!عطا الحق قاسمی صاحب کی نام آج کے جذباتی نوجوان کا پیغام - By Mr. Adeel Asghar
! عطا الحق قاسمی صاحب کی نام آج کے جذباتی نوجوان کا پیغام
بیس جنوری ٢٠١٢ کو انتہائی محترم جناب عطا الحق قاسمی صاحب کا ایک کالم جنگ میں چھپا تھا. انھوں نے بڑی خوبصورتی سے اس میں عمران خان صاحب کو کچھ گراں قدر مشورے دئیے ہیں. ان کہ مشورے پڑھ کر ان کے درد دل اور عمران خان کے لئے ان کی دلی محبّت کا خوب اندازہ ہوتا ہے. میرا یہ پیغام لکھنے کا مقصد آپ کی باتوں کا جواب دینا نہیں ہے لیکن پھر بھی چند سوالات کے جواب میں آپ کو سوالات کی شکل میں ہی دینا چاہوں گا
پہلی بات تو یہ کہ عمران خان شوکت خانم کے نام پے سیاست نہیں کرتے اور زیادہ سے زیادہ اسے اپنی تنظیمی اہلیت ظاہر کرنے کیلئے مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں. لیکن بالفرض ہم آپ کے الزام کو درست سمجھ لیں تو میرا سوال یہ ہے کہ اگر کل کو ڈاکٹر ثاقب یا جنرل مقبول میر سیاست میں آتے ہیں اور لوگوں سے اپنے اچھے کاموں کی بنیاد پر ووٹ مانگتے ہیں تو اس میں کیا برائی ہے؟ میں آپ کا کالم باقائدگی سے پڑھتا ہوں اور آپ کی تحریر میں جو جداگانہ طنزو مزاح کا پہلو ہے وہ آپ کو سب سے منفرد کرتا ہے. لیکن آپ کی طرف سی ایسی دلیل سن کر مجھے دلی دکھ ہوا ہے. یعنی آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہوا کے پاکستان میں وہ انسان سیاست ہی نہ کرے جس نے کوئی اچھا کام کیا ہو؟ آپ نے مزید دلیل دی کے اسطرح اعلیٰ درجہ کے فلاحی کام کو نقصان پہنچ سکتا ہے. تو کیا آپ کے خیال میں سیاست کوئی نچلے درجے کا فلاحی کام ہے؟ یا یہ سرے سے کوئی فلاحی کام ہی نہیں؟
آپ نے ایک اور گزارش تحریک انصاف کے کارکنوں سے کی ہے کے وہ آپ کے اختلاف راءے کو برداشت کریں اور الزامات نہ لگانا شروع کر دیں. لیکن کیا آپ نے اس سے اوپر والی سطور میں PTI کو اسٹبلیشمنٹ کی بنی ہوئی جماعت لکھ کر ایک الزام عائد نہیں کیا؟ کیا یہ ناانصافی نہیں کے آپ کسی پر الزام لگا کر اسے کہیں کہ اب مجھ پے الزام نا لگانا؟ اگر آپ سمجھتے ہیں کے آپ الزام نہیں حقیقت بیان کر رہے ہیں تو خدارا اس کا ثبوت اور دلیل ہمارے سامنے پیش کریں. سنی سنائی پھیلانے کے بارے میں بھی یقیناً کوئی ممانعت ھمارے دین نے رکھی ہو گی
ایک طرف تو آپ کا وہ لطیف طنز و مزاح جس میں آپ ڈاکٹر سلیم صاحب کی بلی والے واقعہ میں لکھتے ہیں
“صرف مجھے بتایا کہ جانتے ہیں کہ میں اس طرح کی بات آگے نہیں کیا کرتا”
کو پڑھ کے بندہ خوب داد دیتا ہے. اور دوسری طرف وہی یکطرفہ جھکاؤ جو کے ہماری نوجوان نسل کو آپ کا تبدیلی سے ڈرنے والا رویہ لگنا شروع ہو گیا ہے. یہ تو تھے کچھ نکات جن کا میں نے جواب دینا ضروری سمجھا . اب میں آپ کے اندرونی وسوسوں اور سوالات میں سے کچھ کا جواب دیتا ہوں
