عورت ذات بھی عجیب گورکھ دھندا ہے

ربیع م

محفلین
شکریہ حضور والا۔ یہی تلاش انسان کو کیا سے کیا بنا دیتی ہے۔

احمد بھائی لکھنے لکھانے کا کام آج سے سولہ سترہ سال قبل بہت کیا ہے۔ پہلے رومن میں لکھتا رہتا تھا، پھر ان پیج آیا تو اس پر شروع ہو گیا۔ اردو ٹائپنگ ویسے ہی آتی تھی کہ بائیس پچیس برس قبل ٹائپ رائٹر پر سیکھی تھی (اب تو ٹائپ رائٹر کو ہاتھ لگائے بھی ناجانے کتنے سال گزر گئے ہیں) اور مہارت کا کوئی پروفیشنل فائدہ تو نا اٹھایا البتہ لکھنے لکھانے میں بہت وقت صرف کیا۔

شوقیہ کہانیاں بھی لکھیں، افسانے بھی، ایک تیس چالیس صفحات پر مشتمل ناولٹ بھی زیر تعمیر رہا، لیکن جب جی اوب گیا تو سب سے بے نیازی ہی برتتی چلی گئی۔ اب بھی بہت کچھ لکھتا رہتا ہوں بس پبلک نہیں کرتا یا پھر یوں کہ اب بس اپنے لیے ہی لکھتا ہوں، لطف لیتا ہوں اور پھر گم کر دیتا ہوں۔

ویسے ہماری اِکا دُکا تحریریں اسی محفل پر موجود ہیں۔ شاید آپ انہیں دیکھ نہیں پائے۔ ایک ماخوذ ہے لیکن اس کو اپنی تحریر کہہ سکتے ہیں

نین سکھ سرمہ
سلام باؤ جی
ہم شدت سے مزید کے منتظر رہیں گے!
ھل من مزید؟؟!!!
 

ٹرومین

محفلین
واہ چوہدری صاحب اتنا اچھا لکھتے ہیں۔:)(y)
مجھے سرگوشی کا استعمال نہیں آتا ورنہ پھر یہ کہنا تھا۔۔۔
ویسے کہیں اس تلاش میں ہی تو دو نہیں کی تھی:p
سرگوشی کے استعمال کا باتصویر ٹیوٹوریل بناکر جب پوسٹ کرنے لگا تو وہاں اس کا ٹیوٹوریل پہلے ہی تجمل حسین بھائی نے بنا رکھا تھا۔:)
نسخۂ سرگوشی: پیغام میں سرگوشی شامل کریں۔ :)
 

الشفاء

لائبریرین

ٹرومین

محفلین
:eek:
کہہ تو درست رہے ہیں آپ ۔ لیکن
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔۔۔:)
سرگوشی کے استعمال کا باتصویر ٹیوٹوریل بناکر جب پوسٹ کرنے لگا تو وہاں اس کا ٹیوٹوریل پہلے ہی تجمل حسین بھائی نے بنا رکھا تھا۔:)
نسخۂ سرگوشی: پیغام میں سرگوشی شامل کریں۔ :)
 
عورت ذات بھی عجیب گورکھ دھندا ہے۔۔ مل جائے تو نظر نہیں آتی، نا ملے تو اور کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا۔

عورت کے وجود میں بسی خوبصورتی کا زہر تو ویسے بھی ہر کس و ناکس کی رگ رگ میں دوڑتا ہے۔ پر۔۔۔ یہاں وجود کی خوبصورتی کسے مطلوب ہے؟ بس ایک عجیب سی طلب ہے، جو کسی آتش کدے میں بھڑکتی ہوئی کبھی نا بجھنے والی آگ کی طرح، کب کے تار تار ہوئے دامن کو مزید لپیٹوں میں لیے ہمیشہ سے جلائے چلی آ رہی ہے۔​

کوئی مجھ نادان سے پوچھے کہ ساری عمر کیا کیا ہے تو میں۔۔۔ میرے پاس تو اور کوئی جواب ہی نہیں۔۔۔ صرف اتنا ہی کہہ سکوں گا کہ عورت ذات کی ایک جھلک دیکھنے کا انتظار کیا ہے اور انتظار بھی ایسا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔

میں جو آدم کا سب سے نالائق بیٹا ۔۔۔ ہاں۔۔۔ میں آوارہ فکر، صدیوں کا بھوکا پیاسا، جس نے دل کی امنگوں کی عمر کا تمام حسن اک تلاش کی نذر کیا ہے، جب جب بے خود کر دینے والی کسی چاندنی رات کے سحر کا شکار ہوجاتا ہوں تو مجھے اک نشہ سا چڑھ جاتا ہے، مصنوعی سا، عارضی سا۔ نشہ اترتا ہے تو ۔۔۔ مجھے پھر سے الجھن شروع ہو جاتی ہے ۔۔۔ اونہوں ۔۔۔ اس کا زہر بھی اثر پذیر نہیں ۔۔۔یہ وہ نہیں جس کی مجھے تلاش ہے۔ اور میں پھر سے وقت کی گرد جھاڑ پونچھ کر اک نئی تلاش میں جُت جاتا ہوں۔۔۔ کہ نہیں۔۔۔اس بار بھی نہیں ملی۔ ایک کوشش اور۔۔۔ شاید اگلی بار، شاید۔​

کہاں کہاں نہیں تلاشا۔۔۔کسی کے پاس اکڑ کر گیا، کسی کے پاس گھٹنوں کے بل چل کر، کہیں کورنش بجا لایا اور کہیں قیام کی نیت بھی زیر لب دہرا لی ۔۔۔ کوئی پاس بلا کر کھوج ڈالی اور کسی کو دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بس تلاشتا ہی چلا گیا۔

لیکن۔۔۔

میرا ان کہا جذبہ، بے نام سی تڑپ ، دل کی وہ گرہیں جو کسی اور وجود کے چاہنے سے کھل جانی چاہیے تھیں، بند کی بند ہی رہتی ہیں اور میرا دل کنوارے کا کنوارہ ہی رہ جاتا ہے۔ اور میں۔۔۔ پھر سے پُروا میں دُکھنے والے زخموں کی طرح یادوں کے گھاؤ سمیٹے، سنبھالے اک طرف ہو کر بیٹھ رہتا ہوں اور اس دکھ کو، اس تلاش کو جو صرف میری ہے، سینے میں چھپا لیتا ہوں۔​

میرے بے پرواہ دل میں یہ خواہش بھی کبھی نہیں جاگی کہ وہ کوئی پری رخ، شعلہ بدن، ماہ پارہ، مہ جبین ہی ہو، بھلے اس کی رنگت گلاب جامن کے گندھے میدے جیسی نہ ہو اور وہ شاعروں کے تخیل پرواز پر بھی پورا اترنے والی نا ہو ۔۔لیکن وہ عورت زاد تو ہو ۔

رات گئے سمندر کنارے ٹھنڈی یخ ہواؤں سے لڑتے بھڑتے، کسی ایک من پسند اور دل نشین کے اکلوتے پیغام کے انتظار میں رہتے رہتے، میں یہ جان گیا ہوں۔۔۔ کہ میری تلاش شاید ہی کبھی پوری ہو سکے اور میرا بوسیدہ ہوتا بدن ان صعوبتوں کو برداشت کرتے کرتے کسی روز ڈھے جائے گا۔ لیکن۔۔۔۔ میرا دل، جسے خیالوں کی آوارگی نے اب تک خوب بھٹکائے رکھا ہے، مجھے اس تلاش، اس جستجو، اس حصول کی شدت سے کبھی باز نا رہنے دے گا۔
دن ہفتوں میں، ہفتے ماہ و سال اور پھر سال ہا سال میں بیتتے چلے جا رہے ہیں، کئی بار یوں لگتا ہے کہ دم۔۔۔۔ بس اب سینے میں رکنے سا لگا ہے لیکن پھر تلاش کی جستجو اسے بحال کر ڈالتی ہے اور میں نئے سرے سے کسی اور طرف نکل پڑتا ہوں ۔۔۔ کہ اچھا۔۔۔ ایک تلاش اورسہی۔


وہ تلاش جو صبح ازل سے جاری ہے اور شاید دم رخصت تک جاری رہنی ہے۔​


واہ چوہدری صاحب، بہت اچھی اور کافی سنجیدہ تحریر ہے،
سب ٹھیک تو ہے ؟ کیا ہوا کہ من کی دنیا دھن کی دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دی ع۔
اے فکر رسا دیکھ بڑا بول نہ بول
گنجینہء راز اندھی نگری میں نہ کھول
جتنی جس کی ضرورت اتنی قیمت
ہیرا کبھی پتھر ہے کبھی ہے انمول
 
