عید میلاد النبی ﷺ کی شرعی حیثیت

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
عید میلاد النبی ﷺ کی شرعی حیثیت

از: سید شاہ تراب الحق قادری رضوی


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سوال ۔ بعض لوگ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے اور محافل میلاد منعقد کرنے کو بدعت و حرام کہتے ہیں ۔ قرآن و سنت اور ائمہ دین کے اقوال کی روشنی میں عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت بیان فرمائیے۔

جواب۔ ماہ ربیع الاول میں بالعموم اور بارہ بارہ ربیع الاول کو بالخصوص آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خوشی میں پورے عالم اسلام میں محافل میلاد منعقد کی جاتی ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد منانا جائز و مستحب ہے اور اس کی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے۔

ارشاد باری تعالی ہوا ، ( اور انہیں اللہ کے دن یاد دلاؤ ) ۔ ( ابراہیم ، 5 ) امام المفسرین سیدنا عبد اللہ بن عباس ( رضی اللہ عنہما ) کے نزدیک ایام اللہ سے مراد وہ دن ہیں۔جن میں رب تعالی کی کسی نعمت کا نزول ہوا ہو ۔ ( ان ایام میں سب سے بڑی نعمت کے دن سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت و معراج کے دن ہیں ، ان کی یا د قائم کرنا بھی اس آیت کے حکم میں داخل ہے)۔ (تفسیر خزائن العرفان)

بلاشبہ اللہ تعالی کی سب سے عظیم نعمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہوا ، ( بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا)۔ (آل عمران ،164)

آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم تو وہ عظیم نعمت ہیں کہ جن کے ملنے پر رب تعالی نے خوشیاں منانے کا حکم بھی دیا ہے ۔ ارشاد ہوا ، ( اے حبیب ! ) تم فرماؤ ( یہ ) اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت ( سے ہے ) اور اسی چاہیے کہ خوشی کریں ، وہ ( خو شی منانا ) ان کے سب دھن و دولت سے بہتر ہے ) ۔ ( یونس ، 58 ) ایک اور مقام پر نعمت کا چرچا کرنے کا حکم بھی ارشاد فرما یا، (اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو)۔ (الضحی 11، کنز الایمان)

خلاصہ یہ ہے کہ عید میلاد منانا لوگوں کو اللہ تعالی کے دن یا د دلانا بھی ہے، اس کی نعمت عظمی کا چرچا کرنا بھی اور اس نعمت کے ملنے کی خوشی منانا بھی۔ اگر ایمان کی نظر سے قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ذکر میلاد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کی سنت بھی ہے ۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی۔

سورہ آل عمران کی آیت ( 81 ) ملاحظہ کیجیے ۔ رب ذوالجلا ل نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کی محفل میں اپنے حبیب لبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد اور فضائل کا ذکر فرمایا ۔ گویا یہ سب سے پہلی محفل میلاد تھی جسے اللہ تعالی نے منعقد فرمایا ۔ اور اس محفل کے شرکاء صرف انبیاء کرام علیہم السلام تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری اور فضائل کا ذکر قرآن کریم کی متعدد آیات کریمہ میں موجود ہے۔

رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ کی چند محافل کا ذکر ملاحظہ فرمائیے۔ آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مسجد نبوی میں منبر شریف پر اپنا ذکر ولادت فرمایا۔ (جامع ترمذی ج 2 ص 201) آپ نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے لیے منبر پر چادر بچھائی اور انہوں نے منبر پر بیٹھ کر نعت شریف پڑھی، پھر آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی۔ (صحیح بخاری ج 1 ص 65) حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے غزوہ تبوک سے واپسی پر بارگاہ رسالت میں ذکر میلاد پر مبنی اشعار پیش کیے (اسد الغابہ ج 2 ص 129)

اسی طرح حضرات کعب بن زبیر ، سواد بن قارب ، عبد اللہ بن رواحہ ، کعب بن مالک و دیگر صحابہ کرام ( رضی اللہ عنہم ) کی نعتیں کتب احادیث و سیرت میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔ بعض لوگ یہ وسوسہ اندازی کرتے ہیں کہ اسلام میں صرف دو عید یں ہیں لہذا تیسری عید حرام ہے ۔ ( معاذ ا للہ ) اس نظریہ کے باطل ہونے کے متعلق قرآن کریم سے دلیل لیجئے ۔ ارشاد باری تعالی ہے ، ( عیسیٰ بن مریم نے عرض کی ، اے اللہ ! اے ہمارے رب ! ہم پر آسمان سے ایک ( کھانے کا ) خوان اتار کہ وہ ہمارے لیے عید ہو ہمارے اگلوں پچھلوں کی)۔ (المائدہ ، 114، کنزالایمان)

صدر الافاضل فرماتے ہیں ، ( یعنی ہم اس کے نزول کے دن کو عید بنائیں ، اسکی تعظیم کریں ، خوشیاں منائیں ، تیری عبادت کریں ، شکر بجا لا ئیں ۔ اس سے معلوم ہو ا کہ جس روز اللہ تعالی کی خاص رحمت نازل ہو ۔ اس دن کو عید بنانا اور خوشیاں بنانا ، عبادتیں کرنا اور شکر بجا لانا صالحین کا طریقہ ہے ۔ اور کچھ شک نہیں کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اللہ تعالی کی عظیم ترین نعمت اور بزرگ ترین رحمت ہے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے دن عید منانا اور میلاد شریف پڑھ کر شکر الہی بجا لانا اور اظہار فرح اور سرور کرنا مستحسن و محمود اور اللہ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے ) ۔ ( تفسیر خزائن العرفان )۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت (الیوم اکملت لکم دینکم ) تلاوت فرمائی تو ایک یہود ی نے کہا، اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے۔ اس پر آپ نے فرمایا ، یہ آیت جس دن نازل ہوئی اس دن دو عیدیں تھیں، عید جمعہ اور عید عرفہ۔ (ترمذی) پس قرآن و حدیث سے ثابت ہوگیا کہ جس دن کوئی خاص نعمت نازل ہو اس دن عید منانا جائز بلکہ اللہ تعالی کے مقرب نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کی سنت ہے۔ چونکہ عید الفطر اور عید الاضحی حضور ﷺ ہی کے صدقے میں ملی ہیں اس لیے آپ کا یوم میلاد بدرجہ اولی عید قرار پایا۔

عید میلاد پہ ہوں قربان ہماری عیدیں
کہ اسی عید کا صدقہ ہیں یہ ساری عیدیں

شیخ عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ اکابر محدثین کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ شب میلاد مصفطے صلی اللہ علیہ وسلم شب قدر سے افضل ہے، کیونکہ شب قدر میں قرآن نازل ہو اس لیے وہ ہزار مہنوں سے بہتر قرار پائی تو جس شب میں صاحب قرآن آیا وہ کیونکہ شب قدر سے افضل نہ ہو گی؟ (ماثبت بالستہ)

جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام

صحیح بخاری جلد دوم میں ہے کہ ابو لہب کے مرنے کے بعد حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اسے خ-واب میں بہت بری حالت میں دیکھا اور پوچھا ، مرنے کے بعد تیرا کیا حال رہا؟ ابو لہب نے کہا، تم سے جدا ہو کر میں نے کوئی راحت نہیں پائی سوائے اس کے کہ میں تھوڑا سا سیراب کیا جاتا ہوں کیونکہ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پیدائش کی خوشی میں اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔ امام ابن جزری فرماتے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد کی خوشی کی وجہ سے ابو لہب جیسے کافر کا یہ حا ل ہے کہ اس کے عذاب میں کمی کردی جاتی ہے ۔ حالانکہ ا س کی مذمت میں قرآن نازل ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مومن امتی کا کیا حال ہوگا ۔ جو میلاد کی خوشی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے سبب مال خرچ کرتا ہے ۔ قسم ہے میری عمر کی ، اس کی جزا یہی ہے کہ اللہ تعالی اسے اپنے افضل و کرم سے جنت نعیم میں داخ-ل فرمادے ۔ ( مواہب الدنیہ ج 1 ص 27 ، مطبوعہ مصر )

اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ خالق کائنات نے اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن عید میلاد کیسے منایا؟ سیرت حلبیہ ج 1 ص 78 اور خصائص کبری ج 1 ص 47 پر یہ روایت موجود ہے کہ (جس سال نور مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کو ودیعت ہوا وہ سال فتح و نصرت ، تر و تازگی اور خوشحالی کا سال کہلایا۔ اہل قریش اس سے قبل معاشی بد حالی اور قحط سالی میں مبتلا تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی برکت سے اس سال رب کریم نے ویران زمین کو شادابی اور ہریالی عطا فرمائی، سوکھے درخت پھلوں سے لدگئے اور اہل قریش خوشحال ہوگئے ) ۔ اہلسنت اسی مناسبت سے میلاد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی خوسی میں اپنی استطاعت کے مطابق کھانے، شیرینی اور پھل وغیرہ تقسیم کرتے ہیں ۔

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر شمع رسالت کے پروانے چراغاں بھی کرتے ہیں ۔ اس کی اصل مندرجہ ذیل احادیث مبارکہ ہیں۔ آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ، (میری والدہ ماجدہ نے میری پیدائش کے وقت دیکھا کہ ان سے ایسا نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے(۔ (مشکوہ)

حضرت آمنہ ( رضی اللہ عنہا ) فرماتی ہیں ، ( جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی تو ساتھ ہی ایسا نور نکلا جس سے مشرق سے مغرب تک ساری کائنات روشن ہوگئی ) ۔ (طبقاب ابن سعد ج 1 ص 102، سیرت جلسہ ج 1 ص 91)

ہم تو عید میلاد صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی میں اپنے گھروں ا ور مساجد پر چراغاں کرتے ہیں ، خالق کائنات نے نہ صرف سا ر ی کائنات میں چراغاں کیا بلکہ آسمان کے ستاروں کو فانوس اور قمقمے بنا کر زمین کے قریب کردیا ۔ حضرت عثمان بن ابی العاص ( رضی اللہ عنہ ) کی والدہ فرماتی ہیں ، ( جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی میں خانہ کعبہ کے پاس تھی ، میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ نور سے روشن ہوگیا ۔ اور ستارے زمین کے اتنے قریب آگئے کہ مجھے یہ گمان ہوا کہ کہیں وہ مجھ پر گر نہ پڑیں ) ۔ ( سیرت حلبیہ ج 1 ص 94 ، خصائص کبری ج 1 ص 40 ، زرقانی علی المواہب 1 ص 114)

سیدتنا آمنہ ( رضی اللہ عنہا ) فرماتی ہیں ، ( میں نے تین جھندے بھی دیکھے ، ایک مشرق میں گاڑا گیا تھا ۔ دوسرا مغرب میں اور تیسرا جھنڈا خا نہ کعبہ کی چھت پر لہرارہا تھا ) ۔ ( سیرت حلبیہ ج 1 ص 109 ) یہ حدیث ( الو فابا حوال مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ) مےں محدث ابن جوزی نے بھی روایت کی ہے ۔ اس سے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر جھنڈے لگانے کی اصل بھی ثابت ہوئی۔

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر جلوس بھی نکالا جاتا ہے اور نعرئہ رسالت بلند کیے جاتے ہیں۔ اس کی اصل یہ حدیث پاک ہے کہ جب آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اہلیان مدینہ نے جلوس کی صورت میں استقبال کیا۔ حدیث شریف میں ہے کہ مرد اور عورتیں گھروں کی چھتوں پر چرھ گئے اور بچے اور خدام گلیوں میں پھیل گئے، یہ سب با آواز بلند کہہ رہے تھے، یا محمد یا رسول اللہ ، یا محمد یا رسول اللہ ۔ (صلی اللہ علیہ وسلم) ۔(صحیح مسلم جلد دوم باب الھجرہ)
جشن عید میلا د النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت بیان کرنے کے بعد اب چند تاریخی حوالہ جات پیش خدمت ہیں ۔ جن سے ثا بت ہو جائے گا کہ محافل میلاد کا سلسلہ عالم اسلام میں ہمیشہ سے جاری ہے ۔

محدث ابن جوزی رحمہ اللہ (متوفی 597 ھ) فرماتے ہیں، (مکہ مکرمہ ، مدینہ طیبہ ، یمن ، مصر، شام اور تمام عالم اسلام کے لوگ مشرق سے مغرب تک ہمیشہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے موقع پر محافل میلاد کا انعقاد کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہتمام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے تذکرے کا کیا جاتا ہے اور مسلمان ان محافل کے ذریعے اجر عظیم اور بڑی روحانی کامیابی پاتے ہیں)۔ (المیلاد النبوی ص 58)
امام ابن حجر شافعی ( رحمہ اللہ ) ۔ ( م 852 ھ ) فرماتے ہیں ، ( محافل میلاد و اذکار اکثر خیر ہی پر مشتمل ہوتی ہیں کیونکہ ان میں صدقات ذکر الہی اور بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں درود و سلام پیش کیا جاتا ہے)۔ (فتاوی حدیثیہ ص 129)

امام جلال الدین سیوطی ( رحمہ اللہ ) ۔ ( م 911 ھ ) فرماتے ہیں ، ( میرے نزدیک میلاد کے لیے اجتماع تلاوت قرآن ، حیات طیبہ کے واقعات اور میلاد کے وقت ظاہر ہونے والی علامات کا تذکرہ ان بدعات حسنہ میں سے ہے ۔ جن پر ثواب ملتا ہے ۔ کیونکہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور آپ کی ولادت پر خوشی کا ا ظہا ر ہوتا ہے ) ۔ ( حسن المقصد فی عمل المولدنی الہاوی للفتاوی ج 1 ص 189)

امام قسطلانی شارح بخاری رحمہ اللہ (م 923ھ) فرماتے ہیں، (ربیع الاول میں تمام اہل اسلام ہمیشہ سے میلاد کی خوشی میں محافل منعقد کرتے رہے ہیں۔ محفل میلادکی یہ برکت مجرب ہے کہ اس کی وجہ سے سارا سال امن سے گزرتا ہے ۔ اور ہر مراد جلد پوری ہوتی ہے۔ اللہ تعالی اس شخص پر رحمتیں نازل فرمائے جس نے ماہ میلاد کی ہر رات کو عید بنا کر ایسے شخص پر شدت کی جس کے دل میں مرض و عناد ہے)۔ (مواہب الدنیہ ج 1 ص 27)

شاہ عبد الرحیم محدث دہلوی رحمہ اللہ ( والد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ ، م 1176 ھ ) فرماتے ہیں کہ میں ہر سال میلاد شریف کے دنوں میں کھانا پکوا کر لوگوں کو کھلایا کرتا تھا ۔ ایک سال قحط کی وجہ سے بھنے ہوئے چنوں کے سوا کچھ میسر نہ ہو ا ، میں نے وہی چنے تقسیم کرد یے ۔ رات کو خواب میں آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہو اتو دیکھا کہ وہی بھنے ہوئے چنے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ بیحد خوش اور مسرور ہیں۔ (الدار الثمین ص 8)
ان دلائل و براہین سے ثابت ہوگیا کہ میلا د النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محافل منعقد کرنے اور میلاد کا جشن منانے کا سلسلہ امت مسلمہ میں صدیوں سے جاری ہے ۔

 

ساقی۔

محفلین
میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے والوں کے دلائل




( ١ ) ((و لَقَد ارسلنَا مُوسَیٰ بِاَیَاتِنَآ ان اخرج قَومَکَ مَن الظُّلمَتِ اِلیٰ النُّورِ وَ ذَکِّرھُم بِا َیَّامِ اللَّہِ ج اِنَّ فی ذَلِکَ لَا یٰاتٍ لَکُلِّ صَبَّارٍ شَکُورٍ ))

((اور ہم نے موسی کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نِکالو ، اور اُنہیں اللہ کی نعمتیں یاد کرواؤ ، اِس میں ہر صبر اور شکر کرنے والے کے لیئے نشانیاں ہیں )) سورت ابراہیم ، آیت ٥
( ٢ )(( اَلم تَرَ اِلیٰ الَّذِینَ بَدَّلُوا نَعمَتَ اللَّہِ کُفراً وَ اَحَلُوا قَومَھُم دَارَ البَوَارِ ))

( اے رسول ) کیا تُم نے نہیں ا ُنکو نہیں دیکھا جِنہوں نے اللہ کی نعمت کا اِنکار کِیا اور ( اِس اِنکار کی وجہ سے ) اپنی قوم کو تباہی والے گھر میں لا اُتاریا )) سورت ابراہیم کی آیت ٢٨
( ٣ ) ((وَ اَمَا بِنِعمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّث))

