مہنگائی، بیروزگاری، بیڈ گورنس میں اضافہ ہو گا تو جرائم اور کرپشن کے ریٹ میں بھی اضافہ ہو گا۔ عوام نے ووٹ دے دیا، آپ حکمران بن گئے، اب بطور حکمران آپ کا فرض بنتا ہے کہ عوام کو ان کا حق دیں، امن عامہ کو بہتر بنائے، روزگار کے مواقع پیدا کرے اور عوام کو سہولیات دے، اگر ایسا نہیں کر سکتے تو پھر آپ کو حکمرانی کا حق حاصل نہیں، اقتدار سے چمٹے رہنے سے مزید بدنامی ہی حاصل ہو گی۔ اپنی حکومت بچانی ہو تو آپ نیند سے جاگ اٹھتے ہیں لیکن بھوک اور بیروزگاری سے عوام کی نیند اڑی ہوئی ہے لیکن اس طرف جناب کی توجہ نہیں جاتی، افسوس۔
ٹھیک ہے مان گئے عمران خان فیل ہو چکے ہیں۔ آپ عمران خان کا متبادل لا کر دیجئے۔ ابھی اسمبلیاں توڑ کر ان کو اقتدار میں لے آتے ہیں۔
 

زیرک

محفلین
ٹھیک ہے مان گئے عمران خان فیل ہو چکے ہیں۔ آپ عمران خان کا متبادل لا کر دیجئے۔ ابھی اسمبلیاں توڑ کر ان کو اقتدار میں لے آتے ہیں۔
تمام جماعتوں میں سے اچھے باکردار لوگ لیے جا سکتے ہیں، ان پر مشتمل انتظامیہ کے ساتھ نئی شروعات کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ نئی انتظامیہ آئی ایم ایف سے دوبارہ نئی شرائط کے تحت مذاکرات کرے، تین سالہ سخت شرائط کر نرم شرائط سے تبدیل کروائے، حکومتی اخراجات کم کیے جائیں، مراعات کو کیپ کیا جائے، مقدس مخلوق کا چارہ کم کیا جائے۔ جب عوام دیکھے گی کہ سب کے ساتھ یکساں سلوک ہو رہا ہے تو شاید وہ بھی مشکل حالات کے تحت روزہ رکھنے پہ راضی ہو جائے۔
 
Top