عورت کی طاقت

نظام الدین

محفلین
بانو قدسیہ نے اپنی تحریروں میں روزمرہ کی زندگی کی باتیں بہت اچھی طرح سے بیان کی ہیں۔
ان کے مطابق آج کل کی عورت نے گھرداری اور ماں ہونے کی ذمہ داری چھوڑ دی ہے اور اپنی ذمہ داریوں سے فرار حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے اور اس سب کا ذمہ دار مرد ہے جس نے عورت کو اس کے گھر، جو کہ اس کا مضبوط قلعہ ہے، سے باہر نکالنے کے لئے سازش کی ہے۔ آدمی نے عورت کو ایک اچھے لائف اسٹائل اور اونچے معیار کے خواب دکھائے ہیں اور ان کے حصول کے لئے یہ طریقہ بتایا ہے کہ وہ گھر سے باہر نکل کر محنت کرے اور اپنے لئے ایک اچھا لائف اسٹائل حاصل کرے۔ خواتین نے اس سے یہ بات سمجھی کہ انہیں آزادی مل رہی ہے۔ لیکن درحقیقت وہ مزدوری کے لئے مجبور ہوگئی ہیں اور اپنے کھانے کے لئے بھی انہیں خود ہی محنت کرنی پڑرہی ہے۔
وہ اس عورت کی مثال دیتی ہیں جو اپنے گھر کے کام کرتی ہے، برتن دھوتی ہے اور کھانا بناتی ہے۔ ان کے نزدیک یہ عورت ایک ماڈرن عورت سے زیادہ خودمختار ہے۔ اس کا واحد مسئلہ غربت ہے لیکن اس کو ایک جدید عورت کی طرح اپنے آپ کو منوانے کے لئے جدوجہد نہیں کرنی پڑتی۔ اس کا وجود ہی اس کی شناخت ہے۔ اس اپنے آپ کو منوانے کی جدوجہد کی وجہ سے عورت کی نرمی اور نزاکت ختم ہوتی جارہی ہے جو عورت کی اصل طاقت ہے اور جس کو وہ اپنی سب سے بڑی کمزوری سمجھتی ہے۔
 

تجمل حسین

محفلین
بالکل جناب۔
یہاں تو حقوق نسواں یا عورت کی آزادی کا مطلب ہی یہ سمجھا جاتا ہے کہ انہیں محنت مزدوری کرنے دی جائے خواہ وہ کسی بھی قسم کی ہو۔۔ جبکہ جو آزادی اسلام عورت کو دیتا ہے وہ تو آج کے ماڈرن اور روشن خیال طبقے کی سوچ بھی نہیں ہوسکتی۔ سب سے بڑی آزادی تو یہی ہوسکتی ہے ناں کہ عورت کو محنت مزدوری اور روزگار کی فکر سے آزاد کردیا جائے تاکہ وہ اپنے سے منسلک افراد ماں باپ، بہن، بھائیوں، خاوند اور بچوں کی صحیح طور پر دیکھ بھال کرسکے اور بچوں کی صحیح طور تعلیم و تربیت کرسکے۔
اگر ماں خود ہی محنت مزدوری کرکے بچوں کا پیٹ پالے گی تو وہ ان کی تربیت کے لیے وقت کیسے نکالے گی جو کہ باپ کے لیے بھی بہت مشکل ہوتا ہے۔
 

arifkarim

معطل
اور اس سب کا ذمہ دار مرد ہے جس نے عورت کو اس کے گھر، جو کہ اس کا مضبوط قلعہ ہے، سے باہر نکالنے کے لئے سازش کی ہے۔
یہ تاثر کہاں سے آیا کہ حقوق نسواں تحریک کے پیچھے مردوں کی "سازش" کا ہاتھ ہے؟ یاد رہے کہ مغرب میں حقوق نسواں کا آغاز 1848 میں ہوا تھا۔ اور اس تحریک کا آغاز خود خواتین نے کیا تھا۔ 1963 میں Equal Equality Pact پر دستخط کرتے وقت امریکی صدر Kennedy کیساتھ کتنے مرد کھڑے ہیں؟
American_Association_of_University_Women_members_with_President_John_F._Kennedy_as_he_signs_the_Equal_Pay_Act_into_law.jpg
http://www.infoplease.com/spot/womenstimeline1.html

