اگست میں مارچ۔ اصل مدعا کیاہے؟...جرگہ۔۔۔۔۔سلیم صافی
SMS: #SSA (space) message & send to 8001
[ای میل محذوف]
یقین جانئے یہ چار حلقے اور دھاندلی وغیرہ محض بہانہ ہے ۔ مدعا اور کھیل کچھ اور ہے ۔ پی ٹی آئی کے اندر اتنی ہی جمہوریت ہے جتنی کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے اندر ہے ۔ ایک کے ہاں ایک خاندان کی آمریت ہے ‘ دوسرے کے ہاںدوسرے خاندان کی اور یہاں صرف عمران خان کی ۔ پارٹی کے اند رانتخابات کابہت غلغلہ تھا لیکن بلوچستان کی منتخب تنظیم کی چھٹی کراکے صاحب جہاز لیڈر کے ذاتی دوست اور سابق بیوروکریٹ کو صدر نامزد کیا گیا ہے ۔ خیبر پختونخوا کے منتخب صدر اسد قیصر تھے ۔ انہیں اسمبلی کا ا سپیکر بنا دیا گیالیکن وہ اب بھی بھرپور سیاست کررہے ہیں ۔ منتخب جنرل سیکرٹری شوکت یوسف زئی پہلے پارٹی عہدے کے ساتھ ساتھ دو وزارتوں کے بھی وزیر تھے۔ ان سے جہانگیر ترین صاحب اوران کی وجہ سے عمران خان صاحب ناراض ہوگئے ۔ ان کی وزارت صحت اتحادی جماعت کی شہرام ترکئی کو دے دی گئی اور وزارت اطلاعات مسلم لیگ(ق) کے سابق صوبائی جنرل سیکرٹری مشتاق غنی کو۔ اب جب وزارت سے فارغ کردیا گیا تو جنرل سیکرٹری کے عہدے پر تو شوکت یوسف زئی کو بحال ہونا چاہئے تھا‘ لیکن ان کی جگہ ایک غیرمنتخب شخص کو صوبائی جنرل سیکرٹری بنا دیا گیا ہے ۔اسد قیصر اور شوکت یوسف زئی کو اس اصول کے تحت پارٹی عہدوں سے فارغ کردیا گیا کہ حکومتی اور پارٹی عہدے ساتھ نہیں ہونے چاہئیں جو کہ اچھی بات تھی اور ہم جیسوں کا مطالبہ بھی تھا لیکن اب وزیراعلیٰ کی مشیر خاتون کو خواتین ونگ کی صدر نامزد کیا گیا۔اسی طرح کارکنوں اور پارٹی تنظیموں کی مرضی کے بغیر مولانا فضل الرحمٰن کے سابق دست راست اعظم سواتی کو صوبائی صدر کی حیثیت سے پارٹی پر مسلط کردیا گیا ہے جن پر الزام ہے کہ پارٹی کے صوبائی صدارت کے انتخابات کے موقع پر انہوں نے دھاندلی کی تھی اس کے ثبوت عمران خان صاحب کو پیش بھی کئے گئے ہیں ۔ نہ صوبائی عہدیداروں کا دوبارہ انتخاب کیا جارہا ہے اور نہ مرکزی عہدیداروں کا۔ واضح رہے کہ جہانگیر ترین صاحب منتخب نہیں بلکہ نامزد جنرل سیکرٹری ہیں ۔ دوسری طرف پارٹی کے منتخب مرکزی اور صوبائی کونسلوں کو عملاً دفن کردیا گیا ہے کیونکہ ان میں بعض لوگ عمران خان صاحب اور ان کے چار منظور نظر لوگوں کی مرضی کے خلاف بات کرنے والے بھی ہیں ۔ اس کی جگہ نامزد لوگوں کی کور کمیٹی بنائی گئی ہے اور اس سے ہر فیصلے پر مہرتصدیق ثبت کرائی جاتی ہے حالانکہ پی ٹی آئی کے آئین میں کور کمیٹی کا کوئی ذکر نہیں۔ جہاں تک دھاندلی سے اختلاف کا تعلق ہے تو پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ خیبرپختونخوا کے صوبائی عہدیداروں کے انتخابات کے دوران پیسوں کے استعمال اور دھاندلی کا الزام پی ٹی آئی ہی کے عہدیدار لگا چکے ہیں ۔ وہ ویڈیوز کے ساتھ ثبوت مرکزی قیادت کو بھی دے چکے ہیں ۔ اس کا نوٹس پی ٹی آئی کے مرکزی الیکشن کمیشن نے بھی لیا تھا لیکن آج تک اس نے اس دھاندلی کا کوئی فیصلہ نہیں کیا ۔ اب جو پارٹی اپنے عہدیداروں کے انتخابات کے دوران دھاندلی کا فیصلہ نہیں کرسکی ‘ وہ عام انتخابات کی دھاندلی کے الزامات کا فیصلہ نہ ہونے پر کس منہ سے الیکشن کمیشن آف پاکستان پر معترض ہے ۔ پارٹی الیکشن کمیشن کی حالت تو یہ ہے۔ اب آئیے اصل کھیل کی طرف ۔ اصل کھیل یہ ہے کہ اس وقت پی ٹی آئی کے اصل مختار پانچ لوگ ہیں ۔ عمران خان ‘ جہانگیر ترین‘ شاہ محمود قریشی ‘ شیرین مزاری اور اسد عمر ۔ ابتداء میں ان کا خیال تھا کہ خیبرپختونخوا کی حکومت کو انجوائے کرنے کے ساتھ ساتھ وہ کامیابیوں کے جھڈے گاڑ کر اسے باقی پاکستان میں کامیابی کے لئے وسیلہ بنا دیں گے لیکن ایک تو ان لوگوں نے کے پی کے میں جو من مانیاں کرنی تھیں ‘ کرلیں اور دوسرا ان کو یہ اندازہ ہوگیا کہ پانچ سال پورے ہونے کی صورت میں حکومت کی ناقص کارکردگی باقی ملک میں بھی گلے کا طوق بن سکتی ہے ۔ اس لئے بھی موجودہ سسٹم کو تلپٹ کرکے دوبارہ انتخابات کے لئے تحریک اٹھانے کا پروگرام بنایا گیا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ پانچ سال کا انتظار مشکل ہوتا جارہا ہے ۔ جہانگیر ترین صاحب موجودہ اسمبلی سے باہر ہیں ۔ شاہ محمود قریشی صاحب کو یقین ہے کہ وہ دوبارہ بھی اپنے حلقے جیت جائیں گے جبکہ وہ وزیراعلیٰ پنجاب بلکہ بعض اطلاعات کے مطابق وزیراعظم بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔ اسدعمر صاحب کو یقین ہے کہ جس طرح اب کی بار انہیں اسلام آباد سے منتخب کرایا گیا ‘ اسی طرح دوبارہ کسی جگہ سے منتخب کرائے جائیں گے اور پھر وہ مرکزی حکومت میں اہم ترین منصب پر فائز ہوں گے ۔ شیرین مزاری صاحب بھی دوبارہ انتخاب کی صورت میں وزیرخارجہ بننے کے خواب دیکھ رہی ہیں ۔ چنانچہ دھاندلی کو بنیاد بنا کر نظام کو تلپٹ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا اور ابتدائی منصوبہ اسمبلیوں سے استعفے دینے کا بنا لیکن بات جب خیبر پختونخوا اسمبلی تک گئی تو وہاں کے وزیراعلیٰ اور اکثر ممبران نے اتفاق نہیں کیا۔ خیبرپختونخوا کی تنظیم ‘ وزراء‘ ممبران قومی اسمبلی اور ممبران صوبائی اسمبلی دھاندلی کی بنیاد پر مارچ کے حق میں بھی نہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں اگر دھاندلی ہوئی ہے تو ان کے حق میں ہوئی ہے ۔ وزیراعلیٰ‘ وزراء اور اراکین اسمبلی کا خیال یہ ہے کہ ابھی تو انہوں نے ترقیاتی منصوبے شروع ہی کئے ہیں اور گزشتہ سال تو وہ فنڈ بھی وہ خرچ نہیں کرسکے ۔ اسی طرح امن وامان کی حالت بھی ابتر ہے اور ڈرون یا وزیرستان کے ایشو کو بھی اب وہ کیش نہیں کرسکتے ۔ یوں اگر وہ دوبارہ عوام کے پاس جائینگے تو ان کا واپس آنا ناممکن ہے ۔ وہ پانچ سال کا وقت چاہتے ہیں تاکہ وہ عوام کو کچھ دکھاسکیں ۔ وہ سب سمجھتے ہیں اور ٹھیک سمجھتے ہیں کہ دوبارہ انتخاب کی صورت میں پنجاب میں تو کامیابی مل سکتی ہے لیکن خیبرپختونخوا سے جنازہ نکل جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب کے چار حلقوں میں دھاندلی کا مقدمہ میڈیا میں پنجاب کے ممبران یا خود متاثرین سے لڑنے کی بجائے عمران خان صاحب خیبرپختونخوا کے ایم این ایز سے وزراء کے ذریعے لڑ رہے ہیں تاکہ ان کو زیادہ سے زیادہ اس معاملے میں دخیل کیا جاسکے لیکن اس سے خیبرپختونخوا کے ان ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کی پوزیشن یوں مزید خراب ہورہی ہے کہ ان کے حلقوں کے لوگ انہیں اپنے صوبے یا حلقے کے مسائل پر بولتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں ۔ خیبرپختونخوا کی پی ٹی آئی اور عوام سمجھتے ہیں کہ اگر عمران خان صاحب نے لڑنے اور مرنے کا فیصلہ کرنا ہی ہے تو وہ صوبے کے حقوق‘ وزیرستان آپریشن یا پھر ڈرون جیسے مسائل پر کرلیں جن کی بنیاد پر خیبرپختونخوا کے لوگوں نے انہیں ووٹ دیئے ہیں۔ جب جنوبی وزیرستان کے آٹھ لاکھ بے گھر ہونے والے متاثرین ٹی وی چینلز پر خیبرپختونخوا کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو پنجاب کے چار حلقوں پر گلے پھاڑتے یا پھر طاہرالقادری کے کارکنوں کے غم میں ہلکان ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان کا غم و غصہ دوبالا ہوجاتا ہے ۔یہ امر پیش نظر رہے کہ خیبرپختونخوا میں جو نگران حکومت بنی تھی ‘ وہ اے این پی اور جے یو آئی نے مل کر بنائی تھی اور ان دونوں کو انتخابات میں بدترین شکست ہوئی ۔
عمران خان صاحب اب جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری کو بھی دھاندلی کا ذمہ دار قرار دلوارہے ہیں ۔ اب پنجاب میں تو جسٹس صاحب کے ناقد نجم سیھٹی نگران وزیراعلیٰ تھے لیکن خیبرپختونخوا میں افتخار محمد چوہدری کے دست راست اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق جج جسٹس طارق پرویز نگران وزیراعلیٰ تھے ۔ پنجاب کے آراوز نجم سیٹھی کے ماتحت نہیں رہے تھے لیکن خیبرپختونخوا کے آراوز سب کے سب جسٹس (ر) طارق پرویز کے ماتحت رہے تھے ۔ اب اگر افتخارچوہدری اور آراوز نے تحریک انصاف کے خلاف دھاندلی کرنی تھی تو پھر خیبرپختونخوا میں کیوں نہیں کی ؟۔ یوں یہ خیال پارٹی کے اندر اور باہر تقویت پارہا ہے کہ اگر دھاندلی ہوئی بھی ہے تو ذمہ دار وہ لوگ نہیں ہیں جن کا نام عمران خان صاحب لے رہے ہیں یا پھر یہ کہ اصل مقصد اور ہدف کچھ اور ہے لیکن چار حلقوں کی دھاندلی کو بہانہ بنایا جارہا ہے ۔ سنجیدہ حلقوں کی یہی رائے ہے کہ پہلے تو اگست میں مارچ مناسب نہیں اور اگر کرنا ہی تھا تو پھر مرکز اور صوبوں میں گورننس کی ناکامی جیسے بنیادی ایشوز پر ہوتا جوپارلیمنٹ کے اندر ہوتا تو زیادہ مناسب تھا۔