اقتباسات عمیرہ احمد

نیلم

محفلین
پیر کاملﷺ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ایک انتہائی خوبصورت کتاب ہے اور جب ان حوالوں کی بات آتی ہو تے پتہ نہیں کیوں اکثر و بیشتر باتیں چہرہ تر کردیتی ہیں۔۔۔ ۔۔جب سالار صراط مستقیم کا پوچھتا ہے اُس کے بعد تو پتہ نہیں جیسے لکھا ہی رُلانے کے لئے ہو۔۔۔ ۔۔۔​
بالکل ایسا ہی ہوتا ہے :)
 

نیلم

محفلین
زندگی میں ایک چیز ہوتی ہے جسے کمپرومائز کہتے ہیں۔ پُر سکون زندگی گزارنے کے لئےاسکی بہت ضرورت پڑتی ہے۔ جس چیز کو تم بدل نہ سکو اس کے ساتھ کمپرومائز کر لیا کرومگر اپنی کسی بھی خواہش کوکبھی بھی جنون مت بنانا۔ کیونکہ زندگی میں کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ہمیں کبھی نہیں مل سکتیں۔ چاہیں ہم روئیں چلّائیں یا بچوں کی طرح ایڑیاں رگڑیں، وہ کسئ دوسرے کے لئے ہوتی ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ زندگی میں ہمارے لئے کچھ ہوتا ہی نہیں، کچھ نہ کچھ ہمارے لئے بھی ہوتا ہے۔

امربیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عمیرہ احمد
 

نیلم

محفلین
دُنیا کا کوئی دروازہ نہیں ہوتا ۔ جسِے کھول کر ہم اِس سے باہر نکل جائیں ۔
دُنیا کی صرف کھڑکیاں ہوتی ہیں ۔ جن سے ہم باہر جھانک سکتے ہیں ۔
بعض دفعہ یہ کھڑکیاں دُنیا سے باہر و اندر کے منظر دکھاتی ہیں مگر رہائی اور فرار میں کبھی مدد نہیں دیتیں..!!

"امربیل
 

نیلم

محفلین
کس نے کہا؟ کیوں کہا؟ کتنی تکلیف پہنچی؟کتنی بے عزتی ہوئی؟
اس سب کو بھول جاؤ۔۔یہ زندگی ہے۔اس میں بہت سارے لفظ بولے جاتے ہیں ۔بہت سارے لفظ سہنے پڑتے ہیں ۔ بہت سارے لفظوں کے بہت سارے معنی ہوتے ہیں۔لفظوں کو اکٹھا کر کے تم انہیں سوچنے اور سمجھنے بیٹھو گی تو پھر زندگی نہیں گزار سکو گی۔۔۔۔۔۔۔"

عمیرہ احمد کے ناول"لا حاصل" سے اقتباس
 

نیلم

محفلین
زندگی میں انسانوں کے شر سے بڑھ کر خوفناک چیز کوِئی نہیں،کوئی بھوت، بلا یا بونا برائی میں انسانوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور زندگی میں انسانوں کی ہمت اور دلیری کے سامنے کوِئی آسیب نہیں ٹھہر سکتا۔وہ لوگ بیوقوف اور بزدل ہوتے ہیں جو گھروں اور جگہوں میں جن، بھوت ڈھونڈتے رہتے ہیں اور پھر ان کے ہونے یا نہ ہونے پر اپنی زندگی کی خوش قسمتی یا بدقسمتی کو طے کرتے ہیں۔
(عکس )
 

نیلم

محفلین
بعض دفعہ خاموشی وجود پر نہیں، دل میں اترتی ہے- پھر اس سے زیادہ مکمل، خوبصورت اور بامعنی گفتگو کوئی اور چیز نہیں کر سکتی اور یہ گفتگو انسان کی ساری زندگی کا حاصل ہوتی ہے اور اس گفتگو کے بعد ایک دوسرے سے کبھی دوبارہ کچھ کہنا نہیں پڑتا- کچھ کہنے کی ضرورت رہتی ہی نہیں-
تحریر: عمیرہ احمد
اقتباس: حاصل
 

نیلم

محفلین
’میری خواہش ہے بابا‘‘اس نے زیر لب کہا کہ زندگی میں ایک بار میں آپ کے سامنے آؤں اور آپ کو بتاؤں کہ دیکھ لیجئے، میرے چہرے پر کوئی ذلت، کوئی رسوائی نہیں ۔ میرے اللہ اور میرے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے میری حفاظت کی ۔ مجھے دنیا کے لئے تماشا نہیں بنایا، نہ دنیا میں بنایا ہے نہ ہی آخرت میں میں کسی رسوائی کا سامنا کروں گی اور میں آج اگر یہاں موجود ہوں تو صرف اس لئے کیونکہ میں سیدھے راستے پر ہوں اور یہاں بیٹھ کر میں ایک بار پھر اقرار کرتی ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسول ہیں۔ ان کے بعد کوئی پیغمبر آیا ہے نہ ہی کبھی آئے گا ۔ میں اقرار کرتی ہوں کہ وہی پیر کامل ہیں۔ میں اقرار کرتی ہوں کہ ان سے کامل ترین انسان دوسرا کوئی نہیں۔ ان کی نسل میں بھی کوئی ان کے برابر آیا ہے نہ ہی کبھی آئے گا اور میں اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ وہ مجھے آنے والی زندگی میں بھی کبھی اپنے ساتھ شرک کروائے نہ ہی مجھے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر کسی کو لاکھڑا کرنے کی جرات ہو۔ میں دعا کرتی ہوں کہ اللہ زندگی بھر مجھے سیدھے راستے پر رکھے۔ بے شک میں اس کی کسی نعمت کو نہیں جھٹلا سکتی۔