یہاں تو حقوق نسواں یا عورت کی آزادی کا مطلب ہی یہ سمجھا جاتا ہے کہ انہیں محنت مزدوری کرنے دی جائے خواہ وہ کسی بھی قسم کی ہو۔۔ جبکہ جو آزادی اسلام عورت کو دیتا ہے وہ تو آج کے ماڈرن اور روشن خیال طبقے کی سوچ بھی نہیں ہوسکتی۔
تو اسمیں پھر اپنے دیسی لوگوں کی سمجھ کا قصور ہے نہ کہ حقوق نسواں کا۔ یہاں مغرب میں حقوق نسواں کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ خواتین سے زبردستی محنت مزدوری کروائی جائے۔ بلکہ اسکا مطلب یہ ہے کہ اگر خواتین کام کاج کرنا چاہتی ہیں تو ان کو اجرت مردوں کی برابری پر دی جائے اور انکے ساتھ مخالف صنف کی وجہ سے امتیازی اسلوک نہ برتا جائے۔ اس قسم کے منصفانہ حقوق یہاں خواجہ سراؤں کو بھی فراہم کئے گئے ہیں تاکہ وہ ہمارے پسماندہ دیسی معاشروں کی طرح ایک کونے میں نہ دکھیل دئے جائیں۔ بلکہ باقی آبادی کیساتھ مل کر معاشرے میں مثبت کردار ادا کریں۔

سب سے بڑی آزادی تو یہی ہوسکتی ہے ناں کہ عورت کو محنت مزدوری اور روزگار کی فکر سے آزاد کردیا جائے تاکہ وہ اپنے سے منسلک افراد ماں باپ، بہن، بھائیوں، خاوند اور بچوں کی صحیح طور پر دیکھ بھال کرسکے اور بچوں کی صحیح طور تعلیم و تربیت کرسکے۔
بیشک لیکن اگر کوئی عورت اپنی مرضی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کوئی کام کاج کرنا چاہتی ہے تو وہ کیا کرے؟ کچھ نہ کرے؟ عورت کی آزادی کاہرگز یہ مطلب نہیں کہ اسے کام کاج سے بالکل آزاد کر دیا جائے یا اسے گھر میں ہمیشہ کیلئے قید کر دیا جائے۔ بلکہ اسکا مطلب یہ ہے کہ عورت کو گھر میں رہنے یا باہر کام کاج کرنے کی مکمل آزادی ہونی چاہئے۔ اور یہ فیصلہ کرنے کا اختیار عورت کو خود ہونا چاہئے نہ کہ کسی اور کو!
اسکی عملی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ جیسے میرے ایک نارویجن دوست کا باپ پائلٹ ہے اور گھر کے تمام اخراجات با آسانی اٹھا سکتا ہے۔ اسکی بیوی جوکہ شادی سے قبل ایک ہسپتال میں ڈاکٹر تھی نے اپنے پہلے بچے کی پیدائش پر طب کے کیرئیر کو خیر باد کہہ دیا اور اگلے 12 سال بچوں کی پرورش میں گزار دئے۔ جب اسکے بچے اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچ گئے تب کہیں جا کر اسنے ڈاکٹری دوبارہ شروع کی۔ یہ سب کرنے کا مقصد بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دینا تھا۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ عورت کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے گھر میں قید کر دیا جائے جبکہ اگر وہ بچوں کی کفالت سے فارغ ہو کر اپنی مرضی سے کام کاج کرنا چاہتی ہے تو مرد کو یہ اختیار نہیں کہ اسکی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرے جیسا کہ ہمارے دیسی معاشروں میں معمول ہے۔

اگر ماں خود ہی محنت مزدوری کرکے بچوں کا پیٹ پالے گی تو وہ ان کی تربیت کے لیے وقت کیسے نکالے گی جو کہ باپ کے لیے بھی بہت مشکل ہوتا ہے۔
متفق! اسکا حل یہ ہے کہ تمام خواتین اپنی شادی کیلئے بہت امیر مرد تلاش کر لیں یا پھر مردوں کیساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اسوقت تک معاشی قلت برداشت کریں جب تک بچے بالغ نہیں ہو جاتے اور اسکے بعد بیشک کام کاج یا اپنے کیرئیر پر زور دینا شروع کر دیں۔ حقوق نسواں کا مطلب خواتین کو بااختیار بنانا ہے نہ کہ انہیں محنت مزدوری کیلئے مجبور کرنا۔
 
آخری تدوین:
Top