::::::: عیسی علیہ السلام کا نازل ہونا حق ہے :::::::

::::::: عیسی علیہ السلام کا نازل ہونا حق ہے :::::::
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
و الصلاۃ و السلام علی رسولہ مُحمد الصّادق المصدوق ، الذی شھد لہ ُ رب العالمین انہ ُ لا ینطق عن الھویٰ ، ان ھو الا وحی یوحی، فَلا یرفض قولہ الا مَن تبع الھویٰ ، و لا یرغب عن سُنتہ اِلّا قد یکون مِمَن خرج مَن الملۃ ، و لا حول و لا قوۃ الا باللہ ، نَعوذ بہ مِن کل ضلالۃ و مِن کل مَن ضَلَّ و أضلَّ ،
اور اللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہو اس کے رسول محمد پر جو اللہ کی طرف سے تصدیق یافتہ سچے ہیں ، جن کے بارے میں رب العالمین نے گواہی دی ہے کہ (((( بے شک وہ اپنی مرضی کے مطابق بات نہیں کرتے ، بلکہ ان کی بات تو اللہ کی طرف سے وحی ہے ))))) پس اُن کا قول صرف وہی رد کرتا ہے جو نفسانی خواہشات کا پیروکار ہوتا ہے ، اور(عین ممکن ہے کہ ) ان کی سُنّت مبارکہ رُو گردانی کرنے والا ملت سے خارج ہونے والوں میں سے ہو جائے ، اور تمام تر قوت اور قدرت اللہ کے لیے ہی ہے ، ہم اللہ ہی کی پناہ طلب کرتے ہیں ہر ایک گمراہی سے اور ہر ایسے شخص سے جو خود بھی گمراہ ہو اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے ۔
::::::: عیسی علیہ السلام کا نازل ہونا حق ہے :::::::
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،

::::::: تعارف :::::::​
اللہ کے دین کو اپنے اپنے مزاج اور اپنی عقل کے مطابق سمجھنے والوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اسلامی عقیدے کے اس اہم درس کو بھی نہیں مانتے کہ عیسی علیہ السلام زندہ ہیں اور اللہ کے حکم سے دوبارہ زمین پر نازل ہوں گے اور اللہ کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کا نفاذ فرمائیں گے ،
کچھ ایسی ہی بد عقیدگی کی بنا پر عیسی علیہ السلام کی زندگی اور زمین پر پھر سے آنے کے بنیادی اسلامی عقیدے پر اعتراضات کیے جاتے ہیں ، اس مضمون میں انہی اعتراضات کا علمی دلائل کی روشنی میں جائزہ لیا گیا ہے ۔

:::::: تمہید :::::::
ان شاء اللہ ، میں اپنے اس تھریڈ کے عنوان :::::: عیسیٰ علیہ السلام کا نازل ہونا حق ہے :::::: کے بارے میں کچھ ضروری باتیں پیش کرتا ہوں ، کہ ان کو جانے اور مانے بغیر کسی طور حق تک پہنچنا ممکن نہیں ،
اللہ تبارک و تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی اولاد کی ہدایت کے لیے اور اسے اللہ کی پہچان کروانے کے لیے اسی میں سے اپنے نبی اور رسول علیہم الصلاۃ و السلام چنے ، اور ان نبیوں اور رسولوں علیہم الصلاۃ و السلام کی طرف اپنے آسمانی رسول جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے اپنے پیغامات ، احکامات ، ماضی حال اور مستقبل کے غیب کی خبریں ارسال فرمائیں ، جنہیں وحی کہا جاتا ہے ، اور کبھی اللہ کی طرف سے جبرئیل علیہ السلام کو ذریعہ بنائےبغیر بھی وحی جاری رہی ،
پس صحیح عقیدے والے ہر مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کے نبیوں اور رسولوں علیہم الصلاۃ و السلام نے اپنی اپنی طرف نازل ہونے والی شریعت میں جو بھی احکام بتائے ، خواہ عقائد سے متعلق ہوں یا عِبادات سے ، یا معاملات و عادات سے، سب اللہ کی طرف سے وحی ہیں ،
اور اسی طرح غیب کی خبروں میں سے جو کچھ بتایا وہ بھی بالیقین اللہ کی طرف سے وحی ہیں ،
