عورتوں کو مارنا جائز ہے ؟ ؟ ؟

زرقا مفتی

محفلین
میرے خیال میں اس آیت کا مطلب صاف اور واضح ہے
آخر اتنے بڑے بڑے سکالرز نے تحقیق کے بعد ہی ترجمہ یا تفسیر بیان کی ہے
اگر کوئی شخص ترجمہ پر انحصار نہ کرنا چاہے تو اسے پہلے خود عربی سیکھنی چاہئے
زمانہ بدلنے کے ساتھ قرآن کا مطلب تو نہیں بدل سکتا

المختصر یہ کہ اگر کوئی عورت خاوند کے مال میں خیانت کی مرتکب ہو یا بے حیائی کی مرتکب ہو تو پہلے اسے زبانی منع کیا جائے پھر اس سے اجتناب کیا جائے اور بات حد سے گزر جائے تو ہاتھ اُٹھایا جائے۔ اگر اسوہ حسنہ پر نگاہ ڈالیں تو ایک ہی واقعہ نظر آتا ہے جب آپ اپنی ازدواج سے ناراض ہو گئے۔
مذکورہ آیت کے بعد والی آیت میں ثالثی کا ذکر ہے
اور عورت کے لئے خلع کا راستہ بھی کھلا ہے
اگرہم اپنے طبقے کی طرف دیکھیں تو آجکل اکثر شوہر بھی دبے ہوئے نظر آتے ہیں
نچلے طبقے کا مسلہ جہالت اور غربت ہے۔
والدین ایک بار بیٹی بیاہ دیتے ہیں تو اس کو ہر حال میں وہیں گزارہ کرنا ہوتا ہے۔
والسلام
زرقا
 
والدین ایک بار بیٹی بیاہ دیتے ہیں تو اس کو ہر حال میں وہیں گزارہ کرنا ہوتا ہے۔
والسلام
زرقا

میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کی وجہ کیا ہے۔۔۔۔ جس تہذیب کا ہم پر اثر غالب ہے شاید وہ "ہندو ازم" کا کوئی عکس ہے۔۔۔۔ ورنہ اللہ کے حبیب نے تو عورت کو وہ مقام عطا کر دیا کہ ہر مغالطہ کی راہ مسدود ہو گئیں ۔۔۔۔ بیشتر مرد حضرات اس بات پر مصر نظر آتے ہیں کہ دنیا میں جتنی بھی بے چینی ہے وہ عورت کے طفیل ہے۔۔۔۔ حالانکہ یہ سراسر غلط ہے۔۔۔۔

ہاں! اس سراسر غلط کو غلط ماننا بڑے دل جگر کا کام ہے۔۔۔۔۔ اگر اس کڑوے گھونٹ کو مرد اک بار پی جائے تو شاید کافی مسائل خود بخود حل ہو جائیں
 

رضا

معطل
34.gif

مرد افسر ہیں عورتوں پر (ف۹۹) اس لئے کہ اللّٰہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی (ف۱۰۰) اور اس لئے کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کئے (ف۱۰۱ )تو نیک بخت عورتیں ادب والیاں ہیں خاوند کے پیچھے حفاظت رکھتی ہیں(ف۱۰۲) جس طرح اللّٰہ نے حفاظت کا حکم دیا اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں اندیشہ ہو (۱۰۳) تو انہیں سمجھاؤ اور ان سے الگ سوؤ اور اُنہیں مارو (۱۰۴) پھر اگر وہ تمہارے حکم میں آجائیں تو اُن پر زیادتی کی کوئی راہ نہ چاہو بے شک اللّٰہ بلند بڑا ہے ( ف۱۰۵)
تفسیر خزائن العرفان:99۔تو عورتوں کو اُن کی اطاعت لازم ہے اور مردوں کو حق ہے کہ وہ عورتوں پر رِعایا کی طرح حکمرانی کریں اور اُن کے مصالح اور تدابیر اور تادیب وحفاظت کا سرانجام کریں شان ِنزول: حضرت سعد بن ربیع نے اپنی بی بی حبیبہ کو کسی خطا پر ایک طمانچہ مار ااُن کے والِد انہیں سیدِ عالم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے اور انکے شوہر کی شکایت کی اِس باب میں یہ آیت نازل ہوئی ۔
100-یعنی مردوں کو عورتوں پر عقل و دانائی اور جہاد اور نبوّت و خلافت وامامت و اذان و خطبہ و جماعت و جمعہ و تکبیر و تشریق اور حدو قصاص کی شہادت کے اور ورثہ میں دونے حصّے اور تعصیب اور نکاح و طلاق کے مالک ہونے اور نسبوں کے ان کی طرف نسبت کئے جانے اور نماز و روزہ کے کامل طور پر قابل ہونے کے ساتھ کہ اُن کے لئے کوئی زمانہ ایسا نہیں ہے کہ نماز و روزہ کے قابل نہ ہوں اور داڑھیوں اور عِماموں کے ساتھ فضیلت دی۔
101-مسئلہ: اس آیت سے معلوم ہوا کہ عورتوں کے نفقے مردوں پر واجب ہیں۔
102-اپنی عفت اور شوہروں کے گھر مال اور اُن کے راز کی ۔
103-انہیں شوہرکی نافرمانی اور اُس کے اطاعت نہ کرنے اور اُس کے حقوق کا لحاظ نہ رکھنے کے نتائج سمجھاؤ جو دُنیا و آخرت میں پیش آتے ہیں اور اللّٰہ کے عذاب کا خوف دِلاؤ اور بتاؤ کہ ہمارا تم پر شرعاً حق ہے اور ہماری اطاعت تم پر فرض ہے اگر اِس پر بھی نہ مانیں ۔
104-ضرب غیر شدید ۔
105-اور تم گناہ کرتے ہو پھر بھی وہ تمہاری توبہ قبول فرماتا ہے تو تمہاری زیردست عورتیں اگر قصور کرنے کے بعد معافی چاہیں تو تمہیں بطریق اولٰی معاف کرنا چاہئے اور اللّٰہ کی قدرت و برتری کا لحاظ رکھ کر ظلم سے مجتنب رہنا چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
104-ضرب غیر شدید ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب شوہر کو عورت کو مارنے کی کھلی چھٹی مل گئی۔بازو چڑھا لے اور جانوروں کی طرح مارنا پیٹنا شروع کردے۔بلکہ میں نے ایک عالم صاحب کے بیان میں سنا کہ چہرے پر نا مارے اور ضرب شدید نہ مارے۔ مسواک سے مارے۔۔یعنی سخت چیز سے بھی نہیں مار سکتا۔تین سے زیادہ دفعہ مارنے کی ممانعت ہے۔استاد بھی چھوٹے بچے کو ضرب شدید اور تین ضربوں سے زیادہ نہيں مار سکتا۔
۔۔۔۔
مرد افسر ہیں عورتوں پر
فاروق سرور خان صاحب ۔۔امید ہے آپ کا مسئلہ بھی حل ہوگیا ہوگا۔
 
میرے خیال میں اس آیت کا مطلب صاف اور واضح ہے
آخر اتنے بڑے بڑے سکالرز نے تحقیق کے بعد ہی ترجمہ یا تفسیر بیان کی ہے
اگر کوئی شخص ترجمہ پر انحصار نہ کرنا چاہے تو اسے پہلے خود عربی سیکھنی چاہئے
زمانہ بدلنے کے ساتھ قرآن کا مطلب تو نہیں بدل سکتا

المختصر یہ کہ اگر کوئی عورت خاوند کے مال میں خیانت کی مرتکب ہو یا بے حیائی کی مرتکب ہو تو پہلے اسے زبانی منع کیا جائے پھر اس سے اجتناب کیا جائے اور بات حد سے گزر جائے تو ہاتھ اُٹھایا جائے۔ اگر اسوہ حسنہ پر نگاہ ڈالیں تو ایک ہی واقعہ نظر آتا ہے جب آپ اپنی ازدواج سے ناراض ہو گئے۔
مذکورہ آیت کے بعد والی آیت میں ثالثی کا ذکر ہے
اور عورت کے لئے خلع کا راستہ بھی کھلا ہے
اگرہم اپنے طبقے کی طرف دیکھیں تو آجکل اکثر شوہر بھی دبے ہوئے نظر آتے ہیں
نچلے طبقے کا مسلہ جہالت اور غربت ہے۔
والدین ایک بار بیٹی بیاہ دیتے ہیں تو اس کو ہر حال میں وہیں گزارہ کرنا ہوتا ہے۔
والسلام
زرقا

