عمران سیریز (لڑکیوں کا جزیرہ) صفحہ 184 تا 227

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

بلال

محفلین
(۵)
سیکرٹ سروس کے آٹھوں ممبر جزیرے والی نمائش میں چکراتے پھر رہے تھے۔ انہیں شیلا نامی ایک لڑکی کی تلاش تھی جس کا حلیہ ایکس ٹو نے بتایا تھا۔۔۔۔ لیکن انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ ایکس ٹو اس لڑکی کی تلاش میں کیوں ہے!۔۔۔۔
جولیا نافٹزواٹر اور سارجنٹ ناشاد ساتھ چل رہے تھے! سارجنٹ ناشاد بڑا پر رُعب چہرہ رکھتا تھا۔ اس کی چڑھی ہوئی بھوری مونجھیں ہی چہرے پر سب کچھ تھیں! لوگ اس کی صورت ہی دیکھ کر لرز جاتے تھے۔ مگر وہ خوف اسی وقت تک قائم رہتا تھا جب تک وہ بولتا نہیں تھا۔ جہاں اس نے گفتگو شروع کی سارا وقار رخصت ہو گیا۔ جولیا کو اس سے کچھ چڑ سی ہو گئی تھی۔ لیکن کام کی حد تک تو برداشت کرنا ہی پڑتا تھا۔ ویسے اگر وہ تنہا ہوتی تو تنویر ساتھ لگ گیا ہوتا اور تنویر کی معیت میں کوئی کام کر لینا ناممکن نہیں تو دشوار ضرور تھا کیونکہ وہ اسے اپنے دکھے ہوئے دل کی پکار سنانا شروع کر دیتا تھا! سارجنٹ ناشاد کی بکواس کی دنیا پر صرف اس کے اشعار کے انگریزی ترجموں ہی تک محدود رہتی تھی۔ مگر آج وہ کچھ چپ چاپ سا تھا۔ جس کی وجہ شاید یہ تھی کہ اسے شام سے شراب نہیں ملی تھی۔ یہاں نمائش کے کسی بار میں بیٹھ کر وہ اپنی پیاس کو بھجا سکتا تھا۔ مگر ایکس ٹو کا خوف! اسے ہر حال میں اطلاع ہو جاتی کہ سارجنٹ ناشاد نے ڈیوٹی پر شراب پی تھی۔
"یہ لڑکی شیلا۔۔۔۔" وہ آہستہ سے بڑ بڑایا۔۔ "کہیں ہمارے ایکس ٹو کی کوئی منظور نظر نہ ہو۔"
"بکواس ہے۔۔۔۔ ایکس ٹو جیسے لوگ عورتوں کی پرواہ کم کرتے ہیں۔" جولیا نے برا سا منہ بنا کر کہا۔ وہ ایکس ٹو کے متعلق کوئی برا ریمارکس سننا پسند نہیں کرتی تھی۔
"ایکس ٹو!" سارجنٹ ناشاد نے ایک طویل سانس لی۔" وہ شاید ہماری قبروں میں بھی گھس آئے گا۔"
اچانک وہ چلتے چلتے رک گیا اور جولیا کو یہی محسوس ہوا جیسے ناشاد کو بتائے ہوئے حلیے کی لڑکی نظر آگئی ہو۔ مگر ناشاد بڑبڑایا۔
"یہ عمران یہاں کیا کرتا پھر رہا ہے۔"
"وہی جو دوسرے ہزاروں آدمی کرتے پھر رہے ہیں۔ کیا تم بھول گئے کہ یہ نمائش گاہ ہے۔"
"میرا مطلب یہ ہے کہ کہیں یہ بھی اسی لڑکی کے چکر میں نہ ہو۔"
"یہ کیونکر ممکن ہے۔"
"اس آسمانی تحریر والے کیس میں کیسے ممکن ہوا تھا! مجرم تک کون پہنچا تھا!" ہم یا عمران۔۔۔۔ اسے کس نے پکڑا تھا ایکس ٹو نے یا عمران نے۔۔۔۔"
"اگر عمران نہ بکڑتا تو اسے ایکس ٹو ہی پکڑتا۔۔۔۔ تمہیں کس نے اطلاع دی تھی کہ عمران اور جولیا مجرموں کو لا رہے ہیں۔!"
"تم ایکس ٹو کی اتنی طرفدار کیوں ہو۔۔۔۔"
"وہ میرا آفیسر ہے۔۔۔۔ کیا طرفدار ہونے کے لئے اتنا ہی جواز کافی نہیں ہے۔۔۔۔"
"میں تم سے بحث نہیں کرنا چاہتا۔۔۔۔ میرا خیال ہے کہ عمران کو اس لڑکی کے سلسلے میں ٹٹولنا چاہئے۔۔۔۔ مگر تم شاید اس کی مخالفت کرو۔ کیونکہ اس نے ایک بار تمہاری جان بچائی تھی۔"
"یہ غلط ہے اگر عمران نہ ہوتا تب بھی ایکس ٹو کچھ نہ کچھ ضرور کرتا کیونکہ وہ حالات سے باخبر تھا!"
"میرے خدا۔۔۔۔! تم بڑی احسان فراموش ہو جولیا!۔۔۔۔"
"اس میں احسان فراموشی کی کوئی بات نہیں ہے!" اگر عمران بھی اس وقت کسی مصیبت میں پھنس جاتا تو کیا ہوتا! تم خود سوچو! کیا اس وقت ایکس ٹو ہم دونوں کو بچانے کی کوشش نہ کرتا۔!"
"اونہہ چھوڑو۔۔۔۔ میں تو چلا۔۔۔۔ کچھ دیر اس سے چھیڑ چھاڑ ہی رہے گی۔ اس سےگفتگو کرنے میں بڑا مزہ آتا ہے۔"
سارجنٹ ناشاد نے آگے بڑھ کر عمران کو جا لیا۔ غیر ارادی طور پر جولیا بھی اسی طرف چل پڑی۔
"کس چکر میں ہو دوست!" سارجنٹ ناشاد نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
"کچھ نہیں سوچ رہا تھا کہ ابابیل کو لاطینی میں کیا کہتے ہیں!" عمران نے مڑ کر جواب دیا۔ پھر جولیا پر نظر پڑتے ہی بولا "اوہ مس فولیا۔۔۔۔!"
"جولیا" جو لیا نے برا سا منہ بنا کر تصیحح کی!
"اوہ معاف کیجئے گا۔۔۔۔ نام مجھے ہمیشہ اسی طرح یاد آتے ہیں اور میں کیا خدمت کر سکتا ہوں آپ لوگوں کی! ویسے آج یہاں آٹھوں موجود ہیں۔!"
"یہ بہت بُری بات ہے کہ تم آٹھوں کو پہچانتے ہو!۔۔۔۔" سارجنٹ ناشاد نے کہا! "شاید شہر میں تم تنہا آدمی ہو جسے ہمارا علم ہے۔"
"اس میں برائی کیا ہے سارجنٹ شاداب!"
"شاداب نہیں ناشاد۔۔۔۔ ناشاد۔۔۔۔!"
"ایک ہی بات ہے!۔۔۔۔ ہاں تو کیا برائی ہے!" عمران نے لاپروائی سے سر ہلا کر کہا۔
"برائی تو اسی وقت معلوم ہو گی جب تم کسی سے اس کا تذکرہ کرو گے!"
"یعنی جس سے بھی اس کا تذکرہ کروں گا وہ تمہیں گالیاں دے گا! کیوں؟"
"تم تذکرہ کر کے دیکھ لو!۔۔۔۔ کیا حشر ہوتا ہے تمہارا۔۔۔۔؟"
"سارجنٹ ناشاد!" جولیا نے اسے مخاطب کیا!۔۔۔۔ "اس جگہ کتنی دیر ٹھہرنے کا ارادہ ہے؟"
"جب تک بیچارہ عمران آپ لوگوں کی حیثیث نہ بھول جائے"
عمران نے سر ہلا کر مغموم لہجے میں کہا۔
"اچھا دوست پھر تم دیکھ ہی لینا۔۔۔۔" سارجنٹ ناشاد کہتا ہوا آگے بڑھ گیا! جب جولیا بھی چلنے لگی تو عمران نے کہا!" کیا خیال ہے۔۔۔۔ اس موسم میں کافی اچھی رہے گی۔"
"نہیں شکریہ!۔۔۔۔" جولیا نے کہا اور آگے بڑھ گئی۔
وہ جانتی تھی کہ عمران اس کا تعاقب نہیں کرے گا! اس کی دانست میں اسے اس کا علم ہی نہ رہا ہو گا کہ سیکرٹ سروس والے یہاں کیوں آئے تھے۔
ایک جگہ وہ سب آملے۔۔۔۔ ان کی آپس کی گفتگو کا ماحصل یہ تھا کہ وہ شیلا کا پتہ لگانے میں اب تک ناکام رہے تھے۔۔۔۔ عمران جولیا نافٹز واٹر اور سارجنٹ ناشاد کے علاوہ اور کسی کو نہیں ملا تھا اس لئے اس کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔۔۔۔ وہ سب ہی اسے پہچانتے تھے لیکن اس کے متعلق ان کی رائے اچھی نہیں تھی۔
"اب ہمیں واپس جانا چاہئے!" تنویر نے کہا۔
جولیا کے علاوہ اور سب نے اس سے اتفاق کیا۔ جولیا کا خیال تھا کہ وہ اس وقت تک ٹھہرے گی جب تک نمائش کا اختتام نہ ہو جائے اور اس نے ان سے بھی یہی کرنے کو کہا۔
"بے کار بات ہے!۔۔۔۔" جعفری بولا۔ "ہم نے یہاں کوئی جگہ ایسی نہیں چھوڑی جہاں سے تلاش نہ کیا ہو۔ اور پھر کیا یہ آرڈر تھا کہ نمائش کے اختتام تک ہم یہاں رکیں۔"
"میں تو رکوں گی۔۔۔۔" جولیا نے کہا۔ اس کی یہ بات فیصلہ کن بھی تھی! کیونکہ تھوڑی ہی دیر بعد اس کے علاوہ اور سارے ممبر وہاں سے چلے گئے۔۔۔۔
جولیا مختلف ہوٹلوں اور ریستورانوں کے چکر لگاتی رہی۔۔۔۔ وہ آج بڑی پر کشش نظر آرہی تھی کیونکہ آج اسکرٹ کی بجائے ساڑھی میں تھی۔ ساڑھی میں وہ ہمیشہ بہت اچھی لگتی تھی!۔۔۔۔ اس کی عمر چوبیس سے کم نہیں تھی۔ لیکن نہ جانے کیوں ابھی تک چہرے پر پکا پن نہیں آیا تھا انداز میں بعض اوقات شرمیلے پن کی جھلکیاں نظر آنے لگتی تھیں۔۔۔۔ اسے ایکس ٹو کے خواب آنے لگے تھے۔ جب بھی کوئی سنجیدہ اور پر وقار آدمی اسے نظر آتا وہ اس کے متعلق سوچنے لگتی کہ کہیں وہ ایکس ٹو ہی نہ ہو۔۔۔۔ وہ ایسے آدمیوں کو دیر تک گھورتی رہتی حتی کہ وہ لوگ بھی اسے محسوس کر لیتے۔ ان میں بعض تو غلط فہمی ہی میں مبتلا ہو جاتے۔۔۔۔ جولیا سے یہ سب کچھ عموماً بے خیالی ہی میں سرزد ہوتا تھا اور پھر جب وہ خیالات کی دنیا سے باہر آتی تو اسے بڑی شرمندگی ہوتی۔ آج بھی کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ وہ چلتے چلتے تھک گئی تھی لہٰذا وہ سستانے کے لئے ایک ریستوران میں جا بیٹھی ویٹر سے کافی کے لئے کہا۔ اگر ایکس ٹو کو شراب ناپسند نہ ہوتی تو شاید وہ شراب ہی طلب کرتی پہلے وہ کبھی کبھار پی لیا کرتی تھی۔ لیکن جب اسے یہ معلوم ہوا کہ ایکس ٹو شرابیوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا۔ تب سے ایک بوند بھی اس کے لئے حرام ہو گئی تھی۔
وہ کافی کی چسکیاں لیتی رہی۔ ساتھ ہی اس کی نظر بھی چاروں طرف بھٹکتی پھر رہی تھی۔ یہاں درجنوں خوش پوش جوڑے نظر آرہے تھے اچانک اس کی نظر ایک آدمی پر رک گئی اور اس کا دل دھڑکنےلگا یہ آدمی بھی ایسا ہی تھا جس پر ایکس ٹو کا دھوکا ہو سکتا تھا۔ یہ قریب قریب حولیا ہی تھا جیسا وہ ایکس ٹو کو سمجھتی تھی یعنی ایکس ٹو کی جیسی تصویر اس نے اپنے ذہن میں بنا رکھی تھی! بھرا ہوا سا پر وقار چہرہ، کشادہ پیشانی اور آنکھیں سوچ میں ڈوبی ہوئی سی! جسم پر معمولی کپڑے کا سوٹ، لیکن رکھ رکھاؤ میں سلیقہ اور ستھرا پن۔۔۔۔ سادہ سی ٹائی!
وہ خیالات میں کھو کر اسے گھورتی رہی۔۔۔۔ بار بار اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ چیف آفیسر ایکس ٹو ہے۔ اس سے سوال کر بیٹھے۔ اس سے پوچھے کہ کیا وہ اس کا پر اسرار۔۔۔۔
پھر وہ اس وقت چونکی جب بیرا خالی برتن سمیٹنے لگا اب وہ آدمی بھی اسے کنکھیوں سے دیکھ رہا تھا۔ جولیا نے جلدی سے بل ادا کیا اور باہر نکل آئی۔ ابھی تھوڑی ہی دور گئی تھی کہ کسی نے اس کے قریب ہی سے کہا۔ "ذرا سنئےگا۔"
جولیا رک کر مڑی۔ لیکن دوسرے ہی لمحہ میں اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ کیونکہ یہ وہی آدمی تھا جسے وہ ریستوران میں ایکس ٹو سمجھ کر گھورتی رہی تھی۔
"کیا آپ مجھ سے کچھ پوچھنا چاہتی ہیں!" اس نے بڑے ادب سے کہا۔
"جی۔۔۔۔ ن۔۔۔۔ نہیں! کیوں؟"
"میں سمجھا تھا شاید! آپ مجھے اسی طرح دیکھ رہی تھیں جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہی ہوں۔!
"آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے!" جولیا نے کہہ کر آگے بڑھنے کا قصد ہی کیا تھا کہ قریب سے گزرتی ہوئی بھیڑ میں سے کسی نے دھکا دیا اور وہ گرتے گرتے بچی، اچانک اس کے قریب کھڑےہوئے آدمی نے مجمع پر ایک چھلانگ لگائی اور ایک کو گریبان سے پکڑتے ہوئے ایک طرف کھینچ لایا۔
"یہ کیا حرکت تھی؟" اس نے اس کا گریبان جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔ یہ آدمی بھی خوش پوش ہی تھا وہ اس سے الجھ پڑا۔ لیکن ریستوران والا آدمی اس سے زیادہ طاقتوار معلوم ہوتا تھا۔ اس نے دو ہی چار گھونسوں میں اسے زمین دکھا دی۔۔۔۔ ان کے گرد مجمع اکٹھا ہو گیا۔ جولیا بری طرح بوکھلا گئی تھی۔ لوگوں کے پوچھنے پر اس آدمی نے کہا "اس نے ان خاتون کو جان بوجھ کر دھکا دیا تھا۔۔۔۔"
"پولیس کو۔۔۔۔ پولیس کو دو" چاروں طرف سے آوازیں آئیں۔ اور وہ آدمی جولیا کی طرف دیکھنے لگا۔ جولیا جلدی سے بولی "نہیں جانے دیجئے! میں خواہ مخواہ بات نہیں بڑھانا چاہتی۔۔۔۔ آپ کا بہت بہت شکریہ!"
"آپ ہی لوگوں کی رحم دلی کی وجہ سے غنڈے سرکشی کرنے لگے ہیں!" اس نے جواب دیا۔
مارکھانے والا زمین پر بیٹھا بغلیں جھانک رہا تھا۔ اچانک وہ اٹھ کر بھاگا اور لوگ اس کے پیچھے دوڑنے لگے۔
"ہمیں یہاں سے ہٹ جانا چاہئے۔" جولیا ہانپتی ہوئی بولی۔
"جیسی آپ کی مرضی! ویسے میں محوس کر رہا ہوں کہ اس کے دوسرے ساتھی بھی اس بھیڑ میں موجود تھے۔ لیکن مصلحتًا خاموش رہ گئے۔ ہو سکتا ہے کہ نمائش کے باہر ان سے بھی نپٹنا پڑے۔"
"ہو سکتا ہے!" جولیا نے کہا "پھر آپ کیا کریں گے۔۔۔۔"
"کچھ نہیں دیکھا جائے گا۔۔۔۔ ان کم بختوں سے کوئی جگہ خالی نہیں ہے۔ پہلے یہ غیر ملکیوں سے گھبراتے تھے۔ اب انہیں بھی پریشان کرنے لگے ہیں۔ آپ شاید اطالوی ہیں۔"
"نہیں۔۔۔۔ سوئیس۔۔۔۔"
"او ہو! تب ہی آپ میں اتنی مشرقیت ہے۔ اطالوی اور سوئیس لڑکیاں ہماری ہی لڑکیوں کی طرح شرمیلی ہوتی ہیں۔۔۔۔ دیکھئے آپ اس مشرقی لباس میں قریب قریب مشرقی ہی معلوم ہوتی ہیں۔ ویسے میں صرف آپ کے لہجے ہی سے آپ کو غیر ملکی سمجھا تھا۔ اچھا چلئے۔ میں آپ کو گھاٹ پر پہنچا دوں۔"
"نہیں آپ کو تکلیف ہو گی۔"
"اس کی فکر نہ کیجئے! ورنہ آپ کو شکایت ہو گی کہ ایک اجنبی دیس میں آپ کے ساتھ بد سلوکی کی گئی تھی!"
"نہیں میرے دیس میں بھی برے آدمی بستے ہیں اور آپ کی طرح شریف بھی!"
وہ چلتے رہے حتیٰ کہ نمائش کے احاطے سے نکل آئے۔ باہر بھی آنے جانے والوں کی خاصی بھیڑ موجود تھی اور اس کا سلسلہ گھاٹ تک تھا۔
دفعتًا کسی نے قریب ہی سے کہا "یہی تھا" اور تین چار آدمی جولیا کے ساتھی پر ٹوٹ پڑے۔ جولیا اچھل کر ایک طرف ہٹ گئی۔ لیکن اس کا ساتھی اتنی ہی دیر میں دو آدمیوں کو نیچے گرا چکا تھا۔ پھر تیسرے کو بھی جولیا نے خلاء میں اچھلتے دیکھا۔ ایک ہی گھونسے نے اسے بھی زمین پر پہنچا دیا۔ بقیہ دو بھاگ نکلے لوگ پھر ان کے گرد اکٹھا ہونے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے خاصی بھیڑ ہو گئی اور ان تینوں کو بھی نکل جانے کا موقع مل گیا۔ بمشکل تمام انہوں نے لوگوں کے استفسارات سے پیچھا چھڑایا۔۔۔۔ اور اب وہ بھی تیزی سے گھاٹ کی طرف جارہے تھے۔
"میں پھر کہتا ہوں کہ پولیس کو رپورٹ دے دی جائے۔" جولیا کے ساتھی نے کہا۔
"ہونا تو یہی چاہئے۔" جولیا نے ہانپتے ہوئے کہا۔ "لیکن بعد کی پریشانیاں درد سر ہو جائیں گی۔ تفتیش ہو گی۔۔۔۔ مقدمہ قائم ہو گا۔ ایسی دوسری سیکنڑوں جھنجٹیں!"
"ہاں!۔۔۔۔ یہ تو ٹھیک ہے۔" اس کے ساتھی نے آہستہ سے کہا۔
بہر حال جولیا کی جان میں جان آئی کہ وہ اس بحث کو آگے بڑھانے کی بجائے اس سے متفق ہو گیا تھا۔
دونوں جلد ہی گھاٹ پر پہنچ کر ایک لانچ میں بیٹھ گئے۔
 

