عورت کہانی

عظیم مینشن 1992
فیصل کالج سے واپسی پر اپنے روز کے معمول کے مطابق اکبری منڈی سے گولیاں ٹافیاں خرید کر واپسی کے سفر پر انہیں بیچ باچ کر گھر واپس آچکا ہے ۔ ڈاکٹر عظیم جو حال ہی میں قریبی اسکیم کے بی بلاک میں ایک گھر خرید کر عامر اور عابدہ سمیت وہاں شفٹ ہو چکے ہیں ۔فیصل کو بار بار سمجھانے کے باوجود وہ اپنا گولیاں ٹافیاں بیچنے کا کام چھوڑنے کو تیار نہیں ہے ۔ جب بھی کہا گیا جواب دیتا کہ اب نہیں ڈیڈی اب تو کمائی کا چسکا لگا ہے ۔ میں گھر کو سپورٹ کر رہا ہوں آپ سے کچھ نہیں مانگتا اب کیسے اس کام کو چھوڑ دوں یہ حرام تھوڑی ہے ۔دوسرے گھر کو سپورٹ کرنے کے لئے اور کیا کام ہے جو میں کر سکوں گا ۔ جواب میں اس کی دلیل کچھ غلط بھی نہ تھی تو ڈاکٹر عظیم خاموش ہو جاتا ۔
ڈاکٹر عظیم کی بہن ممتاز جو امین بٹ سے بیاہی ہوئی تھی اپنے بیٹے زبیر کی شادی کا دعوت نامہ دینے ڈاکٹر عظیم کے گھر آئی تھی اس کے ساتھ اس کی بڑی سے چھوٹی بیٹی شازیہ تھی ۔ یہ بہن جوانی میں ہی نرسنگ کرنے کے بعد سرکاری ملازمت میں تھی اور کافی عرصے سے اب پسرور کے سرکاری اسپتال میں نرسنگ ہیڈ تھی ۔ ڈاکٹر عظیم نے اپنا مسئلہ فیصل کے کام والا اس سے بیان کیا اور اسے بتایا کہ بہن دیکھو میں گریڈ اٹھارہ کا سرکاری افسر ہوں ۔ گاڑیوں میں گھومتا ہوں ، لوگ مجھے عزت سے جانتے مانتے ہیں جبکہ فیصل گولیاں ٹافیاں بیچنے کا کام کر کے میری عزت کو بٹہ لگا رہا ہے ۔ اسے اس کام سے چھڑاؤ میری تو یہ مانتا نہیں ہے شاید تمہاری ہی مان لے ۔ممتاز نے پوچھا تو پھر کام کیا کرے گا وہ اسے تو کام کی عادت ڈال دی ہے تم نے اور حالات نے؟ تو ڈاکٹر عظیم نے کہا کہ میں اپنے دوست جاوید سے بات کرتا ہوں اس کا میڈیکل اسٹور ہے وہاں جا کر اس سے میڈیکل اسٹور کا کام سیکھ لے تو میں اسے میڈیکل اسٹور بنا دوں گا ۔

ممتاز کا دل فیصل پر تھا کہ یہ میرا داماد بنے اور ایسا سوچنا ہر بیٹی کی ماں کی فطری مجبوری ہے ۔ ہمارے معاشرے میں مائیں بیٹی کی شادی کا فیصلہ چاہے ان کی جوانی کے بعد کریں لیکن اگر کسی رشتہ دار کے ہونہار یا خوبصورت بیٹے کو دیکھ لیں تو دل میں آتا ضرور ہے کہ میری فلاں بیٹی کے لئے یہ کیسا رہے گا ۔ اور یہ عین فطری بات ہے ۔خاص طور پر ہمارے معاشرے میں جہاں بیٹیوں کی شادی ایک ایسا جوا ہوتا ہے کہ اگر دوسرا خاندان اچھا مل جائے تو اچھا نہیں تو عمر بھر کا عذاب تو ہے ہی۔

دوسرے دن واپسی سے پہلے ممتاز نے فیصل کو کہا : میرا پتر بات سن تو جانتا ہے میں نے تجھے ہمیشہ محبت اور پیار سے اپنا بچہ سمجھ کر پالا ہے ۔ اگر میں تجھے ایک بات کہوں تو کیا تو میری بات مانے گا؟

فیصل : جی پھپھو حکم کریں ۔ میں نے پہلے کبھی آپ کا کہا ٹالا ہے جو اب ٹالوں گا؟؟

ممتاز : بیٹے تو یہ کام چھوڑ دے تیرے بابا تجھے میڈیکل اسٹور کھلوا دیں گے کچھ عزت کا کام کر یہ گولیاں ٹافیاں بیچتے تمہیں کون بیٹی دے گا؟ اب تم جوان ہو رہے ہو اور ان باتوں کی تمہیں سمجھ ہونی چاہیئے ۔ میں نے عظیم سے بات کر لی ہے وہ تمہیں آج کل میں سب سمجھا دے گا ۔

فیصل : پھپھو ، ڈیڈی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کہتے بڑاکچھ ہیں لیکن کرنے کے وقت پر ٹال مٹول کرتے ہیں ۔ میڈیکل اسٹور کا کام کرنے کے لئے پیسے چاہیئیں اور ڈیڈی تو ہم پر خرچ ہی نہیں کرتے۔

ممتاز : ہے جھلا نہ ہو تو؟ تم ایسا کرو میرے کہنے پر کچھ دن اپنے باپ کا کہا مان لو، اگر وہ کوئی اثر نہیں کرے گا تو یہ کام تو تمہیں آتا ہی ہے تم دوبارہ شروع کر لینا؟

فیصل : صحیح کہہ رہی ہیں پھپھو ۔ ٹھیک ہے میں آج ڈیڈی سے بات کروں گا ان شاء اللہ

ممتاز : دیکھ میری پتری تم میرے سب سے پسندیدہ بھتیجے ہو ، پتہ نہیں کیا کیا سوچ رکھا ہے تمہارے لئے میں نے بس میرا ہیرا پتر کچھ بن جا پھر بتاؤں گی کیا ہے میرے من میں ۔

فیصل : اچھا پھپھو جیسے آپ کہیں ۔ آپ کو انکار نہیں ہو سکتا۔

ممتاز جانے سے پہلے ڈاکٹر عظیم کو ساری بات بتا کر واپس چلی جاتی ہے اور فیصل اپنی پھپھو کی سفارش پر اپنے والد کے کہے پر جاوید میڈیکل اسٹور پر شام دو گھنٹے کے لئے کام سیکھنے کے لئے جانا شروع کر دیتا ہے ۔ ڈاکٹر عظیم نے عظیم مینشن کے قریب ہی ایک دکان بھی کرائے پر حاصل کر لی اور وہاں پر کلینک بنا لیا ۔ البتہ بورڈ وغیرہ نہیں لگایا ۔ فیصل کوکالج اور میڈیکل اسٹور کے علاوہ کا جو وقت ملتا اسے اس کلینک پر بیٹھنے کو کہہ دیا گیا تاکہ ایمرجنسی پروسیجرز اور بنیادی طبی معاملات میں اس کی تربیت کی جا سکے ۔ اب فیصل صبح کالج ، دوپہر اور شام کلینک اور جب والد کلینک پر آجاتے وہ میڈیکل اسٹور پر جانا شروع ہو گیا ۔ اس سب میں گھر کی آمدن میں بڑی کمی ہو گئی ۔ اور شمع کے لئے گھر کو چلانا اور مشکل ہو گیا ۔
 
