سید عاطف علی
لائبریرین
گزشتہ روز چاند رات کو برادرم عرفان علوی صاحب کی پر لطف غزل پڑھی بہت پسند آئی ۔ سو عید کے دن کچھ تحریک ملی اور کچھ فرصت بھی سو ایک غزل ہماری جانب سے بھی اسی زمین میں ۔
لیکن اسے در جواب آں غزل کی جرات نہ سمجھا جائے ۔
لیکن اسے در جواب آں غزل کی جرات نہ سمجھا جائے ۔
آن میں کیا ہے اور آن میں کیا
اس نے میرے کہا یہ کان میں کیا
سسکیوں کی صدا ہے اک، دل میں
کوئی بستا ہے اس مکان میں کیا
اڑ گئیں حسرتیں دھواں بن کے
کچھ بچا بھی ہے نیم جان میں کیا
دل کی دنیا کا کر دیا سودا
بیچنے کو بچا دکان میں کیا
گہہ ترنم ، گہے تبسم ہے
یہ قصیدہ ہے اس کی شان میں کیا
خالی ترکش ہے سامنے ہے غزال
آخری تیر تھا کمان میں کیا
کوئلہ ایک بس سلگتا ہے
اور باقی ہے خاکدان میں کیا
کہہ دے آخر، نہ بڑبڑا اتنا
پھر وہی بات آئی دھیان میں کیا
عید کے دن تو خود گلے لگ جاؤ
ہم کہیں اپنی اب زبان سے کیا ؟
ہاں یا نا، کچھ نہ کہہ سکا عاطف
عشق نے پوچھا امتحان میں کیا!
اس نے میرے کہا یہ کان میں کیا
سسکیوں کی صدا ہے اک، دل میں
کوئی بستا ہے اس مکان میں کیا
اڑ گئیں حسرتیں دھواں بن کے
کچھ بچا بھی ہے نیم جان میں کیا
دل کی دنیا کا کر دیا سودا
بیچنے کو بچا دکان میں کیا
گہہ ترنم ، گہے تبسم ہے
یہ قصیدہ ہے اس کی شان میں کیا
خالی ترکش ہے سامنے ہے غزال
آخری تیر تھا کمان میں کیا
کوئلہ ایک بس سلگتا ہے
اور باقی ہے خاکدان میں کیا
کہہ دے آخر، نہ بڑبڑا اتنا
پھر وہی بات آئی دھیان میں کیا
عید کے دن تو خود گلے لگ جاؤ
ہم کہیں اپنی اب زبان سے کیا ؟
ہاں یا نا، کچھ نہ کہہ سکا عاطف
عشق نے پوچھا امتحان میں کیا!
آخری تدوین: