نیلم
محفلین
عنیزہ سید کے ناول ’’نان بائی کی بیٹی‘‘ سے ایک خوبصورت اقتباس
میں جانتا ہوں کہ دنیا کی کوئی عدالت ۔۔۔تمہیں کسی قتل کا ملزم نامزد کرکے تم پر مقدمہ چلائے گی نہ ہی کسی سزا کا اعلان کیا جاسکے گا ، کیونکہ تمہارے شاطر ذہن نے قتل کا کوئی ثبوت چھوڑا ہے نہ ہی اس قتل میں اپنے ملوث ہونے کا کوئی ایسا نشان یا جو زینب وقار تک جاتا ہے ۔ لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ آج کے بعد تمہارا ضمیر تمہاری عدالت بن جائے گا۔ تمہاری نظروں کے سامنے وہ زخم زخم وجود آکے تم سے سوال کرتا رہے گاکہ وہ مرگ مفاجات بس ایک جرم محبت کی سزا کے طور پر دینے کا اختیار تم کو کس نے دیا تھا؟
تم اپنی سماعتوں میں انگلیوں ٹھونسوگی اپنی بصارتوں پر ہاتھ رکھو گی ، بہری اور گونگی ہوجانا چاہوگی ، دل دماغ اور ضمیر کے سوالوں کے بوجھ سے گھبرا کر مجانے کی دعا کروگی مگر ان میں سے کوئی چیز بھی تم پر مہربان نہ ہوگی۔ ناکردہ جرم کی سزا پانے والی تو مرچکی اب کردہ جرم کی سزا بھگتنے کا وقت آچکا ہے ۔
اور میں جو آج تم سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوآیا ہوں۔۔۔کبھی تمہارے لیے دعا گو نہیں رہوں گا ۔ تمہاری بے سکونی اذیت اور سا ۔۔۔میری زینا کا سکون اور چین بنتی رہے گی۔ وہ جسے زندگی میں دوا ملی نہ کوئی مسیحا اور کون جانے مرنے کے بعد کوئی قبر بھی اس کا ٹھکانا بنی کہ نہیں اس کی قاتل یوں بے سکون رہے گی تو شاید میرے اندر بھڑکتے الاؤ بھی کہیں کبھی بجھنے لگیں ۔
مجھے یقین ہے تم سے علیحدگی کا سبب بتاتے ہوئے میرے وہ الفا٭۔۔۔
مجھے اپنی نسل اپنی بقا کے لیے اولاد چاہیے۔‘‘
تمہاری سماعت کے لیے غیر متوقع تھے۔۔۔ یہ بھی اس سزا کی ایک کڑی ہے نا ہما جو تمہارے مقدر بن گئی ہے کہ خود کو تم سے جدا کرنے کی وجہ سے میں نے وہ نہیں بتائی جو تم سمجھ رہی تھی۔ یہ اذیت بھی تو نہ ختم ہونے والی سزا ہے کہ میں نے اتنے سالوں بعد ’’اولاد‘‘ کو جواز بنا کر تمہیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا اس روئے زمین پر شاید یہ آخری بات ہو جس کی تم مجھ سے توقع کررہی تھیں۔۔۔مگر اس غیر متوقع وجہ پر ماتم کرنے کے بعد صرف ایک بار یاد کرلینا کہ تم سے یہ غیر متوقع بات تمہارے محبوب شوہر نے نہیں بلکہ نان بائی کی بیٹی کے عاشق نے کہی ہے ایک غیر روایتی اور غیر معمولی محبت کے قتل کی سزا بھی تو اتنی ہی غیر روایتی اور غیر معمولی ہونی چاہئیے۔ ہے نا؟
میں جانتا ہوں کہ دنیا کی کوئی عدالت ۔۔۔تمہیں کسی قتل کا ملزم نامزد کرکے تم پر مقدمہ چلائے گی نہ ہی کسی سزا کا اعلان کیا جاسکے گا ، کیونکہ تمہارے شاطر ذہن نے قتل کا کوئی ثبوت چھوڑا ہے نہ ہی اس قتل میں اپنے ملوث ہونے کا کوئی ایسا نشان یا جو زینب وقار تک جاتا ہے ۔ لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ آج کے بعد تمہارا ضمیر تمہاری عدالت بن جائے گا۔ تمہاری نظروں کے سامنے وہ زخم زخم وجود آکے تم سے سوال کرتا رہے گاکہ وہ مرگ مفاجات بس ایک جرم محبت کی سزا کے طور پر دینے کا اختیار تم کو کس نے دیا تھا؟
تم اپنی سماعتوں میں انگلیوں ٹھونسوگی اپنی بصارتوں پر ہاتھ رکھو گی ، بہری اور گونگی ہوجانا چاہوگی ، دل دماغ اور ضمیر کے سوالوں کے بوجھ سے گھبرا کر مجانے کی دعا کروگی مگر ان میں سے کوئی چیز بھی تم پر مہربان نہ ہوگی۔ ناکردہ جرم کی سزا پانے والی تو مرچکی اب کردہ جرم کی سزا بھگتنے کا وقت آچکا ہے ۔
اور میں جو آج تم سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوآیا ہوں۔۔۔کبھی تمہارے لیے دعا گو نہیں رہوں گا ۔ تمہاری بے سکونی اذیت اور سا ۔۔۔میری زینا کا سکون اور چین بنتی رہے گی۔ وہ جسے زندگی میں دوا ملی نہ کوئی مسیحا اور کون جانے مرنے کے بعد کوئی قبر بھی اس کا ٹھکانا بنی کہ نہیں اس کی قاتل یوں بے سکون رہے گی تو شاید میرے اندر بھڑکتے الاؤ بھی کہیں کبھی بجھنے لگیں ۔
مجھے یقین ہے تم سے علیحدگی کا سبب بتاتے ہوئے میرے وہ الفا٭۔۔۔
مجھے اپنی نسل اپنی بقا کے لیے اولاد چاہیے۔‘‘
تمہاری سماعت کے لیے غیر متوقع تھے۔۔۔ یہ بھی اس سزا کی ایک کڑی ہے نا ہما جو تمہارے مقدر بن گئی ہے کہ خود کو تم سے جدا کرنے کی وجہ سے میں نے وہ نہیں بتائی جو تم سمجھ رہی تھی۔ یہ اذیت بھی تو نہ ختم ہونے والی سزا ہے کہ میں نے اتنے سالوں بعد ’’اولاد‘‘ کو جواز بنا کر تمہیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا اس روئے زمین پر شاید یہ آخری بات ہو جس کی تم مجھ سے توقع کررہی تھیں۔۔۔مگر اس غیر متوقع وجہ پر ماتم کرنے کے بعد صرف ایک بار یاد کرلینا کہ تم سے یہ غیر متوقع بات تمہارے محبوب شوہر نے نہیں بلکہ نان بائی کی بیٹی کے عاشق نے کہی ہے ایک غیر روایتی اور غیر معمولی محبت کے قتل کی سزا بھی تو اتنی ہی غیر روایتی اور غیر معمولی ہونی چاہئیے۔ ہے نا؟