عید اور دہشت گرد

آج عید کے روز ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔

مین ہیٹن میں ایک سٹریٹ سے گزرتے ہوئے ایک گاڑی سڑک کے سٹریٹ کے درمیان کھڑی تھی اور اس کے ساتھ ایک گاڑی کے گزرنے کی جگہ بہت بچ بچا کر مشکل سے تھی۔ میرے پیچھے والی گاڑی میں دو آدمی تھے جو دونوں ہی بہت جلدی میں تھے اور خاصے غصیلے بھی تھے۔ حالانکہ میری گاڑی کے شیشے بند تھے مگر ان دونوں کی گالیوں کی آواز اتنی بلند تھی کہ شیشے بیچارے اسے میری سماعتوں تک آنے سے نہیں روک پا رہے تھے۔ پہلے تو میں سمجھا کہ شاید کسی اور شخص کو کسی غلطی پر یہ گالیاں پڑ رہی ہیں یا کوئی دو بندے آپس میں ہنسی مذاق کر رہے ہیں مگر پھر غور کیا تو اندازہ ہوا کہ یہ تمام "گفتگو" میری ہی شان بیان کرنے کے لیے ہو رہی تھی۔ اتنی دیر میں میں ساتھ والی گاڑی کو کراس کر چکا تھا اور میری پچھلی گاڑی بھی تقریبا اس کھڑی گاڑی کو کراس کر چکی تھی۔ میں چونکہ گالیاں نہیں دے سکتا تھا اس لیے سوچا کہ کسی طرح انہیں بتاؤں کہ میں بھی کان رکھتا ہوں اس لیے گاڑی کی رفتار کچھوے کے رینگنے جتنی کر دی جس پر ان دو صاحبان نے گاڑی دائیں طرف سے نکالنی چاہی جس پر میں نے معصومیت سے گاڑی دائیں طرف کر لی تاکہ وہ ٹھہر ٹھہر کر گاڑی چلا سکیں۔
سرخ بتی پر گاڑی رکنے پر ان دونوں میں سے ایک جو زیادہ "اوتاولا " تھا وہ باہر نکلا اور میرے بائیں طرف آنے لگا جس پر میں نے ڈور لاک کر لیے جو کہ سود مند ثابت ہوا۔ "اوتاولے " نے پہلے تو دروازہ کھولنے کی کوشش کی مگر جب اسے بند پایا تو شیریں گفتار کا آغاز کیا جس میں چند جملے یہ تھے

بدمعاش
کل کا دن دیکھنا نصیب نہ تجھے ، مر جائے (جس پر مجھے بے اختیار بی جمالو صفت بڑی بوڑھیاں یاد آئیں)
احمق

اور

دہشت گرد

ساتھ ساتھ متوسط انگلی کا قائمہ زاویہ بنا کر بھی داد چاہی جس پر میں نے ہاتھ اٹھا کر "دفع" کے ساتھ سراہا ۔ سر تا پا اس کا سلگنا دیکھ کر میں نے "دفع" کی تحسین جاری رکھی جس پر وفور جذبات سے اس نے مکا بنا کر مجھے سے داد چاہی مگر بندہ مجبور کے پاس سوائے "دفعاتی" داد کے اور کچھ نہ تھا جو اس بے چین روح کی تشفی کرتا۔

آخر سرخ بتی کے سبز ہونے پر اسے نامراد واپس جانا پڑا مگر مجھے جاتے جاتے "دہشت گرد" کے خطاب کا مطلب سمجھا گیا۔

ایک اور واقعہ بھی اس سے ملتا جلتا ہوا تھا جس میں باپ بیٹا دونوں ملوث تھے مگر اس کا ذکر پھر کسی وقت۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اچھا ہوا کہ آپ نے دروازہ لاک کر لیا، ورنہ کچھ اس قسم کی فرمائش آتی:

عید کا دن ہے گلے ہم کو لگا کر ملئے​
رسمِ دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے​
:p
 
Top