::::::: عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آغاز :::::::
قُران و سنّت ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کے اقوال و افعال کی روشنی میں ، عید میلاد منوانے اور مانے والے بھائیوں کے دلائل کا جواب آپ پڑھ چکے ، اب اِس عید میلاد کی شرعی حیثیت کے بارے میں بات کرنے سے پہلے آئیے تاریخ کے دریچوں میں جھانک کر بھی دیکھ لیا جائے :::
کیا آپ جانتے ہیں کہ سب سے پہلے یہ کام کب ، کہاں اور کِس نے اور کیوں شروع کیا تھا ؟
یہ بات تو پوری طرح سے واضح ہو چکی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ رضی اللہ عنہم ، تابعین ، تبع تابعین ،اُمت کے ائمہ و علماء رحمہم اللہ جمعیاًکی طرف سے قران کی کسی آیت ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کِسی فرمان ، سابقہ انبیا ء علیہم السلام کے کسی واقعہ ، کا زُبانی یا عملی طور پرایسا کوئی مفہوم بیان نہیں ہوا جِس کو بُنیاد بنا کر ''' عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منائی '''جائے ، پس اس عید کے بدعت ہونے میں کوئی شک نہیں رہتا ، پھر بھی آئیے ذرا تاریخ کی کتابوں میں جھانک کر دیکھیں :::
اِمام عبدالرحمان بن اِسماعیل المَقدَ سیّ کی کتاب ''' الباعث علیٰ البدع و الحوادث ''' کے محقق بشیر محمد عیون نے لکھا ::: ''' میلاد منانے کی بدعت سب سے پہلے فاطمیوں نے شروع کی ، اُن کے پاس پورے سال کی عیدیں ہوا کرتی تھیں ، وہ لوگ نئے سال کی عید ، عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، علی ، فاطمہ ، حسن ، حسین رضی اللہ عنہم اجمعین ، کی عید میلاد اور خلیفہء وقت کی عید میلاد منایا کرتے تھے ، اور اِسکے علاوہ نصف رجب کی رات ، شعبان کی پہلی اور آخری رات ، رمضان کی پہلی ، درمیانی ، اور ختمِ قرآن کی رات ، فتح خلیج کا دِن ، نوروز کا دِن ، غطاس کا دِن ، غدیر کا دِن ، یہ سب عیدیں اور راتیں وہ لوگ ''' منایا ''' کرتے تھے پھر ایک فاطمی وزیر افضل شاہنشاہ آیا جِس نے چار عیدیں میلاد کی بند کر دیں ، یعنی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، میلادِ علی اور میلادِ فاطمہ رضی اللہ عنہما ، اور میلادِ خلیفہءِ وقت ، پھر المامون البطائحی نے خلیفہ الآمر باحکام اللہ کے دور میں اِن میلادوں کو دوبارہ چالو کیا ، یہاں تک سلطان صلاح الدین الایوبی کی خلافت قائم ہوئی تو یہ تمام کی تمام عیدیں ، میلادیں ، راتیں وغیرہ بند کر دی گئیں ، لیکن اربل کے حکمران مظفر الدین کوکبری ابو سعید نے جو سلطان صللاح الدین ایوبی کی بہن ربیع کا خاوند تھا اپنے ایک سرکاری مولوی عمر بن محمد موصلی کی ایما پر ٦٥٠ ہجری میں دوبارہ اِس بدعت کا آغاز کیا۔
تو اِس تاریخی حوالے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اُمتِ اسلام میں ''' عید میلادیں ''' منانے کی بدعت ایک فاطمی ، عبیدی ، المعز لدین اللہ معد بن المنصور اِسماعیل کے دور میں شروع ہوئی ، اور اِسکا دورِ حکومت ٣٤١ہجری سے شروع ہوتا ہے ، (تاریخ الخلفاء جلد ١/صفحہ٥٢٤/فصل الدولۃ الخبیثیۃ العبیدیۃ /مؤلف اِمام عبدالرحمان السیوطی /مطبوعہ مبطع السعادۃ /مصر) اور اِس کے باپ اِسماعیل کی نسبت سے ہی اِن فاطمی عبیدیوں کو اِسماعیلی بھی کہا جاتا ہے ،
کچھ مورخین ''' عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ''' کی بدعت کا آغاز فاطمیوں کے دور سے نہیں بلکہ اربل کے حکمران الکوکبری کے دور سے ہونا زیادہ صحیح قرار دیتے ہیں ،