قیصر کی زندگی انٹر کرنے کے بعد فراغت کا شکار تھی ۔ فیصل اسلامیہ کالج سول لائنز میں پڑھ رہا تھا ۔ گھر میں شمع کے کلینک پر گھر کا مکمل نظام چل رہا تھا ۔ گاؤں سے ڈاکٹر عظیم کے بڑے بھائی حاجی طفیل صاحب کا اکلوتا بیٹا رحمت اللہ ڈگری کالج پسرور سے انگلش میں سپلی لے کر دوبارہ امتحان دے کر بی اے کرنے کے لئے لاہور آچکا تھا اور عظیم مینشن میں ہی اپنے چچازاد بھائیوں کے ساتھ رہتا تھا۔ قیصر کے دل میں طلبا سیاست کا کیڑا کلبلاء رہا تھا اور اقبال ٹاؤن کے کالج میں وہ ایم ایس ایف کا کمانڈو تھا اب تعلیم بند ہونے پر اس کے روابط اپنے یار دوستوں سے بہت کم رہ گئے تھے ۔ رحمت اللہ نے اپنے معاملے میں جب فیصل سے بات کی تو اس کے تعلقات اسلامی جمیعت طلباء سے تھے اور پنجاب یونی ورسٹی میں جمیعت کی وجہ سے رحمت اللہ کا سنٹر اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور بنوا دیا گیا اور رحمت اللہ کے ساتھ اس کا ایک دوست شفیق قریشی بھی تھا جسے گھر میں ٹھہرانے کی بجائے اسلامیہ کالج سول لائنز کا ہوسٹل روم دلوایا گیا تھا اور یہ وہ مراعات تھیں جو ان دنوں لاہور کے کالجوں میں عام تھی ۔ انہی دنوں بغیر میرٹ کے قیصر کا داخلہ بھی سول لائنز کالج میں کروا دیا گیا تھا جہاں قیصر نے بھی این سی سی میں شرکت کر لی تھی ۔ سول لائنز کالج میں قیصر کا دوست عامر نور خان بنا جس کا والد ریلوے پولیس میں ڈی آئی جی تھا ۔

فیصل کا اپنے ہائی اسکول کے دنوں میں چار لڑکوں سے گروپ تشکیل پا چکا تھا جن کے نام بالترتیب انوار ، قاسم ، یاسر ، اور عتیق تھے ۔ ان میں سب سے پرانا یاسر تھا جس کے والد لاہور میں مزنگ کے علاقے بھونڈ پورے کے امام مسجد تھے ۔پھر قاسم کا نمبر آتا تھا جو ایک ڈی ایس پی کا بیٹا تھا ۔ قاسم کے والد حمید خاں لاہور میں آئی جی آفس کی لیگل برانچ کے ہیڈ تھے لہذا پورے پنجاب میں پولیس میں ان کے تعلقات تھے ہی تھے ۔انوار الحق ساندے کا رہنے والا تھا اور میٹرک کے بعد بڑے بھائی کی کلینیکل لیبارٹری میں اس کی معاونت کرتا تھا ۔ اور قاسم کے گھر کے پاس ہی رہنے والا عتیق جو میٹرک کے بعد ڈسپنسر کورس کرنے کے لئے سر گنگا رام اسپتال میں داخلہ لے چکا تھا ۔

خاندان کی لڑکیوں اور لڑکوں کا ایک گروپ بن چکا تھا جس میں لطیف صاحب کے تینوں فرزند اور تین بیٹیاں ، ایک اور رشتہ دار کی چار بیٹیاں اور ڈاکٹر عظیم کے دونوں فرزند شامل تھے ۔ اس گروپ کے مقاصد بڑوں کے اختلافات کو دور کرنا اور محبتیں بڑھانا تھا اور بانی قیصر صاحب تھے ۔فیصل کا کردار اس گروپ کے فائنانسر کا تھا اگر ان کے پاس پیسوں کی آمد نہ ہوتی تو شاید وہ اس گروپ کے وجود سے ہی بے خبر رہتا ۔ اس میں لطیف تایا کے گھر میں بڑی لڑکی رضوانہ اور سب سے چھوٹا الطاف اس کے علاوہ فوزیہ، اس کا چھوٹا بھائی اعجاز اور اس سے چھوٹا فیاض اور سب سے چھوٹی صوبیہ تھی (مزے کی بات تو یہ تھی کہ اس گروپ میں جسے یونائیٹیڈ کزنز کا نام دیا گیا تھا باقاعدہ جنرل سیکرٹری، چیئرمین اور خزانچی موجود تھے اور پورے گروپ میں صرف قیصر ، اعجاز ، فیصل ،فیاض رضوانہ، فوزیہ ، سلمیٰ ، نجمہ اور عابدہ کی عمریں چودہ سے زیادہ تھیں باقی سب کی عمریں اس سے کم ہی تھیں لہذا وہ سب صرف خانہ پری تھے ۔ ) ، فیاض جو میٹرک کا امتحان اچھے نمبروں میں پاس کر چکا تھا۔اس سے قیصر کو بہت لگاؤ تھا ۔ ہوتا بھی کیوں ناں وہ اس کے دل کے قریب تھا ۔ ذہین تھا ، تایا زاد بھائی تھا تو اس کی خوشی قیصر کی خوشی تھی ۔ فیاض کو اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں پری انجینرنگ میں ایم ایس ایف سے تعلقات کی بنیاد پر داخلہ دلوا دیا گیا تھا اور اس میں قیصر کا بڑا کردار تھا۔نہ صرف یہ کہ فیاض کا داخلہ بغیر میرٹ کے لاہور کے معروف کالج میں کروایا گیا بلکہ سونے پر سہاگا اسی شہزادے کو لاہور کے دیال سنگھ کالج میں ایم ایس ایف کی بنیاد پر ہی ہوسٹل میں ایک عدد کمرہ بھی الاٹ کروایا گیا ۔

ایک اور واقعہ کچھ یوں ہوا کہ فیاض کو دیال سنگھ کالج کے ہوسٹل میں کسی یونین کے لڑکے کے بھائی کی جگہ میٹرک کا امتحان دینے کی آفر ہوئی اور وہ آفر اس نے لے لی ۔ کمرہ امتحان تک کے انتظامات ہو چکے تھے لیکن شومئی حرکت (اس میں قسمت کا کیا دخل) لاہور بورڈ کی ویجیلنس ٹیم نے چھاپہ مارا اور اسے پکڑ لیا ۔ اٹھا کر لاہور پولیس کے سول لائن پولیس اسٹیشن میں لائے اور پرچہ دے دیا گیا۔ قاسم کےوالد کی مداخلت کسی قسم کی مارپیٹ تو نہیں ہوئی البتہ فیاض صاحب تین برس کے لئے لاہور بورڈ میں سے بلیک لسٹ ہو گئے ۔ اس سے قیصر کو بہت دکھ ہوا اور اس کے لئے وہ خود کو قصور وار سمجھنے لگا۔لہذا اب وہ فیاض کے اور بھی قریب ہو گیا تھا۔

نئی صورت حال میں کچھ دنوں تک سٹور پر جاتے رہنے کے بعد کلینک پر کام بڑھ گیا ۔ ڈاکٹر عظیم کلینک پر کم ہوتا تھا جبکہ فیصل وہاں زیادہ ہوا کرتا تھا ۔ سب لوگ جانتے تھے کہ یہ ڈاکٹر کا بیٹا ہے لہذا اس سے دوائی وغیرہ لے جاتے تھے اور فیصل کو بھی یہ اچھا لگنے لگا تھا ۔لیکن پیسے ڈاکٹر عظیم کے لے جانے کی وجہ سے جب وہ اپنے گھر کی ضرورتوں کو پس پشت پڑتا دیکھتا تو اسے غصہ بھی آتا تھا اسی سب میں ایک دن غصے میں وہ کلینک بند کر کے گھر جا پہنچا اور کلینک پر جانے سے انکار کر دیا ۔
اس سب میں ڈاکٹر عظیم نے بہلا پھسلا کر فیصل کو پھر سے منا لیا اور یہ طے ہوا کہ عظیم مینشن کے لئے مناسب اخراجات نکال کر حسب ضرورت ڈاکٹر عظیم اس میں سے پیسے لے جایا کرے گا ۔ لیکن کلینک والی جگہ اب کسی اور کے حوالے ہوچکی تھی تو نئی جگہ پر نیا کلینک بنایا گیا جسے نام بھی فیصل کلینک کا دیا گیا ۔ اصولی طور پر یہ بات طے ہو چکی تھی کہ یہ کلینک اب فیصل کا ہے ۔ اسی کھینچا تانی اور کشمکش کہانی میں انیس سو بانوے گزر جاتا ہے اور تشریف لاتا ہے انیس سو ترانوے ۔

