امکانات
محفلین
عوامی مسائل ۔اور ۔قومی وسائل
زبیرا حمد ظہیر
عوامی مسائل کب حل ہونگے؟ یہ سوال ملکی سطح پر کافی اہمیت حاصل کر گیا ہے گلی محلے کے چھوٹے چھوٹے مسائل بظاہر معمولی ہیں مگر انہوں نے مسئلہ کشمیر سے زیادہ اہمیت حاصل کر لی ہے ،چین کی یہ خوبی نہیں کہ اس کی آبادی دنیا کی سب سے بڑ ی آبادی ہے بلکہ اس کی اصل خوبی ہے ڈیڑھ ارب کی آبادی کو اس نے کھانے پینے جیسے بنیادی مسائل کی فکر سے نکال دیا ہے ۔
آبادی میں اضافہ اس وقت ساری دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے باقی تمام مسائل آبادی کے بطن سے جنم لیتے ہیں ۔ چین نے دنیاکے اس سب سے بڑے مسئلہ کا سامنا کیا اور اس مسئلہ کے حل نے اسے ساری دنیا میں سرخرو کر دیا ،اس معاملے میں ساری دنیا ایک طرف اور چین ایک طرف۔ چین نے یہ بات بہت پہلے پلے باندھ لی تھی کہ آبادی میں اضافہ کمال نہیں بلکہ اس آبادی کا پیٹ پالنا کمال ہے دنیا کے ظاہری اسباب میں دیکھا جائے تو ڈیڑھ ارب کی آبادی کی بنیادی سہولیات فراہم کر نا7ارب کی کل آبادی اور2سو45 ممالک کی اس ساری دنیا میں سب بڑا کارنامہ ہے چین کی اس ساری کامیابی کا راز دوراندیشی میں مضمر ہے کہنے کو انگریزوں کی دوراندیشی مشہور ہے مگر عوامی مسائل کے حل میں چین نے ساری دنیا میں سب سے بڑی آبادی کے مسائل حل کرکے انگریزوں کی ضرب المثل دور اندیشی کو مات دے دی ہے دور اندیشی میں ضرب المثل یورپ آج معاشی بحران کا شکار ہے اور اس کی ساری کی ساری دور اندیشی عالمی کساد بازاری نے نگل لی ہے
سرمایہ دارانہ نظام آخری سانسیں لے رہا ہے سوشل ازم اور کیمونزم کے بعدکیپیٹل ازم یہ دنیا کا تیسرابڑا مالیاتی نظام ہے جو ناکام ہونے جا رہاہے اس نظام کی ناکامی نے جہاں نئے نظام کی ضرورت پیدا کی ہے وہاں انگریز کی دور اندیشی کو بھی تاریخی غلط فہمی بنا دیا ہے سرمایہ دارانہ نظام میں سود کی ریڑھ جیسی حیثیت نے اسے استحصالی نظام بنا کر اسے ناکامی سے دوچار کر دیاہے دنیا کا ہر وہ نظام جو غالب آبادی کے حقوق کا تحفظ نہ کرسکے اسے ایک نہ ایک دن ناکام ہونا ہوتا ہے سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی سے بھی عوامی مسائل کی اہمیت واضح ہوتی ہے بظاہر گلی محلے کے عوامی مسائل نہایت معمولی معلوم ہوتے ہیں مگر ساری دنیا کی بنیاد گلی محلے کے مسائل کی دیوار پر کھڑی ہے ترقی جس کا نام ہے وہ بڑی عمارتوں سے نہیں بلکہ آسمان کو چھوتی عمارتوں کے قدموں میں پڑی گلی محلوں کی صفائی ستھرائی سے معلوم ہوتی ہے اس سے معلوم ہوا کہ ترقی کی بنیاد عوامی مسائل کا حل ہے جب تک گلی محلے کے چھوٹے مسائل حل نہیں ہونگے وہ ملک ترقی یافتہ نہیں کہلاسکتا ہے ابلتے گٹروں' بجلی کے بغیر تاریک اندھیروں کو ترقی نہیں کہا جاسکتا، بلند بالاعمارتوں کے ان تاریک اندھیروں اور غاروں کے اندھیروں میں ڈوبے گھروں اور پتھر کے زمانے میں کوئی فرق باقی نہیں بچتا' جہاں تک بڑی بڑی عمارتیں کھڑی کرنے کا سوال ہے تو آج سے ہزاروں برس قبل قوم عاد اور قوم ثمود جیسی عمارتیں کوئی نہیں بناسکتا اہرام مصر جیسے فن تعمیر کے شہکار بھی اگرترقی نہیں کہلاسکے تو محض عمارتیں ترقی کی دلیل نہیں کہلاسکتیں
ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں فرق صرف اتنا ہی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی گلی محلے سے شروع ہوتی ہے چورنگیوں چوراہوں سے ہوتی ہوئی شاہراہوں تک جاتی ہے اور پھر بڑی بڑی عمارتوں میں داخل ہو جاتی ہے اور ترقی پذیر ممالک کی ترقی حکومت کے ایوانوں کی عمارتوں سے شروع ہو کر پوش علاقوں کی گلیوں تک ختم ہو جاتی ہے پوش علاقوں کی گلیوں میں گم ہونے والی ترقی دیگر علاقوں میں لوٹ کر کبھی نہیں آتی اس لئے برسوں یہ ملک ترقی پذیر کہلاتے ہیں اور یہ ترقی یافتہ نہیں بن سکتے ہمارے ملک کا بھی یہ المیہ ہے کہ آج ہمیں گلی محلے کے چھوٹے چھوٹے مسائل نے تقسیم کر دیا گلی محلے کے مسائل جب بگڑے اور بات بگڑ کر جب بتنگڑ بنی تو ان عوامی مسائل سے صوبائی خودمختاری کے مطالبے نے جنم لیا اگر صوبائی خودمختاری کاباریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات گلی محلے کے عوامی مسائل سے بگڑ کر صوبائی وسائل تک جا پہنچی ہے ان عوامی مسائل نے آج ملک میں صوبائی خودمختاری کے معاملے پر قوم کو تقسیم کر دیا ہے ہماری حکومتیں عوامی مسائل حل کرنے کو تیار نہیں مگرصوبوں کو خودمختاری دینے کو تیار ہیں مہنگائی بجلی کی لوڈشیڈنگ یہ وہ بنیادی عوامی مسائل ہیں اگر یہ حل ہونے لگیں تو صوبائی خودمختاری کے نام پر قوم تقسیم ہونے سے بچ سکتی ہے اگر یہ مسائل حل نہیں ہونگے تو پھر مقبوضہ کشمیر جیسا حال ہوگا جہاںتحریک آزادی کے 60 برس کی جدوجہد میں1 لاکھ جانوںکے نذرانے کے باوجودحالیہ انتخابات میں کشمیریوں نے صرف اس لئے حصہ لیا کہ ہم آزادی کے خواہش مند ضرور ہیں مگر ہم نے گلی محلے کے مسائل بھی حل کروانے ہیں دیکھا جائے تو بھارتی الیکشن کو تسلیم کرنا بھارت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے مگر بجلی سڑک اور دیگر عوامی مسائل نے تحریک آزادی کو پس پشت ڈال دیا مقبوضہ کشمیر سے متصل آزاد کشمیر کے ضلع نیلم کا حال بھی ویسا ہی ہے۔
یہ چھ لاکھ کی آبادی60 سال سے بنیادی سہولیات سے محروم ہے سڑکیں ہر سال ٹوٹ جاتی ہیں ٹیلی فون کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے اور علاج معالجے کی جدید سہولت کیا ہوتی ہے ان لوگوں کو معلوم نہیں اس ضلع کے عوام نے گذشتہ دو سال سے علم بغاوت بلند کر رکھا ہے ٹریفک جام کرناان لوگوں کا معمول بن گیا ہے یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے سامنے مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے تمام سہولتیں دے رکھی ہیں مگر ہمیں کیوں حاصل نہیں یہ ضلع تحریک آزادی کے لئے ریڑھ کی ہڈی جیسی اہمیت کا حامل رہا ہے دس سال تک اس ضلع کے باسیوں نے بھارتی گولہ باری کا ڈٹ کرسامنا کیابھارت کی دس بارہ سالہ مسلسل گولہ باری انکے پائے استقامت میں فرق نہیں لا سکی تھی مگر آج انہیں گلی محلے کے چھوٹے چھوٹے مسائل نے بغاوت پر مجبور کر دیا ہے عام طور پر مذہبی اور روحانی شخصیات کو عوامی مسائل سے کوئی غرض نہیں ہوتی مگر پیرمظہر شاہ جیسی مذہبی شخصیت عوامی مسائل کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی ہے اور عوام ان کے ساتھ ہیں موجودہ زمانے میں مذہبی شخصیات کا یوں عوامی مسائل کے لیے کھڑا ہونا او رعوام کا ساتھ دینا دونوں حیران کن امر ہیں اس سے ثابت ہوا کہ عوامی مسائل نے مسئلہ کشمیرسے زیادہ اہمیت حاصل کر لی ہے ہم عوامی مسائل حل کرنے کی بجائے سیاسی مسائل حل کرنے پر ساری طاقت مبذول کیے ہوئے ہیں چین نے ڈیڑھ ارب کی آبادی کو عوامی مسائل کے گرداب سے نکال لیا ہے ایک ہم ہیں کہ17 کروڑ کے عوامی مسائل حل ہوتے نہیں۔ عوامی مسائل قومی وسائل عوام کو دینے سے حل ہوتے ہیں۔ حکمران عوامی وسائل پر قابض ہیں عوامی مسائل کے حل کی کنجی قومی اورعوامی وسائل میں ہے جب تک عوامی اور قومی وسائل حکومتوں کی ذاتی جاگیر بنے رہیںگے عوامی مسائل حل نہیں ہونگے۔
زبیرا حمد ظہیر
عوامی مسائل کب حل ہونگے؟ یہ سوال ملکی سطح پر کافی اہمیت حاصل کر گیا ہے گلی محلے کے چھوٹے چھوٹے مسائل بظاہر معمولی ہیں مگر انہوں نے مسئلہ کشمیر سے زیادہ اہمیت حاصل کر لی ہے ،چین کی یہ خوبی نہیں کہ اس کی آبادی دنیا کی سب سے بڑ ی آبادی ہے بلکہ اس کی اصل خوبی ہے ڈیڑھ ارب کی آبادی کو اس نے کھانے پینے جیسے بنیادی مسائل کی فکر سے نکال دیا ہے ۔
آبادی میں اضافہ اس وقت ساری دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے باقی تمام مسائل آبادی کے بطن سے جنم لیتے ہیں ۔ چین نے دنیاکے اس سب سے بڑے مسئلہ کا سامنا کیا اور اس مسئلہ کے حل نے اسے ساری دنیا میں سرخرو کر دیا ،اس معاملے میں ساری دنیا ایک طرف اور چین ایک طرف۔ چین نے یہ بات بہت پہلے پلے باندھ لی تھی کہ آبادی میں اضافہ کمال نہیں بلکہ اس آبادی کا پیٹ پالنا کمال ہے دنیا کے ظاہری اسباب میں دیکھا جائے تو ڈیڑھ ارب کی آبادی کی بنیادی سہولیات فراہم کر نا7ارب کی کل آبادی اور2سو45 ممالک کی اس ساری دنیا میں سب بڑا کارنامہ ہے چین کی اس ساری کامیابی کا راز دوراندیشی میں مضمر ہے کہنے کو انگریزوں کی دوراندیشی مشہور ہے مگر عوامی مسائل کے حل میں چین نے ساری دنیا میں سب سے بڑی آبادی کے مسائل حل کرکے انگریزوں کی ضرب المثل دور اندیشی کو مات دے دی ہے دور اندیشی میں ضرب المثل یورپ آج معاشی بحران کا شکار ہے اور اس کی ساری کی ساری دور اندیشی عالمی کساد بازاری نے نگل لی ہے
سرمایہ دارانہ نظام آخری سانسیں لے رہا ہے سوشل ازم اور کیمونزم کے بعدکیپیٹل ازم یہ دنیا کا تیسرابڑا مالیاتی نظام ہے جو ناکام ہونے جا رہاہے اس نظام کی ناکامی نے جہاں نئے نظام کی ضرورت پیدا کی ہے وہاں انگریز کی دور اندیشی کو بھی تاریخی غلط فہمی بنا دیا ہے سرمایہ دارانہ نظام میں سود کی ریڑھ جیسی حیثیت نے اسے استحصالی نظام بنا کر اسے ناکامی سے دوچار کر دیاہے دنیا کا ہر وہ نظام جو غالب آبادی کے حقوق کا تحفظ نہ کرسکے اسے ایک نہ ایک دن ناکام ہونا ہوتا ہے سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی سے بھی عوامی مسائل کی اہمیت واضح ہوتی ہے بظاہر گلی محلے کے عوامی مسائل نہایت معمولی معلوم ہوتے ہیں مگر ساری دنیا کی بنیاد گلی محلے کے مسائل کی دیوار پر کھڑی ہے ترقی جس کا نام ہے وہ بڑی عمارتوں سے نہیں بلکہ آسمان کو چھوتی عمارتوں کے قدموں میں پڑی گلی محلوں کی صفائی ستھرائی سے معلوم ہوتی ہے اس سے معلوم ہوا کہ ترقی کی بنیاد عوامی مسائل کا حل ہے جب تک گلی محلے کے چھوٹے مسائل حل نہیں ہونگے وہ ملک ترقی یافتہ نہیں کہلاسکتا ہے ابلتے گٹروں' بجلی کے بغیر تاریک اندھیروں کو ترقی نہیں کہا جاسکتا، بلند بالاعمارتوں کے ان تاریک اندھیروں اور غاروں کے اندھیروں میں ڈوبے گھروں اور پتھر کے زمانے میں کوئی فرق باقی نہیں بچتا' جہاں تک بڑی بڑی عمارتیں کھڑی کرنے کا سوال ہے تو آج سے ہزاروں برس قبل قوم عاد اور قوم ثمود جیسی عمارتیں کوئی نہیں بناسکتا اہرام مصر جیسے فن تعمیر کے شہکار بھی اگرترقی نہیں کہلاسکے تو محض عمارتیں ترقی کی دلیل نہیں کہلاسکتیں
ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں فرق صرف اتنا ہی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی گلی محلے سے شروع ہوتی ہے چورنگیوں چوراہوں سے ہوتی ہوئی شاہراہوں تک جاتی ہے اور پھر بڑی بڑی عمارتوں میں داخل ہو جاتی ہے اور ترقی پذیر ممالک کی ترقی حکومت کے ایوانوں کی عمارتوں سے شروع ہو کر پوش علاقوں کی گلیوں تک ختم ہو جاتی ہے پوش علاقوں کی گلیوں میں گم ہونے والی ترقی دیگر علاقوں میں لوٹ کر کبھی نہیں آتی اس لئے برسوں یہ ملک ترقی پذیر کہلاتے ہیں اور یہ ترقی یافتہ نہیں بن سکتے ہمارے ملک کا بھی یہ المیہ ہے کہ آج ہمیں گلی محلے کے چھوٹے چھوٹے مسائل نے تقسیم کر دیا گلی محلے کے مسائل جب بگڑے اور بات بگڑ کر جب بتنگڑ بنی تو ان عوامی مسائل سے صوبائی خودمختاری کے مطالبے نے جنم لیا اگر صوبائی خودمختاری کاباریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات گلی محلے کے عوامی مسائل سے بگڑ کر صوبائی وسائل تک جا پہنچی ہے ان عوامی مسائل نے آج ملک میں صوبائی