اور اللہ سُبحانہ و تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قران کریم کو سابقہ تمام کتابوں کی کسوٹی بنایا ، اپنے آخری نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو سابقہ تمام نبیوں سے بڑھ کر افضل و اعلیٰ مُقام اور درجہ عطاء فرمایا اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو دی جانے والی شریعت کو سابقہ تمام شریعتوں کا ناسخ بنایا ،
اور اسی طرح اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے اپنی ذات و صفات ، اپنی مخلوق کی ابتداء تخلیق اور انتہاء ، قیامت تک اور قیامت میں اور قیامت کے بعد ہونے والے واقعات میں سے جتنا چاہا اپنے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو بتایا اور اُس میں سے جتنا چاہا آگے بتانے کی اجازت عطاء فرمائی،
اوراللہ کے رسول صلی محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےاپنے رب کے احکام کے عین مطابق اپنی اُمت کو بتایا ،
اللہ تعالیٰ نے اپنی اختیار کردہ سنت کے مطابق محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو اپنا آخری نبی اور رسول بنایا اور ان کو سابقہ تمام نبیوں اور رسولوں علیہم الصلاۃ و السلام سے ممتاز رکھا ، اس امتیاز میں سے ایک یہ بھی تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف اللہ کے احکامات اور پیغامات کو اللہ کی کتاب قران کریم میں سے ہی وحی نہیں کیا جاتا تھا ، بلکہ اس کے علاوہ بھی وحی کی جاتی تھی ،
اور اس کی سب سے بڑی حکمت یہ نظر آتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ذمہ داریوں میں اللہ تعالی نے یہ بھی مقرر فرمایا تھا کہ (((((بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ::: اور (اے محمد)ہم نے آپ کی طرف ذکر (قران) نازل کیا تا کہ آپ لوگوں کے لیے واضح فرمائیں کہ اُن کی طرف کیا اتارا گیا ہے اور تا کہ وہ غور کریں ))))) سورت النحل / آیت44،
اور مزید تاکید فرمائی کہ (((((وَمَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلاَّ لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُواْ فِيهِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ::: اور(اے محمد ) ہم نے آپ کی طرف یہ کتاب صرف اس لیے اتاری ہے کہ یہ لوگ جِس(چیز ) میں (بھی) اِختلاف کرتے ہیں آپ اِن لوگوں پر(اِس کتاب کے مطابق)وہ (چیز)واضح فرما دیجیے ، اور (ہم نے یہ کتاب)ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت (بنا کر نازل کی ہے) ))))) سورت النحل/آیت64،
::::: اللہ تبارک و تعالیٰ کے ان دو فرامین میں ہمیں بڑی وضاحت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ کی نازل کردہ کتاب قران حکیم میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے کلام مبارک کی وضاحت اور بیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذمہ داری تھی ،
لہذا اللہ کی کتاب قران کریم میں سے ہر ایک بات کو سمجھنے کے لیے، اللہ کے اسی کلام کے بعد سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مبارکہ یعنی اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین اور عمل مبارک کو دیکھا ہی جائے گا ، اور جو کچھ اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات مبارک کے قول اور فعل کے طور پر صحیح ثابت شدہ ہو اسے ماننا ہی پڑے گا،
