جاسم محمد
محفلین
عمران خان یس مین نہیں
حامد میر
’’تمہیں ذمہ داری اس وقت ملے گی جب تم اس ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہو جائو گے۔‘‘
یہ الفاظ میاں بشیر صاحب کے تھے جو انہوں نے 2002ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کی شکست کے کچھ عرصہ بعد عمران خان کو کہے تھے۔ ان انتخابات میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف پاکستان میں نہیں تھے لیکن اس کے باوجود تحریک انصاف صرف ایک نشست حاصل کر سکی تھی جس پر عمران خان میانوالی سے کامیاب ہوئے تھے۔ انتخابات سے پہلے تحریک انصاف کے کئی اہم امیدوار عمران خان کو چھوڑ کر مسلم لیگ (ق) میں چلے گئے تھے کیونکہ انہیں پتہ چل گیا تھا کہ جنرل پرویز مشرف انکی پارٹی کے خلاف ہے۔ انتخابات میں ناکامی کے بعد تحریک انصاف کے بعض رہنما مایوسی کا شکار ہو کر سیاست چھوڑ گئے تھے۔ انتخابی مہم کے اخراجات پورے کرنے کیلئے عمران خان نے کچھ قرضے بھی لئے تھے جس کی وجہ سے تحریک انصاف شدید مالی بحران کا شکار تھی۔ عمران خان سخت پریشان تھے اور اسی پریشانی کے عالم میں ایک دن وہ اپنے پرانے دوست گولڈی(عمرفاروق) کے ساتھ میاں بشیر کے پاس پہنچے۔ میاں بشیر صاحب سے عمران خان دین کے ساتھ ساتھ دنیا کے معاملات میں بھی رہنمائی لیا کرتے تھے۔ گولڈی نے مایوسی اور شکست خوردہ لہجے میں میاں بشیر صاحب سے پوچھا کہ ہماری پارٹی کب اقتدار میں آئے گی ؟میاں بشیر صاحب نے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔
کچھ دیر بعد انہوں نے اپنی آنکھیں کھولیں اور عمران خان سے کہا کہ تمہیں حکومت کی ذمہ داری اس وقت ملے گی جب تم اس ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہو جائو گے۔ یہ الفاظ سن کر اچانک عمران خان کو اپنے اندر سے آواز آئی کہ وہ تو حکومت کی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہی نہیں۔ایک صوفی نے عمران خان پر یہ رازفاش کر دیا تھا کہ انہیں اس وقت تک حکومت نہیں ملے گی جب تک وہ اس کے قابل نہیں بنیں گے۔یہ وہ زمانہ تھا جب جمائما خان نے بھی عمران خان کو کہنا شروع کر دیا کہ وہ سیاست کےبجائے شوکت خانم کینسر ہاسپیٹل پر زیادہ توجہ دے لیکن میاں بشیر صاحب نے جمائما کو یہ سمجھایا کہ اگر عمران خان جیسے لوگ سیاست میں نہیں آئیں گے تو پھر پاکستان میں تبدیلی کیسے آئے گی ؟شوکت خانم ہاسپیٹل کے بورڈ کے ارکان رزاق دائود اور ڈاکٹر پرویز حسن نے بھی عمران خان سے کہا کہ سیاست چھوڑ دو ورنہ ہاسپیٹل کیلئے فنڈز کا حصول مشکل ہو جائے گا لیکن عمران خان کو یقین تھا کہ جس دن وہ حکومت کی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہو جائیں گے انہیں یہ ذمہ داری ضرور ملے گی۔ اکتوبر 2011ء وہ سال تھا جب عمران خان نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ وہ حکومت کی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہو چکے ہیں۔