سال 1993
عامر ایک برس کا ہوا تو عابدہ کو پھر سے حمل ٹھہر گیا اور طاہر پیدا ہوا یہ بچہ گورا چٹا اور انتہائی خوبصورت تھا لیکن پیدا ہوتے ہی نمونیا کا شکار ہوگیا اور تین دن کا ہو کر فوت ہو گیا ۔ طاہر کا جنازہ عظیم مینشن سے اٹھایا گیا ۔ عابدہ ابھی اسپتال میں ہی تھی اور تمام تر انتظامات شمع نے کیئے ۔ اس بچے کی وفات پر وہ اتنا روئی کہ دیکھنے والوں کو ہول پڑتے اور لوگ حیران بھی ہوتے کہ سوکن کے جنے کی موت پر اتنا دکھ؟ یہ کیسی ولی عورت ہے کہ جلاپا اسے چھو کر نہیں گزرا اور اس نے نہ خود کبھی سوکن کے بچوں سے فرق رکھا نہ اپنی اولاد کو رکھنے دیا؟

عابدہ اس کے برعکس اپنے گھر میں شمع کے بچوں کی آمد پر ناک منہ بناتی لیکن ڈاکٹر عظیم کے سامنے وہ بالکل ایسا ظاہر نہ کرتی تھی ۔ نتیجہ بچے اس سے دور رہنا شروع ہو چکے تھے ۔ آنا جانا گھر میں تھا لیکن وہاں جا کر بچے ریزرو رہتے اور اپنے باپ کے سامنے اس کی شکایت بھی نہ کرتے تھے ۔ڈاکٹر عظیم کی نظر میں سب کچھ بہترین چل رہا تھا ۔ عابدہ تھوڑی ضدی تھی لیکن ڈاکٹر عظیم کے سامنے وہ بھی اپنی ضد سے ہار مان لیتی تھی ۔ اپنی چیزیں سنبھال کر رکھنے کے بہانے بچوں کو ان سے دور رکھتی تھی ۔لیکن دوسروں کی نظر میں سب کچھ آئیڈیل چل رہا تھا ۔شادیوں پر دونوں بیویوں کے ایک جیسے کپڑے ہوتے ۔ ایک دوسری کو وہ اپنے ہاتھوں کھانے کھلاتیں ، ڈاکٹر عظیم یہ دیکھ کر اپنے تئیں بہترین دو بیویوں والا گھر چلا رہا تھا لیکن اسے علم ہی نہ تھا کہ کیا کچھ اند ر ہی اندر پک رہا ہے ۔اور جب یہ دھماکہ ہوگا تو کچھ نہ بچے گا ۔

یونہی چلتے چلتے فیصل کا کلینک چل نکلا اور وہ عظیم مینشن کو پھر سے سپورٹ کرنے لگا ۔ انٹرمیڈیٹ کا امتحان ہوا تو اس امتحان میں فیصل صاحب فیل ہوگئے ۔ انٹر فیل ڈاکٹر صاحب سسٹم میں موجود نقائص کو استعمال کرتے ہوئے علاقے بھر میں ڈاکٹر بنے ہوئے تھے ۔ جبکہ ایک دن وہ انوار کو ملنے کے لئے اس کے اسپتال پہنچا تو وہاں پر اسپتال کا ماحول دیکھ کر سولہ سال کا فیصل جو جسمانی طور پر بیس اکیس کا لگتا تھا جس میں کچھ کردار اس کی جسامت کا تھا اور کچھ سر پر پڑنے والی ان مصیبتوں /ذمہ داریوں کا تھا جن سے پچھلے دو تین سال سے وہ جوج رہا تھا ۔انوار کو دیکھا تو دوسری منزل پر اسپتال میں لیبارٹری میں کچھ مائیکرو اسکوپس ، امتحانی نلیوں ، سنٹری فیوجز سے کچھ ایسا منظر نامہ بن رہا تھا
nci-vol-1859-150.jpg


انوار اک طرف بیٹھ کر ریڈیو سن رہا تھا اور ساتھ ساتھ کچھ خون کے نمونے ٹیسٹ کرنے کے لئے تیار کر رہا تھا ۔ فیصل نے خود کو اس ماحول میں بہت پچھڑا ہوا محسوس کیا ۔ ڈاکٹر کا بچہ ڈاکٹر لیکن کبھی لیبارٹری کو اندر سے نہیں دیکھا تھا ۔ جو دیکھا تو انوار کی علمیت کے رعب میں آگیا ۔ ظاہر ہے سکول سے نکلے دو سال ہو چکے تھے ۔ گھر میں اتنا کچھ چل چکا تھا کہ باہر کا پتہ ہی نہیں تھا۔ اس کے علاوہ ایسے ایسے اوزار پہلی بار دیکھے تھے ۔ ابھی بیٹھے ہی ہوئے تھے کہ انوار کے پاس ایک خوبصورت پری چہرہ کہ لباس سفید میں سر پر ڈوپٹہ ڈالے ہلکی سی ملمع لگے سرخ ہونٹ آئی اور آکر اس کے پاس پڑے رجسٹر میں کچھ اندراج کرنے لگی ۔فیصل کہ گاؤں کا پلا لیکن سولہ کی عمر میں جسمانی طور پر بیس اور ذہنی طور پر وہی سولہ برس کا باہو بلا۔ اور وہ حسینہ کہ جسے دیکھ کر آنکھیں روشن ہو جائیں ۔ اب فیصل مزید دباؤ میں آگیا اور انوار کے ساتھ باتیں کرتا رہا ۔ انوار نے اسے کہا کہ یار کوئی لڑکا دیکھو ہمیں اپنی لیب کے لئے چاہیئے میٹرک ہو کام ہم سکھا لیں گے ۔ فیصل کو کیا چاہیئے تھا ایک بہانہ؟؟ اسی وقت انوار کو کہنے لگا کہ یار کلینک میرا اپنا ہے ۔ لیبارٹری تم لوگوں کی ہے مجھے کام بھی سکھا دو اور جو لیبارٹری اسسٹنٹ کو دو گے مجھے دے دیا کرنا میرا کیا ہے صبح کے وقت کلینک بند کر دیا کروں گا ۔ یہ بات طے کر کے وہ انوار کے بڑے بھائی کو ملا ارشاد الحق چوہدری یونائیٹیڈ لیب کے مالک تھے اور اس اسپتال میں جسے مصطفےٰ میڈیکل سنٹر کہتے تھے لیبارٹری ٹھیکے پر چلاتے تھے ۔ اور ایسا ہونا پرائیویٹ اسپتالوں میں عام تھا ۔ انہوں نے فیصل کو دیکھا اور لیب اسسٹنٹ کے لئے اوکے کر دیا ۔ اور فیصل خوشی خوشی گھر لوٹا ۔ گھر آ کر ماں کو خوشخبری دی کہ ماں مجھے اسپتال میں نوکری مل گئی ہے ۔اور ماں خوش کہ میرے ایف اے فیل ڈاکٹر پتر کو اسپتال میں نوکری مل گئی ہے ۔ واقعی خواب اور سراب کیسے کیسے کس کس کو اندھا کرتے ہیں۔ اور فیصل اس بی بی نرس کے خوابوں میں گم ہو کر دیکھ رہا تھا کہ وہ بی بی کہیں دور کھڑی ہوئی اسے اپنی طرف بلا رہی ہے اور ہواؤں میں جل ترنگ سی چل رہی ہے بیک گراؤنڈ میں پچھلے سال ہی ْآنے والی فلم روجھا کا مشہور گانا چل رہا ہے ۔
دل ہے چھوٹا سا، چھوٹی سی آشا ۔
مستی بھرے من کی، بھولی سی آشا ۔
چاند تاروں کو ، چھونے کی آشا۔
آسمانوں میں ، اڑنے کی آشا ۔
istockphoto-1139069645-612x612.jpg
 
