پرسوں ایسا ہوا کہ ہم سارا کی ایک ترکیب "لاثانی کڑھائی" پر طبع آزمائی کروا رہے تھے۔ ۔ اور یہ طبع آزمائی کرنے والا میرا بنگالی کک تھا ۔ ۔ اسی دوران میرے کک کی ازلی دشمن ماسی ہاجرہ کچن میں آگئی ۔ ۔ ۔ اتفاق کچھ ایسا تھا کہ میں کچن کے داخلی دروازے کے ساتھ کھڑا فریج کی پوزیشن پر چینج کرنے کا سوچ رہا تھا ۔ ۔ ۔ اسی وجہ سے ماسی داخل ہوتے وقت میری موجودگی سے بے خبر رہی۔ ۔ اسکی خاموشی دیکھ کر کک "حلیم" نے اسکو چھیڑا کہ ماسی آج بڑی خاموش ہو۔ ۔ جوابا ماسی نے اسکو ایک خوبصورت گالی سے نوازا جو "حلیم" کے سر سے گزر گئی کیونکہ ہماری ماسی ٹھیٹھ سرائیکی لہجہ میں بات کرتی ہے ۔ ۔ ۔ ان دونوں کی نوک جھونک سے میں اکثر لطف اندوز ہوتا ہوں۔ ۔ مگر آج ماسی کافی خاموش لگ رہی تھی۔ ۔ میں نے ماسی کو مخاطب کیا تو وہ ایک دم چونکی اور میری موجودگی کا احساس پاکر خاصی شرمندہ لگ رہی تھی کیونکہ جو گالی آج ماسی نے "بنگالی کک" کو دی تھی وہ کئی لحاظ سے خاصی عام فہم تھی جس میں ماسی ہاجرہ نے کک کی والدہ ماجدہ کے جسم کے ان حصوں کو نشانہ بنایا تھا جو دنیا کی کسی بھی زبان میں استعمال کیے جائیں صرف اپنی شستہ ادائیگی کی وجہ سے عام فہم ہو جاتے ہیں۔ ۔
کچھ تو احساس شرمندگی تھا اور کچھ شاید وہ پریشان تھی کہ میری آواز سن کر آبدیدہ ہو گئی۔ ۔ ۔ اسکی بھرائی ہوئی آواز سن کر میں مزے لینے کا خیال بھول کر پریشان ہو گیا ۔ ۔ میرے استفسار پر ماسی نے کہا کہ "صاحب جی اس زندگی سے تو موت اچھی ہے۔ ۔ ۔ زندگی بھر ہڈ حرام میاں سے مار کھائی لوگوں کی غلامی کرکے اسکا اور بچوں کا پیٹ پالا۔ ۔ ۔ اب بیٹی بھی ایسے ہی حرامی کے پلے بندھ گئی ہے"۔ ۔ ۔
ہوا یہ تھا کہ اسکے داماد نے اسکی بیٹی کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ ۔ اور وہ بیٹی زخمی حالت میں ماسی کے پاس آتی تھی۔ میں اسکی بیٹی کو دیکھنے سرونٹ کوارٹر تک گیا تو حیران ہوا کہ اسکی معصوم لڑکی کا چہرہ تقریبا زخمی تھا اور ناک کی حالت خاصی خراب تھی۔ ایک وقت تو میرا دماغ بھی بھک سے اڑ گیا۔ اور میں نے غصے سے ماسی سے پوچھا کہ وہ کمینہ کہاں ہے اسکو سیدھا کرواتا ہوں ابھی۔ ۔ ۔ مگر ماسی اور میں اچھی طرح جانتے تھے کہ اسکا کا کوئی علاج نہیں ہے ۔ آخر کب تک یہ چلے گا۔ بہرحال میں کچھ دوائیں تجویز کرکے چلا آیا۔
پوری رات میں بھی ذہنی طور پر الجھا رہا اور محفل سے بھی جلدی چلا گیا ۔ اس دوران جو میرے دماغ میں چلا وہ ٹائپ کرتا چلا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ملک میں کئی گھرانوں میں یہ معمول کی بات ہے کہ بیوی جو اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے اپنے شوہر کے گھر آجاتی ہے، وہ شاید کسی ڈاکٹری نسخے کے مطابق اپنے شوہر سے باقاعدگی سے مار کھاتی ہے وجہ یا وجوہات کئی ہو سکتی ہیں۔ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ بیوی کو مارنے سے بیوی کنٹرول میں بھی رہتی ہے اور اس کی صحت بھی اچھی رہتی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ مردوں کی شان اور مردانگی ہے۔ ۔ ۔
