اے ستارہِ شبِ زندگی....!!
وہی شام کہر سی شام پھر
ترے نام ہو تو غزل کہیں
وہی شام جس کی رگوں میں تھے
تری خواب آنکھوں کے رتجگے
وہی صبح دھوپ کی لاڈلی
ترے عارضوں پہ کھِلے تو پھر
رگِ جاں سے نظم کشید ہو
وہی سماعتوں کا جلوس ہو
وہی رنگ ہو وہی روشنی
وہی خوشبوؤں کا ہجوم ہو
وہی ایک پل تیری دید کا
جو ملے تو اشک دمک اٹھیں
جو بجھے ہیں داغ چمک اٹھیں
وہی ایک پل تیری دید کا
جو ملے تو درد کی اوٹ میں
سبھی قہقہے سے چھلک اٹھیں
سرِ لوحِ شامِ فراق پھر
غمِ عشق موجِ نوید ہو
اے ستارہِ شبِ زندگی....!
ادھر آ کہ جشن معتبر ہو
نظر آ کہ ڈھنگ سے عید ہو...!
محسن نقوی