عمیر احمد کے ناول ’’پیر کامل‘‘ سے اقتباس
 

عبد الرحمن

لائبریرین
بھئی کبھی کبھی میں ان کے خیالات سے بالکل اتفاق نہیں کر پاتا تو اس وقت پریشانی ہوتی ہے کہ آخر یہ کس ترنگ میں ایسا لکھ گئیں:)
السلام علیکم شیزان بھائی!
گستاخی معاف، مجھے ایسے ہی اقتباسات چاہیے، اگر آپ رہنمائی کردیں تو بڑی نوازش ہوگی۔
جزاکم اللہ خیرا!
 
یہاں کھڑے ہو کر تجھ سے انبیاء دعا مانگا کرتے تھے۔ ان کی دعاؤں اور میری دعاؤں میں فرق ہے۔ میں نبی ہوتا تو نبیوں جیسی دعا کرتا۔ ۔مگر میں تو عام بشر ہوں اور گناہ گار بشر۔ میری خواہشات میری آرزوئیں سب عام ہیں۔ یہاں کھڑے ہو کر کبھی کوئی کسی عورت کے لیے نہیں رویا ہوگا۔ میری زلت اور پستی اس سے زیادہ کیا ہوگی کہ میں حرم پاک میں ایک عورت کے لیے گڑگڑا رہا ہوں۔ مگر مجھے نہ اپنے دل پر اختیار ہے نہ اپنے آنسوؤں... پر۔ یہ میں نہیں تھا جس نے اس عورت کو اپنے دل میں جگہ دی۔ یہ تو نے کیا۔ کیوں میرے دل میں ایک عورت کے لیے اتنی محبت ڈال دی کہ میں تیرے سامنے کھڑا بھی اس کو یاد کر رہا ہوں؟
کیوں مجھے اس قدر بے بس کر دیا ہے کہ مجھے اپنے وجود پر بھی کوئی اختیار نہیں رہا میں وہ بشر ہوں جسے تو نے ان تمام کمزوریوں کے ساتھ بنایا ہے وہ بشر ہوں جسے تیرے سوا کوئی راستہ دیکھانے والا نہیں۔ اور وہ عورت میری زندگی کہ ھر رستے پہ کھڑی ہے۔۔
مجھے کہیں جانے کہیں پہنچنے نہیں دے رہی۔ یا تو اس کی محبت کو اس طرح میرے دل سے نکال دے کہ مجھے کبھی اس کا خیال ہی نہ آئے۔ یا پھر اسے مجھے دے دے۔ وہ نہیں ملے گی تو میں ساری زندگی اس کے لیے روتا رہوں گا۔ وہ مل جائے تو تیرے علاوہ کسی اور کے لیے آنسو نہیں بہاؤں سکوں گا۔ میرے آنسو خالص ہونے دے۔ میری محبت کو خالص ہونے دے۔
اقتباس: ناول "پیر کامل" سے

اس دعا کو اس ناول کو اتنے خوبصورت انداز میں لکھا گیا ہے کہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اسے فلمایا جائے۔۔۔ اللہ کرے کہ ان کے دل میں اسے فلمانے یا ڈرامہ بنانے کا خیال نا آئے۔۔۔
کچھ کتابیں کتابیں ہی اچھی لگتی ہیں ۔۔۔
 
سلام ۔۔
یہاں عمیرہ احمد جی کی بات ہو رہی ہے ۔۔ تو میرا بھی خیال ہے کہ ان کی تحریروں میں شدت ہوتی ہے ۔۔۔
کسی کی محبت کی شدت ۔۔۔ کسی کی نفرت کی ۔۔۔ کوئی عداوت رکھتا ہے تو قسم کھانے سے گریز نہیں کرتا۔۔۔ (جبکہ میں اس سے متفق ہوں کہ عبادت برائی سے روکتی ہے)
ان کی میری زات زرہ بے نشان ۔۔۔ پیر کامل ۔۔۔ من و سلوی ۔۔۔ ان کہانیوں کے کردار بہت شدت پسند تھے ۔۔۔ ان کے ڈراموں میں تھوڑا سا آسمان ۔۔۔ میرات العروس ۔۔۔اور محبت صبح کا ستارہ ہے۔۔۔ وغیرہ میں بھی یہی تحریر کا رنگ دیکھنے کو ملا ۔۔
ان کی تحریروں میں خوبصورتی اور معاشرے کے رنگ کو اتنی شدت سے دکھایا جاتا ہے کہ ہم دنگ رہ جاتے ہیں ۔۔
اور یا پھر کہانیاں بنتی اور لکھی ہی ان کرداروں پر جاتی ہیں جو مختلف ہوں ۔۔۔ چاہے کسی بھی رنگ میں چاہے کسی بھی جذبے میں ۔۔
 
Top