(( اور جو تمہارے رب کی نعمت ہے اُس کا ذِکر کِیا کرو )) سورت الضُحیٰ ،آیت ١١
( ٤ )(( قَالَ عِیسی ابنُ مَریَمَ اللَّھُمَّ رَبَّنَا اَنزِل عَلِینَا مآئِدۃً مِنَ السَّمَآءِ تَکُونُ لَنَا عِیداً لِّاَوَّلِنَا وَ اخِرِنَا وَ اَیَۃً مِنکَ وَ ارزُقنَا وَ اَنتَ خَیرُ الرَّازِقِینَ ))

(( مریم کے بیٹے عیسی نے کہا اے اللہ ہمارے رب ہم پر آسمان سے مائدہ نازل کر ، ( اُسکا نازل ہونا ) ہمارے لئیے اور ہمارے آگے پیچھے والوں کے لئیے عید ہو جائے ، اور تمہارے طرف سے ایک نشانی بھی ، اور ہمیں رزق عطاء فرما تو ہی سب بہتر رزق دینے والا ہے )) سورت المائدہ ، آیت ١١٤
( ٥ ) (( قُل بِفَضلِ اللَّہِ و بِرَحمتِہِ فَلیَفرَحُوا ھُوَ خیرٌ مما یَجمَعُونَ ُ٥٨ ))

(( ( اے رسول ) کہو ( یہ ) اللہ کے فضل اور اُسکی رحمت ( سے ہے ) لہذا اِس پر خوش ہوں اور یہ ( خوش ہونا ) جو کچھ یہ جمع کرتے ہیں ( اُن چیزوں کے جمع کرنے پر خوش ہونے ) سے بہتر ہے ُ ٥٨ )) سورت یونس
( ٦ ) سورت الصّف کی آیت نمبر ٦ کے متعلق کہتے ہیں کہ اِس میں عیسی علیہ السلام نے حضور کی تشریف آوری کی خوشخبری دی ہے اور ہم بھی اِسی طرح ''' عید میلاد ''' کی محفلوں میں حضور کی تشریف آوری کی خوشی کا احساس دِلاتے ہیں ۔
( ٧ ) اپنے طور پر اپنے اِس کام کو سُنّت کے مُطابق ثابت کرنے کے لئیے خود کو اور اپنے مریدوں کو دہوکہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''' نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی ولادت کی خوشی پر روزہ رکھنا اور فرمانا اِس دِن یعنی پیر کو میری ولادت ہوئی ، خود ولادت پر خوشی منانا ہے '''
( ٨ ) کہتے ہیں کہ ''' ابو لہب نے حضور کی پیدائش کی خوشی میں اپنی لونڈی ثوبیہ کو آزاد کِیا اور اُس کے اِس عمل کی وجہ سے اُسے جہنم میں پانی ملتا ہے ، پس اِس سے ثابت ہوا کہ حضور کی پیدائش کی خوشی منانا باعثِ ثواب ہے '''
( ٩ ) کہتے ہیں کہ ''' میلاد شریف میں ہم حضور پاک کی سیرت بیان کرتے ہیں اور اُن کی تعریف کرتے ہیں نعت کے ذریعے ، اور یہ کام تو صحابہ بھی کِیا کرتے تھے ، تو پھر ہمارا میلاد منانا بدعت کیسے ہوا ؟ '''
( ١٠ ) کہتے ہیں ''' ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اُن کی پیدائش کی خوشی مناتے ہیں ، اور جو ایسا نہیں کرتے اُنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی مُحبت نہیں '''
ابھی گذشتہ سطور میں جو باتیں آپ نے پڑہی ہیں وہ ''' عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ''' منانے والوں کے دلائل میں سے سب سے اہم اور طاقتور ہیں ، اب ترتیب وار اُن کے جوابات لکھتا ہوں ،
انشاء اللہ تعالیٰ ایک ایک دلیل کا مفصل اور تحقیقی جواب لکھا جائے گا ، سب پڑہنے والوں سے گذارش ہے کہ تحمل مزاجی ، انصاف پسندی ، اور سکون و غور کے ساتھ پڑہیں اور روایتی مناظرہ بازی سمجھ کر نہیں تحقیق سمجھ کر پڑہیں ، اور سب دلائل کے جوابات پورا ہونے تک بار بار پڑہیں ، اور غور کریں کہ قُران و حدیث کو کسی طرح سمجھا جانا چاہئیے ، اور کس طرح سمجھا اور سمجھایا جاتا ہے ،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو وہ جاننے اور سمجھنے اور ہمت اور دلیری کے ساتھاُسے قبول کرنے اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے جو اُس کے اور اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ہے اور اُسی پر عمل کرتے ہوئے ہمارے خاتمے ہوں ،
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
محترم جناب خرم شہزاد خرم جی
ماشااللہ
جزاک اللہ
بہت ہی اچھے مضمون (عید میلاد النبی بصورت سوال و جواب) سے محفل اردو کے اراکین کو نوازنے کا شکریہ
یہ سچ بھی اپنی جگہ کے اتنے اچھے معلوماتی مضمون کا جس فقرے پر خاتمہ کیا گیا ہے ۔۔ اس نے سارے مضمون کا پیدا کردہ اثر اک پل میں زائل کر دیا ۔
"" اور اسے بدعت و حرام کہنے والے دراصل خود بدعتی و گمراہ ہیں۔""
جب یہ فقرہ کہ میں مسلم تو کافر سامنے آ جائے تو پھر ہدایت کا راہ اختیار کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جاتا ہے ۔
اگر نوازش فرما کر اس فقرے کو حذف کر دیں تو مضمون کی اثر آفرینی دوگنا ہو جائے گی ۔
" بیشک اللہ جسے چاہے ہدایت سے نواز دے " کا آفاقی اصول تو یقینا سچ ہے ۔
اللہ تعالی آپ کو بہت سی رحمتوں برکتوں سے نوازے آمین
نایاب
 

ساقی۔

محفلین
:::: عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے والوں کی پہلی دلیل :::::
یہ صاحبان سورت ابراہیم کی آیت ٥ کے ایک حصے کو بطورِ دلیل استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''' وَ ذَکِّرھُم بِا َیَّامِ اللَّہِ یعنی اور اُنہیں اللہ کی نعمتیں یاد کرواؤ ، کے حُکم پر عمل کرتے ہوئے بنی اسرائیل روزہ رکھتے تھے اور ، حضور پاک بھی اِس کے لیئے روزہ رکھا کرتے تھے ( اِن کی مراد یہاں عاشوراء کا روزہ ہے یعنی دس محرم کا روزہ ) اور چونکہ حضور پاک اللہ کی نعمت ہیں لہذا ہم حضور پاک کی ولادت کی یاد میں جشن کرتے ہیں '''
::::::: جواب :::::::
مکمل آیت یوں ہے ((( و لَقَد ارسلنَا مُوسَیٰ بِاَیَاتِنَآ ان اخرج قَومَکَ مَن الظُّلمَتِ اِلیٰ النُّورِ وَ ذَکِّرھُم بِا َیَّامِ اللَّہِ ج اِِنَّ فی ذَلِکَ لَا یٰاتٍ لَکُلِّ صَبَّارٍ شَکُورٍ )))((( اور ہم نے موسی کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نِکالو ، اور اُنہیں اللہ کی نعمتیں یاد کرواؤ ،اِس میں ہر صبر اور شکر کرنے والے کے لیئے نشانیاں ہیں )))
اگر اِس آیت کے بعد والی آیات کو پڑہا جائے تو یہ سمجھ میں آ جاتا ہے کہ موسی علیہ السلام نے اللہ کے اِس حُکم پر کیسے عمل کِیا ، اپنی قوم کو اللہ کی نعمتیں یاد کروائِیِں یا عید منانے کا حکم دِیا ؟؟؟
اور اگر یہ بھی دیکھ لیا جائے کہ تفسیر کی معتبر ترین کتابوں میں اِسکی کیا تفسیر بیان ہوئی ہے تو اِن لوگوں کا یہ فلسفہ ہوا ہوجاتا ہے
::::: اِمام محمد بن احمد جو اِمام القُرطبی کے نام سے مشہور ہیں اپنی شہرہ آفاق تفسیر ''' الجامع لِاحکام القُرآن ''' میں اِس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں '''' نعمتوں کو کبھی ایام بھی کہا جاتا ہے ، اور ابن عباس ( رضی اللہ عنہما ) اور مقاتل ( بن حیان ) نے کہا :: اللہ کی طرف سے سابقہ اُمتوں میں جو واقعات ہوئے ::: اور سعید بن جبیر نے عبداللہ بن عباس سے اور اُنہوں نے اُبي بن کعب ( رضی اللہ عنہم ) سے روایت کِیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( ایک دفعہ موسی اپنی قوم کو اللہ کے دِن یاد کروا رہے تھے ، اور اللہ کے دِن اُسکی طرف سے مصبتیں اور اُسکی نعمتیں ہیں ) ( یہ صحیح مسلم کی حدیث ١٧٢ ، اور ٢٣٨٠ کا حصہ ہے ) اور اِس میں دِل کو نرم کرنے والے اور یقین کو مضبوط کرنے والے واعظ کی دلیل ہے ، ایسا واعظ جو ہر قِسم کی بدعت سے خالی ہو ، اور ہر گمراہی اور شک سے صاف ہو ''''
اِمام ابن کثیر رحمہ ُ اللہ تعالیٰ نے اِس آیت کی تفسیر میں اِمام مجاہد اور اِمام قتادہ کا قول نقل کِیا کہ اُنہوں نے کہا '''' ( وَ ذَکِّرھُم بِا َیَّامِ اللَّہ ) یعنی اِن کو اللہ کی مدد ا ور نعمتیں یاد کرواؤ کہ اللہ تعالیٰ نے اِن کو فرعون کے ظلم سے نجات دِی ، اور اُن کے دشمن سے اُنہیں محفوظ کِیا ، اور سمندر کو اُن کے لیئے پھاڑ کر اُس میں سے راستہ بنایا اور اُن پر بادلوں کا سایہ کِیا ، اور اُن پر من و سلویٰ نازل کِیا ، اور اِسی طرح کی دیگر نعمتیں '''
::::: غور فرمائیے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اِس آیت میں اللہ کے دِنوں کی کیا تفسیر فرماتے ہیں ، کیا کہیں اُنہوں نے جشن میلاد منانے کا فرمایا یا خود منایا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
میلاد کے حق میں دلیل بنانے والے صاحبان کو اللہ تعالیٰ کے یہ فرامین یاد کیوں نہیں آتے کہ (((یا ایھا الذین ءَ امَنُوا لا تَقدِّمُوا بین یدی اللہِ و رسولَہِ و اَتَقُوا اللہَ اِِن اللہَ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ُ، یا ایھا الذین ءَ امَنُوا لا ترفعُوۤا اصواتَکُم فوق َ صوتِ النبي ، و لا تَجھَرُوا لَہ ُ بِالقُولِ کَجَھرِ بَعضُکُم لِبَعض ٍ ان تَحبطَ اعمالُکُم و انتُم لا تشعُرُون ))) (((اے لوگو جو اِیمان لائے ہو ، اللہ اور اُسکے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے آگے مت بڑہو اور اللہ ( کی ناراضگی ) سے بچو بے شک اللہ سُننے اور عِلم رکھنے والا ہے اے لوگو جو اِیمان لائے ہو ، نبی کی آواز سے آواز بلند مت کرو اور نہ ہی اُسکے ساتھ اُونچی آواز میں بات کرو ایسا نہ ہو کہ تمہارے سارے اعمال غارت ہو جائیں اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے ))) ،
پھر یہ لوگ اِس آیت کے ساتھ دس محرم کے روزے کو منسلک کرتے ہوئے کہتے ہیں ''' وَ ذَکِّرھُم بِا َیَّامِ اللَّہِ یعنی اُنہیں اللہ کی نعمتیں یاد کرواؤ ، کے حُکم پر عمل کرتے ہوئے بنی اسرائیل روزہ رکھتے تھے اور ، حضور پاک بھی اِس کے لیئے روزہ رکھا کرتے تھے ''''
جی ہاں یہ درست ہے کہ بنی اِِسرائیل اُس دِن روزہ رکھا کرتے تھے جِس دِن اللہ تعالیٰ نے اُنہیں فرعون سے نجات دی تھی اور وہ ہے دس محرم کا دِن ، اور بنی اِِسرائیل اِس دِن روزہ کیوں رکھا کرتے تھے ؟؟؟؟؟ عید مناتے ہوئے یا اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے وہ کام کرتے تھے جِس کا موسیٰ علیہ السلام نے اُنہوں حُکم دِیا ، ابھی ابھی اِس بات کے آغاز میں یہ لکھا گیا ہے کہ ''' اگر اِس آیت کے بعد والی آیات کو پڑہا جائے تو یہ سمجھ میں آ جاتا ہے کہ موسی علیہ السلام نے اللہ کے اِس حُکم پر کیسے عمل کِیا ، اپنی قوم کو اللہ کی نعمتیں یاد کروائِیِں یا عید منانے کا حکم دِیا ؟؟؟
:::::ملاحظہ فرمائیے ، قارئین کرام ، آیت نمبر ٥ کی بعد کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا (((و اِِذ قالَ موسیٰ لِقومِہِ اذکُرُوا نِعمۃَ اللہِ اِِذ اَ نَجٰکُم مِن آلِ فرعونَ یَسُومُونَکُم سُوۤءَ العَذاب ِ و یُذَبِّحُونَ ابنائَکُم و یَستَحیُونَ نِسائِکُم و فی ذ۔لِکُم بَلآءٌ مِّن رَّبِکُم عَظیم ( ٦ ) و اِِذ تَاَذَّنَ رَبُّکُم لَئِن شَکرتُم لَاَزِیدَنَّکُم وَ لَئِن کَفَرتُم اِِنَّ عَذَابِی لَشَدِیدٌ ( ٧ ) وَ قَالَ مُوسیٰ اِِن تَکفُرُوۤا اَنتُم وَ مَن فی الارضَ جَمِیعاً فَاِِنَّ اللَّہَ لَغَنِیٌّ حَمِیدٌ ( ٨ ) ( اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو کہ اللہ نے تمہیں فرعون کی قوم سے نجات دِی جو تم لوگوں کی شدید عذاب دیتی تھی کہ وہ لوگ تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے ( تا کہ اُنہیں لونڈیاں بنا کر رکھیں ) اور اِس عذاب میں تمہارے رب کی طرف سے بہت بڑا امتحان تھا ( ٦ ) اور ( یہ نعمت بھی یاد کرو کہ ) جب تمہارے رب نے تمہیں یہ حُکم دیا کہ اگر تُم لوگ شُکر ادا کرو گے تو میں ضرور تُم لوگوں کو ( جان ، مال و عزت میں ) بڑہاوا دوں گا اور اگر تُم لوگ ( میری باتوں اور احکامت سے ) اِنکار کرو گے تو ( پھر یاد رکو کہ ) بلا شک میرا عذاب بڑا شدید ہے ( ٧ ) اور موسیٰ نے کہا کہ اگر تُم سب اور جو کوئی بھی زمین پر ہے ، کفر کریں تو بھی یقینا اللہ تعالیٰ ( کو کوئی بھی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ )غنی اور حمید ہے ( ٨ )))
تو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اُس کا شکر ادا کرتے ہوئے وہ لوگ دس محرم کا روزہ رکھا کرتے تھے !!! ''' عید ''' نہیں منایا کرتے تھے ،
اگر یہ لوگ اُن احادیث کا مطالعہ کرتے جو دس محرم کے روزے کے بارے میں تو اِنہیں یہ غلط فہمی نہ ہوتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ روزہ وَ ذَ کِّرھُم بِایام اللَّہِ کے حُکم پر عمل کرتے ہوئے رکھا کرتے تھے ::: ::::: ( ١ ) عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ ''' جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہودی دس محرم کا روزہ رکھا کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ ( یہ کیا ہے ) تو اُنہیں بتایا گیا کہ '' یہ دِن نیک ہے ، اِس دِن اللہ نے بنی اسرائیل کو اُنکے دشمن ( فرعون ) سے نجات دِی تھی تو اُنہوں نے روزہ رکھا تھا '' تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( میرا حق موسیٰ پر تُم لوگوں سے زیادہ ہے ) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس دِن کا روزہ رکھا اور روزہ رکھنے کا حُکم دِیا ) ''' صحیح البُخاری حدیث٢٠٠٤ ۔
::::: ( ٢ ) ابو موسی رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ ''' دس محرم کے دِن کو یہودی عید جانتے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( تُم لوگ اِس دِن کا روزہ رکھو ) ''' صحیح البُخاری حدیث ٢٠٠٥ ۔
::::: ( ٣ ) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے ''' میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ وہ اِس دس محرم کے روزے کو کِسی بھی اور دِن کے (نفلی )روزے سے زیادہ فضلیت والا جانتے تھے اور نہ کِسی اور مہینے کو اِس مہنیے سے زیادہ ( فضیلت والا جانتے تھے ) یعنی رمضان کے مہینے کو ''' صحیح البُخاری حدیث ٢٠٠٦ ۔
::::: ( ٤ ) ابو قتادہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ’’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِ س دِن کا روزہ رکھنے کی صُورت میں گزرے ہوئے ایک سال کے گُناہ معاف ہونے کی خوش خبری دِی ‘‘‘ صحیح مُسلم حدیث ١١٦٢ ۔
::::: ( ٥ ) اُم المؤمنین عائشہ ، عبداللہ ابنِ عُمر ، عبداللہ ابنِ مسعود اور جابر بن سُمرہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے روایات ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم ءِ عاشورا کے روزے کے بارے میں فرمایا ( اِس دس محرم کا روزہ اہلِ جاہلیت بھی رکھا کرتے تھے تو جوچاہے اِس دِن روزہ رکھے ا ور جو چاہے نہ رکھے ) ( اور رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی رکھا کرتے تھے اور اِسکا حُکم بھی دِیا کرتے تھے ) ( اور اِسکی ترغیب دِیا کرتے تھے ، جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نہ اِسکا حُکم دِیا ، نہ اِسکی ترغیب دِی اور نہ ہی اِس سے منع کیا ) صحیح مُسلم کتاب الصیام ، باب صوم یوم عاشوراء
::::: ( ٦ ) معاویہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سُنا کہ ( یہ دس محرم کا دِن ہے اور اللہ نے تُم لوگوں پر اِس کا روزہ فرض نہیں کِیا ، اور میں روزے میں ہوں ، تو جو چاہے وہ روزہ رکھے اور جو چاہے وہ افطار کرے ) صحیح البُخاری حدیث ٢٠٠٣ ، صحیح مُسلم حدیث ١١٢٩
::::: ( ٧ ) ابو ھریرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( رمضان کے بعد سب سے زیادہ فضلیت محرم کے روزوں میں ہے ، اور فرض نماز کے بعد سب سے زیادہ فضلیت رات کی نماز میں ہے ) صحیح مُسلم حدیث ١١٦٣ ۔
اِن احادیث پر غور فرمائیے ، کہیں سے اِشارۃ ً بھی یہ ثبوت نہیں ملتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس آیت کو بنیاد بنا کر یہ روزہ رکھا تھا ، بلکہ رمضان کے روزے فرض ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس روزے کی ترغیب تک بھی نہیں دی ، جیسا کہ اُوپر بیان کی گئی احادیث میں سے پانچویں حدیث میں ہے ، بلکہ ہمیں بڑی وضاحت سے اِس بات کا ثبوت مِلتا ہے کہ یہ روزہ ایامِ جاہلیت میں بھی رکھا جاتا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے اِس روزہ کو رکھا اور اِسکے رکھنے کا حکم بھی دِیا اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اِسکی ترغیب بھی نہیں دی جیسا کہ اُوپر بیان کی گئی احادیث میں ہے ، رہا معاملہ اِس روزہ کو موسی علیہ السلام کے یومِ نجات کی خوشی میں رکھنے کا تو درست یہ کہ خوشی نہیں بلکہ شکر کے طور پر رکھا جاتا تھا ، اور اگر خوشی ہی کہا جائے تو بھی زیادہ سے زیادہ یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ کِسی بات پر خوش ہو کر روزہ رکھا جائے ، لہذا اِن کو بھی چاہیئے کہ یہ جِس دِن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا دِن مانتے ہیں ، حالانکہ وہ تاریخی طور پر ثابت نہیں ہوتا ، اِس کا ذِکر آگے آئے گا اِنشاء اللہ ، تو اپنی اِس خام خیالی کی بنیاد پر اِن کو چاہیئے کہ یہ لوگ خود اور اِن کے تمام تر مریدان اُس دِن روزہ رکھیں ۔
مندرجہ بالا احادیث پر غور فرمایئے ، خاص طور پر پہلی حدیث پر تو ہمیں بالکل واضح طور پر یہ پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں جا کر اُنہوں نے یہودیوں کو اِس دِن کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا اور پوچھا کہ ( یہ کیا ہے ؟ ) ،
::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس سوال سے یہ پتہ چلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرتِ مدینہ سے پہلے اِس دِن جو روزہ رکھا کرتے تھے وہ موسی علیہ السلام کے یوم نجات کی خوشی میں نہ تھا ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ جانتے بھی نہیں تھے کہ دس محرم موسی علیہ السلام کا یومِ نجات تھا ، اور یہ حدیث اِس بات کے بہت سے ثبوتوں میں سے ایک ثبوت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالم غیب نہیں تھے ، خیر یہ ہمارا اِس وقت کا موضوع نہیں ہے ۔
اور یہ بات بھی بڑی مزیدار ہے کہ یہ صاحبان شاید یہ بھی نہیں جانتے کہ سورت اِبراہیم مکی سورت ہے سوائے دو اور ایک روایت میں ہے کہ تین آیات کے ، اور وہ ہیں آیت نمبر ٢٨ ، ٢٩ ، ٣٠ ، مزید تفصیل کےلئیے ملاحظہ فرمائیے ، اِمام محمد بن علی الشوکانی کی تفسیر ''' فتح القدیر ''' اور اِمام محمد بن احمد القُرطبی کی تفسیر ''' الجامع لِاحکام القُرآن ''' ،
تو جِس آیت کو یہ لوگ ''' عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ''' کی دلیل بنا رہے ہیں اور اِس دلیل کی مضبوطی کےلئیے یوم ءِ عاشورا کے روزے کا معاملہ اِسکے ساتھ جوڑ رہے ہیں ، صحیح احادیث اور صحابہ اور تابعین و تبع تابعین کے اقوال کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ اِس آیت کا یوم ءِ عاشورا کے روزے سے کوئی تعلق نہیں ، کیونکہ یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے جانے سے پہلے اِس دِن کے روزے کو موسی علیہ السلام کی نسبت سے نہ جانتے تھے ، اور اِس آیت کے نزول سے پہلے یہ روزہ قریش ءِ مکہ بھی رکھا کرتے تھے ، جیسا کہ اُوپر بیان کی گئی احادیث میں سے پانچویں حدیث میں اِس بات کا ذِکر صراحت کے ساتھ ملتا ہے ، فَمَا بَعدَ الحَقِ اِِلَّا الضَّلالِ ،
تو کہاں عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور کہاں وَ ذَکِّرھُم بِا َیَّامِ اللَّہِ ، کیا قُران کی یہ سمجھ اُسے نہ تھی جِس پر نازل ہوا ، صلی اللہ علیہ وسلم ، کَبُرَت کَلمۃً تَخرُج مِن اَفواہہِم ۔
 