آخری تدوین:
اگلے ہی دن فیصل نے مصطفےٰ میڈیکل سنٹر کی لیبارٹری میں جانا شروع کر دیا ۔ ایف اے فیل ڈاکٹر پتر جب سفید کوٹ پہن کر وہاں جانا شروع کیا تو لیبارٹری میں پہلے دن اسے اس کے فرائض بتائے گئے ۔ اسےمریضوں سے خون وغیرہ کے نمونہ جات لینا تھے ۔ اور لیبارٹری میں ٹسٹوں کے لئے ان نمونہ جات کو تیار کرنا تھا ۔ اس سلسلے میں خون لینے کا تجربہ اسے ٹیکے لگانے کی تربیت کی صورت میں پہلے ہی تھا ۔جبکہ کس ٹسٹ کے لئے کیسے خون حاصل کرنا ہے یہ اسے انوار نے بتا دیا ، تھوڑے ہی دنوں میں اسے بنیادی کاموں کی تربیت دے دی گئی اور اس میں اسے کچھ امتحانی نلیوں کا استعمال بتا دیا اور اسے خون کے نمونہ جات کو امتحان کے لئے تیار کرنا سکھایا گیا ۔ کیسے شیشے کے ٹکڑے پر خون کی پتلی سی تہہ لگا کر اسے مخصوص دواؤں سے امتحان کے لئے تیار کیا جاتا تھا ، خون میں سرخی کا معیار کسے جانچا جاتا تھا ، خون کے سفید خلیئے کیسے دیکھے اور گنے جاتے تھے ۔ خون کی تلچھٹ کا معیار ، گروپنگ ، کراس میچ ، ای ایس آر ، شوگر ، بول و براز کے نمونے ۔کیمسٹری کے ٹسٹ اور رپورٹ بنانا تمام معاملات کی تربیت اسے انوار نے دے دی ۔
کلینک کے تجربے کی وجہ سے اسے نس ڈھونڈنے کا تجربہ بھی تھا اور اس کے ہاتھ میں ایسی نفاست تھی کہ چھوٹے بچوں تک کو بغیر خاص تکلیف دیئے دوا پہنچانے یا نمونہ کے حصول کے لئے تتلی نما سوئی لگا لیا کرتا تھا ۔ ارشاد صاحب خود شیخ زاید اسپتال میں کام کرتے تھے اور ساندہ میں میڈیکس لیبارٹری میں بھی شریک مالک تھے اس کے علاوہ یہ لیبارٹری ان کی اپنی ملکیت تھی ۔پہلی شادی میں کچھ کھٹ پٹ چل رہی تھی تو دوسری جگہ پر معاملات بنانے کی کوشش میں تھے ۔ جبکہ فیصل جس حسینہ کو دیکھ کر اس کام میں گھسا تھا اس کا نام سٹاف شازیہ چوہدری تھا یہ بھی ساندے کی دربار والی گلی کی رہائشی تھی اورالشافی کلینک جو ڈاکٹر کیپٹین اعجاز عبید کا تھا اس میں دوسری شفٹ میں ملازمت کرتی تھی ۔ اسی اسپتال میں آپریشن تھیٹر کے انتظامات کو طیب نامی ایک نوجوان دیکھا کرتا تھا جبکہ رات کی شفٹ میں سٹاف عصمت طاہرہ نرس اور ڈاکٹر زکریا بن بھٹکل ایمرجنسی میڈیکل آفیسر تھے ۔ اور دوپہر کی شفٹ میں سٹاف ماوراء اور ڈاکٹر ظفری ہوا کرتے تھے ۔فیصل لیبارٹری میں کام کرتے کرتے دوتین ماہ میں ہی رواں ہو گیا تھا ۔لیکن شازیہ چوہدری سے اسے فی الحال کوئی لفٹ نہ ملی تھی البتہ انوار اسے سمجھاتا تھا کہ یار فیصل اس کے چکر میں نہ پڑنا یہ بڑی کھوچل لڑکی ہے ۔ کتنے ہی کو دیوانہ بنائے ہوئے ہے اور کتنے ہی اس نے لوٹ کر برسر دیوار سوکھنے کو ڈال دیئے ہیں لیکن فیصل صاحب کی کیا پوچھئے کہ حضرت کی آنکھوں میں رنجیت ناچ رہا تھا۔

111223.jpg
 
آخری تدوین:
دوسری طرف قیصر کا دوست عامر نور خان کے والد نے اپنے بیٹے کو ایمرجنسی سروسز کی تربیت کے لئے جنگل منگل کیمپ مانسہرہ بھیج دیا اور قیصر اس کے ساتھ جانے کو تیار ہوگیا ۔ وہاں پر پہاڑوں میں تربیت کے دوران ایک لڑکی اس کے پیچھے پڑ گئی اور کچھ دنوں کی محنت کے بعد ان کی سلام دعا شروع ہو گئی لڑکی یہ سمجھ رہی تھی کہ اس نے قیصر کو پسند کیا ہے جبکہ قیٰصر جانتا تھا کہ اس نے اپنے پتے مناسب طریقے سے پھینک کر اس لڑکی کو بغیر احساس دلائے اپنے جال میں پھانس لیا تھا ۔ وہ کیمپ کے قریب کی رہائشی تھی اور قیصر کی خوبصورتی اور شہری بابو ہونے پر فدا تھی ۔ اس کا نام تھا مریم اس کا باپ ایک مقامی سیاست دان تھا ۔ قیصر اور عامر کے تربیت کے دن وہاں بہت اچھے گزرے اور واپسی پر ایڈریس وغیرہ دے کر قیصر واپس لاہور آجاتا ہے ۔ اس زمانے میں موبائل وغیرہ عام نہیں تھے لہذا خط یا لینڈ لائن پر فون ہی رابطے کا ذریعہ ہوتے تھے ۔ عظیم مینشن کا فون نمبر قیصر نے جان بوجھ کر مریم کو نہیں دیا تھا ۔


اس تجربے کے بعد قیصر کو پاکستان بھر کی سیر کا شوق پڑا اور اس نے اپنی ماں شمع سے اس لیئے نکلنے کی اجازت مانگی ۔ پیسوں کے سوال پر ماں کو فکر ہوا تو ضرور لیکن بیٹے کی خواہش ماں کی مصلحت پر غالب آگئی اور اس نے بیٹے کو مناسب رقم دے کر روانہ کیا ۔ سب سے پہلے قیصر نے پشاور کا رخ کیا اور وہاں پر کچھ دوست بنائے ۔ یہ قبائلی دوست بہت کھلے دل کے اور انتہائی مہمان نواز تھے ۔
23d1507aea206eba2a4fa542a1e9a25b.jpg
انہوں نے گاؤں کے بیرونی رخ پر اپنے مہمان خانے میں قیصر کی رہائش کا بندو بست کیا ۔ اسے علاقہ غیر کی سیر کرائی ۔ وہیں قیصر کا تعارف رحمان بابا سے ہوا اور انہوں نے اسے پختون کلچر کا تعارف کروایا ۔ قیصر یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا ۔ انہی دوستوں نے اسے گلم جم کے بارے میں بتایا اور بتایا کہ بھائی ہمارے لوگوں کے لئے تو یہ عورتیں افغانستان پر روسی یلغار کے بعد پیدا ہونا شروع ہوئی ہیں ۔ ہم انہیں پسند نہیں کرتے لیکن پختون ولی کے مطابق جس نے آپ کا ، آپ کے علاقے ، خاندان ، قبیلے کا کوئی نقصان نہ کیا ہو اسے آپ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔اور اگر کوئی ایسا مسئلہ ہو جو معاشرے یا ماحول کو خراب کرتا ہو تو اس کے لئے جرگہ ہو اور جرگہ ہی اس سلسلے میں سزا اور جزا ، صلح اور جنگ کا اختیار رکھتا ہے ۔ ایک اور بات جو قیصر کو ان میں بہت اچھی لگی وہ یہ تھی کہ اس گاؤں کے دو گروہوں میں آپس میں دشمنی تھی لیکن جب تک وہ وہاں رہا یہ دشمنی وقتی طور پر موقوف کر دی گئی اور اس کے ہوتے کسی قسم کی خونریزی ، فائرنگ یا لڑائی جھگڑا نہ کیا گیا ۔ یہ حیران کن بات تھی ۔ واپسی پر اسے راڈو گھڑیوں کا ریپلیکا دیا گیا اور بتایا گیا کہ یہاں ہم یہ خود بناتے ہیں اور گرانٹی والا مال بناتے ہیں ۔تم تو لاہور والے ہو جہاں بے حیائی عروج پر ہے (یہ عام غلط فہمی خیبر پختونخواہ کے ایسے علاقوں میں پائی جاتی تھی ) لیکن ہم لوگ تو جب بھی لاہور جاتے ہیں وہاں کی عورتوں کا بے پردگی دیکھ کر حیران ہوتے ہیں ۔اللہ ہدایت دے تم لوگوں کو ہو تو تم لوگ ہمارے بھائی ہی لیکن تھوڑا خیال کرو یار اپنے لوگوں کو سمجھاؤ ۔ قیصر یہ بات سن کر مسکرایا اور پہلے تو صفائی دینے کی کوشش کی لیکن جب دیکھا کہ ہمارے یہ بھائی بضد ہیں تو ان سے وعدہ کیا کہ ان شاء اللہ لاہور جا کر یہ انہیں ضرور سمجھائے گا ۔ اس کے بعد قیصر نے رخ کیاپاڑا چنار کا اور اس علاقے میں بھی کچھ دوست بنائے ایک دو دنوں تک ان کی مہمانی کے مزے لیئے اور پھر چھوٹا درانی سے تھال شیوا سے ہوتے ہوئے بنوں پہنچا جہاں پر لیاقت حبیب نیازی سے ملاقات ہوئی ۔ یہ بہت پیارے آدمی تھے اور ملکی محبت سے سرشار تھے ۔بنوں میں رہتے ہوئے احساس ہوا کہ خیبر کا ہر شہر اپنا ہی رنگ اور خوشبو لیئے ہوئے ہے ۔ایک دو دن نیازی صاحب کی مہمانی میں گزارنے کے بعد رخ کیا لکی مروت کا اور پھر ڈیرہ اسماعیل خان جا پہنچے ۔وہاں سے ژوب ، قلعہ سیف اللہ اور پھر کوئٹہ پہنچے ۔ اس سفر میں بے شمار لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں لیکن جس چیز نے اسے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ تھا لوگوں کی سادگی ، محبت اور کھلے دل سے اجنبی ہونے کے باوجود اسے اپنا سمجھ کر خوش آمدید کہنا اور اس کے لئے مہمانداری کرتے ہوئے اپنے دروازے کھول دینا ۔ لاہور میں تو ایسا نہیں تھا۔ ہم رشتہ دار یا کسی جاننے والے کے علاوہ کسی کو قریب نہیں لگنے دیتے اور یہاں میں اتنے شہروں کا سفر کر کے کوئٹہ پہنچ گیا لیکن سوائے لاہور سے پشاور کے کہیں اور ایک روپیہ نہیں لگنے دیا گیا ۔ جس کے گھر سے نکلا اس نے اگلی منزل اور اس سے آگے تک کا زاد راہ ہمراہ کیا یہ عجیب ماحول قیصر کو اپنے سحر میں لے رہا تھا ۔
abbottabad.jpg
 
