عہد جدید میں حجاب؟

یوسف-2

محفلین
ڈاکیا اب خط نہیں لاتا، انٹرنیٹ پربرقی خطوط آجاتے ہیں۔ دوستوں میں ملاقات نہیں ہو تی ، فیس بک یا ٹوئٹر پہ چیٹ ہو جاتی ہے۔ دنیا کے ہر خطے میں گھر بیٹھے بات ہو جاتی ہے مگر سامنے بیٹھا شخص اس وقفے کا منتظر رہتا ہے کہ جب ہزاروں میل دور ہونے والی یہ کال بند ہو اور دو منٹ اس سے بھی بات ہو جائے۔ آج سینے میں دھڑکتا دل اتنا اہم نہیں‘ جتنا دل کے اوپر جیب میں پڑا اے ٹی ایم کارڈ۔ آج کسی کی مجلس اور رفاقت اتنی بابرکت نہیں ہوتی جتنی آپ کی کوٹھی اور کار کی وسعت مطلوب تر۔ یہ ٹیکنالوجی کی تاروں اور کچھ دوسرے شاہکاروں کا دور ہے۔یہاں پرخلوص رشتوں کی کم اور پیشہ ورانہ رویوں کی زیادہ اہمیت ہے۔ کل کی محبوبات و مرغوبات آج کی متروکات شمار ہوتی ہیں۔ یہ بھی مگر درست کہ انسان جس بھی تیز رفتا ر عہدیاسحر کار شہر میں جا بسے ،اس کے اندر کا اصل انسان فطرت کی آغوش کا طلبگار رہتا ہے ،چنانچہ شہرِ جدیدیت میں کھو گئے انسان پہ معصومیت کے گاؤں گاہ اس شدت سے یلغار کرتے ہیں گویا پریشر ککر کا ڈھکن کھل گیا ہو۔چنانچہ انسان آج بھی اند ر کے معصوم بچے کو لوریا ں دیتا محسوس ہوتا ہے، وہ آج جو وال پیپرلگاتا، جو مناظر شیئرکرتا،جو پینٹنگ بناتااورشعر و ادب کے جو تیور اٹھاتا ہے ،وہ اسی عہدِ فراموش کے گاؤں کی زردسرسوں، ابد سے جاملے کھیتوں، مشقت سے چور دہقانوں اور تارتار کو ترستی دختر دہقانوں کے ستے چہرے اور ڈھلکتے آنچل ہواکرتے ہیں، یعنی فطرت سے نفور یہ شخص شہرِ طلسمات میں مجبورہو چکے اس معمول کی طرح ہے جو بھاگ بھاگ کے چور ہو جاتاہے مگر ایک قدم آگے نہیں بڑھ پاتا۔ چنانچہ کوئی نیو یارک میں بستا ہو یا ناروے میں، کوئی فرینکفرٹ میں رہتا ہو یا فرانس میں ،کوئی سوئٹزرلینڈ میں پھنسا ہو یابرسلز میں ، وہ کسی نہ کسی لمحے جدیدیت کی زنجیریں تو ڑتا کسی نہ کسی کنج گل میں بیٹھ کے سبزہ و گل سے ہمکلام ہونا چاہتا ہے۔ پھرجب سو ندھی مٹی، گلاب مہک اور کومل سبزے کی شادابی اس کے رگ وریشے میں جھومتی گاتی اترتی ہے توذہن میں تازہ خیالات اترنیاور نئی دنیاؤں کے تصورات ابھرتے ہیں۔ انسان فطرت کی گود سے نکل کر پھرجن کی تعمیر و تشکیل اور تسخیر و تخلیق کے لیے نکل پڑتا ہے۔ کل میں بھی وہیں تھا‘ جہاں جھیل کنارے پرندے اترتے، پہاڑی پر سبزہ اگتا اور سبزہ و گل کی تراشیدہ روشیں دور تک چلی جاتی تھیں۔ تعجب سے میں نے یہاں حجاب اور حیا کے مناظردیکھے! اور تب میں خیالات کے بہاؤ میں بہتا سوچنے لگا‘ اس عہدِ تازہ میں بھی رخِ روشن پہ یہ حجاب کیوں؟؟ انسان کہ جو نمود و نمائش کا خوگر اور اپنا آپ منوانے میں بلا کاخود سر ہے۔ وہ جو نام کے بغیر تحریر اور تصویر کے بغیر کالم نہیں لکھتا۔جو اپنی پہچان کو بے چہرگی سے بچانے کیلئے زندگیاں کھپادیتاہے۔ جو آگے بڑھنے اور اونچا ہونے کے لیے کبھی گلے کاٹتا اور کھوپڑیوں کے میناربنا دیتا ہے۔ اس معاملے میںیہ ہمیشہ اس طاقتور جذبے کے زیرِ اثر رہتاہے کہ جس نے بے رحم و سنگلاخ فطرت سے بھی اپنا آپ منوایا ہے۔ حسن کا استعارہ ہوتے چاند اور فلک کی چھاتی سے سر لگاتے ہمالیہ کو اس نے باٹاکے بوٹوں سے روندا ہے۔ دریاؤں کے رخ موڑے اورمنہ زورسمندِ سمندر کو لگام ڈالی ہے۔ روایات کو توڑکے جدیدیت کو جگہ دی ہے۔ پھراس کے باوجود اسی کے ہاں یہ بے چہرگی، عدمِ شناخت اور اپنا آپ مستور کیوں؟ وہ بھی تو بنتِ حوا ہی ہے جو لباس کی قیمت کا ڈرنک پی جاتی اور عریانی کو ’فاخرانہ‘ لباس کہتی ہے۔ پھرانھی خود سر ،خود نگر ،خود بیں و خود آرا انسانوں کے درمیان برقعے میں ملبوس، حجاب میں محدود اور نقاب میں محصور یہ کیا ہے ،کون ہے اور کیوں ہے؟
کیااس کے پہلو میں دل اور دل میں ارمان، کھوپڑی میں گود اساورگودے میں ہیجان نہیں؟ اگر سی ٹی سکین، ایم آر آئی اور ای سی جی کے تمام مرحلوں میں یہ بنتِ حوابھی انسان ہی ثابت ہوتی ہے تو پھر لازم ہے کہ اس کا ایک اور ٹیسٹ بھی کیا جائے۔ کسی ایسی مشین سے کوئی ایساٹیسٹ جو بتائے کہ ان میں حجاب و نقاب سہارنے کی وہ کیا اضافی طاقت ہے جو ریشم و ململ کا آنچل تک برداشت نہ کر پاتی نحیفوں نزاروں میں نہیں ہوتی۔ ان میں سے کون عزم کاکوہِ گراں ہے ا ورکون محض خس و خاشاک ! انسانی جسم کا طاقتور ترین پروسیسر دماغ مجھے گھمائے لئے جاتا تھا اور میں بے طرح سوچتا تھا، پھر عرب مصنف ڈاکٹر محمد علی ہاشمی یاد آئے۔ اس نے لکھا کہ کسی افریقی ملک کی یونیورسٹی میں اور قیامت خیز گرمی میں ایک دوشیزہ حجاب اوڑھے، مغربی دانش ور کا لیکچر سماعت کرتی تھی کہ جسے دیکھ کر دانشوربوکھلا اٹھا۔ جی ہاں!مغرب اتنا ہی بہادر اور روشن خیال ہے کہ وہ آدھ گز حجاب سے بولایااور بوکھلایا رہتا ہے،اس نے پوچھا، اس شدتِ گرمی میں حجاب آپکاجسم جلا نہیں دیتا؟ جواب اتنامختصر تھا کہ محض ایک قرآنی آیت کا ٹکڑا، ’’قل نار جہنم اشد حرا‘‘ انھیں کہو،نارِ جہنم دنیاوی گرمی سے کہیں شدید تر ہے۔تو کیاہر حجاب میں وہی افریقی دوشیزہ بولا کرتی ہے۔ پھر حجاب چندناقابلِ التفات سر پھری بِنات حوا ہی کا نہیں اک گلوبل طرزِ عمل ہے۔ یہ محض وقت سے پیچھے رہ جانے والی کچھ ناخواندہ راہباؤں کا فیصلہ بھی نہیں۔ نیوروسائنسز میں پی ایچ ڈی عافیہ بھی حجاب پسند ہے، ڈیفنس اور گلبرگ میں بھی حجاب ہوتا ہے، یونیورسٹی سطح کی دانش گاہوں کے کوریڈورز میں بھی یہ ملتا ہے اور تو اور یورپ کی عریاں مارکیٹوں میں بھی اس کا جادو چل جاتا ہے۔ پھر یہ کوئی موروثی بیماری بھی نہیں کہ جومحض مسلمانوں کے جینز میں چلی آتی ہو، نہیںیورپ و امریکہ کی کتنی ہی مریم جمیلائیں بھی اسی پہ فریفتہ ہیں۔
پھر یہ کسی پسماندگی یا مجبوری کی ایجاد بھی نہیں۔ عرب کے جس صحرا سے یہ حجاب اٹھا تھا وہاں کی عورت پسماندہ تھی نہ مرعوب۔ ابھی بہت کچھ زمانے کو جاننا ہے مثلاً یہی کہ عرب کی صحرائی عورت آج کی مغربی عورت سے کہیں زیادہ آزاد و خود پسند تھی۔ وہ بھیڑبکریاں نہ ہوتی تھی کہ جس نے لاٹھی پکڑی ہانک لے گیا۔ بہت پیغام آتے تھے اور بڑا مہنگا مہر ہوتا تھا اور تب کسی سکندر کے نام قرعہ فال نکلتا تھا۔ ایک ایک در پر کئی کئی سرداروں کے سر ہوتے تھے جن میں سے کوئی ایک التفات نگاہ کا حقدار ٹھہرتاتھا۔بڑی بے باک عورت تھی جس نے پہلے حکم پر پہلا حجاب اوڑھا تھا۔وہ کہیں زیادہ آزاد تھی مگر اس سے کہیں زیادہ دور اندیش اوردانش مند بھی!
مختلف تہواروں میں چیخ تے چند بے بس مجہولوں کے بے رس پھولوں کی کیا حیثیت! چند بھول گئی نادان تتلیوں کی ناہمواراڑان کی کیا اہمیت؟ تسخیرِچاند کے اس عہد میں بھی چاندنی میں نہائی اصل بنت حوا چادر اور چاردیواری کے اندر ہے۔ وہی اس امت کا گوہرو جوہر اور وہی محمد عربی کی امت کے ماتھے کا جھومر ہے۔ دنیا کے ہر ریس کورس اور ہرکونے میں دکھتا یہ حجاب بتاتا ہے کہ ویلنٹائن ہو یا کوئی سی بھی دوسری ’ڈائن‘ سیدہ عائشہ اور سیدہ فاطمہ کی اصلی بیٹیوں کا یہ کچھ نہیں بگاڑسکے گی۔ یہاں بہت سے ’الہدیٰ‘ اور ’النور ‘ہیں اور بہت سی اسلامی جماعتیں ہیں جن کی محنتوں کو کوئی باسی گلاب شکست نہیں دے سکتا۔
حافظ یوسف سراج کا کالم مطبوعہ روزنامہ نئی بات 21 فروری 2013