ساقی۔

محفلین
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے والوں کی دُوسری دلیل)
ہمارے یہ بھائی کہتے ہیں کہ سورت اِبراہیم کی آیت ٢٨ کی تفسیر میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہُما کا قول نقل کیا گیا ہے کہ '''' نعمت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں '''' ، اور پھر عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہُما کے اِس قول کو بنیاد بنا کر اِن لوگوں نے یہ فلسفہ گھڑ لیا کہ ''' نعمت کا اظہار کرنا شکر ہے اور شکر نہ کرنا کفر ہے اور جب شکر کیا جائے گا تو خوشی ہو گی لہذا ہم جو کچھ کرتے ہیں وہ خوشی اظہارِ نعمت کی خوشی ہے '''
::::: جواب :::::
سورت اِبراہیم کی آیت ٢٨ یوں ہے

((( اَلم تَرَ اِلیٰ الَّذِینَ بَدَّلُوا نَعمَتَ اللَّہِ کُفراً وَ اَحَلُوا قَومَھُم دَارَ البَوَارِ )))

( اے رسول ) کیا تُم نے نہیں ا ُن کو نہیں دیکھا جِنہوں نے اللہ کی نعمت کا اِنکار کِیا اور ( اِس اِنکار کی وجہ سے ) اپنی قوم کو تباہی والے گھر میں لا اُتاریا”
اللہ جانے اِن لوگوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہُما کا یہ قول کہاں سے لیا ہے کیونکہ تفسیر ، حدیث ، تاریخ و سیرت اور فقہ کی کم از کم سو ڈیڑھ سو معروف کتابوں میں مجھے کہیں بھی یہ قول نظر نہیں آیا ، جی ہاں تفسیر ابن کثیر میں اِمام ابن کثیر نے یہ کہا ہے کہ ''' یہ بات ہر کافر کےلیے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت اور تمام اِنسانوں کے لیے نعمت بنا کر بھیجا ، پس جِس نے اِسکو قبول کِیا اور اِس پر شکر ادا کیا وہ جنّت میں داخل ہو گا ، اور جِس نے اِس کو قُبُول نہ کِیا اور اِس کا اِنکار کِیا وہ جہنم میں داخل ہو گا '''
اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اِمام ابن کثیر کے اِس مندرجہ بالا قول کو عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کی طرف سے بیان کردہ تفسیر قرار دینا میرے اِن کلمہ گو بھائیوں کی جہالت ہے یا تعصب ، اگر بالفرض یہ درست مان بھی لیا جائے کہ مذکورہ قول عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہُما کا کہا ہوا ہے ، تو کہیں تو یہ دِکھائی کہ دیتا عبداللہ ابن عباس یا اُنکے والد یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہُ یا کِسی بھی اور صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا دِن کِسی بھی طور پر ''' منایا ''' ہو ، اِس طرح تو اِنکے ابھی ابھی اُوپر بیان کردہ فلسفے کے مُطابق صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کُفرانِ نعمت کیا کرتے تھے ؟
 

ساقی۔

محفلین
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے والوں کی تیسری دلیل )
تیسری دلیل کے طور پر اِن لوگوں کا کہنا ہے کہ ''' سورت الضحیٰ کی آیت ١١ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی نعمتوں کے اظہار کا حُکم دِیا ہے اور اِظہار بغیر ذِکر کے ہو نہیں سکتا ، اور اِس آیت میں حُکم ہے کہ اِظہار کرو اب سوال یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں یا نہیں ؟ اگر ہیں اور یقیناً ہیں بلکہ تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہیں تو پھر اِسکا ذِکر کیوں نہیں ہو گا '''
::::: جواب :::::
اگرمیرے یہ کلمہ گو بھائی سورت الضحیٰ کو پورا پڑہیں تو پھر اِنہیں اِس کی آیت نمبر ١١ ((( وَ اَمَّا بِنِعمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّث ))) ((( اور تمہارے رب کی جو نعمت ہے اُس کا ذِکر کِیا کرو ))) سے پہلے کی آیات سے یہ سمجھ میں آ جانا چاہئیے کہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دل جمعی فرماتے ہوئے اُنکو اپنی نعمتیں یاد کرواتے ہیں اور اپنی اِن نعمتوں کو بیان کرنے کا حُکم دینے سے پہلے دو حُکم اور بھی دیتے ہیں کہ ((( فَاَمَا الیَّتِیمَ فَلَا تَقھَر o وَ اَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنھَر ) ( پس جو یتیم ہے اُس پر غُصہ مت کرو o اور جو کوئی سوالی ہو تو اُسے ڈانٹو نہیں ))) اِن دو حُکموں کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی یہ نعمتیں بیان کرنے کا حُکم دِیا ،
اگر نعمتوں کا ذِکر کرنے سے مُراد عید میلاد النبی منانا ہے تو پھر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اُنکے بعد اُنکے صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایسا کیوں نہیں کِیا ؟
اس آیت کو اپنے فلسفے کی دلیل بنانے والے میرے کلمہ گو بھائی اگر قُرآن کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث یا صحابہ رضی اللہ عنہم کے آثار میں ڈھونڈنے کی زحمت فرما لیتے یا اُمت کے اِماموں کی بیان کردہ تفاسیر میں سے کِسی تفسیر کا مطالعہ کرتے تو اِن پر واضح ہو جاتا کہ جو منطق و فلسفہ یہ بیان کر رہے ہیں وہ ناقابلِ اعتبار اور مردود ہے ، کیونکہ خِلافِ سُنّت ہے ، جی ہاں خِلافِ سُنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، خِلافِ سُنّت ِ صحابہ رضی اللہ عنہم ہے ، اور کُچھ نہیں تو صِرف اتنا ہی دیکھ لیتے کہ اِن آیات میں موجود اللہ کے احکام پر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اُن کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے کیسے عمل کیا ہے تو اِس قسم کے فلسفے کا شکار نہ ہوتے :::
کوئی اِن سے پوچھے تو :::::: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اُنکے بعد صحابہ رضی اللہ عنہُم اجمعین اور اُنکے بعد تابعین ، تبع تابعین اور چھ سو سال تک اُمت کے کِسی عالِم کو کِسی اِمام کو ، کِسی مُحدِّث ، کِسی مُفسر ، کِسی فقیہہ ، کِسی کو بھی یہ سمجھ نہیں آئی کہ اللہ کے حُکموں کا مطلب ''' عید میلاد النبی منانا ''' ہے ؟ اور جِس کو یہ تفسیر سب سے پہلے سمجھ میں آئی وہ تو پھر اِن سب سے بڑھ کر قُرآن جاننے والا اور بلند رتبے والا ہو گیا ؟ اِنّا للَّہِ و اِنّا اَلیہِ راجِعُوانَ ۔
 