آخری تدوین:
کاشف پڑھائی چھوڑ چکا تھا اور والدین اور بھائیوں کے قابو سے نکل چکا تھا ۔ تیرہ سال کی عمر میں اسے شوق چرایا کہ وہ کوئی کام سیکھے گا ۔ اس سلسلے میں محلے کی پان سگریٹ کی دکان پر بیٹھنا شروع کر چکا تھا ۔ اور تھڑا زبان میں مہارت اس کے منہ پر چڑھتی جا رہی تھی ۔ ایک دن اپنے باپ ڈاکٹر عظیم سے اس کا یہ مکالمہ ہوتا ہے ۔
کاشف : ----السلام علیکم ڈیڈی جی
ڈاکٹر عظیم --= وعلیکم السلام میرا چیمی (چیمی کاشف کا پیار کا نام تھا) ۔ کیسے ہو بیٹے ؟
کاشف ----- -اللہ کا شکر ہے ۔ سب ٹھیک ٹھاک ہے ۔
ڈاکٹر عظیم ----پتر تو پڑھتا کیوں نہیں ہے۔پڑھ لے کچھ بن جا یار ۔
کاشف ------ آہو جو وڈے بن گئے میں بھی بن جاؤں گا۔
ڈاکٹر عظیم ---- کیا مطلب؟
کاشف ------ قیصر کو دنیا کی سیروں پر بھیج دیا ۔ میری ایک فرمائش پوری نہیں کر سکتے۔
ڈاکٹر عظیم --- یار وہ تمہاری ماں نے بھیجا ہے میں نے نہیں ۔ اس نے ویسے بھی تم لوگوں کو بہت ڈھیل دے رکھی ہے ۔ مجھے پوچھتی تو میں ناں جانے دیتا۔
کاشف ----- یعنی نہ پیسہ لگانا ہے نہ لگانے دینا ہے ۔ اس کے جانے نہ سے آپ کو کیا فرق پڑتا ہے؟ آپ نے کونسا خرچہ کرنا ہے۔
ڈاکٹر عظیم --- بکواس شروع کردے گا ۔ ماں کی طرح جیسی اس کی زبان کھلی ہوئی ہے ویسی تیری ۔ باپ ہوں تیرا حیا کر شرم کر۔
کاشف ----- جی جی نانا بن کے دوجا ویاہ کرتے ہوئے جیسی آپ کو آئی ویسی مجھے بھی آ جائے ۔ پر میرے ویاہ کا کنجر خانہ بھی تو امی کو ہی کرنا پڑنا۔ اس لئے میں خود کچھ بننا چاہتا ہوں۔
ڈاکٹر عظیم --- ایسی کتے والی زبان کے بعد تو کیا بنے گا ۔ اپنی ماں کا سر بنے گا ۔ دفع ہو جا میرے سامنے سے ۔
کاشف ----- جا رہا ہوں ۔ ایک کام کا کہا وہ بھی سنا پوچھا ہے نہیں اور نخرے کر رہے ہیں کنواری مشوق کی طرح۔

ڈاکٹر عظیم یہ الفاظ سنتے ہی سن سا ہو جاتا ہے اور دوسری طرف کاشف پیر پٹختا ہوا کمرے سے باہر نکل جاتا ہے۔


اور ڈاکٹر عظیم سوچ رہا ہے کہ کیسی عجیب صورت حال ہے کہ قیصر کہنا نہیں مانتا بس بد تمیزی نہیں کرتا لیکن کرتا اپنی مرضی ہی ہے۔ فیصل ہے تو وہ اب کمانے تو لگ گیا ہے لیکن میرے کہنے میں نہیں ہے ماں کی مانتا ہے جبکہ کاشف تو ہے ہی بدتمیز اس کی زبان پر تو جیسے کتا بندھا ہوا ہو ۔ یہی سب سوچتے سوچتے واپس چھوٹے گھر پہنچ جاتا ہے ۔

دروازہ کھٹکھٹایا عابدہ نے کھولا ۔ دیکھتے ہی پہچان گئی کہ ڈاکٹر صاحب کچھ سوچ رہے ہیں ۔ مسکرا کر استقبال کیا اور پانی کا گلاس لے کر کمرے میں آئی ۔ پانی دیتے ہوئے پوچھنے لگی۔

عابدہ ------: کیا ہوا پریشان ہیں؟
ڈاکٹر عظیم --: نہیں کچھ نہیں ۔
عابدہ ------: اچھا مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی؟
ڈاکٹر عظیم --: تم سے کیا غلطی ہو سکتی ہے میری شہزادی ۔ تم کیوں پریشان ہو جاتی ہو؟
عابدہ ------: نہیں میں سمجھی شاید کوئی بات بری لگ گئی ہو ۔
ڈاکٹر عظیم ---: تم وہم نہ کیا کرو ایسا کچھ نہیں ہے۔بس بچوں کا سوچ رہا ہوں کہ سب اپنی اپنی کر رہے ہیں میرے تو کنٹرول میں ہی کوئی نہیں ہے۔
عابدہ ------: سوہنے آپ ان سے امید ہی کیوں رکھتے ہیں ۔ لڑکوں کے کان بھرنے کو ماں ہے ناں تو وہ آپ کی کیوں سنیں گے؟
ڈاکٹر عظیم --: (کچھ سوچتے ہوئے) ہممم بات تو تمہاری غلط نہیں ہے۔
عابدہ ------: سچی بات تو یہ ہے کہ میں کبھی کبھی بہت ڈرتی ہوں ۔ اللہ آپ کا سایہ تاقیامت میرے اور عامر کے سر پر قائم رکھے ۔ اللہ نہ کرے آپ کو کچھ ہو گیا تو ہم تو رل جائیں گے۔ بڑے گھر کا تو نظام چل رہا ہے ۔ ہم کہاں جائیں گے ؟ نہ میرا اور عامر کا آپ کے سوا اس دنیا میں کوئی سہارا نہ کوئی بیک اپ ؟ پھر یہ سوچ کر دل کو تسلی دے لیتی ہوں کہ میرے سوہنے ہیں ناں کچھ نہ کچھ تو سوچ ہی رکھا ہوگا انہوں نے۔
ڈاکٹر عظیم ---: اللہ مالک ہے تم پریشان نہ ہوا کرو ۔ میں رہوں یا نہ رہوں تم پر کوئی آنچ نہیں آنے دیتا میں۔ اور رہی بات لڑکوں کی تو انہیں میں نکیل ڈال ہی لوں گا