بعض اس وجہ سے تشدد کرتے ہیں کہ انہیں بیوی کے کردار پر شک ہوتا ہے اور بعض وہ ہیں جو جہیز وغیرہ کی وجہ سے تشدد کرتے ہیں۔ ۔ ۔
یہ تمام باتیں اپنی جگہ ہیں ۔ ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ قران اور حدیث عورت پر تشدد کے کیا احکامات ہیں، یا نہیں ہیں اور ہیں تو اس کی کیا صورت ہے۔ ۔
ہمارے معاشرے میں بیویوں پر تشدد کے واقعات عام ہیں، بعض مذہبی لوگ تو بیویوں کو روئی کی طرح دھنک دیتے ہیں اور اس نام نہاد ظلم کو قرآن کی ایک آیت سے صحیح ثابت کرتے ہیں، قرآن مجید میں نا فرمان بیوی کو نصیحت کرنے، پھر بستر الگ کرلینے اور پھر ضرب دینے کا حکم ہے۔ ۔ کھلے ذہن کے بعض شارحین نے بتایا ہے کہ "ضرب" کے معنی صرف مارپیٹ ہی نہیں، ضرب کی ایک معنی سزا کے بھی ہیں۔ یہ سزا بستر پر تنہا چھوڑدینے پر ختم ہوتی ہے۔ ۔ ۔
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اس آیت میں بیویوں کو مارنے کا حکم دیا گیا ہے، تو اس کا خاص موقع اور مناسبت دیکھنا ضروری ہے اور ضرب کتنی اور کس قدر لگائی جائے اس کی بھی وضاحت نہیں ہے، ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عثمان غنی یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ جو سختی میں مشہور ہیں ان سے بھی مارنے پیٹنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے۔ ۔ درحقیقت اس آیت کو جواز بنا کر عورت پر ظلم و ستم کیا جاتا ہے۔ حقیقتا عورت پر کسی قسم کے تشدد کی اجازت نہیں ہے۔ ۔ ۔
علما حضرات (نام نہاد) مردوں کو یہ اجازت دیتے ہیں کہ اگر ان کی بیویاں سر کشی کریں، تو وہ انہیں مار پیٹ کر ٹھیک کر سکتے ہیں اور اس سلسلے میں وہ قرآن مجید کی سورہ "النسا" کی مندرجہ ذیل آیت سے استدلال کرتے ہیں۔ ۔
"ترجمہ: مرد حاکم ہیں عورتوں کے، یہ سبب اس کے کہ جو خرچ کرتے ہیں اپنی مالوں سے پس نیک بخت عورتیں فرمانبردار ہیں، نگہبانی کرنے والی ہیں، بیچ غائب کے ساتھ محافظت اللہ کے اور جو عورتیں کہ تم ڈرتے ہو سرکشی ان کی سے پس نصیحت کرو ان کو اور چھوڑ دو بیچ ان کو خوابگاہ کے اور مارو ان کو، پس اگر کہا مانیں تو مت ڈھونڈو اور ان کی راہ، تحقیق اللہ تعالی بلند بڑا ہے (سورہ توبہ النسا ۳۴۔۴ ترجمہ شاہ رفیع الدین صاحب)"۔ ۔ ۔
یہ قدیم ترجمہ ہم نے جان بوجھ کر پیش کیا ہے۔ اس اسی کے مقابلے میں اسی آیت کا ترجمہ ایک جدید خیال روشن عالم دین کے قلم سے ملاحظہ ہو۔ ۔ ۔
"ترجمہ: مرد عورتوں کے سرپرست ہیں، بوجہ اس کے کہ اللہ تعالی نے ایک دوسرے پر فضیلت بخشی ہے اور بوجہ اس کے کہ انہوں نے اپنے مال خرچ کئے پس جو نیک بیبیاں ہیں، وہ فرمانبرداری کرنے والی، رازوں کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں، بوجہ اس کے کہ خدا نے بھی رازوں کی حفاظت فرمائی ہے اور جن سے تمہیں سرتابی کا اندیشہ ہو، تو ان کو نصیحت کرو ان کو ان کے بستروں میں تنہا چھوڑدو اور ان کو سزا دو، پس اگر وہ تمہاری اطاعت کریںتو ان کے خلاف راہ نہ ڈھونڈو بے شک اللہ تعالی بہت بلند اور بڑا ہے۔ ۔ (سورہ النسا ۳۴ ترجمہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب)
