عورت کا حق مہر

مہر عورت کی قیمت نہیں ہوتی اور نہ عورت کے پیار و عصمت کی کوئی قیمت ہوسکتی ہے ۔ یہ تو صدیوں سے ظلم اور بے بسی میں جکڑی عورت کو آزادی کا اختیار Freedom of Will عطا کرنے کے لیے اسلام نے عورت کو مہر کا حق دے دیا ۔ یہ ایک علامت symbol ہے جس کو قبول کر کے وہ مرد کو اپنانے کا اعلان کرتی ہے ۔ اگر وہ اسے قبول نہ ہو تو نہ مرد اس پر زبردستی کر سکتا ہے نہ خود اس کے ماں باپ ۔ دراصل مہر عورت کی رضا مندی Consent کا اعلان ہے ۔
قرآن مجید میں واضح طور پر جہاں بھی مہر کا حکم آیا ہے ’ نقد ‘ ادا کرنے کے مفہوم میں آیا ہے ۔ فقہاء نے اگرچہ اس کو اُدھار رکھنے کی اجازت دی ہے لیکن قرآن مجید یا سیرت رسول و صحابہ سے ایسا کوئی واقعہ نہیں ملتا کہ مہر کو اُدھار رکھا گیا ہو ۔ صحابہ (رضی اللہ عنہم) کی مالی حیثیت کیا تھی یہ تو سبھی جانتے ہیں ۔ اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہر ایک کو حسب استطاعت جتنا نقد ادا کرسکتے ہوں ادا کرنے کا حکم دیا ہے بشرطیکہ وہ عورت کو قبول ہو ۔
کسی صحابی (رضی اللہ عنہ) کو زرہ فروخت کرنے کا حکم دیا کسی کے پاس صرف ایک چادر تھی ، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے وہی چادر دینے کا حکم دیا ۔
کسی کو صرف قرآن مجید کی کچھ آیتیں یاد تھیں ، اس کے علاوہ ان کے پاس کچھ نہیں تھا ، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے وہی سورتیں عورت کو یاد دلادینے کے کام کو مہر کے طور پر ادا کرنے کا حکم دیا ۔
حضرت اُم سلیم (رضی اللہ عنہا) کا واقعہ قابل مثال ہے کہ انہوں نے ابوطلحہ (رضی اللہ عنہ) جیسے امیر شخص کے لیے مہر میں صرف کلمہ پڑھنے کی شرط رکھی۔ (اُس وقت تک ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اسلام نہیں لائے تھے ) ۔
شادی کے رقعوں پر النکاح من سنتی لکھوانے والے غور کریں کہ اگر اُدھار رکھنے کا جواز ہوتا تو سیرت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) و صحابہ (رضی اللہ عنہم) سے ہمیں بے شمار واقعات مل جاتے جو یقیناً بہت غریب تھے لیکن دلوں کے ایسے امیر کہ اگر وہ اُدھار بھی رکھتے تو ان کی طرف سے مہر کے ڈوب جانے کا گمان بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔
مہرکے فرض ہونے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ :
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاء بِمَا فَضَّلَ اللّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ // النساء:34
مرد کو عورتوں پر قوام اس لیے بھی بنایا گیا ہے کہ وہ اپنا مال خرچ کرتا ہے اور اس کی ابتداء مہر سے ہوتی ہے ۔ جہیز لے کر جہاں وہ اس آیت کو الُٹ دیتا ہے وہیں مہر کو اُدھار کر کے وہ ان تمام آیات کی خلاف ورزی کرتا ہے ، جن کے ذریعے عورت اس پر حلال ہوتی ہے
 
بالکل درست کہا آپ نے روحانی بابا ۔۔۔۔لیکن میں نے سنا ہے کہ صوبہ سرحد کے بعض علاقوں میں شادی کرنے کیلئے دولہا پر لازم ہے کہ دلہن کے والد کو ایک خطیر رقم پیش کرے، اور گمان غالب ہے کہ یہ رقم دلہن کو نہیں دی جاتی، چنانچہ یہ مہر نہیں ہے۔ کیا یہ بات درست ہے؟
 

نیلم

محفلین
بالکل درست کہا آپ نے روحانی بابا ۔۔۔ ۔لیکن میں نے سنا ہے کہ صوبہ سرحد کے بعض علاقوں میں شادی کرنے کیلئے دولہا پر لازم ہے کہ دلہن کے والد کو ایک خطیر رقم پیش کرے، اور گمان غالب ہے کہ یہ رقم دلہن کو نہیں دی جاتی، چنانچہ یہ مہر نہیں ہے۔ کیا یہ بات درست ہے؟
جی بالکل ایسا ہوتا ہے ۔کچھ لوگ اُسی رقم سے جہیز دے دیتے ہیں اور ایسا افغانی بھی کرتے ہیں دولہا والوں سے رقم لے کر رشتہ کرتے ہیں ،،،
ایسا کیا عرب لوگ بھی کرتے ہیں ؟ یہ بھی سُنا ہے میں نے
 
بالکل درست کہا آپ نے روحانی بابا ۔۔۔ ۔لیکن میں نے سنا ہے کہ صوبہ سرحد کے بعض علاقوں میں شادی کرنے کیلئے دولہا پر لازم ہے کہ دلہن کے والد کو ایک خطیر رقم پیش کرے، اور گمان غالب ہے کہ یہ رقم دلہن کو نہیں دی جاتی، چنانچہ یہ مہر نہیں ہے۔ کیا یہ بات درست ہے؟
بالکل غلط سنا ہے آپ نےایسا بالکل بھی نہیں ہوتا ہے صرف سوات میں ایک قبیلہ ایسا ہے جو کہ یہ کام کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ جو پشتو بولنے والا لڑکیاں بیچتا ہے سمجھ لو کہ وہ افغانی ہے۔
ہمارے صوبہ سرحد میں وہی ہندوؤں والی رسوم و رواج ہیں یعنی جہیز کی لعنت وغیرہ
 

زبیر مرزا

محفلین
ایک اہم معاملہ ہے جسے اکثرلوگ نہیں سمجھتے اورلاکھوں کا مہر محض لکھ دینے اور لکھوالینے کو ہی کافی سمجھ لیتے ہیں
 
Top