اتنے میں عامر رونا شروع کر دیتا ہے ۔ عابدہ فورا عامر کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے اور اسے چیک کرتی ہے ۔ فیڈر دینے پر بھی وہ رک رک کر روتا ہے تو آخر ڈائپر چیک کرتی ہے اور اسے تبدیل کر دیتی ہے ۔عامر آخر تھوڑی دیر میں سو جاتا ہے ڈاکٹر عظیم اتنی دیر میں نہا دھو کر فریش ہو کر کمرے میں آجاتا ہے ۔ عابدہ فورا اٹھ کر کچن میں چلی جاتی ہے اور سالن ایک چولہے پر رکھ کر دوسرے پر تازہ روٹی بنانے لگ جاتی ہے ۔

ڈاکٹر عظیم ٹیلی ویژن پر خبریں لگا کر سن رہا ہے کہ صدر غلام اسحٰق خان نے میاں محمد نواز شریف کی حکومت کو آئین میں آٹھویں ترمیم کے تحت حاصل کردہ اختیارات کے تحت برطرف کر دیا ہے ۔اور میر بلخ شیر مزاری کو نگران وزیر اعظم بنا دیا گیا ہے ۔ڈاکٹر عظیم کا موڈ اور خراب ہو گیا اور کاشف کی طرف سے دھیان ہٹ کر نواز شریف کی طرف سوچنے لگا ۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی تو جہاں اس نے پاکستان کے لئے موٹر وے اور پیلی ٹیکسی اسکیم کے ذریعے اس نے نوجوانوں کو متحرک کرتے ہوئے کام کرنے کے لئے اسکیموں کا اعلان کیا تھا ۔ وہیں اتحاد بین المسلمین ، پرائیوٹائزیشن کے لئے اس کی حکمت عملی ، افغانستان ، ہندوستان سے تعلقات (بمبئی بم دھماکوں سے ان تعلقات میں دراڑ بھی اسی دور کا خاصہ تھی)۔ ابھی گزشتہ روز ہی تو نواز شریف نے ٹیلیویژن پر قوم سے خطاب میں صدر اسحاق خان کو گندی سیاست اور گھٹیا سازشیں کرنے والا قرار دیا تھا ۔ جواب میں صدر اسحق نے اگلے ہی دن حکومت برخاست کر کے اپنا غصہ ٹھنڈا کر لیا ۔

ڈاکٹر صاحب کو نواز شریف سے ویسے بھی محبت اور ہمدردی تھی کیوں کہ وہ کلثوم کا خاوند تھا جو داکٹر حفیظ کی بیٹی تھی اور گامے پہلوان کی نواسی ۔ اور ڈاکٹر حفیظ تو ڈاکٹر عظیم کا استاد اور محترم بندہ تھا جس نے ہمیشہ اس کا ساتھ دیا تھا اور بہت جگہ پر اس کے تعلقات کام آئے بھی تھے ۔ لہذا یاروں کے یار خاندان سے ایسا ہونا ڈاکٹر عظیم کو بہت برا لگا تھا ۔ دو مہینے بعد جسٹس نسیم حسن شاہ نے نواز شریف کی حکومت کو بحال کر دیا ۔ جسٹس نسیم حسن شاہ کو اس سے پچھلے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد نواز شریف نے چیف جسٹس بنایا تھا ۔اب جیسے ہی یہ حکومت بحال ہوئی اور بلخ شیر مزاری کی نگران حکومت ختم ہوئی فوج حرکت میں آگئی اور اقتدار کی راہداریوں میں نواز شریف کے ہی بنائے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل وحید کاکڑ نے (جو جنرل جنجوعہ کی ناگہانی موت کے بعد چیف بنے تھے جنرل جنجوعہ کی موت کے سلسلے میں بھی نواز شریف پر غیر مصدقہ افواہوں میں شکوک کا اظہار کیا گیا تھا جو عدالت میں ثابت نہ ہوا ) ایک ڈیل کے تحت غلام اسحاق خان ، نواز شریف اور جسٹس نسیم حسن شاہ سب کو فارغ کر دیا اب اس ڈیل میں ایک کے علاوہ سب فارغ ہوئے اس سے پاکستانی سیاست میں فوج کے اثر و رسوخ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بند دروازوں کے پیچھے کیا کچھ چلتا تھا ۔ یعنی چار لوگ بیٹھے فیصلہ کرنے اور ایک کے سوا سب فارغ ہو گئے اس طرح جمہوریت بچا لی جانے کا دعویٰ بھی کیا گیا تھا۔

5a0ee8f15ce7a.jpg
 
آخری تدوین:
اب آتے ہیں مدثرہ کی جانب جو شمع کی تیسری بیٹی ہے ۔ اور ڈاکٹر عظیم کی بہن زہر ہ کے بیٹے بلال سے بیاہی ہوئی ہے ۔ اب یہ زہرہ کا بیٹا بلال وہی ہے جو شمع سے پیسے لے کر ڈاکٹر عظیم کو تلاش کرنے نکلا کرتا تھا ۔اور اصل میں ڈاکٹر عظیم کی عابدہ سے شادی میں گواہ بھی تھا ۔ اب بلال اس کا والد انور ، زہرہ ، مدثرہ ، بلال کا بڑا بھائی فاروق اس کی بیوی سب کے سب لاہور منتقل ہو چکے ہیں ۔ گوجر گورائیہ والا جدی مکان وہ فروخت کر دیتے ہیں ۔ بلال نے اپنی اسٹیٹ ایجنسی بنا لی ہے جس کا نام المعظم اسٹیٹ سروسز رکھا گیا ہے ۔ اس کا بڑا بھائی فاروق محنت کش انسان ہے جو رکشہ چلا کر اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتا ہے ۔ اور الگ رہتا ہے ۔بلال اپنی والدہ ، اور چھوٹے بھائیوں کے ساتھ الگ گھر میں کرائے پر رہتا ہے جو تھوڑا بہت سامان گاؤں کے گھر میں تھا وہ کثرت استعمال اور نقل مکانی کے دوران کافی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا تھا لہذا شمع نے مدثرہ کو پھر سے گھر کا سامان دیا تاکہ وہ سکون سے رہ سکے ۔ اس دوران مدثرہ کے گھر اس کی بیٹی مہوش کی ولادت ہو چکی ہوتی ہے ۔ لیکن کرائے کے مکان بار بار بدلنے سے وہ بھی برباد ہونے لگا ۔ ڈاکٹر عظیم اس دوران بلال کو آفر کرتا ہے کہ میں مدثرہ کے نام پلاٹ لیکر تمہیں دے دیتا ہوں ۔ تم اس پر مکان بنا لو ۔ کیا کرائے کے مکانوں میں پھرتے رہتے ہو ۔ بلال نے جواب میں کہا ۔ مائی فٹ ایسے پلاٹ تو میں دن رات دیکھتا رہتا ہوں ۔ آُ پ اپنا پلاٹ اپنے پاس رکھیں ۔ اب زہرہ نے آہستہ آہستہ مدثرہ کے کان بھرنے شروع کر دیئے کہ تمہاری ماں اور ڈاکٹر عظیم نے آپس میں مل کر تمہارے باپ کو مار دیا تھا ۔ یہ تمہارا باپ تمہارا سگا نہیں ہے وغیرہ وغیرہ اور اس طرح مدثرہ اپنی ماں اور ڈاکٹر عظیم سے برگشتہ ہو گئی اور ان سے دور رہنے لگی ۔
ڈاکٹر عظیم اور شمع نے مدثرہ سے اپنا سلوک نہ بدلا اور نہ ہی مدثرہ نے اپنا سلوک اپنے بھائیوں سے بدلا البتہ اس سب سے جو تلخیاں پیدا ہو گئیں انہوں نے شمع کو ذہنی طور پر بہت پریشان کر دیا ۔اور وہ آہستہ آہستہ اپنی ذہنی حالت پر کنٹرول کھونے لگی ۔ بچوں میں مدثرہ سب سے بڑی تھی اس کا رویہ ماں سے برداشت نہ ہوااور وہ اس کے اس رشتے کے لئے خود کو قصور وار سمجھنے لگی ۔ اس نے کوشش کی کہ مدثرہ کو تحفے تحائف دے کر اس کا دل نرم کر سکے لیکن جہاں اسے تحفے تحائف ملتے وہیں اس کی ساس اس کو کہانیاں سنا سنا کر اس کے ذہن کی صفائی کر دیتی ۔ جب شمع اس سب کا اثر نہ دیکھتی تو مزید پریشان ہوتی ۔ ڈاکٹر عظیم کی جانب سے وہ پہلے ہی پریشان تھی ۔ قیصر ، فیصل ، کاشف میں سے صرف فیصل کما رہا تھا اور کاشف اور قیصر کی طرف سے آمدن کا کوئی رخ نظر نہیں آ رہا تھا ۔اس کے علاوہ گھر پر قرض خواہوں کی آمد شروع ہو چکی تھی ۔ اس سب میں شمع پر ہر طرف سے پریشانیوں کی یلغار ہو رہی تھی اور وہ ان سب سے جوجتے ہوئے اپنے گھر کو بچانے کی کوشش میں تھی ۔ جس میں سوائے فیصل کے کوئی اس کا ساتھ نہیں دے رہا تھا ۔ کاشف اور قیصر کا اپنا نقطہ نظر تھا ۔ جبکہ ڈاکٹر عظیم کو عابدہ والا گھر ہی واحد گھر نظر آتا تھا ۔ عظیم مینشن کی حالت ایک ہوسٹل جیسی ہوتی جا رہی تھی ۔یہاں کے مکین ایک خاندان کی بجائے اپنے اپنے آپ کو مرکز مان کر اپنے ارداگرد دنیائیں بننے کے فکر و سعی میں مشغول تھے ۔

