کاشف پڑھائی چھوڑ چکا تھا اور والدین اور بھائیوں کے قابو سے نکل چکا تھا ۔ تیرہ سال کی عمر میں اسے شوق چرایا کہ وہ کوئی کام سیکھے گا ۔ اس سلسلے میں محلے کی پان سگریٹ کی دکان پر بیٹھنا شروع کر چکا تھا ۔ اور تھڑا زبان میں مہارت اس کے منہ پر چڑھتی جا رہی تھی ۔ ایک دن اپنے باپ ڈاکٹر عظیم سے اس کا یہ مکالمہ ہوتا ہے ۔
کاشف : ----السلام علیکم ڈیڈی جی
ڈاکٹر عظیم --= وعلیکم السلام میرا چیمی (چیمی کاشف کا پیار کا نام تھا) ۔ کیسے ہو بیٹے ؟
کاشف ----- -اللہ کا شکر ہے ۔ سب ٹھیک ٹھاک ہے ۔
ڈاکٹر عظیم ----پتر تو پڑھتا کیوں نہیں ہے۔پڑھ لے کچھ بن جا یار ۔
کاشف ------ آہو جو وڈے بن گئے میں بھی بن جاؤں گا۔
ڈاکٹر عظیم ---- کیا مطلب؟
کاشف ------ قیصر کو دنیا کی سیروں پر بھیج دیا ۔ میری ایک فرمائش پوری نہیں کر سکتے۔
ڈاکٹر عظیم --- یار وہ تمہاری ماں نے بھیجا ہے میں نے نہیں ۔ اس نے ویسے بھی تم لوگوں کو بہت ڈھیل دے رکھی ہے ۔ مجھے پوچھتی تو میں ناں جانے دیتا۔
کاشف ----- یعنی نہ پیسہ لگانا ہے نہ لگانے دینا ہے ۔ اس کے جانے نہ سے آپ کو کیا فرق پڑتا ہے؟ آپ نے کونسا خرچہ کرنا ہے۔
ڈاکٹر عظیم --- بکواس شروع کردے گا ۔ ماں کی طرح جیسی اس کی زبان کھلی ہوئی ہے ویسی تیری ۔ باپ ہوں تیرا حیا کر شرم کر۔
کاشف ----- جی جی نانا بن کے دوجا ویاہ کرتے ہوئے جیسی آپ کو آئی ویسی مجھے بھی آ جائے ۔ پر میرے ویاہ کا کنجر خانہ بھی تو امی کو ہی کرنا پڑنا۔ اس لئے میں خود کچھ بننا چاہتا ہوں۔
ڈاکٹر عظیم --- ایسی کتے والی زبان کے بعد تو کیا بنے گا ۔ اپنی ماں کا سر بنے گا ۔ دفع ہو جا میرے سامنے سے ۔
کاشف ----- جا رہا ہوں ۔ ایک کام کا کہا وہ بھی سنا پوچھا ہے نہیں اور نخرے کر رہے ہیں کنواری مشوق کی طرح۔
ڈاکٹر عظیم یہ الفاظ سنتے ہی سن سا ہو جاتا ہے اور دوسری طرف کاشف پیر پٹختا ہوا کمرے سے باہر نکل جاتا ہے۔
اور ڈاکٹر عظیم سوچ رہا ہے کہ کیسی عجیب صورت حال ہے کہ قیصر کہنا نہیں مانتا بس بد تمیزی نہیں کرتا لیکن کرتا اپنی مرضی ہی ہے۔ فیصل ہے تو وہ اب کمانے تو لگ گیا ہے لیکن میرے کہنے میں نہیں ہے ماں کی مانتا ہے جبکہ کاشف تو ہے ہی بدتمیز اس کی زبان پر تو جیسے کتا بندھا ہوا ہو ۔ یہی سب سوچتے سوچتے واپس چھوٹے گھر پہنچ جاتا ہے ۔
دروازہ کھٹکھٹایا عابدہ نے کھولا ۔ دیکھتے ہی پہچان گئی کہ ڈاکٹر صاحب کچھ سوچ رہے ہیں ۔ مسکرا کر استقبال کیا اور پانی کا گلاس لے کر کمرے میں آئی ۔ پانی دیتے ہوئے پوچھنے لگی۔
عابدہ ------: کیا ہوا پریشان ہیں؟
ڈاکٹر عظیم --: نہیں کچھ نہیں ۔
عابدہ ------: اچھا مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی؟
ڈاکٹر عظیم --: تم سے کیا غلطی ہو سکتی ہے میری شہزادی ۔ تم کیوں پریشان ہو جاتی ہو؟
عابدہ ------: نہیں میں سمجھی شاید کوئی بات بری لگ گئی ہو ۔
ڈاکٹر عظیم ---: تم وہم نہ کیا کرو ایسا کچھ نہیں ہے۔بس بچوں کا سوچ رہا ہوں کہ سب اپنی اپنی کر رہے ہیں میرے تو کنٹرول میں ہی کوئی نہیں ہے۔
عابدہ ------: سوہنے آپ ان سے امید ہی کیوں رکھتے ہیں ۔ لڑکوں کے کان بھرنے کو ماں ہے ناں تو وہ آپ کی کیوں سنیں گے؟
ڈاکٹر عظیم --: (کچھ سوچتے ہوئے) ہممم بات تو تمہاری غلط نہیں ہے۔
عابدہ ------: سچی بات تو یہ ہے کہ میں کبھی کبھی بہت ڈرتی ہوں ۔ اللہ آپ کا سایہ تاقیامت میرے اور عامر کے سر پر قائم رکھے ۔ اللہ نہ کرے آپ کو کچھ ہو گیا تو ہم تو رل جائیں گے۔ بڑے گھر کا تو نظام چل رہا ہے ۔ ہم کہاں جائیں گے ؟ نہ میرا اور عامر کا آپ کے سوا اس دنیا میں کوئی سہارا نہ کوئی بیک اپ ؟ پھر یہ سوچ کر دل کو تسلی دے لیتی ہوں کہ میرے سوہنے ہیں ناں کچھ نہ کچھ تو سوچ ہی رکھا ہوگا انہوں نے۔
