راشد اشرف
محفلین
شہنشاہ سخن مرزا غالب کے فارسی کلام پر ناقدانہ نظر
سید عارف شاہ گیلانی
مدینہ پبلیشنگ کمپنی، کراچی، 1970
اس مقالے کے عوض پی ایچ ڈی کی ڈگری 1947 میں بمبئی یونیورسٹی سے حاصل کی گئی تھی، مصنف بعد ازاں کراچی چلے آئے تھے جہاں سے 1970 میں اس کے زیر نظر اردو ترجمے کی اشاعت ہوئی۔ مقدمے میں مصنف نے اپنی زندگی کا دلچسپ احوال بھی لکھا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ مقالہ "خشک" نہیں ہے۔ اسلوب اپنی جانب توجہ مبذول کرانی کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ابتدائی پونے دو سو صفحات میں غالب کے حالات زندگی اس قدر دلچسپ پیرائے میں بیان کیے گئے ہیں کہ قاری ایک ہی نشست میں پڑھتا چلا جائے۔
مذکورہ مقالہ شہر کراچی میں عنقا ہے۔ دبستانوں کا دبستان (تین جلدیں) کے مولف جناب احمد حسین صدیقی نے چند روز قبل راقم الحروف کو عنایت کیا تو خیال آیا کہ کیوں نہ اسے محققین غالب کے لیے پیش کیا جائے۔ 400 سے زائد صفحات کو اسکین کرنا ایک دشوار کام تھا لیکن اگر یہ کسی ایک کے بھی کام آسکا تو یہ محنت وصول سجھی جائے گی۔ صدیقی صاحب مصنف کی تلاش میں سرگرداں رہے، خیال تھا کہ ایک انتہائی غریب گھرانے مین پیدا ہونے والے شخص کے احوال کو دبستانوں کا دبستان کی تیسری جلد میں محفوظ کردیا جائے لیکن صد حیف کہ مصنف اس وقت تک انتقال کرچکے تھے اور ان کی اولاد نے صدیقی صاحب کی اس کوشش کو درخور اعتنا نہ جانا اور اپنے والد سے متعلق معلومات کی فراہمی میں سرے سے دلچسپی نہ لی۔
کیسے کیسے لوگ اس شہر کی مٹی مں مدفون ہیں اور کیسے کیسے عالمانہ کام وہ کرگئے ہیں، اس بات کا اندازہ اس مقالے کے عمومی اور کتاب کی ابتدا میں بقلم خود لکھے گئے صنف کے حالات زندگی کو پڑھ کر ہوتا ہے۔
یہ دلچسپ و نایاب کتاب پیش خدمت ہے:
کل صفحات: 429
سید عارف شاہ گیلانی
مدینہ پبلیشنگ کمپنی، کراچی، 1970
اس مقالے کے عوض پی ایچ ڈی کی ڈگری 1947 میں بمبئی یونیورسٹی سے حاصل کی گئی تھی، مصنف بعد ازاں کراچی چلے آئے تھے جہاں سے 1970 میں اس کے زیر نظر اردو ترجمے کی اشاعت ہوئی۔ مقدمے میں مصنف نے اپنی زندگی کا دلچسپ احوال بھی لکھا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ مقالہ "خشک" نہیں ہے۔ اسلوب اپنی جانب توجہ مبذول کرانی کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ابتدائی پونے دو سو صفحات میں غالب کے حالات زندگی اس قدر دلچسپ پیرائے میں بیان کیے گئے ہیں کہ قاری ایک ہی نشست میں پڑھتا چلا جائے۔
مذکورہ مقالہ شہر کراچی میں عنقا ہے۔ دبستانوں کا دبستان (تین جلدیں) کے مولف جناب احمد حسین صدیقی نے چند روز قبل راقم الحروف کو عنایت کیا تو خیال آیا کہ کیوں نہ اسے محققین غالب کے لیے پیش کیا جائے۔ 400 سے زائد صفحات کو اسکین کرنا ایک دشوار کام تھا لیکن اگر یہ کسی ایک کے بھی کام آسکا تو یہ محنت وصول سجھی جائے گی۔ صدیقی صاحب مصنف کی تلاش میں سرگرداں رہے، خیال تھا کہ ایک انتہائی غریب گھرانے مین پیدا ہونے والے شخص کے احوال کو دبستانوں کا دبستان کی تیسری جلد میں محفوظ کردیا جائے لیکن صد حیف کہ مصنف اس وقت تک انتقال کرچکے تھے اور ان کی اولاد نے صدیقی صاحب کی اس کوشش کو درخور اعتنا نہ جانا اور اپنے والد سے متعلق معلومات کی فراہمی میں سرے سے دلچسپی نہ لی۔
کیسے کیسے لوگ اس شہر کی مٹی مں مدفون ہیں اور کیسے کیسے عالمانہ کام وہ کرگئے ہیں، اس بات کا اندازہ اس مقالے کے عمومی اور کتاب کی ابتدا میں بقلم خود لکھے گئے صنف کے حالات زندگی کو پڑھ کر ہوتا ہے۔
یہ دلچسپ و نایاب کتاب پیش خدمت ہے:
کل صفحات: 429