بہن زرقا، سلام ۔
آپ کا شکریہ ادا کیا ہے کہ آپ نے اس طرف اشارہ کیا۔ تقریباً تمام مترجمین کا میں بہت احترام کرتا ہوں‌ لیکن یہ ذہن میں رکھتا ہوں کہ کوئی بات سابقہ مترجمین سے نظر انداز ہوسکتی ہے۔ کیا ہم کو اپنی کتاب آؤٹ سورس کردینی چاہئیے یا خود بھی غور کرنا چاہئیے؟ میری عربی " مظبوط " نہیں ، اس کے باوجود کہ میں نے چھٹی جماعت سے یونیورسٹی تک عربی پڑھی ہے۔ اور مزید لٹریچر پڑھتا رہتا ہوں، اس کے باوجود، جو عربی اہل زبان پولتے ہیں اور سمجھتے ہیں اس کا دعوی میں‌نہیں‌کرسکتا۔ عرصہ 27 سال سے قرآن کا طالب علم ہوں۔اس کے باوجود میں کسی بھی قسم کا عالم ہونے کا دعوی نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کو بھی اپنی کسی بات کو ماننے کے لئے کہتا ہوں۔ قرآن کے حکم کے مطابق اس پر غور کرتا ہوں۔ تراجم پڑھتا ہوں اور مزید یہ کہ ڈکشنری دیکھ کر اس کے معانی پر غور کرتا ہوں، مختلف علماء‌ سے ، جیسا ممکن ہوتا ہے بات کرتا ہوں، اور ایک مترجم ڈاکٹر شبیر احمد، جو حیات ہیں ان سے باقاعدہ خط و کتابت اور بات چیت رہتی ہے۔ میں سب دوستوں کو دعوت دیتا ہوں جو اس پر غور کرنا چاہیں۔ قرآن کے احکامات انسانی فطرت کے خلاف نہیں ہیں۔

آپ کو اس آیت کا ترجمہ واضح‌نظر آتا ہے ، اور آپ دیگر تراجم پر انحصار کرنا چاہتی ہیں تو کیا اس میں کوئی مضائقہ ہے؟ میرا خیال ہے نہیں۔

جبکہ میرا خیال ہے کہ اگر مل کر اسی آیت پر غور کرلیا جائے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔

اب تک میں نے ترجمہ کی صرف ابتدائی کمی کی طرف اشارہ کیا ہے اور سوال کیا ہے کہ کیا یہ آیت صرف زن و شو کے تعلقات کے بارے میں ہے؟ تو ہم کو دیکھنے کو ملتا ہے کہ نہیں ، الفاظ "مرد و عورت" استعمال کئے گئے ہیں اور صیضہ جمع کا ہے۔ لہذا اس کو آگے دیکھتے ہیں کہ اس آیت سے کیا حکم بنتا ہے؟ آپ نے دیگر آیات کے بارے میں جو فرمایا درست ہے، لیکن کیا یہ آیت یقینی طور پر میاں بیوی کے بارے میں ہے یا عمومی طور پر مرد و عورت کے تمام ممکنہ رشتوں‌کا احاطہ کرتی ہے؟

اگر یہ آیت تمام ممکنہ رشتوں کا احاطہ کرتی ہے تو پھر یا تو ماں، بیٹی، بہن، بیوی، چاچی، پھوپھی ، مامی، دادی ، نانی وغیرہ پر اگر [arabic]وَاللاَّتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ [/arabic] کا اطلاق ہوتا ہے تو پھر ان سب قابل احترام خواتین کو مارنا جائز ہے اور اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو اس آیت کے الفاظ کے مترادف معنوں کو دیکھنے کی ضرورت پڑے گی۔

میں سب بہنوں اور بھائیوں‌کو دعوت دیتا ہوں کے اس آیت کے ترجمے پر تمام تر خلوص و احترام کے ساتھ غور فرمائیں اور کسی بھی عالم صاحب کو دعوت دیں کے وہ آئیں اور عربی الفاط، صرف و نحو اور ممکنہ معانی پر غور فرمانے میں ہم سب کی مدد کریں۔ آپ کی طرف سے کسی بھی قسم کی مدد اس سلسلے میں بہت ہی فائیدہ مند ہوگی۔

اگر دوست اس سلسلے میں اعتراض فرماتے ہیں تو میں یہ مزید غور محفل میں بند کرنے کے لئے تیار ہوں۔ لیکن پھر یہ سوال ہمارے ذہنوں میں اسی طرح کلبلاتا رہے گا کہ اس آیت میں فراہم کردہ جرم و سزا کیا درست ہیں؟ یا ان کے مترادف معانی بھی ہیں۔ جن پر کم از کم غور کرنا ضروری ہے چاہے بعد میں ہم ان معانی کو نظر انداز کردیں۔

ذرا سوچئے کہ مردوں کوعورتوں کی طرف سے صرف خوف ہو کہ ان سے ہم آہنگی نہیں ہو گی
[arabic]وَاللاَّتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ [/arabic]
اور وہ عورتیں کہ اندیشہ ہو تم کو نافرمانی کا

تو اس کی سزا کیا ہے -
" [arabic]وَاضْرِبُوهُنَّ [/arabic]"
تو ان کو بھیانک طریقہ سے ضرب لگاؤ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مارنے کے زمرہ میں "ضرب' کے معانی ہلکی سی ضرب کے بہت ہی مشکل سے لکالے جاسکتے ہیں۔

میں اس کو لفظ بہ لفظ لکھتا ہوں۔ بہت سے الفاط اردو میں بھی مستعمل ہیں۔
واللاتی تخافون - اور اگر تم لوگوں کو یہ خوف ہو۔
نشوزھن - "نشوز" کے معنی ہے جب موسیقی کے نوٹس میں ہم آہنگی نہ ہو۔ اور "ھن" لگاتے ہیں تانیث مجموعی کے لئے۔ کہ جب ایک سے زائد عورتوں کے بارے میں کہنا ہو۔

اضربوھن - اس لفظ میں 'الف' نشاندہی کرتا ہے کہ اگلے فعل پر عمل کیا جائے اور "ھن" ابھی اوپر آگیا ہے۔ اب ہم ضرب کے معنی دیکھتے ہیں۔ تمام مترجمین نے اس کے معنی "ہلکے سے ضرب لگانے کے کئے "‌ ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آپ کسی بھی عربی سے پوچھیں یا قران سے تصریف کیجئے، دونوں صورتوں‌میں‌ ضرب کے معنی پاش پاش کرنا، ٹکڑے ٹکڑے کرنا ، جان سے مار دینا ہوتے ہیں ۔

جبکہ "ضرب "‌ کے مترادف معانی "ملٹی پلائی کرنا،" یا "ایکشن لے کر آگے بڑھانا یعنی ترقی دینا ہیں" تو ہم ان معنوں کو کیوں‌ درگزر کردیں؟ کیا اگر ہماری بہن یا بیٹی کی طرف سے یہ خوف نظر آتا ہے کہ وہ معاشرہ سے ہم آہنگ نہیں ہوگی تو ہم کو کیا کرنا چاہئیے؟ مارنا چاہئیے ---- یا اسکو ---- لیکچرز دینا چاہئیے، اس کو ٹرانسفر کرنا چاہیے ایک بہتر مقام پر ، جہاں اس کی شخصیت کی بڑھوتری ہو سکے، اور اسکی صلاحیتیں دن دون رات چوگنی ترقی کرسکیں؟ -----

معذرت چاہتا ہوں لیکن عرض یہ ہے کہ عورتوں سے تعلق رکھنے والی تمام آیات کا زیادہ تر ہندوستانی مترجمین نے اپنے سماجی عقائد کے مطابق ترجمہ کیا ہے۔ اور زیادہ تر تراجم عورتوں کے خلاف ہیں۔ قرآن کے معنی قرآن خود بیان کرتا ہے۔ اس میں موجود تاریخی واقعات کے پیچھے یہ مصلحت ہے کہ وہ الفاظ کے معنی واضح‌کرتا ہے۔ اگر ابراہیم علیہ السلام ، کی "ضرب " سے بت پاش پاش ہوجاتے ہیں تو "ضرب" کا مطلب اس ضمن میں یہی لیا جائے گا ۔ آپ دوسرے ممکنہ معنی دیکھئے ، اور کسی بھی عالم کے پاس لے جائیے جو عربی خود سے جانتا ہو۔ یا یہاں لے آئیے، کچھ نہ کچھ ہم سیکھیں گے اور توثیق بھی حاصل کرسکیں گے۔

ذرا ترجمہ دیکھئے کہ انتہائی اچھی عورتوں کے بارے میں بات ہورہی ہے۔ کون سی عورتیں -؟ جو صالحات ، قانتات او حافظات ہیں

" پس نیک عورتیں (ہوتی ہیں) اطاعت شعار، حفاظت کرنے والیاں (مردوں کی) غیر حاضری میں، ان سب چیزوں کی جن کو محفوظ بنایا ہے اللہ نے۔ "

اتنی اچھی خواتین سے صرف اندیشہ یا خوف ہو کہ ہم اہنگی نہ ہوسکے گی تو ان کو" سخت مار مارو" ؟؟؟؟؟

دیکھئے یہ ترجمہ۔۔۔۔۔
ان عورتوں‌سے تم کو ہم آہنگی نہ ہونے کا خوف ہو تو سو نصیحت کرو ان کو اور (اگر نہ مانیں تو) تنہا چھوڑ دو اُن کو بستروں میں اور بالاخر ضرب لگاؤ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟

تاکہ وہ پاش پاش ہوجائیں ؟ یقیناً‌ نہیں۔۔ صاحب کسی بھی عورت کو مارنا اس کی شخصیت کو تباہ کرنا ہے۔چاہے کتنے ہلکے سے مارا جائے۔