ڈاکٹر عظیم ---: اللہ مالک ہے تم پریشان نہ ہوا کرو ۔ میں رہوں یا نہ رہوں تم پر کوئی آنچ نہیں آنے دیتا میں۔ اور رہی بات لڑکوں کی تو انہیں میں نکیل ڈال ہی لوں گا
اتنے میں عامر رونا شروع کر دیتا ہے ۔ عابدہ فورا عامر کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے اور اسے چیک کرتی ہے ۔ فیڈر دینے پر بھی وہ رک رک کر روتا ہے تو آخر ڈائپر چیک کرتی ہے اور اسے تبدیل کر دیتی ہے ۔عامر آخر تھوڑی دیر میں سو جاتا ہے ڈاکٹر عظیم اتنی دیر میں نہا دھو کر فریش ہو کر کمرے میں آجاتا ہے ۔ عابدہ فورا اٹھ کر کچن میں چلی جاتی ہے اور سالن ایک چولہے پر رکھ کر دوسرے پر تازہ روٹی بنانے لگ جاتی ہے ۔
ڈاکٹر عظیم ٹیلی ویژن پر خبریں لگا کر سن رہا ہے کہ صدر غلام اسحٰق خان نے میاں محمد نواز شریف کی حکومت کو آئین میں آٹھویں ترمیم کے تحت حاصل کردہ اختیارات کے تحت برطرف کر دیا ہے ۔اور میر بلخ شیر مزاری کو نگران وزیر اعظم بنا دیا گیا ہے ۔ڈاکٹر عظیم کا موڈ اور خراب ہو گیا اور کاشف کی طرف سے دھیان ہٹ کر نواز شریف کی طرف سوچنے لگا ۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی تو جہاں اس نے پاکستان کے لئے موٹر وے اور پیلی ٹیکسی اسکیم کے ذریعے اس نے نوجوانوں کو متحرک کرتے ہوئے کام کرنے کے لئے اسکیموں کا اعلان کیا تھا ۔ وہیں اتحاد بین المسلمین ، پرائیوٹائزیشن کے لئے اس کی حکمت عملی ، افغانستان ، ہندوستان سے تعلقات (بمبئی بم دھماکوں سے ان تعلقات میں دراڑ بھی اسی دور کا خاصہ تھی)۔ ابھی گزشتہ روز ہی تو نواز شریف نے ٹیلیویژن پر قوم سے خطاب میں صدر اسحاق خان کو گندی سیاست اور گھٹیا سازشیں کرنے والا قرار دیا تھا ۔ جواب میں صدر اسحق نے اگلے ہی دن حکومت برخاست کر کے اپنا غصہ ٹھنڈا کر لیا ۔
ڈاکٹر صاحب کو نواز شریف سے ویسے بھی محبت اور ہمدردی تھی کیوں کہ وہ کلثوم کا خاوند تھا جو داکٹر حفیظ کی بیٹی تھی اور گامے پہلوان کی نواسی ۔ اور ڈاکٹر حفیظ تو ڈاکٹر عظیم کا استاد اور محترم بندہ تھا جس نے ہمیشہ اس کا ساتھ دیا تھا اور بہت جگہ پر اس کے تعلقات کام آئے بھی تھے ۔ لہذا یاروں کے یار خاندان سے ایسا ہونا ڈاکٹر عظیم کو بہت برا لگا تھا ۔ دو مہینے بعد جسٹس نسیم حسن شاہ نے نواز شریف کی حکومت کو بحال کر دیا ۔ جسٹس نسیم حسن شاہ کو اس سے پچھلے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد نواز شریف نے چیف جسٹس بنایا تھا ۔اب جیسے ہی یہ حکومت بحال ہوئی اور بلخ شیر مزاری کی نگران حکومت ختم ہوئی فوج حرکت میں آگئی اور اقتدار کی راہداریوں میں نواز شریف کے ہی بنائے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل وحید کاکڑ نے (جو جنرل جنجوعہ کی ناگہانی موت کے بعد چیف بنے تھے جنرل جنجوعہ کی موت کے سلسلے میں بھی نواز شریف پر غیر مصدقہ افواہوں میں شکوک کا اظہار کیا گیا تھا جو عدالت میں ثابت نہ ہوا ) ایک ڈیل کے تحت غلام اسحاق خان ، نواز شریف اور جسٹس نسیم حسن شاہ سب کو فارغ کر دیا اب اس ڈیل میں ایک کے علاوہ سب فارغ ہوئے اس سے پاکستانی سیاست میں فوج کے اثر و رسوخ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بند دروازوں کے پیچھے کیا کچھ چلتا تھا ۔ یعنی چار لوگ بیٹھے فیصلہ کرنے اور ایک کے سوا سب فارغ ہو گئے اس طرح جمہوریت بچا لی جانے کا دعویٰ بھی کیا گیا تھا۔