محمد اظہر نذیر
محفلین
- السلام و علیکُم،
دوستو، ایک کاوش آپ کی خدمت میں پیش ہے۔امید کرتا ہوں کہ اپنی سچی آراء سے نوازیے گاعکسدوستو ، میں کوئی لکھاری نہیں ہوں اور جس کی کہانی آج آپ کی نظر سے گزرے گی ، وہ بھی مجھے کوئی پیشہ ور لکھاری نہیں لگتا ہے، بلکہ شائد تھا کہنا بہتر ہو گا۔ میرا ایسا ہرگز کوئی ارادہ نہیں تھا کہ میں یہ کہانی آپ تک پہنچاتا کیونکہ یہ میں نے نہیں لکھی، لیکن پھر ایک واقعہ نے مجھے یہ سب کرنے پر مجبور کر دیا۔ کیا کہا؟ بتاوں کون سا واقعہ؟ آپ ایسا کیجیے کہ پہلے کہانی پڑھ لیجیے۔ یہ یاد رکھیے گا کہ یہ کہانی ایک ورق پر لکھی مجھے ایک جائے حادثہ سے ملی تھی۔ اُس کاغذ پر لکھا کچھ یوں تھا:
،،
بچپن سے ہی اللہ کی وحدانیت پر میرا یقین کامل ہے اور آخری سانس تک رہے گا، انشااللہ۔ بس نہ جانے کیوں ایک عجیب سا خیال میرے ذہن میں بچپن سے ہی موجود تھا، اس کی کوئی توجیہ میرے پاس موجود نہیں ، بس ایک خیال تھا کہ اگر واحد صرف اللہ کی ذات ہے تو ہم میں سے کوئی دوسرا واحد نہیں ہو سکتا، یکتائی صرف اور صرف اللہ کے لیے ہے۔ میں اکثر یہ سوچا کرتا کہ کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی میرے جیسا اور بھی ضرور ہو گا، آپ ہنس رہے ہوں گے میری بات پر، لیکن ایک دن میں نے اُسے دیکھ لیا، ہوبہو میرے جیسا، وہ بازار میں راہ چلتے دکھائی دیا تھا، مانو ایک ذرہ بھر بھی فرق نہ ہو۔ بچپن کا وہ عجیب سا خیال آج مجسم میرے سامنے تھا۔ مجھے ہوش تب آیا جب کسی راہ گیر کا کندھا زور سے میرے ساتھ ٹکرایا، ،،معاف کیجیے گا،، کہتے ہوئے وہ صاحب یہ جا اور وہ جا۔ میں بھی اپنے سکتے سے جیسے باہر آ گیا اور اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا۔
کچھ دن بعد والدہ نے مجھے مٹھائی لانے بھیجا، میں ابھی دکان کے قریب ہی پہنچا تھا کہ میں نے اُسے وہاں سے باہر نکلتے دیکھا، وہ میرے کھلے منہ سے بےنیاز چلنے لگا، پتہ نہین کیا ہوا کہ میں بھی اُس کے پیچھے چل پڑا، اب یہ آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ کیوں، آپ سمجھ سکتے ہیں کہ میری کوشش یہی تھی کہ وہ مجھے دیکھ نہ پائے۔ چلتے چلتے ایک موڑ پر وہ اچانک مڑا اور پھر میری نگاہوں سے اوجھل ہو گیا، کچھ دیر اُسے ڈھونڈنے میں گزاری لیکن پھر امی اور مٹھائی کا خیال آ گیا اور میں مٹھائی کی دکان کی طرف بھاگا، واپس دکان تک تقریبا ایک گھنٹہ گزر چکا تھا، میں نے مٹھائی لی اور گھر کی طرف بھاگا۔ اب جو ڈانٹ پڑی ہے وہ بر طرف۔ لیکن کچھ ہی دن بعد ایک اور واقعہ رونُما ہوا۔