[arabic]وَاللاَّتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ[/arabic] جن عورتوں‌سے تم کو ہم آہنگی نہ ہونے کا خوف ہو تو --- [arabic]فَعِظُوهُنَّ[/arabic] --- ان کو لیکچر دو، یعنی وعظ کرو، تعلیم دو ----- [arabic]وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ [/arabic]------- ان کو ایسے (علمی ) مقام پر ٹرانسفر کردو ----- [arabic] وَاضْرِبُوهُنَّ [/arabic]---- اور ان کی صلاحیتوں کی بڑھوتری کرو ----


آئیے ممکنہ مکمل معانی دیکھتے ہیں:

مرد( سرپرست و نگہبان) سہارا فراہم کرنے والے ہیں عورتوں کے اس بنا پر کہ اللہ نے انسانوں میں بعض کی نسبت بعض پر زیادہ فضل کیا ہے اور اس بنا پر کہ خرچ کرتے ہیں مرد اپنے مال۔ پس نیک عورتیں (جو) اطاعت شعار، حفاظت کرنے والیاں (مردوں کی) غیر حاضری میں، ان سب چیزوں کی جن کو محفوظ بنایا ہے اللہ نے۔ اور ان عورتوں سے کہ اندیشہ ہو تم کو غیر ہم آہنگی کا (‌معاشرے کے اصولوں سے) ، سو وعظ ( یعنی لیکچرز کے ذریعے تعلیم پہنچایا) کرو ان کو اور ٹرانسفر کردو ان کو بہتر (تعلیمی) مقام (پلیٹ فارم) پر اور ایسے اقدام کرو کہ آگے بڑھاؤ ان عورتوں‌کو ترقی کے لیے (یعنی بڑھوتری کرو انکی)، جب (معاشرہ کے اصولوں کے مطابق) اطاعت کرنے لگیں وہ تم لوگوں کی تو نہ تلاش کرو ان پر کوئی زیادتی کرنے کی راہ۔ بے شک اللہ ہے سب سے بالا تر اور بہت بڑا۔

ان معانی میں میں نے درج ذیل باتوں پر توجہ رکھی ہے۔

1۔ یہ آیت ایک مرد و عورت کے بارے میں نہیں ہے۔ بلکہ عورتوں اور مردوں کو مجموعی طور پر مخاطب کیا گیا ہے۔
2۔ یہ آیت صرف شوہر و بیوی کے تعلق کے بارے میں‌نہیں ہے۔
3۔ جن عورتوں کے لئے بات کی گئی ہے ان کو نیک، اطاعت گزار اور حفاظت کرنے والیاں کہا گیا ہے۔
4۔ ان عورتوں نے دیگر مردوں سے یا معاشرہ سے کوئی جرم کیا ہی نہیں‌ ہے۔ بلکہ ان کا "قصور" صرف اتنا ہے ---- اگر یہ خوف ہو کہ وہ معاشرہ سے یا خاندان سے یا اپنے مرد رشتے داروں سے ہم اہنگ نہیں ہونگی ۔-- جو کہ عموما تعلیم کی کمی سے ہوتا ہے۔
5۔ "مضاجع" کے معنی صرف بستر نہیں ہیں ، مقام ،یا پلیٹ فارم بھی ہیں۔ ، بستر میں چھوڑنے والی بات -- ماں ، بہن اور بہٹی --- پر کسی طور صادق نہیں آتی۔
6۔ اضرب - کے معنی صرف پاش پاش کردینا نہیں ہیں ۔ اور یہاں ایسا جرم نہیں سرزد ہوا کہ ان کو "ضرب " لگائی جائے۔
7۔ غیر ہم آہنگی - وہ بھی معاشرہ سے - یہ وہ خوف یا اندیشہ ہے جس کا اظہار کیا گیا ہے ، اس کا علاج ، تمام علماء کے نزدیک ہے - بہتر تعلیم ، نصیحت، مینٹرنگ، اعلی تعلیم کے لئے بہتر مقام پر رکھنا اور عورتوں کی صلاحیتوں میں دن دونا رات چوگنا اضافہ کی کوشش اور بڑھوتری (‌ملٹی پلائی والا "ضرب کرنا" نہ کہ پاش پاش کردینے والی "ضرب لگانا")

قرآن کی ترجمہ اور تصریف ایک انتہائی محنت کا کام ہے۔ میں پوری کوشش کرتا ہوں کہ یہ حق مخلصانہ طور پر ادا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اوپن برہان پر ہر لفظ ایک دوسرے سے لنک ہے تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ ایک لفظ کے معنی قرآن کس طرح بیان کرتا ہے۔ میری مکمل کوشش یہ ہوتی ہے کہ دیگر لوگ بھی اس نتیجہ سے متفق ہوں ۔ میں کسی نئے عقیدہ کا پرچار نہیں کررہا، تقریباً‌ تمام مترجمین سے تھوڑی بہت کوتاہی ممکن ہے۔ ہمارا کام ہے کہ ہم اس پر نظر رکھیں اور بجائے اس کے کہ اپنے دین و کتاب کو کسی ایک شخص کو آؤٹ سورس کردیں۔ خود اپنا ہوم ورک کریں، آج بہت آسان ہے کہ ہم عرب اہل زبان سے الفاظ، صرف و نحو ، ترکیبِ لفظی اور ترکیبَِ کلماتی میں مدد حاصل کریں اور اپنی کتاب کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

ایک مزید عرض‌یہ ہے کہ قرآن ہم کو کسی ایک شخص کی بات ماننے کے بجائے، آپس میں مشورہ کرنے کا حکم دیتا ہے۔ لہذا یہ آپ سب کی تنقید و توثیق کے لئے کھلا ہے۔ اگر ہم کو بہتر وجوہات ملتی ہیں تو ہ اس ترجمے میں مناسب رد و بدل کیا جاسکتا ہے کہ قرآن کے درست معانی سے آگاہی ہو۔ اس نیک مقصد میں آپ اپنی مقدور بھر شرکت کیجئے۔ افسوس یہ ہے کہ اس آیت کے ترجمے میں ہم کو نہ تو کوئی ریسرچ ملتی ہے اور نہ ہی کوئی سنت کہ نبی کریم (صلعم ) نے کسی عورت کو مارا ہو۔ اس کے برعکس مردوں اور عورتوں کو وعظ فرمانے اور تعلیم دینے کی سنت کی روائتیں بہت ہی عام ہیں۔

ریفرینس:
میں ریفرنس میں اس ڈکشنری کا لنک دے رہا ہوں، جس سے ضرب کے معانی واضح ہیں۔ ہم ضرب عام طور پر "ضرب کرنے" کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ مزید الفاظ آپ یہاں داخل کرکے دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں اس لفظ کے ایک ممکنہ معنی ہیں take an action and move forward

ضرب: ایکشن لے کر آگے بڑھانا۔
1۔ بہت زور سے مارنا کے ٹوٹ جائے یا زخمی ہو جائے ، بہت بری طرح سے ٹکرانا۔
2۔ایکشن لینا اور آگے بڑھ جانا یا آگے بڑھادینا، ترقی دینا۔ (‌مجھے اس آیت میں باقی مضمون کے اعتبار سے نمبر 2 معنے زیادہ بہتر اور سنت رسول سے ثابت نظر آتے ہیں)
1۔ bash strike heavily so as to break or injure; (cause to) collide violently with
2۔ take an action and move forward
http://www.arabiclookup.com/default.aspx?ar=ضرب
ضرب کے قرانی معنوں کے لئے دیکھئے
[AYAH]2:26[/AYAH] یہاں اللہ تعالی اس لفظ کو " آگے بڑھانے یا پیش کرنے " کے لئے استعمال فرماتے ہیں۔
[AYAH]2:61[/AYAH] اس ایت میں معنی مسلط کرنے کے ہیں۔
[AYAH]2:273[/AYAH] اور اس آیت میں معنی آزادانہ گھومنے پھرنے کے ہیں۔
[AYAH]14:24[/AYAH] اور یہاں معنی آگے پیش کرنے کے ہیں۔

نشوز: عدم ہم آہنگی یا زور سے بولنا - کھڑے ہونا۔
http://www.arabiclookup.com/default.aspx?ar=نشوز
نشوز کے قرانی معنی کے لئے دیکھئے [AYAH]58:11[/AYAH]

یاد رکھئے کہ تمام مترجمین نے اندیشہ عدم ہم آہنگی ہی ترجمہ کیا ہے ---- [arabic]وَاللاَّتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ[/arabic] --- کسی نے بھی ----- عدم ہم آہنگی کے وقوع پذیر ہونے کے بعد ---- ترجمہ نہیں کیا۔ تو کیا آپ صرف اندیشہ میں مارنا شروع کردیں گے؟ اللہ تعالی ہمیشہ جرم کے وقوع پذیر ہونے کے بعد سزا دیتے ہیں نہ کہ اندیشہ میں؟

