جاسم محمد
محفلین
عمران خان کی حکومت کو مت گرائیں: ناقابلِ اشاعت کالم
08/02/2020 عمار مسعود
یہ بات اب سب پر واضح ہوتی جا رہی ہے کہ ملک کی معشیت کو سنبھالا دینا عمران خان کے بس کی بات نہیں رہی۔ حالات روز بہ روز دگرگوں ہو رہے ہیں۔ اشیائے صرف کی قیمتوں میں خوفناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ ڈالر کی قیمت کسی طور کم نہیں ہو رہی، پٹرول کی قیمت میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ شرح بے روزگاری پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے۔ کاروبار ٹھپ ہو رہے ہیں۔ آٹے اور چینی کی قیمت نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ ترقیاتی منصوبوں پر ہونے والے تمام اخراجات روک دیے گئے ہیں۔ تعلیم اور صحت پر اخراجات منجمد کر دیے گئے ہیں۔ بجلی اور گیس کے نرخوں میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں اربوں ڈوب رہے ہیں۔ معشیت کا پہیہ جام ہو چکا ہے۔ ملک کی متوقع شرح ترقی دو فیصد رہ گئی ہے۔
حد تو یہ ہے کہ اس وقت افغانستان اور بنگلہ دیش ہم سے زیادہ بہتر شرح نمو رکھتے ہیں۔ کوئی دن آتا ہے کہ ہم خبر سنیں گے کہ فلاں فلاں سرکاری ادارے اپنے ملازمین کی تنخواہ نہیں دے سکے۔ بس اب اسی کی کسر رہ گئی ہے۔
عمران خان کے وہ حامی جو انہیں اقتدار میں لانے کا سبب بنے، جو مثبت رپورٹنگ کی تلقین کرتے رہے، اب خان صاحب سے ناخوش ہو رہے ہیں۔ اب انہیں خان صاحب کا لا ابالی پن کھلنے لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب سیاسی قیدیوں کی ضمانتیں اسی رفتار سے ہو رہی ہیں جس رفتار سے کبھی گرفتاریاں ہوا کرتی تھیں۔ میڈیا جو کبھی مثبت رپورٹوں پر مامور تھا اب کھل کر عمران خان کی حقیقت عوام کو بتا رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جن زرخرید لوگوں نے عمران خان کو بنایا تھا اب وہی اس عمارت کو منہدم کرنے کی ڈیوٹی پر لگے ہوئے ہیں۔
دوسری جانب لندن میں ملاقاتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ بات چیت سے ایسا حل نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ ہر دوسرا شخص آپ کو مارچ، اپریل میں ان ہاؤس تبدیلی اور سال کے اواخر میں الیکشن کی نوید سنا رہا ہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف کے حامی اور مرکز میں اتحادی خان صاحب کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ کوئی دن آئے گا اور تحریک انصاف کی حکومت کا یہ مصنوعی طور پر بنایا ہوا ریت کا محل بکھر جائے گا۔
خلائی مخلوق والے آج کل دو سوالوں کا جواب تلاش کر رہے ہیں۔ ایک تو بات واضح ہے کہ عمران خان کو جتنی کم عددی برتری حاصل ہے اس کے نتیجے میں چند مہرے ادھر ادھر کرکے ان کی حکومت گرانا ایک نہایت آسان کام ہے۔ اپوزیشن اسی لمحے کی تاک میں ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کو گرا کر کیا حاصل ہو گا؟
اگر مقصد صرف وزیر اعظم کے نام کی تبدیلی ہے تو یہ مقصد نہایت ناکافی ہے۔ اگر مقصد عمران خان کو وقتی شکست دینا ہے تو بھی یہ کوئی صائب بات نہیں۔ بند دروازوں کے پیچھے ہونے والی ملاقاتوں کے نتیجے میں حکومت تو چلی جائے گی مگر آنے والی حکومت بھی اسی خوف اور خدشے میں اپنا دور حکومت بسر کرے گی۔ عمران خان کی حکومت ختم ہو جائے گی مگر عمران خان کے لئے اس سے زیادہ مبارک بات کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔
معیشت کو جس بحران میں ڈال دیا گیا ہے اس کو درست کرنے کے بجائے اس سے جان چھڑا لی جائے تو بہتر ہے۔ اس طرح کے اقدام سے عمران خان سیاسی شہِید بن جائیں گے۔ وہ اپوزیشن میں آئیں گے اور اپوزیشن کی سیاست خان صاحب کو خوب آتی ہے۔ وہ موجودہ اپوزیشن کی طرح خاموش نہیں رہیں گے بلکہ سب کے کچے چٹھے عوام کے سامنے رکھ دیں گے۔ ”عمران خان میں اپنے محسنوں کو دغا دینے کی بے پناہ اہلیت ہے اسی اہلیت نے محکمہ زراعت کو تذبذب میں ڈال رکھا ہے“۔
اس بات کو یوں سمجھیے کہ پیپلز پارٹی پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی۔ انہوں نے دو ہزار آٹھ سے دو ہزار تیرہ تک حکومت کی۔ اس دور کو گورننس کے حوالے سے بدترین کہا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد عوام نے پیپلز پارٹی کو ایک صوبے کی دیہی آبادی کی جماعت بنا دیا۔ اس کا سبب یہی ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے پانچ سال پورے کیے۔
خان صاحب کی حکومت جیسی بھی ہے اس کو بھی پانچ سال پورے کرنے چاہیں تاکہ اگلے انتخابات میں عوام ان کے کاموں کی داد ان کی غلطیوں کا احتساب ووٹ کے ذریعے کر سکیں۔ اگر ایسا نہ ہوا اور ماضی کے ہتھکنڈوں کے ذریعے یہ حکومت ختم کی گئی تو سمجھ لیجیے کہ انیس سو اٹھاسی سے انیس سو ستانوے والا دور واپس آ جائے گا۔ پارٹیوں کی باریاں لگیں گی اور آخر میں کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
دوسرا سوال جو مقتدر حلقوں کو پریشان کر رہا ہے کہ موجودہ دور میں مضبوط معیشت اور سیاسی استحکام کسی بھی ملک کا پہلا دفاع ہوتا ہے۔ جس نہج پر حکومت معیشت کو لے آئی ہے اب اس سے استحکام پر بھی زد آ سکتی ہے۔ کمزور معیشتیں طاقتوروں کے لئے تر نوالہ ثابت ہو سکتی ہے۔ دشمنوں کو بڑھاوا دے سکتی ہیں۔ مقتدر حلقے اس بات پر بھی سوچ رہے ہیں کہ اگر عمران خان کے پانچ سال پورے ہو گئے تو یہ نہ ہو کہ ملک کو کوئی ایسا نقصان پہنچ جائے جس کی تلافی نہ ہو سکے۔ اس لئے اب اپنی غلطیوں پر پشیمان خلائی مخلوق کچھ جلدی میں ہے۔
ایک نئی حکومت سے ان کی غلطیوں کی پردہ پوشی ہو سکتی ہے۔ لیکن اناؤں کا کھیل اب بھی جاری ہے۔ مسلم لیگ ن اب بالکل قابل قبول ہو چکی ہے۔ لیکن نواز شریف اور مریم نواز سے بغض اب بھی جاری ہے۔ اسحاق ڈار کا گھر لنگر خانہ بنا کر اب بھی دھمکایا جا رہا ہے۔ اس گھمسان کی صورت حال میں عوام بری طرح پس رہے ہیں۔
سیاسی مسائل کا حل سیاست میں ہی پوشیدہ ہوتا ہے۔ جس مشکل میں اب ملک دھنس چکا ہے اس مشکل سے نکلنے کی واحد صورت یہ رہ گئی ہے کہ نئے الیکشن کروائے جائیں۔ لیکن نئے الیکشن تک پہنچنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ موجودہ اسمبلیاں توڑی جائیں۔ یہ اسمبلیاں کسی دباؤ کی خاطر نہ توڑی جائیں بلکہ ملکی مفاد کو مدنظر رکھ کر یہ فیصلہ کیا جائے۔ ”تادم تحریر خان صاحب اس کے لئے تیار نہیں“۔
نئے الیکشن ہی مسئلے کا حل ہیں مگر ان الیکشن کا تک پہنچنے کا رستہ اگر جمہوری نہیں ہو گا تو اس سے ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ اس نازک موقع پر کسی سیاسی جماعتوں یا مقتدر حلقوں کی جانب سے کسی بھی غیر جمہوری طرز عمل سے مسئلہ سلجھے گا نہیں بلکہ مزید الجھے گا اور پھر یہاں ہر روز ہیرو، ولن بنے گا اور ولن، ہیرو بنتا رہے گا۔ سمجھ لیجیے کہ یہ تماشا چہرے بدل، بدل کر چلتا رہے گا۔
