عيد الفطر کے موقع پر صدر اوبامہ کا پيغام

ساجد

محفلین
آپ کی بات احسن کے یہ اُردو محفل اور ہمیں دوسروں کے معاملات میں دکل نیں دینا چاہئے لیکین ساجد بھائی اگر گہرائی سے سوچیں تو یہ بات اپنے ہی گھر کی ہے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اگر شام اور اہران امریکی کنٹرول میں آجائے تو اُسکے بعد ہماری باری نہیں ائے گی کیا بلوچستان کی جو کے گران قیمت معدنیات سے بھرا پڑا ہے پاکستان کی ملکیت رہنے دے گا ہرگز نہیں
یہ بیل اور شیر والی مثال ہے اب یہ الگ بات ہے کہ ہم وہ پہلے بیل ہوں یا چوتھے
لیکین اگر ہم پہلے بیل کی سپورٹ میں پوری قوت کیساتھ کھڑے ہوجائیں تو چاروں ہی بچ جئں گے اس لئے یہ مسئلہ ہمارے ہی گھر کا ھے
جی بالکل آپ کے خلوص اور احساس کی قدر کرتا ہوں ۔برادرِ عزیز ، آج کی عالمی سیاست کے ڈھنگ نرالے ہیں۔ امریکہ کسی ملک پر اپنا کنٹرول رکھنے کی نیت سے جنگ لڑتا ہے نہ اس پر قبضہ کرنا اس کا مقصد ہوتا ہے۔ اسی تناظر میں آپ امریکی انتظامیہ کا مؤقف دیکھ سکتے ہیں جب وہ کہتے ہیں کہ ہم 2014 میں افغانستان سے چلے جائیں گے حالانکہ نہ تو وہ اس مقصد کا پا سکے جس کے لئے وہ یہاں آ سکے اور نہ ہی انہیں عراق سے WMD مل سکے تھے لیکن پھر بھی وہ وہاں سے نکل گئے۔امریکہ کا مقصد ہوتا ہے ان ممالک کو اس حد تک مفلوج کرنا کہ وہ اس کے دستِ نگر رہیں اور جب اس کا یہ مقصد پورا ہو جاتا ہے وہ اس ملک سے افواج نکال لیتا ہے اور اس کی تعمیرِ نو کے نام پر وہاں اپنی کمپنیوں کو داخل کر دیتا ہے جو وہاں کے انفراسٹرکچر پر قابض ہونے کے ساتھ ساتھ امریکی مفادات کے لئے اس ملک کی پالیسیوں پر انتہائی انداز میں نفوذ کرتی ہیں۔
بش سینئر کے وقت سے امریکہ نے دنیا کی بربادی کی جس پالیسی کا آغاز کیا وہ بش حکومت میں اعلی عہدوں اور وزارتوں پر فائز ملٹی نیشنل اور اسلحہ ساز کمپنیوں کے مالکان اور نمائندوں کا تیار کردہ پروگرام تھا۔ Twin Towers کی تباہی اس پروگرام کا ایک اہم حصہ تھا ۔ خود امریکی دانشور اور غیر جانبدار ذرائع بھی اس بات کا اظہار کرتے ہیں اور بعض امریکی حلقے تو اسے اسرائیل اوع یہودیوں کی ایک بڑی سازش قرار دیتے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو امریکہ جہاں جہاں بھی جنگیں لڑ رہا ہے وہاں اس کے 5 مقاصد ہیں۔ 1: ان ممالک کی معدنیات اور ذرائع بشمول تیل پر قبضہ کرنا تا کہ ان کمپنیوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ مل سکے۔ 2: تباہ کن ہتھیاروں سے ملکوں کو ملیا میٹ کر کے ان کی تعمیرِ نو کے لئے انہی کمپنیوں کو ٹھیکے دلانا ۔ 