کہ ان صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحی مبارک ہیں ، نہ کہ کسی کے نفس کی آواز (((((مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىOوَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىO إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى ::: تُم لوگ کے ساتھی (محمد ) نہ تو بھٹکے ہیں اور نہ ہی بہکے ہیں O اور نہ ہی یہ اپنی خواہش سے بات کرتے ہیںO ان کی بات تو یقیناً (اللہ کی طرف سے) کی گئی وحی ہے )))))سُورت النجم /آیت 2تا4،
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اگلے مراسلے میں ،،،،،،،،،،،،،،،،،
 
،،،،،،، گذشتہ سے پیوستہ ،،،،،،،
پس اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین میں اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی مراد جاننے کے لیے ، اور اللہ کی طرف سے دی گئی تمام خبروں کو جاننے کے لیے اللہ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ کو جانے مانے بغیر حق تک پہنچنا نا ممکن ہے ،
صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ کو ترک کر کے قران کریم ، سنت مبارکہ ، عقائد و عبادات ، اور شریعت کا کوئی بھی حکم اور مسئلہ درست پر نہیں سمجھا جا سکتا ،صحیح ثابت شدہ سنّت اللہ کی طرف سے قران فہمی ، اور شریعت کے تمام تر مسائل و احکام میں سے درست او ر نا درست کی پرکھ کی کسوٹی ہے ، اور حجت ہے ،
لغوی قواعد ، منطقی قیاس آرائیاں ، عقلی چہ میگوئیاں ، فلسفیانہ غوطہ بازیاں ، تخیلات کی پروازیں ، سب کی سب قطعا کوئی حجت ، کوئی دلیل نہیں ہیں ، جبکہ تک کہ انہیں اللہ کے کلام سے،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ سے سند قبولیت حاصل نہ ہو، ورنہ تو گمراہی ہی گمراہی ہے
یہ تمہید اسلامی قواعد کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات مبارک سے ظاہر ہونے والے اقوال و افعال کی شرعی حیثیت اور أہمیت کی وضاحت کے لیے ، اور اللہ کی طرف سے مقرر کردی قران فہمی کی حدود کی وضاحت کے لیے تھی ۔
,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,, ,,
سب قارئین کرام سے خصوصی گذارش ہے کہ میرے مضامین اور مراسلات میں عربی اور اُردُو عبارات کو ٹھیک طور پر اعراب کے ساتھ دیکھنے کے لیے درج ذیل فونٹس نصب کر لیجیے ، فورمز میں ان فونٹس کی تبدیلی کرنے میں بھی کافی وقت لگ جاتا ہے ، آپ صاحبان اگر درج ذیل فونٹس اپنی اپنی مشینز پر انسٹال کرلیں تو یہ آپ صاحبان کی طرف سے میرے وقت کی بچت کے لیے ایک مدد ہو گی ، جزاک اللہ خیرا، و السلام علیکم۔​
Al qalam quran
Al Qalam Quran.ttf - 4shared.com - online file sharing and storage - download
al_Mushaf
Al_Mushaf.ttf - 4shared.com - online file sharing and storage - download
alvi nastaleeq
Alvi Nastaleeq.ttf - 4shared.com - online file sharing and storage - download
و السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
میری بات کا ابھی آغاز ہی ہوا ہے ، براہ مہربانی کوٕئی سوال کوٕئی اعتراض ارسال کرنے سے پہلے میری بات کی تکمیل تک انتظار کیا جإئے ، پیشگی شکریہ ۔
user_online.gif
 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
تمہید کے بعد ، اِن شاء اللہ ہمارے اہل سنت و الجماعت کے چاروں بڑے اور دیگر مذاھب و مسالک کے متفقہ عقیدے :::::: عیسیٰ علیہ السلام کا نازل ہونا حق ہے :::::: کے بارے میں بالترتیب ،
اللہ کی کتاب کریم ،