قیصر کوئٹہ سے ہو کر کراچی پہنچ چکا تھا جہاں ایسٹ کراچی میں محسن چاندنا نامی دوست نے اس کا استقبال کیا اور کراچی میں مختلف علاقے دکھائے یہاں سے واپسی کا سفر اختیار کیا قیصر نے اور ٹرین پر سوار ہو کر لاہور کے لئے روانہ ہوا ۔ دسمبر کی آخری تاریخیں تھیں ۔ سانگی کے مقام پر ریل کو حادثہ پیش آجاتا ہے اور اس میں قیصر ہلاک ہو گیا ۔ وہ قیصر کہ جس کی پیدائش پر شمع نے بے انتہا خوشیاں منائی تھیں ۔ہر طرف شادیانے بجے تھے اور شمع کے دکھوں کا مداوا ہونا شروع ہوا تھا آج اپنے خالق حقیقی کو جان ملا تھا ۔ شمع کی جیسے دنیا ہی لٹ گئی ۔ اس کی چیخیں پورے محلے نے سنیں اور آخر قیصر کو منوں مٹی تلے حوالہ آخرت کیا گیا ۔ اس سانحے نے جیسے عظیم مینشن کے ہر مکین کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔ یہاں تک کہ عابدہ بھی اپنے آنسو نہ روک پائی اور اس موقعے پر شمع کے سینے سے لگ کر بہت روئی ۔ شمع کا امتحان ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ زمانے کو منور کرنے کے لئے شمع کا جلنا بھی ضروری ہوتا ہے ۔ اب اس کے پاس فیصل ، کاشف اور عامر بچے تھے۔ اپنی ممتا نچھاور کرنے کو لیکن قیصر کا دکھ کیسے کٹ سکتا تھا ۔

سال 1994

قیصر کی موت کے کچھ دنوں بعد ہی کاشف کے پاس پان کی دکان پر ایک دوست کی آمد ہوئی ۔ خوبصورت چہرہ ، داڑھی چہرے پر سجی ہوئی ، سفید کرتا شلوار پہنے ہوئے ۔ یہ دوست شفیق تھا ۔ جو شیخوں کی دکان کے پاس امرودوں کی ریڑھی لگایا کرتا تھا - اس نے کاشف کو دعوت دی کہ عصر کی نماز کے بعد مسجد میں درس ہوتا ہے آپ ہماری نیکی کی دعوت کو قبول فرماتے ہوئے مسجد میں تشریف لائیں اور فکر آخرت میں اپنی کوشش کریں ۔ زندگی کا کوئی پتہ نہیں ہوتا اور موت کی تیاری میں ہمیشہ ہمیں رہنا چاہیئے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ کاشف کا دل پہلے ہی بڑے بھائی کی موت پر نرم تھا تو وہ اس راستے پر چل نکلا اور ایک دینی تبلیغی جماعت میں اپنی محنت دینے لگا ۔

دوسری طرف زہرہ کے خاوند انور کی بھی دل کے دورے کے بعد فوتگی ہو جاتی ہے ۔ اس طرح اس گھر میں بھی موت کی دستک بہت کچھ بدل دیتی ہے ۔ اب اس گھر کی ذمہ داری بلال پر آن پڑی اور اس نے اپنا فرض ادا کرنے میں کبھی کوتا ہی نہ کی تھی لیکن پھر بھی کرائے کا مکان اور گھر کے اخراجات آخر چھوٹے بھائیوں کو بلال کا ساتھ دینا پڑا اور ایک ایک کر کے دونوں چھوٹے بھائی بھی روزانہ بنیادوں پر کچھ نہ کچھ کرنے لگے ۔ زہرہ کا دل شمع کے معاملے میں قیصر کی موت اور اس کا اپنا خاوند فوت ہونے کے بعد اور بھی صاف ہو گیا تھا اور وہ اپنے کیئے پر پشیمان ضرور تھی لیکن کس منہ سے کہتی کہ میں نے پہلے تمہیں جھوٹ بتایا تھا تو خاموش رہی البتہ اب اس نے مدثرہ کے کان بھرنے بند کر دیئے ۔

فیصل نے لیبارٹری میں اپنی شفٹ تبدیل کروا کر رات کی کروا لی تھی تاکہ وہ کلینک کو زیادہ وقت دے سکے اور دن میں وہ صبح شام کلینک کر رہا تھا ۔ البتہ صبح کے وقت کلینک زیادہ عرصہ بند رہنے کی وجہ سے نئے مریضوں کے لئے کامیاب نہیں ہو رہا تھا ۔ انہی دنوں عید کے دن آگئے جب ڈاکٹر زکریا بھٹکل عید کی چھٹیوں پر اپنے گاؤں ماموں کانجن چلے گئے اور رات کی شفٹ میں سٹاف نرس عصمت طاہرہ اکیلی رہ گئی ۔ چاند رات کو اسپتال کے بالکل سامنے ایک ٹانگے والے کو ٹویوٹا وین والے نے ٹکر مار دی جس پر اس میں موجود تمام سواریاں زخمی ہو گئیں ۔ گاڑی والے کو پکڑ لیا گیا لیکن زخمیوں کو سامنے اسپتال میں لے جایا گیا ۔ اتفاق کی بات تھی کہ فیصل اس وقت لیبارٹری والا کوٹ پہن کر نیچے استقبالیہ میں عصمت طاہرہ کے ساتھ گفتگو پھیلانے میں مصروف تھا کہ اچانک لوگ اندر آنے شروع ہو گئے اور اپنے زخمیوں کو لے کر ایمرجنسی میں پہنچ گئے ۔ سٹاف عصمت طاہر ہ نے انہیں بیڈز پر لٹایا اور فیصل کی طرف پریشانی سے دیکھا ۔ڈاکٹر زکریا تو ماموں کانجن چلے گئے تھے ۔ اسپتال میں باقی اسٹاف بھی چھٹی پر تھا اوراسپتال میں فیصل اور عصمت کے علاوہ صرف میڈیکل اسٹور والا ارشد چوہدری موجود تھا ۔

