پاکستانی
محفلین
اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے مرزا غالب دہلی جانے کے لئے ویزے کے سلسلے میں:
پولیس: تم کون ہو؟ رمضان کے مہینے میں چنے چبارہے ہو؟
غالب: افطارِ صوم کی جسے کچھ دستگاہ ہو
اس شخص کو ضرور ہے روزہ رکھا کرے
جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہیں
روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے
پولیس: شاعر ہو؟
غالب: ملنے جلنے والے یہی کہتے ہیں
پولیس: رمضان میں چنے کھانے کے جرم میں تمہیں اندر بھی کرسکتا ہوں
غالب: آپکی عنایت ہوگی اگر یہ کام آپ جلد کردیں۔ شاید اندر کا ماحول سازگار ہو
پولیس: اسلام آباد میں کسی کو جانتے ہو؟
غالب: کراچی میں ضرور کسی کو جانتا ہوں
پولیس: کس کو؟
غالب: اردو کو
پولیس: یہ کون ہے؟
غالب: حق تعالٰی اس کو جیتا رکھے۔ جو تم بول رہے ہو ...
پولیس: انڈیا کا ویزہ چاہیئے تجھے؟
غالب: آہستہ بات کریں۔ شہر سے زیادہ گرمی کی شدت آپ میں محسوس کررہا ہوں
پولیس: انڈیا کیوں جانا چاہتے ہو؟
غالب: جاڑے میں انگیٹھی کے سامنے بیٹھنا چاہتا ہوں
پولیس: چائے پلاؤگے؟
غالب: اس خواہش کے لئے میرے بھائی ایک بے تکلفانہ ربط چاہیے جو ابھی تک ہم دونوں میں پیدا نہیں ہوا ہے
پولیس: جو سوال تم سے کیا جائے صرف اسکا جواب دو۔ چائے پلاؤگے؟
غالب: میرے چنے چبانے پر تو آپ مجھے حوالات بھیج رہے تھے، خود چائے کی فرمائش کررہے ہیں
پولیس: میں سفر میں ہوں۔ کل کہیں اور پوسٹنگ ہوجائیگی۔ سفر میں روزہ فرض نہیں ہے۔ سیدھے کھڑے رہو
غالب: ناتوانی زور پر ہے۔ بڑھاپے نے نکما کردیا ہے
پولیس: اوپر سے انڈیا جانا چاہتے ہو!
غالب: اوپر سے نہیں بھائی۔ رکاب میں پاؤں ہے، باگ پر ہاتھ ہے، بس ویزہ موجود نہیں
پولیس: چائے پلاؤگے؟
غالب: بھائی تم پی آؤ جب تک میں یہیں کھڑا رہوں گا
پولیس: شاید میری خواہش کی حقیقت تم پر ظاہر نہیں ہوئی
غالب: کہاں کے ہو؟
پولیس: میں پنجاب پولیس کا ہوں
غالب: رہنے والے کہاں کے ہو؟
پولیس: اب تو پاکستانی ہوں۔ تم کہاں کے ہو؟
غالب: دلی کا ہوں
پولیس: ابے دلی کا ہے اور دلی کا ویزا چاہئے؟
غالب: تمہاری گفتگو میں اچانک بدتہذیبی کے اثرات جھلکنے لگے ہیں، اس کی وجہ تو بتاؤ؟
پولیس: چائے پلاؤگے؟
غالب: بھائی پی لو۔ رمضان میں چائے کہاں ملے گی؟
پولیس: وہ سامنے رمضانی کا ٹھیلا ہے جس پر چادر پڑی ہوئی ہے۔ رمضانی ٹھیلے کے نیچے بیٹھ کر چائے بناتا ہے۔ چھ روپے کا ابک کپ دیتا ہے
غالب: غدر کے زمانے میں بھی چائے ایک آنے کی ملتی تھی
پولیس: آجکل بڑا غدر چل رہا ہے اس لئے قیمت بڑھ گئی ہے۔ چھوٹے غدر میں انگریز پریشان کررہے تھے بڑے غدر میں امریکن پریشان کررہے ہیں
غالب: تم کیسے انسان ہو! نہ تمہاری شخصیت میں گہرائی کا احساس ہے، نہ مجھے تم سے کوئی رفعت ملی، اور تمہارے طرز گفتگو سے میری جو کیفیت ہورہی ہے اْس میں رچاؤ کا نام ونشان تک نہیں ہے
پولیس: چھ روپے نکال میں اکیلا پی لوں گا
غالب: اگر میں فارسی میں بات کرتا تو تم کیا کرتے؟
پولیس: میں تمہیں پنجابی میں جواب دیتا
