عمرکوٹ سے ننگر پارکر تھر کا سفر

ایم اے راجا

محفلین
عمرکوٹ سے ننگر پارکر تھر کا سفر
اس سے پہلے کہ میں ننگر پارکر کی سیر کی مختصر کہانی بیان کروں، صحرائےتھر کے بارے میں مختصر بتانا ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ کہ اکثر لوگ نہیں جانتے کہ تھر کیا ہے اور کن مسائل کا شکار ہے کیونکہ میرا ذاتی خیال ہیکہ تھر پر اردو میں بہت کم لکھا گیا ہے۔
کسی زمانے میں تھرپارکر ضلع سندھ کا سب سے بڑا ضلع ہوا کرتا تھا جسکا ہیڈ کوارٹر میرپور خاص ہوتا تھا بعد میں اسے توڑ کر تین اضلاع، میرپورخاص، عمرکوٹ اور تھر ایٹ مٹھی بنا دیئے گئے، اس سے بھی پہلے قبل از تقسیم موجودہ ضلع سانگھڑ بھی تھرپارکر میں شامل ہوا کرتا تھا اور یہ ضلع اس وقت موجودہ پاکستان میں سب سے بڑا ضلع تھا۔
تھر بہت وسیع و عریض رقبہ پر پھیلا ہوا بے آب و گیاہ ریگستان ہے مگر بارشوں میں اس کا حسن کشمیر سے کسی قدر کم نہیں ہوتا، تھر میں قصبے اور گاؤں دور دور واقع ہیں، آج سے تقریبا 8-9 سال قبل تھر کا سفر نہایت دشوار گذار ہوتا تھا، جی ایم سی گاڑیوں جنکو مقامی زبان میں کیکڑا کہا جاتا ہے اور اونٹوں کے ذریعے طے کیاجاتا تھا جو کہ دو، تین دنوں پر محیط ہوتا تھا، یہاں آباد لوگوں کی رشتہ داری سرحد کے اس پار ہے اور اس زمانے میں بارڈر سیل نہیں ہوا کرتا تھا ( آجکل خاردار تار کے ذریعے سیل کر دیا گیا ہے ) اور لوگ با آسانی رات کے اندھیرے میں چھپ کر آر پار آ یا اور جایا کرتے تھے اور اسمگلنگ بھی عروج پر ہوا کرتی تھی کیوں کے اس وسیع و عریض ویران بارڈر کی مکمل نگرانی کرنا دونوں ملکوں کی بارڈر پو لیس ( پاکستانی رینجرز اور انڈین بی ایس ایف ) کے لیئے کسی طور ممکن نہیں تھا، بعد میں انڈیا اور پاکستان نے مل کر اس بارڈر کو خاردار تار کے ذریعے سیل کر دیا جسے کراس کرنا اب ممکن نہیں رہا، جبکہ پہلے چور دونوں طرف سے رات کے اندھیرے میں کھلے چرتے جانور تک ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر چرا کر لے آیا کرتے تھے اور کچھ بدنام ڈاکو بھی یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں وارداتیں کر کے روپوش ہو جایا کرتے تھے۔ ہندوستانی تھر نے ہمارے تھر کے مقابلے میں بہت ترقی کی ہے، مثلا، بارڈر تک نہر، سڑک اور بجلی پہنچ چکی ہے اس کے علاوہ انڈیا نے بارڈر پر بڑی اور نہایت طاقتور سرچ لائیٹس بھی نصب کر دی ہیں جو رات کو دن میں بدل دیتی ہیں جن سے ہمارا بھی بھلا ہو جاتا ہے۔ تھر کا سب سے بڑا مسئلہ پینے کے پانی کا ہے جو اس ترقی یافتہ دور میں بھی اشکِ بلبل لانے کے مترادف ہے، تھرکی خواتین کا دن بھر زیادہ تر وقت میلوں دور سے پیدل چل کر میٹھا پانی لانے میں گذرتا ہے اور شاید ہی آپ اندازہ کر سکیں کہ موسمِ گرما میں صحرا کی ریت کا درجہ حرارت کیا ہوتا ہے اور اس میں بغیر کسی خصوصی بندوبست کے سر پر دو گھڑے اور ایک گھڑا بغل میں دبائے میلوں پا پیادل سفر کرنا کس قدر دشوار گذار ہے، یہاں زیرِ زمین پانی زیادہ تر کڑوا ہوتا ہے، اور اگر کہیں میٹھا ہے بھی تو بہت زیادہ گہرائی میں ہے اور ریت میں کنواں کھودنا بھی کوئی آسان کام نہیں، تھر کے کنویں سے پانی کا ڈول 200 سے 300 ٍمیٹر تک گہرائی سے بھرنا پڑتا ہے جسے کھینچنے کے لیئے سدھائے ہوئے اونٹ، گدھے یا بیل وغیرہ استعمال ہوتے ہیں۔ تھر میں مختلف تنظیمیں، این جی اوز اور سیاسی پارٹیاں پینے کے پانی اور صحت کی سہولتوں کے لیئے کام کر رہی ہیں، جنمیں بانھ بیلی وغیرہ نمایاں ہیں جبکہ پانی کے لیئے جماعت اسلامی کا کام نمایاں ہے، ان این جی اوز وغیرہ نے یہاں کے لوگوں کو بہت شعور دیا ہے، جبکہ پاک فوج کا واٹر سسٹم بھی پانی کے سلسلے میں عام لوگوں کے لیئے کافی سہولت کا باعث ہے، آرمی و رینجرز کی واٹر پائپ لائن جہاں جہاں سے گزرتی ہے وہاں کچھ کلومیٹر کے فاصلے پر واٹر پوائینٹ بنائے گئے ہیں جہاں سے لوگ فوج کی نگرانی میں پانی بھرتے ہیں لیکن یہ سہولت چندمخصوص علاقوں میں دستیاب ہے۔ اس کے علاوہ تھر میں آرمی اور رینجرز کی وجہ سے تھر کے کافی نوجوان فوج اوررینجرز میں بطور افسر و جوان شامل ہو کر دفاعِ وطن کو مضبوط بنانے میں کوشاں ہیں اور اس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں میں بہت اعتماد اور شعور آیا ہے۔ تھر کے لوگ زیادہ تر جانور پالنے کے پیشے سے منسلک ہیں اور مزدوری کے سلسلے میں اکثر خشک سالی کے موسم میں سندھ میں آجاتے ہیں لیکن آسمان پر بادل دیکھتے ہی واپس تھر کی طرف نقل مکانی کر جاتے ہیں، یوں سمجھ لیں کے بادل اور بارش تھر کے لوگوں کے لیئے وہ محبوبہ ہے جس کو دیکھ کر وہ کسی طور پر بھی واپس لوٹے بغیر نہیں رھ سکتے۔ تھر کے نمایاں شہروں میں ( شہروں کو قصبے کہنا زیادہ مناسب ہو گا )مٹھی جو کہ ضلعی ہیڈ کوارٹر بھی ہے، ننگر پار کر، اسلام کوٹ، چھاچھرو، ڈیپلو، کھینسر، کانٹیو اور چیلہار وغیرہ شامل ہیں، یہاں اکثر گاؤں چھوٹے چھوٹے جھونپڑے نما گھروں پر مشتمل ہیں اور ان جھونپڑوں کو مقامی زبان میں چونرا کہا جاتا ہے جو کہ تین چار فٹ کی گول کچی دیوار او راوپر سے لکڑیوں اور گھاس پھونس سے بند ہوتا ہے اور انکا طرزِ تعیر افریقہ میں پائے جانے والے گول کمروں سے ملتا جلتا ہے، یہاں اکثر گاؤں صرف چند گھروں پر مشتمل ہیں اور اکثر گاؤں کنوؤں کے نزدیک اور ایسی جگہوں پر جہاں دو بھٹوں ( ریت کے پہاڑ کو مقامی زبان میں بھٹ کہا جاتا ہے) کے درمیان بارش کا پانی جمع ہو سکے آباد ہیں، اگر بارشیں خوب ہوں اور اپنے وقت اور موسم پر ہوں تو لوگ بارانی کھیتی باڑی بھی کاشت کرتے ہیں، یہاں سفید