جبکہ قرضے لینے اور مہنگائی میں آنجناب دوسروں سے کہیں آگے ہیں اور معیشت روز بروز تنزلی کا شکار ہے۔
قرضے زیادہ کیوں لینے پڑ رہے ہیں، اس کیلئے ملک کی درآمداد، برآمداد، ترسیلات زر اور بیرونی قرضوں کا جائزہ لے لیں۔
پاکستان ہر سال تقریباً ۲۷ ارب ڈالر کی برآمداد کرتا ہے۔ اور بیرون ملک مقیم پاکستانی ہر سال تقریباً ۲۳ ارب ڈالر پاکستان بھیجتے ہیں۔ یوں ۲۲ کروڑ کے ملک کی کل سالانہ آمدن صرف ۲۷ + ۲۳ = ۵۰ ارب ڈالر ہے۔
اب ذرا اخراجات کا جائزہ لے لیں۔ پاکستان ہر سال ۵۰ ارب ڈالر تک کی درآمداد کرتا ہے۔ اوپر سے اسے ہر سال ماضی میں لئے گئے بیرونی قرضوں پر قسطیں بمع سود ادا کرنی پڑتی ہیں۔ مشرف دور میں سالانہ قسط قریبا ۱ ارب ڈالر، زرداری دور میں ۴ ارب ڈالر اور نواز شریف دور کے اختتام تک یہ قسط ۱۰ ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ چکی تھی۔
یعنی اگر پاکستان اپنی برآمداد و درآمداد بیلنس کر بھی لے تو اسے ہر سال بیرونی قرضوں کی قسطیں ادا کرنے کیلئے مزید قرضہ لینا پڑتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا بیرونی قرضہ بجائے کم ہونے کے بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ۲۰۱۳ میں زرداری دور کے اختتام پر بیرونی قرضہ اسٹیبل ہو گیا تھا۔ مگر الحمدللّٰہ شریفین کی برکت سے اب یہ ہر سال اسی طرح ۱۰ ارب ڈالر کے حساب سے بڑھتا چلا جائے گا۔ اور گالیاں عمران خان کو پڑیں گی۔