بلال

محفلین
(۶)
ٹھیک تین بجے رات کو جولیا کے فون کی گھنٹی بجی۔ وہ بے خبر سورہی تھی۔ گھنٹی متواتر بجتی رہی اور جاگنا ہی پڑا۔ ظاہر ہے کہ اس وقت ایکس ٹو کے علاوہ اور کون فون کر سکتا تھا۔۔۔۔ جولیا اسے پوجتی تھی۔ لیکن میٹھی نیند شاید دنیا کی ساری لذتوں سے افضل ہوتی ہے۔ ورنہ وہ اس پر جھنجھلاتی کیوں؟ اس نے لیٹے ہی لیٹے ہاتھ بڑھا کر ریسیور اٹھا لیا۔
"ہیلو!" اس نے پھرائی ہوئی آواز میں کہا اور اسے جواب میں ایکس ٹو کی آواز سنائی دی۔
"کیوں! کیا؟ وہ تمہارے گھر میں بھی آیا تھا!"
"کون؟"
"وہی جس نے تمہں غنڈوں سے نجات دلائی تھی!۔۔۔۔"
"تو کیا سچ مچ وہ آپ ہی تھے!" جولیا نیند کی جھونک میں پوچھ بیٹھی۔ وہ اب بھی اونگھ رہی تھی۔
"احمق لڑکیوں کی طرح خواب نہ دیکھا کرو!" ایکس ٹو کی غصیلی آواز نے اسے چونکا دیا۔
وہ کہہ رہا تھا۔ "تمہیں معلوم ہونا چاہئے۔ میں ایک ایسے گروہ کے چکر میں ہوں، جو شریف اور بھولی بھالی لڑکیوں کو پیشہ کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔"
"اوہو!" جولیا کی نیند بالکل غائب ہو گئی۔ "میں نہیں سمجھی۔"
"حالانکہ تمہاری آواز سے صاف ظاہر ہے کہ تم سب کچھ سمجھ گئی ہو۔"
"جی۔۔۔۔ تو کیا!"
"ہاں!۔۔۔۔ تم اسی گروہ کے ایک آدمی کے چکر میں پڑ گئی ہو!۔ وہ اسی وقت سے تمہارے پیچھے لگا ہوا تھا۔ جب تم اپنے دوسرے ساتھیوں سے الگ ہوئی تھیں۔ بہر حال کہنے کا مطلب یہ کہ اس آدمی سے ہوشیار رہنا وہ جو کچھ بھی ہوا تھا ایک اچھا خاصا ڈراما تھا!"
"تو کیا آپ نے اسی لئے مجھے وہاں بھیجا تھا؟" جولیا نے شکایت آمیز لہجے میں پوچھا۔
"نہیں میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ تم پر ڈورے ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ کیونکہ تم ایک اسمارٹ قسم کی لڑکی ہو!۔۔۔۔ مگر اسے کیا کہا جائے کہ ساڑھی میں تم بالکل بدھو معلوم ہونے لگتی ہو! ویسے حسن ضرور بڑھ جاتا ہے!۔۔۔۔"
جولیا اس ریمارک پر شرما گئی۔۔۔۔
"اچھا سنو!" ایکس ٹو کی آواز پھر آئی۔ "ہاں تم نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔ کیا وہ تمہارے ساتھ تمہارے فلیٹ میں بھی آیا تھا۔"
"جی نہیں! میں نے اخلاقاً اسے کہا بھی تھا۔۔۔۔ مگر وہ جلدی کا بہانہ کر کے چلا گیا!"
"اپنی شرافت اور بے غرضی ظاہر کرنے کے لئے! بہر حال وہ پھر تم سے ملے گا مستقبل قریب ہی میں! لیکن تم یہ نہ ظاہر ہونے دینا کہ اس کی طرف سے مطمئن ہو! اس سے خائف ہونے کی ضرورت نہیں! وہ تمہیں جب بھی ملے گا! میں تم سے زیادہ فاصلے پر نہیں ہوں گا!"
"کاش میں آپ کو دیکھ سکتی ہوں!"
"کیا کرو گی!۔۔ یہ ایک فضول خواہش ہے جو شاید کبھی نہ پوری ہو سکے!"
پھر ایکس ٹو نے جولیا کے جواب کا انتظار کئے بغیر سلسلہ منقطع کر دیا! جولیا نے ایک طویل سانس لی اور ریسور رکھ کر کھڑکی کے باہر جھانکنے لگی! اس کی آنکھوں میں غم کے سائے نظر آرہے تھے۔
 

بلال

محفلین
(۷)
دوسری شام عمران اسی لڑکی کے مکان کے سامنے موجود تھا! جس سے ماہنامہ "کمر لچکدار" کے دفتر میں ملاقات ہوئی تھی! پہلے اس نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ گھر میں موجود ہے یا نہیں! شاید وہ ابھی دفتر سے واپس نہیں ہوئی تھی! عمران نے ذرا ہی سی دیر میں اس کے متعلق بہتری معلومات فراہم کرلیں! وہ وہاں تنہا رہتی تھی۔۔۔۔ پڑوسیوں سے اس کی شناسائی نہیں تھی! کبھی کوئی اس سے ملنے کے لئے نہیں آتا تھا! راتیں گھر ہی پر گذارتی تھی! پڑوسیوں کا خیال تھا کہ وہ بہت مغرور ہے!۔۔۔۔ کسی نے آج تک اسے زنانہ لباس میں نہیں دیکھا تھا!۔۔۔۔ سردیوں میں پتلون اور چمڑے کی جیکٹ پہنتی تھی! اور گرمیوں میں قمیض اور پتلون۔ پتلونیں بھی زنانہ تراش کی نہیں ہوتی تھیں!
ٹھیک چھ بجے وہ مکان کی طرف آتی دکھائی دی! عمران نے آگے بڑھ کر اس کا استقبال کیا!۔۔۔۔ لیکن وہ عمران کو دیکھتے ہی کچھ گھبرا سی گئی!
"ہائیں!۔۔۔۔" عمران دیدے نچا کر بولا "پھر وہی پتلون!"
"یہاں تم پٹ جاؤ گے!" لڑکی نے خود کو سنبھال کر کہا! "بہتر ہے کہ چپ چاپ چلے جاؤ!"
"پٹ جانا میرے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا! سمجھیں!۔۔۔۔ لیکن اب تمہیں یہ شہر چھوڑ دینا پڑے گا!۔۔۔۔ تم شاید میری باتوں کو مذاق سمجھتی ہو!۔۔۔۔ تمہیں یقین نہیں آئے گا کہ میں پچھلی رات ایک منٹ کے لئے بھی نہیں سو سکا!۔۔۔۔ رات بھر تمہاری پتلون مجھے غصہ دلاتی رہی میری ہڈیاں سلگتی رہیں! اور آج صبح سے ہی میں نے تمہارے خلاف مواد اکٹھا کرنا شروع کر دیا تھا!۔۔۔۔ اس وقت میرے پاس اتنی طلاعات ہیں کہ خدا کی پناہ!۔۔۔۔ اب آخری بار پھر کہتا ہوں کہ یا پتلون پہننا ترک کر دو! یا اس شہر سے کہیں اور چلی جاؤ!"
"شٹ اَپ!" اس نے برا سامنہ بنا کر کہا اور آگے بڑھ گئی!
پوسٹ بکس نمبر دو سو تیرہ!" عمران نے بلند آواز میں کہا! اور وہ اچانک اس طرح پلٹی جیسے پشت پر گولی لگی ہو!۔۔۔۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر دیر تک عمران کو دیکھتی رہی پھر آہستہ آپستہ چلتی ہوئی عمران کے پاس واپس آگئی۔۔۔۔ عمران نے اسے بولنے کا موقع دیئے بغیر کہا۔
"شاید "کمر لچکدار" کے ایڈیٹر کو اس کی اطلاع نہیں ہے کہ تم بڑی رقموں کے منی آرڈر بھی وصول کرتی ہو!۔۔۔۔ کیوں"
"تم کون ہو!" لڑکی نے آہستہ سے پوچھا۔
"خدائی فوجدار! تمہیں اس سے کیا غرض۔ بس پتلون پہننا چھوڑ دو! پھر کبھی میری شکل بھی نہ دیکھو گی! بس یہ ہے کہ آج صبح سے اب تک میں نے تم پر تقریباً پانچ سو روپے صرف کئے ہیں۔!"
"مجھ پر کیوں"
"آہا تو کیا یہ معلومات مجھے مفت حاصل ہوئیں ہیں! اب اگر میں نے کل بھی تمہیں پتلون میں دیکھا تو تم جیل میں دکھائی دو گی!"
لڑکی کچھ نہ بولی اس کے چہرے پر سراسیمگی کے آثار تھے۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ بھرے بازار میں چوری کرتے پکڑی گئی ہو!
"بس میں کل تک اور انتظار کروں گا!" عمران بڑبڑایا!" صبح ہی تمہارے دفتر کے سامنے تم پر ایک نظر ڈالوں گا!۔۔۔۔ اگر تم نے میرا کہنا مان لیا تو پھر تو کبھی مجھے اپنے قریب نہیں دیکھو گی۔ سمجھیں!۔۔۔۔ دوسری صورت میں کیا ہو گا! یہ تم خود ہی سمجھ سکتی ہو۔ ویسے تمہیں اسکرٹ، غرارے یا ساڑھی میں دیکھ کر میں یہ بھی بھلا دوں گا کہ تم مجرموں اور سازشیوں کے ایک گروہ سے تعلق رکھتی ہو!"
"اب میں پتلون نہیں پہنوں گی! وعدہ کرتی ہوں!"
"ہا ہا!۔۔ ویری گڈ!" عمران احمقانہ انداز میں ہنس کر واپسی کے لئے مڑا۔۔۔۔
"سنیئے تو سہی!" لڑکی نے اسے روکا۔
"بس اب سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے! پرواہ مت کرو!" عمران نے اس کی طرف مڑے بغیر کہا۔ اور تیز قدموں سے چلتا ہوا ایک گلی میں مڑ گیا!
 

بلال

محفلین
(۸)
کیپٹن جعفری باہر جانے کے لئے تیار تھا! جیسے ہی اس نے کوٹ کی آستینوں میں ہاتھ ڈالے فون کی گھنٹی بج اٹھی۔۔۔۔ جعفری نے جھلا کر کوٹ کو میز پر ڈال دیا اور ریسیور اٹھا کر دہاڑا۔
"ہیلو!"
"آہا!" دوسری طرف سے آواز آئی۔ "تم یقیناً اپنے فون کے میٹر کو صدمہ پہنچاؤ گے!"
"اوہ۔۔۔۔ آپ! گڈ مارننگ سر!" جعفری بوکھلا گیا کیونکہ آواز ایکس ٹو کی تھی!
"مارننگ" دوسری طرف سے آواز آئی!" تمہارے لئے ایک کام ہے!"
"فرمائیے جناب!"
"ماہنامہ کمر لچکدار" کے دفتر میں ایک لڑکی کام کرتی ہے۔۔۔۔ مس زیبا! نصروانجی بلڈنگ کے گیارہویں فلیٹ میں رہتی ہے! اس کے متعلق معلومات فراہم کرنی ہیں۔ وہ کن لوگوں میں اٹھتی بیٹھتی ہے! اس کے متعلق صبح و شام تک کی رپورٹ مجھے ہر روز چاہئے! تمہاری آسانی کے لئے یہ بھی بتا دوں دفتر کے فرائض میں ڈاک وصول کرنا بھی اسی کے ذمہ ہے! اور وہ پوسٹ آفس جا کر براہ راست وہیں سے ڈاک وصول کرتی ہے! پوسٹ بکس نمبر دو سو تیرہ ہے! تمہیں دیکھنا ہے کہ وہ روزانہ کتنے کے منی آرڈر وصول کرتی ہے اور دفتر میں کتنی رقم جمع کراتی ہے!"
"پوسٹ بکس نمبر۔۔۔۔ کس پوسٹ آفس کا ہے!"
"جعفری کبھی کبھی عقل بھی استعمال کر لیا کرو۔"
"میں نہیں سمجھا جناب!" جعفری پھر بوکھلا گیا!
"جب پوسٹ بکس نمبر کے ساتھ آفس کا نام نہ لیا جائے تو وہ نمبر ہر حال میں جنرل پوسٹ آفس ہی کا ہوتا ہے!"
"اوہ۔۔۔۔ جی ہاں۔۔۔۔ جی ہاں! میں سمجھتا ہوں!"
"خیر۔۔۔۔ تو فی الحال تمہیں اتنا ہی کرنا ہے!"
"بہت بہتر جناب!"
سلسلہ منقطع ہو گیا! اور جعفری ریسیور رکھ کر کوٹ پہننے لگا! ساتھ ہی وہ برا سا منہ بنائے ہوئے کچھ بڑبڑاتا بھی جا رہا تھا۔
 

