سید شہزاد ناصر
محفلین
شہاب نامہ کی تیاری اور’’ قدرت اللہ شہاب ‘‘ کا وصال
ایک دن کی بات ہے
صبح سویرے قدرت اللہ شہاب کا فون آیا ، مجھے اپنے مخصوص دھیمے انداز میں کہنے لگے ۔’’ عکسی اگر فارغ ہو تو چند لمحوں کے لیے آج کسی وقت میرے پاس آجانا ۔‘‘کچھ کہنا ہوتا تو ایسے ہی لج لجا کر بولتے جیسے التجا کر رہے ہوں ۔ میرے لیے یہ حکم تھا میں ان کے ہاں ایف 8 اسلام آباد کے گھر پہنچا ۔ وہ سٹدی روم میں بیٹھے تھے ، ان کے پاس اٹھارہ بیس کاپیاں تھیں ۔ یہ عام لکیروں والی کاپیاں تھیں جو سکولوں کالجوں مین استعمال ہوتی ہیں۔شہاب صاحب کو کاپی ہمیشہ میں لاکر دیتا ۔ میری خریدی ہوئی کاپیاں ہی انکی tablet تھیں ۔ جس پر وہ سیاہی والے قلم سے شہاب نامہ تحریر کرتے ۔مجھے کہنے لگے ’’ میری کتاب شہاب نامہ مکمل ہو چکی ہے ۔ عکسی تم اس ہفتے اس کا سر ورق ڈیزائن کر کے لاؤ ‘‘مین نے اپنے ہنر مند دوست جاوید قاضی سے درخواست کی کہ شہاب کی چند تصویریں ایسی بنائے ، جو اس کتاب پر لگائی جا سکیں ، کچھ دنون میں ایک بڑے سے کالے سائے کے اندر ایک سفید رنگ کا بابا شہاب میں نے ڈیزائن کے طور پر انکے سامنے رکھا ۔ اسے دیکھ کر شہاب کچھ پریشان نظر آئے ، کہنے لگے۔’’یہ اتنا خوفناک اتنا بڑا سیاہ کالے رنگ کا سایہ میرے گرد کیوں منڈلا رھا ھے۔‘‘ ؟میں نے کہا ’’ سر اس بابے کی سفیدی ابھارنے کے لیے یہ کالا سایہ ضروری ہے ۔ ‘‘’’ ہم ہم ہم ‘‘ کہہ کر شہاب سوچ میں پڑ گئے ۔اگلے ہی روز شہاب نے فون پر میرے ڈیزائن کی تایئد کر دی ۔ کہنے لگے ،’’ ہاں ہاں عکسی میں نے سوچا ہے ۔ یہ کالا سایہ ہونا چاہئے ۔ درست ہے ۔ تمہارا ڈیزائن مجھے منظور ہے۔ فرصت ہو تو کسی وقت پھر میرے پاس آ جانا۔ ‘‘
اس وقت جب دوپہر کو میں انکے پاس پہنچا تو انھوں نے شہاب نامے کی تمام کاہیاں میرے سامنے ڈھیر کر دیں۔مجھ سے اصرار کیا کہ کاپی پنسل لے کر شہاب نامے کے ایک ایک باب کو سلسلہ وار لکھوں اور کاپیون میں شناحت کروں ۔وہ بضد تھے کہ کوئی غلطی نہیں ہونی چاہئے ۔جب میں سب سلسلے وار لکھ چکا تو کہنے لگے ۔’’ عکسی اب اس کی اشاعت بھی تمہاری ذمہ داری ہے ۔ ‘‘
میں خیرت سے شہاب کا منہ تکنے لگا ۔ میں نے کہا سر یہ آپ کی ذندگی بھر کی محنت ہے ۔ یہ آپ کی زندگی کے انمول تجربات ہیں ۔ میرے لیے یہ انتہائ قیمتی اور نادر نسحہ ہیں ۔ اتنی بڑی زمہ داری میرے ناتواں کندھون پر نا ڈالئے ۔ مجھ سے غلطیاں ہوں گی ، آپ کی محنت ظائع نہ ہو جائے۔ ویسے بھی میں چھپائ اور اشاعت کے بارے میں بہت کم جانتا ہوں ۔ آپ یہ ذمہ داری برائے کرم اشفاق احمد پر ڈال دیں ۔ وہ بہت تجربہ کار ہیں ۔ وہ اس کتاب کو بڑی خوبصورتی سے چھاپیں گے۔شہاب نہیں مانے ۔ میرا بنایا ہوا سر ورق اور تمام کاپیاں مجھے واپس سونپ دیں۔