ہم نے یہ دونوں ترجمے اس لئے نقل کئے ہیں کہ اس سے ثابت ہو سکے کہ ہمارے اکثر علما نے قرآنی تعلیمات پر غور کرنے کے بجائے، محض پرانے بزرگوں کے ترجموں کی زبان کو بنیاد بنا کر پیش کر دیتے ہیں۔ حا لانکہ اس سلسلے میں اگر وہ تھوڑی بہت تحقیق کرتے تو انہیں اس بارے میں شریعت اسلامی کا حکم بھی معلوم ہوجاتا۔ ان حضرات نے اس بارے میں اگر یہ سوچنے کی کوشش کی ہوتی کہ اکثر اوقات زیادتی مرد کی جانب سے بھی ہوتی ہے تو پھر عورتوں کو اپنے شوہروں کو مارنے کی اجازت کیوں نہیں دی۔ پھر چونکہ عورتوں کو اس طرح مارنا انہیں اسلامی تعلیمات کے خلاف نظر آتا تھا، اس لیے انہوں نے اس آیت کی عجیب عجیب تاویلات کی ہیں۔ ۔ ۔
کہا جاتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں مرد اکثر عورتوں کو مارا پیٹا کرتے تھے لیکن قرآن مجید نے عورت کا مرتبہ مرد کے برابر قرار دیا تو اس سے بجا طور پر سمجھا گیا کہ شریعت اسلامی مردوں کو یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ اپنی عورتوں کو ماریں، چنانچہ ایک دفعہ جب ایک انصاری نے اپنی بیوی کے منہ پر تھپڑ مارا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر شکایت کی آپ نے حکم دیاکہ اس انصاری کو بھی ویسا یہ تھپڑ مارا جائے۔ آپ کا فیصلہ قراآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت کے مطابق تھا۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: "اگر تم میں سے دونوں (یعنی میاں بیوی) بے حیائی کے مرتکب ہوں، دونوں کو ہلکی سزا دو اور جب وہ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کر لیں تو پھر ان سے در گزر کرو" (سورہ النسا ۔۱۶)
پھر چونکہ عورتوں کو مارنا، اسلامی تعلیمات کے خلاف معلوم ہوتا تھا، اس لئے حضرت ابن عباس نے اس کی یوں تشریح فرمائی کہ عورت کو صرف مسواک سے مارنے کی اجازت ہے (تفسیر فتح القدیر از علامہ شوکانی، جلد اول صفحہ ۴۶۲)
حضرت ابن عباس جو قرآن مجید کے اول شارح تھے، کی اس وضاحت سے تو عورتوں کو مارنے کا معاملہ عجیب دکھائی دیتا ہے۔ امام شافعی نے اس کی ایک اور دوسرے طریقے سے وضاحت کی ہے اور وہ یہ کہ عورتوں کو مارنے کی اجازت تو دی گئی ہے لیکن اچھا یہ ہے کہ کہ انہیں نہ مارا جائے(ایضا)
ان کے ساتھ ہی صحیح بخاری نے یہ حدیث بھی روایت کی ہے کہ جن لوگوں کے بارے میں یہ شکایت تھی کہ وہ اپنی بیویوں کو مارتے ہیں تو رسول اللہ نے انہیں ملامت کرتے ہوئے فرمایا کہ "کتنے شرم کی بات ہے کہ لوگ عورتوں کو مارتے بھی ہیں اور پھر ان سے مباشرت بھی کرنا چاہتے ہیں"۔ ۔ ۔