اور اللہ کے رسول پاک صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ قولی سُنّت مبارکہ یعنی حدیث شریف ،
اور حسب ء ضرورت صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے صحیح ثابت شدہ آثار ،
اور حسب ء ضرورت اُمت کے عظیم القدر اور عالی مرتبہ اماموں رحمہم اللہ کے اقوال پیش کروں گا ،
اور اِن شاء اللہ ، اسی ترتیب کے مطابق ہر ایک حصے میں ، ہمارے دلائل کے بارے میں کیے گئے اعتراضات کے ذکر کے بعد ان کے جوابات بھی پیش کروں گا ،
عین ممکن ہے کہ بات کافی لمبی ہو جائے ، اور شاید بہت سے قارئین کے لیے کافی خشک ہو ، لیکن میری سب ہی قارئین کرام سے گذارش ہے کہ خواہ تھوڑا تھوڑا کر کے ہی سہی ، میری تمام تر گذارشات کا بہت اطمینان اور غور و فکر کے ساتھ مطالعہ کیجیے گا ، اسے فورمز کا تھریڈ سمجھ کر نہیں ، بلکہ اسلامی عقیدے کے اہم موضوع کی تردید کی تحقیق پر مبنی ایک تحقیقی کتاب ، ایک ریسرچ رپورٹ سمجھ کراس کا مطالعہ کیجیے ،
اورمطالعہ سے پہلے اللہ تبار ک و تعالیٰ سے یہ دُعاضرور کیجیے گا اللہ تعالیٰ ہمارے عقیدے کے اس بنیادی مسئلے میں جو حق ہے وہ ہم سب پر ، ان معلومات کے ہر قاری و سامع پر بالکل واضح کر دے ، اور اسے ماننے کی توفیق دے دے ، ، اور جو باطل ہے وہ بھی ہمیں باطل کی حیثیت میں دکھا دے اور اس کی پہچان کروا کر اس سے بچائے رکھے ، آمین ، ثم آمین ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
میری بات ابھی مکمل نہیں ہوٕئی ۔
 
::::::: عیسی علیہ السلام کا نازل ہونا حق ہے ::::::: تیسرا حصہ ::: کتاب اللہ سے دلائل ، پہلا حصہ :::::::
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
عربی عبارات کو درست طور پر دیکھنے اور پڑھنے کے لیے درج ذیل فونٹس انسٹال کر لیجیے
Al qalam quran
Al Qalam Quran.ttf - 4shared.com - online file sharing and storage - download

al_Mushaf

Al_Mushaf.ttf - 4shared.com - online file sharing and storage - download

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
گذشتہ سے پیوستہ ،
::::::: کتاب اللہ قران کریم سے دلائل :::::::
((((( وَ مَكَرُوا وَ مَكَرَ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَOإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَ جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ ::: اور ان لوگوں (بنی اِسرائیل والوں)نے دھوکہ دہی کی اور اللہ نے (اپنی )چال چلی اور اللہ سب سے خیر والی چال چلنے والا ہے O جب اللہ نے کہا اے عیسیٰ میں تمہیں مکمل طور پر(پورے کا پورارُوح و جسم سمیت) اپنی طرف بُلند کر لوں گا اور تمہیں کفر کرنے والوں سے نجات دلاوا دوں گا ، اور تمہاری تابع فرمانی کرنے والوں کو کفر کرنے والے پر قیامت کے دن تک فوقیت دوں گا ، پھر تُم سب کو میری ہی طرف پلٹنا ہے ، تو پھر میں تُم لوگوں کے درمیان جو اختلاف ہیں ان کے بارے میں فیصلہ کروں گا))))) سورت آل عمران /آیت 54 اور55،
:::::: ان دو آیات مبارکہ کی تفسیر :::::
ان دو آیات میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف دھوکہ دہی والے منصوبے بنا کر انہیں قتل کرنے کی چال چلنے والوں کا ذکر فرمایا ، اور پھر یہ خبر دی کہ اللہ اپنی چال چلتا ہے جو یقینا ً خیر والی ہوتی ہے اور اللہ سب چالیں چلنے والوں سے بڑھ کر بہترین لیکن خیر والی چال چلتا ہے ،
