آپ کی تحقیق کی داد دینی پڑے گی مگر میرا سوال سادہ ہے ایک تو 95 فیصد کی دوسرا وڈیروں کی اوطاقوں میں عورت کا کام کرنا۔ مجھے گول جواب نہیں چاہیے۔
بات سے پھرنے کی کیا ضرورت ہے۔
سیدھی سی بات ہے کہ 95 فیصد کا ماخذ کیا ہے۔ آپ نے یہ کیسے کلکیولیشن کی ہے
اور آپ اوطاق کے بارے میں بھی جانتے کس چیز کوکہتے ہیں۔ اوطاق میں عورت کا کام کرنا!!!!!!
سولنگی بھیا یہ میں نہ مانوں والی تکرار مناسب نہیں ہے ٹھیک ہے انہوں نے 95 فیصد والی بات یونہی روانی میں کر دی لیکن یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ سندھ میں پاکستان کے کسی بھی علاقے سے زیادہ عورت کی تذلیل کی جاتی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وڈیرے اپنی اوطاقوں میں عورتوں کو رکھتے ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ سندھ میں ستی ونی کاروکاری کی بھینٹ سب سے زیادہ عورت چڑھتی ہے اور یہ تمام ایسے حقائق ہیں جن کے ثبوت پیش کرنے کی کسی کو ضرورت نہیں کہ یہ زبانِ زدِ عام اور تحقیق شدہ امر ہیں۔اب میرا خیال ہے کہ آپ بس کیجئے اور مغل صاحب کو تنگ کرنے کا کوئی نیا فارمولا ڈھونڈیئے۔
شکریہ چاند بابو ، میں نے اونگی تو نہیں ماری مگر یہ غلطی مجھ سے ہوئی کہ یہ تعداد مجھے بتا نی نہیں چاہیے تھی ، ہم نے یہ کام ایک ایک تحقیقاتی ادارے جس کا حوالہ اوپر دے چکا ہوں کے لیے کیا تھا اس میں ہمیں خطیر رقم اسی لیے دی جاتی ہے کہ ہم وہ معاملات نجی زندگی میں زیرِ بحث نہ لائیں ، مجھ سے یہاں یہ غلطی بہر حال ہوگئی ، خیر ، کمک کو پہنچنے کا شکریہ،والسلام
اب اور بھی باقی ہے۔ گویا آپ نے کہ دیا۔ مجھے کوئی افسوس نہیں آپ کی بات کا۔جی ہاںصاحب ’’ اوطاق ‘‘ ہی کی بات کر رہا ہوں۔ شکر کیجے میں نے اسے قبحہ خانہ نہیں کہا، وگرنہ اس سے بھی بد تر ہوتی یہ بیٹھکیں اور اوطاقیں۔
کیلکو لیش کی جہاں تک بات ہے ،۔ میں اندرونِ سندھ کے خاندانوں سے ملا ہوں، اور یہ نتیجہ اسی بنیاد پر اخذ کیا گیا ہے میں ان دنوں نیپو(nipo) نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پبلک اوپینئین، میں کام کرتا تھا۔ اس کا دفتر خان ہاؤس شاہراہ فیصل ہے ، تحریر مواد وہیں سے ملے گا۔
والسلام