اس آیت میں در اصل میاں بیوی کے تعلقات کا سرے سے ذکر ہی نہیں بلکہ اس آیت میں اسلامی معاشرے میں عورت کی حیثیت اور مرتبے سے بحث کی گئی ہے جس لفظ یعنی "ضرب" کا ترجمہ "مارنا" کیا جاتا ہے، عربی زبان میں اس کے متعدد معنی ہیں اور جب کسی لفظ کے متعدد معنی ہوں تو سیاق و سباق کے مطابق اس کا وہ معنی اختیار کیا جاتا ہے جو سب سے زیادہ مناسب ہو۔ عربی زبان کے مشہور ماہر لغت سید مرتضی الحسن الزبیری نے لفظ "ضرب" کے کئی معنی بیان کئے ہیں اور فرمایا کہ جب اس لفظ کو قانونی مفہوم میں استعمال کیا جائے گا تو اس کا استعمال یوں ہوگا۔ ۔ ۔
ضرب القاضی علی یدہ ای حجرہ
ترجمہ: "قاضی نے اس کے باتھ پر مارا، یعنی اسے روکا"۔ ۔ ۔ ۔
تو دوستو ذہن نشین رہے کہ اس آیت میں "ضرب" کے معنی محض روکنے کے ہیں، اس معنی کی رو سے آیت کے معنی یہ ہونگے۔ ۔ ۔
ترجمہ :"اور جب عورتوں سے تمہیں فحاشی کا خطرہ ہے تو تم انہیں تنبیہ کرو اور انہیں ان کے بستروں میں اکیلا چھوڑ دو اور انہیں گھر سے باہر جانے سے روک دو"۔۔۔۔۔۔
خیال رہے کہ یہاں گھر سے باہر نکلنے پر پابندی لگانے کو سزا قرار دیا گیا ہے، کیونکہ عام حالات میں عورتوں اور مردوں کو گھروں سے نکلنے کی کامل آزادی ہے، لیکن ان کا یہ نہ نکلنا کسی کام کے لئے ہو۔ اس بارے میں جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ مردوں اور عورتوں کے لئے ایک ہی قسم کے احکامات ہیں کہ جب وہ اپنے گھروں سے کام کاج کے لئے جائیں تو اپنی نظروں کو نیچا رکھیں۔ لیکن ہمارے ہاں عام طور پر پردے کا یہ غلط مفہوم لیا جاتا ہے کہ عورتوں کو گھروں میں بند کیا جائے، حالانکہ قرآن مجید کی اس آیت کے مطابق انہیں گھروں میں بند کرکے رکھنا ایک سزا ہے اور یہ سزا انہیں اس وقت دی جائے گی جبکہ وہ کسی معاملے میں سرکشی کا رویہ اختیار کریں۔ ۔ ۔ ۔
مختصر یہ کہ شریعت اسلامی میں کسی مرد کو ہرگز یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنی بیویوں کو مارے پیٹے۔ ۔ ہاں جیسا کہ سورہ النسا کی آیت ۱۶ کے حوالے سے بیان کیا جا چکا ہےکہ اگر مردوں یا عورتوں میں سے کوئی بھی فحاشی کا ارتکاب کرے تو اسلامی معاشرہ انہیں مناسب سزا دے سکتا ہے یعنی دونوں کو سزا ملے گی، صرف عورت کو سزا دینا قرآنی تعلیمات کے خلاف ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ تو احساس شرمندگی تھا اور کچھ شاید وہ پریشان تھی کہ میری آواز سن کر آبدیدہ ہو گئی۔ ۔ ۔ اسکی بھرائی ہوئی آواز سن کر میں مزے لینے کا خیال بھول کر پریشان ہو گیا ۔ ۔ میرے استفسار پر ماسی نے کہا کہ "صاحب جی اس زندگی سے تو موت اچھی ہے۔ ۔ ۔ زندگی بھر ہڈ حرام میاں سے مار کھائی لوگوں کی غلامی کرکے اسکا اور بچوں کا پیٹ پالا۔ ۔ ۔ اب بیٹی بھی ایسے ہی حرامی کے پلے بندھ گئی ہے"۔ ۔ ۔
ہوا یہ تھا کہ اسکے داماد نے اسکی بیٹی کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ ۔ اور وہ بیٹی زخمی حالت میں ماسی کے پاس آتی تھی۔ میں اسکی بیٹی کو دیکھنے سرونٹ کوارٹر تک گیا تو حیران ہوا کہ اسکی معصوم لڑکی کا چہرہ تقریبا زخمی تھا اور ناک کی حالت خاصی خراب تھی۔ ایک وقت تو میرا دماغ بھی بھک سے اڑ گیا۔ اور میں نے غصے سے ماسی سے پوچھا کہ وہ کمینہ کہاں ہے اسکو سیدھا کرواتا ہوں ابھی۔ ۔ ۔ مگر ماسی اور میں اچھی طرح جانتے تھے کہ اسکا کا کوئی علاج نہیں ہے ۔ آخر کب تک یہ چلے گا۔ بہرحال میں کچھ دوائیں تجویز کرکے چلا آیا۔