غالب: بھائی پنجاب نے تو اردو کی بہت خدمت کی ہے
پولیس: شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں کا ہر شاعر بولتا پنجابی ہے اور غزل اردو میں لکھتا ہے
غالب: اس میں کیا برائی؟
پولیس: تم مجھے باتوں میں مت لگاؤ۔ چائے پینے کو تڑپ رہا ہوں
غالب: اللہ تمہاری خواہش میں اور برکت دے۔ کرے جاؤ اظہار
پولیس: تو کس قماش کا انسان ہے؟
غالب: یہی تو فرق ہے ہم دونوں میں۔ میں آپ سے عرض کرتا ہوں اور آپ تو تڑاخ پر اتر آتے ہیں
پولیس: کہاں رہتے ہو؟
غالب: اب مجھے اس جگہ سے تعلق ویزے کے دم تک ہے
پولیس: چائے کے لئے اتنی خوشنودی میں نے پہلے کبھی نہیں کی
غالب: اگر کبھی اپنی سرگذشت لکھو تو چائے کی خواہش والا قصہ ضرور لکھنا۔ مجھے یوں لگتا ہے چائے کی خواہش کرنا تمہارا شغل ہے۔ اور اس سے تمہارا اچھا خاصہ وقت کٹ جاتا ہے
پولیس: چلو ہم دونوں دوست بن جاتے ہیں
غالب: چلو دوست بن گئے
پولیس: ابے چائے پلائے گا؟
غالب: اس طرح کی خواہش صرف باہم دوست کر سکتے ہیں اور وہ بھی بہت زیادہ مہرومحبت آپس میں ہونا چاہئے
پولیس: میں آخری مرتبہ کہہ رہا ہوں۔ چائے پلاؤگے؟
غالب: مجھے اپنے ایمان کی قسم جس طرح میں نے اپنی نظم ونثر کی داد نہیں پائی۔ آپ ہی کہا۔ آپ ہی سمجھا اسی طرح تم بھی کہے جاؤ اور خود سمجھے جاؤ، لعنت بھیجو دوسرں پر اگر انکو تمہاری خواہش سمجھ میں نہیں آتی نہ آئے دفتر کا دروازہ کھل گیا۔ میں جارہا ہوں
پولیس: تم ہو کون۔ بس اتنا بتادو
غالب: تم سے نجات کا طالب ۔ غالب۔
تحریر: انور مقصود
بشکریہ ۔ بی بی سی اردو
پولیس: تم کون ہو؟ رمضان کے مہینے میں چنے چبارہے ہو؟
غالب: افطارِ صوم کی جسے کچھ دستگاہ ہو
اس شخص کو ضرور ہے روزہ رکھا کرے
جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہیں
روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے
پولیس: شاعر ہو؟
غالب: ملنے جلنے والے یہی کہتے ہیں
پولیس: رمضان میں چنے کھانے کے جرم میں تمہیں اندر بھی کرسکتا ہوں
غالب: آپکی عنایت ہوگی اگر یہ کام آپ جلد کردیں۔ شاید اندر کا ماحول سازگار ہو
پولیس: اسلام آباد میں کسی کو جانتے ہو؟
غالب: کراچی میں ضرور کسی کو جانتا ہوں
پولیس: کس کو؟
غالب: اردو کو
پولیس: یہ کون ہے؟
غالب: حق تعالٰی اس کو جیتا رکھے۔ جو تم بول رہے ہو ...
پولیس: انڈیا کا ویزہ چاہیئے تجھے؟
غالب: آہستہ بات کریں۔ شہر سے زیادہ گرمی کی شدت آپ میں محسوس کررہا ہوں
پولیس: انڈیا کیوں جانا چاہتے ہو؟
غالب: جاڑے میں انگیٹھی کے سامنے بیٹھنا چاہتا ہوں
پولیس: چائے پلاؤگے؟
غالب: اس خواہش کے لئے میرے بھائی ایک بے تکلفانہ ربط چاہیے جو ابھی تک ہم دونوں میں پیدا نہیں ہوا ہے
پولیس: جو سوال تم سے کیا جائے صرف اسکا جواب دو۔ چائے پلاؤگے؟
غالب: میرے چنے چبانے پر تو آپ مجھے حوالات بھیج رہے تھے، خود چائے کی فرمائش کررہے ہیں
پولیس: میں سفر میں ہوں۔ کل کہیں اور پوسٹنگ ہوجائیگی۔ سفر میں روزہ فرض نہیں ہے۔ سیدھے کھڑے رہو
غالب: ناتوانی زور پر ہے۔ بڑھاپے نے نکما کردیا ہے
پولیس: اوپر سے انڈیا جانا چاہتے ہو!
