میرے خیال میں اس آیت کا مطلب صاف اور واضح ہے
آخر اتنے بڑے بڑے سکالرز نے تحقیق کے بعد ہی ترجمہ یا تفسیر بیان کی ہے
اگر کوئی شخص ترجمہ پر انحصار نہ کرنا چاہے تو اسے پہلے خود عربی سیکھنی چاہئے
زمانہ بدلنے کے ساتھ قرآن کا مطلب تو نہیں بدل سکتا
المختصر یہ کہ اگر کوئی عورت خاوند کے مال میں خیانت کی مرتکب ہو یا بے حیائی کی مرتکب ہو تو پہلے اسے زبانی منع کیا جائے پھر اس سے اجتناب کیا جائے اور بات حد سے گزر جائے تو ہاتھ اُٹھایا جائے۔ اگر اسوہ حسنہ پر نگاہ ڈالیں تو ایک ہی واقعہ نظر آتا ہے جب آپ اپنی ازدواج سے ناراض ہو گئے۔
مذکورہ آیت کے بعد والی آیت میں ثالثی کا ذکر ہے
اور عورت کے لئے خلع کا راستہ بھی کھلا ہے
اگرہم اپنے طبقے کی طرف دیکھیں تو آجکل اکثر شوہر بھی دبے ہوئے نظر آتے ہیں
نچلے طبقے کا مسلہ جہالت اور غربت ہے۔
والدین ایک بار بیٹی بیاہ دیتے ہیں تو اس کو ہر حال میں وہیں گزارہ کرنا ہوتا ہے۔
والسلام
زرقا
بہن زرقا، سلام ۔
آپ کا شکریہ ادا کیا ہے کہ آپ نے اس طرف اشارہ کیا۔ تقریباً تمام مترجمین کا میں بہت احترام کرتا ہوں لیکن یہ ذہن میں رکھتا ہوں کہ کوئی بات سابقہ مترجمین سے نظر انداز ہوسکتی ہے۔ کیا ہم کو اپنی کتاب آؤٹ سورس کردینی چاہئیے یا خود بھی غور کرنا چاہئیے؟ میری عربی " مظبوط " نہیں ، اس کے باوجود کہ میں نے چھٹی جماعت سے یونیورسٹی تک عربی پڑھی ہے۔ اور مزید لٹریچر پڑھتا رہتا ہوں، اس کے باوجود، جو عربی اہل زبان پولتے ہیں اور سمجھتے ہیں اس کا دعوی میںنہیںکرسکتا۔ عرصہ 27 سال سے قرآن کا طالب علم ہوں۔اس کے باوجود میں کسی بھی قسم کا عالم ہونے کا دعوی نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کو بھی اپنی کسی بات کو ماننے کے لئے کہتا ہوں۔ قرآن کے حکم کے مطابق اس پر غور کرتا ہوں۔ تراجم پڑھتا ہوں اور مزید یہ کہ ڈکشنری دیکھ کر اس کے معانی پر غور کرتا ہوں، مختلف علماء سے ، جیسا ممکن ہوتا ہے بات کرتا ہوں، اور ایک مترجم ڈاکٹر شبیر احمد، جو حیات ہیں ان سے باقاعدہ خط و کتابت اور بات چیت رہتی ہے۔ میں سب دوستوں کو دعوت دیتا ہوں جو اس پر غور کرنا چاہیں۔ قرآن کے احکامات انسانی فطرت کے خلاف نہیں ہیں۔
آپ کو اس آیت کا ترجمہ واضحنظر آتا ہے ، اور آپ دیگر تراجم پر انحصار کرنا چاہتی ہیں تو کیا اس میں کوئی مضائقہ ہے؟ میرا خیال ہے نہیں۔
جبکہ میرا خیال ہے کہ اگر مل کر اسی آیت پر غور کرلیا جائے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔
اب تک میں نے ترجمہ کی صرف ابتدائی کمی کی طرف اشارہ کیا ہے اور سوال کیا ہے کہ کیا یہ آیت صرف زن و شو کے تعلقات کے بارے میں ہے؟ تو ہم کو دیکھنے کو ملتا ہے کہ نہیں ، الفاظ "مرد و عورت" استعمال کئے گئے ہیں اور صیضہ جمع کا ہے۔ لہذا اس کو آگے دیکھتے ہیں کہ اس آیت سے کیا حکم بنتا ہے؟ آپ نے دیگر آیات کے بارے میں جو فرمایا درست ہے، لیکن کیا یہ آیت یقینی طور پر میاں بیوی کے بارے میں ہے یا عمومی طور پر مرد و عورت کے تمام ممکنہ رشتوںکا احاطہ کرتی ہے؟
اگر یہ آیت تمام ممکنہ رشتوں کا احاطہ کرتی ہے تو پھر یا تو ماں، بیٹی، بہن، بیوی، چاچی، پھوپھی ، مامی، دادی ، نانی وغیرہ پر اگر [arabic]وَاللاَّتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ [/arabic] کا اطلاق ہوتا ہے تو پھر ان سب قابل احترام خواتین کو مارنا جائز ہے اور اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو اس آیت کے الفاظ کے مترادف معنوں کو دیکھنے کی ضرورت پڑے گی۔
میں سب بہنوں اور بھائیوںکو دعوت دیتا ہوں کے اس آیت کے ترجمے پر تمام تر خلوص و احترام کے ساتھ غور فرمائیں اور کسی بھی عالم صاحب کو دعوت دیں کے وہ آئیں اور عربی الفاط، صرف و نحو اور ممکنہ معانی پر غور فرمانے میں ہم سب کی مدد کریں۔ آپ کی طرف سے کسی بھی قسم کی مدد اس سلسلے میں بہت ہی فائیدہ مند ہوگی۔
اگر دوست اس سلسلے میں اعتراض فرماتے ہیں تو میں یہ مزید غور محفل میں بند کرنے کے لئے تیار ہوں۔ لیکن پھر یہ سوال ہمارے ذہنوں میں اسی طرح کلبلاتا رہے گا کہ اس آیت میں فراہم کردہ جرم و سزا کیا درست ہیں؟ یا ان کے مترادف معانی بھی ہیں۔ جن پر کم از کم غور کرنا ضروری ہے چاہے بعد میں ہم ان معانی کو نظر انداز کردیں۔
ذرا سوچئے کہ مردوں کوعورتوں کی طرف سے صرف خوف ہو کہ ان سے ہم آہنگی نہیں ہو گی
[arabic]وَاللاَّتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ [/arabic]
اور وہ عورتیں کہ اندیشہ ہو تم کو نافرمانی کا
تو اس کی سزا کیا ہے -
" [arabic]وَاضْرِبُوهُنَّ [/arabic]"
تو ان کو بھیانک طریقہ سے ضرب لگاؤ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مارنے کے زمرہ میں "ضرب' کے معانی ہلکی سی ضرب کے بہت ہی مشکل سے لکالے جاسکتے ہیں۔
میں اس کو لفظ بہ لفظ لکھتا ہوں۔ بہت سے الفاط اردو میں بھی مستعمل ہیں۔
واللاتی تخافون - اور اگر تم لوگوں کو یہ خوف ہو۔
نشوزھن - "نشوز" کے معنی ہے جب موسیقی کے نوٹس میں ہم آہنگی نہ ہو۔ اور "ھن" لگاتے ہیں تانیث مجموعی کے لئے۔ کہ جب ایک سے زائد عورتوں کے بارے میں کہنا ہو۔
اضربوھن - اس لفظ میں 'الف' نشاندہی کرتا ہے کہ اگلے فعل پر عمل کیا جائے اور "ھن" ابھی اوپر آگیا ہے۔ اب ہم ضرب کے معنی دیکھتے ہیں۔ تمام مترجمین نے اس کے معنی "ہلکے سے ضرب لگانے کے کئے " ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آپ کسی بھی عربی سے پوچھیں یا قران سے تصریف کیجئے، دونوں صورتوںمیں ضرب کے معنی پاش پاش کرنا، ٹکڑے ٹکڑے کرنا ، جان سے مار دینا ہوتے ہیں ۔
