ہمارا خیال ہے کہ بڑھاپا ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے اور ہم نے ہمیشہ خود کو اس کیفیت سے دو چار پایا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہم خود کو پیدایشی بوڑھا کہتے ہیں۔ اب آپ کو کیسے سمجھائیں یہ تو ایک ٹیڑھی کھیر جیسا مسئلہ ہے، خیر کچھ باتیں بتاتے ہیں۔ نوجوانوں کی طرح کو امنگ نہیں، تیراکی کے سوا کسی اور آؤٹ ڈور گیم میں دلچسپی نہیں۔ انڈر گریجوئیشن کے وقت ہم جماعتوں کے ساتھ بے تکلفی کے بجائے احترام کا رشتہ، بیہودہ اور سستی قسم کی گفتگو سے الرجی (اگر ہم جماعت ایسا کچھ کر رہے ہوتے اور ہم پہونچ جاتے تو یہ کہہ کر خاموشی چھا جاتی کہ ابے چپ، سعود بھائی آ گئے)۔ بڑھا ہوا تحمل اور بچوں سے دلار وغیرہ جیسی باتیں بھی بڑھاپے کی طرف اشارہ کناں ہیں۔ نیز یہ کہ لباس کے معاملے میں بھی کبھی شوقین نہ رہا ہمیشہ سادہ اور غیر شوخ رنگوں کو ترجیح دی۔ دوسروں کی شوخیاں پسند ہیں پر خود کوئی پیغام لکھتے ہوئے شوخ قسم کی اسمائلی بھی لگانے میں تکلف برتتے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیں کہ ہم بوڑھے نہیں تو اور کیا ہوئے؟
سوچنے کی بابت ہم کیا کہیں، جب ضرورت ہو تو خوب سوچتے ہیں۔ بٹیا رانی جس طرح دیہاتی ہونے میں کوئی برائی نہیں اسی طرح گنوار ہونے میں بھی کوئی ہرج نہیں۔ بولنے کے آداب کا معاملہ تو یوں ہے کہ جیسا دیس ویسا بھیس ورنہ ہم بہت ہی شستہ دیہاتی زبان بولتے ہیں (اب آپ سوچیں کہ دیہاتی زبان بھی شستہ ہو سکتی ہے بھلا؟)۔ کئی جاننے والے احباب فون پر فرمائیشیں کر کے ہم سے علاقائی زبان بولنے کو کہتے ہیں جب کہ وہ خود اسی علاقے سے ہوتے ہیں۔
ارے ہاں یہ تو پوچھنا ہی بھول گئے کہ ننھی پری کی ریکارڈ بک آپ ڈیجیٹل فارمیٹ میں تیار کر رہی ہیں یا پھر پیپر نوٹ بک میں؟
یہ ہوئی نا بات۔۔۔۔۔۔۔اب مجھے سمجھ میں آیا لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سعود بھائی آپ پھر بڑھاپے میں کیا کریں گے؟؟ یہ واقعی غورطلب بات ہے۔۔۔ہائے اس موقعے پے مجھے اتنے چھوٹے چھوٹے سوالات ذہن میں آرہے ہیں (پتہ نہیں یہ سوال پوچھنے والی بیماری مجھے کہاں سے لگ گئی )
ڈیجیٹل ریکارڈ بک ہممم اچھا آئیڈیا۔۔۔اس بارے تو میں نے سوچا نہیں تھا۔۔۔میں ابھی پیپرنوٹ بک ہی استمعال کررہی ہوں۔۔۔نور کے سعد ماموں نے گفٹ کی تھی : )
اب اور کون سا بڑھاپا بٹیا رانی؟
تو یہ طے ہوا کہ آپ کسی طور قابو میں آنے والے نہیں
میرے والد صاحب نے ہم بھائی بہنوں کی بے بی بکس نہایت محنت سے تیار کی تھیں جنہیں ہم آج بھی پڑھ کر انجوائے کرتے ہیں۔ ان میں ہمارے اس وقت کے ہاتھ اور پاؤں کے پرنٹس موجود ہیں جب ہم کچھ دنوں کے ہوتے تھے۔ جبکہ خود ہمیں اس الیکٹرانکس میڈیا کے دور میں کبھی توفیق نہیں ہوئی کہ اپنے بچوں کی باتوں کو اس طرح محفوظ کرتے۔ بس ہماری نہاں یادوں میں ہی ان کی باتیں موجود ہیں۔ دوسرے میں اب ڈیجیٹل میڈیا کے ہرجگہ استعمال کا بھی قائل نہیں رہا ہوں۔ ہمارے پاس تصاویر کے روائتی البم کئی دہائیوں پرانے والے موجود ہیں اور ان میں تصاویر بالکل محفوظ ہیں۔ جبکہ اب ہمیں پتا ہی نہیں چلتا کہ کس موقعے پر اتاری ہوئی تصاویر کہاں گئیں۔ ایک مرتبہ ہارڈ ڈسک کریش ہوئی یا سی ڈی پر نشان پڑ گئے تو یہ ڈیٹا بھی ضائع ہو جاتا ہے۔