عمر ہے جنگل، ہم ہیں شکار اور ظالم وقت شکاری ہے - کرم حیدری

کاشفی

محفلین
غزل
(کرم حیدری)
عمر ہے جنگل، ہم ہیں شکار اور ظالم وقت شکاری ہے
دن تو جوں توں کٹ ہی گیا ہے، رات کی منزل بھاری ہے

صدیوں سے ہر روز گرائے کیسے کیسے شاہ سوار
دنیا پھر ویسی کی ویسی اَلھڑ مست سواری ہے

اپنا آپ گنوا کر ہم نے پایا تو اتنا ہی پایا
برسوں کی محنت کے مقابل لمحوں کی غفلت بھاری ہے

بانہوں میں کس بل بھی بہت تھا دل میں ہمت قوت بھی
ہم نے ہوش حواس گنوا کر بازی اپنی ہاری ہے

بیچ بھنور ہے من کی نیّا، بے پروا بیٹھے ہیں کھوّیا
لہریں پاگل، دریا چھاگل، رین نپٹ اندھیاری ہے

خون سے خون کو دھونے والے نگر نگر ہیں میر وزیر
جن کو خون ہے پانی جیسا جان انہیں بھی پیاری ہے

عقل بغیر سیاست کرنا، عدل بغیر حکومت
کیا کیا اب اربابِ حرم کو دنیا میں دشواری ہے

کل تک جو بازاروں میں آوازیں لگائے پھرتے تھے
آج انہیں دیکھو تو ہر اک جیسے ہفت ہزاری ہے

اتنی کچھ گزران کے بعد اب جان عذاب میں آن پڑی
مر جانے کو جی نہیں مانے، جینے سے بیزاری ہے

خودبینی اب ایک وبا ہے کس کس کو سمجھائیں کرم
اپنے آپ پہ عاشق ہونا سب سے بڑی بیماری ہے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اپنا آپ گنوا کر ہم نے پایا تو اتنا ہی پایا
برسوں کی محنت کے مقابل لمحوں کی غفلت بھاری ہے

بیچ بھنور ہے من کی نیّا، بے پروا بیٹھے ہیں کھوّیا
لہریں پاگل، دریا چھاگل، رین نپٹ اندھیاری ہے

واہ واہ کاشفی بھائی۔۔۔ اعلیٰ
 

کاشفی

محفلین
اپنا آپ گنوا کر ہم نے پایا تو اتنا ہی پایا
برسوں کی محنت کے مقابل لمحوں کی غفلت بھاری ہے

بیچ بھنور ہے من کی نیّا، بے پروا بیٹھے ہیں کھوّیا
لہریں پاگل، دریا چھاگل، رین نپٹ اندھیاری ہے

واہ واہ کاشفی بھائی۔۔۔ اعلیٰ
بہت شکریہ نیرنگِ خیال بھائی ۔خوش و خرم رہیئے ہمیشہ۔۔
بہت شکریہ انیس الرحمٰن بھائی۔ خوش رہیئے ہمیشہ۔۔
 
Top