اسے سیکھنے والا شیطان کا پیروکار ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ شیطان کا چیلا جب بھی جنات اور موکلان کو قابو کرتا ہے تو اسے دنیا کا ہر مکروہ اور گندہ ترین کام کرکے ہی اس مخلوق کو خوش رکھنا پڑتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کالے جادو کا عامل ایک طاقتور مخلوق کو اپنے قابو کرنے کے باوجود ان کے زیر اثر آجاتا ہے ۔ اس لیے جب وہ اس مخلوق سے جان چھڑانا چاہتا ہے یا بخوشی آزاد کرتا ہے تو تب بھی اسے بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔البتہ جو عامل کالے جادو سے اجتناب کرتا ہے اور نوری علوم کی مدد سے جنات کو قابو کرتا ہے وہ جنات کے زیر اثر نہیں آسکتا۔ باوا جی کا بھی یہ معاملہ تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ اگر اپنی جان بچانے کے عوض طرطوش کو آزاد بھی کردیں تو وہ انہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا بلکہ آزادی کاپروانہ بخوشی قبول کرے گا مگر طوطرش نے حیرت انگیز طور پر آزادی کی نعمت کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا۔
''نہال شاہ جی! اگر مجھے آزاد ہونا اتنا ہی اچھا لگتا تو آپ کے مرنے کے بعد تو میں آزاد ہو چکا ہوتا۔ آپ کی زندگی بچا کر میں نے اپنا فرض ادا کیا ہے اور اپنی قوم کے اعتماد کو بحال کرنے کی ادنیٰ سی کوشش کی ہے کہ اگر ہمیں بھی پیار و محبت کا مستحق سمجھا جائے تو ہم بھی اچھے اور مخلص دوست ثابت ہو سکتے ہیں۔''
''ہاں طرطوش واقعی تم نے حق دوستی ادا کردیا ہے۔'' باوا جی نے کہا۔
''اور میں نے بھی……'' طرطوش کے عقب سے مستان شرارت کے ساتھ بولا۔
''ہاں تم بھی ہمارے دوست ہو۔'' باوا جی مسکرائے۔ ''آج سے تم لوگ میرے دوست ہو۔ میں سمجھا تھا کہ دنیا میں میرا اور کوئی نہیں ہے۔لیکن آج مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اب میں تنہا نہیں ہوں۔ بلکہ میرے ساتھ دوستوں کی ایک فوج ہے۔''
نہال شاہ! آپ جانتے ہیں کہ آپ کی یہ حالت کیوں ہوئی تھی۔ '' طرطوش نے پوچھا۔
''مجھے خود سمجھ نہیں آئی کہ کیا ہوا ہے۔ میں نے سوائے منصور خان کے گھر میں کھانا کھانے کے بعد کسی اور جگہ سے کچھ کھایا بھی نہیں''۔ باواجی تشویش ناک انداز میں بولے۔''لیکن مجھے یقین ہے کہ مجھے زہر دیا گیا ہے مگر کیسے'' باوا جی بات کرتے کرتے رک گئے اور بولے۔ ''طرطوش تمہارا کیا خیال ہے ۔منصور خان کے گھر والوں نے مجھے زہر دیا ہوگا۔''
''ممکن ہے انہوں نے ہی دیا ہو۔ آخر وہ آپ کے دشمن ہیں ۔'' طرطوش نے جواب دیا۔
'' مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔آج ہی تو منصور خان کی ماں نے مجھے روشن سے شادی کی پیش کش کی ہے۔ ''
حقیقت یہ ہے کہ کالے جادو کا عامل ایک طاقتور مخلوق کو اپنے قابو کرنے کے باوجود ان کے زیر اثر آجاتا ہے ۔ اس لیے جب وہ اس مخلوق سے جان چھڑانا چاہتا ہے یا بخوشی آزاد کرتا ہے تو تب بھی اسے بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔البتہ جو عامل کالے جادو سے اجتناب کرتا ہے اور نوری علوم کی مدد سے جنات کو قابو کرتا ہے وہ جنات کے زیر اثر نہیں آسکتا۔ باوا جی کا بھی یہ معاملہ تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ اگر اپنی جان بچانے کے عوض طرطوش کو آزاد بھی کردیں تو وہ انہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا بلکہ آزادی کاپروانہ بخوشی قبول کرے گا مگر طوطرش نے حیرت انگیز طور پر آزادی کی نعمت کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا۔
''نہال شاہ جی! اگر مجھے آزاد ہونا اتنا ہی اچھا لگتا تو آپ کے مرنے کے بعد تو میں آزاد ہو چکا ہوتا۔ آپ کی زندگی بچا کر میں نے اپنا فرض ادا کیا ہے اور اپنی قوم کے اعتماد کو بحال کرنے کی ادنیٰ سی کوشش کی ہے کہ اگر ہمیں بھی پیار و محبت کا مستحق سمجھا جائے تو ہم بھی اچھے اور مخلص دوست ثابت ہو سکتے ہیں۔''
''ہاں طرطوش واقعی تم نے حق دوستی ادا کردیا ہے۔'' باوا جی نے کہا۔
''اور میں نے بھی……'' طرطوش کے عقب سے مستان شرارت کے ساتھ بولا۔
''ہاں تم بھی ہمارے دوست ہو۔'' باوا جی مسکرائے۔ ''آج سے تم لوگ میرے دوست ہو۔ میں سمجھا تھا کہ دنیا میں میرا اور کوئی نہیں ہے۔لیکن آج مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اب میں تنہا نہیں ہوں۔ بلکہ میرے ساتھ دوستوں کی ایک فوج ہے۔''
نہال شاہ! آپ جانتے ہیں کہ آپ کی یہ حالت کیوں ہوئی تھی۔ '' طرطوش نے پوچھا۔
''مجھے خود سمجھ نہیں آئی کہ کیا ہوا ہے۔ میں نے سوائے منصور خان کے گھر میں کھانا کھانے کے بعد کسی اور جگہ سے کچھ کھایا بھی نہیں''۔ باواجی تشویش ناک انداز میں بولے۔''لیکن مجھے یقین ہے کہ مجھے زہر دیا گیا ہے مگر کیسے'' باوا جی بات کرتے کرتے رک گئے اور بولے۔ ''طرطوش تمہارا کیا خیال ہے ۔منصور خان کے گھر والوں نے مجھے زہر دیا ہوگا۔''
''ممکن ہے انہوں نے ہی دیا ہو۔ آخر وہ آپ کے دشمن ہیں ۔'' طرطوش نے جواب دیا۔
'' مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔آج ہی تو منصور خان کی ماں نے مجھے روشن سے شادی کی پیش کش کی ہے۔ ''