پوری رات میں بھی ذہنی طور پر الجھا رہا اور محفل سے بھی جلدی چلا گیا ۔ اس دوران جو میرے دماغ میں چلا وہ ٹائپ کرتا چلا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ملک میں کئی گھرانوں میں یہ معمول کی بات ہے کہ بیوی جو اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے اپنے شوہر کے گھر آجاتی ہے، وہ شاید کسی ڈاکٹری نسخے کے مطابق اپنے شوہر سے باقاعدگی سے مار کھاتی ہے وجہ یا وجوہات کئی ہو سکتی ہیں۔ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ بیوی کو مارنے سے بیوی کنٹرول میں بھی رہتی ہے اور اس کی صحت بھی اچھی رہتی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ مردوں کی شان اور مردانگی ہے۔ ۔ ۔
بعض اس وجہ سے تشدد کرتے ہیں کہ انہیں بیوی کے کردار پر شک ہوتا ہے اور بعض وہ ہیں جو جہیز وغیرہ کی وجہ سے تشدد کرتے ہیں۔ ۔ ۔
یہ تمام باتیں اپنی جگہ ہیں ۔ ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ قران اور حدیث عورت پر تشدد کے کیا احکامات ہیں، یا نہیں ہیں اور ہیں تو اس کی کیا صورت ہے۔ ۔
ہمارے معاشرے میں بیویوں پر تشدد کے واقعات عام ہیں، بعض مذہبی لوگ تو بیویوں کو روئی کی طرح دھنک دیتے ہیں اور اس نام نہاد ظلم کو قرآن کی ایک آیت سے صحیح ثابت کرتے ہیں، قرآن مجید میں نا فرمان بیوی کو نصیحت کرنے، پھر بستر الگ کرلینے اور پھر ضرب دینے کا حکم ہے۔ ۔ کھلے ذہن کے بعض شارحین نے بتایا ہے کہ "ضرب" کے معنی صرف مارپیٹ ہی نہیں، ضرب کی ایک معنی سزا کے بھی ہیں۔ یہ سزا بستر پر تنہا چھوڑدینے پر ختم ہوتی ہے۔ ۔ ۔
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اس آیت میں بیویوں کو مارنے کا حکم دیا گیا ہے، تو اس کا خاص موقع اور مناسبت دیکھنا ضروری ہے اور ضرب کتنی اور کس قدر لگائی جائے اس کی بھی وضاحت نہیں ہے، ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عثمان غنی یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ جو سختی میں مشہور ہیں ان سے بھی مارنے پیٹنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے۔ ۔ درحقیقت اس آیت کو جواز بنا کر عورت پر ظلم و ستم کیا جاتا ہے۔ حقیقتا عورت پر کسی قسم کے تشدد کی اجازت نہیں ہے۔ ۔ ۔
علما حضرات (نام نہاد) مردوں کو یہ اجازت دیتے ہیں کہ اگر ان کی بیویاں سر کشی کریں، تو وہ انہیں مار پیٹ کر ٹھیک کر سکتے ہیں اور اس سلسلے میں وہ قرآن مجید کی سورہ "النسا" کی مندرجہ ذیل آیت سے استدلال کرتے ہیں۔ ۔
"ترجمہ: مرد حاکم ہیں عورتوں کے، یہ سبب اس کے کہ جو خرچ کرتے ہیں اپنی مالوں سے پس نیک بخت عورتیں فرمانبردار ہیں، نگہبانی کرنے والی ہیں، بیچ غائب کے ساتھ محافظت اللہ کے اور جو عورتیں کہ تم ڈرتے ہو سرکشی ان کی سے پس نصیحت کرو ان کو اور چھوڑ دو بیچ ان کو خوابگاہ کے اور مارو ان کو، پس اگر کہا مانیں تو مت ڈھونڈو اور ان کی راہ، تحقیق اللہ تعالی بلند بڑا ہے (سورہ توبہ النسا ۳۴۔۴ ترجمہ شاہ رفیع الدین صاحب)"۔ ۔ ۔