ساقی۔

محفلین
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے والوں کی چوتھی دلیل )
چوتھی دلیل کے طور پر سورت المائدہ کی آیت ١١٤ کا حوالہ دیا جاتا ہے اور کہا ہے ''' عیسی علیہ السلام نے دُعا کی اے اللہ آسمان سے مائدہ نازل فرما جِس دِن کھانا نازل ہو گا وہ ہمارے لیے اور بعد والوں کے لیے عید کا دِن ہو گا ، غور کریں کہ اِس آیت کا مفہوم یہ کہ جِس دِن کھانا آئے وہ دِن خوشی کا ہو اور اب تک عیسائی اُس دِن خوشی مناتے رہیں ، تو کیا وجہ ہے جِس دِن نبی پاک تشریف لائے کیوں نہ خوشی کریں '''
::::: جواب ::::
سورت المائدہ کی آیت نمبر ١١٤ مندرجہ ذیل ہے :::
((( قَالَ عِیسَی ابنُ مَریَمَ اللَّھُمَّ رَبَّنَا اَنزِل عَلِینَا مآئِدۃً مِنَ السَّمَآءِ تَکُونُ لَنَا عِیداً لِّاَوَّلِنَا وَ اَخِرِنَا وَ اَیَۃً مِنکَ وَ ارزُقنَا وَ اَنتَ خَیرُ الرَّازِقِینَ )))(((مریم کے بیٹے عیسی نے کہا اے اللہ ہمارے رب ہم پر آسمان سے مائدہ نازل کر ، ( اُسکا نازل ہونا ) ہمارے لیے اور ہمارے آگے پیچھے والوں کے لیے عید ہو جائے ، اور تمہاری طرف سے ایک نشانی بھی ، اور ہمیں رزق عطاء فرما تو ہی سب سے بہتر رزق دینے والا ہے )))
اِس آیت میں عیسائیوں کے لیے تو مائدہ نازل ہونے والے دِن کو خوشی منانے کی کوئی دلیل ہو سکتی ہے ، مسلمانوں کے لیے ''' عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ''' منانے کی نہیں ،
انتہائی حیرت بلکہ دُکھ کی بات ہے کہ اِن لوگوں کو اِس بنیادی اصول کا بھی پتہ نہیں کہ شریعت کا کوئی حُکم سابقہ اُمتوں کے کاموں کو بُنیاد بنا کر نہیں لیا جاتا سوائے اُس کام کے جو کام اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے برقرار رکھا گیا ہو ،
اورشاید یہ بھی نہیں جانتے کہ اہل سُنّت و الجماعت یعنی سُنّت اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت کے مُطابق عمل کرنے والوں میں سے کبھی کِسی نے بھی گزری ہوئی اُمتوں یا سابقہ شریعتوں کو اِسلامی کاموں کے لیے دلیل نہیں جانا ، سوائے اُس کے جِس کی اِجازت اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرحمت فرمائی ہو ، اور جِس کام کی اِجازت نہیں دی گئی وہ ممنوع ہے کیونکہ یہ بات''' علم الاصول الفقہ '''میں طے ہے کہ ''' باب العِبادات و الدیّانات و التقرُبات متلقاۃ ٌ عن اللہِ و رَسُولِہِ صَلی اللَّہ ُ عَلِیہِ وَسلمَ فلیس لِاَحدٍ اَن یَجعلَ شَیئاً عِبادۃً اَو قُربۃً اِلّا بِدلیلٍ شرعيٍّ یعنی عبادات ، عقائد ، اور(اللہ کا) قُرب حاصل کرنے کے ذریعے اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ملتے ہیں لہذا کِسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کِسی ایسی چیز کو عبادت یا اللہ کا قُرب حاصل کرنے کا ذریعہ بنائے جِس کی شریعت میں کوئی دلیل نہ ہو ''' یہ قانون اُن لوگوں کی اُن تمام باتوں کا جواب ہے کہ جِن میں اُنہوں نے سابقہ اُمتوں یا رسولوں علیھِم السلام کے اعمال کو اپنی ''' عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ''' کی دلیل بنایا ہے ،
اور ہمارے یہ کلمہ گو بھائی اِس بنیادی اصول کو جانتے ہیں اور جان بوجھ کر اپنے آپ اور اپنے پیرو کاروں کو دھوکہ دیتے ہیں تو یہ نہ جاننے سے بڑی مُصبیت ہے ، ، اِن کُنتَ لا تدری فتلک المصیبۃ ، و اِن کُنتَ تدری فالمُصیبۃُ اَعظم ،
تیسری کوئی صورت اِن کے لیے نہیں ہے کوئی اِن کو بتائے کہ عیسائی تو کسی مائدہ کے نزول کو خوشی کا سبب نہیں بناتے اور اگر بناتے بھی ہوتے تو ہمارے لیے اُن کی نقالی حرام ہے ، جیسا کہ ہمارے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرا سب کچھ اُن پر فدا ہو ،نے فرمایا ہے ::: (مَن تشبَّہ بِقومٍ فَھُو مِنھُم ) ( جِس نے جِس قوم کی نقالی کی وہ اُن ہی ( یعنی اُسی قوم ) میں سے ہے ) سُنن ابو داؤد /حدیث ٤٠٢٥ /کتاب اللباس /باب ٤ لبس الشھرۃ ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ صادر فرما دیا ہے لہذا جو لوگ جِن کی نقالی کرتے ہیں اُن میں سے ہی ہوں گے اللہ تعالیٰ ہمیں غیر مسلموں کی ہر قِسم کی نقالی سے محفوظ رکھے ۔
 

ساقی۔

محفلین
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے والوں کی پانچویں دلیل )
'''عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ''' منانے اور منوانے والے میرے کلمہ گو بھائیوں کا کہنا ہے کہ '''سورت یونس کی آیت نمبر ٥٨ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت ملنے پر خوش ہونے کا حُکم دِیا ہے کیونکہ آیت میں اَمر یعنی حُکم کا صیغہ اِستعمال ہوا ہے اور حضور اللہ کی سب سے بڑی رحمت ہیں لہذا اُن کی پیدائش پر خوشی کرنا اللہ کا حُکم ہے ، اور اگر ہم اللہ تعالیٰ کے اِس حُکم پر عمل کرتے ہیں تو کیا غلط ہے ؟۔ '''
::::: جواب :::::
سورت یونس کی آیت نمبر ٥٨ کا مضمون سابقہ آیت یعنی آیت نمبر ٥٧ کے ساتھ مِل کر مکمل ہوتا ہے اور وہ دونوں آیات مندرجہ ذیل ہیں ::: (((یٰۤاَیُّھا النَّاسُ قَد جَاء َتکُم مَّوعِظَۃٌ مِن رَّبکُم و شِفآءٌ لِّمَا فِی الصَّدُورِ و ھُدًی و رحمۃٌ لِّلمُؤمِنینَ O قُل بِفَضلِ اللَّہِ و بِرَحمتِہِ فَلیَفرَحُوا ھُوَ خیرٌ مِّمَا یَجمَعُونَ ))) (((اے لوگو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف نصیحت آ چکی ہے اور اور جو کچھ سینوں میں ہے اُسکی شفاء اور ہدایت اور اِیمان والوں کے لیے رحمت O ( اے رسول ) کہیئے ( یہ ) اللہ کے فضل اور اُس کی رحمت ( سے ہے ) لہذا مسلمان اِس پر خوش ہوں اور یہ ( خوش ہونا ) جو کچھ یہ جمع کرتے ہیں ( اُن چیزوں کے جمع کرنے پر خوش ہونے ) سے بہتر ہے )))
اِس میں کوئی شک نہیں کہ آیت نمبر ٥٨ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت پر خوش ہونے کا حُکم دِیا ہے ، لیکن ! ! ! سوال پھر وہی ہے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے یا صحابہ رضی اللہ عنہم یا تابعین یا تبع تابعین رحمہم اللہ جمعیاً اور اُنکے بعد صدیوں تک اُمت کے اِماموں میں سے کِسی نے بھی اِس آیت میں دیے گئے حُکم پر ''' عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ''' منائی ؟ یا منانے کی ترغیب ہی دی ؟
آئیے دیکھتے ہیں کہ اِس آیت کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے کیا ملتی ہے ؟ اگر میلاد منانے اور منوانے والے ہمارے کلمہ گو بھائیوں نے اِس آیت کی تفسیر ، کِسی معتبر تفسیر میں دیکھی ہوتی تو پھر یہ لوگ اِس فلسفہ زدہ من گھڑت تفسیر کا شکار نہ ہوتے ، جِس کو اپنی کاروائی کی دلیل بناتے ہیں،
اِمام البیہقی نے''' شعب الایمان''' میں مختلف اَسناد کے ساتھ عبداللہ ابن عباس اور اَبو سعید الخُدری رضی اللہ عنہم سے روایت کیا کہ ( اللہ کا فضل قُرآن ہے اوراللہ کی رحمت اِسلام ہے ) اور دوسری روایت میں ہے کہ ( فضل اللہ اِسلام ہے اور رحمت یہ ہے کہ اللہ نے تمہیں قُرآن والوں ( یعنی مسلمانوں ) میں بنایا ) اور ایک روایت ہے کہ ( کتاب اللہ اور اِسلام اُس سے کہیں بہتر ہے جِس کو یہ جمع کرتے ہیں ) یعنی دُنیا کے مال و متاع سے یہ چیزیں کہیں بہتر ہیں لہذا دُنیا کی سختی یا غربت پر پریشان نہیں ہونا چاہیئے بلکہ اِن دو نعمتوں کے ملنے پر خوش رہنا چاہیئے ،
اِمام ابن کثیر نے اِس آیت کی تفسیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے بلا فصل خلیفہ اَمیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ نقل کیا کہ ''' جب عمر رضی اللہ عنہ ُ کو عراق سے خراج وصول ہوا تو وہ اپنے ایک غُلام کے ساتھ اُس مال کی طرف نکلے اور اونٹ گننے لگے ، اونٹوں کی تعداد بہت زیادہ تھی تو عمر رضی اللہ عنہ ُ نے کہا الحمد للہ تعالیٰ ، تو اُن کے غلام نے کہا ،، یہ اللہ کا فضل اور رحمت ہے ، تو عمر رضی اللہ عنہ ُ نے کہا ::: تُم نے جھوٹ کہا ہے ، یہ وہ چیز نہیں جِس کا اللہ نے (قُل بِفَضلِ اللَّہِ و بِرَحمتِہِ فَلیَفرَحُوا ھُوَ خیرٌ مَِّا یَجمَعُونَ ) ( ( اے رسول ) کہیئے ( یہ ) اللہ کے فضل اور اُس کی رحمت ( سے ہے ) لہذا اِس پر خوش ہوں اور یہ ( خوش ہونا ) جو کچھ یہ جمع کرتے ہیں ( اُن چیزوں کے جمع کرنے پر خوش ہونے ) سے بہتر ہے )میں ذِکر کیا ہے بلکہ یہ ( مِّمَا یَجمَعُون ) ( جو کچھ یہ جمع کرتے ہیں ) ہے '''
محترم قارئین ، غور فرمائیے اگر اِس آیت میں اللہ کے فضل اور رحمت سے مراد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے اور خوش ہونے سے مراد اُن صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کی عید منانا ہوتی تو خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اِسکا حکم دیتے اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہ کام ہمیں قولاً و فعلاً ملتا ، عُمر رضی اللہ عنہُ اپنے غُلام کو مندرجہ بالا تفسیر بتانے کی بجائے یہ بتاتے کہ فَضلِ اللَّہِ و بِرَحمتِہِ سے مراد یہ مالِ غنیمت نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اُن کی پیدائش کی خوشی یا عند منانا ہے
اِس آیت میں """ فَلیَفرَحُوا """کو دلیل بنانے کے لیے ہمارے یہ کلمہ گو بھائی کچھ بات لُغت کی بھی لاتے ہوئے """ فَلیَفرَحُوا """ میں استعمال کیئے گئے اَمر یعنی حُکم کے صیغے کی جو بات کرتے ہیں، آئیے اُس کا بھی لُغتاً کچھ جائزہ لیں ، آیت میں خوش ہونے کا حکم دِیا گیا ہے خوشی منانے کا نہیں ، اور دونوں کاموں کی کیفیت میں فرق ہے ، اگر بات خوشی منانے کی ہوتی تو """ فَلیَفرَحُوا """کی بجائے """ فَلیَحتَفِلُوا """ ہوتا ، پس خوش ہونے کا حُکم ہے نہ کہ خوشی منانے کا ،
اور کِسی طور بھی کِسی معاملے پر اللہ کی اجازت کے بغیر خوامخواہ خوش ہونے والوں کو اللہ پسند نہیں فرماتا ، چہ جائیکہ خوشی منانا اور وہ بھی اسطرح کی جِس کی کتاب اللہ اور سنّت میں کوئی صحیح دلیل نہیں ملتی ،
سورت القصص /آیت ٧٦ میں قارون کی قوم کا اُس کو نصیحت کرنے کا واقعہ بیان فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ بتاتے ہیں ( لا تَفرح اِنَّ اللَّہ لا یُحِبُ الفارحین ) ( ( دُنیا کے مال و متاع پر ) خوش مت ہو ، اللہ تعالیٰ خوش ہونے والوں کو پسند نہیں کرتا ) پس یہ بات یقینی ہو گئی کہ ہم نے کہاں اور کِس بات پر اور کیسے خوش ہونا ہے اُس کا تعین اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے اُن کے احکام مطابق کیا جائے گا ، نہ کہ اپنی مرضی ، منطق logic اور فلسفہ سے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آل عمران کی آیت ١٧٠ میں خوش ہونے کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا ( فَرِحِینَ بِمَآ ءَ اتٰھُم اللَّہ ُ مِن فَضلِہِ ) ( اللہ نے اُن لوگوں کو اپنے فضل سے جو کچھ دِیا ہے اُس پر وہ خوش ہوتے ہیں ) اور ہماری زیر بحث آیت میں بھی اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور اپنی رحمت سے عطاء کردہ چیزوں پر خوش ہونے کا حکم دِیا ہے ، اِمام القرطبی نے ( قُل بِفَضلِ اللَّہِ و بِرَحمتِہِ فَلیَفرَحُوا ھُوَ خَیرٌ مِّمَا یَجمَعُونَ ) کی تفسیر میں لکھا کہ ''' الفرح لذۃُ فی القلبِ باِدارک المَحبُوب ::: خوشی اُس کیفیت کا نام ہے جو کوئی پسندیدہ چیز ملنے پر دِل میں پیدا ہوتی ہے '''
اور لغت کے اِماموں میں سے ایک اِمام محمد بن مکرم نے ''' لسان العرب ''' میں لکھا کہ ''' فرح ، ھو نقیض الحُزن ::: خوشی اُس کیفیت کا نام ہے جو غم کی کمی سے پیدا ہوتی ہے ''' اور شیخ محمد عبدالرؤف المناوی نے ''' التوقیف علیٰ مھمات التعریفات ''' میں لکھا کہ ''' الفرح ::: لذۃ فی القلب لنیل المشتھی ::: خوشی اُس لذت کا نام ہے جو کوئی مرغوب چیز حاصل ہونے پر دِل میں پیدا ہوتی ہے '''
صحابہ کی تفسیر اور لغوی شرح سے یہ ہی پتہ چلتا ہے کہ خوشی دِل کی کیفیت کا نام ہے کِسی خاص دِن کِسی خاس طریقے پر کوئی عمل کرنا نہیں ، سوائے اُس کے جِس کی اِجازت اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرحمت فرمائی ہو ، اور جِس کام کی اِجازت نہیں دی گئی وہ ممنوع ہے کیونکہ یہ بات ''' علم الاَصول الفقہ''' میں طے ہے ، جیسا چند صفحات پہلے اِس کا ذِکر کیا گیا ہے ۔
 

ساقی۔

محفلین
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے والوں کی چَھٹی دلیل )
عید میلاد منانے اور منوانے والے ہمارے یہ کلمہ گو بھائی ، سورت الصّف کی آیت نمبر ٦ کے متعلق کہتے ہیں کہ ''' اِس میں عیسی علیہ السلام نے حضور کی تشریف آوری کی خوشخبری دی ہے اور ہم بھی اِسی طرح ''' عید میلاد ''' کی محفلوں میں حضور کی تشریف آوری کی خوشی کا احساس دِلاتے ہیں ۔
::::: جواب :::::


سورت الصّف کی آیت نمبر ٦ یہ ہے (((( وَاِذ قَالَ عِیسَی ابنُ مَریَمَ یَا بَنِی اِسرَائِیلَ اِنِّی رَسُولُ اللَّہِ اِلَیکُم مُّصَدِّقاً لِّمَا بَینَ یَدَیَّ مِنَ التَّورَاۃِ وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ یَاَتِی مِن بَعدِی اسمُہُ اََحمَدُ فَلَمَّا جَاءَ ہُم بِالبَیِّنَاتِ قَالُوا ہَذَا سِحرٌ مُّبِینٌ ))) (((اور جب عیسی نے بنی اِسرائیل کو کہا کہ اے بنی اِسرائیل میں تُم لوگوں کی طرف اللہ کا رسول ہوں اور اُس چیز کی تصدیق کرنے والا ہوں جو میرے سامنے توارات میں ہے اور خوشخبری دینے والا ہوں اُس رسول کی جو میرے بعد آنے والا ہے اور اُس کا نام اَحمد ہے ، ( پھر اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کے بعد بنی اِسرائیل کے رویے کے بارے میں فرماتے ہیں ) اور پھر جب یہ رسول ( اَحمد صلی اللہ علیہ وسلم ) واضح نشانیاں لے کر اُن کے پاس آیا تو کہنے لگے یہ تو کھلا جادُو ہے )))
""" خوشی منانے """ اور """خوشی ہونے""" میں کیا فرق ہے اِس کے متعلق پہلے کچھ بات ہو چکی ہے ، اور """کِسی بات کی خوشخبری دینا """ تو اِن دونوں سے بالکل ہٹ کر مختلف کیفیت والا معاملہ ہے ،
اور پھر اِس آیت میں بیان کردہ یہ واقعہ بھی ، بہت سے اور واقعات کی طرح سابقہ اَنبیاء علیھم السلام کے واقعات میں سے ایک ہے ، اور سابقہ اُمتوں یا اَنبیاء علیھم السلام کے واقعات کو دلیل بنانے کا حُکم کیا ہے ؟ اُس کا ذِکر بھی ہو چکا ہے ، اور اگر بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ سابقہ اُمتوں یا اَنبیاء علیھم السلام کے ہر واقعہ کو دلیل بنایا جا سکتا ہے تو پھر بھی !!! عیسی علیہ السلام کی اِس بات میں کونسی دلیل ہے جِس کی بُنیاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کی عید منائی جائے ؟ کیا اِس میں اِشارۃً بھی کہیں یہ ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی خوشخبری کو اُن صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے بعد یا اُن صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عید بنایا جائے ؟؟؟؟؟ اگر ایسا ہی تھا تو پھر وہی سوال دُہراتا ہوں کہ """ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، تابعین ، تبع تابعین ، اُمت کے اِمام اور عامۃ المسلمین کِسی کو بھی صدیوں تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ اس آیت میں کس بات کی دلیل ہے اور اِس آیت کی روشنی میں کیا کرنا چاہیئے ؟؟؟؟؟ """
فَاعتبروا یا اولیٰ الابصار
مضمون جاری ہے ، اِنشاء اللہ اگلے حصے میں اگلی دلیل اور اُس کا جواب پیش کروں گا، اور اِنشاء اللہ سب دلائل کا جواب مکمل کروں گا ، سب پڑہنے والوں سے بار بار یہ گذارش ہے کہ غور سے پڑہیں‌، اور سوچیں کہ کیا سُنّت ہے اور کیا نہیں ؟؟؟
اِنشاء اللہ عید میلاد منوانے اور منانے والے بھائیوں کے دلائل کے جواب کے بعد اِس خِلافِ سُنّت عبادت کی تاریخ بھی پیش کروں گا ،


.............................................................................................................................


عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے والوں کی ساتویں دلیل )
عید میلاد منوانے اور منانے والے میرے کلمہ گو بھائی ،اپنے طور پر اپنے اِس کام کو سُنّت کے مُطابق ثابت کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ ''' نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی ولادت کی خوشی پر روزہ رکھنا اور فرمانا اِس دِن یعنی پیر کو میری ولادت ہوئی ، خود ولادت پر خوشی منانا ہے '''
::::: جواب :::::
اِن کی اِس بات کا ایک حصہ تو صحیح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا دِن پیر یعنی سوموار ہے ، اور وہ صلی اللہ علیہ وسلم پیر کا روزہ رکھا کرتے تھے ، اِس سچ سے اِنکار کفر ہے کیونکہ صحیح مُسلم کی حدیث ١١٦٢ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ملتا ہے کہ ( اِس دِن میں پیدا ہوا تھا اور اِس دِن مُجھ پر وحی اُتاری گئی تھی ) یا یہ کہا کہ ( اِس دِن مجھے مبعوث کیا گیا تھا ) لیکن !!! یہ کہاں ہے کہ اِس دِن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ، صحابہ رضی اللہ عنہم نے یا کِسی ایک صحابی نے ، یا تابعین نے یا تبع تابعین نے ، یا اُمت کے ائمہ میں سے کِسی نے بھی کوئی ''' عید ''' منائی ،
اور یہ کہاں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس دِن روزہ رکھنے کی وجہ اُن کی پیدائش کی خوشی ہے ''' عید میلاد ''' منوانے والوں کی طرف سے خلافَ حقیقت بات کیوں کی جاتی ہے اِسکا فیصلہ اِنشاء اللہ آپ لوگ خود بخوبی کر لیں گے ، جب آپ صاحبان کو پتہ چلے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِس دِن یعنی پیر کا روزہ کیوں رکھا کرتے تھے ذرا توجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ چند اِرشادات ملاحظہ فرمائیے :::::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیر کے د ِن کے بارے میں فرمایا کہ :::
( پیر اور جمعرات کے دِنوں میں اللہ کے سامنے بندوں کے اعمال پیش کئیے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر اُس اِیمان والے کی مغفرت کر دیتا ہے جِس نے اللہ کے ساتھ کِسی کو شریک نہ کیا ہو ، سوائے اُنکے جو آپس میں بغض رکھتے ہوں تو کہا جاتا ہے ( یعنی اِنکے معاملے میں کہا جاتا ہے ) اِنکو مہلت دو یہاں تک کہ یہ صلح کر لیں ) صحیح مسلم ، صحیح ابنِ حبان ، مجمع الزوائد ۔
اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ پیر اور جمعرات کا روزہ کیوں رکھتے ہیں تو اُنہوں نے فرمایا ( پیر اور جمعرات کے دِن اللہ بندوں کی مغفرت کر دیتا ہے سوائے ایک دوسرے کو چھوڑ د ینے والوں کے ( یعنی ناراضگی کی وجہ سے ایک دوسرے کو چھوڑ دینے والے تو ) اُن چھوڑ دینے والے کےلیے کہا جاتا ہے کہ اِنہیں صلح کرنے تک کی مہلت دی جائے ) سُنن الدارمی /حدیث ١٧٥٠ ، مصباح الزُجاجہ /حدیث ٦٢٩ ۔ اِمام احمد الکنانی نے اِس حدیث کو صحیح قرار دِیا ہے ۔
اوپر بیان کردہ احادیث کے بعد کِسی بھی صاحبِ عقل کو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیر کے دِن کا روزہ اپنی پیدائش کی خوشی میں نہیں رکھا بلکہ اِس دِن اللہ کے سامنے بندوں کے اعمال پیش ہونے کی وجہ سے رکھا ہے ۔
اگر پیر کے دِن نفلی روزہ رکھنے کا سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوتا تو کم از کم وہ صلی اللہ علیہ وسلم اِس کی ترغیب ہی دیتے ، مندرجہ بالا دو احادیث کے بعد یہ حدیث بھی بغور ملاحظہ فرمائیے ۔
امام مسلم نے اپنی صحیح میں حدیث ١١٦٢ /کتاب الصیام / باب استحباب صیام ثلاثۃ ایام مِن کلِّ شہر میں ابی قتادہ رضی اللہ عنہُ سے روایت کیا کہ ''' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اُن کے روزوں کے بارے میں پوچھا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں آ گئے ( تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو غصے میں دیکھ کر ) عُمر ( رضی اللہ عنہ ُ ) نے کہا [[[ ہم اللہ کے رب ہونے پر راضی ہیں اور اِسلام کے دین ہونے پر اور محمد کے رسول ہونے پر ، اور ہماری بیعت ، بیعت ہے ( یعنی جو ہم نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی ہے وہ سچی پکی بیعت ہے) ]]]، پھر ابی قتادہ رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ ''' پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صیام الدہر ( ہمیشہ مستقل روزے میں رہنا ) کے بارے میں پوچھا گیا ''' تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا( لا صام و لا اَفطر ) ( ( ایسا کرنے والے نے ) نہ روزہ رکھا نہ افطار کیا ) ، پھر ابی قتادہ رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ ''' پھر رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم سے دو دِن روزہ رکھنے اور ایک دِن افطار کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا ( و مِن یُطیقُ ذَلِکَ ؟ ایسا کرنے کی طاقت کون رکھتا ہے؟ ) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دِن روزہ رکھنے اور دو دِن افطار کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا ( لیتَ ان اللہ قَوَّانا لَذَلِکَ ؟ کاش اللہ ہمیں ایسا کرنے کی طاقت دے دے ) پھر رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دِن روزہ رکھنے اور دو ایک افطار کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا ( ذَلِکَ صَومُ اَخِی داؤد (علیہ السلام ) یہ میرے بھائی داؤد (علیہ السلام ) کا روزہ ہے ) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیر (سوموار) کے دِن روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا ( ذَلِکَ یَومٌ ولدت ُ فِیہِ و یُومٌ بُعِثت ُ فِیہِ ، اِس دِن میری پیدائش ہوئی اور اِس دِن میری بعثت ہوئی (یعنی مجھے رسالت دی گئی ) ) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( صومُ ثلاثۃِ مِن کُلِّ شھر ، و رمضانَ اِلیٰ رمضانِ صومُ الدہر،رمضان سے رمضان تک ہر ماہ میں سے تین دِن روزے رکھنا ہمیشہ مسلسل روزہ رکھنے کے جیسا ہے ) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یوم عرفات کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا( یُکَفِّر ُ السَّنۃَ الماضِیۃَ و الباقِیۃَ ، ایک پچھلے سال اور رواں سال کے گُناہ معاف کرواتا ہے ) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دس محرم کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا ( یُکَفِّر ُ السَّنۃَ الماضِیۃَ ، پچھلے ایک سال کے گُناہ معاف کرواتا ہے )
اِس حدیث کے اِلفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف نفلی روزں کے بارے میں پوچھا گیا اور اُنہوں نے اُسکی وجہ بتائی اور آخر میں یہ فرمایا کہ ( رمضان سے رمضان تک ہر ماہ میں سے تین دِن روزے رکھنا ہمیشہ مسلسل روزہ رکھنے کے جیسا ہے ) ، یعنی سوموار کا روزہ رکھنے کی کوئی ترغیب بھی نہیں دِی ، کوئی اضافی ثواب نہیں بتایا ، جیسا کہ عرفات اور عاشوراء کے روزوں کا فائدہ بیان کرنے کے ذریعے اُن کی ترغیب دی ہے ، تو ، اِس حدیث میں زیادہ سے زیادہ سوموار کو نفلی روزہ رکھنے کا جواز ملتا ہے ، نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش منانے کا ،
میلاد منوانے اور منانے والے میرے کملہ گو بھائیوں کے بیان کردہ فلسفے کے مُطابق ہونا تو یہ چاہیئے کہ یہ سب یعنی اِن کے پیر اور مرید سب کے سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنّت کے مُطابق ہر سوموار کا روزہ رکھیں اور خاص طور پر جِس دِن کو اِنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا دِن سمجھ رکھا ہے اُس دِن حلال و حرام کی تمیز ختم کر کے ڈھول ڈھمکا ، رقص وقوالی اور گانوں کے راگ لگا لگا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذِکر کرنے کی بجائے اُن صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرنے کی بجائے ، اُن صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر چندوں کے ذریعے ہر کس و ناکس کا مال کھانے کی بجائے روزہ رکھیں اور پھرلوگوں کے مال پر نہیں بلکہ ا پنے ہاتھ کی حلال کمائی سے اُسے افطار کریں ، لیکن !!! ایسا نہیں ہوتا کیونکہ یہ نفس پر بھاری ہے اور پہلے کام نفس کو محبوب ہیں ، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر وہ کام پورے کیے جاتے ہیں جِن کے ذریعے ذاتی خواہشات پوری ہوں ۔
 

