عاطف بٹ
محفلین
عمر گھٹتی رہی خبر نہ ہوئی
وقت کی بات وقت پر نہ ہوئی
ہجر کی شب بھی کٹ ہی جائے گی
اتفاقاً اگر سحر نہ ہوئی
جب سے آوارگی کو ترک کیا
زندگی لطف سے بسر نہ ہوئی
اس خطا میں خلوص کیا ہوگا
جو خطا ہو کے بھی نڈر نہ ہوئی
مل گئی تھی دوائے مرگ مگر
خضر پر وہ بھی کارگر نہ ہوئی
کس قدر سادہ لوح تھی شیریں
شعبدہ گر سے باخبر نہ ہوئی
کوہکن ڈوب مر کہیں جا کر
تجھ سے پہلی مہم بھی سر نہ ہوئی
خواہشیں اتنی خوبصورت تھیں
کوئی دل سے اِدھر اُدھر نہ ہوئی
دل میں آنسو تو کم نہیں تھے عدم
آنکھ پاسِ ادب سے تر نہ ہوئی
سید عبدالحمید عدم