دوسری آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی اس چال کا ذکر فرمایا کہ وہ چال یہ تھی کہ ، اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کو ان کے جسم و روح سمیت اپنی طرف بلند کر لے گا ، اور قتل کا منصوبہ بنانے والے یہی سمجھتے رہیں گے کہ عیسیٰ وہیں ہیں ، اور اس طرح اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کو ان بد کاروں کے کفر اور دھوکہ دہیوں اور دُشمنی سے نجات دے گا ،
اور پھر ایک وقت ایسا آئے گا جب اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کے تابع فرمانوں کو ، انکار کرنے والوں پر فوقیت دے دے گا ، ایسی فوقیت جو قیامت تک برقرار رہے گی ،
::::::: اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ عیسیٰ علیہ السلام کے اللہ کی طرف اٹھائے جانے کے وقت جو لوگ ان علیہ السلام کی تابع فرمانی کرنے والے تھے وہ کافروں پر کوئی مادی یا معاشرتی فوقیت حاصل نہ کر سکے تھے ، لہذا یہ یقینی ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی تابع فرمانی کرنے والے ، ایسے لوگ جنہیں اللہ نے کفر کرنے والوں پر قیامت تک فوقیت دینے کا وعدہ فرمایا ہے ، ابھی آنے والے ہیں ،
اور یہ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے تابع فرمان صرف اسی صورت میں مانے جا سکتے ہیں جب وہ عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات اور احکامات کی پیروی کریں گے ، اِیمان والے ہونے کے سبب اللہ تعالیٰ انہیں کافروں پر ایمانی فوقیت بھی عطاء فرمائے گا ، اور مادی اور معاشرتی فوقیت بھی ،
اگر کوئی یہ خیال کرے کہ یہاں ایمانی فوقیت کا ذکر ہے ، نہ کہ مادی ، یا معاشرتی فوقیت کا ، تو ،
اسے یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ جو لوگ عیسیٰ علیہ السلام کی زمین پر موجودگی تک ، اللہ کی توفیق سے عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت قبول کر کے اُن پر اِیمان لاچکے تھے ، اور عیسیٰ علیہ السلام کی تابع فرمانی کرتے تھے ، وہ لوگ کافروں پر اِیمانی فوقیت کے حامل تو ہو ہی چکے تھے ، لہذا اللہ عزّ و جلّ نے یہاں ان لوگوں کا ذکر فرمایا ہے بلکہ یقیناً ان کا ذکر فرمایا ہے جو عیسیٰ علیہ السلام کے اللہ کی طرف اُٹھائے جانے تک اُن پر اِیمان نہیں لائے ، اور نہ ہی ان کے تابع فرمان ہوئے ، اور اُن علیہ السلام کے نزول کے بعداُن کی تابع فرمانی اختیار کریں گے ،
اور اگر کوئی یہ سوچے کہ یہ خوش خبری تو عیسائیوں کے لیے ہو گئی ، کیونکہ وہ بھی عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہیں ، اور ان کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں ،
تو اس کا جواب یہ ہے کہ ، جی نہیں ، کیونکہ عیسیٰ ٰ علیہ السلام کے اللہ کی طرف اٹھائے جانے کے کچھ ہی عرصہ بعد عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات مفقود ہونا شروع ہو گئیں اور اسلام کے ظہور سے پہلے تک تقریبا ساری ہی تبدیل کر دی جا چکی تھیں ،
پس عیسیٰ علیہ السلام کے اللہ کی طرف اُٹھائے جانے کے بعد نہ تو کسی عیسائی کا اُن پر اِیمان درست رہا کہ وہ انہیں معاذ اللہ ، اللہ کا بیٹا ماننے لگے اور اب تک مانتے ہیں ،
اور نہ ہی عیسیٰ علیہ السلام کی وہ تعلیمات باقی رہیں جو اللہ کی طرف سے لوگوں تک پہنچائی گئی تھیں ، پس عیسائی نام کے عیسائی ہی ہو رہے اور ہیں ، نہ تو وہ عیسیٰ علیہ السلام پر اِیمان والے ہیں ، اور نہ ہی ان کے تابع فرمان ،
