مہ جبین
محفلین
عمر بھر غم سے توانائی بہم کرتے رہے
جو زمانے سے نہ ہو پایا وہ ہم کرتے رہے
چھن گئے تھے ہم سے قرطاس و قلم تو کیا ہوا
آنسوؤں سے داستانِ غم رقم کرتے رہے
ہم وہ آشفتہ مزاجِ بزمِ امکاں ہیں کہ جو
زیست زیرِ سایہء دیوارِ غم کرتے رہے
عمر بھر رکھی نفس کی آمدہ شد پر نظر
گلشنِ ہستی سے ہم سیرِ عدم کرتے رہے
وقت اُن کی راہ میں حائل رہا جو کم سواد
وقت کے آگے سرِ تسلیمِ خم کرتے رہے
پانے والوں نے نشانِ راہِ منزل پالیا
ہم فقط پیمائشِ نقشِ قدم کرتے رہے
اُس ستمگر کے لئے ہم اور کیا کرتے ایاز
ہر ستم پر شکر لازم تھا سو ہم کرتے رہے
ایاز صدیقی