میں یہ اثاثہ اٹھائے ہوئے گھر پہنچا اور سوچ میں پڑ گیا کہ اس ذمہ داری سے کیسے نبٹوں۔؟اگلے ہی روز دوپہر چار بجے کے قریب میرا فون بجا ۔ نمبر تو شہاب کا تھا مگر آواز ڈاکٹر بلال کی تھی ۔ بلال نے قدرے ہنگامی آواز میں کہا ۔۔۔۔’’ عکسی بھائ آکسیجن سلنڈر لے کر جلدی پہنچیں ‘‘
بلال کو معلوم تھا کہ میں سانس کی بیماری کے بعد ایک چھٹا آکسیجن سلنڈر ہر وقت اپنے پاس رکھتا ہوں ، لیکن اس دن اس لمحے یہ سلنڈر ڈھونڈتا ہی رہ گیا اور جب سلنڈر مل گیا تو اس میں گیس نہ تھی وہ خالی تھاجب میں گھر پہنچا تو بلال اور ثاقب شہاب ایک معذور شخص کو جس کی گردن ڈھلکی ہوئ ، ہونت گرے ہوئے تھے کرسی پر بٹھائے اس اپاہج کو سیڑھیوں سے اتار رہے تھے ۔ یہ داکھ کر مجھے دھچکا لگا کہ کرسی پر اپاہج کوئ اور نہیں قدرت اللہ شہاب تھے۔ ان پر دل کا شدید دورہ اور فالج کا حملہ ہوا تھا۔ وہ ذندگی اور موت کی کشمکش میں تھے ۔انہیں جلدی سے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لٹایا ۔ ثاقب نے ان کا سر اپنی گود میں رکھا ۔ بلال میرے ساتھ آگے بیٹھ گئے اور میں گاڑی تیزی سے چلاتا ہوا راولپنڈی c m h کی طرف بڑھنے لگا۔ابھی آدھے راستے ہی میں تھے کہ شہاب دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ گاڑی میں خاموشی چھا گئ ۔
c m h پہنچنے پر ڈاکٹروں نے ان کے دل کی حرکت کو بحال کرنے کے لیے چھاتی پر اس ذور سے ضرب لگائی کہ انکی دو پسلیاں ٹوٹ گئیں لیکن دل کی حرکت بحال نہ ہوئی ۔’’ ثاقب خاموش تھا‘‘
نہ رویا نہ بولا ، بلال ہسپتال کے کمرے سے باہر جا چکا تھا شاید وہ یہ منظر نہیں دیکھ پایا ۔ میں اس کمرے کے ایک کونے میں کھڑا رہا ۔یکلخت مجھے ایسا معلوم ہوا جیسے فضا میں ایک نغمہ گونج رہا ہے ۔ اس نغمے کی آواز میری کانوں میں صاف سنائی دینے لگی،
لائی حیات آئے ، قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی آئے نہ اپنی خوشی چلے
ہسپتال کے کمرے کی انتہائی افسردہ ، خاموش اور بوجھل فضا سے رہایئ حاصل کرتے ہی میں سیدھا پشاور روڈ پر اپنے بچپن کے دوست عاصم حمید گھر پہنچا۔ میں نے اسے کچھ نہیں بتایا۔ وہ ہمیشہ کی طرح مجھ سے خوش گپیاں کرتا رہا ۔ کمال میزبانی سے مجھے کھانا کھلایا ۔
گھر پہنچا تو کار کی پچھلی سیٹ پر شہاب کی گھسی پرانی کھڑاویں اور آکسیجن سلنڈر کی ناکی پڑی تھیں۔ مجھے یاد دلا رہیں تھیں کہ قدرت اللہ شہاب دنیا سے رحصت ہو گئے ہیں ۔اگلے ہی روز میرا دوست پانچ وقت کا نمازی ، پرہیزگار ، اور قرآن کا گہرا مطالعہ رکھنئ والا رشن خیال ڈاکٹر جہانگیر اختر ان دونوں چیزوں کو دیکھ کر بولا ۔عکسی تم خوش نصیب ہو۔ یہ جوتا اور سانس کی نالی قدرت اللہ شہاب جاتے جاتے تمہیں تحفہ میں دے گئے ہیں اور بیماری لے گئے ہیں ۔۔۔؛؛