بلال

محفلین
(۹)
سارجنٹ ناشاد ایک غزل کہہ رہا تھا!۔۔۔۔ سامنے رکھے ہوئے کاغذ پر اس نے بہت سے قوافی لکھ رکھے تھے! ان قافیوں میں ایک ایک مصرعہ کہہ کر ان پر گرہیں لگاتا جا رہا تھا! اچانک ایک مصرعے میں اسے گاڑی رکتی ہوئی سی معلوم ہونے لگی! اس نے اس کی تقطیع شروع کردی!
غم جاناں۔۔۔۔ ابے کھٹ کھٹ۔۔۔۔ لہو بن کر۔۔۔۔ ابے کھٹ کھٹ۔۔۔۔ ہا۔۔۔۔ ٹھیک تو ہے۔۔۔۔ غم جاناں لہو بن کر ٹپک آنکھوں سے کچھ یوں بھی۔۔۔۔ ابے کھٹ کھٹ۔۔۔۔ ابے کھٹ کھٹ۔۔۔۔ ابے کھٹ کھٹ۔۔۔۔ ابے کھٹ کھٹ!"
سارجنٹ ناشاد اسی طرح مصرعوں کی تقطیع کرتا تھا!۔۔۔۔ "قاعلاتن فاعلات" کے بکھیڑے آج تک اس کی سمجھ ہی میں نہیں آتے تھے!۔۔۔۔ ویسے وہ اکثر دوسرے شعرأ کو عروض سے واقف اور بالکل ہی کندہ نا تراش بتایا کرتا تھا!
جب بھی کبھی کسی نشست میں شعروشاعری کی بات چھڑتی سارجنٹ ناشاد عروض لے بیٹھتا!۔۔۔۔ اور اس کے ہم نشین جو اس سے زیادہ نہیں ہوتے تھے اس کی ہاں میں ہاں ملاتے!۔۔۔۔
سارجنٹ ناشاد فوجی آدمی تھا! تعلیم بھی واجبی سی تھی! لیکن اس کے باوجود اسے جگت استاد ہونے کا دعویٰ تھا! اور اس کے ساتھ والے اس کی استادی کے قائل بھی تھے!۔۔۔۔ کیونکہ اکثر اس کے اشعار میروغالب جیسے اساتذہ کے اشعار سے بھی لڑ جاتے تھے!۔۔۔۔ ایسے ہی ایک موقع پر کسی نے اعتراض کر دیا۔۔۔۔ سارجنٹ ناشاد دہڑے بولا "تولد ہوا ہے!" اس پر ایک زور دار قہقہہ پڑا پھر اچانک اسے یاد آیا کہ اسے "تولد" نہیں "توارد" کہتے ہیں! مگر اب کیا ہو سکتا تھا! اس نے یہی مناسب سمجھا کہ اب خود بھی قہقہوں میں شریک ہو جائے! مشاعروں میں بڑے ٹھسے سے جاتا!۔۔۔۔ اس وقت اس کے جسم پر فوجی وردی کی بجائے چوڑی دار پاجامہ ہوتا۔۔۔۔ اور پھولدار ۔۔۔۔۔۔۔کی آچکن!۔۔۔۔ سر پر لکھنوی طرز کی ٹوپی! گلے میں پان دبا کر اس طرح چلتا جیسے پنڈلیاں درد سے پھٹی جاری ہوں!۔۔۔ مگر اس وقت وہ نشے میں ضرور ہوتا تھا!۔
بہر حال یہ تھا ناشاد!۔۔۔۔ اس محکمے میں کیوں تھا؟ اس کا جواب شائد عمران کے علاوہ اور کوئی نہ دے سکتا!
اس وقت ناشاد بہت زور و شور سے غزل کہہ رہا تھا!۔۔۔۔ منتحب شدہ قوافی میں مصرعے ہو چکے تھے! صرف گرہیں لگانی باقی تھیں کہ فون کی گھنٹی بجی اور وہ اس طرح اچھل پڑا جیسے اسے کسی مشاعرے کے ڈائس سے نیچے پھینک دیا گیا ہو۔ وہ جانتا تھا کہ فون یا تو جولیا کا ہو گا یا ایکس ٹو کا! اس نے بڑی احتیاط سے ریسیور اٹھایا!
"ناشاد۔۔۔۔" دوسری طرف سے ایکس ٹو کی آواز آئی۔ "غزل ہو رہی ہے!"
"نہیں جناب!۔۔۔۔ میں پرانے کیسوں کے فائل الٹ رہا تھا! قسم لے لیجئے جو سال بھر سے آدھا مصرعہ بھی ہوا ہو!"
"اچھا تو سنو! تمہیں شاداب نگر جانا ہے! وہاں ماڈل گرلز اسکول میں ایک استانی ہے، ناہید! اس کے متعلق معلومات فراہم کرنی ہیں۔ کس قسم کی معلومات فراہم کرنی ہیں؟"
"وہ یعنی۔۔۔۔ یعنی کہ۔۔۔۔!" سارجنٹ ناشاد ہکلا کر رہ گیا!
"میں اس کی عمر نہیں معلوم کرنا چاہتا!۔۔۔۔ نہ عاشقوں کی تعداد سمجھے!"
"جی ہاں! جی ہاں!" ناشاد بوکھلا کر بولا!
"پھر کیا معلوم کرنا چاہتا ہوں؟"
"جی۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔ یہ!"
"شٹ اَپ! وہ بہت حسین عورت ہے!" ایکس ٹو نے کہا!" تم اس پر نظم کہنے کی کوشش نہیں کرو گے! تمہیں یہ معلوم کرنا ہے کہ وہ کس قسم کے لوگوں سے ملتی جلتی ہے!۔۔۔۔ اور یہ کہ کوئی اس کی نگرانی تو نہیں کر رہا ہے!"
"جی ہاں! میں سمجھ گیا!"
"تم شراب پی کر تفتیش کے لئے نہیں نکلو گے!"
"ارے جناب! لاحول ولاقوۃ۔۔۔۔ میں نے بالکل ترک کر دی ہے! یعنی میرا مطلب ہے کہ ڈیوٹی پر بالکل نہیں پیتا۔ یقین فرمائیے!"
"اس سے عشق کرنے کی کوشش نہیں کرو گے!"
"بہت بہتر جناب!۔۔۔۔"
 

بلال

محفلین
(۱۰)
کیپٹن خاور ایکس ٹو کے حکم سے اس لڑکی کے باپ کے متعلق چھان بین کر رہا تھا جس کی لاش سڑک پر پائی گئی تھی۔۔۔۔ اس نے اپنی رپورٹ مکمل کر کے ایکس ٹو کے مخصوص نمبر ڈائیل کئے جو ٹیلیفون ڈائریکٹری میں نہیں تھے۔
"جی ہاں!۔۔۔۔" اس نے ماؤتھ پیس میں کہا " اب وہ بھی یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اس کی لڑکی ہی کی لاش تھی! وہ مسٹر ہار پر کا منیجر ہے!۔۔۔۔ ہارپر کو تو آپ جانتے ہی ہوں گے!۔۔۔۔ بے انداز دولت کا مالک ہے۔"
"ہاں میں ہارپر کو جانتا ہوں! تم نے مقتولہ کے متعلق اور کیا معلوم کیا!"
"وہ ایک خوش مزاج اور باسلیقہ لڑکی تھی! دائرہ احباب زیادہ وسیع نہیں تھا! جس لڑکے سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ وہ اس کے والدین کو پسند نہیں تھا!"
"بس تم نے یہی ایک کام کی بات معلوم کی ہے!۔۔۔۔ اچھا پھر اس لڑکے کا کیا بنا!"
"او ہو!۔۔ اس کے متعلق باتیں بھی کچھ نہیں کر سکا!" کیپٹن خاور نے کہا!
"ہاں تمہیں سب سے زیادہ فکر اس بات کی تھی کہ لڑکی کی خوشی مزاجی اور خوش سلیقگی کے متعلق پہلے معلوم کرو!۔۔۔۔ کیپٹن خاور!"
"عالی جناب!۔۔۔۔"
"آج کل تم لوگوں نے اپنی عقلوں کو چھٹی دے رکھی ہے!۔۔۔۔" ایکس ٹو نے ناخوشگوار لہجے میں کہا "اچھا مجھے اس لڑکے کا نام اور پتہ بتاؤ!"
"عادل پرویز۔۔۔۔! سردار منزل۔۔۔۔ فلیٹ نمبر سات!"
"اچھا بس! تمہارا کام ختم!" ایکس ٹو نے کہا اور سلسلہ منقطع ہو گیا۔
 

بلال

محفلین
(۱۱)
جولیا نافٹز واٹر اس ملاقات کو اتفاقیہ سمجھتی اگر ایکس ٹو سے اس موضوع پر پہلے ہی گفتگو نہ کر چکی ہوتی!۔۔۔ وہی آدمی جس نے لڑکیوں کے جزیرے میں اسے غنڈوں سے بچایا تھا ایک جنرل سٹور میں مل گیا! جولیا کوسمیٹکس خرید رہی تھی! یک بیک اس کے نظر کاؤنٹر پر داہنی طرف پڑی۔ اور اسے وہی آدمی نظر آیا! وہ مختلف قسم کے پائپ دیکھ رہا تھا اور اس میں اتنا منہمک تھا کہ شاید اسے وہاں جولیا کی موجودگی کی خبر ہی نہیں تھی۔۔۔۔ پہلے تو جولیا نے سوچا کہ چپ چاپ نکل ہی جائے! لیکن پھر۔۔۔۔ ایکس ٹو کی ہدایت کا خیال آگیا! وہ سوچنے لگی ممکن ہے ایکس ٹو بھی یہیں کہیں موجود ہو۔
دفعتاً ایک بار دونوں کی نظریں ملیں۔۔۔۔ لیکن اس آدمی کے چہرے پر بدستور وہی اجنبیت سی پائی جاتی رہی!۔۔۔۔ وہ پھر پائیپوں کی طرف متوجہ ہو گیا!۔۔۔۔ ایسا معلوم ہوا جیسے وہ جولیا کو پہچانتا ہی نہ ہو جولیا نے کاسمیٹکس خریدیں اور انکا پیکٹ سنبھالتی ہوئی باہر نکل آئی۔ وہ شاید ابھی تک کوئی پائپ منتخب نہیں کر سکا تھا!
جولیا غیر ارادی طور پر باہر رک گئی! اس کے بازوؤں میں سنبھلا ہو پیکٹ زیادہ وزنی نہیں تھا! اس لئے اسے وہاں ٹھہرنا گراں بھی نہیں گزرا۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد وہ بھی باہر آیا۔۔۔۔ فٹ پاتھ ہی پر رک کر چاروں طرف اس انداز میں دیکھنے لگا جیسے اسے کسی کی تلاش ہو!۔۔۔۔ جولیا آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھی!۔۔۔۔ اس نے ایک بار پھر جولیا کی طرف دیکھا اور اس انداز میں دوسری طرف دیکھنے لگا" جیسے بعض اجنبی راہ گیر ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں!
"کیا آپ نے مجھے نہیں پہچانا!۔۔۔۔" جولیا نے اس کے قریب پہنچ کر کہا۔
وہ چونک پڑا اور ندامت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ بولا "معاف کیجئے گا یہ میری بدقسمتی ہے!۔۔۔۔ ویسے میں یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ میں نے آپ کو کہاں دیکھا تھا!"
"تعجب ہے آپ اتنی جلدی بھول گئے! ابھی چار ہی دن پہلے کی بات ہے! ہم دونوں جزیرے والی نمائش میں ملے تھے! اور آپ نے مجھے ان غنڈوں سے بچایا تھا!"
"اوہ۔۔۔۔ اہا!۔۔۔۔ اف فوو!۔۔۔۔ میں بھی کتنا بھلکڑ ہوں!۔۔۔۔ مجھے یاد آگیا کہیے آپ اچھی تو ہیں نا۔"
ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ جلد سے جلد جولیا سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہو۔ لیکن کسی مجبوری نے پیر پکڑ رکھے ہوں۔۔۔۔ وہ بار بار سر اونچا کر کے ادھر ادھر دیکھنے لگتا تھا۔
"کیا آپ کو جلدی ہے!" جولیا نے پوچھا!
"آہاں!۔۔۔۔ جی ہاں!۔۔۔۔ مگر کوئی ٹیکسی نہیں نظر آرہی! میری کار تین دن سے ایک گیراج میں پڑی ہوئی ہے۔"
"اوہو! تو چلئے! میری گاڑی موجود ہے! اس میں پریشانی کی کیا بات ہے!"
"نہیں آپ کو تکلیف ہو گی!"
"ہائیں! اس میں تکلیف کی کیا بات ہے! مجھے تو خوشی ہو گی!"
وہ اسے اپنی کار کے قریب لے گئی اور وہ پچھلی نشست کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گیا۔
"وہیں بیٹھیں گے آپ" جولیا نے پوچھا۔
"جی ہاں ٹھیک ہے۔"
جولیا نے کار اسٹارٹ کرتے ہوئے پوچھا! "کہاں چلئے گا۔"
"گیرال اسکوئر میں رہتا ہوں۔۔۔۔ ریکسٹن اسٹریٹ!۔۔۔۔ دیکھئے آپ کو تکلیف ہو رہی ہے!"
جولیا نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔۔۔۔۔ اور کار چل پڑی!۔۔۔۔ ریکسٹن اسٹریٹ تک خاموشی ہی رہی۔۔۔۔ نہ جولیا کچھ بولی اور نہ اس پراسرار آدمی ہی نے کچھ کہا!
گیرال اسکوئر کے سامنے کار روک کر جولیا بھی نیچے اتر آئی۔۔۔۔ لیکن اس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب اس نے یہ دیکھا کہ وہ آدمی پچھلی سیٹ پر نہیں ہے! جولیا راستے بھر خیالات میں کھوئی رہی تھی!۔۔۔۔ اس نے ایک بار بھی پیچھے مڑ کر دیکھنے کی زحمت نہیں گوارا کی تھی!۔۔۔۔
ویسے یہ تو لازمی بات تھی کہ روانگی کی جگہ سے یہاں تک اس نے ٹریفک کانسٹیبل کے اشارے پر کئی چوراہوں کے قریب گاڑی روکی ہو گی۔ وہ پچھلی سیٹ کی طرف گئی! مگر سیٹ خالی نہیں تھی! اس پر کپڑے کی ایک گٹھری سی نظر آرہی تھی! مگر اس نے یہ گٹھری اس پر اسرار آدمی کے پاس نہیں دیکھی تھی!
وہ اسے کھولنے کے لئے جھک پڑی! لیکن دوسرے ہی لمحے میں اسے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے وہ کسی ہیلی کوپٹر میں بیٹھی ہوئی ہو! اور وہ ہیلی کاپٹر بڑی تیزی سے زمین کی طرف جا رہا ہو!۔۔۔۔ اس کی آنکھوں تلے اندھیرا آگیا! پیشانی پر پسینہ پھوٹ آیا۔
گٹھری میں ایک نوزائیدہ بچے کی لاش تھی! وہ اسے بدحواسی میں جلدی سے ڈھانک کر اگلی سیٹ کی طرف بڑھی!۔۔۔۔ اور دروازہ کھول کر اسٹیرنگ کے سامنے ڈھیر ہو گئی! وہ جلدی سے وہاں سے نکل جانا چاہتی تھی!۔۔۔۔ پر حال میں!۔۔۔۔ لیکن ابھی وہ کار اسٹارٹ بھی نہیں کر پائی تھی کہ ایک آدمی دروازہ کھول کر اس کے برابر آبیٹھا! یہ صورت ہی سے کوئی لفنگا معلوم ہوتا تھا!۔۔۔۔۔ ہر لحاظ سے وہ کوئی برا آدمی تھا۔ جولیا کانپ کر رہ گئی! اس نے پر سکون لہجے میں کہا "گھبراؤ۔۔۔۔ نہیں سب ٹھیک ہو جائے گا!" اس نے جملہ انگریزی میں ادا کیا تھا! مگر لہجہ پڑھے لکھے آدمیوں کا سا تھا! اس نے پھر کہا۔ "گاڑی چلاؤ اور اسے دریا کی طرف لے چلو!۔۔۔۔ بقیہ باتیں راستے میں ہوں گی!"
جولیا نے بادل ناخواستہ کار اسٹارٹ کی۔۔۔۔ لیکن اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے!۔۔۔۔ کار چل پڑی اور اس آدمی نے کہا۔ "محترمہ ایسے کام رات کی تاریکی میں انجام دیئے جاتے ہیں! وہ تو کہیے! میری نظر پڑ گئی! ورنہ آپ بڑی مشکل میں پڑ جاتیں۔۔۔۔ اب میں بہت تھوڑے معاوضے پر آپ کا یہ کام کرا دوں گا!۔۔۔۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو گی! مگر یہ کیا حماقت تھی! آپ بیچ سڑک پر کار روک کر گٹھری کھولنے لگیں!" جولیا کچھ نہ بولی۔ اس کا سر بری طرح چکرا رہا تھا۔
 