واہ چوہدری صاحب، بہت اچھی اور کافی سنجیدہ تحریر ہے،
مہربانی جناب والا
سب ٹھیک تو ہے ؟ کیا ہوا کہ من کی دنیا دھن کی دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دی ع۔
الحمدللہ
یہ تحریر ابھی کی نہیں ہے۔ ہوا یہ کہ کوئی دو سال قبل میں سعودیہ میں مقیم تھا تو تمیمی نامی کمپنی کے افسران و سٹاف سے کافی گپ شپ تھی کہ ان میں سے بیشتر پاکستانی نژاد تھے۔ اختتام ہفتہ پر اکثر ان سے ہی مل بیٹھ کر کسی ریسٹورنٹ، ساحل، مال وغیرہ پر شامیں گزاری جاتی تھیں۔ اک روز جبیل کیمپ کے ایگزیکٹو آفیسر نے صحرا میں ایک رات منانے کا فیصلہ کیا ۔ ہمیں بھی لیجایا گیا، خوب رونق لگی صحرا کے بیچوں بیچ خیمے گاڑ دئیے گئے، کھانے پینے اور موسیقی کا اہتمام کیا گیا۔ ہارمونیم اور طبلہ موجود تھا اور بیشتر حاضرین کشمیر و ملحقہ پہاڑی علاقے کے پوٹھوہاری لب و لہجے میں بولیاں، دوہڑے اور ماہیے گا رہے تھے۔ ماہیے وغیرہ عموماً ہجر و فراق کی منظر کشی کرتے ہیں، ایسے ہی سنتے سنتے کسی بول پر دل کچھ زیادہ ہی اداس ہو گیا تو میں وہاں سے اٹھ کرتھوڑا دور پرے ایک اور خیمے میں جا بیٹھا۔

خیمے کے اٹھے ہوئے پردے سے دور تک صحرا میں پھیلی ہوئی چاندنی نظر آنے لگی، دوہڑوں اور ماہیوں کی درد اور کوک بھری آوازیں ہارمونیم اور طبلے کی تھاپ سے مل کر ایک عجیب ہی سماں بناتی چلی جا رہی تھیں۔ ایسے ماحول میں خیمے میں تنہائی کیا میسر آئی، سوچوں اور خیالوں نے ایک ہی جملے کی یلغار کر دی۔ 'میں کون ہوں؟ کس تلاش میں ہوں؟' ۔ اسی میں کون ہوں، کس تلاش میں ہوں کی لگاتار ضربوں نے صبح کاذب کے وقت یہ تحریر ابھارنا شروع کر دی، شاید یہ اس مسلسل برستے کوڑے کا کتھارسس تھا اور پھر میں نے بہت کچھ لکھا۔

اصل تحریر اس سے کچھ زیادہ تھی اسی لیے یہ احباب کو ادھوری سی لگ رہی ہے۔ شاید میں اسے کسی انجام تک پہنچا سکوں تو پھر کبھی اسے احباب کے سامنے بھی پیش کردوں گا۔
 
سب ٹھیک تو ہے ؟ کیا ہوا کہ من کی دنیا دھن کی دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دی ع۔
اے فکر رسا دیکھ بڑا بول نہ بول
گنجینہء راز اندھی نگری میں نہ کھول
جتنی جس کی ضرورت اتنی قیمت
ہیرا کبھی پتھر ہے کبھی ہے انمول
عاماں بے اخلاصاں اگے نہیں مناسب کرنی
مٹھی کھیر پکا محمد کتیاں اگے دھرنی۔۔۔۔۔۔
 
باوے اراں وی ایسا پکا ٹھکا اصول بنا چھڈیا جے۔۔۔۔ دن اچ اک آدھ وار تے میں اے ضرور دہراندا آں۔۔۔۔
آپ کے ایسے اصول پر ہمیں ایک محفلین یاد آ رہی ہیں، ان کا بھی پکا اصول ہے کہ اس جملے کو روز دہرانا ہے:)

ہمارے بارے میں جس کو ہے جو گماں حق ہے​
 
Top