پہلی بات زیادہ مضبوط ہو یا دوسری ، دونوں صورتوں میں یہ بات یقینی ہے کہ ''' عید میلاد ''' نام کی کوئی چیز اللہ کی شریعت مکمل ہونے کے کم از کم ٣٤١ ہجری تک مُسلمانوں میں کہیں نہ تھی ،
یہ تو ہم جانتے ہیں کہ کِسی خاص واقعہ کے دِن کو ''' تہوار ''' بنانا یہود و نصاری اور دیگر کافر قوموں کی عادت تھی اورہے ، اور اِسلام میں وہ سارے عیدیں اور تہوار منسوخ کر کے مُسلمانوں کے لیے دو تہوار، دو عیدیں دِی گِئیں اور اُن کے علاوہ کوئی تہوار ، یا عید منانے کے لیے نہیں دِی گئی ، جیسا کہ انس ابن مالک رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ ''''' اہلِ جاھلیت (یعنی اِسلام سے پہلے مشرکوں اور کافروں )کے کھیلنے (خوشی منانے ) کے لیے سال میں دو دِن تھے ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو فرمایا ( کان لَکُم یَومَانِ تَلعَبُونَ فِیہِمَا وقد اَبدَلَکُم اللَّہ بِہِمَا خَیرًا مِنہُمَا یوم الفِطرِ وَیَومَ الاضحَی ) ( تُم لوگوں کے لیے کھیلنے (خوشی منانے )کے دودِن تھے اور اللہ نے تُمارے اُن دو دِنوں سے زیادہ خیر والے دِنوں سے بدل دِیا ہے اور وہ خیر والے دِن فِطر کا دِن اور اضحی کا دِن ہیں) سنن النسائی / حدیث١٥٥٦ / کتاب صلاۃ العیدین ،السلسۃ الاحادیث الصحیحۃ / حدیث 1021 ،
اور پھر کم از کم تین سوا تین سو سال تک اُمت نے اِن دو عیدوں کے عِلاوہ کوئی عید نہیں ''''' منائی ''''' ، اِس حدیث سے پہلے ذِکر کیے گئے تاریخی حوالے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ میلاد منانا مسلمانوں میں یہودیوں کے روحانی پیروکار فرقے ( الفاطمین ) کی طرف سے داخل کیا گیا ، یہ فاطمین وہ ہی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے ابو بکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین کو گالیاں نکلوانا ، مسجدوں کے دروازوں پر اِن تینوں کے لیے لعنت کے اِلفاظ لکھوانا ، اپنے آپکو سجدے کروانا ، اور کئی دیگر مشرکانہ کام شروع کروائے ، اور جب صلاح الدین ایوبی علیہ رحمۃ اللہ نے اِنکو عیسائیوں کے ساتھ سازش کرنے کی سزا کے طور پر مصر سے نکالا تو یہ ایران اور ہندوستان کے ساحلی علاقوں میں پھیل گئے ، اور آج دُنیا میں یہ لوگ اسماعیلی کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں اور اِنکا کفر کِسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔
ہماری یہاں تک کی بات کا خلاصہ یہ ہوا کہ ، اِسلام کی اب تک کی تاریخ یعنی ٨ ١٤٢ سالہ تاریخ میں سے کم از کم سوا تین سو سال اِس بدعت کی کوئی خبر نہیں دیتے ، اگر کِسی کے پاس اِسکے عِلاوہ کوئی خبر ہو تو مجھے مکمل حوالہ کے ساتھ آگاہ کرے ،
حیرت صد حیرت کہ اتنے لمبے عرصے تک ایک دو نہیں ، دس سو نہیں ، ہزاروں لاکھوں نہیں کڑوڑں نہیں ، بلکہ اربوں مسلمانوں میں سے کِسی کو بھی یہ سمجھ نہیں آئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم پیدائش ''' منایا ''' جانا چاہئیے ؟
اور اب عید میلاد منوانے اور منانےوالے ، منع کرنے والوں کو عیسائیوں اور کافروں کی طرح مسلمانوں کی عالمی خوشی منانے میں روکاوٹ جانتے ہیں ،بے چارے شاید یہ تاریخ نہیں جانتے ، اگر جانتے تو سمجھ جاتے کہ ، ''' عید میلاد ''' یا کِسی بھی اور بدعت سے روکنے والے عیسائیوں اور کافروں کا وار روکنے کی کوشش کرتے ہیں ، کیونکہ شیطان اور اُس کے پیروکار کفار و مشرکین کے واروں میں سے یہ بھی ہے ''' حُبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ''' کے مُثبت اور مطلوب جذبے کو منفی اور غیر مطلوب راہ پر چلا کر وہ مسلمانوں میں تفریق پیدا کی جائے ،