تل، کالا تل، جوار، مکئی، گوارا، بیرا، لمبی شکل کا مخصوص خربوزہ ( چبڑ )اور تربوز وغیرہ کاشت کیا جاتا ہے، یہاں کچھ علاقوں میں لوبان اور چندن کے درخت بھی پائے جاتے ہیں جسے کاٹنے پر پابندی ہے لیکن سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت سے کاٹ لیئے جاتے ہیں جبک لوبان کے درخت کو کٹ لگا کر اس سے غیر قانونی طریقے سے لوبان نکالا جاتا ہے جسکی وجہ سے یہ درخت اکثر سوکھ جا تاہے اور یہ نایاب درخت دن بدن نا پید ہوتا جارہا ہے۔ یہاں مخصوص علاقوں میں مور، تلور، تیتر اور ہرن بھی پایا جاتا ہے جسکے شکار پر بھی پابندی ہے مگر ملی بھگت سے شکار ہوتا رہتا ہے اور یہ پرندے اور جانور بھی ناپید ہوتے جارہے ہیں، جبکہ ان کے سب سے بڑے دشمن ہمارے دوست عرب شہزادے ہیں جو کہ یہاں ساون کے موسم میں جب تھر کشمیر کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے آتے ہیں اور مخصوص علاقوں میں شکار کر کے ان پرندوں اور جانوروں خصوصا ہرن، تیتر اور تلور کی نسل کشی کا باعث بنتے ہیں، جبکہ پڑوسی ملک میں اس قانون پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے اور بڑوں بڑوں کو اس غیر قانونی شکار کی سزا بھگتی پڑتی ہے۔
نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں پہلی بار تھر میں پکی سڑکوں کا منصوبہ بنایا گیا اور اس پر کام شروع کیا گیا، لیکن حکومت ختم ہوجانے کے باعث یہ منصوبہ زیادہ پھل پھول نہیں سکا اور ٹھپ ہو کر رھ گیا، لیکن پرویز مشرف کے دور میں جب ارباب غلام رحیم سندھ کا وزیر اعلیٰ بنا اور پھر سابق وزیرِ اعظم شوکت عزیز بھی تھر سے الیکشن لڑا اور جیتا تو تھر میں سڑکوں کا جال بچھ گیا اور تقریباتما م قصبوں اور بڑے گاؤں کو سڑکوں کے ذریعے ایک دوسرے سے جوڑ دیا گیا اور ضلع تھر کو ایک طرف عمرکوٹ سے اور دوسری طرف بدین سے بھی بذریعہ سڑک منسلک کر دیا گیا، اور میرپورخاص اور مٹھی کو ملانے والی سڑک کو بہتر اور چوڑا کردیا گیا، جسکی وجہ سے تھر کی تکلیف دہ اور لمبی مسافت آرام دہ اور مختصر مسافت میں تبدیل ہو گئی ، ضلعی ہیڈکوارٹر مٹھی میں بہت زیادہ ترقیاتی کام ہوئے، ایف ایم ریڈیو سروس، پبلک اسکول وغیرہ بھی اسی وقت کی نشانیاں ہیں ، اس کے علاوہ ارباب غلام رحیم ہی کےدور میں تمام شہروں اور قصبوں کے ساتھ ساتھ مخصوص اور بڑے گاؤں کو بجلی کی فراہمی بھی ممکن ہوئی اور صحت اور تعلیم کی سہولتیں بھی قدرے فراہم کی گئیں جبکہ پینے کے پانی کے بھی کافی منصوبے مکمل کیئے گئے، لیکن کافی علاقوں کو سیاسی بنیادوں پر ان سہولتوں سے محروم بھی رکھا گیا، مگر مجموعی طور پر وہ دور تھر کی ترقی کا دور تھا، اسی دور میں تھر میں پہلی بار سیلیولر سروس کی بھی شروعات ہوئی اور یو فون نے پہلی بار مٹھی سے اپنی سروس کا آغاز کیا اب تھر کے کافی علاقوں میں یو فون، ٹیلی نار اور وی پی ٹی سی ایل فون کی سہولت موجود ہے جبکہ قصبوں میں پی ٹی سی ایل لینڈ لائن اور ڈی ایس ایل کی سہولت بھی پہنچ چکی ہے۔ لیکن مجموعی طور پر اب بھی تھر کی بڑی آبادی پینے کے صاف پانی، تعلیم، بجلی اور صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے ، اس علاقہ میں زہریلے اور خطرناک سانپوں کی بہتات ہے اور اکثر لوگ ان کا شکار ہوتے رہتے ہیں لیکن چند بڑے ہیلتھ سینٹرز کے علاوہ دوسرے سینٹرز میں اکثر سانپ کاٹے کی ویکسین دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے مریض کو دور دراز کے ہسپتال منتقل کیا جانا ضروری ہوتا ہے جسکے دوران اکثر مریض جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ موجودہ دورِ حکومت میں یہاں ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہوئے ہیں، گزشتہ شدید بارشوں نے تھر کی بہترین سڑکوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے جنکی مرمت کا کام بھی یہ حکومت اب تک شروع نہیں کر سکی جبکہ آنے والی متوقع بارشوں کا موسم بھی اب زیادہ دور نہیں۔
تھر میں اسلام کوٹ کے نزدیک کوئلے کے بڑے ذخائر دریافت ہوئے بھی کچھ کم عرصہ نہیں ہوا لیکن افسوس صد افسوس کہ ہم اب تک ان سے کو ئی استفادہ حاصل نہیں کر سکے، میرا خیال ہیکہ تھر میں زیرِ زمین یقینا کئی خزانے دفن ہوں گے جنھیں اگر ہم ڈھونڈ لیں تو ہمیں کشکولِ گداگری لیکر در در بھیک مانگنے کی ضرورت کبھی نہیں رہے گی بلکہ ہم خود دینے والوں کی فہرست میں اوپر کے نمبروں پر آ جائیں گےاور اس کوئلےسے بڑے پیمانے پر بجلی بھی پیدا کی جاسکتی ہےمگر افسوس کہ دوسرے تو دوسرے تھر اور سندھ سے دن رات محبت کا دم بھرنے والے بھی شاید دے اور لے کے چکر کی وجہ اب تک کچھ نہیں کر سکے، مگر اس حکومت نےتھوڑا بہت کام کیا ہے اور جاری ہے مگر اس کام کا دائرہ مزید بڑھانے اور مزید خزانوں کی تلاش کی ضرورت ہے، یہ کوئلہ وطنِ عزیز کے لیئے کتنا کار آمد ہے اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے یہاں لکھنے کی ضرورت نہیں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
ایک دوست کی والدہ کے انتقال پر گزشتہ دنوں دو دوستوں کے ہمراہ میرا عمرکوٹ سے بذریعہ ذاتی کارضلع تھر کے قصبے نما شہر ننگر پارکر کے نزدیک واقع ایک گاؤں جاناہوا ، فاتحہ پڑھنے کے بعد ہم تینون دوست ننگر پارکر کی سیر کے لیئے نکل کھڑے ہوئے کیونکہ میرے ایک دوست نے اس سے پہلے ننگر پارکر نہیں دیکھا تھا جبکہ میں اس زمانے میں موسم ِباراں کے دوران وہاں جا چکا تھا جب سڑک نہیں ہوا کرتی تھی اور فور وہیل ڈرائیو گاڑی 18 سے 20گھنٹوں میں وہاں پہنچتی تھی اور نہایت تکلیف دہ سفر ہوا کرتا تھا۔ ننگر پارکر عمرکوٹ سے تقریبا 200 کلومیٹر کی دوری پر رن کچھ اور تھر ( ریگستان ) کے سنگم پر انڈیا کے بارڈر کے نزدیک واقع ہے اور ایک پہاڑی سلسلہ بھی وہاں سے گذرتا ہے جو کہ وہاں سے ہوتا ہوا ایک طرف انڈیا اور دوسری جانب بحیرہ عرب تک چلا جاتا ہے، ننگر پار کر ضلع مٹھی کی تحصیل ہے اور اسکا ایک بڑا رقبہ تھر کے بجائے پکی زمین پر مشتمل ہے لیکن یہ علاقہ بھی بارانی ہے، ننگر پار کر سے پہلے ایک گاؤں بھا لوا آتا ہے جس کے لیئے کہا جاتا ہیکہ یہ گاؤں ماروی کا گاؤں ہے اور یہاں پر وہ کنواں بھی موجودہ ہے جہاں سے پانی بھرتے ہوئے عمر نے ماروی کو اغوا کیا اور پھر لا کر عمرکوٹ کے قلعہ میں قید کردیا اور شادی کی پیشکش کی لیکن بادشاہت کی چمک دمک ، ملکہ بننے کی پیشکش اور مال و دولت بھی ماروی کی استقامت کو متزلزل نہ کر سکے اور اس نے عمر سے شادی کرنے سے صاف انکا ردیا اور آخر ماروی کی واپس جانے کی ضد نے عمر کومجبور کر دیا اور عمر نے ماروی کو اپنی بہن تسلیم کرلیا اورعزت و احترام کیساتھ اسے واپس اسکے گھر پہنچا دیا۔ اس گاؤں کے بعد ننگر پارکر سے کچھ کلومیٹر پہلے بوڈیسر کی ایک چھوٹی سی مگر خوبصورت تاریخی مسجد اور ایک قبرستان آتا ہے جہاں ایک بارانی جھیل بھی ہے جہاں مور بکثرت گھومتے پھرتے اور ناچتے گاتے نظر آتے ہیں۔ ننگر پار کر کے قصبے کےدو اعتراف پہاڑی سلسلہ پھیلا ہوا ہے، اس پہاڑی سلسلے کا رنگ سرخی مائل ہے اور ان پہاڑوں اور چٹانوں کو دیکھ کر یو ںمحسوس ہوتا ہے جیسے یہ بہت زمانہ پانی کے اندر رہے ہوں، اس پہاڑی سلسلے میں لوبان ( گوگل) اور چندن کے درختوں کے علاوہ بہت سی جڑی بوٹیاں اور پودے بھی پائے جاتے ہیں، اس پہاڑی سلسلے کی سب سے اونچی چوٹی کا نام کارونجھر ہے جو کہ کافی اونچی ہے اور بارشوں کے موسم میں بادل جب اس سے ٹکرا کر گذرتے ہیں تو بہت دلفریب نظارہ پیش کرتے ہیں، سڑک بن جانے کی وجہ سے موسمِ باراں میں دور دور سے ملکی و غیر ملکی سیاح یہاں گھومنے آتے ہیں اور اس قدرتی حسن کے ساتھ ساتھ موروں کی مستیوں سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں، ریگستان کے بیچوں بیچ یہ علاقہ اور اسکا یہ نظارہ دیکھ کر انسان حیران ہوئے بغیر نہیں رھ سکتا اور زبان سے خود بخود سبحان اللہ کا ورد جاری ہو جاتا ہے۔ شام ہو چکی تھی ہم نے ایک دوست کی اوطاق ( بیٹھک ) پر پاپڑ، نمکو کھائے ، بہترین چائے پی اور پھر واپسی کی راہ لی۔ اس موقع پر میں نے اپنے موبائیل فون سے کافی تصویریں کھینچی تھیں جن میں سے کچھ یہاں پیش کرتا ہوں۔
( ایم اے راجا )
 

ایم اے راجا

محفلین
photo0037q.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
بہت شکریہ راجا صاحب یہ سب شریک محفل کرنے کا۔
آپ کے سفر نامے سے بہت سی معلومات حاصل ہوئیں۔
 
Top