جبکہ "ضرب " کے مترادف معانی "ملٹی پلائی کرنا،" یا "ایکشن لے کر آگے بڑھانا یعنی ترقی دینا ہیں" تو ہم ان معنوں کو کیوں درگزر کردیں؟ کیا اگر ہماری بہن یا بیٹی کی طرف سے یہ خوف نظر آتا ہے کہ وہ معاشرہ سے ہم آہنگ نہیں ہوگی تو ہم کو کیا کرنا چاہئیے؟ مارنا چاہئیے ---- یا اسکو ---- لیکچرز دینا چاہئیے، اس کو ٹرانسفر کرنا چاہیے ایک بہتر مقام پر ، جہاں اس کی شخصیت کی بڑھوتری ہو سکے، اور اسکی صلاحیتیں دن دون رات چوگنی ترقی کرسکیں؟ -----
معذرت چاہتا ہوں لیکن عرض یہ ہے کہ عورتوں سے تعلق رکھنے والی تمام آیات کا زیادہ تر ہندوستانی مترجمین نے اپنے سماجی عقائد کے مطابق ترجمہ کیا ہے۔ اور زیادہ تر تراجم عورتوں کے خلاف ہیں۔ قرآن کے معنی قرآن خود بیان کرتا ہے۔ اس میں موجود تاریخی واقعات کے پیچھے یہ مصلحت ہے کہ وہ الفاظ کے معنی واضحکرتا ہے۔ اگر ابراہیم علیہ السلام ، کی "ضرب " سے بت پاش پاش ہوجاتے ہیں تو "ضرب" کا مطلب اس ضمن میں یہی لیا جائے گا ۔ آپ دوسرے ممکنہ معنی دیکھئے ، اور کسی بھی عالم کے پاس لے جائیے جو عربی خود سے جانتا ہو۔ یا یہاں لے آئیے، کچھ نہ کچھ ہم سیکھیں گے اور توثیق بھی حاصل کرسکیں گے۔
ذرا ترجمہ دیکھئے کہ انتہائی اچھی عورتوں کے بارے میں بات ہورہی ہے۔ کون سی عورتیں -؟ جو صالحات ، قانتات او حافظات ہیں
" پس نیک عورتیں (ہوتی ہیں) اطاعت شعار، حفاظت کرنے والیاں (مردوں کی) غیر حاضری میں، ان سب چیزوں کی جن کو محفوظ بنایا ہے اللہ نے۔ "
اتنی اچھی خواتین سے صرف اندیشہ یا خوف ہو کہ ہم اہنگی نہ ہوسکے گی تو ان کو" سخت مار مارو" ؟؟؟؟؟
دیکھئے یہ ترجمہ۔۔۔۔۔
ان عورتوںسے تم کو ہم آہنگی نہ ہونے کا خوف ہو تو سو نصیحت کرو ان کو اور (اگر نہ مانیں تو) تنہا چھوڑ دو اُن کو بستروں میں اور بالاخر ضرب لگاؤ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟
تاکہ وہ پاش پاش ہوجائیں ؟ یقیناً نہیں۔۔ صاحب کسی بھی عورت کو مارنا اس کی شخصیت کو تباہ کرنا ہے۔چاہے کتنے ہلکے سے مارا جائے۔
[arabic]وَاللاَّتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ[/arabic] جن عورتوںسے تم کو ہم آہنگی نہ ہونے کا خوف ہو تو --- [arabic]فَعِظُوهُنَّ[/arabic] --- ان کو لیکچر دو، یعنی وعظ کرو، تعلیم دو ----- [arabic]وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ [/arabic]------- ان کو ایسے (علمی ) مقام پر ٹرانسفر کردو ----- [arabic] وَاضْرِبُوهُنَّ [/arabic]---- اور ان کی صلاحیتوں کی بڑھوتری کرو ----
آئیے ممکنہ مکمل معانی دیکھتے ہیں:
مرد( سرپرست و نگہبان) سہارا فراہم کرنے والے ہیں عورتوں کے اس بنا پر کہ اللہ نے انسانوں میں بعض کی نسبت بعض پر زیادہ فضل کیا ہے اور اس بنا پر کہ خرچ کرتے ہیں مرد اپنے مال۔ پس نیک عورتیں (جو) اطاعت شعار، حفاظت کرنے والیاں (مردوں کی) غیر حاضری میں، ان سب چیزوں کی جن کو محفوظ بنایا ہے اللہ نے۔ اور ان عورتوں سے کہ اندیشہ ہو تم کو غیر ہم آہنگی کا (معاشرے کے اصولوں سے) ، سو وعظ ( یعنی لیکچرز کے ذریعے تعلیم پہنچایا) کرو ان کو اور ٹرانسفر کردو ان کو بہتر (تعلیمی) مقام (پلیٹ فارم) پر اور ایسے اقدام کرو کہ آگے بڑھاؤ ان عورتوںکو ترقی کے لیے (یعنی بڑھوتری کرو انکی)، جب (معاشرہ کے اصولوں کے مطابق) اطاعت کرنے لگیں وہ تم لوگوں کی تو نہ تلاش کرو ان پر کوئی زیادتی کرنے کی راہ۔ بے شک اللہ ہے سب سے بالا تر اور بہت بڑا۔
ان معانی میں میں نے درج ذیل باتوں پر توجہ رکھی ہے۔
1۔ یہ آیت ایک مرد و عورت کے بارے میں نہیں ہے۔ بلکہ عورتوں اور مردوں کو مجموعی طور پر مخاطب کیا گیا ہے۔
2۔ یہ آیت صرف شوہر و بیوی کے تعلق کے بارے میںنہیں ہے۔
3۔ جن عورتوں کے لئے بات کی گئی ہے ان کو نیک، اطاعت گزار اور حفاظت کرنے والیاں کہا گیا ہے۔
4۔ ان عورتوں نے دیگر مردوں سے یا معاشرہ سے کوئی جرم کیا ہی نہیں ہے۔ بلکہ ان کا "قصور" صرف اتنا ہے ---- اگر یہ خوف ہو کہ وہ معاشرہ سے یا خاندان سے یا اپنے مرد رشتے داروں سے ہم اہنگ نہیں ہونگی ۔-- جو کہ عموما تعلیم کی کمی سے ہوتا ہے۔
5۔ "مضاجع" کے معنی صرف بستر نہیں ہیں ، مقام ،یا پلیٹ فارم بھی ہیں۔ ، بستر میں چھوڑنے والی بات -- ماں ، بہن اور بہٹی --- پر کسی طور صادق نہیں آتی۔
6۔ اضرب - کے معنی صرف پاش پاش کردینا نہیں ہیں ۔ اور یہاں ایسا جرم نہیں سرزد ہوا کہ ان کو "ضرب " لگائی جائے۔
7۔ غیر ہم آہنگی - وہ بھی معاشرہ سے - یہ وہ خوف یا اندیشہ ہے جس کا اظہار کیا گیا ہے ، اس کا علاج ، تمام علماء کے نزدیک ہے - بہتر تعلیم ، نصیحت، مینٹرنگ، اعلی تعلیم کے لئے بہتر مقام پر رکھنا اور عورتوں کی صلاحیتوں میں دن دونا رات چوگنا اضافہ کی کوشش اور بڑھوتری (ملٹی پلائی والا "ضرب کرنا" نہ کہ پاش پاش کردینے والی "ضرب لگانا")
قرآن کی ترجمہ اور تصریف ایک انتہائی محنت کا کام ہے۔ میں پوری کوشش کرتا ہوں کہ یہ حق مخلصانہ طور پر ادا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اوپن برہان پر ہر لفظ ایک دوسرے سے لنک ہے تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ ایک لفظ کے معنی قرآن کس طرح بیان کرتا ہے۔ میری مکمل کوشش یہ ہوتی ہے کہ دیگر لوگ بھی اس نتیجہ سے متفق ہوں ۔ میں کسی نئے عقیدہ کا پرچار نہیں کررہا، تقریباً تمام مترجمین سے تھوڑی بہت کوتاہی ممکن ہے۔ ہمارا کام ہے کہ ہم اس پر نظر رکھیں اور بجائے اس کے کہ اپنے دین و کتاب کو کسی ایک شخص کو آؤٹ سورس کردیں۔ خود اپنا ہوم ورک کریں، آج بہت آسان ہے کہ ہم عرب اہل زبان سے الفاظ، صرف و نحو ، ترکیبِ لفظی اور ترکیبَِ کلماتی میں مدد حاصل کریں اور اپنی کتاب کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