یہ قدیم ترجمہ ہم نے جان بوجھ کر پیش کیا ہے۔ اس اسی کے مقابلے میں اسی آیت کا ترجمہ ایک جدید خیال روشن عالم دین کے قلم سے ملاحظہ ہو۔ ۔ ۔
"ترجمہ: مرد عورتوں کے سرپرست ہیں، بوجہ اس کے کہ اللہ تعالی نے ایک دوسرے پر فضیلت بخشی ہے اور بوجہ اس کے کہ انہوں نے اپنے مال خرچ کئے پس جو نیک بیبیاں ہیں، وہ فرمانبرداری کرنے والی، رازوں کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں، بوجہ اس کے کہ خدا نے بھی رازوں کی حفاظت فرمائی ہے اور جن سے تمہیں سرتابی کا اندیشہ ہو، تو ان کو نصیحت کرو ان کو ان کے بستروں میں تنہا چھوڑدو اور ان کو سزا دو، پس اگر وہ تمہاری اطاعت کریںتو ان کے خلاف راہ نہ ڈھونڈو بے شک اللہ تعالی بہت بلند اور بڑا ہے۔ ۔ (سورہ النسا ۳۴ ترجمہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب)
ہم نے یہ دونوں ترجمے اس لئے نقل کئے ہیں کہ اس سے ثابت ہو سکے کہ ہمارے اکثر علما نے قرآنی تعلیمات پر غور کرنے کے بجائے، محض پرانے بزرگوں کے ترجموں کی زبان کو بنیاد بنا کر پیش کر دیتے ہیں۔ حا لانکہ اس سلسلے میں اگر وہ تھوڑی بہت تحقیق کرتے تو انہیں اس بارے میں شریعت اسلامی کا حکم بھی معلوم ہوجاتا۔ ان حضرات نے اس بارے میں اگر یہ سوچنے کی کوشش کی ہوتی کہ اکثر اوقات زیادتی مرد کی جانب سے بھی ہوتی ہے تو پھر عورتوں کو اپنے شوہروں کو مارنے کی اجازت کیوں نہیں دی۔ پھر چونکہ عورتوں کو اس طرح مارنا انہیں اسلامی تعلیمات کے خلاف نظر آتا تھا، اس لیے انہوں نے اس آیت کی عجیب عجیب تاویلات کی ہیں۔ ۔ ۔
کہا جاتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں مرد اکثر عورتوں کو مارا پیٹا کرتے تھے لیکن قرآن مجید نے عورت کا مرتبہ مرد کے برابر قرار دیا تو اس سے بجا طور پر سمجھا گیا کہ شریعت اسلامی مردوں کو یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ اپنی عورتوں کو ماریں، چنانچہ ایک دفعہ جب ایک انصاری نے اپنی بیوی کے منہ پر تھپڑ مارا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر شکایت کی آپ نے حکم دیاکہ اس انصاری کو بھی ویسا یہ تھپڑ مارا جائے۔ آپ کا فیصلہ قراآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت کے مطابق تھا۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: "اگر تم میں سے دونوں (یعنی میاں بیوی) بے حیائی کے مرتکب ہوں، دونوں کو ہلکی سزا دو اور جب وہ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کر لیں تو پھر ان سے در گزر کرو" (سورہ النسا ۔۱۶)
پھر چونکہ عورتوں کو مارنا، اسلامی تعلیمات کے خلاف معلوم ہوتا تھا، اس لئے حضرت ابن عباس نے اس کی یوں تشریح فرمائی کہ عورت کو صرف مسواک سے مارنے کی اجازت ہے (تفسیر فتح القدیر از علامہ شوکانی، جلد اول صفحہ ۴۶۲)