2011ء تحریک انصاف کی اٹھان کا سال تھا اور اگلے سات سال میں بہت سے ایسے سیاست دان تحریک انصاف میں شامل ہو گئے جو عمران خان کو ایک پاگل کپتان کہا کرتے تھے۔25 جولائی 2018ء کے انتخابات کا ہنگامہ ختم ہونے کے دس روز بعد عمران خان سے بنی گالہ میں ملاقات ہوئی تو وہ بڑے مطمئن، پرسکون لیکن پرعزم دکھائی دے رہے تھے۔ ملاقات کے دوران ان کے دفتر میں ہم دونوں کے علاوہ شیرو بھی موجود تھا لیکن شیرو ایک طرف زمین پر پڑا بے فکری کی نیند میں کھویا ہوا تھا۔ شاید اسے نہیں پتہ کہ کچھ دن بعد وہ بنی گالہ کے پرفضا مقام سے اسلام آباد کی منسٹرز کالونی کے کسی ایسے گھر میں منتقل کر دیا جائے گا جو کہنے کو تو پرائم منسٹر ہائوس ہو گا لیکن وہاں بھاگ دوڑ کیلئے اسے کھلا میدان نہیں ملے گا۔
عمران خان سے بہت سی باتیں ہوئیں لیکن یہ آف دی ریکارڈ تھیں۔ وہ میرے ساتھ اس زمانے کی باتیں کرتے رہے جب وہ قومی اسمبلی میں اپنی پارٹی کے واحد رکن تھے اور پرویز مشرف ٹی وی چینلز پر انکی شکل دیکھ کر غصے میں آ جایا کرتے تھے۔ ہماری گفتگو میں سیاست و صحافت کی کئی اہم شخصیات کا ذکر آتا رہا لیکن عمران خان نے نواز شریف اور آصف زرداری سمیت کسی کے خلاف کوئی گفتگو نہیں کی۔ وہ مثبت باتیں کر رہے تھے میں نے انہیں بتایا کہ انتخابات میں کامیابی کے بعد انکی تقریر میں مسئلہ کشمیر کے ذکر پر سرینگر سے شکریئے کے پیغامات آئے ہیں وہاں کے لوگ بہت خوش ہیں لیکن نئی دہلی خوش نہیں نریندر مودی کی طرف سے مبارکباد کا فون آنے کے کچھ دنوں بعد دیامر میں دہشت گردی کے واقعات گہری سازش کا نتیجہ ہیں۔ دیامر کے علاقے چلاس میں اسکولوں پر حملے کے واقعات پر عمران خان کو بھی بہت تشویش تھی انہیں یہ بھی بتایا کہ شمالی علاقہ جات میں ڈیم اور کچھ ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات کے بعد سازشیں شروع ہو چکی ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد آپ کو ان سازشوں کا مقابلہ کرنا ہے اور پانی کی کمی کا مسئلہ بھی حل کرنا ہے۔
انتخابی مہم میں مصروف رہنے کے باعث عمران خان کو سپریم کورٹ کی طرف سے قائم کئے گئے ڈیم فنڈ کے متعلق زیادہ تفصیلات کا پتہ نہیں تھا جب میں نے کچھ تفصیل بتائی تو عمران خان نے کہا کہ قومی مسائل کے حل کیلئے قوم کو متحد ہونا پڑے گا۔ اجازت لینے سے قبل میں نے کہا کہ اپنے کسی سیاسی مخالف کو انتقام کا نشانہ مت بنائیے گا اور نہ کسی پر مقدمے بنائیے گا احتساب کا معاملہ نیب اور عدالتوں پر چھوڑ دیں خان صاحب نے میری بات مکمل ہونے سے پہلے ہی اثبات میں سر ہلایا اور میں نے دل ہی دل میں ان کی ثابت قدمی کیلئے دعا کی کیونکہ یہ خاکسار ماضی میں متعدد وزرائے اعظم کی زبان سے ایسی باتیں سن چکا ہے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد وہ اپنے کہے پر قائم نہ رہے یا انہیں قائم نہ رہنے دیا گیا۔
امید ہے کہ ہمارے ملک کے طاقتور ریاستی ادارے عمران خان کو اپنا یس مین بنا کر ناکام نہیں کریں گے بلکہ عمران خان کے ذریعہ قومی اہمیت کے حامل مسائل پر اتفاق رائے قائم کرنے کی کوشش کریں گے اور اس ملک سے سیاسی انتقام کے کلچر کا خاتمہ کریں گے اور عمران بھی کسی کو اپنا یس مین بنانے کی کوشش نہیں کریں گے۔ چلتے چلتے عمران خان نے اپنی پارٹی کے ایک رہنما کا نام لیکر پوچھا کہ میں اسے وزیرخارجہ بنانا چاہتا ہوں وہ اسپیکر بننا چاہتا ہے اسے کیا مسئلہ ہے ؟یہ وہ واحد پریشانی تھی جس کا اظہار عمران خان نے میرے ساتھ کیا اور میں نے جو جواب دیا وہ آپ کو کچھ دنوں میں پتہ چل جائے گا۔