کیا ہم کسی بھی جرم کے اندیشہ میں کسی کو سزا دے سکتے ہیں؟
والسلام
 
104-ضرب غیر شدید ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب شوہر کو عورت کو مارنے کی کھلی چھٹی مل گئی۔بازو چڑھا لے اور جانوروں کی طرح مارنا پیٹنا شروع کردے۔بلکہ میں نے ایک عالم صاحب کے بیان میں سنا کہ چہرے پر نا مارے اور ضرب شدید نہ مارے۔ مسواک سے مارے۔۔یعنی سخت چیز سے بھی نہیں مار سکتا۔تین سے زیادہ دفعہ مارنے کی ممانعت ہے۔استاد بھی چھوٹے بچے کو ضرب شدید اور تین ضربوں سے زیادہ نہيں مار سکتا۔
۔۔۔۔
مرد افسر ہیں عورتوں پر
فاروق سرور خان صاحب ۔۔امید ہے آپ کا مسئلہ بھی حل ہوگیا ہوگا۔

رضا، بہت ہی شکریہ ، اس مسئلہ کو حل کرنے میں شرکت کرنے کے لئے۔ بھائی میرا لہجہ تیکھا نہیں ہے۔ لیکن کسی بھی ترجمہ سے ممکنہ سوالات ذہن میں جنم لیتے ہیں۔ میرے سوالات اعتراض نہیں بلکہ بہت ہی بنیادی نوعیت کے ہیں۔ بھائی میرا مقصد کوئی گرما گرم بحث کرنا نہیں۔ بلکہ اس آیت کے واضح معنوں پر غور کرنا ہے۔ اور اس مقصد کے لئے میں اپنے تمام بھائیوں اور بہنوں کو دعوت فکر دیتا ہوں۔

آپ نے لائقِ احترام، احمد رضا خان بریلوی کا ترجمہ پیش کیا۔ یہ حضرت تو مرحوم ہوچکے لہذا ان سے اب سوال نہیں کئے جاسکتے ہیں۔ کیا ہم کسی زندہ عالم کو ڈھونڈھ سکتے ہیں یا عربی اہل زبان ؟

چونکہ آپ جناب احمد رضا خان صاحب کی ترجمانی کرر رہے ہیں ، لہذا یہ سوال آپ سے ہیں ، اگر آپ ان کے جوابات نہ فراہم کرسکیں تو بھی کوئی مضائقہ نہیں بھائی، ہم مل کر کسی بہتر عربی دان کو ڈھونڈیں گے اور اس مسئلے پر متفق ہونے کی کوشش کرین گے۔

آپ کی فراہم کردہ معلومات کے بعد، میرے یہ سوالات ہیں۔
1۔ اضرب - کے معنی کس طور " ہلکی ضرب " کے بنتے ہیں؟ کسی ڈکشنری یا قرآن سے تصریف فرما کر حوالہ فراہم کیجئے
2۔ جب اس آیت میں کوئی بھی تذکرہ " ازواج یعنی میان بیوی " کا نہیں، تو پھر کیا ماں ، دادی، بہن ، بیٹی کی طرف سے اگر صرف یہ اندیشہ ہو کہ وہ "ممکنہ نافرمانی" کرے گی (‌ابھی جرم سرزد نہیں ہوا ہے) تو کیا اس کو تنبیہاً "ضرب" لگائی جاسکتی ہے کہ وہ ڈرتی رہے اپنےافسر بھائی، بیٹے ، پوتے یا باپ سے؟ قرآن یا سنت رسول سے حوالہ دیجئے کہ نبی اکرم نے کتنی بار عورتوں کو ایسی تنبیہاً "ضرب" لگائی؟ ہمیں یاد رکھنا چاہئیے کہ رسولِ اکرم چلتا پھرتا قرآن ہیں۔ ہر آیت کو آپ (صلعم )‌نے تفصیل سے بیان فرمایا اور عمل کرکے دکھایا۔
3۔ یہ تین ضربوں کا تذکرہ اس آیت کے کس حصے سے بنتا ہے؟ ، قرآن یا سنت رسول سے حوالہ دیجئے کہ رسول اکرم نے کس کس رشتہ دار خاتون محترم کوتین بار "ضرب"‌ لگائی۔ مجھے یہ تعلیم حاصل کرکے خوشی ہوگی۔
4۔مرد افسر ہیں عورتوں پر --- کیا "قوام " کا ترجمہ افسر بنتا ہے؟‌کسی ڈکشنری یا قرانی تصریف کا حوالہ عطا فرما سکتے ہیں؟ مجھے یہ تعلیم حاصل کرکے خوشی ہوگی۔
ڈکشنری تو یہ کہتی ہے
قوام: ایک ایسا بیم جو کسی کھمبے یا دیوار سے نکلا ہو اور کسی بالکونی یا شیلف کو سہارا دیتا ہو۔
cantilever beam that sticks out from an upright post or wall and supports a shelf,a balcony etc
http://www.arabiclookup.com/default.aspx?ar=قوام

اگر ان سوالات کے جوابات ہم کو مناسب نہیں ملتے تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ جناب مترجم صاحب اپنے عمومی سماجی خیالات سے متاثر ہیں یا پھر ایسے لوگوں کے درمیان قید ہیں جو ان کو کسی طور ان عقائد سے ہٹنے نہیں دیتے۔ قرآن کو دور رکھنے کی یہی وجہ ہے کہ یہ ہمارے دیرینہ اور باطلانہ عقائد پاش پاش کردیتا ہے۔

والسلام۔
 

زرقا مفتی

محفلین
Men are the managers of the affairs of women for that God has preferred in bounty one of them over another, and for that they have expended of their property. Righteous women are therefore obedient, guarding the secret for God's guarding. And those you fear may be rebellious admonish; banish them to their couches, and beat them. If they then obey you, look not for any way against them; God is All-high, All-great.
A.J. Arberry
Professor at Cambridge

Men shall have the pre-eminence above women, because of those advantages wherein God hath caused the one of them to excel the other, and for that which they expend of their substance in maintaining their wives. The honest women are obedient, careful in the absence of their husbands, for that God preserveth them, by committing them to the care and protection of the men. But those, whose perverseness ye shall be apprehensive of, rebuke; and remove them into separate apartments, and chastise them. But if they shall be obedient unto you seek not an occasion of quarrel against them; for God is high and great.
George Sale
English

004.034 Men are in charge of women, because Allah hath made the one of them to � excel the other, and because they spend of their property (for the support of women). � So good women are the obedient, guarding in secret that which Allah hath guarded. � As for those from whom ye fear rebellion, admonish them and banish them to beds � apart, and scourge them. Then if they obey you, seek not a way against them. Lo! � Allah is ever High, Exalted, Great. � �

pickthall
English

4:34 MEN SHALL take full care of women with the bounties which God has bestowed more abundantly on the former than on the latter, [42] and with what they may spend out of their possessions. And the right­eous women are the truly devout ones, who guard the intimacy which God has [ordained to be] guar­ded. [43] And as for those women whose ill-will [44] you have reason to fear, admonish them [first]; then leave them alone in bed; then beat them; [45] and if thereupon they pay you heed, do not seek to harm them. Behold, God is indeed most high, great!

M.Asad
Polish/German

Men are superior to women on account of the qualities with which God hath gifted the one above the other, and on account of the outlay they make from their substance for them. Virtuous women are obedient, careful, during the husband's absence, because God hath of them been careful.9 But chide those for whose refractoriness ye have cause to fear; remove them into beds apart, and scourage them: but if they are obedient to you, then seek not occasion against them: verily, God is High, Great!
Rodwell
English

Men are the ones who should support women since God has given some persons advantages over others, and because they should spend their wealth [on them]. Honorable women are steadfast, guarding the Unseen just as God has it guarded.

Admonish those women whose surliness you fear, and leave them alone in their beds, and [even] beat them [if necessary]. If they obey you, do not seek any way [to proceed] against them. God is Sublime, Great.

T. B Irving
American

فاروق بھائی
آپ کی اتنی لمبی پوسٹ پڑھی
آپ نے لکھا کہ بیشتر تراجم ہندوستانی تہذیب کے تناظر میں دیکھے جائیں تو ان کا از سرِ نو جانچا جانا ضروری ہے
میں نے اوپر کچھ انگریزی تراجم نقل کئے ہیں جن میں سے کچھ نئے اور کچھ پرانے ہیں تاہم الفاظ کے ردو بدل سے کم و بیش ایک ہی مطلب نکلتا ہے
مجھے اندیشہ ہے کہ آپ ان میں سے بھی بیشتر تراجم پر اعتراض کریں گے مگر مجھے اور کچھ نہیں کہنا

آپ نے لکھا کہ مذکورہ آیت مرد و زن کے بارے میں ہے تو جی نہیں یہ شوہر اور بیوی کے بارے میں ہے ۔ یہ بات کوئی lay man بھی بتا سکتا ہے اور کوئی بچہ بھی
اسلام نے ماں کا جو احترام اور درجہ مقرر کیا ہے اس میں کسی بحث کی گنجائش نہیں

یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ عرب میں اسلام سے پہلے عورتوں کا کیا مقام تھا۔ اس آیت کے ذریعے
'ضرب " کو آخری حل بتایا گیا ہے جبکہ اس سے اگلی آیت جھگڑا بڑھنے کی صورت میں بزرگوں کے ذریعے مصاٌلحت کا طریقہ بتاتی ہے

آپ نے لکھا ضرب کا مطلب "پاش پاش کر دینا "ہے ایسا ہر گز نہیں ورنہ اس کے ساتھ شدید کا لفظ استعمال ہو سکتا تھا

باقی ایک لفظ کئی مطلب ہو سکتے ہیں ایسا تو ہر زبان میں ہوتا ہے
نیز یہ کہ رضا صاحب کی پوسٹ سے مذکورہ آیت کی وجہ نزول بھی سامنے آ گئی تو مز ید بحث کی کوئی گنجائش نہیں

والسلام
زرقا
 
زرقا اس موضوع پر اگر آپ بھی اپنے خیالات تفصیل سے لکھیں تو بہت مفید رہے گا کیونکہ آپ کے سوا تمام مردوں نے اس پر اظہار خیال کیا ہے جبکہ آپ کے تجزیہ سے دوسرا رخ بھی سمجھنے بھی کافی آسانی ہوگی۔ مجھے امید ہے کہ آپ اس اہم مسئلہ پر ضرور اظہار خیال تفصیل سے کریں گی۔
 
شکریہ ، آپ کے بتائے ہوئے تمام ترانسلیشنز میں بھی پڑھ چکا ہوں۔ اس کے لئے بہتر یہ ہوگا کہ کسی عرب سے پوچھا جائے۔ جو حصہ میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ --- صرف خوف ہو کہ ہم آہنگی نہ ہوگی تو مارا جائے؟ -----
یہ قرآن کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ اچھا یہ ہوگا کہ اس پر خود سے ریسرچ کی جائے یا ایسے مترجمین سے پوچھا جائے جو حیات ہیں۔

آپ سکون سے قرآن سے تصریف فرما کر یا ڈکشنری سے معانی دیکھ کر اور کسی عربی جاننے والے سے پوچھ کر اس سلسلے میں یہ تفصیل بیان کرسکتی ہیں۔

میں اب تک آٹھ عرب مردوں اور عورتوں سے پوچھ چکا ہوں۔ وہ اس تفصیل سے جو میں نے فراہم کی ہے متفق ہیں۔ میں ایک ایسے شخص سے جو شریف مکہ کے خاندان سے ہے اور لغۃ القریش اس کی اپنی زبان ہے ، جو مدینہ میں‌راہائش پذیر ہے - اس سے یہی بات ایمیل میں پوچھ رہا ہوں ۔ نتائج یہاں پوسٹ کردوں گا۔

والسلام
 

زیک

مسافر
4:34 MEN SHALL take full care of women with the bounties which God has bestowed more abundantly on the former than on the latter, [42] and with what they may spend out of their possessions. And the right­eous women are the truly devout ones, who guard the intimacy which God has [ordained to be] guar­ded. [43] And as for those women whose ill-will [44] you have reason to fear, admonish them [first]; then leave them alone in bed; then beat them; [45] and if thereupon they pay you heed, do not seek to harm them. Behold, God is indeed most high, great!

M.Asad
Polish/German​

محمد اسد کے ترجمے کے ساتھ فٹ‌نوٹ پڑھنا بہت ضروری ہیں۔

فٹ‌نوٹ 42:

Lit., "more on some of them than on the others".- The expression qawwam is an intensive form of qa’im ("one who is responsible for" or "takes care of" a thing or a person). Thus, qama ala l-mar’ah signifies "he undertook the maintenance of the woman" or “he maintained her" (see Lane VIII, 2995). The grammatical form qawwam is more comprehensive than qa’im, and combines the concepts of physical maintenance and protection as well as of moral responsibility: and it is because of the last-named factor that I have rendered this phrase as "men shall take full care of women".​

فٹ‌نوٹ 43:

Lit., "who guard that which cannot be perceived (al-ghayb) because God has [willed it to be] guarded".​

فٹ‌نوٹ 44:

The term nushuz (lit., “rebellion”- here rendered as "ill-will") comprises every kind of deliberate bad behaviour of a wife towards her husband or of a husband towards his wife, including what is nowadays described as "mental cruelty"; with reference to the husband, it also denotes "ill-treatment", in the physical sense, of his wife (cf. verse 128 of this surah). In this context, a wife's "ill-will" implies a deliberate, persistent breach of her marital obligations.​

فٹ‌نوٹ 45 میں محمد اسد یہ لکھتے ہیں:

It is evident from many authentic Traditions that the Prophet himself intensely detested the idea of beating one's wife, and said on more than one occasion, "Could any of you beat his wife as he would beat a slave, and then lie with her in the evening?" (Bukhari and Muslim). According to another Tradition, he forbade the beating of any woman with the words, "Never beat God's handmaidens" (Abu Da’ud, Nasa’i, Ibn Majah, Ahmad ibn Hanbal, Ibn Hibban and Hakim, on the authority of Iyas ibn ‘Abd Allah; Ibn Hibban, on the authority of ‘Abd Allah ibn ‘Abbas; and Bayhaqi, on the authority of Umm Kulthum). When the above Qur’an-verse authorizing the beating of a refractory wife was revealed, the Prophet is reported to have said: "I wanted one thing, but God has willed another thing - and what God has willed must be best" (see Manar V, 74). With all this, he stipulated in his sermon on the occasion of the Farewell Pilgrimage, shortly before his death, that beating should be resorted to only if the wife "has become guilty, in an obvious manner, of immoral conduct", and that it should be done "in such a way as not to cause pain (ghayr mubarrih)"; authentic Traditions to this effect are found in Muslim, Tirmidhi, Abu Da’ud, Nasa’i and Ibn Majah. On the basis of these Traditions, all the authorities stress that this "beating", if resorted to at all, should be more or less symbolic - "with a toothbrush, or some such thing" (Tabari, quoting the views of scholars of the earliest times), or even "with a folded handkerchief" (Razi); and some of the greatest Muslim scholars (e.g., Ash-Shafi’i) are of the opinion that it is just barely permissible, and should preferably be avoided: and they justify this opinion by the Prophet's personal feelings with regard to this problem.​
 
دوستو، اس آیت کی شان نزول یہ واقعہ ہو یا نا ہو، یہ بحث غیر ضروری ہے۔ اس لئے کے یہ واضح ہے کہ اس آیت میں مردوں کو نرمی سے نصیحت کی گئی ہے ، مردوں کو ان کے اوپر فضل کا احساس دلایا گیا ہے اور سمجھایا گیا ہے کہ جب ان کو عورتوں کی طرف سے عدم ہم آہنگی کا خوف ہو تو عورتوں‌کو مناسب نصیحت اور قابل فخر بنایا جائے۔ جو مثالیں میں نےقرآن کی آیات کی دی ہیں "اضربھن" کے بارے میں ان سب میں "ضرب" کے معنے انہی مترجمین نے " نمایان مثال بنا کر پیش کرنے " کے لکھے ہیں۔ لیکن یہاں عورتوں کو بنا جرم پر مارنے کے لکھے ہیں۔ سنت اور حدیث اس بھی اس "مارنے " کی توثیق نہیں کرتی۔
 

زرقا مفتی

محفلین
زرقا اس موضوع پر اگر آپ بھی اپنے خیالات تفصیل سے لکھیں تو بہت مفید رہے گا کیونکہ آپ کے سوا تمام مردوں نے اس پر اظہار خیال کیا ہے جبکہ آپ کے تجزیہ سے دوسرا رخ بھی سمجھنے بھی کافی آسانی ہوگی۔ مجھے امید ہے کہ آپ اس اہم مسئلہ پر ضرور اظہار خیال تفصیل سے کریں گی۔

محب صاحب
میں اس سلسلے میں مزید اظہارِ خیال نہیں کرنا چاہتی تھی مگر آپ کی پوسٹ دیکھ کر اپنے خیالات مختصر بیان کرتی ہوں۔
اسلام سے پہلے عرب معاشرے میں عورت کے مقام سے سب واقف ہیں
اگر ہم اسلامی معاشرے کے بتدریج قیام کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بہت سے اسلامی احکام جن پر ہم عمل کرتے ہیں عرب معاشرے کے لئے بتدریج نافذ کئے گئے۔ جیسے احکام روزہ، پنجگانہ نماز ، شراب نوشی اور سود ی کاروبار کی ممانعت وغیرہ
عرب مزاج کے سخت اور کھردرے ہیں
آج بھی عرب معاشرے میں عورتوں کو اتنی آذادی میسر نہیں
سورہ نساء عورتوں سے متعلقہ معاملات کا احاطہ کرتی ہے جن میں میا ں بیوی کے خانگی معاملات بھی شامل ہیں
مذکورہ آیت میں سب سے پہلے اسلام میں مرد کا مقام بیان کیا گیا
اس کو بیوی کی کفالت کا زمہ دار بتایا گیا ہے
کسی بھی کامیاب فلاحی معاشرے کی بنیاد ایک خاندان ہے اور اگر مرد کفالت کا زمہ دار ہے تو عورت اسکی ناموس اور اسکی اولاد کی ذمہ دار ٹہرائی گئی
اب عورت اگر ناموس کی حفاظت نہیں کرتی تو امانت میں خیانت کی مرتکب ہوتی ہے
اس صورت میں تین درجے مقرر کئے گئے
زبان سے سمجھانا
روٹھ جانا اجتناب کرنا
اور آخر میں مارنا

ان تینوں صورتوں کی ناکامی کے بعد ثالثی
اور ثالثی کی ناکامی کی صورت میں خلع یا طلاق

میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ کہ جس طرح طلاق حلال مگر نا پسندیدہ عمل ہے اسی طرح عورت پر ہاتھ اُٹھانا بھی ایک نا پسندیدہ عمل ہے

دوسری طرف آپ سب جانتے ہیں کہ اسلام میں کچھ معاملات پر بہت سخت سزا ہے
جیسے چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا اور زنا کی سزا 80-100 کوڑے ہے
تو جہاں امانت میں خیانت کا اندیشہ ہو یا پھر ناموس ہاتھ سے جانے کا امکان ہو وہاں ایسے حکم کا آنا بالکل فطری ہے

آج ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں تو نوجوان تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بے راہ روی کا شکار ہیں کیونکہ معاشرے کی قدریں بدل گئی ہیں اب آپ اپنے بچے کو اونچی آواز میں ڈانٹ بھی نہیں سکتے۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے

اب ہم اپنے معروضی حالا ت کی طرف دیکھیں تو ہم ایک مخلوط معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں
ہم میں سے اکثر مخلوط درسگاہوں سے تحصیل یافتہ ہیں
ہم میں سے اکثر خواتین گھر سے باہر کام کرتی ہیں کچھ معاشی ضرورت کے تحت ، کچھ شوق کے تحت
اسلامی معاشرے میں عورتوں کو تعلیم کی مکمل آزادی ہے مگر الگ درسگاہوں میں
اور میرے ذاتی خیال میں عورتوں کا تعلیم اور طب کے شعبے میں کام کرنا بھی ضروری یا نا گزیر ہے اس کے علاوہ کچھ شعبے ایسے ہیں جہاں عورتیں کام کر سکتی ہیں۔

جب تک ہم کسی مکمل اسلامی معاشرے میں نہیں رہتے ہمارے لئے مذکورہ آیت کی مزید تشریح درکار ہے تو وہ اس حوالے سے ہے کہ جو عورتیں اپنی کفالت خود کرتی ہیں یا معاشی طور پر خود کفیل ہیں اُنہیں کس حد تک اور کن معاملات میں اپنے شوہروں کی اطاعت گزار ہونا چاہئے
اور جو شوہر اپنی بیویوں کے زیرِ کفالت زندگی گزار رہے ہیں (جیسا کہ اکثر نچلے طبقے کے غریب لوگوں میں دیکھا جاتا ہے ان کی بیویوں کے لئے کیا احکامات ہیں

ہمارے دیہاتوں میں دہقاں عورتیں شوہروں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں ان کے لئے کیا احکام ہیں

اور اگر کوئی شوہر اپنے فرائض خوش اسلوبی سے اور دیانت داری سے ادا نہیں کرتا تو اس کی کیا سزا ہے

والسلام

زرقا
 
آپ کی بات عزت و ناموس کے حوالے سے درست درست مانی جاسکتی ہے۔

مزید یہ کہ کیا آپ نے اس بات پر غور کیا کہ اس آیت میں ممکنہ جرم " عدم ہم آہنگی کا اندیشہ " ہے۔ کیا آپ سمجھتی ہیں کہ اس مخصوص اندیشے کی صورت میں سزا "‌مارنے " کی صورت میں ہونی چاہئیے؟ کیا ایک خاتون ایک بے معنی مار کھانے کے بعد ہم آہنگی کے بارے میں سوچے گی یا یہ کہ ممکنہ ہم آہنگی کی خلیج پہلے سے بدتر ہوجائے گی ؟

کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ خواتین کو بے طرح دبا کر رکھنے کے لئے ان معانی کو چنا گیا ہے جو کہ فطرت ، مزاج اور نفسیات کے خلاف ہیں ؟ بحیثیت ایک تعلیم یافتہ، معتبر اور قابل احترام خاتون آپ اس پر روشنی ڈالئے۔

والسلام۔
 
دوستو ! میں نے نہایت خاموشی سے ہر پیغام کا مطالعہ جاری رکھا ۔۔۔ خوشی ہوئی کہ سب کی اس حساس موضوع پر بڑی باریک بینی سے سوچتے ہیں۔۔۔۔ ماشااللہ

ایک چھوٹی سے بات سوچتے ہیں ۔۔۔ ہم سب۔۔۔۔ اس ساری اور اس سے مشابہ بحث میں ایک بات بڑی خاص ہے جسے ہم بحث کی روانی میں نظر انداز کر جاتے ہیں ۔۔۔ وہ یہ ہے کہ اب تک کسی نے یہ نہہیں سو چا کہ کیا ۔۔۔۔
اللہ صرف مرد سے مخاطب ہے ؟
کیا اللہ کا نائب صرف مرد ہے جسے اشرف المخلوقات کہتے ہیں ؟
کیا اس کارخانہ قدرت کا سارا بوجھ حضرت مرد کے پاس ہے ؟

اگر قران کا مخاطب صرف مرد ہے تو دوستو !

اللہ کی تخلییق میں سب سے افضل تو مرد ہوا ۔۔۔۔۔ یا نہیں ؟
کائنات صرف اور صرف "مرد" کے لئے پیدا کی گئی ۔۔۔۔ یا نہیں ؟
تمام مخلوقات میں صرف "مرد " افضل ہوا ۔۔۔۔ یا نہیں ؟

افسوس میں جو چاہتا تھا وہ یہاں بھی نہیں ملا ۔۔۔ یہ بحث بھی "ملا" کی ملائیت اختیار کر گئی۔۔۔ ہم پھر لفظوں، تراجم اور تشریحات اور منطقوں کے گرداب میں پھنس گئے۔۔۔۔ قران کو منظق، تراجم اور ڈر ڈر کر سمجھنے کی سعی ہوتی رہی تو تقیننا ہم کبھی بھی اس کے درست فلسفے کو نہیں سمجھ سکیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا واقعی یہ دنیا مرد کے لیے تخلیق کی گئی ؟۔۔۔۔۔۔ اگر ہماری سوچ صرف یہیں تک ہے تو پھر سب بیکار ہے۔۔۔۔
اگر ہم عورت کو ثانوی درجہ دیتے ہیں تو بھی بیکار ہے۔۔۔۔

میں ایک نالایق انسان ہوں۔۔۔۔ صرف ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔

قران نے جو کہا اور ہم نے جو بحث میں سمیٹا ۔۔۔۔۔ کیا اس پر آپ سب لوگ مطمئن ہیں ؟ کیا دل مانتا ہے یہ سب ؟

اگر نہیں تو پھر یاد رکھیے ۔۔۔۔ قران کو دل سے سمجھیے ۔۔۔ یہ ایک احساس ہے اسے محسوس کیجیے۔۔۔۔ درست بات سمجھ میں آجائے گی۔۔۔۔ ہر معاملے پر۔۔۔ انشااللہ۔۔۔۔

کیونکہ قران انسان کے دل پر نازل ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم سب دعوی کرتے ہیں کہ ہم قران میں خود تفکر کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ مگر پھر وہی ہوتا ہے کہ تفکر ہم کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ ٹیبل پر سینکڑوں کتانبیں موجود ہوتی ہیں۔۔۔۔ حوالے، ترجمے، تشریحات، لغات وغیرہ۔۔۔ اور پھر بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم خود تفکر کر رہے ہیں۔۔۔۔ اور ساتھ ہی اپنے دعوے کی تردید بھی کرتے جاتے ہیں۔۔۔ حوالے دے کر۔۔۔۔ کیا ایسا نہیں کیا ہم نے اس بحث میں ؟

ہماری اپنی سوچ کہاں ہے دوستو‌؟

بولیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یاد رکھیں ۔۔۔۔ جب تک ہمارا دل مطمئن نہیں ہو جاتا ہم پرسکون نہیں ہو سکتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علم ہمارے اندر ہے ۔۔۔۔ وجدان کی آنکھ سے بھی تو دیکھیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قران پڑہنے کی نہیں محسوس کرنے کی کتاب ہے۔۔۔۔

اس سے آگے کیا کہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس خوش رہیے

اور اتنا یاد رکھیے۔۔۔۔ اللہ نے انسان کو اپنا نائب کہا ہے ۔۔۔ صرف "مرد" کو نہپیں۔۔۔۔۔ اور اگر "عورت " ایک انسان ہے تو پھر ہم نے کیا کیا اس ارٹیکل میں ؟

تفکر کیجیے۔۔۔۔ :)
 

زرقا مفتی

محفلین
آپ کی بات عزت و ناموس کے حوالے سے درست درست مانی جاسکتی ہے۔

مزید یہ کہ کیا آپ نے اس بات پر غور کیا کہ اس آیت میں ممکنہ جرم " عدم ہم آہنگی کا اندیشہ " ہے۔ کیا آپ سمجھتی ہیں کہ اس مخصوص اندیشے کی صورت میں سزا "‌مارنے " کی صورت میں ہونی چاہئیے؟ کیا ایک خاتون ایک بے معنی مار کھانے کے بعد ہم آہنگی کے بارے میں سوچے گی یا یہ کہ ممکنہ ہم آہنگی کی خلیج پہلے سے بدتر ہوجائے گی ؟

کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ خواتین کو بے طرح دبا کر رکھنے کے لئے ان معانی کو چنا گیا ہے جو کہ فطرت ، مزاج اور نفسیات کے خلاف ہیں ؟ بحیثیت ایک تعلیم یافتہ، معتبر اور قابل احترام خاتون آپ اس پر روشنی ڈالئے۔

والسلام۔

فاروق بھائی

میرے خیال میں اس آیت میں ممکنہ جرم "عدم ہم آہنگی کا اندیشہ " کا نہیں بلکہ صرف’شوہر کے مال اور ناموس میں خیانت کا اندیشہ "ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ شادی دو فریقین کے درمیان ایک معاہدہ ہے جو دونوں فریقین کی دیانت کا متقاضی ہے
اور کوئی بھی معاہدہ فریقین کو خیانت کی صورت میں رعایت نہیں دیتا۔
ہمارے معاشرے میں70 فیصدخانگی جھگڑوں میں جن معاملات پر عدم ہم آہنگی پائی جاتی ہے وہ زیادہ تر معاشی نا آسودگی اور سسرالی رشتوں میں ناہمواری سے پیدا ہوتے ہیں ۔ اگر عدم ہم آہنگی کی وجہ معاشی نا آسودگی یا سسرالی چپقلش ہے تو شوہر کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ بیوی پر ہاتھ اُٹھائے۔ اور نہ ہی اسلام کی آڑ لے کر ایسا کرنے کی اجازت ہے۔

والسلام
زرقا
 

زرقا مفتی

محفلین
دوستو ! میں نے نہایت خاموشی سے ہر پیغام کا مطالعہ جاری رکھا ۔۔۔ خوشی ہوئی کہ سب کی اس حساس موضوع پر بڑی باریک بینی سے سوچتے ہیں۔۔۔۔ ماشااللہ

ایک چھوٹی سے بات سوچتے ہیں ۔۔۔ ہم سب۔۔۔۔ اس ساری اور اس سے مشابہ بحث میں ایک بات بڑی خاص ہے جسے ہم بحث کی روانی میں نظر انداز کر جاتے ہیں ۔۔۔ وہ یہ ہے کہ اب تک کسی نے یہ نہہیں سو چا کہ کیا ۔۔۔۔
اللہ صرف مرد سے مخاطب ہے ؟
کیا اللہ کا نائب صرف مرد ہے جسے اشرف المخلوقات کہتے ہیں ؟
کیا اس کارخانہ قدرت کا سارا بوجھ حضرت مرد کے پاس ہے ؟

اگر قران کا مخاطب صرف مرد ہے تو دوستو !

اللہ کی تخلییق میں سب سے افضل تو مرد ہوا ۔۔۔۔۔ یا نہیں ؟
کائنات صرف اور صرف "مرد" کے لئے پیدا کی گئی ۔۔۔۔ یا نہیں ؟
تمام مخلوقات میں صرف "مرد " افضل ہوا ۔۔۔۔ یا نہیں ؟

افسوس میں جو چاہتا تھا وہ یہاں بھی نہیں ملا ۔۔۔ یہ بحث بھی "ملا" کی ملائیت اختیار کر گئی۔۔۔ ہم پھر لفظوں، تراجم اور تشریحات اور منطقوں کے گرداب میں پھنس گئے۔۔۔۔ قران کو منظق، تراجم اور ڈر ڈر کر سمجھنے کی سعی ہوتی رہی تو تقیننا ہم کبھی بھی اس کے درست فلسفے کو نہیں سمجھ سکیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا واقعی یہ دنیا مرد کے لیے تخلیق کی گئی ؟۔۔۔۔۔۔ اگر ہماری سوچ صرف یہیں تک ہے تو پھر سب بیکار ہے۔۔۔۔
اگر ہم عورت کو ثانوی درجہ دیتے ہیں تو بھی بیکار ہے۔۔۔۔

میں ایک نالایق انسان ہوں۔۔۔۔ صرف ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔

قران نے جو کہا اور ہم نے جو بحث میں سمیٹا ۔۔۔۔۔ کیا اس پر آپ سب لوگ مطمئن ہیں ؟ کیا دل مانتا ہے یہ سب ؟

اگر نہیں تو پھر یاد رکھیے ۔۔۔۔ قران کو دل سے سمجھیے ۔۔۔ یہ ایک احساس ہے اسے محسوس کیجیے۔۔۔۔ درست بات سمجھ میں آجائے گی۔۔۔۔ ہر معاملے پر۔۔۔ انشااللہ۔۔۔۔

کیونکہ قران انسان کے دل پر نازل ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قر
ہم سب دعوی کرتے ہیں کہ ہم قران میں خود تفکر کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ مگر پھر وہی ہوتا ہے کہ تفکر ہم کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ ٹیبل پر سینکڑوں کتانبیں موجود ہوتی ہیں۔۔۔۔ حوالے، ترجمے، تشریحات، لغات وغیرہ۔۔۔ اور پھر بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم خود تفکر کر رہے ہیں۔۔۔۔ اور ساتھ ہی اپنے دعوے کی تردید بھی کرتے جاتے ہیں۔۔۔ حوالے دے کر۔۔۔۔ کیا ایسا نہیں کیا ہم نے اس بحث میں ؟

ہماری اپنی سوچ کہاں ہے دوستو‌؟

بولیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یاد رکھیں ۔۔۔۔ جب تک ہمارا دل مطمئن نہیں ہو جاتا ہم پرسکون نہیں ہو سکتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علم ہمارے اندر ہے ۔۔۔۔ وجدان کی آنکھ سے بھی تو دیکھیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قران پڑہنے کی نہیں محسوس کرنے کی کتاب ہے۔۔۔۔

اس سے آگے کیا کہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس خوش رہیے

اور اتنا یاد رکھیے۔۔۔۔ اللہ نے انسان کو اپنا نائب کہا ہے ۔۔۔ صرف "مرد" کو نہپیں۔۔۔۔۔ اور اگر "عورت " ایک انسان ہے تو پھر ہم نے کیا کیا اس ارٹیکل میں ؟

تفکر کیجیے۔۔۔۔ :)

یونس صاحب
میرا کسی دینی جما عت سے کوئی تعلق نہیں نہ ہی میںقدامت پسند ہوں
آپ کی پوسٹ دیکھی اس میں کوئی نئی بات نہیں
انسان کو اشرف المخوقات اسی لئے بنایا گیا کہ وہ سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے
ہم جب کوئی کھلونا یا تصویر بناتے ہیں تو اس کو اپنی مرضی سے گھر کے کسی گوشے میں جگہ دیتے ہیں یا ناکارہ سمچھ کر پھینک دیتے ہیں یا تلف کر دیتے ہیں اور یہ سب کرنے میں ہم اپنی تخلیق سے مشورہ نہیں لیتے کہ تمہیں یہ فیصلہ قبول ہے یا نہیں
اگر کل کو ہم کوئی سوچنے والا روبوٹ ایجاد کر لیں اور وہ اپنی من مانی سے اپنے مقام کا تعین کرنے لگے تو ہم کیا کریں گے؟؟؟
سو پہلے تو کائنات میں اپنے مقام پر غور کیجئے

میں اپنی بساط کے مطابق جتنا بھی غورو فکر کر سکتی ہوں اسی نتیجے پرپہنچتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے دُنیا انسان کے لئے بنائی ہے
اور میرے ایمان کے مطابق سب سے پہلے انسان حضرت آدم ایک مرد ہی تھے اس کے بعد ان کی رفیقہ حیات کو انکی پسلی سے پیدا کیا
یعنی عورت مرد کی ذات کا حصہ ہے یعنی مرد اور عورت ایک اکائی کی تقسیم شدہ صورت ہیں


عورت کو کائنات میں ثانوی حیثیت ہر گز نہیں دی گئی
البتہ عورت اور مرد کے دائرہ ء کار الگ الگ ہیں

مرد اگر جسمانی لحاظ سے طاقتور ہے تو عورت جذباتی لحاظ سے اس سے کہیں زیادہ مظبوط ہے

جبکہ زہنی لحاظ سے عورت مرد سے کسی طرح کمتر نہیں

آپ نے لکھا قرآن کا مخاطب مرد ہے جی ہاں کیونکہ قرآن وحی کی صورت میں ایک مرد پیغمبر پر نازل ہوا

قرآن کی اکثر آیتوں کا مخاطب ایمان والے ہیں مرد یا عورت نہیں

اور معاشرہ مرد عورتوں دونوں سے ملکر بنتا ہے

قرآن صرف پڑھنے یا محسوس کرنے کے لئے نہیں پڑھ کر سمجھنے اور عمل کرنے کے لئے ہے

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا کریں

والسلام

زرقا
 
یونس صاحب
میرا کسی دینی جما عت سے کوئی تعلق نہیں نہ ہی میںقدامت پسند ہوں
آپ کی پوسٹ دیکھی اس میں کوئی نئی بات نہیں
انسان کو اشرف المخوقات اسی لئے بنایا گیا کہ وہ سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے
ہم جب کوئی کھلونا یا تصویر بناتے ہیں تو اس کو اپنی مرضی سے گھر کے کسی گوشے میں جگہ دیتے ہیں یا ناکارہ سمچھ کر پھینک دیتے ہیں یا تلف کر دیتے ہیں اور یہ سب کرنے میں ہم اپنی تخلیق سے مشورہ نہیں لیتے کہ تمہیں یہ فیصلہ قبول ہے یا نہیں
اگر کل کو ہم کوئی سوچنے والا روبوٹ ایجاد کر لیں اور وہ اپنی من مانی سے اپنے مقام کا تعین کرنے لگے تو ہم کیا کریں گے؟؟؟
سو پہلے تو کائنات میں اپنے مقام پر غور کیجئے