ایک دن کی بات ہے
صبح سویرے قدرت اللہ شہاب کا فون آیا ، مجھے اپنے مخصوص دھیمے انداز میں کہنے لگے ۔’’ عکسی اگر فارغ ہو تو چند لمحوں کے لیے آج کسی وقت میرے پاس آجانا ۔‘‘کچھ کہنا ہوتا تو ایسے ہی لج لجا کر بولتے جیسے التجا کر رہے ہوں ۔ میرے لیے یہ حکم تھا میں ان کے ہاں ایف 8 اسلام آباد کے گھر پہنچا ۔ وہ سٹدی روم میں بیٹھے تھے ، ان کے پاس اٹھارہ بیس کاپیاں تھیں ۔ یہ عام لکیروں والی کاپیاں تھیں جو سکولوں کالجوں مین استعمال ہوتی ہیں۔شہاب صاحب کو کاپی ہمیشہ میں لاکر دیتا ۔ میری خریدی ہوئی کاپیاں ہی انکی tablet تھیں ۔ جس پر وہ سیاہی والے قلم سے شہاب نامہ تحریر کرتے ۔مجھے کہنے لگے ’’ میری کتاب شہاب نامہ مکمل ہو چکی ہے ۔ عکسی تم اس ہفتے اس کا سر ورق ڈیزائن کر کے لاؤ ‘‘مین نے اپنے ہنر مند دوست جاوید قاضی سے درخواست کی کہ شہاب کی چند تصویریں ایسی بنائے ، جو اس کتاب پر لگائی جا سکیں ، کچھ دنون میں ایک بڑے سے کالے سائے کے اندر ایک سفید رنگ کا بابا شہاب میں نے ڈیزائن کے طور پر انکے سامنے رکھا ۔ اسے دیکھ کر شہاب کچھ پریشان نظر آئے ، کہنے لگے۔’’یہ اتنا خوفناک اتنا بڑا سیاہ کالے رنگ کا سایہ میرے گرد کیوں منڈلا رھا ھے۔‘‘ ؟میں نے کہا ’’ سر اس بابے کی سفیدی ابھارنے کے لیے یہ کالا سایہ ضروری ہے ۔ ‘‘’’ ہم ہم ہم ‘‘ کہہ کر شہاب سوچ میں پڑ گئے ۔اگلے ہی روز شہاب نے فون پر میرے ڈیزائن کی تایئد کر دی ۔ کہنے لگے ،’’ ہاں ہاں عکسی میں نے سوچا ہے ۔ یہ کالا سایہ ہونا چاہئے ۔ درست ہے ۔ تمہارا ڈیزائن مجھے منظور ہے۔ فرصت ہو تو کسی وقت پھر میرے پاس آ جانا۔ ‘‘
اس وقت جب دوپہر کو میں انکے پاس پہنچا تو انھوں نے شہاب نامے کی تمام کاہیاں میرے سامنے ڈھیر کر دیں۔مجھ سے اصرار کیا کہ کاپی پنسل لے کر شہاب نامے کے ایک ایک باب کو سلسلہ وار لکھوں اور کاپیون میں شناحت کروں ۔وہ بضد تھے کہ کوئی غلطی نہیں ہونی چاہئے ۔جب میں سب سلسلے وار لکھ چکا تو کہنے لگے ۔’’ عکسی اب اس کی اشاعت بھی تمہاری ذمہ داری ہے ۔ ‘‘
میں خیرت سے شہاب کا منہ تکنے لگا ۔ میں نے کہا سر یہ آپ کی ذندگی بھر کی محنت ہے ۔ یہ آپ کی زندگی کے انمول تجربات ہیں ۔ میرے لیے یہ انتہائ قیمتی اور نادر نسحہ ہیں ۔ اتنی بڑی زمہ داری میرے ناتواں کندھون پر نا ڈالئے ۔ مجھ سے غلطیاں ہوں گی ، آپ کی محنت ظائع نہ ہو جائے۔ ویسے بھی میں چھپائ اور اشاعت کے بارے میں بہت کم جانتا ہوں ۔ آپ یہ ذمہ داری برائے کرم اشفاق احمد پر ڈال دیں ۔ وہ بہت تجربہ کار ہیں ۔ وہ اس کتاب کو بڑی خوبصورتی سے چھاپیں گے۔شہاب نہیں مانے ۔ میرا بنایا ہوا سر ورق اور تمام کاپیاں مجھے واپس سونپ دیں۔