بلال

محفلین
"یہ شاید!" اس آدمی نے کہا" آپ کی کسی سہیلی کا بچہ ہے! یا آپ کی بہن کا! آپ کا تو نہیں ہو سکتا! مجھے یقین ہے!"
"میں کچھ نہیں جانتی!" جولیا نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا "کسی نے مجھے پھنسانے کی کوشش کی ہے!"
"ارے اب مجھے سے کیا پردہ۔ میں تو آپ کی مدد کرنے جا رہا ہوں۔ اس طرح اسے ٹھکانے لگاؤں گا کہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو گی!۔۔۔۔ آپ صرف سو روپے مجھے دیجئے گا!۔۔۔۔ غریب آدمی ہوں! زیادہ تکلیف نہیں دیتا! ویسے اگر آپ کسی بڑے دادا کے چکر میں پڑ گئی ہوتیں تو وہ ایک ہزار سے کم نہ لیتا!" جولیا کچھ ایسی بدحواس تھی کہ سب کچھ بھول گئی تھی اسے صرف بچے کی لاش یاد تھی اور یہ آدمی جو بیک اس طرح مسلط ہو گیا تھا۔۔۔۔
اس نے پھر کہا! "ایسے کاموں کے لئے مجھے ہمیشہ یاد رکھئے!۔۔۔۔ میں آپ کو اپنا پتہ دوں گا!
اوہ!۔۔۔۔ ذرا ٹھہریئے!۔۔۔۔ وہ اگلی گلی ہے نا!۔۔۔۔ اس کے سامنے کار روک لیجئے گا! وہاں چائے خانے میں میرا ایک دوست ہے! اسے بھی ساتھ لے لوں وہ مجھ سے زیادہ چالاک ہے!"
جولیا نے سوچا موقع بہت اچھا ہے!۔۔۔۔ یہ اپنے ساتھی کو بلانے کے لئے جائے گا اور میں چپ چاپ کھسک لوں گی۔ مگر وہ جولیا سے بھی زیادہ ہوشیار تھا!
جولیا نے گلی کے پاس کار روک دی! اسے توقعی تھی کہ وہ اتر کر جائے گا لیکن اس نے کار ہی میں بیٹھے بیٹھے پان والے کو آواز دی!۔۔۔۔ وہ اس کی طرف متوجہ ہوا تو اس نے پکار کر کہا "ذرا شارٹی کو بھیج دے!"
پان والے نے جولیا کو اس طرح گھور کر دیکھا جیسے وہ کوئی عجوبہ ہو! پھر وہ خود ہی اپنی دوکان سے کود کر چائے خانے میں جا گھسا!۔۔۔۔ دو یا تین منٹ بعد ایک آدمی ہوٹل سے نکلا اور سیدھا کار کی طرف آتا دکھائی دیا۔۔۔۔ وضع قطع سے کوئی دیسی عیسائی معلوم ہوتا تھا۔
"شارٹی! پیچھے بیٹھ جاؤ!" جولیا کے قریب بیٹھے ہوئے آدمی نے کہا"
"یہ خاتون مصیبت میں ہیں! میں ان کی مدد کرنا چاہتا ہوں!"
"بڑی اچھی بات ہے!" شارٹی نے پچھلا دروازہ کھول کر اندر بیٹھتے ہوئے کہا! کار پھر چل پڑی آگے بیٹھے ہوئے آدمی نے کہا "دریا کی طرف محترمہ!" پھر وہ شارٹی کو بتانے لگا کہ کس طرح اسے ایک بچے کی لاش دکھائی دی۔ جب وہ ریکسٹن اسٹریٹ میں کسی کا انتظار کر رہا تھا۔ اور اب اسے ہر حال میں ان خاتون کی مدد کرنی ہے۔
"تم بالکل گدھے ہو!" شارٹی بولا "خواہ مخواہ دوسروں کے پھٹے میں پاؤں ڈالتے ہو!۔۔۔۔
آپ ہی سمجھ بوجھ لیتیں ان سے پوچھو دے بھی سکیں گی سو روپے! کام تو بڑا خطرناک ہے!"
اتنی دیر میں جولیا کو سچ مچ یہ محسوس ہونے لگا تھا جیسے وہ مجرم ہی ہو! نوزائدہ بچے کی لاش اسی کی ذات سے تعلق رکھتی ہو!
"میں دوں گی۔۔۔۔ سو روپے؟" اس نے گٹھی گٹھی سی آواز میں کہا! "لیکن یہاں اس وقت میرے پاس موجود نہیں ہیں۔"
"دیکھا بیٹا!" شارٹی نے قہقہہ لگایا! "میں نہ کہتا تھا! کیوں اپنا وقت برباد کر رہے ہو!"
"آپ کے پاس سو روپے نہیں ہیں!" آگے بیٹھے ہوئے آدمی نے غصیلی آواز میں پوچھا!
"نہیں! یہاں نہیں ہیں! لیکن واپسی میں آپ میرے گھر چل سکتے ہیں!"
"میں گھر ور نہیں جانتا!" وہ ہتھے سے اکھڑ گیا! "یا تو آپ یہیں سو روپے ادا کیجئے۔ یا پھر میں آپ کو سیدھا پولیس اسٹیشن لے جاؤں گا۔"
پولیس اسٹیشن کے نام ہی سے جولیا بوکھلا گئی! وہ وہاں اپنی اصلی حیثیث بھی نہیں ظاہر کر سکتی تھی۔ اصلی حیثیث ظاہر کرنے کا تو یہ مطلب تھا کہ وہ محکمے ہی سے الگ کر دی جاتی! اور محکمے سے الگ ہو جانے کے بعد زندگی جیسی گذرتی ظاہر تھی! محکمہ اتنی معقول تنخواہ دیتا تھا کہ وہ ایک کار بھی رکھ سکتی تھی! ریئسوں کی طرح زندگی بسر کر سکتی تھی! اس کے خیال سے وہ کانپ گئی!۔۔۔۔ ویسے اسے اطمینان تھا کہ ایکس ٹو کو ان حالات کی خبر ضرور ہو گی! اور وہ اس کی طرف سے غافل نہ ہو گا!۔۔۔۔ مگر اس وقت وہ کیا کرتی! پولیس اسٹیشن تک معاملات کا پہنچ جانا ایکس ٹو کے لئے بھی ناقابل برداشت ہو گا۔
"دیکھئے آپ اتنی مہربانی کیوں نہیں کرتے۔" جولیا منمنائی۔۔۔۔!
"ہم جیسے لوگ اگر مہربانی کرنے لگیں تو خود بھوکوں مر جائیں۔ ہم سے تو کسی کو ہمدردی بھی نہ ہو!"
"پھر آپ جو کچھ بھی کہیے میں کرنے کو تیار ہوں!"
"پولیس اسٹیشن!" وہ غرایا!
"یہ نہیں ہو سکتا! اس کے علاوہ۔۔۔۔!"
"ٹھہریئے! میں بتاتا ہوں!" شارٹی نے پچھلی سیٹ سے کہا! "آپ ہمیں ایک تحریر دے دیجئے گا!"
"نہیں!" اگے بیٹھے ہوئے آدمی نے غصیلی آواز میں "تحریر کیا ہو گی! نہیں روپے!"
"تم پھر گدھے پن کی باتیں کررہے ہو!۔۔۔۔ ایک شریف خاتون ہیں ان کا اعتبار کرو! بس ایک تحریر کافی ہو گی جب یہ ہمیں رقم ادا کر دیں گے ہم تحریر واپس کر دیں گے!"
"تحریر کیا ہو گی!" جولیا نے پوچھا!
"یہی کہ میں ایک نوزائیدہ بچے کی لاش چھپا کر پھینکنے کے لئے جا رہی ہوں! بچے کی بائیں ران پر ایک سیاہ داغ ہے۔ یہ میری سہیلی اومادیوی کا ناجائز بچہ تھا! میں نے اس کا گلاگھونٹ کر مار ڈالا۔ میں اومادیوی کو بدنامی سے بچانا چاہتی ہوں! میں یہ سب کچھ باہوش و حواس لکھ رہی ہوں!"
"اس تحریر سے کیا ہو گا!" جولیا نے پوچھا!
"اگر آپ روپے ادا کر دیں گی تو یہ تحریر آپ کو واپس کر دی جائے گی! ورنہ دوسری صورت میں اس کا پولیس اسٹیشن جا پہنچنا لازمی ہو گا! لاش ہم اپنے ساتھ لے جائیں گے!"
جولیا تھوڑی دیر تک کچھ سوچتی رہی پھر بولی!" مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے!"
"بس تو پھر ٹھیک ہے!" گاڑی روکیئے! میں آپ کو کاغذ اور قلم دیتا ہوں! یہ رہی میری ڈائری بس اسی پر لکھ دیجئے! پھر ہم آپ کو آگے جانے کی بھی زحمت نہ دیں گے!"
جولیا نے سڑک کے کنارے کار روک دی! اب اس کے چہرے پر سراسیمگی کے آثار نہیں تھے! اس نے کہا "لیکن اس کی کیا ضمانت ہے کہ تحریر دے دینے کے بعد بھی آپ مجھے دھوکا نہ دیں گے! یعنی ہو سکتا ہے کہ آپ اس کے بعد بھی لاش میری کار ہی میں چھوڑ جائیں!"
"نہیں! ہم بد عہدی نہیں کریں گے!"۔۔۔۔ شارٹی نے اسے اطمینان دلایا!
تھوڑی دیر بعد جولیا اس کی ڈائری پر اس کے قلم سے لکھ رہی تھی۔ وہ جو کچھ بھی بولا جولیا لکھتی چلی گئی! آخر میں اس نے اپنا صحیح نام اور پتہ بھی لکھ دیا وہ مطمئن تھی اسے یقین تھا کہ وہ جو کچھ بھی کر رہی ہے ایکس ٹو کی پسند کے مطابق ہو گا! ہو سکتا ہے! وہ اسے چارہ بنا کر شکار کھیل رہا ہو۔ ایسی صورت میں اسے وہی کرنا چاہئے جو یہ لوگ کہہ رہے ہیں!۔۔۔۔
"اب اس کی کیا ضمانت ہے کہ یہ نام اور پتہ درست ہی ہو گا!" شارٹی نے ڈائری واپس لیتے ہوئے کہا!
"اگر آپ میرا ڈرائیونگ لائسنس دیکھنا چاہیں تو پیش کر دوں! اس پر بھی یہی پتہ تحریر ہے"
"اوہ۔۔۔۔ ہاں! یہ ٹھیک ہے!۔۔۔۔۔ ذرا دکھائیے!"
جولیا نے اسے اپنا ڈرائیونگ لائسنس دکھایا! اور وہ مطمئن ہو گیا!
"مگر" جولیا نے کہا "آپ ان روپیوں کی ادائیگی کس طرح چاہتے ہیں!"
"جب آپ کہیں!۔۔۔۔ ہم وصول کر لیں گے!"
"آپ میں سے ایک آدمی اس وقت بھی میرے ساتھ چل سکتا ہے! لیکن دوسرے کو لاش اٹھا کر یہیں اترنا پڑے گا!"
"ارے بس ختم کیجئے!" شارٹی نے ہنس کر کہا!" ہمیں آپ پر اعتماد ہے۔ ہم کسی دن بھی آپ کے گھر پر آ جائیں گے!"
"جب دل چاہے۔" جولیا بولی!
وہ دونوں اتر گئے! شارٹی گٹھری اٹھائے ہوئے تھا! یہ لوگ دریا سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھے!
لہذا یہ سڑک بھی قریب قریب ویران ہی تھی! جولیا نے بڑی جلدی میں کار گھمائی اور شہر کی طرف بھاگ نکلی۔
 

بلال

محفلین
(۱۲)
عمران کافی دیر سے زیبا کو ہنسا رہا تھا اور وہ اس طرح گھل مل گئی جیسے دونوں برسوں پرانے ساتھی ہوں! وہ اب ساڑھی میں رہنے لگی تھی! اور آج خود ہی عمران کو سڑک کے ایک فٹ پاتھ پر ٹوکا تھا! ورنہ عمران تو منہ چرا کر نکلا جا رہا تھا!۔۔۔۔ عمران نے اسے کہا بھی کہ وہ اسے نہیں پہچانتا۔۔۔۔ دونوں زندگی میں پہلی بار مل رہے ہیں لیکن زیبا سر ہو گئی اور کہنے لگی جو کچھ بھی ہو!
وہ اس کی دوستی کی خوہشمند ہے اور اب زندگی بھر پتلون نہیں پہنے گی! پھر وہ دونوں ایک چھوٹے سے کیفے میں جا بیٹھے! ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے زیبا اسے چھوڑنا ہی نہ چاہتی ہو!
عمران نے کئی بار اٹھنے کا ارادہ کیا۔ لیکن زیبا نے ہاتھ پکڑ کر بٹھا لیا۔
"اچھا زیبا صاحبہ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں! حالانکہ اس سے مجھے کوئی غرض نہیں ہے!"
"ضرور پوچھئے! میں آپ سے کچھ نہیں چھپاؤں گی! اپنے متعلق سب کچھ بتاؤں گی!"
"پوسٹ بکس نمبر دو سو تیرہ کے متعلق بھی بتا دیجئے گا!" عمران نے بڑے بھولے پن سے پوچھا! اور زیبا کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ لیکن اس نے جلدی ہی خود کو سنبھال لیا!
"اس کے متعلق!" اس نے ایک طویل سانس لے کر کہا "آخر آپ اس میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہے ہیں!"
"بس یونہی مجھے الجھاؤوں سلجھانے میں لطف آتا ہے۔۔۔۔ تمہارے متعلق چھان بین کرتے وقت یہ چیز سامنے آئی تھی اور میں اب بھی الجھن میں ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ تم نے پچھلے چار دنوں میں کتنی رقم وصول کی ہے اور کتنی ماہنامے کے دفتر میں جمع کی ہے!"
"یہ مجھ سے نہ پوچھئے!" زیبا نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
"خیر نہ بتاؤ!۔۔۔۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ تمہیں ایک دن میری مدد کی ضرورت محسوس ہو گی!"
"آپ میری کیا مدد کریں گے!"
"میں!۔۔۔۔ میں تمہیں اس طرح نہیں مرنے دوں گا جس طرح دوسری لڑکیاں مر جاتی ہیں! میں تمہارے چہرے پر کسی وزنی گاڑی کا پہیہ نہیں چلنے دوں گا! اگر تمہیں ایسے ہی انجام کا خوف نہ ہوتا تو تم نے میرے متعلق ان لوگوں کو بہت کچھ بتا دیا ہوتا!۔۔۔۔ تم جانتی ہو کہ وہ تمہیں ایسی صورت میں زندہ رکھنا پسند نہیں کریں گے! جب تمہاری اصلیت کسی دوسرے پر ظاہر ہو جائے!۔۔۔۔ ماہنامے کا ایڈیٹر تم پر اعتماد کرتا ہے لیکن تمہاری اصلیت سے واقف نہیں ہے!۔۔۔۔ اور تم اسے دھوگا بھی نہیں دیتیں اس کی رقومات ان کے حساب میں جمع ہو جاتی ہیں!۔۔۔۔ مگر بڑے منی آرڈروں اور بیموں کا اسے بھی علم نہیں ہے!"
"آپ بہت کچھ جانتے ہیں! سچ بتائیے آپ کون ہیں!" زیبا نے اس کے ہاتھ ہر ہاتھ رکھ کر کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا۔
"میں ایک بے ضرر شہری ہوں! بس اور کچھ نہیں!۔۔۔۔ مجھے تفریحات کے لئے بہت وقت ملتا ہے! اور میری تفریح یہی ہے کہ میں بے تکی حرکتیں کرتا پھروں! مثلاً یہی کہ تمہیں پتلون کا استعمال چھوڑ دینے پر مجبور کر دیا!"
"آپ میرے دوست ہیں!"
"یقیناً!" عمران سر ہلا کر بولا!
"تو پھر اب آپ اس گفتگو کو یہیں ختم کر دیجئے! ورنہ سچ مچ میری زندگی خطرے میں پڑ جائے گی!"
"ختم کر دیا! اچھا اب اپنے متعلق مجھے کچھ بتاؤ!۔۔۔۔ ہم دوست ہی کیسے جب ایک دوسرے کے متعلق کچھ نہ جانیں!"
"میرے متعلق بھی آپ بہت کچھ جانتے ہوں گے!"
"کچھ نہیں جانتا! سوائے اس کے کہ تمہارا نام زیبا ہے!۔۔۔۔ لیکن زیبا خود تمہارا ہی منتخب کردہ نام ہے! ورنہ تمہارا نام زہرہ جمال ہے مگر تمہیں مرد بننے کا خبط ہے!۔۔۔۔ ایک زمانے میں تم زہرہ جمال کی بجائے مریخ جلال ہوگئی تھیں! اور اسی وقت تم پتلون پہنتی آرہی تھیں!۔۔۔۔ پھر تم نے اپنا نام زیبا رکھ لیا۔۔۔۔ کیونکہ مریخ جلال مضحکہ خیز معلوم ہوتا تھا!۔۔۔۔ اس کے علاوہ اور میں کچھ نہیں جانتا! مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ تم اس گروہ میں کیسے آ پھنسیں تھیں!"
"گروہ۔۔۔! میرے خدا!۔۔۔۔ آپ سب کچھ جانتے ہیں! اور اگر آپ یہ سب کچھ جانتے ہیں تو یقین کیجئے کہ آپ! ایک بہت خطرے سے دو چار ہیں! وہ لوگ آپ کو زندہ نہ چھوڑیں گے!"
"میں سمجھتا ہوں! میں جانتا ہوں کہ وہ انتہائی خطرناک لوگ ہیں! مگر اب میں اس گروہ کا قلع قمع کرنے کا تہیہ کر چکا ہوں! اسے توڑ دوں گا! تم دیکھتی رہو!"
"مجھے یقین نہیں ہے! کیا آپ کی پشت پر پولیس ہے!"
"نہیں میں بالکل تنہا ہوں! ہر وقت تنہا رہتا ہوں! حتیٰ کہ میری جیب میں ایک قلمتراش چاقو بھی تمہیں نہ ملے گا! اس کے باوجود بھی مجھے یقین ہے کہ میں اس گروہ کو توڑ دوں گا! کیا کبھی تمہارا ضمیر ملامت نہیں کرتا!"
"کبھی نہیں!" زیبا نے غصیلے لہجے میں کہا!" میرے دل میں انسانیت کے لئے ذرہ برابر بھی ہمدردی نہیں ہے! میں تباہی اور برباد دیکھنا چاہتی ہوں نوع انسانی کی تباہی اور بربادی خواہ وہ ایٹم بمبوں کے ذریعے ہو! خواہ ان ایٹموں کے ذریعہ جو خود انسان کے جسم و ذہن میں پائے جاتے ہیں! میں جو کچھ بھی کر رہی ہوں اس سے شرمندہ نہیں ہوں۔ مجھے آدمیوں ہی نے تباہ کیا ہے! مجھے میرے باپ نے تباہ کیا ہے! سوتیلی ماں نے تباہ کیا ہے۔ وہ دونوں مجھ پر بے پناہ مظالم کرتے تھے! میں بچی تھی! جوان تھی! اس وقت میرا باپ مجھے بیتوں سے پیٹا کرتا تھا! سوتیلی ماں جو عمرمیں مجھ سے تھوڑی ہی بڑی تھی۔ مجھے بھوکا رکھتی تھی!۔۔۔۔ خواہ مخواہ مجھے آوارگی اور بد چلنی کے الزام دیتی تھی! حالانکہ میں مقدس فرشتوں کی قسم کھا سکتی ہوں کہ اس وقت میں پاکدامن تھی! مجھے نفرت ہو گئی! عورتوں سے نفرت ہو گئی۔ مردوں سے نفرت ہو گئی!۔۔۔۔ حتیٰ کہ ماں بننے سے بھی نفرت ہو گئی جو ہر عورت کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے! اب میں بہت خوش ہوں!۔۔۔۔ لڑکیاں خود کو بیچتی ہیں! میں ان سے رقمیں وصول کر کے انہیں پہنچاتی ہوں جو ان لڑکیوں کو عصمت فروشی پر مجبور کرتے ہیں! وہ لڑکیاں خود تباہ ہوئی ہیں اور اب معاشرے کو تباہ کر رہی ہیں۔ میرے باپ کا کلیجہ ٹھنڈا ہو رہا ہے اور میری سوتیلی ماں ایسی لڑکیاں جن رہی ہے جو اس کا کلیجہ ٹھنڈا کریں گی۔۔۔۔ اس سیلاب کو کون روک سکے گا!۔۔۔۔ کوئی نہیں! کوئی بھی نہیں!"
"نہیں تم اتنی بری نہیں ہو! جتنی خود کو سمجھتی ہو!" عمران نے سر ہلا کر سنجیدگی سے کہا!
"تمہارا ضمیر زندہ ہے! تم اسے برا سمجھتی ہو۔ اسے تباہی سمجھتی ہو! مگر تم خود ایک آگ میں سلگ رہی ہو اس لئے تمہیں اس عظیم جہنم کی آنچ محسوس نہیں ہوتی ویسے تم اسے جہنم ہی سمجھتی ہو! جنت نہیں! وہ لوگ جو اس کے ذمہ دار ہیں ان کے ضمیر البتہ مردہ ہو چکے ہیں کیونکہ یہ ان کا بزنس ہے!۔۔۔۔ ظاہر ہے کہ اس کام سے تمہیں مالی منفعت نہ ہوتی ہو گی!"
"نہیں میں اپنا پیٹ پالنے کے لئے ماہنامے کے دفتر میں کام کرتی ہوں! انہوں نے مجھ سے بھی پیشہ کرانا چاہا تھا مگر میں نے صاف کہہ دیا کہ میں مرد ہوں! پھر وہ کافی عرصہ تک مجھے نئی لڑکیوں کو پھانسنے کا کام سونپتے رہے! پھر اس کام پر لگا دیا! اچھا بس میں اب اور کچھ نہیں بتاؤں گی!"
"میں خود ہی نہ پوچھوں گا!۔۔۔۔ کیونکہ اس سے زیادہ تم جانتی ہی نہ ہوگی۔ کیا تم اس آدمی سے واقف ہو جو اس گروہ کا سر غنہ ہے!"
"نہیں میں نہیں جانتی!"
"پھر تم سے کچھ پوچھنا فضول ہی ہے! میں یہ بھی نہیں پوچھوں گا کہ تم وہ رقمیں کسے بھیجتی ہو!"
"میں اگر بتادوں تو تمہیں کوئی فائدہ نہ ہوگا!"
"ختم کرو۔۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ تم ساری رقم کو بڑے نوٹوں میں تبدیل کر کے ایک پیکٹ بناتی ہو اور سڑک کے کنارے لگے ہوئے ایک لیٹر بکس میں ڈال دیتی ہو پیکٹ سادہ ہوتا اور اس پر کسی کا نام یا پتہ تحریر نہیں ہوتا!"
"کیا آپ کوئی سرکاری سراغرساں ہیں!" زیبانے اسے گھور کر پوچھا!
"نہیں میں ایک بیضرر شہری ہوں! تم اس کی فکر نہ کرو! اگر تمہارا دل چاہے تو اپنے گروہ والوں سے بھی میرا تذکرہ کر سکتی ہو۔ حالانکہ ان میں سے کسی کو بھی تم نہ جانتی ہوگی! میرے علم میں یہی ہے میں ان لوگوں کے طریق کار سے بھی واقف ہوں! تم اگر چاہو تو اس پیکٹ میں ایک خط رکھ سکتی ہو! سرغنہ کو میرے وجود کا علم ہو جائے گا!"
"میں ایسا نہیں کروں گی!"
"جان کے خوف سے!" عمران نے پوچھا!
"نہیں مجھے اپنی زندگی کی پروا نہیں ہے!۔۔۔۔"
"پھر کیا بات ہے!"
"کچھ بھی نہیں! میں صرف اپنا کام انجام دینا جانتی ہوں! اور بس! میرے گرد و پیش کیا ہو رہا ہے اس سے مجھے کوئی سروکار نہیں!"
"خیر۔۔۔۔!" عمران نے ایک طویل انگڑائی لی! اس شہر میں ایک دن خون کے دریا ضرور بہیں گے! اس کی تمام تر ذمہ داری مجھ پر ہی ہوگی!"
"ہاں تم مجھے ایسے ہی معلوم ہوتے ہو!" زیبا نے کہا اور خاموش ہو کر کچھ سوچنے لگی!
 

