عمر بھر کچھ خواب دل پر دستکیں دیتے رہے - بقا بگٹی بلوچ

محبوب خان

محفلین
عمر بھر کچھ خواب دل پر دستکیں دیتے رہے
ہم کہ مجبور وفا تھے آہٹیں سنتے رہے

جب تخیل استعاروں میں ڈھلا تو شہر میں
دیر تک حسن بیاں کے تذکرے ہوتے رہے

دیپ یادوں کے جلے تو ایک بے چینی رہی
انتی بے چینی کہ شب بھر کروٹیں لیتے رہے

ایک الجھن رات دن پلتی رہے دل میں کہ ہم
کس نگر کے خاک تھے، کس دشت میں ٹھرے رہے

ہم بقا اک ریت کی چادر کو اوڑھے دیر تک
دشت ماضی کے سنہرے خواب میں کھوئے رہے
بقا بگٹی بلوچ
 

محمد وارث

لائبریرین
جب تخیل استعاروں میں ڈھلا تو شہر میں
دیر تک حسن بیاں کے تذکرے ہوتے رہے

ہم بقا اک ریت کی چادر کو اوڑھے دیر تک
دشت ماضی کے سنہرے خواب میں کھوئے رہے


لاجواب، شکریہ محبوب صاحب خوبصورت غزل شیئر کرنے کیلیئے۔

بقا بگٹی میرے لیئے ایک نیا نام ہیں لیکن کیا خوب غزل ہے، امید ہے ان کا مزید محفل کی نذر کریں گے۔
 

محبوب خان

محفلین


لاجواب، شکریہ محبوب صاحب خوبصورت غزل شیئر کرنے کیلیئے۔

بقا بگٹی میرے لیئے ایک نیا نام ہیں لیکن کیا خوب غزل ہے، امید ہے ان کا مزید محفل کی نذر کریں گے۔


بارے کچھ مصنف کے عرض ہے کہ۔۔۔

بقا بلوچ بلوچستان کی نوجوان نسل کا نمائندہ شاعر ہے۔ مادری زباں (ہماری طرح) بلوچی ہے مگر اردو زبان پہ دسترس ان کی شاعری سے ظاہر ہے۔ مگر ہم تو اپنی اردو کی وجہ سے اکثر زیر عتاب رہتے ہیں۔ ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ایک ہی سکول سے پڑھے ہیں۔ بقا صاحب ہم سے تین سال سینئر تھے لیکن پھر کوئٹہ ڈگری کالج اور یونیورسٹی بھی ساتھ کچھ شامیں گزاری۔ لیکن یہ سب باتیں تو ان کی شاعری سے پہلے کی ہیں۔ شاعر کیسے بنے؟ بی ایس سی - کیمکل انجینئرنگ کرنے پیجاب یونورسٹی، لاہور چلے گئے اور اس کے کچھ عرصے کے بعد ہم اسلام آباد۔ بس پھر توعید کے موقع پہ ہی ملاقات ہوتی تھی۔ لیکن بقا صاحب اس وقت تک شاعری شروع کرچکے تھے۔
اس کی شاعری کوہساروں سے پھوٹنے والے جھرنے کی طرح ہے ۔۔۔۔ شفاف، سبک رو۔۔۔اور مترنم۔۔۔

"صحرا ہماری آنکھ میں"
بقا بلوچ کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔
وہ کہتے ہیں:
اپنی مٹی سے رہی ایسی رفاقت مجھ کو
پھیلتا جاتا ہے اک ریت کا صحرامجھ میں
 

محمداحمد

لائبریرین
ایک الجھن رات دن پلتی رہے دل میں کہ ہم
کس نگر کے خاک تھے، کس دشت میں ٹھرے رہے

ہم بقا اک ریت کی چادر کو اوڑھے دیر تک
دشت ماضی کے سنہرے خواب میں کھوئے رہے

واہ! بہت خوب!
 
Top