آپ کو شائد سمجھ نا آتی ہو کے یہ نوجوان کیوں پاگلوں کی طرح عمران خان کے پیچھے بھاگ رہے ہیں؟ میں آپ کو آج اس کا آسان جواب دیتا ہوں. اس جواب کے لئے آپ کو اپنی جوانی کا زمانہ یاد کرنا ہو گا. ذرا اپنی ذاتی پسند نا پسند ایک طرف رکھ کر یہ سوچیں کہ اس وقت ملک کو کیا ایک ایسے لیڈر کی ضرورت نہیں جو ایماندار، بہادر اور بےریا ہو؟ اور اگر آپ اپنے اندر کے ادیب کے ساتھ انصاف کرتے ہوے تعصب سے بالاتر ہو کر سوچیں تو آپ کو بھی عمران خان موجودہ سیاست دانوں میں سے بہترین انتحاب نظر آے گا. ہم کہ جنھیں کل تک آپ دانشور حضرات انٹرنیٹ جنریشن کا لقب دیا کرتے تھے، آج اگر آپ لوگوں کی سجھائی راہ کو دیکھنے تک کیلئے راضی نہیں تو اس کی وجہ آپ کا بدلتے ھوے حالات کا ادراک کرنے میں ناکام رہنا ہے
میں یہاں اس بات کی بھی وضاحت کر دوں کے آپ کو نوجوانوں کے جس نامناسب رویے کی شکایات ہے وہ کسی طور بھی جائز قرار نہیں دیا جا سکتا. لیکن آپ کا بھی فرض ہے کے آپ تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھیں. آخر کیا وجہ ہے اس قدر غصّے کی؟ تو جناب و اعلیٰ! بات سیدھی سی ہے، ٦٤ برس گزر گئے اور آپ کی جنریشن نے پاکستان کو ان حالات تک آتے ھوے دیکھا. آپ سب اپنی ہلکی پھلکی قلمی کاروائی کر کے عوام سے یہ کہتے رہے کی بھائی یہ کر لو یا وہ کر لو. لیکن آپ میں سے کیا کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کے میدان میں آتا؟ نہیں جناب سیاست تو ہیں ہی غلیظ کھیل اس میں آپ جیسے شریف لوگ کیسے آ سکتے تھے. کیا عمران خان کا بھی یہی قصور نہیں؟ اچھا بھلا کنارے پے بیٹھا تھا ایسے ہی کود پڑا ہے غلاظت میں اور اوپر سے کہتا ہیں میں سب گند صاف کر دوں گا. اور یہ مان بھی لیا جاے کہ آپ کا کام اگر صرف راہ نمائی کرنا تھا تو کیا آپ اس بات کو قبول کریں گے کہ آپ اس میں ناکام رہے ہیں؟
سر بڑی معذرت کے ساتھ، لیکن ہم ایسے نہیں رہ سکتے جیسے آپ تھے اور نہ ہی ہم اپنے ملک کو ایسا رهنے دیں گے انشاللہ! ہم آج کے نوجوان ہیں جو آپ کے طنز و مزاح کو پڑھ کر لطف اٹھاتے ہیں اور آپ کی تنقید کو پڑھ کر بلا تعصب اپنی ذات کا تجزیہ کرتے ہیں اور مسکرا کر آگے پڑھ جاتے ہیں. آخر میں صرف اتنا عرض کروں گا کے میں نے ابھی اقبال
(رح) کو سہی طرح پڑھنا بھی شروع نہیں کیا. لیکن جیسے کہتے ہیں نہ کے ہر دعا کے قبول ہونے کا ایک وقت ہوتا ہے تو ویسے ہی لگتا ہے جیسے اقبال (رح) کی ایک دعا کے پورا ہونے کا وقت آن پہنچا
زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا راگ ہے ساز بدلے گئے
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
جگر سے وہی تیر پھر پار کر
تمنّا کو سینوں میں بیدار کر
جوانوں کو سوز جگر بخش دے
میرا عشق میری نظر بخش دے