لہذا اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے اس بیان مبارک میں ، عیسیٰ علیہ السلام کی اتباع کرنے والوں کے لیے تا قیامت مستقل فوقیت کے بارے میں دی گئی خبر کی تکمیل کے لیے لازم ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام پھر سے تشریف لائیں اور انسانوں کو تعلیم و احکام مرحمت فرمائیں ، تو جو کوئی ان کی بات مانے گا ، ان کی تابع فرمانی کرے گا اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق انہیں ہر ایک منکر پر قیامت تک کے لیے فوقیت دے گا ،
اس خبر میں ایک اور بات یہ بھی ظاہر ہوتی ہے کہ جو عیسیٰ علیہ السلام کی اتباع کریں گے ان کا سلسلہ بلا انقطاع قیامت تک چکے گا ، اور انہیں کافروں پر مستقل فوقیت رہے گی ،
((( جی خیال رہے کہ یہ ایک الگ کیفیت ہے کہ قیامت کے بالکل قریبی لمحات میں اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو موت دے دے گا ، کیونکہ قیامت صرف شریر ترین لوگوں پر قائم کی جائے گی )))
پھر ، بشمول عیسیٰ علیہ السلام جب جب جس جس کی موت کا مقرر وقت آتا رہے گا وہ مرتا جائے گا ، اور سب کے سب قیامت والے دن اپنے اللہ کی طرف پلٹیں گے ، اور جن جن باتوں اور معاملات میں اختلاف کرتے تھے اللہ ان کا فیصلہ کرے گا۔
اسی فوقیت میں سے یہ بھی ہو گا کہ عیسیٰ علیہ السلام کسی اہل کتاب کے لیے ، اسلام کے علاوہ کسی بھی اور دِین یا مذھب کے ماننے والے کے لیے اُس کے دِین پر قائم رہنے کی گنجائش برقرار نہ رکھیں گے ، لہذا جزیہ قبول نہ کریں گے ،
کافر کے لیے دو ہی صورتیں باقی رکھیں گے ،(1) یا اسلام قبول کرے گا، یا (2) مسلمانوں کے ہاتھوں میدان جِہاد میں قتل ہو گا (تفسیر ابن کثیر ، دیگر کتب التفسیر)،
:::::: یہاں اس بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ عیسیٰ علیہ السلام نازل ہونے کے بعد کوئی نئی تعلیمات یا احکامات لے کر نہیں آئیں گے ، بلکہ ہمارے نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی لائی ہوئی اللہ کی کتاب اور اللہ کی شریعت کے مطابق ہی سب کچھ کروائیں گے ،
جزیہ موقوف کرنا بمعنی اسے قبول نہ کرنا ہے اور ایسا کرنا شریعتء محمدیہ علی صاحبھا افضل الصلاۃ و السلام کے خلاف نہیں ہوگا ، اور نہ ہی کوئی نئی بات ہو گی ، بلکہ شریعت محمدیہ علی صاحبھا افضل الصلاۃ و السلام کے عین مطابق ہو گا ، کیونکہ شریعت بنانے والےاللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے اپنے رسول کریم محمد صاحبء شریعت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے خود ہی اس کی خبرکروائی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام جزیہ قبول نہ کیا کریں گے ، لہذا یہ خبر ، اللہ تبارک و تعالیٰ کے کسی فرمان اور اسلامی شریعت کے کسی حکم یا قانون کے خلاف نہیں ،
بلکہ اس خبر میں پیشگی منظوری ظاہر کی گئی ہے ، و للہ الحمد ،
::: وضاحت ::: مذکورہ بالا تفسیر کسی کے خود ساختہ خیالات پر منحصر نہیں ، بلکہ قران کریم کی دیگر آیات ، صحیح ثابت شدہ احادیث ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، تابعین ، تبع تابعین اور امت کے اماموں کے اقوال کے مطابق بیان کی گئی ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
ان شاء اللہ اگلء حصے میں مزید قرانی دلائل پیش کروں گا ، اور اس کے بعد اعتراضات اور ان کے دلائل اور ان کے لیے جوابات ، باذن اللہ ، و السلام علیکم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
میری بات ابھی جاری ہے ۔
 
Top