ساقی۔

محفلین
:: ایک اضافی فائدے کے طور پر اس مراسلے میں خواب و اِلہام کی حقیقت و شرعی حیثیت بھی ملاحظہ فرمائیے :::
( عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے والوں کی آٹھویں دلیل )
میلاد منوانے اور منانے والے میرے کلمہ گو بھائی کہتے ہیں کہ ''' ابو لہب نے حضور کی پیدائش کی خوشی میں اپنی لونڈی ثوبیہ کو آزاد کِیا اور اُس کے اِس عمل کی وجہ سے اُسے جہنم میں پانی ملتا ہے ، پس اِس سے ثابت ہوا کہ حضور کی پیدائش کی خوشی منانا باعثِ ثواب ہے '''
::::: جواب :::::
یہ بات صحیح البُخاری ، کتاب النکاح کے باب نمبر ٢٠ کی تیسری حدیث کے ساتھ بیان کی گئی ہے ، اور یہ حدیث نہیں بلکہ عروہ بن الزبیر کا قول ہے کہ ''' و ثُویبَۃٌ لِابی لھبٍ و کان ابو لھبٍ اعتقھا فارضعت النبيّ صلی اللَّہ عَلیہِ وَسلم ، فلما مات ابو لھب اُرِیَہُ بعضُ اھلہِ بِشرِّ حِیبۃٍ ، قال لہ ُ : ما ذا لّقَیت َ ؟ قال ابو لھب : لم القَ بعدَکُم ، غیرَ انی سُقِیتُ فی ھذہ بعتاقتی ثُویبَۃَ '''
اور اِس بات کو اِمام البیہقی نے سُنن الکبریٰ میں ، کتاب النکاح کے باب ''' ما جاء فی قول اللّہ تعالیٰ و اَن تجمعوا بین الاختین ''' میں اِلفاظ کے معمولی سے فرق سے نقل کِیا ہے اُن کے نقل کردہ اِلفاظ یہ ہیں ''' لم القَ بعدَکُم رخاءَ ، غیرَ انی سُقِیتُ فی ھذہ مِنی بعتاقتی ثُویبَۃَ و اشارَ اِلیِ النقیرۃ التی بین الابھام و التی تلیھا مِن الاصابع '''
اور اِمام ابو عوانہ نے اپنی مسند میں '' مبتداء کتاب النکاح و ما یشاکلہُ ''' کے باب ''' تحریم الجمع بین الاختین و تحریم نکاح الربیبۃ التی ہی تربیۃ الرجل و تحریم الجمع بین المراۃ و ابنتھا ''' میں اِن اِلفاظ کے ساتھ یہ واقعہ نقل کیا ''' لم القَ بعدَکُم راحۃ ، غیرَ انی سُقِیتُ فی ھذہ النقیرۃ التی بین الابھام والتی تلیھا بعتقی ثُویبَۃَ '''
سب سے پہلی اور بُنیادی بات یہ ہے کہ یہ بات حدیث نہیں ، بلکہ ایک تابعی کی بات ہے جو اِمام بُخاری نے بلا سند بیان کی ہے ، ذرا غور فرمائیے کہ اِس بات میں سے زیادہ سے زیادہ یہ نتیجہ اخذ کِیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابو لہب کے عذاب میں اپنی باندی آزاد کرنے کی نیکی کی وجہ سے کچھ نرمی کر دی ، جیسا کہ ابو طالب کے عذاب میں کمی کر دی گئی ،
اِس بات سے کوئی بھی اِنکار نہیں کر سکتا کہ ابو لہب کافر تھا ، اور کفر کی حالت میں ہی مرا ، اور جب اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کی خوشخبری دینے والی اپنی باندی ثویبہ کو آزاد کِیا تھا تو اِس لیے نہیں کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے ہیں ، بلکہ اِس خوشی میں کِیا تھا اُس کے فوت شُدہ بھائی عبداللہ بن عبدالمطلب کا بیٹا پیدا ہوا ہے ، اگر اُسے اپنے بھتیجے کے رسول اللہ ہونے کی خوشی ہوتی تو اُن صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلانِ نبوت کے بعد یہ ابو لہب پہلے اِیمان لانے والوں میں ہوتا نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے مخالفین میں ،
اِمام ابن حجر العسقلانی نے اِس بات کی شرح کرتے ہوئے ''' فتح الباری شرح صحیح البُخاری ''' میں لکھا ''' السہیلی نے لکھا کہ یہ خواب عباس بن عبدالمطلب ( رضی اللہ عنہُ ) نے دیکھا تھا ''' پھر چند سطر کے بعد لکھا ''' یہ خبر مرُسل ہے یعنی عروہ بن الزبیر نے یہ بیان نہیں کِیا کہ اُنہوں نے یہ بات کِس سے سُنی ، اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ یہ خبر مُرسل نہیں ، پھر بھی اِس میں بیان کِیا گیا واقعہ ایک خواب ہے اور جِس نے یہ خواب دیکھا ، خواب دیکھنے کے وقت وہ کافر تھا مُسلمان نہیں '''
اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ ُ نے یہ خواب اِسلام قبول کرنے کے بعد دیکھا تھا تو بھی خوابوں کے بارے میں اہلِ سُنّت و الجماعت کا فیصلہ یہ ہی ہے کہ خوابوں میں کِسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہوتی ،
یہ ایک دِینی مسئلہ ہے اور ایسا مسئلہ ہے جِس کا تعلق عقیدے اور عِبادت دونوں سے ہے ، دِین کے کِسی بھی مسئلے کا حکم جاننے کے لیے مندرجہ ذیل میں سے کِسی ایک چیز کی دلیل کا ہونا ضروری ہے :::
( ١ ) قرآن (٢) صحیح حدیث (٣) آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم ا جمعین ،،،
''' اَثرٌ''' کا مطلب ہے نشانی ، یا نقشِ قدم ، اور صحابہ رضوان اللہ علیہم کے اقوال و افعال کو ''' مصطلح الحدیث ''' یعنی علمِ حدیث کی اصطلاحات میں''' آثار''' کہا جاتا ہے ، اور کچھ محدثین ''' آثار ''' کا اطلاق ''' حدیث ''' پر بھی کرتے ہیں ، اور اسکا عکس بھی استعمال ہوتا ہے ، (٤) اِجماع (٥) اِجتہاد یا قیاس:::
عِبادت اور عقیدے کے مسائل میں اِجتہاد یا قیاس کی کوئی گنجائش نہیں ، اِس کے لیے قرآن اور صحیح حدیث دونوں یا دونوں میں سے کِسی ایک میں سے نصِ صریح یعنی واضح دلیل کا ہونا ضروری ہے اگر قرآن اور حدیث میں سے کوئی صریح نص یعنی بالکل واضح جواب نہ مِل سکے تو پھر اِجماع اور آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی طرف توجہ کی جاتی ہے ، اور اِن تمام مصادر میں ''' عید میلاد النبی ''' منانے یا کرنے کی کوئی علامت تک بھی نہیں ملتی ، کِسی بات کو اپنی مرضی کے معنی یا مفہوم میں ڈھالنے کی کوشش سے حقیقت نہیں بدلتی ، ،،، بات ہو رہی تھی دینی احکام کے مصادر کی ، اہلِ تصوف کی طرف ''' اِلہام یا خواب ''' کو بھی دینی حکم لینے کی دلیل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ، اور دلیل کے طور پر وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس فرمان کو پیش کرتے ہیں کہ ( الرؤیا الصالحۃ جُز ءٌ مِن ستۃ و اربعین جُزءً ا مِن النَّبُوۃِ ) ( اچھا خواب نبوت کے چھیالس حصوں میں سے ایک حصہ ہے ) یہ حدیث یقینا صحیح ہے ، لیکن !!! یہاں کچھ سوالات سامنے آتے ہیں کہ اچھا خواب کِس کا ہو گا ؟ کیا ہر شخص کا خواب ؟ اور کیا ہر خواب نبوت کے حصوں میں سے ایک حصہ سمجھا جائے گا ؟؟؟ آئیے اِن سوالات کے جوابات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامینِ مُبارک میں سے ڈھونڈتے ہیں ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( الرؤیا الحَسنۃ مِن الرجُلٌ الصالحٌ جُز ءٌ مِن ستۃ و اربعین جُزءً ا مِن النَّبُوۃِ ) ( کِسی اِیمان والے کا خواب نبوت کے چھیالس حصوں میں سے ایک حصہ ہے ) صحیح البُخاری /حدیث٦٩٨٣/کتاب التعبیر/باب رقم ٢ کی پہلی حدیث
اور فرمایا ( رؤیا المؤمن جُز ءٌ مِن ستۃ و اربعین جُزءً ا مِن النَّبُوۃِ ) ( کِسی اِیمان والے کا خواب نبوت کے چھیالس حصوں میں سے ایک حصہ ہے ) صحیح مُسلم ، /حدیث ٢٢٦٣ ،
اِن دونوں احادیث میں ہمارے مذکورہ بالا سوالات کے جوابات ہیں ، اور وہ یہ کہ نہ تو ہر کِسی کا خواب مانے جانے کے قابل ہوتا ہے اور نہ ہی ہر خواب ، بلکہ صرف پرہیز گار ، اِیمان والے کا اچھا خواب ، کِسی کافر ، مُشرک ، بدعتی ، یا بدکار مُسلمان وغیرہ کا نہیں ، اِمام ابن حجر نے صحیح البُخاری کی شرح ''' فتح الباری ''' میں اِس حدیث کی شرح میں اِمام القُرطبی کا یہ قول نقل کیا ''' سچا ، مُتقی ، پرہیز گار مُسلمان ہی وہ شخص ہے جِس کا حال نبیوں کے حال سے مُناسبت رکھتا ہے ، لہذا اللہ تعالیٰ نے جِن چیزوں کے ذریعے نبیوں کو بُزرگی دی اُن میں سے ایک چیز غیب کی باتوں کے بارے میں کوئی خبر دینا ہے پس ( کِسی سچے ، مُتقی ، پرہیز گار مُسلمان کو اللہ اِس ذریعے بُزرگی دیتا ہے ( یعنی اُس کو سچا خواب دِکھاتا ہے ) ، لیکن ، کافر یا بدکار مُسلمان یا جِس کا حال دونوں طرف مِلا جُلا ہو ، ایسا شخص ہر گِز اِس بُزرگی کو نہیں پا سکتا ، اگر کِسی وقت کِسی ایسے شخص کو سچا خواب نظر بھی آئے ، تو اُس کا معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی انتہائی جھوٹا آدمی بھی کبھی سچ بول ہی دیتا ہے ، اور نہ ہی یہ بات درست ہے کہ ہر وہ شخص جو غیب کی کوئی بات بتاتا ہے اُس کی بات نبوت کے حصوں میں سے ایک حصہ ہے ، جیسا کہ جادوگر اور نجومی وغیرہ باتیں کرتے ہیں '''
پس یہ بات واضح ہو گئی کہ کِسی کافر ، مُشرک ، بدعتی ، یا بدکار مُسلمان کا سچا خواب اُس کی بُزرگی کی دلیل بھی نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ اُسے دِین میں کِسی عقیدے یا عِبادت کی دلیل بنایا جائے ، سچے خواب تو یوسف علیہ السلام کے قیدی ساتھیوں اور اُس مُلک کے بادشاہ نے بھی دیکھے تھے اور وہ تینوں ہی کافر تھے ، اب اللہ ہی جانے عباس رضی اللہ عنہ ُ کا حالتِ کُفر میں دیکھا ہوا ایک خواب ''' عید مِیلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ''' منوانے اور منانے والے میرے کلمہ گو بھائیوں کے لیے دلیل کیسے بنتا ہے ؟؟؟
اِس خواب میں سے زیادہ سے زیادہ اِس بات کی دلیل لی جا سکتی ہے کِسی کافر کو بھی اُس کے اچھے عمل کا آخرت میں فائدہ ہو گا ، اور یہ دُرست ہے یا نہیں یہ ہمارا اِس وقت کا موضوع نہیں ، ہمارے لیے یہ بات صحیح احادیث کے ذریعے واضح ہو چکی ہے کہ کِسی سچے ، متقی ، پرہیز گار اِیمان والے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اگر سچا خواب دِکھایا جائے تو نبوت کے حصوں میں سے ایک حصہ ہوتا ہے ، اور یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ شریعت کے حُکم لینے کے جِن ذرائع پر ہمیشہ سے اہلِ سُنّت و الجماعت کا اِتفاق رہا ہے اُن میں خوابوں یا اِلہامات کا کوئی ذِکر نہیں ۔
پچھلے چند صفحات میں ، میں نے کئی بار '''اہلِ سُنّت و الجماعت ''' کے اِلفاظ اِستعمال کیئے ہیں ، مُختصراً اِنکی وضاحت کرتا چلوں تا کہ پڑھنے والوں کو کوئی غلط فہمی نہ ہو ، اِنشاء اللہ ، ''' اہلِ سُنّت و الجماعت ''' اُن کو کہا جاتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنّت کے پابند ہوتے ہیں اور اُس طرح پابند ہوتے ہیں جِس طرح کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت تھی ، اپنی مَن گھڑت عبادات یا اپنے مَن گھڑت عقائدیا اپنے مَن گھڑت افکار و تشریحات اختیار کرنے والے '''اہلِ سُنّت و الجماعت ''' نہیں ہوتے ، اور نہ وہ ہوتے ہیں جو قُرآن اور حدیث کا نعرہ تو لگاتے ہیں لیکن اُن کو سمجھنے اور اُن پر عمل کرنے کےلیے صحابہ رضی اللہ عنہم کا راستہ نہیں اپناتے بلکہ اُن کے اپنے ہی اِمام اور پیرانِ طریقت ہوتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم کسی ضد اور تعصب کا شکار نہ ہوں اور اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات و فرامین کو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے قول و فعل کے مطابق سمجھیں ، اور جو کچھ اُس کے مطابق نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اُسے ترک کر دیں ۔

....................................................................................................

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے والوں کی نویں دلیل )
میلاد منوانے اور منانے والے میرے کلمہ گو بھائی کہتے ہیں کہ ''' میلاد شریف میں ہم حضور پاک کی سیرت بیان کرتے ہیں اور اُن کی تعریف کرتے ہیں نعت کے ذریعے ، اور یہ کام تو صحابہ بھی کِیا کرتے تھے ، تو پھر ہمارا میلاد منانا بدعت کیسے ہوا ؟ '''
::::: جواب :::::
جی ہاں یہ دُرست ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح کرتے تھے اور نعت کرتے تھے ، لیکن کیا کبھی مِیلاد منوانے اور منانے والے مسلمانوں نے یہ بھی سوچا ہے کہ کیا صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے دِن کو خاص کر کے ایسا کرتے تھے ؟ یا کوئی خاص وقت اور طریقہ یا جگہ مقر ر کیا کرتے تھے ؟؟؟ یا گانے بجانے والوں اور والیوں کے انداز بلکہ اُن کے گانوں کی لے و تال پر نعت گایا کرتے تھے ؟؟؟ یقینا صحابہ رضوان اللہ علیہم ایسا نہیں کِیا کرتے تھے ، اور جب صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ایسا نہیں کِیا کرتے تھے تو اِن لوگوں کا ایسا کرنا یقینا بدعت ہے ، رہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت بیان کرنا تو اُن صلی اللہ علیہ وسلم سے مُحبت کرنے والا ہر مُسلمان کرتا ہے ، لیکن شرک و کفر کے ساتھ نہیں ، جیسا کہ کچھ کی نعت بازی میں نظر آتا ہے ، بر سبیل مثال یہ شعر مُلاحظہ فرمائیے ، یہ بھی ایسی ہی ایک نعت کا حصہ ہے جو صحابہ رضی اللہ عنہم کے منہج کے خلاف ہو کر کی گئی ہے ، اپنی منطق اور اپنے فلسفے کے مطابق کی گئی ہے :::
وہی جو مستویٰ عرش تھا خدا ہو کر ::: اُتر پڑا مدینے میں مُصطفیٰ ہو کر
اِنّا للّہِ و اِنّا علیہ راجعون ، کیا صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و مدح اِس طرح کِیا کرتے تھے ؟ کہ اُنہیں اللہ بنا دیتے تھے ؟
کیا میرے اِن کلمہ گو بھائیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ رضی اللہ عنہم کی نسبت زیادہ محبت ہے ؟؟؟
اگر ہاں ، تو صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرح سنّت کی اتباع کیوں نہیں ہوتی ، بلکہ ایسے کام کیے جاتے ہیں جِن کا کوئی ثبوت سُنّت میں ہے ہی نہیں ، جیسا کہ اب تک کی بحث و تحقیق میں واضح ہو چکا ، اور اِنشاء اللہ
ابھی مزید وضاحت آگے کروں گا ۔


...........................................................................................................

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے والو ں کی دسویں دلیل )
میلاد منوانے اور منانے والے میرے کلمہ گو بھائی کہتے ہیں ''' ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اُنکی پیدائش کی خوشی مناتے ہیں ، اور جو ایسا نہیں کرتے اُنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی مُحبت نہیں، وہ محروم ہیں '''، بلکہ اِس سے کہیں زیادہ شدید اِلفاظ اِستعمال کرتے ہیں ، جِن کو ذِکر کرنا میں مُناسب نہیں سمجھتا ،
::::: جواب :::::
دِلوں کے حال اللہ ہی جانتا ہے ، ہمیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کی بہت خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا دِین ہم تک پہنچانے کےلیے اُنہیں مبعوث فرمایا ، اور دِین دُنیا اور آخرت کی ہر خیر ہم تک پہنچانے کا ذریعہ بنایا ، لیکن جب یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دُنیا سے اُٹھا لیا ، وہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ، نزولءِ وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا ، تو ساری خوشی رخصت ہو جاتی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا غم اُن کی پیدائش کی خوشی سے بڑھ کر ہے ، کہ دِل نچڑ کر رہ جاتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اُن میں سے بنائے جِن کی زندگیاں اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنّت کی عین اِتباع میں بسر ہوتی ہیں اور ہر بدعت سے ہمیں محفوظ فرمائے ، اُن سے نہ بنائے جنہیں بدعات پر عمل کرنے کی وجہ سے روزِ محشر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوض مبارک سے ہٹا دِیا جائے گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے لیے بد دعا کریں گے ، چلتے چلتے یہ حدیث مبارک بھی ملاحظہ فرمائیے ، اور بدعتِ حسنہ کے فلسفہ پر غور فرمائیے :::
عن اَنس عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال ( اِنِی فَرطُکُم عَلیٰ الحَوضِ مَن مَرَّ عليَّ شَرِبَ و مَن شَرِبَ لم یَظمَاء ُ اَبداً لَیَرِدُنّ عَليّ اَقواماً اَعرِفُھُم و یَعرِفُونِي ثُمَّ یُحَالُ بینی و بینَھُم فاَقولُ اِِنَّھُم مِنی ، فَیُقال ،اِِنکَ لا تدری ما اَحدَثُوا بَعدَکَ ، قَاَقُولُ سُحقاً سُحقاً لَمِن غَیَّرَ بَعدِی ) و قال ابن عباس سُحقاً بُعداً سُحیقٌ بَعِیدٌ سُحقۃً ، و اَسحقہُ اَبعَدُہ ُ( میں تم لوگوں سے پہلے حوض پر ہوں گا جو میرے پاس آئے گا وہ ( اُس حوض میں سے ) پیئے گا اور جو پیئے گا اُسے ( پھر ) کبھی پیاس نہیں لگے گی ، میرے پاس حوض پر کچھ الوگ آئیں گے یہاں تک میں اُنہیں پہچان لوں گا اور وہ مجھے پہچان لیں گے ( کہ یہ میرے اُمتی ہیں اور میں اُن کا رسول ہوں)، پھر اُن کے اور میرے درمیان کچھ (پردہ وغیرہ)حائل کر دیا جائے گا ، اور میں کہوں گا یہ مجھ میں سے ہیں ( یعنی میرے اُمتی ہیں ، جیسا کہ صحیح مُسلم کی روایت میں ہے )، تو ( اللہ تعالیٰ ) کہے گا تُم نہیں جانتے کہ اِنہوں نے تمہارے بعد کیا نئے کام کیئے ، تو میں کہوں گا دُور ہو دُور ہو ، جِس نے میرے بعد تبدیلی کی ) اور عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ::: سُحقاً یعنی دُور ہونا ، صحیح البُخاری/حدیث ٦٥٨٣ ، ٦٥٨٤/ کتاب الرقاق/ باب فی الحوض، صحیح مسلم / حدیث ٢٢٩٠، ٢٢٩١ /کتاب الفضائل/باب اِثبات حوض نبیّنا صلی اللہ علیہ وسلم و صفاتہ ۔
محترم قارئین ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِن فرامین پر ٹھنڈے دِل سے غور فرمائیے ، دیکھیئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے جو جواب دیا جائے گا اُس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت کے اعمال نہیں جانتے ، اور اللہ تعالیٰ نئے کام کرنے والوں کو حوضءِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہٹوایں گے ، اچھے یا برے نئے کام کے فرق کے بغیر، اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے یہ سفارش کرنے کا ذِکر کیا کہ اچھے نئے کام یعنی '''بدعتِ حسنہ '''کرنے والوں کو چھوڑ دِیا جائے ،،،، غور فرمائیے ،،، ، بدعت دینی اور بدعت دُنیاوی ، یا یوں کہیئے ، بدعتِ شرعی اور بدعتِ لغوی میں بہت فرق ہے اور اِس فرق کو سمجھنے والا کبھی''' بدعتِ حسنہ اورسیئہ''' کی تقسیم کو درست نہیں مانتا ،
اب کوئی اِن سے پوچھے تو ::::: کیا صحابہ رضی اللہ عنہُم اجمعین اور اُن کے بعد تابعین ، تبع تابعین اور چھ سو سال تک اُمت کے کِسی عالم کو کِسی اِمام کو ، نبی علیہ الصلاۃُ و السلام سے محبت نہیں تھی ؟ ؟؟کیا مُحبت کے اِس فلسفہ کو صحابہ رضی اللہ عنہم نہ سمجھ پائے تھے کہ وہ اِس بات کو بنیاد بنا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کی عید مناتے ، یا تابعین یا تبع تابعین ، یعنی سُبحان اللہ عید میلاد منوانے اور منانے والے میرے کلمہ گو بھائیوں کو مُحبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ مفہوم سمجھ میں آ گیا جو درست ہے اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، تابعین تبع تابعین چھ ساڑہے چھ سو سال تک اُمت کے عُلمااور ائمہ رحمہم اللہ جمعیاًبے چارے غلطی پر رہے ؟؟؟ اور مزید کہتا ہوں کہ :::
نہیں نہیں یہ عِشق نہیں ہے ، جمع خرچ ہے زُبانی
وہ کیا عِشق ہوا ، جِس میں محبوب کی ہے نافرمانی
عِشق و وفاء کو دِی صحابہ نے نئی تب و تابِ جاودانی
اور تُمہارا عِشق ہے اُن کے عمل سے رُوگردانی

......................................................................................................

