کئی ماہ کے بعد گھر آنے والا ڈاکٹر عظیم حیران تھا کہ شمع کی طرف سے کوئی جھگڑا نہیں کوئی لڑائی نہیں کوئی طنز اور چبھتی ہوئی باتیں نہیں کیا ہوگیا ہے اسے؟ بچوں کو شمع نے سختی سے سمجھا دیا تھا کہ خبردار اپنے باپ سے کسی نے بھی بدتمیزی کی یا کوئی ایسی ویسی بات کی ۔ بچے ماں کی گزشتہ ماہ کی حالت سے باخبر تھے لہذا چپ رہے ویسے بھی ان کی تربیت میں ہی نہیں تھا کہ ماں باپ سے بد تمیزی کریں اور ماں انہیں سمجھا چکی تھی کہ تمہارے باپ نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس پر اللہ کی شریعت میں امتناع ہو دوسری شادی کی نہ صرف شرع میں اجازت ہے بلکہ اسے رد کرنے کی تم لوگوں کے پاس کوئی وجہ نہیں ہے ۔میری خاطر باپ کے گستاخ مت بننا ورنہ میں اپنا دودھ نہیں بخشوں گی ۔ بچے چپ ہو گئے لیکن باپ سے ایک فاصلہ سا پیدا ہو گیا تھا ۔
ڈاکٹر عظیم کبھی عظیم مینشن اور کبھی اپنے دوسرے گھر رہتا آمدن کے معاملات میں پہلے ہی شمع والا گھر غفلت کا شکار تھا لیکن شمع ڈرتی تھی کہ اب پھر سے مالی معاملات میں ڈاکٹر عظیم کو پریشان کیا تو کہیں پھر وہ گھر چھوڑ کر نہ چلا جائے ۔فیصل البتہ نے ایف اے میں داخلہ لے لیا تھا اور اپنے والد کو گھر کے معاملات میں توجہ کے لئے کہہ چکا تھا ۔ ایک دن ڈاکٹر عظیم نے اپنے بیٹے فیصل کو بلایا اور اسے کہنے لگا ۔ دیکھو فیصل جب میں تمہاری عمر کا تھا تو نہ صرف اپنا خرچ اٹھاتا تھا میں چاہتا ہوں میری اولاد بھی خود کفیل اور اپنی محنت سے اپنا مستقبل تعمیر کرے لہذا یہ دو ہزار روپے ہیں چاہو تو انہیں لے لو اور آئندہ زندگی میں مجھ سے کسی قسم کی توقع نہ کرنا اور یہ میرا پسندیدہ فیصلہ ہوگا اور اگر تم چاہو تو جیسے چل رہا ہے چلتا رہے جب تم سمجھو کہ تم اپنا مستقبل سنبھالنے کے قابل ہو تب سے میرا مالیاتی تعاون بند ۔ فیصل پچھلے کچھ مہینوں سے جو کچھ دیکھ چکا تھا اور جس طرح سے معاملات سے گزر چکا تھا یہ اچھی طرح سمجھ چکا تھا کہ اب زندگی کے سفر پر خود ہی نکلنا ہوگا نہ کوئی ساتھ ہے نہ سہارا تو اس نے وہ دو ہزار روپے قبول کر لیئے ۔ دوسرے دن صبح گھر سے نکلا سب سے پہلے محلے میں شریف کی دکان پر گیا ، شریف قسطوں میں سامان بیچنے کا کام کرتا تھا ۔اسے چھے سو روپے ایڈوانس دے کر اس سے سائیکل قسطوں پر حاصل کی ۔ اس کی قسط ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار طے پائی ۔ سب کو معلوم تھا کہ ڈاکٹر عظیم کا بیٹا ہے لہذا کسی قسم کی ضمانت وغیرہ درکار نہ تھی ۔ پھر فیصل نے اردگرد محلے دار دوستوں سے بات کی تو سجیل نامی ایک دوست نے اسے دھاگے کی نلکیوں کا کام بتایا تو اس نے جعفریہ کالونی کے قریب اس کارخانے کا دورہ کیا ۔ ایک ڈبہ نلکیوں کا اسے نو روپے میں ملتا جو وہ گیارہ سے تیرہ روپے میں بیچتا لیکن اس کام میں ایک آدھ دن میں ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ ادھار اور پیسے نیچے لگانے والے اس کام کو برباد کر دیں گے ۔ پھر واپس آکر امی سے بات کی اتفاقا اس وقت ان کے پاس خالدہ بیٹھی ہوئی تھی ۔ یہ محلے دار خاتون شمع کی بیٹی بنی ہوئی تھی اس کا خاوند سائیکل پر گولیاں ٹافیاں بیچ کر گھر چلاتا تھا تو اس نے مشورہ دیا کہ فیصل میرے بندے کے ساتھ یہ کام کر کے دیکھ لے اللہ ہاتھ پکڑ لے تو اور کیا چاہیئے ؟ فیصل نے خالدہ کے خاوند بشیر سے رابطہ کیا اور اس سے کچھ سامان آزمائشی طور پر لے کر سائیکل کے پیچھے باندھا اور نکل کھڑا ہوا ۔ تین سے چار گھنٹے میں تمام سامان بک گیا اور اس میں سے اسے ایک سو بیس روپے کی بچت ہوئی جس میں سے ایک سو روپے اس نے امی کو دیئے کہ لیں ماں گھر کا خرچ چلائیں باقی اپنی راس مال کو پاس رکھا ۔ پندرہ سال کا فیصل بہت خوش ہوا اور اس کام کے کرنے کو تیارہو گیا۔ ستمبر میں کالج کھل گئے اور اسلامیہ کالج سول لائنز میں داخل فیصل کی نئی کلاسز کا آغاز ہوا۔
نئے کالج کی نئی زندگی سے تعارف ہو چکا تھا اور فیصل نے کالج میں این سی سی میں داخلہ لے لیا ، اس کے علاوہ کالج کی باکسنگ اور ریسلنگ ٹیمز میں بھی اس کی سیلیکشن ہو گئی تھی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں تقریری مقابلوں میں بھی کالج کی جانب سے شریک ہوتا فیصل اپنی ذات کی شناخت اور تسلیم کے سفر سے گزر رہا تھا ۔ اسی دوران اس کا گھر کو مالی طور پر سہارا دینے کا عمل بھی زوروں پر تھا اور روزانہ گھر پر ایک سو روپے دینے سے گھر کے اخراجات کا مسئلہ کم و بیش حل ہو چکا تھا ۔ وہ اور شمع دونوں کی کمائی سے اتنا ہو جاتا تھا کہ گھر چل جاتا لیکن پچھلے قرضے اب بڑھتے جا رہے تھے اور ڈاکٹر عظیم جو دوسری شادی کے بعد دونوں گھروں میں بٹا ہوا تھا اک اور ہی طرح سے حالات کو کنٹرول کرنا چاہتا تھا ۔
دوسری شادی کا گیم پلان اور اس کے کردار
اب شمع اور اس کے گھر کے حالات کو تو ہم دیکھ ہی چکے ہیں ذرا دیکھتے ہیں کہ اسی زمانے میں کیا کچھ دوسری طرف چل رہا تھا کہ شمع کا گھر تباہی کی طرف جاتا رہا اور ڈاکٹر عظیم نے پھر شادی بھی کر لی؟؟ تو جناب بات یہ ہے کہ ڈاکٹر عظیم کی دوسری بیگم عابدہ جو اب شہزادی عابدہ عظیم تھی سے شادی بہت لمبی گیم اور پلاننگ کا نتیجہ تھی اس کے بڑے کرداروں میں سے گھر میں توعابدہ کی ماں ، ڈاکٹر عظیم کا بڑا بھائی بھائی لطیف اس کی زوجہ کوثر ، باجی زہرہ ، بلال اور شہناز جو بلال کی بڑی بہن تھی کا کافی کردار تھا ۔ جبکہ گھرسے باہر سے ایڈووکیٹ سرور سندھو جو ڈاکٹر عظیم کا جاننے والا ایک وکیل تھا اور ڈاکٹر عظیم کو وہ اپنا محسن سمجھتا تھا کیونکہ جب وہ ایل ایل بی کر رہا تھا تو ڈاکٹر عظیم نے اسے اپنے گھر میں اپنے بیٹوں کی طرح رکھ کر پالا تھا اور اس کی تعلیم کے لئے تمام سہولیات فراہم کی تھیں اور وہ بھی بغیر کسی سابقہ تعلق واسطے کے۔ تو اس احسان کا بدلہ سرور سندھو نے اس معاملے میں ڈاکٹر عظیم کا ساتھ دے کر دیا۔
واقعہ کچھ یوں ہوا تھا کہ جن دنوں ڈاکٹر عظیم مدثرہ کو ملنے گوجر گورایہ جایا کرتا تھا انہیں دنوں اس کی بات چیت عابدہ سے شروع ہوئی جو بڑھتے بڑھتے پیار و محبت اور عہد و پیمان میں بدل گئی ۔اس معاملے میں پہلے شہناز کے ذریعے عابدہ سے جو ہم عمر اور آپس میں دوست تھیں پیام و سلام کا آغاز و تشدید ہوئی اس طرح ایک طرف شہناز کے ساتھ عابدہ کو لاہور بلوا کر خفیہ طور پر اس کا نکاح ڈاکٹر عظیم سے کروا کر اسے واپس ویسے ہی والدین کے گھر پہنچا دیا گیا اس نکاح میں بلال جو مدثرہ کا خاوند تھا ایک گواہ تھا ۔ جبکہ پھر دوسرے قدم کی صورت میں عابدہ کے باپ مرزا امانت بیگ کے پاس لطیف ، کوثر اور زہرہ رشتہ لے کر پہنچیں اس معاملے میں یہ خیال رکھا گیا کہ کہیں بھی ان کے چلتے ہوئے معاشقے کا ذکر یا بھنک تک کسی اور کو نہ پڑے۔ مرزا صاحب نے جب یہ پروپوزل سنا تو ان کی لائی ہوئی مٹھائی انہیں واپس دیتے ہوئے کہا میری بات سن کر جانا کہ کسی کا گھر اجاڑ کر میری بیٹی کا گھر بسے مجھے یہ قبول نہیں ہے لہذا اس رشتے سے انکار کو باعزت ترین جواب سمجھو اب کیونکہ تم لوگ مجھ تک عزت سے پہنچے ہو میں بھی عزت کا پاس رکھنے والا آدمی ہوںاس لئے یہ معاملہ یہیں کا یہیں ختم سمجھو ۔ یہ سب یہ سن کر واپس اپنے گھروں کو لوٹ آئے یہ معاملہ جن دنوں ہوا یہ وہی دن تھے جب مدثرہ اور بلال لاہور میں عظیم مینشن میں رہ رہے تھے اور زہرہ بی بی گاؤں میں رہتی تھی ۔
اب اس نکاح چند ماہ کے بعد اگلا کام یہ کیا گیا کہ عابدہ کی طرف سے ڈاکٹر عظیم سے تنسیخ نکاح کا دعویٰ دائر کیا گیا جس میں عابدہ کی طرف سے ڈاکٹر عظیم سے نکاح کو عدالتی تنسیخ کا امیدوار بنایا گیا ۔جیسے عدالت کا اصول ہوتا ہے کہ دونوں فریقوں کو صلح صفائی کے لئے موقع دیا جاتا ہے تو انہیں بھی موقع دیا گیا جس میں دونوں کی صلح ہوگئی لیکن اس صلح کے بعد عابدہ نے عدالت میں درخواست کی کہ کیوں کہ میں اب اپنی رضامندی سے اپنے خاوند سے صلح کر رہی ہوں میرے والدین مجھے جذباتی بلیک میل کرنے کی کوشش کے علاوہ میرے خاوند کو جعلی مقدمات یا پولیس کے ذریعے پریشان کر سکتے ہیں اس لئے عدالت پولیس اور انتظامیہ اور میرے والدین کو یہ حکم دے کہ وہ ہمارے معاملات میں نہ تو دخل دیں نہ ہمیں ہراساں یا پریشان کریں ۔ جیسے ہی عدالت سے تمام فریقین کے لئے احکام حاصل کیئے گئے اور ان احکام کی رجسٹرڈ ڈاک کے ذریعے متعلقہ مقامات پر وصولی کروا لی گئی ۔ اپنے ماں باپ کے گھر پر وصولی عابدہ نے باپ کے دستخط سے کی ۔ جب کہ انہیں خواب میں بھی شک نہیں تھا کہ ایسا کچھ ہونا ممکن ہے۔ گجر گورائیہ کے مقامی اور لاہور کے تھانے ، مرکزی پولیس افسران وغیرہ کو ان احکام کی وصولی کروا دی گئی ۔ پھر ان احکام کو چیلنج کرنے کا وقت گزرنے کا انتظار کیا گیا اور جیسے ہی وہ وقت گزرا شہزادی عابدہ اور ڈاکٹر عظیم دونوں نے گھروں کو چھوڑا اور لاہور آکر ایک فلیٹ لیا وفاقی کالونی میں، اس فلیٹ میں مکمل گھر کا فرنیچر ڈالا اور شہزادی عابدہ کے لئے زیورات اور کپڑے وغیرہ خریدے گئے اور نئی زندگی شروع ہوگئی۔
دوسری جانب جب عابدہ کے گھر میں یہ معلوم ہوا کہ عابدہ گھر سے غائب ہے تو اس کا والد اور بھائی دونوں تھانے اس کی گمشدگی کی رپورٹ کرانے تھانے پہنچے ۔ تھانے میں جب انہوں نے رپٹ درج کرانے کی درخواست دی تو تھانے والوں نے انہیں الٹا ذلیل کرنا شروع کر دیا کہ بیٹی کا بسا بسایا گھر کیوں خراب کرنا چاہتے ہو ۔ جب وہ اپنے گھر میں راضی خوشی رہنا چاہتی ہے تو تم کیوں مفت کے کیدو بننے کی کوشش میں ہو۔کیسے باپ ہو نام ہے حاجی مرزا امانت بیگ پانچ وقت کے نمازی علاقے میں مشہور ہو شریف ترین لیکن یہ حرکت تمہیں زیب دیتی ہے؟ چھے مہینے سے لڑکی کی صلح ہے اور وہ اپنے خاوند کے گھر میں ہے اور تم اب ڈرامے کرنے یہاں آن پہنچے ہو؟؟
مرزا امانت بیگ کے منہ سے اتنا ہی نکلا جا ؤ عابدہ رب کرے کبھی سکون نہ پاؤ ۔ باپ کا شملہ نیچا کیا، اسکی شرافت و نیکی کو رول کر رکھ دیا ساری عمر کی کمائی ایک مان ہی تھا وہ بھی توڑ دیا میرے لیئے تو مر گئی ۔ اپنے بیٹوں کو کہا چلو گھر اب ہماری دو ہی بیٹیاں ہیں خالدہ اور نائلہ ۔ بس ایک بار مل کر انہیں اپنا فیصلہ بتا دیں تو حجت تمام ہو جائے گی ۔ لطیف صاحب کے ساتھ دونوں بھائی اسی لئے آئے تھے اور لطیف صاحب نے انہیں یقین دلا دیا تھا کہ اس سب کا نہ انہیں علم ہے نہ ان کی اس میں رضامندی ہے اگر وہ چاہیں تو وہ انہیں ان کے گھر تک لے جا سکتے ہیں اور یوں لطیف صاحب دو آدمیوں کے ساتھ عظیم مینشن تک پہنچے تھے ۔ دوسری طرف اس نکاح کا گواہ بلال کتنا عرصہ تک شمع سے پیسے لے کر صرف ظاہری طور پر ڈاکٹر عظیم کو تلاش کرنے نکلتا رہا ۔ اور شمع کی حالت دیکھ کر دونوں بھائیوں نے یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ اس گھر نہ آئیں گے نہ انہیں پریشان کریں گے کہ اس عورت کی تو اپنی دنیا برباد ہو گئی اب اس سے کیا کہنا سننا ۔