عمران خان کے دفتر سے باہر نکلا تو سامنے سے جہانگیر ترین آ رہےتھے اور ان کے دائیں بائیں پنجاب اسمبلی کے کچھ آزاد اراکین تھے۔ ترین صاحب نے میرے ساتھ کچھ شکوے شکائتیں کیں اور پھر آزاد اراکین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ان سے پوچھ لو یہ بیس بیس کروڑ کی پیشکش ٹھکرا کر میرے ساتھ آئے ہیں اور عمران خان کو غیر مشروط حمایت دیں گے لیکن میڈیا میں مجھ پر ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ ایک ایم پی اے نے میرے کان میں کہا کہ سائیں آپ کے اس خادم نے ان سے کچھ پیسے بھی پکڑ لئے اور ملک و قوم کے مفاد میں ان سے نظریں پھیر کر بنی گالہ بھی آ گیا ہوں۔ ویسے سنا ہے یہاں تو کوئی کسی کو چائے بھی نہیں پوچھتا۔میں نے اس شرارتی ایم پی اے کو بتایا کہ میں اندر سے بہت اچھی سی کافی پی کر آرہا ہوں تمہیں بھی کافی یا چائے ضرور پوچھی جائے گی لیکن ترقیاتی فنڈ کے نام پر رشوت نہیں ملے گی۔ ایم پی اے نے ہاتھ سینے پر رکھ کر کہا کوئی پرواہ نہیں۔ بنی گالہ سے واپس آتے ہوئے مجھے میاں بشیر صاحب کے الفاظ یاد آ رہے تھے۔ عمران خان کو ذمہ داری تو ملنے والی ہے لیکن کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب وہ اپنے وعدوں پر عمل کریں گے وعدہ خلافی ناقابل قبول ہے۔ یس مین صرف عوام کا بننا ہے کسی اور کا نہیں۔
حامد میر
’’تمہیں ذمہ داری اس وقت ملے گی جب تم اس ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہو جائو گے۔‘‘
یہ الفاظ میاں بشیر صاحب کے تھے جو انہوں نے 2002ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کی شکست کے کچھ عرصہ بعد عمران خان کو کہے تھے۔ ان انتخابات میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف پاکستان میں نہیں تھے لیکن اس کے باوجود تحریک انصاف صرف ایک نشست حاصل کر سکی تھی جس پر عمران خان میانوالی سے کامیاب ہوئے تھے۔ انتخابات سے پہلے تحریک انصاف کے کئی اہم امیدوار عمران خان کو چھوڑ کر مسلم لیگ (ق) میں چلے گئے تھے کیونکہ انہیں پتہ چل گیا تھا کہ جنرل پرویز مشرف انکی پارٹی کے خلاف ہے۔ انتخابات میں ناکامی کے بعد تحریک انصاف کے بعض رہنما مایوسی کا شکار ہو کر سیاست چھوڑ گئے تھے۔ انتخابی مہم کے اخراجات پورے کرنے کیلئے عمران خان نے کچھ قرضے بھی لئے تھے جس کی وجہ سے تحریک انصاف شدید مالی بحران کا شکار تھی۔ عمران خان سخت پریشان تھے اور اسی پریشانی کے عالم میں ایک دن وہ اپنے پرانے دوست گولڈی(عمرفاروق) کے ساتھ میاں بشیر کے پاس پہنچے۔ میاں بشیر صاحب سے عمران خان دین کے ساتھ ساتھ دنیا کے معاملات میں بھی رہنمائی لیا کرتے تھے۔ گولڈی نے مایوسی اور شکست خوردہ لہجے میں میاں بشیر صاحب سے پوچھا کہ ہماری پارٹی کب اقتدار میں آئے گی ؟میاں بشیر صاحب نے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔
کچھ دیر بعد انہوں نے اپنی آنکھیں کھولیں اور عمران خان سے کہا کہ تمہیں حکومت کی ذمہ داری اس وقت ملے گی جب تم اس ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہو جائو گے۔ یہ الفاظ سن کر اچانک عمران خان کو اپنے اندر سے آواز آئی کہ وہ تو حکومت کی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہی نہیں۔ایک صوفی نے عمران خان پر یہ رازفاش کر دیا تھا کہ انہیں اس وقت تک حکومت نہیں ملے گی جب تک وہ اس کے قابل نہیں بنیں گے۔یہ وہ زمانہ تھا جب جمائما خان نے بھی عمران خان کو کہنا شروع کر دیا کہ وہ سیاست کےبجائے شوکت خانم کینسر ہاسپیٹل پر زیادہ توجہ دے لیکن میاں بشیر صاحب نے جمائما کو یہ سمجھایا کہ اگر عمران خان جیسے لوگ سیاست میں نہیں آئیں گے تو پھر پاکستان میں تبدیلی کیسے آئے گی ؟شوکت خانم ہاسپیٹل کے بورڈ کے ارکان رزاق دائود اور ڈاکٹر پرویز حسن نے بھی عمران خان سے کہا کہ سیاست چھوڑ دو ورنہ ہاسپیٹل کیلئے فنڈز کا حصول مشکل ہو جائے گا لیکن عمران خان کو یقین تھا کہ جس دن وہ حکومت کی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہو جائیں گے انہیں یہ ذمہ داری ضرور ملے گی۔ اکتوبر 2011ء وہ سال تھا جب عمران خان نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ وہ حکومت کی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہو چکے ہیں۔
2011ء تحریک انصاف کی اٹھان کا سال تھا اور اگلے سات سال میں بہت سے ایسے سیاست دان تحریک انصاف میں شامل ہو گئے جو عمران خان کو ایک پاگل کپتان کہا کرتے تھے۔25 جولائی 2018ء کے انتخابات کا ہنگامہ ختم ہونے کے دس روز بعد عمران خان سے بنی گالہ میں ملاقات ہوئی تو وہ بڑے مطمئن، پرسکون لیکن پرعزم دکھائی دے رہے تھے۔ ملاقات کے دوران ان کے دفتر میں ہم دونوں کے علاوہ شیرو بھی موجود تھا لیکن شیرو ایک طرف زمین پر پڑا بے فکری کی نیند میں کھویا ہوا تھا۔ شاید اسے نہیں پتہ کہ کچھ دن بعد وہ بنی گالہ کے پرفضا مقام سے اسلام آباد کی منسٹرز کالونی کے کسی ایسے گھر میں منتقل کر دیا جائے گا جو کہنے کو تو پرائم منسٹر ہائوس ہو گا لیکن وہاں بھاگ دوڑ کیلئے اسے کھلا میدان نہیں ملے گا۔
عمران خان سے بہت سی باتیں ہوئیں لیکن یہ آف دی ریکارڈ تھیں۔ وہ میرے ساتھ اس زمانے کی باتیں کرتے رہے جب وہ قومی اسمبلی میں اپنی پارٹی کے واحد رکن تھے اور پرویز مشرف ٹی وی چینلز پر انکی شکل دیکھ کر غصے میں آ جایا کرتے تھے۔ ہماری گفتگو میں سیاست و صحافت کی کئی اہم شخصیات کا ذکر آتا رہا لیکن عمران خان نے نواز شریف اور آصف زرداری سمیت کسی کے خلاف کوئی گفتگو نہیں کی۔ وہ مثبت باتیں کر رہے تھے میں نے انہیں بتایا کہ انتخابات میں کامیابی کے بعد انکی تقریر میں مسئلہ کشمیر کے ذکر پر سرینگر سے شکریئے کے پیغامات آئے ہیں وہاں کے لوگ بہت خوش ہیں لیکن نئی دہلی خوش نہیں نریندر مودی کی طرف سے مبارکباد کا فون آنے کے کچھ دنوں بعد دیامر میں دہشت گردی کے واقعات گہری سازش کا نتیجہ ہیں۔ دیامر کے علاقے چلاس میں اسکولوں پر حملے کے واقعات پر عمران خان کو بھی بہت تشویش تھی انہیں یہ بھی بتایا کہ شمالی علاقہ جات میں ڈیم اور کچھ ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات کے بعد سازشیں شروع ہو چکی ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد آپ کو ان سازشوں کا مقابلہ کرنا ہے اور پانی کی کمی کا مسئلہ بھی حل کرنا ہے۔