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے والوں کی گیارہویں دلیل )
عید میلاد منوانے او ر پھر منانے والے میرے کلمہ گو بھائی کہتے ہیں ''''حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت الیوم اکملت لکم دینکم ۔ تلاوت فرمائی ۔ تو ایک یہودی نے کہا : اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے ۔ اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا :: یہ آیت نازل ہی اسی دن ہوئی جس دن دو عیدیں تھیں ۔(یوم جمعہ اور یوم عرفہ ) مشکوٰۃ شریف صفحہ 121 ۔۔ مرقات شرح مشکوۃ میں اس حدیث کے تحت طبرانی وغیرہ کے حوالہ سے بالکل یہی سوال و جواب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے ، مقام غور ہے کہ دونوں جلیل القدر صحابہ نے یہ نہیں فرمایا ، کہ اسلام میں صرف عید الفطر اور عید الاضحی مقرر ہیں اور ہمارے لئے کوئی تیسری عید منانا بدعت و ممنوع ہے ۔ بلکہ یوم جمعہ کے علاوہ یوم عرفہ کوبھی عید قرار دے کر واضح فرمایا کہ واقعی جس دن اللہ کی طرف سے کوئی خاص نعمت عطا ہوخاص خاص اس دن بطور یادگار عید منانا ، شکر نعمت اور خوشی کا اظہار کرنا جائز اور درست ہے علاوہ ازیں جلیل القدر محدث ملا علی قاری علیہ الرحمۃ الباری نے اس موقع پر یہ بھی نقل فرمایا کہ ہر خوشی کے دن کے لئے لفظ عید استعمال ہوتا ہے ، الغرض جب جمعہ کا عید ہونا ، عرفہ کا عید ہونا ، یوم نزول آیت کا عید ہونا ہر انعام و عطا کے دن کا عید ہونا اور ہر خوشی کے دن کا عید ہوناواضح و ظاہر ہوگیا تو اب ان سب سے بڑھ کر یوم عید میلا د النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عید ہونے میں کیا شبہ رہ گیا ۔
::::: جواب :::::
عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہُ کا جو اثر یہ صاحبان ذکر کرتے ہیں ، وہ واقعہ امیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہُ کا ہے جیسا کہ کتب ستہ ، اور زوائد میں روایت ہے ، اور عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہُ کے بارے میں یہ بات صرف ''' سنن الترمذی ''' میں روایت کی گئی ہے اور اِمام الترمذی نے خود کہا ہے کہ یہ روایت حسن غریب ہے ،
اصولاً ہونا یہ چاہیئے کہ جو روایت زیادہ صحت مند ہے اُس کو دلیل بنایا جانا چاہیئے ، لیکن کیا کہوں کہ ، صحیح البخاری اور صحیح مسلم کی روایت کو سرسری انداز میں '''مرقات شرح مشکوۃ میں اس حدیث کے تحت طبرانی وغیرہ کے حوالہ سے بالکل یہی سوال و جواب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے ''' لکھنا ، کیا ثابت کرنے کو کوشش محسوس ہوتی ہے !!! جبکہ صاحب مرقاۃ نے تو عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما والی روایت کے بعد ، پہلے امیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہُ کا واقعہ بخاری کے حوالے سے ذِکر کیا ہے ، اور پھر طبرانی کے حوالے سے ، لیکن ہمارے یہ بھائی بات کو کاٹ چھانٹ کر ، آگے پیچھے کر کے کیوں لکھتے ہیں ؟؟؟ دِلوں کے حال اللہ ہی جانتا ہے ، جو نظر آتا ہے وہ ہر صاحب بصیرت سمجھ سکتا ہے ،
قطع نظر اِس کے کہ یہ واقعہ امیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہُ کا ہے یا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ، غور کرنے کی بات یہ کہ ، یہودی کے جواب میں کیا اِن دونوں صحابیوں میں سے کِسی نے بھی یہ کہا کہ ہاں ہم بھی اِس دِن کو عید بنا لیتے ہیں ؟
کیا کِسی نے بھی یہ سوچا یا سمجھا کہ اگر یومِ عرفہ ، یوم عید ہو سکتاہے تو میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم والا دِن بھی عید ہو سکتا ہے ، یا جِس دِن کوئی خوشی یا کوئی نعمت ملی ہو اُس دِن عید منائی جا سکتی ہے ، تو خود سے اِس پر عمل کیوں نہیں کیا ؟؟؟ تیسری ، چوتھی اور پانچویں دلیل کے جواب میں رحمت و نعمت ملنے پر عید منانے کے بارے میں پہلے بات کر چکا ہوں ،
قارئین کِرام ، اِن دونوں صحابیوں رضی اللہ عنہما کے جواب پر غور فرمائیے ، یہودی نے کہا ''' اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اُس دِن کو عید بنا لیتے ''' اُنہوں نے اُس یہودی کو دِن گِنا کر بتایا کہ''' ہمیں پتہ ہے کہ یہ آیت کِس دِن نازل ہوئی تھی لیکن ہماری عیدیں مقرر ہیں ، ہم اپنی طرف سے کوئی اور عید نہیں بنا سکتے '''
مزید ، یہ کہ جلیل القدر محدث ملا علی القاری الحنفی رحمۃُ اللہ علیہ کی طرف سے لفظ ''' عید ''' ہر خوشی کے دِن کے لیے اِستعمال ہونے کا ذِکر کر کے اپنی عید میلاد کے لیے دلیل بنانا بڑا ہی عجیب و غریب معاملہ ہے ،
قطع نظر اِس کے کہ لفظ ''' عید ''' کا لغوی اور شرعی مفہوم کیا ہے؟ اور قطع نظر اِس کے کہ دِین کے کِسی کام ، عِبادت یا عقیدے کو اپنانے کے لیے اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے واضح حُکم درکار ہوتا ہے ، نہ کہ کِسی کی کوئی بات ، اور قطع نظر اِس کے کہ عید ہونا اور عید منانا دو مختلف کیفیات ہیں ، اور اِن کا مختلف ہونا ہمیں لُغت اور شریعت میں قولاً و فعلاً ملتا ہے ، یہ بحث پھر کبھی اِنشاء اللہ ،
میں یہاں صِرف اِس بات پر افسوس کرنا چاہتا ہوں کہ عید میلاد منوانے والے بھائیوں نے کِس طرح علامہ ملا علی القاری رحمہُ اللہ علیہ کی بات کو نامکمل اور سیاق و سباق کے بغیر لکھ کر اپنی بات اور عمل کے جائز ہونے کی دلیل بنایا ہے ،
مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح / کتاب الصلاۃ /باب الجمعۃ /فصل الثالث ، میں علامہ ملا علی القاری رحمۃُ اللہ علیہ نے عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما والی روایت کی شرح بیان کرتے ہوئے لکھا ((( قال الطیبی فی جواب ابن عباس للیہودیِّ اِشارۃ اِلی الزیادۃ فی الجواب یعنی ما تخذناہ عیداً واحداً بل عیدین وتکریر الیوم تقریر لاستقلال کل یوم بما سمی بہ واضافۃ یوم اِلی عیدین کاضافۃ الیوم اِلی الجمعۃ ای یوم الفرح المجموع والمعنی یوم الفرح الذی یعودون مرۃ بعد اُخری فیہ اِلی السرور قال الراغب العید ما یعاود مرۃ بعد اُخری وخص فی الشریعۃ بیوم الفطر ویوم النحر ولما کان ذلک الیوم مجعولاً للسرور فی الشریعۃ کما نبہ النبی بقولہ اَیام منی اَیام اکلٍ وشربٍ وبعال صار یستعمل العید فی کل یوم فیہ مسرۃ ))) یہاں کہیں بھی کوئی ایسی بات نہیں جِسے عید میلاد کی دلیل بنایا جائے ، اگر ایسا ہوتا تو علامہ علامہ ملا علی القاری رحمۃُ اللہ علیہ اِس کا ذِکر کرتے ، نہ کہ لفظ ''' عید ''' کا معنیٰ و مفہوم بیان کرنے پر اِکتفاء کرتے ، جبکہ علامہ صاحب ١٠١٤ہجری میں فوت ہوئے اور اُس وقت ''' عید میلاد ''' کی بدعت مُسلمانوں میں موجود تھی ، اور علامہ صاحب مسلکاً حنفی بھی تھے ، لیکن اِس کے باوجود اُنہوں نے یہاں اِس آیت اور عبداللہ ابن عباس یا عُمر رضی اللہ عنہم کے قول کو عید میلاد کی دلیل ہونے کی طرف کوئی اشارہ بھی نہیں کِیا ، افسوس صد افسوس ، ضد اور تعصب میں اپنے ہی مسلک کے عُلماء پر یوں ظلم کیا جاتا ہے کہ اُن کی باتوں کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے جِس طرح اُنہوں نے نہیں کہی ہوتِیں ،
علامہ ملا علی القاری رحمۃُ اللہ علیہ کے مندرجہ بالا اِلفاظ کے کچھ حصے کو اپنی بات کی دلیل بنانے والے اگر پوری بات کو سامنے لائیں تو اُن کے ہر پیروکار پر واضح ہو جائے کہ کِس طرح عُلماء کی باتوں کو اپنی رائے اور بات کی دلیل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ، میں اِس مندرجہ بالا عبارت کا ترجمہ قصداً نہیں کر رہا ہوں اور مہلاد منانے ولاے بھاءیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے عُلماء میں سے کِسی سے اس کا ترجمہ کروایں ، اور اُن کی اُس دلیل کا جائزہ لیں جِس کے جواب میں یہ سب کچھ لکھا جا رہا ہے ،
عید میلاد منوانے اور منانے والے میرے مسلمان بھائی ، کم از کم یہ تو سوچیں کہ ، اگر اُن کی بیان کردہ منطق، یعنی ، ہر خوشی اور نعمت والے دِن کا عید ہونا ، درست ہوتی تو صحابہ رضی اللہ عنہم اور یہ عُلماء کرام رحمہم اللہ ہر خوشی اور ہر نئی نعمت ملنے والے دِن کی عید مناتے ،
اور شاید اِس طرح سال بھر میں سے آدھا سال عیدیں ہی رہتیں ، نبوت کے جھوٹے دعوی داروں کا خاتمہ ، زکوۃ کی ادائیگی سے اِنکار کرنے والے کا قلع قمع ، ہر نیا شہر ، ہر نیا مُلک فتح ہونا ، فوج در فوج لوگوں کا مسلمان ہونا یہ سب اللہ کی نعمتیں ہی تو تھیں ، غور تو کیجیئے کہ کتنی عیدیں ہوتیں ؟؟؟
کیا صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، تابعین ، تبع تابعین، صدیوں تک اُمت کے علماء و ائمہ رحمہم اللہ جمعیاً میں سے کِس نے ایسی کوئی بھی عید منائی ؟؟؟
میں اِس بات میں کوئی شک نہیں رکھتا کہ عید میلاد منوانے اور منانے والوں کی اکثریت یہ سب بحث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں کرتی ہے ، لیکن افسوس اِس بات کا ہوتا ہے کہ اُن کا ایک انتہائی نیک جذبہ غیر مُناسب طور پر اِستعمال ہو رہا ہے ، اوراُنہیں اُس کااحساس نہں ہو رہا ،
سوچیے تو ، محبت محبوب کی پسند کے مطابق اُس تابع فرمانی ہوتی ہے یا کچھ اور ؟؟؟
سوچیئے تو ، اگرروز محشر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے پوچھیں کہ دِین میں جو کام میں نے نہیں کِیا ، میرے خلفاء راشدین نے نہیں کِیا ، میرے صحابہ میں سے کِسی نے نہیں کِیا ، آپ نے وہ کام کیوں کِیا ؟؟؟
اللہ کے احکام اور میری باتوں کو جو تفسیر و تشریح میں نے بیان نہیں کی ، نہ قولاً نہ عملاً ، نہ میرے صحابہ میں سے کِسی نے بیان کی ، آپ نے وہ تفسیر و تشریح کیسے قُبُول کر لی ؟؟؟
اللہ کے کلام کی تشریح کی ذمہ داری تو اللہ نے مجھے سونپی تھی اور اللہ کے حُکم سے میں یہ ذمہ داری پوری کر آیا تھا ، پھر اللہ کے کلام کی نئی نئی تشریح اور عِبادت کے نئے نئے طور طریقے آپ نے کہیں اور سے کیوں لیے ؟؟؟
کیا جواب دیں گے ، یا رسول اللہ ہمارے عُلما کہا کرتے تھے ، یا ، ہماری کتابوں میں لکھا گیا تھا ، یا ، ہم سوچا کرتے تھے کہ اگر ایسا ہو سکتا ہے تو ایسا کیوں نہیں ، اور کر لیا کرتے تھے ،
یقین مانئے اللہ کی شریعت مکمل ہونے کے بعد ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس دُنیا فانی سے واپس بلوایا گیا ، اور اُن کے بعد کِسی پر وحی نازل نہیں ہوئی ، نہ ہی وہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی باطنی شریعت ، یا خاندانی شریعت چھوڑ کر تشریف لے گئے ، اللہ کا ہر حُکم صاف اور واضح طور پر قولاً و عملاً بیان فرما کر گئے ،
اگر آپ اِس پر اِیمان رکھتے ہیں ،اور مجھے پوری اُمید ہے کہ یقینا اِیمان رکھتے ہیں ، تو پھر عید میلاد منانا اُن صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں کہیں نہیں ہے ، تقاضاء محبت اطاعت و فرمانبرداری ہے ، جہاں جو بات اُن صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی موافقت رکھتی ہے قُبُول فرمائیے ، اور جو نہیںرکھتی ترک کر دیجئے ، یہ ہی اُن صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی محبت ہے ،
 