بلال

محفلین
(۱۳)
فون کا ریسیور بڑی دیر سے جولیا نافٹزواٹر کے ہاتھ میں تھا! اور وہ ایکس ٹو کو اپنی بپتا سنا رہی تھی۔ جب وہ خاموش ہوئی تو دوسری طرف سے آواز آئی۔
"تم بالکل پروا نہ کرو! سب کچھ میری نظر میں ہے!۔۔۔۔ میں اس وقت بھی تم سے زیادہ دور نہیں تھا ! جب تم شارٹی کی ڈائری پر لکھ رہی تھیں!۔۔۔۔ اگر تم اسے وہ تحریر نہ دیتیں تو مجھے بڑا صدمہ ہوتا!۔۔۔۔ تم واقعی ذہین ہو!"
"مگر اس کا انجام!"
"انجام!۔۔۔۔ تم مطمئن رہو! ان میں سے کوئی بھی تم سے سو روپے وصول کرنے نہیں آئے گا! اب سارا کام خط و کتابت کے ذریعہ ہو گا۔۔۔۔ تم چونکہ غیر ملکی ہو! اس لئے اونچے طبقے میں بہت جلد مقبولیت حاصل کر سکتی ہو۔ لٰہذا خیال ہے کہ تم سے کم از کم ایک ہزار روپے ہفتہ وار کا مطالبہ کیا جائے گا!"
"لعنت ہے! میں ایک آدھ کو شوٹ کر دوں گی!" جولیا جھنجھلا گئی۔
"اس طرح تم سارا کھیل بگاڑ دو گی! میں کہتا ہوں نا کہ کوئی تمہارا بال بھی بیکا نہ کر سکے گا۔"
"اب میرے لئے کیا کام ہے!"
"اب تمہارے لئے ایک بہت ہی اہم کام ہے تمہارے علاوہ اور کوئی اسے انجام نہیں دے سکتا!۔۔۔۔ سردار منزل کے فلیٹ نمبر سات میں ایک لڑکا عادل پرویز رہتا ہے! اس سے دوستی کرو۔ وہ اس مقتولہ کا دوست تھا جس کی لاش کچھ دن ہوئے ملی تھی!۔۔۔۔ تم نہایت آسانی سے اس لڑکی رابعہ کی سہیلی بن سکتی ہو! بلکہ تم اس سے یہ بھی کہہ سکتی ہو کہ تم رابعہ کی رازدار تھیں! یعنی ان دونوں کے رومان کا تمہیں علم تھا!۔۔۔۔ وہ کہہ سکتا ہے کہ رابعہ نے کبھی تمہارا تذکرہ نہیں کیا!۔۔۔۔ اس کے جواب میں زیادہ باتیں بنانے کی کوشش نہ کرنا بلکہ لا پروائی سے کہہ دینا کہ نہ کیا ہوگا۔۔۔۔ بقیہ میں تمہاری ذہانت پر چھوڑتا ہوں!"
"کیا آپ میرے کام سے مطمئن ہیں!۔۔۔۔"
"بہت مطمئن ہوں! فٹنز واٹر!۔۔۔۔ تم بہت ذہین ہو! بقیہ آدمیوں سے کہیں زیادہ!"
"میں آپ کو دیکھنا چاہتی ہوں!" جولیا نے کسی ننھی سی بچی کی طرح منمنا کر کہا!
"کیا کرو گی!۔۔۔۔ اس سے کیا فائدہ! تم نے مجھے سینکڑوں بار دیکھا ہے! لیکن نظر انداز کر گئیں! میں اس قابل ہی نہیں ہوں کہ تم مجھے ایکس ٹو سمجھ سکو!"
"میں آپ کو۔۔۔۔!" جولیا کچھ کہتے کہتے رک گئی!
"ہاں کہو! کیا کہنا چاہتی ہو!"
"اوہ کچھ نہیں! جناب!۔۔۔۔ میں خود بھول گئی!" جولیا بوکھلا کر بولی!
"اچھا بس۔ اب اپنا کام شروع کر دو!"
دوسری طرف سے سلسلہ منقطع کر دیا گیا!۔۔۔۔ جولیا بڑی دیر تک ریسیور ہاتھ میں لئے کھڑی رہی!۔۔۔۔
 

بلال

محفلین
(۱۴)
شیلا غائب !۔۔۔۔ ناہید غائب! شیلا کا تو خیر پتہ ہی نہیں معلوم تھا! لیکن ناہید فی الحقیقت شاداب بگر کے ماڈل گرلز اسکول کی ایک استانی تھی! گرلز اسکول میں معلوم ہوا کہ وہ ایک ماہ کی چھٹی پر ہے!۔۔۔۔ اور گھر پر یہ معلوم ہوا کہ وہ پچھلے کئی دنوں سے لاپتہ ہے۔۔۔۔ عمران کے لئے یہ ایک لمحہ فکریہ تھا! یوں تو اس کے سامنے بہتیرے مجرم تھے اور وہ انہیں ہر وقت پکڑ سکتا تھا۔ مگر فی الحال یہ اس کے پروگرام میں نہیں تھا! وہ تو دراصل اس گروہ کا طریق کار معلوم کرنا چاہتا تھا! کیونکہ اسی کے ذریعہ اس کی رسائی اصل مجرم تک ہو سکتی تھی پوسٹ بکس نمبر دو سو تیرہ کے متعلق تفتیش کرا کے وہ زیبا تک پہنچاتھا!۔۔۔۔ پھر زیبا کے ذریعہ وہ لیٹر بکس اس کے علم میں آیا جس میں وہ ایک مخصوص تاریخ پر بڑے نوٹوں کا پیکٹ ڈالا کرتی تھی! اب وہ لیٹر بکس اس کی توجہ کا مرکز تھا۔
ناہید کی تلاش اسے اس لئے تھی کہ وہ اس سے صرف ایک بات پوچھنا چاہتا تھا! وہی بات جس کی طرف شیلا نے اشارہ کیا تھا یعنی ناہید ان لوگوں کو اطلاع دے گی کہ شیلا ایک سرکاری سراٖغرساں کے چکر میں پھنس گئی ہے! شیلا کی یہ بات درست بھی نکلی تھی! کیونکہ تھوڑی دیر بعد دانش منزل کی کمپاؤنڈ میں چند نامعلوم آدمی نہ صرف داخل ہوئے تھے بلکہ انہوں نے عمارت میں گھسنے کی بھی کوشش کی تھی!۔۔۔۔ ایسی صورت میں فی الحال اس کے علاوہ اور کیا سوچا جا سکتا تھا کہ ناہید ہی نے انہیں اطلاع دی ہو گی!۔۔۔۔ لٰہذا اب عمران یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ ناہید نے انہیں اطلاع دینے کے لئے کون سا طریقہ اختیار کیا تھا۔
عمران نے ناہید کے لئے بہت تگ و دو کی لیکن اس کا سراغ نہ مل سکا!۔۔۔۔ ابھی ایک پیچیدہ مسئلہ اور باقی تھا مقتولہ رابعہ کی لاش!۔۔۔۔ جسے اس کی ماں نے رابعہ کی لاش تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا! لیکن اس کے جسم پر رابعہ ہی کے کپڑے تھے! حتیٰ کہ پیر کے زخم پر پٹی بھی وہی تھی جو رابعہ نے اپنے پیر کے زخم پر باندھی تھی!۔۔۔۔ لیکن اب یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی تھی کہ وہ رابعہ کی لاش ہر گز نہیں تھی۔ رابعہ کی ماں اگر اپنا بیان نہ دیتی تب بھی اس میں شبہ باقی رہ جاتا کہ یہ رابعہ ہی کی لاش ہے!۔۔۔۔ کیونکہ پیر کے زخم کے متعلق پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کچھ اور ہی کہہ رہی تھی!۔۔۔۔ ڈاکٹروں کا متفقہ فیصلہ تھا کہ پیر کا زخم موت سے پہلے کا نہیں ہو سکتا وہ موت کے بعد ہی وجود میں آیا ہوگا!۔۔۔۔ بہر حال اس سے عمران نے نتیجہ اخذ کیا کہ کسی دوسری کی لاش رابعہ کی لاش بنا کر منظر عام پر لائی گئی تھی!۔۔۔۔ مقصد جو کچھ بھی رہا ہو۔ مقصد ہی معلوم کرنے کے لئے جولیا نافٹزواٹر کو عادل پرویز کے پیچھے لگایا تھا۔
آج تو عمران زیبا اور لیٹر بلکس کے چکر میں تھا! کیونکہ آج معمول کے مطابق وہ اس پیکٹ کو لیٹر بکس میں ڈالنے والی تھی! عمران کو یقین تھا کہ زیبا نے اس کی اور اپنی گفتگو کے متعلق اپنے گروہ والوں کو مطلع نہ کیا ہوگا!۔۔۔۔ وہ کافی چالاک تھی۔ اس نے بھی یہ سوچا ہوگا کہ گروہ والوں کو آگاہ کر دینے کے بعد وہ محفوظ نہ رہ سکے گی! وہ کسی ایسے آدمی کو کب چھوڑنے لگے جو پولیس کی نظر میں آگیا ہو!
عمران کی دانست میں ناہید اور شیلا کا غائب ہو جانا بھی اس بات کا کھلا ہوا ثبوت تھا کہ وہ گروہ والوں کی کسی نئی سازش کا شکار ہوگئیں! اور یہ بات اسے شیلا ہی نے بتائی تھی کہ گروہ کے لئے کام کرنے والی لڑکیوں کے برے انجام کی اطلاع ہر لڑکی کو دی جاتی ہے۔ انہیں متنبہ کیا جاتا تھا کہ پولیس کی نظر میں آجانے کے بعد ان کا بھی وہ انجام ہو سکتا ہے!
عمران آج صبح ہی سے زیبا کے پیچھے لگا رہا تھا! آج یہ کام وہ خود ہی کرنا چاہتا تھا اس لئے اسے میک اپ بھی کرنا پڑا تھا۔۔۔۔ چونکہ زیبا اسے بہت قریب سے دیکھ چکی تھی اس لئے اسے میک اپ کے بغیر چلنا دشوار ہی تھا!۔۔۔۔
زیبا نے حسبِ معمول پوسٹ بکس نمبر دو سو تیرہ کے منی آرڈر وصول کئے! پوسٹ آفس سے واپسی کے بعد بقیہ وقت دفتر ہی میں گذرا۔۔۔۔ پھر اپنے فلیٹ کی طرف چل پڑی۔ پانچ بجے سے آٹھ بجے رات تک فلیٹ میں رہی۔۔۔۔ آٹھ کے بعد پھر باہر آئی۔۔۔۔ ایک ٹیکسی لی اور کسی نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہو گئی! عمران اپنی ٹوسیٹر میں بیٹھا اس کا تعاقب کر رہا تھا! گیرال اسٹریٹ کے موڑ پر زیبا ٹیکسی سے اتر گئی! اب وہ گیرال اسٹریٹ میں پیدل چل رہی تھی۔ عمران نے اس کے ہاتھ میں سرخ رنگ کا ایک پیکٹ دیکھا!۔۔۔۔ وہ اسے علانیہ لئے جا رہی تھی! اچانک ایک جگہ عمران نے اسے جگ کر کوئی چیز اٹھاتے دیکھا! وہ جلدی سے آگے بڑھ آیا! زیبا وہی پیکٹ زمیں سے اٹھا رہی تھی۔ وہ غالباً ایک کیفے سے نکلنے والے پانچ چھ آدمیوں کی بھیڑ سے الجھ گئی تھی اور اسی دوران میں پیکٹ بھی اس کے ہاتھ سے گر گیا تھا!۔۔۔۔ جو بات بھی رہی ہو! عمران یہ نہیں دیکھ سکا کہ یہ پیکٹ کیسے گرا تھا۔۔۔۔! زیبا پیکٹ اٹھا کر ہونٹوں میں کچھ بڑبڑاتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ عمران اس کے پیچھے چلتا رہا! لیکن اسے دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ اس کا تعاقب کر رہا ہے!۔۔۔۔
 

بلال

محفلین
لیٹر بکس گیرال اسٹریٹ کے سرے پر تھا! زیبا نے وہ پیکٹ اس میں ڈال دیا اور بغیر توقف سے آگے بڑھ گئی!۔۔۔۔ عمران وہیں کھڑا رہا جہاں رکا تھا! پھر تھوڑی دیر بعد وہ بھی آگے بڑھا اور جیب سے ایک لفافہ نکال کر لیٹر بکس میں ڈالنے لگا۔ وہ دراصل لیٹر بکس میں لگے ہوئے قفل کی ساخت دیکھنا چاہتا تھا۔
وہ پھر اپنی جگہ پر واپس آگیا!۔۔۔۔ چونکہ پہلے سے اس مہم کا پروگرام تھا اس لئے ساری تیاریاں مکمل تھیں۔ وہ رات بھر یہیں سڑک پر رک کے لیٹر بکس کی نگرانی کرنا چاہتا تھا! کار اس نے سڑک پر چھوڑ دی تھی!۔۔۔۔ اسی کار میں پھٹے پرانے کپڑوں کا جوڑا تھا!۔۔۔۔ عمران نے ایک دوکان سے سلیمان کو فون کیا کہ وہ کار وہاں سے لے جائے۔ اس کا نوکر سلیمان ایک اچھا خاصا ڈرائیور بھی تھا!۔۔۔۔ اسے فون کرنے کے بعد کار کی طرف آیا! اس میں سے پرانے کپڑوں کی گٹھری نکالی اور قریب ہی ایک پبلک پیشاب خانے میں جا گھسا۔
تھوڑی دیر بعد جب وہ وہاں سے برآمد ہوا تو حلیہ ہی اور تھا! جسم پر وہی پھٹا پرانا لباس تھا اور اس طرح لنگڑاتا ہوا چل رہا تھا جیسے پیر میں شدید ترین تکلیف ہو! بغل میں ایک گٹھری تھی جس میں شاید وہ کپڑے تھے جنہیں کچھ دیر قبل پہنے ہوئے تھا!
ٹھیک لیٹر بکس کے سامنے سڑک کی دوسری طرف اس نے ڈیرہ ڈال دیا۔۔۔۔ رات بھیگتی جا رہی تھی ایک بجے تک سڑک سنسان ہوگئی! عمران ایک عمارت کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا رہا۔ وہ تنہا نہیں تھا! دونوں طرف فٹ پاتھوں پر کئی بے خانماں پرے سو رہے تھے! کچھ دیر بعد عمران بھی لیٹ گیا لیکن اس کی نظر لیٹر بکس ہی پر تھی!۔۔۔۔ پھر کہیں کے گھڑیال نے چار بجائے! عمران نے اپنی رانوں میں زور زور سے چٹکیاں لے کر نیند کو بھگانے کی کوشش کر رہا تھا! نہ جانے کیوں یہاں اس فٹ پاتھ پر اسے گھر سے زیادہ آرام مل رہا تھا۔ آرام اور نیند میں چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔۔۔۔ نیند آتی رہی اور وہ اسے اپنے ذہن سے جھٹک دینے کی کوشش کرتا رہا!
"یہ تو کچھ بھی نہ ہوا۔۔۔۔" وہ اس وقت بڑابڑایا جب اجالا پھوٹنے لگا! رات بھر لیٹر بکس کے قریب کوئی سایہ تک نظر نہیں آیا تھا!
اب وہ اس پیکر کا انتظار کرنے لگا جو ڈاک نکال کر لے جاتا! اس نے سوچا ممکن ہے۔۔۔۔ وہ پیکر بھی اسی گروہ کا کوئی آدمی ہو! مگر یہ بات قرین قیاس نہیں تھی! ضروری نہیں کہ ایک ہی آدمی ہمیشہ ڈاک نکالتا رہے! لہٰذا یہ طریقہ تو اختیار کیا ہی نہیں جا سکتا! پھر دھوپ بھی پھیلنے لگی! عمران جہاں تھا وہیں رہا۔
تقریباً سات بجے ایک آدمی ڈاک نکالنے کے لئے لیٹر بکس کا قفل کھولنے لگا! عمران سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ اس نے خطوط نکالے ان میں سرخ رنگ کا وہ پیکٹ موجود تھا! نہ جانے کیوں پیکر نے اسے اٹھا کر دور سڑک پر پھینک دیا۔
لیٹر بکس کے قریب والی پان کی دوکان کا مالک اپنی دکان کھولنے جا رہا تھا! اس نے پیکر سے پوچھا! "کیوں چاچا! کیا پھینک دیا!"
"ارے لالہ۔ وہی پیکٹ! نہ جانے کون حرامزادہ مجھ سے مذاق کرتا ہے۔" پان والا اپنا کام روک کر پیکٹ کی طرف جھپٹا اور پھر اسے وہاں سے اٹھا کر واپس آیا۔ وہ اسے چاک کرتا ہوا کہہ رہا تھا پچھلی بار والے پیکٹ سے دو تین بڑی مزیدار تصویریں نکلی تھیں!"
اس نے پیکٹ کو کھول ڈالا مگر دوسرے ہی لمحہ میں بولا "دھت تیری کی! یہ تو پرانا اخبار ہے۔" اور پھر اس نے اخبار نکال کر زمین پر پٹخ دیا! اور لفافے کے پرزے اڑا دیئے! عمران کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں! اور وہ بار بار اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر رہا تھا! یہ تو کچھ بھی نہ ہوا وہ سوچنے لگا!۔۔۔۔ ان دونوں کی گفتگو سے یہی ظاہر ہوا تھا جیسے اس سے پہلے بھی وہ اسی قسم کے پیکٹوں سے دو چار ہو چکے ہیں۔ خصوصاً پیکر کا رویہ۔۔۔۔ اس نے جھلاہٹ ہی میں اسے دور پھینک دیا تھا! گویا اس سے پہلے بھی پرانے اخبار ہی کی طرح کی فضول چیزیں پیکٹوں سے برآمد ہوتی رہی تھیں۔ یہ بھی تو ممکن نہیں تھا کہ کسی نے اصل پیکٹ لیٹر بکس سے نکال کر اس کی جگہ دوسرا ڈال دیا ہو۔ اگر ایسا ہوا بھی تو عمران کو کیوں نہ خبر ہوئی کیونکہ وہ رات بھر لیٹر بکس کی نگرانی کرتا رہا تھا۔ عمران الجھن میں پڑ گیا آخر اس پیکٹ میں ردی اخبار ہونا کیا معنی رکھتا ہے۔
عمران وہاں سے اٹھ کر دوسرے فٹ پاتھ پر چلا آیا! اسی پان والے سے دو سگریٹ خریدے ایک سلگا لیا اور دوسرے کو کان پر رکھ کر نیچے پڑا ہوا اخبار اٹھانے لگا!۔۔۔۔
اخبار کو اٹھا کر وہ وہاں سے چل پڑا۔۔۔۔ وہ سوچنے لگا! کیا زیبا نے اسے الو بنایا تھا! مگر وہ تو ابھی حال ہی میں اس بات سے واقف ہوئی تھی کہ کوئی اس کی نقل و حرکت پر نظر رکھتا ہے!۔۔۔۔ ڈاک نکالنے والے پیکر اور پان والے کی گفتگو کا ماحصل اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا تھا کہ اس قسم کے پیکٹ ہمیشہ لیٹر بکس میں ملتے رہے ہیں اور ان میں سے فضول چیزیں ہی برآمد ہوتی رہی ہیں۔ یہ مسئلہ چکرا دینے والا تھا!
گھر پہنچ کر اس نے غسل کیا اور لباس تبدیل کرنے کے بعد ناشتے کے لئے غل غپاڑہ مچانے لگا! اس کی دوست روشی اب اس کے ساتھ نہیں رہتی تھی!۔۔۔۔ سارا کام اس کا نوکر سلیمان ہی سنبھالے ہوئے تھا۔
ناشتہ کر چکنے کے بعد عمران نے وہی اخبار میز پر پھیلا دیا جو اس پیکٹ سے نکلا تھا پچھلی تاریخوں کا اخبار تھا۔ ایک جگہ حاشیے پر اسے نیلی روشنائی کی تحریر نظر آئی۔۔۔۔ مگر یہ کچھ بھی نہیں تھا!۔۔۔۔ کچھ رقمیں جوڑی اور گھٹائی گئی تھیں! اکثر لوگ اخبار کے حاشیوں پر اس قسم کی حرکتیں کرتے رہتے ہیں! پھر اسے کچھ دستخط نظر آئے اور عمران بے ساختہ جھک کر انہیں غور سے دیکھنے لگا! پھر یک بیک کرسی سے اچھل پڑا!۔۔۔۔
 

بلال

محفلین
(۱۵)
جولیا نافٹزواٹر وہ خط دیکھ کر سرا سیمہ ہو گئی! حالانکہ ایکس ٹو نے پہلے ہی اس کی پیشگوئی کر دی تھی!۔۔۔۔ خط کسی نامعلوم آدمی کی طرف سے بھیجا گیا تھا!۔۔۔۔ تحریر نایپ میں تھی۔۔۔۔ اس میں جولیا سے کہا گیا تھا کہ وہ ہر ہفتہ سات سو روپے ادا کرے ورنہ اس کی وہ تحریر پولیس کے حوالے کر دی جائے گی جو اس نے ایک نوزائیدہ بچے کی لاش کے سلسلے میں دی تھی!۔۔۔۔ رقم پوسٹ بکس نمبر دو سو تیرہ کے پتہ پر بھیجنی چاہئے اور بہتیری دھمکیاں تھیں۔۔۔۔ آخر میں کہا گیا تھا کہ وہ یہ رقم ادا کر سکتی ہے کیونکہ اگر وہ چاہے تو اعلٰی طبقے کے لوگوں کو بہ آسانی پھانس سکتی ہے! بہر حال لب لباب یہ تھا کہ اگر وہ جائز طریقوں سے رقم حاصل نہیں کر سکتی تو اسے اپنی جان بچانے کے لئے کوئی ناجائز طریقہ اختیار کرنا ہی پڑے گا۔
جولیا نے خط لکھنے والے کو بے شمار گالیاں دیں اور فون پر ایکس ٹو کے نمبر ڈائیل کرنے لگی لیکن دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں ملا!۔۔۔۔ پھر اس نے کئی بار اس سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہوئی! اس کے پاس عادل پرویز کے متعلق بھی ایک اہم خبر تھی!
دو بجے کے قریب خود ایکس ٹو کا فون آیا۔ جولیا اسے موصول ہونے والے خط کے متعلق بتا کر بولی۔ "عادل پرویز کے متعلق سنیئے اب اس نے وہ بات مجھے بتائی ہے جو پولیس کو بھی نہیں بتائی تھی! وہ کہتا ہے کہ حقیقتاً ان دونوں نے فرار ہو جانے کا پروگرام بنا لیا تھا! مگر عین وقت پر وہ پر اسرار طریقہ سے غائب ہو گئی!۔۔۔۔ اس کے بیان ہے کہ وہ شادی کرنا چاہتے تھے مگر رابعہ کا باپ اس رشتے کو پسند نہیں کرتا تھا! وہ دونوں ایک ہی دفتر میں کام کرتے ہیں!"
"یعنی مسٹر ہارپر کے دفتر میں!" ایکس ٹو نے پوچھا!
"جی ہاں!۔۔۔۔" جولیا نے جواب دیا! مگر یہ مرد بھی بڑے الو کے پٹھے ہوتے ہیں! عادل پرویز کو مجھ میں رابعہ کی جھلکیاں نظر آنے لگی ہیں! وہ گھنٹوں میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے روتا رہتا ہے۔۔۔۔ کہتا ہے کہ تم دن میں ایک بار اپنی صورت ضرور دکھا دیا کرو۔ ورنہ میں مر جاؤں گا!"
جواب میں ایکس ٹو نے قہقہہ لگایا اور بولا "عورتیں بھی ایسی ہی الو کی پٹھی ہوتی ہیں! کوئی خاص بات نہیں ہے۔ وہ آدمی کو بری طرح الو بناتی ہے۔۔۔۔ وہ ورڈسورتھ ہو جاتا ہے کیٹس ہو جاتا ہے۔۔۔۔ بائرن ہو جاتا ہے۔۔۔۔ میر ہو جاتا ہے غالب ہو جاتا ہے دفتر کے دفتر سیاہ کرتا ہے!۔۔۔۔ مگر مقصد۔۔۔۔ مقصد ان سب کا صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک بچے کا باپ بننا چاہتے ہیں!۔۔۔۔ یہ ایک بحث طلبہ مسئلہ ہے۔۔۔۔ مگر میرے پاس فی الحال وقت نہیں ہے! پھر کبھی سمجھانے کی کوشش کروں گا!"
"آپ بڑے کھر درے ہیں!" جولیا بولی!
"ہاں میں کھردرا ہوں۔۔۔۔ اس لئے ہر وقت خوش رہتا ہوں! مجھے کوئی غم نہیں ہے!" جولیا کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اب کیا کہے۔۔۔۔ اور ایکس ٹو نے بھی سلسلہ منقطع کر دیا!۔۔۔۔ نہ جانے کیوں جولیا اداس ہو گئی تھی۔۔۔۔
 

بلال

محفلین
(۱۶)
عمران زیبا سے پھر ملا! وہ دونوں ماہنامہ "کمر لچکدار" کے دفتر کے سامنے ہی ایک دوسرے سے ٹکرا گئے تھی! زیبا اسے دیکھ کر ہنس پڑی!۔
"میں آج کل دن رات تمہارے متعلق سوچا کرتی ہوں، نہ جانے کیا بات ہے!"
"سوچتی ہو گی کہ اس کی بدولت ضرور جیل نصیب ہو گی۔"
"ہونہہ! اس کی مجھے پروا نہیں ہے اگر مجھے اس کا خیال ہوتا تو تمہیں اتنا کچھ کبھی نہ بتاتی!"
"مجھ ان ساتھی لڑکیوں سے ہمدردی ہے جو اس جال میں پھنس گئی ہیں!" عمران نے کہا۔
"اچھا سچ بتانا پتلون کا کیا قصہ تھا!۔۔۔۔"
"کچھ بھی نہیں! مجھے عورتیں صرف اپنے لباس میں اچھی لگتی ہیں!۔۔۔۔ اچھا آؤ چلو کہیں بیٹھیں گے!"
وہ کچھ دور تک پیدل چلتے رہے پھر ایک ریستوران میں جا بیٹھے!
"تمہارا خیال غلط ہے!" عمران اس سے کہہ رہا تھا!" میرا تعلق پولیس سے نہیں ہے! لیکن میں اس گروہ کا قلع قمع کئے بغیر نہ مانوں گا!"
زیبا ہنسنے لگی بالکل اسی طرح جیسے کسی بچے کی لاف و گزاف پر ہنس رہی ہو! عمران چڑ گیا!
"کیا تم مجھ الو نہیں سمجھتی ہو!"
"نہیں تم نے حالات کا غلط اندازہ لگایا ہے! یہ گروہ بہت بڑا ہے! اور ایک کو دوسرے کی خبر نہیں۔ جس کے سپرد جو کام کر دیا گیا ہے وہ اسے آنکھیں بند کر کے انجام دیتا رہتا ہے! میری ہی مثال لے لو۔۔۔۔ میں منی آرڈر اور بیمے وصول کرتی ہوں اور انہیں ایک پیکٹ میں رکھ کر ایک مخصوص لیٹر بکس میں ڈال دیتی ہوں لیکن مجھے علم نہیں کہ وہ پیکٹ کس کے پاس پہنچتا ہے!
کیونکہ اس پر نہ تو کسی کا پتہ لکھا جاتا ہے اور نہ ٹکٹ لگائے جاتے ہیں!"
"کل والے پیکٹ میں تھا!"
"نوٹ تھے!۔۔۔۔"
"کیا وہ ہمیشہ سرخ رنگ کا ہوتا ہے!"
"ہاں ہدایت یہی ہے!۔۔۔۔"
عمران کچھ سوچنے لگا! پھر تھوڑی دیر بعد بولا "کل وہ پیکٹ تمہارے ہاتھ سے پہلی بار گرا تھا! یا اکثر اسی طرح گر جاتا ہے!"
"اوہو!" زیبا چونک کر عمران کو گھورنے لگی پھر آہستہ سے بولی!" تو تم میرا تعاقب کر رہے تھے!۔۔۔۔ خیر مجھے اس سے بحث نہیں البتہ پیکٹ کے گرنے کا معاملہ عجیب ہے! وہ ہمیشہ کہیں نہ کہیں میرے ہاتھ سے گرتا ضرور ہے! شروع سے دیکھتی آرہی ہوں! اور اس کے مطابق ہدایت یہ ہے کہ میں اسے لیٹر بکس میں ڈالنے کے لئے علانیہ طور پر لے جاؤں!"
"اور وہ پیکٹ کسی بھیڑ ہی میں پھنس کر گرتا ہو گا!"
"ہاں یہی ہوتا ہے! لیکن تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو!"
"کچھ نہیں یونہی۔۔۔۔ خیر ہٹاؤ۔۔۔۔ دیکھو تم اس شلوار اور جمپر میں کتنی اچھی لگتی ہو!" پھر وہ اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے اور عمران تھوڑی دیر بعد وہاں سے اٹھ گیا!
 