3: اسلحہ ساز کمپنیوں کے سست روی کے شکار کاروبار کو سنبھالا دینا جس کے لئے امریکی حکومت ہمیشہ سے ہی پڑوسی ممالک کے درمیان غلط فہمیوں کو ہوا دیتی رہتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان کمپنیوں کے تیار کردہ نئے تباہ کن ہتھیاروں کو عملی طور پر میدان جنگ میں آزمانا۔ 4: تباہ حال جنگ زدہ ممالک کو اپنے مالیاتی اداروں کے شکنجے میں جکڑنا تا کہ یہ معاشی خود کفالت کی بجائے ہمیشہ ان اداروں کے باجگزار رہیں معاشی خود کفالت تو درکنار اپنی روز مرہ استعمال کی اشیاء کے لئے بھی ان کمپنیوں کے دستِ نگر بن جائیں۔ 5: درجِ بالا اقدامات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال کے نتیجہ میں ان ممالک کی پالیسیوں پر اپنا تصرف بڑھانا اور ان سے اپنی مرضی کی شرائط پر تجارت کرنا (اکثر اوقات یہ شرائط دوسرے ممالک سے تعاون ختم کر دینے کی ہوتی ہیں۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن کا التواء اس کی بڑی مثال ہے)۔
یہ سب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اس احساس کو جاگزیں کیا جائے جس کی طرف آپ نے توجہ دلائی۔کسی ملک کو یہ نہیں سمجھنا چاہئےکہ امریکہ آج میرا دوست ہے تو ہمیشہ میرا دوست ہی رہے گا۔ عربوں کو اس خول سے باہر آنے کی ضرورت ہے اور اپنے بے پناہ معدنی وسائل کی بدولت دنیا میں طاقت کے بگڑتے توازن کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بگڑتا توازن صرف مسلم ممالک کے لئے ہی نہیں تمام دنیا کے لئے شدید خطرہ ہے۔ سرِ دست مسلم ممالک اس کا شکار ہیں لیکن اب یہ بات دنیا بھر میں محسوس کی جانے لگی ہے کہ امریکہ اپنی پوزیشن کا ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے۔ پچھلے چند ماہ سے ایک غیر محسوس تبدیلی آ رہی ہے۔ اقوام متحدہ میں دنیا بھر کی اقوام کے دباؤ پر امریکہ سے ڈرون حملوں پر باز پرس کی جا رہی ہے۔ امریکہ کے اندر اس کی جنگوں پر تنقید پر بہت اضافہ ہوا ہے ۔ انٹر نیٹ کو امریکی اثر سے نکالنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ بھارت کی طرف سے بعض سائٹوں پر پابندی سے امریکی حکومت کا تلملانا بہت کچھ سمجھاتا ہے کہ اب امریکی پالیسی سے دنیا کس حد تک عاجز آ چکی ہے۔ ایسے میں اگر ہم اتفاق کا مظاہرہ کریں گے تو شاید مستقبل کی دنیا میں اپنا کچھ مقام پیدا کر سکیں۔ یہ تو طے ہے کہ اب تبدیلی آنی ہی ہے اور امریکہ کی حیثیت بدلنے والی ہے لیکن ایسا تو برطانیہ کی حیثیت بدلتے وقت بھی ہوا تھا اور سوویت یونین کی حیثیت بدلتے وقت بھی ہوا تھا۔ لیکن ہم مسلمان اپنی اہلیت ثابت نہ کر سکے۔ اب ایک بار پھر وقت دستک دے رہا ہے ۔ باہمی سر پھٹول سے نجات حاصل کر لیں گے تو شاید کچھ آبرو کے ساتھ رہ سکیں ورنہ کل کو امریکہ نہیں تو کوئی اور ہمیں رگیدتا ہوا گزر جائے گا ۔
 