حضرت ابن عباس جو قرآن مجید کے اول شارح تھے، کی اس وضاحت سے تو عورتوں کو مارنے کا معاملہ عجیب دکھائی دیتا ہے۔ امام شافعی نے اس کی ایک اور دوسرے طریقے سے وضاحت کی ہے اور وہ یہ کہ عورتوں کو مارنے کی اجازت تو دی گئی ہے لیکن اچھا یہ ہے کہ کہ انہیں نہ مارا جائے(ایضا)
ان کے ساتھ ہی صحیح بخاری نے یہ حدیث بھی روایت کی ہے کہ جن لوگوں کے بارے میں یہ شکایت تھی کہ وہ اپنی بیویوں کو مارتے ہیں تو رسول اللہ نے انہیں ملامت کرتے ہوئے فرمایا کہ "کتنے شرم کی بات ہے کہ لوگ عورتوں کو مارتے بھی ہیں اور پھر ان سے مباشرت بھی کرنا چاہتے ہیں"۔ ۔ ۔
اس آیت میں در اصل میاں بیوی کے تعلقات کا سرے سے ذکر ہی نہیں بلکہ اس آیت میں اسلامی معاشرے میں عورت کی حیثیت اور مرتبے سے بحث کی گئی ہے جس لفظ یعنی "ضرب" کا ترجمہ "مارنا" کیا جاتا ہے، عربی زبان میں اس کے متعدد معنی ہیں اور جب کسی لفظ کے متعدد معنی ہوں تو سیاق و سباق کے مطابق اس کا وہ معنی اختیار کیا جاتا ہے جو سب سے زیادہ مناسب ہو۔ عربی زبان کے مشہور ماہر لغت سید مرتضی الحسن الزبیری نے لفظ "ضرب" کے کئی معنی بیان کئے ہیں اور فرمایا کہ جب اس لفظ کو قانونی مفہوم میں استعمال کیا جائے گا تو اس کا استعمال یوں ہوگا۔ ۔ ۔
ضرب القاضی علی یدہ ای حجرہ
ترجمہ: "قاضی نے اس کے باتھ پر مارا، یعنی اسے روکا"۔ ۔ ۔ ۔
تو دوستو ذہن نشین رہے کہ اس آیت میں "ضرب" کے معنی محض روکنے کے ہیں، اس معنی کی رو سے آیت کے معنی یہ ہونگے۔ ۔ ۔
ترجمہ :"اور جب عورتوں سے تمہیں فحاشی کا خطرہ ہے تو تم انہیں تنبیہ کرو اور انہیں ان کے بستروں میں اکیلا چھوڑ دو اور انہیں گھر سے باہر جانے سے روک دو"۔۔۔۔۔۔
خیال رہے کہ یہاں گھر سے باہر نکلنے پر پابندی لگانے کو سزا قرار دیا گیا ہے، کیونکہ عام حالات میں عورتوں اور مردوں کو گھروں سے نکلنے کی کامل آزادی ہے، لیکن ان کا یہ نہ نکلنا کسی کام کے لئے ہو۔ اس بارے میں جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ مردوں اور عورتوں کے لئے ایک ہی قسم کے احکامات ہیں کہ جب وہ اپنے گھروں سے کام کاج کے لئے جائیں تو اپنی نظروں کو نیچا رکھیں۔ لیکن ہمارے ہاں عام طور پر پردے کا یہ غلط مفہوم لیا جاتا ہے کہ عورتوں کو گھروں میں بند کیا جائے، حالانکہ قرآن مجید کی اس آیت کے مطابق انہیں گھروں میں بند کرکے رکھنا ایک سزا ہے اور یہ سزا انہیں اس وقت دی جائے گی جبکہ وہ کسی معاملے میں سرکشی کا رویہ اختیار کریں۔ ۔ ۔ ۔
مختصر یہ کہ شریعت اسلامی میں کسی مرد کو ہرگز یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنی بیویوں کو مارے پیٹے۔ ۔ ہاں جیسا کہ سورہ النسا کی آیت ۱۶ کے حوالے سے بیان کیا جا چکا ہےکہ اگر مردوں یا عورتوں میں سے کوئی بھی فحاشی کا ارتکاب کرے تو اسلامی معاشرہ انہیں مناسب سزا دے سکتا ہے یعنی دونوں کو سزا ملے گی، صرف عورت کو سزا دینا قرآنی تعلیمات کے خلاف ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