بلال

محفلین
(۱۷)
مقتولہ رابعہ کا باپ بہت پریشان تھا!۔۔۔۔ پولیس نے اتنے دنوں میں اسے تنگ کر ڈالا تھا!۔۔۔۔ دوسری طرف عادل پرویز اس کے لئے سوہان روح بنا ہوا تھا۔ وہ اسی کے دفتر میں اکاؤنٹنٹ تھا۔۔۔۔ اور وہ خود منیجر۔۔۔۔ کاروبار مسٹر ہارپر کا تھا!۔۔۔۔ یہ فرم بڑے پیمانہ پر ایکسپورٹ اور امپورٹ کا کام کرتی تھی!۔
رابعہ کا باپ کمزور دل کا آدمی تھا!۔۔۔۔ عادل پرویز اٹھتے بیٹھتے اسے دھمکیاں دیتا رہتا!۔۔۔۔ اسے ڈراتا اور سہماتا!۔۔۔۔ آخر تنگ آگر آج اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ کم از کم عادل پرویز کو تو اس فرم سے نکلوا ہی دے گا!۔۔۔۔ وہ ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے رات کو مسٹرہارپر کی کوٹھی پر پہنچ گیا! ہارپر آج کل اس پر بہت مہربان تھا! کارڈ ملتے ہی اس نے اسے پھر اندر بلوالیا۔۔۔۔ ہارپر ایک اچھے تن و توش کا آدمی تھا! عمر زیادہ نہیں تھی! جوان ہی معلوم ہوتا تھا ایک دیسی عیسائی تھا!
"عادل پرویز میرے لئے بہت تکلیف دہ ہو گیا ہے جناب!" اس نے کہا!
"کیوں کیا بات ہے!۔۔۔۔ عادل پرویز!۔۔۔۔ میرا خیال ہے کہ تمہاری لڑکی کے سلسلے میں میں نے اس کا نام بھی سنا تھا!"
"جی ہاں!۔۔۔۔ میں بڑا بد نصیب ہوں! لڑکی جان سے گئی۔ میں بد نام ہو گیا!۔۔۔۔ اور اب وہ مجھے طرح طرح کی دھمکیاں دیتا ہے!"
"وہ کیا قصہ ہے سنا ہے تمہاری بیگم اسے اپنی لڑکی کی لاش تسلیم نہیں کرتیں!۔۔۔۔" ہارپر نے پوچھا!
"جی ہاں! اور مجھے بھی شبہ نہیں بلکہ یقین ہے کہ وہ میری لڑکی کی لاش ہی نہیں تھی! کسی نے اسے میری لڑکی کی لاش ثابت کرنے کی کوشش کی تھی!"
"ایسا کون ہو سکتا ہے! جسے تمہاری لڑکی کا وہ لباس مل سکے جو وہ پہنے ہوئی تھی۔ "ہارپر نے حیرت سے کہا!۔۔۔۔
رابعہ کے باپ نے کوئی جواب نہیں دیا! پھر ہارپر ہی نے تھوڑی دیر بعد کہا "کیا وہ عادل پرویز نہیں ہو سکتا! میں نے تو یہاں تک سنا ہے کہ دونوں شادی کرنا چاہتے تھے! لیکن تم اس کے مخالف تھے!"
"جی ہاں! یہ درست ہے! میں یہ رشتہ پسند نہیں کرتا تھا! آپ سے کیا پردہ!"
"اچھا! تم اسے ایک ماہ کا نوٹس دے کر بر طرف کر سکتے ہو! اس کے بعد میں اس کے خلاف انکوائری کراؤں گا!۔۔۔۔ تم مطمئن رہو!۔۔۔۔ اگر اس میں اس کا ہاتھ ہے تو خاطر خواہ سزا ملے گی!۔۔۔۔ بس یا اور کچھ کہنا چاہتے ہو!"
"بس اتنا ہی! آپ کا بہت بہت شکریہ! میں عادل پرویز کی شکل نہیں دیکھنا چاہتا!"
"اور کوئی بات۔۔۔۔"
"جی نہیں!۔۔۔۔ اب آپ آرام فرمائیں!۔۔۔۔" رابعہ کا باپ اٹھ کر کمرے سے چلا گیا! ہارپر نے سگریٹ کے ڈبے سے ایک سگریٹ نکالا!۔۔۔ اور اسے ہونٹوں میں دبا کر شاید سلگانا بھول گیا! وہ خیالات میں ڈوبا ہوا کمرے میں ٹہل رہا تھا! اچانک اس کی نظر کھڑکی پر پڑی جہاں ایک سیاہ رنگ کا ہاتھ اندر کی طرف رینگتا ہوا معلوم ہو رہا تھا۔ ہارپر ٹہلتے ٹہلتے رک گیا! پھر اس کے دیکھتے ہی دیکھتے ایک سر تا پا سیاہ آدمی کمرے میں آکودا۔۔۔۔ اس کا چہرہ بھی سیاہ تھا! لیکن خدوخال ندارد۔۔۔۔ صرف آنکھیں نظر آرہی تھیں!۔۔۔۔ اس کے ہاتھ میں عجیب وضع کا ریوالور تھا۔
ہارپر بڑے پرسکون انداز میں کھڑا رہا اس کے ہونٹوں پر ایک طنزیہ سی مسکراہٹ تھی! دونوں خاموش تھے! ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے ان میں سے کوئی بھی بولنے کا ارادہ نہیں رکھتا!۔۔۔۔
"مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہے ہو! مسٹر ہارپر۔۔۔۔!" سیاہ فام آدمی نے کہا!
"نہیں مجھے تمہارے مقدر پر ہنسی آ رہی ہے!۔۔۔۔" ہارپر نے پر سکون لہجے میں کہا۔
"کیونکہ تم جس آسانی سے یہاں آئے ہو اسی طرح واپسی نہ ہو گی!"
"میں واپس جانے کے لئے نہیں آیا۔۔۔۔!" سیاہ فام نے لاپروائی سے کہا۔
"خیر!" ہارپر بولا "اب مقصد کی طرف آ جاؤ!۔۔۔۔ کیا تمہیں اپنی تجوری کی کنجیاں دوں!"
"ہم انیسویں صدی میں نہیں ہیں مسٹر ہارپر!" سیاہ فام نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
"یہ انیسویں صدی کے کسی لٹیرے کا بہروپ نہیں ہے!۔۔۔۔ اور آج کل کوئی آدمی بھی گھر میں بڑی رقمیں نہیں رکھتا!"
"پھر کیا تم مجھے بھیرویں سنانے آئے ہو!۔۔۔۔"
"ہو سکتا ہے بھرویں ہی کا وقت آجائے!"
ہارپر پھر خاموش ہو کر اسے گھورنے لگا!۔۔۔۔
"تم ابھی عادل پرویز کے بارے میں کیا کہہ رہے تھے!۔۔۔۔" سیاہ فام نے پوچھا۔
"اچھا!" تو تم عادل پرویز ہو!۔۔۔۔ مجھے افسوس ہے کہ میں تمہیں پہلے کیوں نہ پہچان سکا!"
ہارپر نے مسکرا کر کہا!
"میں کوئی بھی ہوں! اس سے تمہیں کیا!۔۔۔۔ یہ معلوم کر کے تم نہ فائدے میں رہو گے اور نہ نقصان میں!"
"شٹ اَپ!۔۔۔۔" دفعتاً ہارپر بہت زور سے چیخا۔۔۔۔ "میں بد تمیزوں کو کبھی معاف نہیں کرتا!۔۔۔۔ اپنی حیثیت کو نہ بھولو۔۔۔۔"
"اور میں تمہیں ایک دوسری نصیحت کروں گا!۔۔۔۔" سیاہ فام نے آہستہ سے کہا۔
"بیکار حلق نہ پھاڑو۔۔۔۔ کوئی تمہاری مدد کو نہیں آئے گا!۔۔۔۔ ویسے بھی غل غپاڑا سن کر مجھے اختلاج ہونے لگتا ہے! دل بہت کمزور ہے! اسی لئے ریوالور بھی بغیر آواز کا رکھتا ہوں!"
"کیوں! میری مدد کے لئے کیوں نہ آئے گا!"
"سنتھیلک گیس کے صرف تین غبارے ان کے لئے کافی ہوئے ہیں! انہیں گھنٹوں ہوش نہیں آئے گا! سمجھے! اور اب تم میرے بے آواز ریوالور کے رحم و کرم پر ہو!"
"تم کیا چاہتے ہو!۔۔۔۔"
"رابعہ کی واپسی!۔۔۔۔"
"کیا بکواس ہے! تم کس رابعہ کی بات کر رہے ہو!"
"عادل پرویز کی محبوبہ کی بات ہے۔۔۔۔ ڈیئر مسٹر ہارپر!۔۔۔۔"
"میں اسے کیا جانوں۔۔۔۔"
"آہا اتنے بھولے نہ بنو!۔۔۔۔ کیا تم نے اس وقت اسے اپنے آدمیوں سے نہیں اٹھوا لیا تھا جب وہ ریلے سے تھوڑے فاصلے پر عادل پرویز کا انتظار کر رہی تھی!۔۔۔۔ کیا تم عرصہ سے اس پر نظر نہیں رکھتے تھے! کیا وہ اکثر تم سے بھی نہیں ملتی رہتی تھی!۔۔۔۔ میرے پاس واضح ثبوت ہے۔۔۔۔"
ہارپر کچھ نہ بولا! اس کی آنکھوں میں حیرت تھی!
"اور ناہید اور شیلا کا پتہ بھی تم ہی سے پوچھوں گا!"
"میں ان سب لڑکیوں کی موت کا ذمہ دار تمہیں ٹھہراتا ہوں، جن کی بگڑی ہوئی لاشیں شہر میں اب تک مل چکی ہیں۔"
"تم کون ہو۔۔۔۔" ہارپر نے پھر وہی سوال دہرایا!
"میں تمہیں الزام دیتا ہوں کہ تم بیشمار شریف لڑکیوں سے پیشہ کراتے ہو!"
"تم بکواس کر رہے ہو!" ہارپر نے پھنسی پھنسی آواز میں کہا۔
"میں اتنا احمق نہیں ہوں کہ ثبوت مہیا کئے بغیر چلا آتا!۔۔۔۔ ویسے میرے پاس ایک اقرار نامہ بھی تیار ہے جس پر تمہیں اپنے دستخط کرنے پڑیں گے۔۔۔۔!
"کیوں!"
"کیونکہ تمہیں ایک ایسی بھی رقم ملتی ہے جس پر انکم ٹیکس نہیں ادا کرنا پڑتا! پر ہفتہ تم ہزاروں روپے کماتے ہو! اس میں میرا بھی حصہ ہونا چاہیئے!"
"اور۔۔۔۔! تم جو کچھ بھی بک رہے ہو اس کے لئے تمہارے پاس کوئی ثبوت بھی ہے!"
"ایک نہیں درجنوں ثبوت ہیں!۔۔۔۔ میں رابعہ۔۔۔۔ ناہید!۔۔۔۔ اور شیلا کو اسی عمارت سے برآمد کرا سکتا ہوں کیا سمجھے! شیلا اور ناہید کو بھی تم ختم کر دیتے مگر فی الحال تم مزید لاشیں سامنے نہیں لانا چاہتے تھے۔ کیوں۔ کیا میں غلط کہہ رہا ہوں!"
"تم جھک مار رہے ہو!" ہارپر غرایا! "جن لڑکیوں کے تم نام لے رہے ہو! میں نے آج تک ان کی شکلیں بھی نہیں دیکھیں۔ چپ چاپ یہاں سے چلے جاؤ!"
"وہ لڑکیاں تمہاری کوٹھی ہی سے بر آمد کی جا سکتی ہیں!"
"تم نے میرے آدمیوں کو بیہوش کر دیا ہے! یہ تمہارا ہی بیان ہے! ایسی صورت میں تین کیا تین ہزار لڑکیاں یہاں داخل ہو سکتی ہیں!۔۔۔۔"
"تو گویا میں تمہیں خواہ مخواہ پھانسنے کی کوشش کر رہا ہوں!" سیاہ فام آدمی ہنسا!
"یقیناً!۔۔۔۔ پتہ نہیں تم کون ہو!۔۔۔۔ اور مجھ سے کیوں پُرخاش رکھتے ہیں!"
"پُر خاش! ارے یہ تم کیا کہہ رہے ہو مسٹر ہارپر! میں تو تم سے بڑی محبت کرتا ہوں! زیادہ نہیں صرف تیس ہزار روپیہ ماہانہ پر کام چل سکتا ہے! جب اکتیس دن کا مہینہ ہو تو اکتیس ہزار۔۔۔۔ فروری جب اٹھائیس دن کا ہو تو بتیس ہزار۔۔۔ انتیس کا ہو تو۔۔۔۔ چالیس ہزار شابش۔۔۔۔ تو پھر میں نکالوں نا اقرار نامہ!"
"شائد تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے!"
"ہاں دماغ کی خرابی ہی تو تھی جس کی بناء پر مجھے پوسٹ بکس نمبر دو سو تیرہ کی معلومات حاصل ہوئیں! زیبا سے ملاقات ہوئی میں نے وہ سرخ پیکٹ بھی دیکھے جو زیبا گیرال اسٹریٹ کے لیٹر بکس میں ڈالا کرتی ہے۔۔۔۔ پھر ان پیکٹوں سے ردی کاغذ بھی برآمد ہوتے دیکھے!۔۔۔۔ تم کس صفائی سے نوٹوں والا پیکٹ اڑا لیتے ہو۔ یہ بھی دیکھا ہے!۔۔۔۔ اسی لئے تم نے ایک مخصوص رنگ کے پیکٹ میں نوٹ رکھنے کا حکم دے رکھا ہے! وہ پیکٹ ہاتھ میں لے کر چلتی ہے تم چند آدمیوں کی ایک بھیڑ لئے ہوئے اس سے ٹکراتے ہو! اس کے ہاتھ والا پیکٹ غائب ہوتا ہے اور تم ویسا ہی ایک دوسرا پیکٹ اس طرح گرا دیتے ہو کہ وہ اسے اپنا ہی پیکٹ سمجھتی ہے کیوں کیا میں غلط کہہ رہا ہوں!"
ہارپر کچھ نہیں بولا اس کے چہرے پر تشویش کے آثار نظر آنے لگے تھے! تھوڑی دیر بعد اس نے آہستہ سے کہا!
"تیس ہزار بہت ہیں!۔۔۔۔"
"اس سے کم پر میں قیامت تک نہیں تیار ہوں گا!"
 