08/02/2020 عمار مسعود
یہ بات اب سب پر واضح ہوتی جا رہی ہے کہ ملک کی معشیت کو سنبھالا دینا عمران خان کے بس کی بات نہیں رہی۔ حالات روز بہ روز دگرگوں ہو رہے ہیں۔ اشیائے صرف کی قیمتوں میں خوفناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ ڈالر کی قیمت کسی طور کم نہیں ہو رہی، پٹرول کی قیمت میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ شرح بے روزگاری پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے۔ کاروبار ٹھپ ہو رہے ہیں۔ آٹے اور چینی کی قیمت نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ ترقیاتی منصوبوں پر ہونے والے تمام اخراجات روک دیے گئے ہیں۔ تعلیم اور صحت پر اخراجات منجمد کر دیے گئے ہیں۔ بجلی اور گیس کے نرخوں میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں اربوں ڈوب رہے ہیں۔ معشیت کا پہیہ جام ہو چکا ہے۔ ملک کی متوقع شرح ترقی دو فیصد رہ گئی ہے۔
حد تو یہ ہے کہ اس وقت افغانستان اور بنگلہ دیش ہم سے زیادہ بہتر شرح نمو رکھتے ہیں۔ کوئی دن آتا ہے کہ ہم خبر سنیں گے کہ فلاں فلاں سرکاری ادارے اپنے ملازمین کی تنخواہ نہیں دے سکے۔ بس اب اسی کی کسر رہ گئی ہے۔
عمران خان کے وہ حامی جو انہیں اقتدار میں لانے کا سبب بنے، جو مثبت رپورٹنگ کی تلقین کرتے رہے، اب خان صاحب سے ناخوش ہو رہے ہیں۔ اب انہیں خان صاحب کا لا ابالی پن کھلنے لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب سیاسی قیدیوں کی ضمانتیں اسی رفتار سے ہو رہی ہیں جس رفتار سے کبھی گرفتاریاں ہوا کرتی تھیں۔ میڈیا جو کبھی مثبت رپورٹوں پر مامور تھا اب کھل کر عمران خان کی حقیقت عوام کو بتا رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جن زرخرید لوگوں نے عمران خان کو بنایا تھا اب وہی اس عمارت کو منہدم کرنے کی ڈیوٹی پر لگے ہوئے ہیں۔
دوسری جانب لندن میں ملاقاتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ بات چیت سے ایسا حل نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ ہر دوسرا شخص آپ کو مارچ، اپریل میں ان ہاؤس تبدیلی اور سال کے اواخر میں الیکشن کی نوید سنا رہا ہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف کے حامی اور مرکز میں اتحادی خان صاحب کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ کوئی دن آئے گا اور تحریک انصاف کی حکومت کا یہ مصنوعی طور پر بنایا ہوا ریت کا محل بکھر جائے گا۔
خلائی مخلوق والے آج کل دو سوالوں کا جواب تلاش کر رہے ہیں۔ ایک تو بات واضح ہے کہ عمران خان کو جتنی کم عددی برتری حاصل ہے اس کے نتیجے میں چند مہرے ادھر ادھر کرکے ان کی حکومت گرانا ایک نہایت آسان کام ہے۔ اپوزیشن اسی لمحے کی تاک میں ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کو گرا کر کیا حاصل ہو گا؟
اگر مقصد صرف وزیر اعظم کے نام کی تبدیلی ہے تو یہ مقصد نہایت ناکافی ہے۔ اگر مقصد عمران خان کو وقتی شکست دینا ہے تو بھی یہ کوئی صائب بات نہیں۔ بند دروازوں کے پیچھے ہونے والی ملاقاتوں کے نتیجے میں حکومت تو چلی جائے گی مگر آنے والی حکومت بھی اسی خوف اور خدشے میں اپنا دور حکومت بسر کرے گی۔ عمران خان کی حکومت ختم ہو جائے گی مگر عمران خان کے لئے اس سے زیادہ مبارک بات کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔
معیشت کو جس بحران میں ڈال دیا گیا ہے اس کو درست کرنے کے بجائے اس سے جان چھڑا لی جائے تو بہتر ہے۔ اس طرح کے اقدام سے عمران خان سیاسی شہِید بن جائیں گے۔ وہ اپوزیشن میں آئیں گے اور اپوزیشن کی سیاست خان صاحب کو خوب آتی ہے۔ وہ موجودہ اپوزیشن کی طرح خاموش نہیں رہیں گے بلکہ سب کے کچے چٹھے عوام کے سامنے رکھ دیں گے۔ ”عمران خان میں اپنے محسنوں کو دغا دینے کی بے پناہ اہلیت ہے اسی اہلیت نے محکمہ زراعت کو تذبذب میں ڈال رکھا ہے“۔
اس بات کو یوں سمجھیے کہ پیپلز پارٹی پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی۔ انہوں نے دو ہزار آٹھ سے دو ہزار تیرہ تک حکومت کی۔ اس دور کو گورننس کے حوالے سے بدترین کہا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد عوام نے پیپلز پارٹی کو ایک صوبے کی دیہی آبادی کی جماعت بنا دیا۔ اس کا سبب یہی ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے پانچ سال پورے کیے۔
خان صاحب کی حکومت جیسی بھی ہے اس کو بھی پانچ سال پورے کرنے چاہیں تاکہ اگلے انتخابات میں عوام ان کے کاموں کی داد ان کی غلطیوں کا احتساب ووٹ کے ذریعے کر سکیں۔ اگر ایسا نہ ہوا اور ماضی کے ہتھکنڈوں کے ذریعے یہ حکومت ختم کی گئی تو سمجھ لیجیے کہ انیس سو اٹھاسی سے انیس سو ستانوے والا دور واپس آ جائے گا۔ پارٹیوں کی باریاں لگیں گی اور آخر میں کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
دوسرا سوال جو مقتدر حلقوں کو پریشان کر رہا ہے کہ موجودہ دور میں مضبوط معیشت اور سیاسی استحکام کسی بھی ملک کا پہلا دفاع ہوتا ہے۔ جس نہج پر حکومت معیشت کو لے آئی ہے اب اس سے استحکام پر بھی زد آ سکتی ہے۔ کمزور معیشتیں طاقتوروں کے لئے تر نوالہ ثابت ہو سکتی ہے۔ دشمنوں کو بڑھاوا دے سکتی ہیں۔ مقتدر حلقے اس بات پر بھی سوچ رہے ہیں کہ اگر عمران خان کے پانچ سال پورے ہو گئے تو یہ نہ ہو کہ ملک کو کوئی ایسا نقصان پہنچ جائے جس کی تلافی نہ ہو سکے۔ اس لئے اب اپنی غلطیوں پر پشیمان خلائی مخلوق کچھ جلدی میں ہے۔
ایک نئی حکومت سے ان کی غلطیوں کی پردہ پوشی ہو سکتی ہے۔ لیکن اناؤں کا کھیل اب بھی جاری ہے۔ مسلم لیگ ن اب بالکل قابل قبول ہو چکی ہے۔ لیکن نواز شریف اور مریم نواز سے بغض اب بھی جاری ہے۔ اسحاق ڈار کا گھر لنگر خانہ بنا کر اب بھی دھمکایا جا رہا ہے۔ اس گھمسان کی صورت حال میں عوام بری طرح پس رہے ہیں۔
سیاسی مسائل کا حل سیاست میں ہی پوشیدہ ہوتا ہے۔ جس مشکل میں اب ملک دھنس چکا ہے اس مشکل سے نکلنے کی واحد صورت یہ رہ گئی ہے کہ نئے الیکشن کروائے جائیں۔ لیکن نئے الیکشن تک پہنچنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ موجودہ اسمبلیاں توڑی جائیں۔ یہ اسمبلیاں کسی دباؤ کی خاطر نہ توڑی جائیں بلکہ ملکی مفاد کو مدنظر رکھ کر یہ فیصلہ کیا جائے۔ ”تادم تحریر خان صاحب اس کے لئے تیار نہیں“۔
نئے الیکشن ہی مسئلے کا حل ہیں مگر ان الیکشن کا تک پہنچنے کا رستہ اگر جمہوری نہیں ہو گا تو اس سے ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ اس نازک موقع پر کسی سیاسی جماعتوں یا مقتدر حلقوں کی جانب سے کسی بھی غیر جمہوری طرز عمل سے مسئلہ سلجھے گا نہیں بلکہ مزید الجھے گا اور پھر یہاں ہر روز ہیرو، ولن بنے گا اور ولن، ہیرو بنتا رہے گا۔ سمجھ لیجیے کہ یہ تماشا چہرے بدل، بدل کر چلتا رہے گا۔