خودمختاری کے معاملے پر قوم کو تقسیم کر دیا ہے ہماری حکومتیں عوامی مسائل حل کرنے کو تیار نہیں مگرصوبوں کو خودمختاری دینے کو تیار ہیں مہنگائی بجلی کی لوڈشیڈنگ یہ وہ بنیادی عوامی مسائل ہیں اگر یہ حل ہونے لگیں تو صوبائی خودمختاری کے نام پر قوم تقسیم ہونے سے بچ سکتی ہے اگر یہ مسائل حل نہیں ہونگے تو پھر مقبوضہ کشمیر جیسا حال ہوگا جہاںتحریک آزادی کے 60 برس کی جدوجہد میں1 لاکھ جانوںکے نذرانے کے باوجودحالیہ انتخابات میں کشمیریوں نے صرف اس لئے حصہ لیا کہ ہم آزادی کے خواہش مند ضرور ہیں مگر ہم نے گلی محلے کے مسائل بھی حل کروانے ہیں دیکھا جائے تو بھارتی الیکشن کو تسلیم کرنا بھارت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے مگر بجلی سڑک اور دیگر عوامی مسائل نے تحریک آزادی کو پس پشت ڈال دیا مقبوضہ کشمیر سے متصل آزاد کشمیر کے ضلع نیلم کا حال بھی ویسا ہی ہے۔
یہ چھ لاکھ کی آبادی60 سال سے بنیادی سہولیات سے محروم ہے سڑکیں ہر سال ٹوٹ جاتی ہیں ٹیلی فون کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے اور علاج معالجے کی جدید سہولت کیا ہوتی ہے ان لوگوں کو معلوم نہیں اس ضلع کے عوام نے گذشتہ دو سال سے علم بغاوت بلند کر رکھا ہے ٹریفک جام کرناان لوگوں کا معمول بن گیا ہے یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے سامنے مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے تمام سہولتیں دے رکھی ہیں مگر ہمیں کیوں حاصل نہیں یہ ضلع تحریک آزادی کے لئے ریڑھ کی ہڈی جیسی اہمیت کا حامل رہا ہے دس سال تک اس ضلع کے باسیوں نے بھارتی گولہ باری کا ڈٹ کرسامنا کیابھارت کی دس بارہ سالہ مسلسل گولہ باری انکے پائے استقامت میں فرق نہیں لا سکی تھی مگر آج انہیں گلی محلے کے چھوٹے چھوٹے مسائل نے بغاوت پر مجبور کر دیا ہے عام طور پر مذہبی اور روحانی شخصیات کو عوامی مسائل سے کوئی غرض نہیں ہوتی مگر پیرمظہر شاہ جیسی مذہبی شخصیت عوامی مسائل کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی ہے اور عوام ان کے ساتھ ہیں موجودہ زمانے میں مذہبی شخصیات کا یوں عوامی مسائل کے لیے کھڑا ہونا او رعوام کا ساتھ دینا دونوں حیران کن امر ہیں اس سے ثابت ہوا کہ عوامی مسائل نے مسئلہ کشمیرسے زیادہ اہمیت حاصل کر لی ہے ہم عوامی مسائل حل کرنے کی بجائے سیاسی مسائل حل کرنے پر ساری طاقت مبذول کیے ہوئے ہیں چین نے ڈیڑھ ارب کی آبادی کو عوامی مسائل کے گرداب سے نکال لیا ہے ایک ہم ہیں کہ17 کروڑ کے عوامی مسائل حل ہوتے نہیں۔ عوامی مسائل قومی وسائل عوام کو دینے سے حل ہوتے ہیں۔ حکمران عوامی وسائل پر قابض ہیں عوامی مسائل کے حل کی کنجی قومی اورعوامی وسائل میں ہے جب تک عوامی اور قومی وسائل حکومتوں کی ذاتی جاگیر بنے رہیںگے عوامی مسائل حل نہیں ہونگے۔