میں اپنی بساط کے مطابق جتنا بھی غورو فکر کر سکتی ہوں اسی نتیجے پرپہنچتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے دُنیا انسان کے لئے بنائی ہے
اور میرے ایمان کے مطابق سب سے پہلے انسان حضرت آدم ایک مرد ہی تھے اس کے بعد ان کی رفیقہ حیات کو انکی پسلی سے پیدا کیا
یعنی عورت مرد کی ذات کا حصہ ہے یعنی مرد اور عورت ایک اکائی کی تقسیم شدہ صورت ہیں


عورت کو کائنات میں ثانوی حیثیت ہر گز نہیں دی گئی
البتہ عورت اور مرد کے دائرہ ء کار الگ الگ ہیں

مرد اگر جسمانی لحاظ سے طاقتور ہے تو عورت جذباتی لحاظ سے اس سے کہیں زیادہ مظبوط ہے

جبکہ زہنی لحاظ سے عورت مرد سے کسی طرح کمتر نہیں

آپ نے لکھا قرآن کا مخاطب مرد ہے جی ہاں کیونکہ قرآن وحی کی صورت میں ایک مرد پیغمبر پر نازل ہوا

قرآن کی اکثر آیتوں کا مخاطب ایمان والے ہیں مرد یا عورت نہیں

اور معاشرہ مرد عورتوں دونوں سے ملکر بنتا ہے

قرآن صرف پڑھنے یا محسوس کرنے کے لئے نہیں پڑھ کر سمجھنے اور عمل کرنے کے لئے ہے

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا کریں

والسلام

زرقا

محترمہ زرقا صاحبہ با لخصوص اور دیگر قاری حضرات !

ایک اور سوال ۔۔۔۔ کیا مرد اور ایک اکائی کے جز ہیں ؟
ھاں یہ ایک خوبصورت سچ ہے ۔۔۔۔

اب ایک اور سوال جو اس سوال سے نکلتا ہے۔۔۔۔ اور اس کی حوبصورتی اور حسن میں اللہ کی مشیت دیکھتے ہیں کہ اس نے کیا خوبصورت موضوع رکھا ہے تفکر کے لئے حضرت انسان میں۔۔۔۔۔

تھوڑی سے گہرائی میں جاتے ہیں یعنی جسم کے اندر داخل ہوتے ہیں۔۔۔۔۔

یہ روح کیا ہے‌؟
اگر یہ ایک میازم ہے تو کیا مرد اور عورت ایک روح کے دو پرتو ہیں ؟

:)

ایک خاص بات اور یہ مسالک، مذہبی وابستگی، پیرو کاری۔۔۔۔ ذرا اس سے بلند ہوکر تفکر کرتے ہیں۔۔۔۔۔
آیئیے چیونٹیوں کے بل سے نکل سے کر ذرا بلندی کر طرف پرواز کرتے ہیں۔۔۔۔
 
زرقا میرا خیال ہے آپ یونس صاحب کی بات کا غلط مطلب لے گئی ہیں شاید یونس صاحب یہ کہہ رہے تھے کہ اس آرٹیکل کو ایسا پڑھا جا رہا ہے جیسے اس کا مخاطب صرف مرد ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے یعنی اس کا مخاطب دونوں ہیں مرد اور عورت اس لیے ہمیں اسی تناظر میں دیکھنا ہے اسے کہ یہ حکم دونوں کو سنایا جا رہا ہے ایک حصہ میں ایک فریق کو اس کا حق اور دوسرے کو اس کا فرض اور دوسرے حصہ میں دوسرے فریق کو اس کا فرض اور پہلے فریق کو اس کا حق بتایا جا رہا ہے۔

میں بھی اس فہم سے متفق ہوں کہ اگر ہم اپنی حیثیت پر غور کر لیں‌اور اپنے فرائض کو سمجھ لیں اور یہ سوچ لیں کہ ہمارے ذمہ کیا فرائض ہیں‌تو یقینا حیثیت اور مرتبہ کا فرق بھول جائے گا ہمیں کیونکہ پھر ہمیں اپنی کوتاہیوں اور غفلتوں کی فکر پڑ جائے گی نہ کہ اپنے مقام کو گھٹانے اور بڑھانے کی فکر۔ آپ سے اس پوسٹ پر رائے کے اظہار کے لیے اس لیے کہا میں نے کہ آپ عورتوں کی ترجمانی کر سکیں‌اور جن خیالات تک مرد حضرات نہیں پہنچ سکے یا کچھ اور مرد حضرات کو یہ شکوہ ہے کہ عورتوں کی حق تلفی ہوئی اس کا کسی حد تک ازالہ ہو سکے ویسے تو یہ ازالہ ہونا ناممکن ہے کیونکہ جو لوگ یہ گمان رکھتے ہیں کہ ان بزرگوں نے حق کا ساتھ نہیں دیا جنہوں نے حق کے لیے تمام صعوبتیں سہی اور دین پھیلانے کے لیے ہر طرح کی قربانی دی اب ان کے دامن پر آج چند ترجمہ شدہ کتابیں پڑھ کر لوگ ان کی ایمانداری پر شک کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے تعصب سے کام لیا ہوگا اور عورتوں کا حق مار کر ترجمہ اور تفسیر کی ہے جبکہ اگر ایسا ہو تو وہ ہمیں کچھ دیانتدار لوگ ایسے ضرور ملنے چاہیے تھے جو وہی تشریح اور تفسیر کرتے جو آج کے روشن خیال مفسرین روشن خیالی کے تحت کرتے ہیں۔

کیا سبھی علما مردانہ انا کا ہی شکار رہے ہیں اور چند لوگوں نے بھی انا سے اٹھ کر علم اور تحقیق کا حق ادا نہیں کیا تھا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 
شکریہ محب ۔۔۔۔۔۔ میری بات سمجھنے کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بس یہی افسوس مجھے رہتا ہے۔۔۔۔ کہ جو کہنا چاھتا ہوں وہ میرے قاری تک پہنچ نہیں پاتا ۔۔۔۔

مگر صاحبو میں تو خاصی سلیس اردو استعمال کرتا ہوں۔۔۔۔
:confused:
 
قرآن کا طرذ تخاطب عام طور پر اجتماعی ہے۔ جیسے "‌اے تمام لوگو" اور یہ کہنا کہ یہ مردوں کو مخاطب کرکے لکھا گیا ہے کافی کھینچ تان کر درست تو ہو سکتا ہے لیکن ایسا ہے نہیں۔

آپ کو ملے گا، " کہہ دیجئے-- اے تمام کافرو " - اس کے لئے مذکر یا مونث صیغہ نہیں استعمال کیا گیا ہے۔ یہ ہمارا سوچنے کا انداز ہے کہ ہم اس میں سے کافر عورتوںکو نکال دیتے ہیں۔

اسی طرح " اے تمام لوگو جو ایمان لائے ہو" سے ہم صرف مرد نہیں سمجھ سکتے۔

احکامات میں جب کبھی رسول اللہ کو ڈائرکٹ مخاطب کیا ہے تو صیغہ ضرور مذکر واح متکلم کا ہے - اور جب بھی ان کو حکم دیا کے یہ کہہ دو تو " لوگوں یعنی الذین "‌ کا استعمال کیا۔

یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ قرآن ہم کو ایک قوم کی حیثیت سے مخاطب کرتا ہے، کیوں کے اس مقصد ہی قوم بنانا ہے۔ ایک ایسی ریاست جس میں ایک فلاحی نظام ہو۔

قرآن مسلمانوں سے پہلے "زمانہ جاہلیت" کے لوگوں کے لئے آیا، بہت سے لوگ اپنی روایات پر بری طرح قائم رہے ، حتی کے قرآن کے معانی بھی صرف و نحو میں تبدیلی کرکے اپنی مرضی کے کئے۔ یہ کام قرآن سے پہلے بھی الہامی کتب کے ساتھ ہوتا رہا۔ جس سے اللہ تعالی نے اپنی ناراضی اظہار قران میں ایک سے زائد مقام پر کیا ہے۔ بس قرآن کو ذہن کھلا رکھ کر پڑھنے کی ضرورت ہے۔

اس سلسلے میں عرض‌یہ ہے کہ اس آیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالی نے مارنے کی اجازت دی اور رسول نے اس کی مخالفت کی۔ کیونکہ احادیث اس آیت کے عام معنوں کے مخالف ہیں۔ اگر آپ "اضربوھن"‌ کو ان معنوں کے ساتھ پڑھئے جو قرآن اس لفظ کے لئے عام طور پر فراہم کرتا ہے ، جو کہ " زور سے پیش کرنا " ہیں تو تمام بات مختلف ہوجاتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب
والسلام
 
Top