بلال

محفلین
وہ پھر سوچنے لگا! آخر اس نے کہا! "اقرار نامہ نکالو!۔۔۔۔ مگر تیس ہزار بہت ہیں کچھ کم کرو!"
"چلو دس پانچ کم کر لو!۔۔۔۔ اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں ہے! تمہیں شرم آنی چاہئے! اتنا کماتے ہو پھر بھی صرف تیس ہزار ماہانہ پر جان نکلتی ہے!۔۔۔۔ میرے اخراجات بہت وسیع ہیں ورنہ میں یکمشت دو چار ہزار کم کر دیتا!۔۔۔۔ یہ لو۔۔۔۔ یہ رہا اقرار نامہ! اسے اچھی طرح پڑھ لو تاکہ بعد میں کوئی شکایت نہ پیدا ہو اور ہمارے تعلقات خوشگوار رہیں!"
ہارپر اقرار نامہ اس کے ہاتھ سے لے کر پڑھنے لگا! یہ شاید اس کی سیاہ کاریوں کی پوری روداد تھی کیونکہ آہستہ آہستہ اس کے چہرے کی رنگت پھیکی پڑتی جا رہے تھی اور وہ بار بار اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر رہا تھا!
"تم بہت خطرناک آدمی معلوم ہوتے ہو! میرے ساتھ مل کر کام کرو۔۔۔۔! بہت فائدہ میں رہو گے!" اس نے کہا!
"میں مفت کی روٹیاں توڑنے کا عادی ہوں! کام مجھ سے نہیں ہو سکتا! جب تیس ہزار گھر بیٹھے ملیں گے تو مزید کام کرنے کی کیا ضرورت ہے!"
"اچھا فی الحال ایک کام کر دو!۔۔۔۔ اس کے لئے میں تمہیں پچاس ہزار دوں گا!"
"چلو بتاؤ! ممکن ہے! میں وہ کام کسی نہ کسی طرح کر ہی ڈالوں! مگر آدھی رقم کام سے پہلے ہی لے لوں گا! آدھی بعد میں!"
"منظور ہے! کام یہ ہے کہ کسی طرح ان تینوں لڑکیوں کو ٹھکانے لگا دو! آج کل میرے ستارے گردش میں ہیں اس لئے میں یہ کام خود نہیں انجام دینا چاہتا!"
"دیکھو! میں خود تو نہیں کر سکتا یہ کام لیکن میرے پاس ایسے آدمی ضرور ہیں جو یہ کام انجام دے ڈالیں لیکن وہ کم از کم دس ہزار کا مطالبہ کریں گے اس لئے پچاس ہزار کم ہے! ہاں ساٹھ ہزار پر معاملہ طے ہو سکتا ہے!"
"اچھا تو آؤ میرے ساتھ!"
"پہلے اس پر دستخط کر دو۔۔۔۔!"
"یہاں میرے پاس قلم نہیں ہے!"
"میرے پاس ہے قلم!" سیاہ پوش نے قلم نکال کر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
ہارپر ایک کرسی پر بیٹھ گیا!
"آہا!۔۔۔" سیاہ پوش بولا!" نہیں دوست!۔۔۔۔ میں وہ دستخط چاہتا ہوں جو تم اپنے چیکوں پر کرتے ہو!۔۔۔۔ کاروباری کاغذات پر کرتے ہو! وہ دستخط چاہتا ہوں۔ جو اس ہفتے والے پیکٹ کے پرانے اخبار پر تھے۔ انہیں دستخط کی بناء پر تو میں تم تک پہنچا ہوں اور ہاں آئندہ کے لئے نصیحت پکٹرو! اپنے دستخط اِدھر اُدھر نہ بنایا کرو! اگر اس اخبار پر تمہارے دستخط نہ ملتے تو میں قیامت تک تمہیں نہ پا سکتا!"
"تم واقعی بہت چالاک ہو! تم سے چالاکی نہیں چل سکے گی!" ہارپر ہنس کر بولا! اور اسنے وہی دستخط بنا دیئے جو سیاہ پوش چاہتا تھا! پھر بڑے خلوص سے کہا! "اب تو اپنی شکل دکھا دو!"
"کیا ان سینکڑوں لڑکیوں نے تمہاری شکل دیکھی ہے! جنہیں تم بلیک میل کرتے ہو!ً آج سے میں تمہیں بلیک میل کروں گا اور تم زندگی بھر پتہ نہیں لگا سکو گے کہ میں کون ہوں! سیاہ پوش اس کے پیچھے کھڑا تھا، جیسے ہی وہ اقرار نامے کو میز سے اٹھانے کے لئے جھکا ہارپر نے اچھل کر اس کے چہرے پر اپنا سر مار دیا! سیاہ پوش اس غیر متوقع حملے کیلئے تیار نہیں تھا! وہ کراہ کر دوسری طرف الٹ گیا! چوٹ شاید اس کی ناک پر لگی تھی پستول اس کے ہاتھ سے نکل گیا! قبل اس کے کہ وہ اٹھ سکتا ہارپر نے جھپٹ کر پستول اٹھا لیا! نال سیاہ پوش کی طرف اٹھی اور ٹریگر دبا دیا گیا! لیکن اس میں سے گولی کی بجائے پانی کی دھار نکلی!۔۔۔۔ دوسری طرف سیاہ پوش نے قہقہہ لگایا! پھر اگر وہ ایک طرف ہٹ نہ گیا ہوتا تو پستول اس کی پیشانی پر پڑتا!
یہ وار بھی خالی جاتے دیکھ کر ہارپر بھاگ نکلا!۔۔۔۔ سیاہ پوش اس کے پیچھے جھپٹا! لیکن وہ میز پر سے اقرار نامہ اٹھانا نہیں بھولا تھا!۔۔۔۔
ہارپر کوٹھی سے باہر نکل جانے کی کوشش کر رہا تھا! لیکن اسے کامیابی نہیں ہوئی! شاید سیاہ پوش نے اس کا انتظام پہلے ہی کر لیا تھا!۔۔۔۔ اس نے ہارپر کو ایک کمرے میں گھستے دیکھا!۔۔۔۔ وہ تیزی سے آگے بڑھا!۔۔۔۔ لیکن کمرہ خالی تھا! ہارپر کہیں نظر نہ آیا! دوسری طرف کوئی دروازہ بھی نہیں تھا! سیاہ پوش نے معنی خیز انداز میں سر ہلایا! ایسا معلوم ہوا جیسے اسے کچھ یاد آگیا ہو۔۔۔۔ پھر وہ اس گول میز کی طرف جھپٹا جو کمرے کے وسط میں بچھی ہوئی تھی! اس کا اوپری حصہ دونوں ہاتھوں سے گھمانے لگا! اچانک ایک کھٹاکا سنائی دیا اور کمرے کے فرش میں ایک جگہ ایک چھوٹی سی خلا پیدا ہو گئی! اتنی چھوٹی کہ ایک ہی آدمی اس سے گذر سکتا تھا!۔۔۔۔ سیاہ پوش بڑی تیزی سے اسے اس خلاء میں اتر گیا!۔۔۔۔ جیسے ہی وہ آخری زینے پر پہنچا اوپر کی خلا ایک آواز کے ساتھ بند ہو گئی! وہ ایک تہہ خانے میں تھا! لیکن یہاں کافی روشنی تھی اور گھٹن کا احساس نہیں ہوتا تھا! وہ کچھ اسی طرح بنایا گیا تھا۔ مگر تہ خانے کے اس حصے میں سناٹا تھا!۔۔۔۔ یہاں کوئی بھی نظر نہیں آیا۔ سیاہ پوش آگے بڑھا۔ اور دروازے سے گذر کر دوسرے کمرے میں پہنچا! یہاں تین لڑکیاں موجود تھیں۔ اور چوتھا ہارپر تھا! سیاہ پوش کو دیکھ کر اس کے منہ سے ایک گندی سی گالی نکلی اور وہ اس پر ٹوٹ پڑا۔ؔ! مگر اس بار سیاہ پوش نے بڑی پھرتی دکھائی! وہ ایک طرف ہٹ گیا! اور ہارپر دیوار سے جا ٹکرایا! تینوں لڑکیاں کھڑی ہو گئی تھیں۔ ان کے پیروں میں زنجیریں تھیں! اور وہ ایک ایک گز سے زیادہ آگے نہیں بڑھ سکتی تھیں۔
ہارپر پھر پلٹا! لیکن اس بار سیاہ پوش کا گھونسہ اس کے جبڑے پر پڑا اور لڑکیاں بے تحاشہ ہنسنے لگیں! ہارپر گالیاں بکتا ہوا فرش سے اٹھ رہا تھا!۔۔۔۔
"کیوں خواہ مخواہ جان دے رہے ہو!" سیاہ پوش ہنس کر بولا!" ابھی اتنے دن تو جیو کہ لوگ تمہاری پھانسی کی خبر سن سکیں!۔۔۔۔"
ہارپر اٹھ کر چپ چاپ کھڑا ہو گیا اس کا چہرہ زرد تھا! اور ہونٹ خشک ہو گئے تھے!
"چالیس ہزار ماہانہ!" اس نے آہستہ سے کہا۔
"اب تم نے عقلمندی کی بات کی ہے!" سیاہ پوش ہنس کر بولا "اچھا ان لڑکیوں کی بیڑیاں کھول دو!"
"کیا کرو گے؟"
"انہیں اپنے ساتھ لے جاؤں گا مگر ساٹھ ہزار!"
"میں دوں گا!" ہارپر نے کہا اور اپنی جیبیں ٹٹول کر ایک کنجی نکالی! دوسرے لمحے میں وہ جھکا ہوا بیڑیاں کھول رہا تھا! لڑکیاں آزاد ہو گئیں!
"اب تم چپ چاپ! ایک جگہ کھڑے ہو جاؤ!"
"کیوں؟"
"ان لڑکیوں سے تمہیں جوتے کھلواؤں گا!" سیاہ پوش نے زہریلے لہجے میں کہا!
لڑکیاں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگیں! اور ہارپر چیخا!" تم ایسا نہیں کر سکتے!"
"ضرور کروں گا! میں تم سے زیادہ طاقتور ہوں!"
ہارپر ایک بار پھر اس پر جھپٹ پڑا۔ مگر اس دفعہ سیاہ پوش نے اسے اپنے سے بلند کر کے اس زور سے فرش پر پٹخ دیا کہ ہارپر کی چیخیں نکل گئیں! اب ہارپر میں اٹھنے کی سکت نہیں رہ گئی تھی!۔۔۔۔ وہ فرش پر پڑے ہی بڑے مغلظات اڑا رہا تھا!
"کیوں لڑکیو!" سیاہ پوش بولا "کیا تم اس پر جوتے نہیں برساؤ گی!"
"نہیں ہم اس کمینے کی بے بسی سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے!" شیلا نے کہا!
واقعی تم شریف ہو۔۔۔۔ اپنا سب کچھ کھو چکنے کے بعد بھی تم نے کچھ نہیں کھویا!" سیاہ پوش نے کہا پھر رابعہ کی طرف دیکھا جو ان دونوں سے کہیں زیادہ حسین تھی!
"تم اس کے ہاتھ کیسے لگی ٹھیں!" سیاہ پوش نے اس سے پوچھا!
"اس نے مجھے زبردستی پکڑوا لیا تھا!" رابعہ نے مردہ سی آواز میں کہا۔
"کیا اسے معلوم تھا کہ تم عادل پرویز کے ساتھ فرار ہونے والی ہو!"
رابعہ نے اس کا جواب فوراً نہیں دیا! اس کے چہرے پر شرمندگی کے آثار تھے! سیاہ پوش کے دوبارہ استفسار پر اس نے کہا "وہ مجھ سے کئی بار کہہ چکا تھا کہ میں اس سے سول میرج کر لوں۔ لیکن میں تیار نہیں ہوئی! اس نے کسی طرح پتہ لگا لیا ہو گا کہ عادل پرویز میرا دوست ہے!"
"ہوں! اور ناہید! تم نے اسے کسطرح اطلاع دی تھی کہ شیلا دانش منزل میں ایک جاسوس کے چکر میں پڑ گئی ہے!" ناہید رونے لگی! بڑی مشکل سے اس کے حلق سے آواز نکل سکی!
"میں نے کیفے اٹالیانو کے منیجر کو فون کیا تھا!"
"ہوں! تو وہ بھی اس کا آدمی ہے۔ خیر۔۔۔۔ اب باہر چلو!"
"کیا آپ وہی ہیں!" شیلا نے پوچھا!" جو اس رات مجھے ملے تھے! دانش منزل والے۔۔۔۔!"
"نہیں!۔۔۔۔ وہ آدمی تو ایک عام شہری ہے! اس نے ہمارے محکمے کو اطلاع دی تھی!"
 

بلال

محفلین
(۱۸)
دوسرے دن اخبارات کا انداز چیخنے کا سا تھا! پولیس کی غفلت اور محکمہ سراغرسانی کی لا پروائی کو جی بھر کے اچھالا گیا تھا! اخبارات کو اس کا علم نہ جانے کیسے ہو گیا تھا کہ یہ کیس سیکرٹ سروس والوں کی طرف سے محکمہ سراغراسانی کو سونپا گیا تھا! محکمہ سراغراسانی کے سپرنٹنڈنٹ کیپٹن فیاض کی بوکھلاہٹیں قابلِ دید تھیں! وہ صبح سے افسران بالا کے سامنے قلا بازیاں لگا رہا تھا!۔۔۔۔ اور سیکرٹ سروس والوں کو دل ہی دل میں گالیاں سے رہا تھا! جنہوں نے اس چیز کی بھی تشہیر کرا دی تھی کہ یہ کیس انہوں نے محکمہ سراغراسانی کو دیا ہے۔
اسی شام کو عمران زیبا سے ملا۔۔۔۔ وہ آفس سے نکل رہی تھی! عمران کو دیکھتے ہی اس کی طرف جھپٹی۔
"معاف کیجئے گا! میں نے آپ کو پہچانا نہیں!" عمران نے بے رخی سے کہا!
"ارے۔۔۔۔ مجھے نہیں پہچانا! یا اب میرے بھی ہتھکڑیاں لگوانے آئے ہو! کیا تمہارا تعلق سیکرٹ سروس سے ہے!"
"نہیں میرا تعلق کسی سے بھی نہیں ہے! میں نے تم سے کہا تھا کہ گروہ ٹوٹ جائے گا! وہ ٹوٹ گیا میں نے تم سے کہا تھا کہ تم پتلون پہننا چھوڑ دو گی۔ تم نے چھوڑ دیا! اب میں کہتا ہوں کہ تم آئندہ شرافت سے زندگی بسر کرو گی!۔۔۔۔ یہ بھی تمہیں کرنا پڑے گا!"
زیبا کچھ نہ بولی وہ حیرت سے عمران کو دیکھ رہی تھی!
"آج میں نے ایک کہانی لکھی ہے!" "حاتم کی خالا" کیا تمارے رسالے میں چھپ جائے گی!"
"تم دوسروں کو الو کیوں بناتے ہو!"
"پھر کیا بناؤں! الو کے علاوہ اور کوئی پرندہ مجھے پسند نہیں۔"
"تم آخر ہو کیا بلا!"
"ایک بگڑا ہوا ریئس! لیکن تم میرے متعلق کسی سے کچھ نہیں کہو گی! ورنہ تمہیں بھی عدالت میں حاضر ہونا پڑے گا اور پھر تم باعزت طور پر زندگی بسر نہ کر سکو گی! اس دفتر سے الگ کر دی جاؤ گی! اور پھر کوئی دوسرا ادارہ بھی تمہیں لینے پر تیار نہ ہو گا!"
"میں سمجھتی ہوں! میں کبھی کسی سے تذکرہ نہیں کروں گی!" زیبا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے! اور عمران ہنستا ہوا آگے بڑھ گیا!۔۔۔۔
اس نے گھر واپس آ کر جولیا کو فون کیا!
"اوہ!" دوسری طرف سے جولیا کی آواز آئی! "آپ نے اکیلے ہی یہ مہم سر کر ڈالی۔"
"ہاں! یہ موقع ہی ایسا تھا!"
"مجھے اس کے متعلق بتائیے!"
عمران نے اسے بتایا کہ وہ ہارپر تک کیسے پہنچا تھا!۔۔۔۔ اس سلسلے میں اسے یہ کہانی شروع سے چھیڑنی پڑی۔ کس طرح وہ لڑکیوں کے جزیرے میں پہنچا تھا! کس طرح ناہید اور شیلا ملیں اور اس کے بعد ہی سے کڑیاں ملتی چلی گئیں پھر بات زیبا سے گذرتی ہوئی اس پرانے اخبار تک پہنچی جس پر ہارپر کے دستخط ملے تھے! ہارپر صاف پڑھا جاتا تھا۔ اس نے ہارپر کے بینکوں میں تفتیش کی اور یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی اخبار پر ہارپر ہی کے دستخط تھے۔
"اب میں نے ہارپر کے متعلق تفتیش شروع کی!" عمران نے ماؤتھ پیس میں کہا "اور اس نتیجے پر پہنچا کہ ہارپر بھی اس میں یقیناً ملوث ہے! مگر اس وقت تک مجھے یقین نہیں تھا کہ ہارپر ہی اس گروہ کا سرغنہ ہو گا! میں نے اپنی کئی راتیں اس کی کوٹھی میں برباد کیں۔ اسی دوران میں مجھے اس تہ خانے کا سراغ مل گیا جس میں تینوں لڑکیاں قید تھیں! لیکن اب بھی میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ ہارپر ہی سرغنہ ہے! ویسے شبہ ضرور تھا! لٰہذا اس شبے کی تصدیق کرنے کے لئے مجھے بھی ایک بد معاش کا روپ دھارنا پڑا۔۔۔۔ بہر حال اس نے مجھے بھی اپنی ہی برادری کا کوئی آدمی سمجھ کر سب کچھ اگل دیا!۔۔۔۔ اسے یقین آ گیا تھا کہ میں صرف اسے بلیک میل کرنا چاہتا ہوں! بہر حال اسکے اعتراف کرتے ہی میں نے اقبال جرم کے مسودے پر اس کے دستخط لے لئے۔"
"یہ کیس پولیس یا محکمہ سراغراسانی کے بس کا نہیں تھا!" جولیا کی آواز آئی!
"اخباروں نے اچھی دھجیاں اڑائی ہیں!"
"پتہ نہیں! انہیں کیسے علم ہو گیا کہ یہ کیس میرے محکمے نے انکے سپرد کیا ہے!" عمران نے کہا!
"یہ اطلاع میں نے بہم پہنچائی تھی!" جولیا نے فخریہ انداز میں کہا!
"جولیا!" عمران کا لہجہ سخت ہو گیا "تم آئندہ ایسا نہیں کرو گی!"
"بہت اچھا جناب! میں معافی چاہتی ہوں!"
"میری رائے لئے بغیر کوئی کام نہ کرو!"
"بہت بہتر۔۔۔۔ جناب!"
عمران نے سلسلہ منقطع کر دیا!
روشی دروازے میں کھڑی اسے گھور رہی تھی!
"کون تھی!" اس نے پوچھا!
"خالاسوسان!" عمران نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا!" ان کی بکری نے بچہ دیا ہے۔۔۔۔ لٰہذا وہ مجھ سے زچہ و بچہ کے حق میں دعائیں وصول کر رہی تھیں!"
"تم جھک مارتے ہو!" روشی بگڑ گئی! "مجھے بتاؤ کہ یہ جولیا کون ہے!"
"یہ بتانا بہت مشکل ہے! ویسے میں اس کے نواسے کا نام تمہیں بتا سکتا ہوں۔ اس کا نام ڈاکٹر اٹپلر تھا! مگر تم یہ سب پوچھ کر کرو گی کیا!"
"تم آوارہ عورتوں کے ساتھ نہیں رہ سکتے! سمجھے!"
"اچھا تو کہیں سے کوئی شریف ہی لا دو!۔۔۔۔" عمران نے کہا! پھر بڑے زور سے دہاڑا!
"کیوں بے سلیمان کے بچے تو کیا سن رہا ہے!"
روشی نے مڑ کر دروزے کی طرف دیکھا! اتنے میں عمران دوسرے دروانے سے باہر نکل گیا!۔ سلیمان کا دور دور تک پتہ نہیں تھا!۔۔۔۔
روشی بڑبڑاتی ہوئی کمرے سے چلی گئی!۔۔۔۔
(ختم شد)
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top