ساقی۔

محفلین
::::::: عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آغاز :::::::
قُران و سنّت ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کے اقوال و افعال کی روشنی میں ، عید میلاد منوانے اور مانے والے بھائیوں کے دلائل کا جواب آپ پڑھ چکے ، اب اِس عید میلاد کی شرعی حیثیت کے بارے میں بات کرنے سے پہلے آئیے تاریخ کے دریچوں میں جھانک کر بھی دیکھ لیا جائے :::
کیا آپ جانتے ہیں کہ سب سے پہلے یہ کام کب ، کہاں اور کِس نے اور کیوں شروع کیا تھا ؟
یہ بات تو پوری طرح سے واضح ہو چکی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ رضی اللہ عنہم ، تابعین ، تبع تابعین ،اُمت کے ائمہ و علماء رحمہم اللہ جمعیاًکی طرف سے قران کی کسی آیت ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کِسی فرمان ، سابقہ انبیا ء علیہم السلام کے کسی واقعہ ، کا زُبانی یا عملی طور پرایسا کوئی مفہوم بیان نہیں ہوا جِس کو بُنیاد بنا کر ''' عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منائی '''جائے ، پس اس عید کے بدعت ہونے میں کوئی شک نہیں رہتا ، پھر بھی آئیے ذرا تاریخ کی کتابوں میں جھانک کر دیکھیں :::
اِمام عبدالرحمان بن اِسماعیل المَقدَ سیّ کی کتاب ''' الباعث علیٰ البدع و الحوادث ''' کے محقق بشیر محمد عیون نے لکھا ::: ''' میلاد منانے کی بدعت سب سے پہلے فاطمیوں نے شروع کی ، اُن کے پاس پورے سال کی عیدیں ہوا کرتی تھیں ، وہ لوگ نئے سال کی عید ، عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، علی ، فاطمہ ، حسن ، حسین رضی اللہ عنہم اجمعین ، کی عید میلاد اور خلیفہء وقت کی عید میلاد منایا کرتے تھے ، اور اِسکے علاوہ نصف رجب کی رات ، شعبان کی پہلی اور آخری رات ، رمضان کی پہلی ، درمیانی ، اور ختمِ قرآن کی رات ، فتح خلیج کا دِن ، نوروز کا دِن ، غطاس کا دِن ، غدیر کا دِن ، یہ سب عیدیں اور راتیں وہ لوگ ''' منایا ''' کرتے تھے پھر ایک فاطمی وزیر افضل شاہنشاہ آیا جِس نے چار عیدیں میلاد کی بند کر دیں ، یعنی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، میلادِ علی اور میلادِ فاطمہ رضی اللہ عنہما ، اور میلادِ خلیفہءِ وقت ، پھر المامون البطائحی نے خلیفہ الآمر باحکام اللہ کے دور میں اِن میلادوں کو دوبارہ چالو کیا ، یہاں تک سلطان صلاح الدین الایوبی کی خلافت قائم ہوئی تو یہ تمام کی تمام عیدیں ، میلادیں ، راتیں وغیرہ بند کر دی گئیں ، لیکن اربل کے حکمران مظفر الدین کوکبری ابو سعید نے جو سلطان صللاح الدین ایوبی کی بہن ربیع کا خاوند تھا اپنے ایک سرکاری مولوی عمر بن محمد موصلی کی ایما پر ٦٥٠ ہجری میں دوبارہ اِس بدعت کا آغاز کیا۔
تو اِس تاریخی حوالے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اُمتِ اسلام میں ''' عید میلادیں ''' منانے کی بدعت ایک فاطمی ، عبیدی ، المعز لدین اللہ معد بن المنصور اِسماعیل کے دور میں شروع ہوئی ، اور اِسکا دورِ حکومت ٣٤١ہجری سے شروع ہوتا ہے ، (تاریخ الخلفاء جلد ١/صفحہ٥٢٤/فصل الدولۃ الخبیثیۃ العبیدیۃ /مؤلف اِمام عبدالرحمان السیوطی /مطبوعہ مبطع السعادۃ /مصر) اور اِس کے باپ اِسماعیل کی نسبت سے ہی اِن فاطمی عبیدیوں کو اِسماعیلی بھی کہا جاتا ہے ،
کچھ مورخین ''' عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ''' کی بدعت کا آغاز فاطمیوں کے دور سے نہیں بلکہ اربل کے حکمران الکوکبری کے دور سے ہونا زیادہ صحیح قرار دیتے ہیں ،
پہلی بات زیادہ مضبوط ہو یا دوسری ، دونوں صورتوں میں یہ بات یقینی ہے کہ ''' عید میلاد ''' نام کی کوئی چیز اللہ کی شریعت مکمل ہونے کے کم از کم ٣٤١ ہجری تک مُسلمانوں میں کہیں نہ تھی ،
یہ تو ہم جانتے ہیں کہ کِسی خاص واقعہ کے دِن کو ''' تہوار ''' بنانا یہود و نصاری اور دیگر کافر قوموں کی عادت تھی اورہے ، اور اِسلام میں وہ سارے عیدیں اور تہوار منسوخ کر کے مُسلمانوں کے لیے دو تہوار، دو عیدیں دِی گِئیں اور اُن کے علاوہ کوئی تہوار ، یا عید منانے کے لیے نہیں دِی گئی ، جیسا کہ انس ابن مالک رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ ''''' اہلِ جاھلیت (یعنی اِسلام سے پہلے مشرکوں اور کافروں )کے کھیلنے (خوشی منانے ) کے لیے سال میں دو دِن تھے ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو فرمایا ( کان لَکُم یَومَانِ تَلعَبُونَ فِیہِمَا وقد اَبدَلَکُم اللَّہ بِہِمَا خَیرًا مِنہُمَا یوم الفِطرِ وَیَومَ الاضحَی ) ( تُم لوگوں کے لیے کھیلنے (خوشی منانے )کے دودِن تھے اور اللہ نے تُمارے اُن دو دِنوں سے زیادہ خیر والے دِنوں سے بدل دِیا ہے اور وہ خیر والے دِن فِطر کا دِن اور اضحی کا دِن ہیں) سنن النسائی / حدیث١٥٥٦ / کتاب صلاۃ العیدین ،السلسۃ الاحادیث الصحیحۃ / حدیث 1021 ،
اور پھر کم از کم تین سوا تین سو سال تک اُمت نے اِن دو عیدوں کے عِلاوہ کوئی عید نہیں ''''' منائی ''''' ، اِس حدیث سے پہلے ذِکر کیے گئے تاریخی حوالے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ میلاد منانا مسلمانوں میں یہودیوں کے روحانی پیروکار فرقے ( الفاطمین ) کی طرف سے داخل کیا گیا ، یہ فاطمین وہ ہی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے ابو بکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین کو گالیاں نکلوانا ، مسجدوں کے دروازوں پر اِن تینوں کے لیے لعنت کے اِلفاظ لکھوانا ، اپنے آپکو سجدے کروانا ، اور کئی دیگر مشرکانہ کام شروع کروائے ، اور جب صلاح الدین ایوبی علیہ رحمۃ اللہ نے اِنکو عیسائیوں کے ساتھ سازش کرنے کی سزا کے طور پر مصر سے نکالا تو یہ ایران اور ہندوستان کے ساحلی علاقوں میں پھیل گئے ، اور آج دُنیا میں یہ لوگ اسماعیلی کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں اور اِنکا کفر کِسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔
ہماری یہاں تک کی بات کا خلاصہ یہ ہوا کہ ، اِسلام کی اب تک کی تاریخ یعنی ٨ ١٤٢ سالہ تاریخ میں سے کم از کم سوا تین سو سال اِس بدعت کی کوئی خبر نہیں دیتے ، اگر کِسی کے پاس اِسکے عِلاوہ کوئی خبر ہو تو مجھے مکمل حوالہ کے ساتھ آگاہ کرے ،
حیرت صد حیرت کہ اتنے لمبے عرصے تک ایک دو نہیں ، دس سو نہیں ، ہزاروں لاکھوں نہیں کڑوڑں نہیں ، بلکہ اربوں مسلمانوں میں سے کِسی کو بھی یہ سمجھ نہیں آئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم پیدائش ''' منایا ''' جانا چاہئیے ؟
اور اب عید میلاد منوانے اور منانےوالے ، منع کرنے والوں کو عیسائیوں اور کافروں کی طرح مسلمانوں کی عالمی خوشی منانے میں روکاوٹ جانتے ہیں ،بے چارے شاید یہ تاریخ نہیں جانتے ، اگر جانتے تو سمجھ جاتے کہ ، ''' عید میلاد ''' یا کِسی بھی اور بدعت سے روکنے والے عیسائیوں اور کافروں کا وار روکنے کی کوشش کرتے ہیں ، کیونکہ شیطان اور اُس کے پیروکار کفار و مشرکین کے واروں میں سے یہ بھی ہے ''' حُبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ''' کے مُثبت اور مطلوب جذبے کو منفی اور غیر مطلوب راہ پر چلا کر وہ مسلمانوں میں تفریق پیدا کی جائے ،
رہا معاملہ مسلمانوں کے عالمی اجتماعی جشن کو روکنا تو ایسا وہ کر چکے ہیں ، مسلمانوں میں قمری تاریخوں میں اختلاف پیدا کر کے ، وہ اپنا یہ مقصد حاصل کر چکے ہیں ، اللہ کے دیئے ہوئے بے مثال نظام کو مسلمانوں میں پراگندہ خیال کر کے وہ مسلمانوں کو اس حال تک لا چکے ہیں ہیں اس معلومات کی منتقلی اور تکنیکی عُلوم کے جدید ترین دور میں بھی مسلمان ایک ہی مدار پر ایک ہی رات میں نکلنے والے ایک ہی چاند کو دو دو تین تین دِن کے وقفوں میں دیکھنا مانتے ہیں اور اپنی تاریخ ایک نہیں کر پاتے ، ایک ہی بستی میں روزہ بھی رکھا جارہا ہوتا ہے اور عید بھی کی جا رہی ہوتی ہے ، اس حال تک پہنچانے کے بعد ''' عید میلاد ''' مختلف دِنوں میں ہو یا ایک دِن کفار کو اِس سے کیا غرض ، اُن کی غرض و غایت تو ''' عید میلاد ''' ہونا ہے ، تا کہ اُمتِ محمدیہ علی صاحبھا الصلاۃُ و السلام ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرتی رہے اور اُسے ''' محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ''' سمجھ کر کرتی رہے ، چاند اور تاریخوں کی بات پھر کبھی سہی ، اِنشاء اللہ ۔ ::::::::::::::::ایک ضروری بات ::::::::::::::::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش کے بارے میں جو یہ بیان کیا جاتا ہے کہ بارہ ربیع الاول ہے ، تو یہ ایسی بات ہے جِسے محدثین ، محقیقن نے رد کیا ہے ، اِمام الالبانی نے ، اِمام ابنِ کثیر کی ''' سیرتِ نبویہ ''' کی تخریج و تحقیق کی اور ''' صحیح سیرتِ نبویہ ''' تیار کی ، اِس میں اُنہوں نے لکھا کہ '''' تاریخ ولادت کے بارے میں جتنے بھی اقوال ہیں سب کے سب علم مصطلح الحدیث کی کسوٹی پر عیب دار ہیں ، سوائے اُس روایت کے جو اِمام مالک نے صحیح سند سے نقل کی ہے اور وہ روایت بتاتی ہے کہ ::: ''' تاریخ ولادت آٹھ ربیع الاول ہے '''
الاِمام المحدث عبدالرحمان السھیلی (وفات ٥٨١ہجری )نے ''' الروض الانف/مطبوعہ دار احیا التراث الاِسلامی /بیروت/لبنان ''' میں لکھا کہ ''' بارہ ربیع الاول والی روایات کا مدار زیاد بن عبداللہ البکائی نامی راوی ہے ، جو کہ ضعیف ہے ''' جیسا کہ اِمام محمد بن احمد بن عثمان شمس الدین الذہبی نے ''' من تکلم فیہ ''' میں بیان کیا ۔
اور مزے کی بات جو کہ اِمام سحمد بن محمد ابنِ خلکان (وفات ٦٨١ ہجری)نے ''' وفیات الاعیان /ترجمہ ٥٤٧/جز ٤/صفحہ١١٨/مطبوعہ دارالثقافۃ /بیروت/لبنان ''' میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم نشر کرنے والے مظفر الدین الکوکبری ابو سعید کے بارے میں بیان کی کہ ''' ایک سال آٹھ ربیع الاول کو اور ایک سال بارہ ربیع الاول کو میلاد کیا کرتا تھا کیونکہ یہ دو مختلف روایات ہیں '''
میلاد ''' منوانے اورمنانے ''' والے میرے کلمہ گو بھائیوں سے یہ پوچھا جانا چاہئیے کہ وہ کِس بُنیاد پر بار ہ ربیع الاول کو ہی درست تاریخ جانتے ہیں ؟؟؟
اِمام السھیلی نے ''' الروض الانف ''' میں مزید لکھا کہ ''' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ وفات کے بارے میں صحیح اور حق بات یہ ہی ہے کہ وہ بارہ ربیع الاول ہے '''
میلاد ''' منوانے اورمنانے ''' والے مسلمانوں سے یہ پوچھئیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش زیادہ بڑی خوشی ہے یا اُن کا دُنیا سے رخصت ہو جانا زیادہ غم و اندوہ ؟؟؟ جواب سے وہ خود ہی اپنی محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اندازہ فرما لیں ۔


عادل سہیل ظفر​
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
ساقی بھائی شکریہ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا میں بحث نہیں کرنا چاہتا اس لے آپ سے بھی درخواست ہے آپ بھی بحث نا کریں کیونکہ نا آپ مانے گے اور نا میں مانوں گا آپ بھی دلائیل دیں گے اور میں بھی دوں گا جب کسی نے مانا ہی نہیں تو پھر بحث کا فائدہ آپ سے درخواست ہے آپ میری تحریر سے آپنے جوابات نکال کر ایک نیا دھاگہ شروع کر دیں لیکن میرے دھاگے سے اپنی تحریریں نکال دیں

اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھے کی توفیق عطا فرمائیں آمین
 

ساقی۔

محفلین
ساقی بھائی شکریہ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا میں بحث نہیں کرنا چاہتا اس لے آپ سے بھی درخواست ہے آپ بھی بحث نا کریں کیونکہ نا آپ مانے گے اور نا میں مانوں گا آپ بھی دلائیل دیں گے اور میں بھی دوں گا جب کسی نے مانا ہی نہیں تو پھر بحث کا فائدہ آپ سے درخواست ہے آپ میری تحریر سے آپنے جوابات نکال کر ایک نیا دھاگہ شروع کر دیں لیکن میرے دھاگے سے اپنی تحریریں نکال دیں

اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھے کی توفیق عطا فرمائیں آمین

خرم بھائی اس میں ماننے نہ ماننے کی کیا بات ہے۔ اگر آپ ثابت کر دیں کہ میں غلطی پر ہوں تو میں آپ کا شکر گزار بھی ہوں گا اور میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منایا بھی کروں گا۔
اور اگر آپ کھلے دل سے میرے جوا بات پڑھیں اور کوئی شکوک آپ کے دل میں رہ جائیں تو وہ بھی پوچھ لیں ۔ اور اگر آپ سمجھیں کہ یہی سچ ہے تو اپ اسے مان لیں ورنہ میرے جوابات کے رد پر جواب لکھیں ۔ تو میں مان لوں گا۔ اس سے یہ ہو گا کہ جو غلطی پر ہو گا وہ اسے چھوڑ دے گا ۔ کیا خیال ہے۔؟
اور اگر آپ کا یہ مقصد ہے کہ حق پڑھ کر بھی اسے نہیں مانیں گے تو پھر میں کیا کہہ سکتا ہوں۔

اگر آپ کو میرے جوابات سے تکلیف پہنچی ہے (میں معذرت خواہ ہوں) تو “شمشاد بھائی“ سے کہہ کر انہیں علیحدہ دھاگے میں منتقل کروا دیں۔
 

خرم

محفلین
ساقی بھائی بدعت کیا ہوتی ہے؟ اس کی تعریف بیان فرما دیں تو کافی بہتری ہوگی بات سمجھنے میں کہ ہر بات کی تان اسی بات پر آکر ٹوٹتی ہے۔:)
اس کے ساتھ یہ بھی کہ "عید میلاد النبی" کی نماز کتنی رکعات کی ہوتی ہے؟ اس کے اوقات کیا ہیں اور اس کے چھوٹ جانے پر قضا کیا ہے؟
عید میلاد النبی کا مطلب کیا ہے؟ لفظ "عید" کا مطلب کیا ہے اور عربی زبان میں یہ کن معانی میں مستعمل ہے؟
 

ف۔قدوسی

محفلین
ساقی بھائی بہت اچھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالٰی آپ کو جزائے خیر دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساقی بھائی شکریہ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا میں بحث نہیں کرنا چاہتا اس لے آپ سے بھی درخواست ہے آپ بھی بحث نا کریں کیونکہ نا آپ مانے گے اور نا میں مانوں گا آپ بھی دلائیل دیں گے اور میں بھی دوں گا جب کسی نے مانا ہی نہیں تو پھر بحث کا فائدہ آپ سے درخواست ہے آپ میری تحریر سے آپنے جوابات نکال کر ایک نیا دھاگہ شروع کر دیں لیکن میرے دھاگے سے اپنی تحریریں نکال دیں

اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھے کی توفیق عطا فرمائیں آمین
خرم بھائی آپ بھلے ہی بحث نہ کریں پر آپ کی دلیلیں صحیح نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔ میں کسی فرقے سے تعلق نہیں رکھتی جو صحیح احادیث ہو اسے مانتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو اگر یہ اللہ تعالٰی کا حکم ہے کہ عید میلادالنبی مناؤ تو کیا صحابہ رضی اللہ عنہم اللہ تعالٰی کا حکم نہیں مانتے تھے؟نعوذباللہ اور حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے نعت پڑھی تھی تو کیا 12 ربیع الاول کو پڑھی تھی؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب کئ سوالات میرے ذہن میں آئیں گے پر آپ کے "بحث نہیں کرنا چاہتا" کی وجہ سے میں پوچھ بھی نہیں پاؤنگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ خرم بھائی کا شروع کیا ہوا دھاگہ ہے صرف اس لیئے میں کچھ نہیں کہوں گا۔
تو ابو کاشان صاحب میرے دھاگے میں چلے جائیں وہاں آپ کو کہنے کا پورا حق ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ف۔قدوسی

محفلین
یعنی "سچ" تعلق کی بنا پر باہر نہیں نکلتا! واہ بھائی واہ۔۔۔۔ بہت اچھے مسلمان ہیں!

عارف بھائی جب خرم بھائی نے ساقی بھائی کو کہہ دیا کہ "میرے دھاگے سے اپنی تحریریں نکال دیں" تو ابو کاشان سے بھی یہی کہیں گے نا اسلئے وہ پہلے سے ہی "ہوشیار" ہورہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top