محمود احمد غزنوی
محفلین
ہوا بازی اور بیوی کی مناسبت سے یہ حکایت یاد آئی کہ:
ایک بہت پہنچے ہوئے بزرگ تھے۔ ایک دنیا انکے کمال کی معترف تھی۔ لیکن ایک شخصیت ایسی تھی جو انکو کسی خاطر میں ہی نہ لاتی تھی۔ اور وہ تھی انکی بیوی۔ ایک دن کسی دھیان میں مراقبے میں گم تھے کہ یکایک بیوی کی چنگھاڑتی ہوئی آواز نے ساری توجہ درہم برہم کردی۔
"اے سنتے ہو۔۔یہ کیا ہر وقت سرجھکائے کاہلوں کی طرح پڑے رہتے ہو۔ پتہ نہیں کون لو گ ہیں جو تمہیں پہنچا ہوا بزرگ سمجھتے ہیں، نجانے کیا نظر آیا ہے ان بیوقوفوں کو۔ حد ہوتی ہے حماقت کی بھی۔"
باباجی جو ہمیشہ سنی ان سنی کردیا کرتے تھے اور درزر سے کام لیا کرتے تھے، اس مرتبہ نجانے کس کیفیت میں تھے کہ فوراّ اٹھے اور گھر سے باہر نکل کر اپنی روحانی قوت سے دفعتہّ فضا میں بلند ہوئے اور کافی دیر تک فضا میں پرواز کرتے رہے۔ اپنے گھر کے صحن کے اوپر بھی کافی چکر لائے اور پھر نیچے اتر کر فاتحانہ انداز میں گھر میں داخل ہوئے۔
بیگم صاحبہ بھی دم بخود کسی انسان کو یوں فضا میں اڑتے ہوئے دیکھ رہی تھیں۔ یہ جب داخل ہوئے تو انہوں نے فوراّ خبر لی اور کہا:
"تم بڑے بزر گ بنے پھرتے ہو۔ ابھی میں نے اللہ کے ایک نیک بندے کو دیکھا جو فضاؤں میں چکر کاٹ رہا تھا۔ اگر تم میں بزرگی ہے تو کبھی ایسا کچھ کرکے دکھاؤ، ورنہ خلقِ خدا کو دھوکہ دینا بند کردو"
بابا جی نے فرمایا:
" اری نیک بخت تونے غور سے نہیں دیکھا؟ وہ آدمی میں ہی تو تھا جو اتنا اوپڑ اڑ رہا تھا اور اتنے چکر لا رہا تھا فضا میں"
بیوی نے آنکھیں سکیڑ کر تھوڑی دیر غور کیا اور پھر یہ کہا:
" اوہ۔۔۔تبھی تو۔۔میں بھی کہوں کہ یہ کون اناڑی ہے جو یوں ٹیڑھا ٹیڑھا اڑ رہا ہے، ذرا دیر کیلئے بھی ڈھنگ کے ساتھ نہیں اڑ رہا اور ڈگمگاتا ہوا ادھر ادھر چکر لگاتا جا رہا ہے۔ کوئی کام تو ڈھنگ سے کرلیا کرو"
ایک بہت پہنچے ہوئے بزرگ تھے۔ ایک دنیا انکے کمال کی معترف تھی۔ لیکن ایک شخصیت ایسی تھی جو انکو کسی خاطر میں ہی نہ لاتی تھی۔ اور وہ تھی انکی بیوی۔ ایک دن کسی دھیان میں مراقبے میں گم تھے کہ یکایک بیوی کی چنگھاڑتی ہوئی آواز نے ساری توجہ درہم برہم کردی۔
"اے سنتے ہو۔۔یہ کیا ہر وقت سرجھکائے کاہلوں کی طرح پڑے رہتے ہو۔ پتہ نہیں کون لو گ ہیں جو تمہیں پہنچا ہوا بزرگ سمجھتے ہیں، نجانے کیا نظر آیا ہے ان بیوقوفوں کو۔ حد ہوتی ہے حماقت کی بھی۔"
باباجی جو ہمیشہ سنی ان سنی کردیا کرتے تھے اور درزر سے کام لیا کرتے تھے، اس مرتبہ نجانے کس کیفیت میں تھے کہ فوراّ اٹھے اور گھر سے باہر نکل کر اپنی روحانی قوت سے دفعتہّ فضا میں بلند ہوئے اور کافی دیر تک فضا میں پرواز کرتے رہے۔ اپنے گھر کے صحن کے اوپر بھی کافی چکر لائے اور پھر نیچے اتر کر فاتحانہ انداز میں گھر میں داخل ہوئے۔
بیگم صاحبہ بھی دم بخود کسی انسان کو یوں فضا میں اڑتے ہوئے دیکھ رہی تھیں۔ یہ جب داخل ہوئے تو انہوں نے فوراّ خبر لی اور کہا:
"تم بڑے بزر گ بنے پھرتے ہو۔ ابھی میں نے اللہ کے ایک نیک بندے کو دیکھا جو فضاؤں میں چکر کاٹ رہا تھا۔ اگر تم میں بزرگی ہے تو کبھی ایسا کچھ کرکے دکھاؤ، ورنہ خلقِ خدا کو دھوکہ دینا بند کردو"
بابا جی نے فرمایا:
" اری نیک بخت تونے غور سے نہیں دیکھا؟ وہ آدمی میں ہی تو تھا جو اتنا اوپڑ اڑ رہا تھا اور اتنے چکر لا رہا تھا فضا میں"
بیوی نے آنکھیں سکیڑ کر تھوڑی دیر غور کیا اور پھر یہ کہا:
" اوہ۔۔۔تبھی تو۔۔میں بھی کہوں کہ یہ کون اناڑی ہے جو یوں ٹیڑھا ٹیڑھا اڑ رہا ہے، ذرا دیر کیلئے بھی ڈھنگ کے ساتھ نہیں اڑ رہا اور ڈگمگاتا ہوا ادھر ادھر چکر لگاتا جا رہا ہے۔ کوئی کام تو ڈھنگ سے کرلیا کرو"