ایک مزید عرضیہ ہے کہ قرآن ہم کو کسی ایک شخص کی بات ماننے کے بجائے، آپس میں مشورہ کرنے کا حکم دیتا ہے۔ لہذا یہ آپ سب کی تنقید و توثیق کے لئے کھلا ہے۔ اگر ہم کو بہتر وجوہات ملتی ہیں تو ہ اس ترجمے میں مناسب رد و بدل کیا جاسکتا ہے کہ قرآن کے درست معانی سے آگاہی ہو۔ اس نیک مقصد میں آپ اپنی مقدور بھر شرکت کیجئے۔ افسوس یہ ہے کہ اس آیت کے ترجمے میں ہم کو نہ تو کوئی ریسرچ ملتی ہے اور نہ ہی کوئی سنت کہ نبی کریم (صلعم ) نے کسی عورت کو مارا ہو۔ اس کے برعکس مردوں اور عورتوں کو وعظ فرمانے اور تعلیم دینے کی سنت کی روائتیں بہت ہی عام ہیں۔
ریفرینس:
میں ریفرنس میں اس ڈکشنری کا لنک دے رہا ہوں، جس سے ضرب کے معانی واضح ہیں۔ ہم ضرب عام طور پر "ضرب کرنے" کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ مزید الفاظ آپ یہاں داخل کرکے دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں اس لفظ کے ایک ممکنہ معنی ہیں take an action and move forward
ضرب: ایکشن لے کر آگے بڑھانا۔
1۔ بہت زور سے مارنا کے ٹوٹ جائے یا زخمی ہو جائے ، بہت بری طرح سے ٹکرانا۔
2۔ایکشن لینا اور آگے بڑھ جانا یا آگے بڑھادینا، ترقی دینا۔ (مجھے اس آیت میں باقی مضمون کے اعتبار سے نمبر 2 معنے زیادہ بہتر اور سنت رسول سے ثابت نظر آتے ہیں)
1۔ bash strike heavily so as to break or injure; (cause to) collide violently with
2۔ take an action and move forward
http://www.arabiclookup.com/default.aspx?ar=ضرب
ضرب کے قرانی معنوں کے لئے دیکھئے
[AYAH]2:26[/AYAH] یہاں اللہ تعالی اس لفظ کو " آگے بڑھانے یا پیش کرنے " کے لئے استعمال فرماتے ہیں۔
[AYAH]2:61[/AYAH] اس ایت میں معنی مسلط کرنے کے ہیں۔
[AYAH]2:273[/AYAH] اور اس آیت میں معنی آزادانہ گھومنے پھرنے کے ہیں۔
[AYAH]14:24[/AYAH] اور یہاں معنی آگے پیش کرنے کے ہیں۔
نشوز: عدم ہم آہنگی یا زور سے بولنا - کھڑے ہونا۔
http://www.arabiclookup.com/default.aspx?ar=نشوز
نشوز کے قرانی معنی کے لئے دیکھئے [AYAH]58:11[/AYAH]
یاد رکھئے کہ تمام مترجمین نے اندیشہ عدم ہم آہنگی ہی ترجمہ کیا ہے ---- [arabic]وَاللاَّتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ[/arabic] --- کسی نے بھی ----- عدم ہم آہنگی کے وقوع پذیر ہونے کے بعد ---- ترجمہ نہیں کیا۔ تو کیا آپ صرف اندیشہ میں مارنا شروع کردیں گے؟ اللہ تعالی ہمیشہ جرم کے وقوع پذیر ہونے کے بعد سزا دیتے ہیں نہ کہ اندیشہ میں؟
کیا ہم کسی بھی جرم کے اندیشہ میں کسی کو سزا دے سکتے ہیں؟
والسلام