لنک
 

arifkarim

معطل
مسلمان مردوں کو بھی حجاب لینا چاہئے۔ کیونکہ اگر مردوں کی آنکھ میں ملاوٹ ہو سکتی ہے تو عورتیں کیسے بالکل صاف اور پاک ہو سکتی ہیں؟ کیا انکے سینے میں دل نہیں دھڑکتے؟
 

زلفی شاہ

لائبریرین
شمشاد بھائی! یوسف-2 اور یوسف سراج کیا ایک ہی شخصیت نہیں ہیں؟ کیا یہ یوسف-2 کبھی یوسف ثانی کے نام سے نہیں لکھا کرتے تھے؟
 

شمشاد

لائبریرین
شمشاد بھائی! یوسف-2 اور یوسف سراج کیا ایک ہی شخصیت نہیں ہیں؟ کیا یہ یوسف-2 کبھی یوسف ثانی کے نام سے نہیں لکھا کرتے تھے؟
سر جی اتنی جلدی کیا تھی وضاحت کرنے کی۔ :) تھوڑی دیر تو مجھے خوش ہولینے دیتے، شاہ جی کی مبارکباد سے :)
اب انہوں نے خود ہی وضاحت کر دی ہے تو میں کیا کہہ سکتا ہوں۔

جہاں تک مجھے علم ہے یوسف بھائی حافظ نہیں ہیں۔ اور مندرجہ بالا کالم حافظ یوسف سراج صاحب کا ہے۔

جہاں تک یوسف ثانی کا تعلق ہے تو آپ کی بات درست ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
مسلمان مردوں کو بھی حجاب لینا چاہئے۔ کیونکہ اگر مردوں کی آنکھ میں ملاوٹ ہو سکتی ہے تو عورتیں کیسے بالکل صاف اور پاک ہو سکتی ہیں؟ کیا انکے سینے میں دل نہیں دھڑکتے؟
حجاب اوڑھنے کے باوجود آنکھ میں ملاوٹ ہو سکتی ہے، اس لیے مردوں کے لیے حکم ہے کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں ناکہ حجاب اوڑھیں ۔
 

یوسف-2

محفلین
داڑھی کو مردوں کا حجاب بھی کہا جاسکتا ہے :)
story10.gif
 

شمشاد

لائبریرین
مردوں کے لیے جو حکم ہے وہ مرد کریں اور جو عورتوں کے لیے حکم وہ اس پر عمل کریں۔

پنجابی کی ایک مثال ہے۔

"من حرامی حجت ہزار"

دل میں ٹھان رکھی ہو کہ نہیں ماننا تو ہزار حجتیں پیدا کی جا سکتی ہیں۔
 

arifkarim

معطل
مردوں کے لیے جو حکم ہے وہ مرد کریں اور جو عورتوں کے لیے حکم وہ اس پر عمل کریں۔

پنجابی کی ایک مثال ہے۔

"من حرامی حجت ہزار"

دل میں ٹھان رکھی ہو کہ نہیں ماننا تو ہزار حجتیں پیدا کی جا سکتی ہیں۔
بات حکم کی نہیں اسکے پیچھے گہری منطق کی ہے۔ حکم کا مقصد معاشرہ سے جنسی جرائم کو ختم کرنا ہے۔ آج پردے کے پیچھے سب کچھ ہو رہا ہے، کوئی سا بھی اسلامی ملک اٹھا کر دیکھ لیں۔ خالی حکم پر عمل کر لینے سے معاشرے جنت نہیں بن جایا کرتے۔ اگر کبھی گرمیوں میں یورپ کا چکر لگے تو ذرا ان گوروں کو بھی دیکھ لینا۔ بغیر پردے کے بھی ان عورتوں کو کوئی نہیں دیکھتا۔ جبکہ ہمارے دیسی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر انکو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ جنکو بچپن ہی سے عورت ذات کی عزت کرنا نہ سکھائی گئی ہو، وہ بڑے ہو کر کیا کریں گے۔ یہاں ناروے میں پچھلے سال بہت سارے بھارت جیسے کیسز سامنے آئے۔ اور ہر کیس میں ایک غیر ملکی ہی اعزاز جرم کرتے پکڑا گیا!
 
Top