Fawad -

محفلین
کرائے کے قاتلوں اور بلیک واٹر کے ذریعے کامرہ جیسے واقعات کروانا تو سی آئی اے کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


"پاکستان ميں تمام تر دہشت گردی کا ذمہ دار امريکہ ہے"۔ يہ سوچ جو پاکستان ميں وقوع پذير ہونے والے دہشت گردی کے کسی بھی واقعے کے بعد لامحالہ سامنے آتی ہے، اس ميں فہم وفراست کے تمام بنيادی اصولوں اور دانش مندی کے تقاضوں کو يکسر نظرانداز کر ديا جاتا ہے۔ اس سوچ اور اس کے بطن سے جنم لينے والے دلائل کے بنيادی تنقيدی جائزے سے وہ متضاد تاويليں واضح طور پر سامنے آ جاتی ہيں جن کی بنياد پر کچھ رائے دہندگان اپنا نقطہ نظر پيش کرتے ہيں۔

مثال کے طور پر اگر بحث کے ليے اس دليل کو تسليم بھی کر ليا جائے کہ امريکہ کسی بھی طرح سے ان نام نہاد جہاديوں کو اس بات پر راضی کر لينے ميں کامياب ہو جاتا ہے کہ ان خودکش حملوں اور اپنی جانوں کا نذرانہ پيش کر کے امريکی مفادات پر قربان ہو جانا چاہیے تو يہ تاويل تو بذات خود اپنے اندر واضح تضاد ليے ہوئے ہے کيونکہ اس حقيقت سے تو سبھی آشنا ہيں کہ دہشت گرد تنظيموں اور ان کے کارندوں کے ليے امريکہ سے شديد نفرت کا وہ جنون ہی ہوتا ہے جو ان کے جرائم اور اعمال کا محرک بنتا ہے۔ اس بنيادی دانش کے پہلو کو آپ اگر نظرانداز کر بھی ديں تو پھر بھی امريکہ کو پاکستان ميں تمام تر دہشت گردی کا ذمہ دار سمجھنے کے ليے آپ کو يہ بھی ماننا پڑے گا کہ حکومت پاکستان، افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اس عظيم سازش ميں برابر کے حصہ دار ہیں کيونکہ ان تمام اداروں کی جانب سے بارہا اس بات کی اہميت پر زور ديا گيا ہے کہ ملک بھر ميں دہشت گردی کے عفريت کو روکنے اورعدم برداشت کی سوچ کو بدلنے کے ليے سب کو مل جل کر کام کرنا ہو گا۔ چند روز قبل 14 اگست کو جرنل کيانی نے اپنی تقرير ميں ملک ميں پنپنے والی ان دہشت گرد تنطيموں کے خلاف کھڑنے ہونے کی ضرورت پر زور ديا تھا جو خطے کے امن اور سلامتی کے ليے براہراست خطرہ ہيں۔

اب سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی سياسی اور فوجی قيادت اس مبينہ امريکی سازش کا حصہ کيونکر بنے گی جبکہ القائدہ، ٹی ٹی پی اور ان سے منسلک دہشت گرد گروہ تو براہراست سياسی قيادت، فوجی اداروں اور فوجی افسران کو نشانا بنا رہے ہيں۔

ان بے رجم قاتلوں کے ہاتھوں پاکستان کے عام شہريوں کی ہلاکت سے سب واقف ہيں۔ ليکن يہ نہيں بھولنا چاہيے کہ اسفند يار ولی اور آفتاب شير پاؤ پر حملے، بے نظير بھٹو، گورنر سلمان تاثير، اقليتوں کے وزير شہباز بھٹی يا اے اين پی کے ليڈر مياں افتخار کے جوان بيٹے کی موت کے واقعات ہوں يا پاک فوج کے جرنل مشتاق بيگ کی خود کش حملے ميں ہلاکت، دہشت گردی کے واقعات ميں ہلاک ہونے والے سياست دانوں اور فوجيوں کی طويل لسٹ سے يہ واضح ہے کہ پاکستان کے عام شہريوں کی طرح سياسی اور فوجی قيادت بھی دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔

اس تناظر کو مد نظر رکھتے ہوئے، اگران بے بنياد کہانيوں ميں کوئ بھی حقيقت ہوتی کہ امريکہ ہی پاکستان ميں دہشت گردی کی کاروائيوں کا ذمہ دار ہے تو کيا يہ ممکن ہوتا کہ حکومت پاکستان اور پاکستان کی افواج امريکہ سے کسی بھی قسم کا تعاون روا رکھتي؟

يہ احمقانہ دعوی کہ امريکہ پاکستان ميں دہشت گردی کا ذمہ دار ہے حقائق اور ممکنات کی معمولی پڑتال اور منطق کی کسوٹی کے سامنے دم توڑ جاتا ہے۔ بلکہ اس دعوے کے برعکس حقائق يہ واضح کرتے ہيں کہ امريکہ نے پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف برسرپيکار کئ اداروں اور قانون نافد کرنے والی ايجنسيوں کی امداد، تربيت، سازوسامان کی ترسيل اور ان کو مجموعی طور پر مزيد فعال بنانے کے ليے ہر ممکن مدد فراہم کی ہے۔ يہ ايک ايسی حقي‍ت ہے جس کو حکومت پاکستان نے بارہا تسليم کيا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
Top