میں یہ اثاثہ اٹھائے ہوئے گھر پہنچا اور سوچ میں پڑ گیا کہ اس ذمہ داری سے کیسے نبٹوں۔؟اگلے ہی روز دوپہر چار بجے کے قریب میرا فون بجا ۔ نمبر تو شہاب کا تھا مگر آواز ڈاکٹر بلال کی تھی ۔ بلال نے قدرے ہنگامی آواز میں کہا ۔۔۔۔’’ عکسی بھائ آکسیجن سلنڈر لے کر جلدی پہنچیں ‘‘
بلال کو معلوم تھا کہ میں سانس کی بیماری کے بعد ایک چھٹا آکسیجن سلنڈر ہر وقت اپنے پاس رکھتا ہوں ، لیکن اس دن اس لمحے یہ سلنڈر ڈھونڈتا ہی رہ گیا اور جب سلنڈر مل گیا تو اس میں گیس نہ تھی وہ خالی تھاجب میں گھر پہنچا تو بلال اور ثاقب شہاب ایک معذور شخص کو جس کی گردن ڈھلکی ہوئ ، ہونت گرے ہوئے تھے کرسی پر بٹھائے اس اپاہج کو سیڑھیوں سے اتار رہے تھے ۔ یہ داکھ کر مجھے دھچکا لگا کہ کرسی پر اپاہج کوئ اور نہیں قدرت اللہ شہاب تھے۔ ان پر دل کا شدید دورہ اور فالج کا حملہ ہوا تھا۔ وہ ذندگی اور موت کی کشمکش میں تھے ۔انہیں جلدی سے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لٹایا ۔ ثاقب نے ان کا سر اپنی گود میں رکھا ۔ بلال میرے ساتھ آگے بیٹھ گئے اور میں گاڑی تیزی سے چلاتا ہوا راولپنڈی c m h کی طرف بڑھنے لگا۔ابھی آدھے راستے ہی میں تھے کہ شہاب دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ گاڑی میں خاموشی چھا گئ ۔
c m h پہنچنے پر ڈاکٹروں نے ان کے دل کی حرکت کو بحال کرنے کے لیے چھاتی پر اس ذور سے ضرب لگائی کہ انکی دو پسلیاں ٹوٹ گئیں لیکن دل کی حرکت بحال نہ ہوئی ۔’’ ثاقب خاموش تھا‘‘
نہ رویا نہ بولا ، بلال ہسپتال کے کمرے سے باہر جا چکا تھا شاید وہ یہ منظر نہیں دیکھ پایا ۔ میں اس کمرے کے ایک کونے میں کھڑا رہا ۔یکلخت مجھے ایسا معلوم ہوا جیسے فضا میں ایک نغمہ گونج رہا ہے ۔ اس نغمے کی آواز میری کانوں میں صاف سنائی دینے لگی،
لائی حیات آئے ، قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی آئے نہ اپنی خوشی چلے
ہسپتال کے کمرے کی انتہائی افسردہ ، خاموش اور بوجھل فضا سے رہایئ حاصل کرتے ہی میں سیدھا پشاور روڈ پر اپنے بچپن کے دوست عاصم حمید گھر پہنچا۔ میں نے اسے کچھ نہیں بتایا۔ وہ ہمیشہ کی طرح مجھ سے خوش گپیاں کرتا رہا ۔ کمال میزبانی سے مجھے کھانا کھلایا ۔
گھر پہنچا تو کار کی پچھلی سیٹ پر شہاب کی گھسی پرانی کھڑاویں اور آکسیجن سلنڈر کی ناکی پڑی تھیں۔ مجھے یاد دلا رہیں تھیں کہ قدرت اللہ شہاب دنیا سے رحصت ہو گئے ہیں ۔اگلے ہی روز میرا دوست پانچ وقت کا نمازی ، پرہیزگار ، اور قرآن کا گہرا مطالعہ رکھنئ والا رشن خیال ڈاکٹر جہانگیر اختر ان دونوں چیزوں کو دیکھ کر بولا ۔عکسی تم خوش نصیب ہو۔ یہ جوتا اور سانس کی نالی قدرت اللہ شہاب جاتے جاتے تمہیں تحفہ میں دے گئے ہیں اور بیماری لے گئے ہیں ۔۔۔؛؛