رہا معاملہ مسلمانوں کے عالمی اجتماعی جشن کو روکنا تو ایسا وہ کر چکے ہیں ، مسلمانوں میں قمری تاریخوں میں اختلاف پیدا کر کے ، وہ اپنا یہ مقصد حاصل کر چکے ہیں ، اللہ کے دیئے ہوئے بے مثال نظام کو مسلمانوں میں پراگندہ خیال کر کے وہ مسلمانوں کو اس حال تک لا چکے ہیں ہیں اس معلومات کی منتقلی اور تکنیکی عُلوم کے جدید ترین دور میں بھی مسلمان ایک ہی مدار پر ایک ہی رات میں نکلنے والے ایک ہی چاند کو دو دو تین تین دِن کے وقفوں میں دیکھنا مانتے ہیں اور اپنی تاریخ ایک نہیں کر پاتے ، ایک ہی بستی میں روزہ بھی رکھا جارہا ہوتا ہے اور عید بھی کی جا رہی ہوتی ہے ، اس حال تک پہنچانے کے بعد ''' عید میلاد ''' مختلف دِنوں میں ہو یا ایک دِن کفار کو اِس سے کیا غرض ، اُن کی غرض و غایت تو ''' عید میلاد ''' ہونا ہے ، تا کہ اُمتِ محمدیہ علی صاحبھا الصلاۃُ و السلام ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرتی رہے اور اُسے ''' محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ''' سمجھ کر کرتی رہے ، چاند اور تاریخوں کی بات پھر کبھی سہی ، اِنشاء اللہ ۔ ::::::::::::::::ایک ضروری بات ::::::::::::::::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش کے بارے میں جو یہ بیان کیا جاتا ہے کہ بارہ ربیع الاول ہے ، تو یہ ایسی بات ہے جِسے محدثین ، محقیقن نے رد کیا ہے ، اِمام الالبانی نے ، اِمام ابنِ کثیر کی ''' سیرتِ نبویہ ''' کی تخریج و تحقیق کی اور ''' صحیح سیرتِ نبویہ ''' تیار کی ، اِس میں اُنہوں نے لکھا کہ '''' تاریخ ولادت کے بارے میں جتنے بھی اقوال ہیں سب کے سب علم مصطلح الحدیث کی کسوٹی پر عیب دار ہیں ، سوائے اُس روایت کے جو اِمام مالک نے صحیح سند سے نقل کی ہے اور وہ روایت بتاتی ہے کہ ::: ''' تاریخ ولادت آٹھ ربیع الاول ہے '''
الاِمام المحدث عبدالرحمان السھیلی (وفات ٥٨١ہجری )نے ''' الروض الانف/مطبوعہ دار احیا التراث الاِسلامی /بیروت/لبنان ''' میں لکھا کہ ''' بارہ ربیع الاول والی روایات کا مدار زیاد بن عبداللہ البکائی نامی راوی ہے ، جو کہ ضعیف ہے ''' جیسا کہ اِمام محمد بن احمد بن عثمان شمس الدین الذہبی نے ''' من تکلم فیہ ''' میں بیان کیا ۔
اور مزے کی بات جو کہ اِمام سحمد بن محمد ابنِ خلکان (وفات ٦٨١ ہجری)نے ''' وفیات الاعیان /ترجمہ ٥٤٧/جز ٤/صفحہ١١٨/مطبوعہ دارالثقافۃ /بیروت/لبنان ''' میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم نشر کرنے والے مظفر الدین الکوکبری ابو سعید کے بارے میں بیان کی کہ ''' ایک سال آٹھ ربیع الاول کو اور ایک سال بارہ ربیع الاول کو میلاد کیا کرتا تھا کیونکہ یہ دو مختلف روایات ہیں '''
میلاد ''' منوانے اورمنانے ''' والے میرے کلمہ گو بھائیوں سے یہ پوچھا جانا چاہئیے کہ وہ کِس بُنیاد پر بار ہ ربیع الاول کو ہی درست تاریخ جانتے ہیں ؟؟؟
اِمام السھیلی نے ''' الروض الانف ''' میں مزید لکھا کہ ''' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ وفات کے بارے میں صحیح اور حق بات یہ ہی ہے کہ وہ بارہ ربیع الاول ہے '''
میلاد ''' منوانے اورمنانے ''' والے مسلمانوں سے یہ پوچھئیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش زیادہ بڑی خوشی ہے یا اُن کا دُنیا سے رخصت ہو جانا زیادہ غم و اندوہ ؟؟؟ جواب سے وہ خود ہی اپنی محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اندازہ فرما لیں ۔
عادل سہیل ظفر