کلینک پر مریضوں کو سنبھالنے کا تجربہ ہونے کی وجہ سے فیصل نے فورا آگے بڑھ کر ڈاکٹر کا کردار سنبھال لیا اور انہیں ابتدائی طبی امداد فراہم کی بلاشبہ اس سب میں سٹاف عصمت طاہرہ کا بھی کردار تھا لیکن بروقت اس سب میں ہینڈلنگ اور ردعمل میں ٹھہراؤ کی وجہ سے اس اچانک حادثے کے تمام مریضوں کو کامیاب ابتدائی امداد کے بعد اگلی آمد کے لئے وقت دینے تک کے مراحل طے ہو گئے ۔ اور اسپتال نے رات ہی رات میں کم و بیش پندرہ ہزار کا بل حاصل کر لیا ۔ اس سب کی خبر جب اسپتال کے مالک ڈاکٹر نبیل کو ملی تو ڈاکٹر صاحب نے فیصل کا انٹرویو لیا ۔معلوم ہوا کہ ارے یہ تو رات کی شفٹ کے لئے اچھا حل ہے ۔ ڈاکٹر زکریا نے تو ایک مہینے میں اتنی رقم نہ کمائی تھی جو ایک ہی رات میں ایف اے فیل ڈاکٹر فیصل نے کما لی تھی ۔ ڈاکٹر نبیل نے اسپتال سے چھٹی پر گئے ہوئے ڈاکٹر زکریا کو اس کا حساب کتاب دے کر فارغ کیا اور فیصل کو رات کی ایمرجنسی حوالے کر دی ۔ساتھ اپنا ایمرجنسی ربط بھی فراہم کر دیا کہ اگر کوئی صورت حال تمہارے قابو سے باہر ہو تو ایسے میں مجھے پیجر کر دینا ۔ میں فورا کال کروں گا اور اگر ضروری ہوا تو آ بھی جاؤں گا ۔ اس طرح ایف اے فیل ڈاکٹر فیصل ، ہزار روپے کے عوض لیب ٹیکنیشن کے ساتھ ساتھ دو ہزار پانچ سو میں رات کی شفٹ کا میڈیکل آفیسر بھی بن گیا ۔

کاشف دین کے راستے میں محنت کر رہا تھا کہ ایک دن اس کے پاس کچھ ساتھی آئے جو اسی تبلیغی گروہ سے تعلق رکھتے تھے جس گروہ کے ساتھ وہ اپنے تئیں دین کے راستے پر نکلا ہوا تھا ۔ انہوں نے اسے ہمسایہ ملک میں ہونے والے مسلمانوں پر مظالم کی دردناک صورت کشی کی اور اسے جتلایا کہ اس سارے عمل میں دوسرا فرقہ اپنے مجاہدین کے ذریعے بازی لے جا رہا ہے ۔حالانکہ وہ لوگ یہ سب کر کے بھی مر کے جہنم کا ایندھن ہی بننے والے ہیں اور جنت کا راستہ تو صرف ہمارے فرقے کے لیئے رجسٹرڈ ہے دوسرے تو اپنے عقائد کی وجہ سے اپنے تمام اعمال اکارت کروا بیٹھے ہیں ۔کاشف نے موقع غنیمت جانا اور اپنے آپ کو خدا کے راستے میں جہاد کے لئے پیش کر دیا ۔اس جہاد پر آگے تو وہ کیا جاتا دوران تربیت ہی ان پر حملہ کر دیا گیا اور ایک اندھی گولی اڑتی ہوئی کاشف کا کام تمام کر گئی ۔ گھر اس کا جسد خاکی لایا گیا تو شمع کے لیئے ایک سال کے اندر اندر دوسرا جھٹکا تھا جو اسے برداشت کرنا پڑا ۔پہلے سب سے بڑا بیٹاقیصر اس دنیا سے گیا اب سب سے چھوٹا چیمی اس دنیا میں نہ رہا ۔ اس کی دنیا سمٹتی جا رہی تھی اور ذہنی حالت بگڑنا شروع ہو گئی ایسے میں کہ جب دو دو جوان بیٹے ہاتھوں سے حوالہ خاک کیئے ہوں عظیم بھی ٹوٹ پھوٹ گیا ۔اور شمع تو پاگل پن کے دروازے پر تھی ۔ جو صرف فیصل کے وجود سے اس دنیا میں اپنے شعور و جنون کے درمیان بکھر جانے کو روکے ہوئے تھی ۔
پھر ایک دن یہ رکاوٹ بھی دور ہوئی ۔ فیصل اسپتال سے موٹر سائیکل پر گھر کی جانب واپس آ رہا تھا کہ راستے میں ایک عدد تانگے کا بم اس کے سینے میں لگا جس کے بعد اگلا سانس فیصل لے نہ سکا اور موقع پر ہی اس دنیا سے کوچ کر گیا ۔ یکے بعد دیگرے تین بیٹوں کی موت سے شمع اپنا ذہنی توازن قائم نہ رکھ پائی اور گھر سے نکل کر سڑکوں پر روتی پھرتی ۔ کبھی کہتی میرا فیسی ، کبھی کہتی میرا چیمی اور کبھی اپنے قیصر کو ڈھونڈتی ہوئی شمع سڑکوں پر پھرتی رہتی ۔ اور ایک دن ڈاکٹر شمع بھی اللہ کو پیاری ہوگئی ۔
ڈاکٹر عظیم اور عابدہ اپنے بیٹے عامر کے ساتھ عظیم مینشن منتقل ہو گئے اور سبزہ زار والا گھر بیچ دیا گیا ۔ کچھ دنوں بعد جب قرض خواہوں نے یلغار کی تو عظیم مینشن بھی فروخت کر دیا گیا ۔اور قرضوں سے فارغ ہو کر ڈاکٹر عظیم نے نیا گھر خریدا جو اس علاقے سے باہر تھا ۔ تاکہ اپنے گزرے ہوئے کل کی یادوں سے دور عامر کی پرورش کی جا سکے ۔ ان مسلسل جھٹکوں سے ڈاکٹر عظیم کی اسٹیٹ لائف میں پرفارمنس نہ ہونے کے برابر رہ گئی تو ڈاؤن سائزنگ میں اس کا بھی نام آگیا اور اسے اسٹیٹ لائف سے فارغ کر دیا گیا ۔ ٹوٹا پھوٹا کلینک بچا ۔ گاڑی بک گئی دونوں گھروں کی قیمت سے قرضے ختم کئے گئے اور پھر ایک دن پورے گھر کو کرونا ہو گیا ۔یہ دو ہزار بیس کا واقعہ ہے ۔ اور اس کرونا کے حملے میں ڈاکٹر عظیم اور عامر اس دنیا کو داغ مفارقت دے گئے ۔ عامر کی بیوہ نے سات دن بھی مکمل نہ ہونے دیئے اور گھر چھوڑ کر اپنے میکے منتقل ہو گئی اس طرح اکیلی عابدہ بچی جو اپنے گھر کی خالی دیواروں کو دیکھ دیکھ کر جی رہی ہے۔ اور دور کہیں مرزا کی آواز آ رہی ہے ( جا عابدہ کدی سکون ناں پاویں ) نہ لوٹ کر جانے کا کوئی ٹھکانہ نہ آگے کا کوئی سہارا ۔ ماضی ، حال ، مستقبل بس وہ ایک گھر اور اس کی دیواریں اور اکیلی وہ



ختم شد
 
آخری تدوین:
بہت سی کہانیوں کو ملا کر ایک کہانی بنائی ہے ۔ نام مقام زمان اور ترتیب سب کچھ تبدیل کیا گیا ہےکہانی بہت زیادہ لمبی ہونے جا رہی تھی اس لیئے مختصر کر کے جلد ختم کر دی ہے تاکہ پڑھنے والے تنگ آ کر بس بس کی آوازیں دینا نہ شروع کر دیں ۔ بہرحال ایک کوشش تھی جو یہاں کی گئی ہے امید ہے پسند آئے گی ۔ کہانی سو فیصد سچی نہیں ہے کچھ بہت سے رنگ بھی بھرے گئے ہیں ۔ کسی قسم کی بھی مشابہت اتفاقیہ ہوگی ۔ کاپی رائیٹ پھر بھی میرا ہی رہے گا ۔ آہو
 
کہانی ختم کرنے کی جلدی پڑ گئی تھی ۔ ایک طرح سے کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن اس کا کسی بھی طرح سے اختتام ہو سکتا تھا یا کم و بیش تین پانچ سو قسطوں کا سوپ بن سکتا تھا ۔ پھر یہ مسئلہ بھی رہتا ہے کہ زیادہ لمبی ہو جائے تو بھی بور، زیادہ مختصر ہو تو پھر لکھاری جان چھڑانا ہوا لگتا ہے ۔ آپ اگر اسے پڑھیں تو ایک جگہ پر محسوس ہوتا ہے کہ یہ بہت لمبی چلے گی ۔ پھر مجھے کسی نے کہا کہ کیا پلان ہے راجا گدھ لکھنا ہے؟؟ پھر میں نے اسے مختصر رکھنے کا فیصلہ کر لیا اور فٹا فٹ مکا دی
 
Top