میرے دوست کے بڑے بھائی کی شادی کی تقریب تھی، ہم سبھی مدعو تھے والدہ کی طبعیت ٹھیک نہیں تھی نجھے بولیں کہ جاو کوئی تحفہ دینے کو لے آو، میں نے پوچھا کہ کیا تحفہ ہونا چاہیے، تو والدہ بولیں کہ کوئی مناسب سی گھڑی لے آو۔ میں دکان پر پہنچا اور ایک گھڑی پسند کر لی ، کاونٹر پر کھڑے لڑکے کو پیسے دیے اور اُس نے بل میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ ،، ارے صاحب آپ پھر سے آ گئے،، اور پھر میرے ہاتھ میں گھڑی دیکھ کر بولے،، میاں کیا واپس کرنے آئے ہیں،، ،، نہیں ،، میں نے بولا۔
،، ابھی کوئی گھنٹہ بھر پہلے ہی تو لے گئے تھے آپ، اوہ شائد کسی اور کے لیے بھی ضرورت پڑ گئی ہو گی،، ،،جی آیاں نوں جناب بسم اللہ ہمیں آپ کی خدمت کر کے خوشی ہوتی ہے،، اُنہوں نے کہا اور میں وہاں سے یہ سوچتا چل پڑا کہ وہ گھنٹہ بھر پہلے وہیں تھا، جو میرے مشابہ تھا، میرا جوڑی دار، میرا عکس، میرا پرتو، جو بھی کہیں اُسے۔ اب اس بات میں مجھے کوئی شک شبہ نہیں رہا تھا کہ میں جہاں بھی جاتا تھا، وہ وہاں مجھ سے ایک گھنٹہ پہلے موجود ہوتا اور جو میں کرتا تھا وہ ایک گھنٹہ قبل کر چکا ہوتا تھا۔
آج صبح جب میں اُٹھا تھا تو سر میں ہلکا ہلکا درد تھا، گاڑی اسٹارٹ کی تو اُس نے جواب دے دیا، ماں کو بتا کر میں بس اسٹاپ کی طرف چل پڑا تھا تاکہ آفس سے چھٹی نہ کرنی پڑے۔ اسٹپ پر ایک مجمع سا لگا ہوا تھا۔ ،،بےچارہ مر چکا ہے، بس نے کچل دیا ہے،،۔ لاکھ کوشش کے باوجود مجمعے میں پڑی لاش مجھے دکائی نہیں دی، لیکن جیسے ہی ایمبولینس والے آئے اور اُنہوں نے راستہ بنا کر لاش اُٹھائی تو میرے نظر پڑی، وہ وہی تھا میرا عکس۔ مانو زمیں میرے پاوں سے کھسک گئی ہو، میں دھڑام سے زمیں پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر گُم سُم بیٹھا رہا تھا، پھر سوچا کہ یہ ساری روداد کاغذ پر لکھ دوں ، اب بس آ رہی ہے اور مجھے اُس پر چڑھنا ہے،،دوستو جب میں جائے حادثہ پر پہنچا تھا تو ہر طرف ہا ہا کار مچی ہوئی تھی اور لوگ کہ رہے تھے کہ ایک ہی مقام پر ایک گھنٹے کے اندر اندر دو حادثہ ہو چکے ہیں ۔ ایک آدمی خون میں لت پت وہاں پڑا ہوا تھا ، پھر ایمبولینس والے آئے اور اُسے اُٹھا کر لے گئے۔ یہ کاغذ ایک طرف پڑا تھا اور میں نے غیر اختیاری طور پر اُٹھا کر پڑھ لیا تھا، مجھے بہت عجیب لگا تھا، کچھ سوچ کر میں نے اُسے جیب میں ڈال لیا۔ آج بہت عرصہ کے بعد یہ کاغذ مجھے یاد آیا ہے اور میں یہ کہانی ہیاں لکھ رہا ہوں، پتہ ہے کیوں؟ کیوں کہ میں نے اپنے عکس کو دیکھ لیا ہے