شمشاد
لائبریرین
علی پور کا ایلی
پرویز
رابعہ - سیدہ اور انور اجمل کی بہنیں تھیں۔ رابعہ کی شادی نوعمری میں اس کے خالہ زاد بھائی پرویز سے ہو چکی تھی جو میڈیکل کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد فوج میں بھرتی ہو گیا تھا اور جس نے دورانِ تعلیم ہی میں حلقہ اسلام کو چھوڑ کر عیسائیت اختیار کر لی تھی۔ کہا جاتا تھا کہ مذہب کی اس تبدیلی کا سبب کسی نوجوان لڑکی کا حسن و جمال تھا لیکن اس کے متعلق وضاحت سے کوئی بھی نہ جانتا تھا۔ کیونکہ پرویز کی زندگی ایک پراسرار معمہ بن کر رہ گئی تھی۔ وہ ماں باپ کا بے حد لاڈلا تھا۔ اسی وجہ سے باپ نے اسے اعلٰی تعلیم دلوائی تھی حالانکہ وہ صاحبِ حیثیت شخص نہ تھے۔ پھر بھی انہوں نے بیٹے کی ہر بات پوری کی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ پرویز متوسط درجے کے والدین کا بیٹا ہونے کے باوجود فیشن ایبل حلقوں میں رہنے کا عادی ہو گیا اور ہمیشہ کے لیے اپنے عزیزوں کی سی عامیانہ زندگی بسر کرنے سے نجات حاصل کرنے کی غرض سے اس نے عیسائیت اختیار کر لی تھی۔
پرویز کی تبدیلی مذہب گھر والوں کے لیے ایک گہرا صدمہ تھی۔ اس کی والدہ نے اس خبر کو سنا تو یوں خاموش ہو گئی جیسے کسی اتھاہ سمندر میں ڈوب گئی ہو۔ والد نے سنا تو وہ اضطراب سے ادھر ادھر ٹہلنے لگے۔ “ نہیں نہیں۔“ وہ چلائے، “ ایسا نہیں ہو سکتا۔ نہیں پرویز ایسا لڑکا نہیں۔“ اور پھر جب انہیں یقین ہو گیا کہ خبر درست ہے تو انہوں نے پہلو بدلا “ عیسائی ہو گیا تو کیا ہوا۔“ انہوں نے ہنسنے کی ناکام کوشش کی۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ بہرحال وہ پرویز ہے وہ ہمارا بیٹا ہے۔ نہیں نہیں اس کا کیا ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔“ مگر ان کے انداز سے واضح تھا کہ فرق پڑتا ہے۔ ایسا فرق جو ان کے لیے قابل برداشت نہیں۔
پرویز کے متعلق یہ خبر اس کی بیوی رابعہ نے سنی تو اس نے لپک کر ننھے ساحر کر اپنی گود میں اٹھا لیا اور حیرانی سے چاروں طرف دیکھنے لگی جیسے کھو گئی ہو۔ رابعہ نوجوان تھی حسین تھی اور زندگی کی راہ میں ابھی نوآموز تھی۔
رابعہ کو دیکھ کر ایلی کو پرویز پر غصہ آنا شروع ہو جاتا اور وہ سوچنے لگتا کہ ضرور پرویز کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ پیش آیا ہو گا جیسا سارہ کے ساتھ آیا تھا ورنہ عیسائیت کا سہارا کیوں لیتا۔
پرویز
رابعہ - سیدہ اور انور اجمل کی بہنیں تھیں۔ رابعہ کی شادی نوعمری میں اس کے خالہ زاد بھائی پرویز سے ہو چکی تھی جو میڈیکل کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد فوج میں بھرتی ہو گیا تھا اور جس نے دورانِ تعلیم ہی میں حلقہ اسلام کو چھوڑ کر عیسائیت اختیار کر لی تھی۔ کہا جاتا تھا کہ مذہب کی اس تبدیلی کا سبب کسی نوجوان لڑکی کا حسن و جمال تھا لیکن اس کے متعلق وضاحت سے کوئی بھی نہ جانتا تھا۔ کیونکہ پرویز کی زندگی ایک پراسرار معمہ بن کر رہ گئی تھی۔ وہ ماں باپ کا بے حد لاڈلا تھا۔ اسی وجہ سے باپ نے اسے اعلٰی تعلیم دلوائی تھی حالانکہ وہ صاحبِ حیثیت شخص نہ تھے۔ پھر بھی انہوں نے بیٹے کی ہر بات پوری کی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ پرویز متوسط درجے کے والدین کا بیٹا ہونے کے باوجود فیشن ایبل حلقوں میں رہنے کا عادی ہو گیا اور ہمیشہ کے لیے اپنے عزیزوں کی سی عامیانہ زندگی بسر کرنے سے نجات حاصل کرنے کی غرض سے اس نے عیسائیت اختیار کر لی تھی۔
پرویز کی تبدیلی مذہب گھر والوں کے لیے ایک گہرا صدمہ تھی۔ اس کی والدہ نے اس خبر کو سنا تو یوں خاموش ہو گئی جیسے کسی اتھاہ سمندر میں ڈوب گئی ہو۔ والد نے سنا تو وہ اضطراب سے ادھر ادھر ٹہلنے لگے۔ “ نہیں نہیں۔“ وہ چلائے، “ ایسا نہیں ہو سکتا۔ نہیں پرویز ایسا لڑکا نہیں۔“ اور پھر جب انہیں یقین ہو گیا کہ خبر درست ہے تو انہوں نے پہلو بدلا “ عیسائی ہو گیا تو کیا ہوا۔“ انہوں نے ہنسنے کی ناکام کوشش کی۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ بہرحال وہ پرویز ہے وہ ہمارا بیٹا ہے۔ نہیں نہیں اس کا کیا ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔“ مگر ان کے انداز سے واضح تھا کہ فرق پڑتا ہے۔ ایسا فرق جو ان کے لیے قابل برداشت نہیں۔
پرویز کے متعلق یہ خبر اس کی بیوی رابعہ نے سنی تو اس نے لپک کر ننھے ساحر کر اپنی گود میں اٹھا لیا اور حیرانی سے چاروں طرف دیکھنے لگی جیسے کھو گئی ہو۔ رابعہ نوجوان تھی حسین تھی اور زندگی کی راہ میں ابھی نوآموز تھی۔
رابعہ کو دیکھ کر ایلی کو پرویز پر غصہ آنا شروع ہو جاتا اور وہ سوچنے لگتا کہ ضرور پرویز کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ پیش آیا ہو گا جیسا سارہ کے ساتھ آیا تھا ورنہ عیسائیت کا سہارا کیوں لیتا۔