غالب: اوپر سے نہیں بھائی۔ رکاب میں پاؤں ہے، باگ پر ہاتھ ہے، بس ویزہ موجود نہیں
پولیس: چائے پلاؤگے؟
غالب: بھائی تم پی آؤ جب تک میں یہیں کھڑا رہوں گا
پولیس: شاید میری خواہش کی حقیقت تم پر ظاہر نہیں ہوئی
غالب: کہاں کے ہو؟
پولیس: میں پنجاب پولیس کا ہوں
غالب: رہنے والے کہاں کے ہو؟
پولیس: اب تو پاکستانی ہوں۔ تم کہاں کے ہو؟
غالب: دلی کا ہوں
پولیس: ابے دلی کا ہے اور دلی کا ویزا چاہئے؟
غالب: تمہاری گفتگو میں اچانک بدتہذیبی کے اثرات جھلکنے لگے ہیں، اس کی وجہ تو بتاؤ؟
پولیس: چائے پلاؤگے؟
غالب: بھائی پی لو۔ رمضان میں چائے کہاں ملے گی؟
پولیس: وہ سامنے رمضانی کا ٹھیلا ہے جس پر چادر پڑی ہوئی ہے۔ رمضانی ٹھیلے کے نیچے بیٹھ کر چائے بناتا ہے۔ چھ روپے کا ابک کپ دیتا ہے
غالب: غدر کے زمانے میں بھی چائے ایک آنے کی ملتی تھی
پولیس: آجکل بڑا غدر چل رہا ہے اس لئے قیمت بڑھ گئی ہے۔ چھوٹے غدر میں انگریز پریشان کررہے تھے بڑے غدر میں امریکن پریشان کررہے ہیں
غالب: تم کیسے انسان ہو! نہ تمہاری شخصیت میں گہرائی کا احساس ہے، نہ مجھے تم سے کوئی رفعت ملی، اور تمہارے طرز گفتگو سے میری جو کیفیت ہورہی ہے اْس میں رچاؤ کا نام ونشان تک نہیں ہے
پولیس: چھ روپے نکال میں اکیلا پی لوں گا
غالب: اگر میں فارسی میں بات کرتا تو تم کیا کرتے؟
پولیس: میں تمہیں پنجابی میں جواب دیتا
غالب: بھائی پنجاب نے تو اردو کی بہت خدمت کی ہے
پولیس: شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں کا ہر شاعر بولتا پنجابی ہے اور غزل اردو میں لکھتا ہے
غالب: اس میں کیا برائی؟
پولیس: تم مجھے باتوں میں مت لگاؤ۔ چائے پینے کو تڑپ رہا ہوں
غالب: اللہ تمہاری خواہش میں اور برکت دے۔ کرے جاؤ اظہار
پولیس: تو کس قماش کا انسان ہے؟
غالب: یہی تو فرق ہے ہم دونوں میں۔ میں آپ سے عرض کرتا ہوں اور آپ تو تڑاخ پر اتر آتے ہیں
پولیس: کہاں رہتے ہو؟
غالب: اب مجھے اس جگہ سے تعلق ویزے کے دم تک ہے
پولیس: چائے کے لئے اتنی خوشنودی میں نے پہلے کبھی نہیں کی
غالب: اگر کبھی اپنی سرگذشت لکھو تو چائے کی خواہش والا قصہ ضرور لکھنا۔ مجھے یوں لگتا ہے چائے کی خواہش کرنا تمہارا شغل ہے۔ اور اس سے تمہارا اچھا خاصہ وقت کٹ جاتا ہے
پولیس: چلو ہم دونوں دوست بن جاتے ہیں
غالب: چلو دوست بن گئے
پولیس: ابے چائے پلائے گا؟
غالب: اس طرح کی خواہش صرف باہم دوست کر سکتے ہیں اور وہ بھی بہت زیادہ مہرومحبت آپس میں ہونا چاہئے
پولیس: میں آخری مرتبہ کہہ رہا ہوں۔ چائے پلاؤگے؟
غالب: مجھے اپنے ایمان کی قسم جس طرح میں نے اپنی نظم ونثر کی داد نہیں پائی۔ آپ ہی کہا۔ آپ ہی سمجھا اسی طرح تم بھی کہے جاؤ اور خود سمجھے جاؤ، لعنت بھیجو دوسرں پر اگر انکو تمہاری خواہش سمجھ میں نہیں آتی نہ آئے دفتر کا دروازہ کھل گیا۔ میں جارہا ہوں
پولیس: تم ہو کون۔ بس اتنا بتادو
غالب: تم سے نجات کا طالب ۔ غالب۔
تحریر: انور مقصود
بشکریہ ۔ بی بی سی اردو