انتخابی مہم میں مصروف رہنے کے باعث عمران خان کو سپریم کورٹ کی طرف سے قائم کئے گئے ڈیم فنڈ کے متعلق زیادہ تفصیلات کا پتہ نہیں تھا جب میں نے کچھ تفصیل بتائی تو عمران خان نے کہا کہ قومی مسائل کے حل کیلئے قوم کو متحد ہونا پڑے گا۔ اجازت لینے سے قبل میں نے کہا کہ اپنے کسی سیاسی مخالف کو انتقام کا نشانہ مت بنائیے گا اور نہ کسی پر مقدمے بنائیے گا احتساب کا معاملہ نیب اور عدالتوں پر چھوڑ دیں خان صاحب نے میری بات مکمل ہونے سے پہلے ہی اثبات میں سر ہلایا اور میں نے دل ہی دل میں ان کی ثابت قدمی کیلئے دعا کی کیونکہ یہ خاکسار ماضی میں متعدد وزرائے اعظم کی زبان سے ایسی باتیں سن چکا ہے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد وہ اپنے کہے پر قائم نہ رہے یا انہیں قائم نہ رہنے دیا گیا۔
امید ہے کہ ہمارے ملک کے طاقتور ریاستی ادارے عمران خان کو اپنا یس مین بنا کر ناکام نہیں کریں گے بلکہ عمران خان کے ذریعہ قومی اہمیت کے حامل مسائل پر اتفاق رائے قائم کرنے کی کوشش کریں گے اور اس ملک سے سیاسی انتقام کے کلچر کا خاتمہ کریں گے اور عمران بھی کسی کو اپنا یس مین بنانے کی کوشش نہیں کریں گے۔ چلتے چلتے عمران خان نے اپنی پارٹی کے ایک رہنما کا نام لیکر پوچھا کہ میں اسے وزیرخارجہ بنانا چاہتا ہوں وہ اسپیکر بننا چاہتا ہے اسے کیا مسئلہ ہے ؟یہ وہ واحد پریشانی تھی جس کا اظہار عمران خان نے میرے ساتھ کیا اور میں نے جو جواب دیا وہ آپ کو کچھ دنوں میں پتہ چل جائے گا۔
عمران خان کے دفتر سے باہر نکلا تو سامنے سے جہانگیر ترین آ رہےتھے اور ان کے دائیں بائیں پنجاب اسمبلی کے کچھ آزاد اراکین تھے۔ ترین صاحب نے میرے ساتھ کچھ شکوے شکائتیں کیں اور پھر آزاد اراکین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ان سے پوچھ لو یہ بیس بیس کروڑ کی پیشکش ٹھکرا کر میرے ساتھ آئے ہیں اور عمران خان کو غیر مشروط حمایت دیں گے لیکن میڈیا میں مجھ پر ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ ایک ایم پی اے نے میرے کان میں کہا کہ سائیں آپ کے اس خادم نے ان سے کچھ پیسے بھی پکڑ لئے اور ملک و قوم کے مفاد میں ان سے نظریں پھیر کر بنی گالہ بھی آ گیا ہوں۔ ویسے سنا ہے یہاں تو کوئی کسی کو چائے بھی نہیں پوچھتا۔میں نے اس شرارتی ایم پی اے کو بتایا کہ میں اندر سے بہت اچھی سی کافی پی کر آرہا ہوں تمہیں بھی کافی یا چائے ضرور پوچھی جائے گی لیکن ترقیاتی فنڈ کے نام پر رشوت نہیں ملے گی۔ ایم پی اے نے ہاتھ سینے پر رکھ کر کہا کوئی پرواہ نہیں۔ بنی گالہ سے واپس آتے ہوئے مجھے میاں بشیر صاحب کے الفاظ یاد آ رہے تھے۔ عمران خان کو ذمہ داری تو ملنے والی ہے لیکن کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب وہ اپنے وعدوں پر عمل کریں گے وعدہ خلافی ناقابل قبول ہے۔ یس مین صرف عوام کا بننا ہے کسی اور کا نہیں۔