غالب کے بارے ایک افسانہ ۔ گفتئہ غالب سے اقتباس

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
غالب کی اردو شاعری کے سلسلے میں ایک افسانہ مشہور ہے یعنی یہ کہ نواب حسام الدین حیدرخان نے غالب کا ابتدائی کلام لکھنئو میں میر تقی میر کو دکھایا تو میر صاحب نے کہا کہ اگر اس لڑکے کو استاد کامل نے سیدھے راستے پر ڈال دیا تو لاجواب شاعر بن جائے، ورنہ مہمل لکھنے لگے گا۔

1۔ میر تقی میر کی وفات 20 شعبان 1225ھ (20دسمبر 1810ء) کو ہوئی۔ اس وقت تو میرزا غالب 13 برس ایک مہینے اور چند دن کے تھے۔ اس عمر کے بچے کا کلام آگرہ سے لے کر لکھنئو میں میر تقی جیسے کہنہ مشق استاد کو دکھانے کا خیال کیسے ہوکتا ہے۔

2۔ حسام الدین حدر خاں دہلی میں رہتے تھے۔ مرزا غالب کے حسر نواب الہٰی بخش خاں معروف سے ان کے گہرے تعلقات تھے۔ اسی وجہ سے غالب کے ساتھ مراسم پیدا ہو گئے لیکن انہیں یہ کیوں کر معلوم ہوسکتا تھا کہ غالب کم سنی میں ہی حیرت انگیز شعر کہتے ہیں اور انہیں لکھنئو لے کر میر تقی کو دکھانا چائے۔ اس وقت غالب کی سکونت آگرہ میں تھی اور عمر بارہ تیرہ برس سے زیادہ نہ تھی۔

3۔ 8اگست 1810ء (7 رجب 1225ھ) کو مرزا غالب کی شدی ہوئی۔ اگر اس وقت دہلی میں آمد و رفت شروع ہوئی ہو اور حسام الدین حیدر خاں کو بھی غالب سے شعر سننے کا موقع ملا ہو تو یہ تعارف مہینے ڈیڑھ مہینے کی مختصر سی مدت میں اس پیمانے پر کیوں کر پہنچ سکتا تھا کہ حسام الدین حیدر خاں مرزا کے اشعار لکھنئو لے جا کر میر تقی میر کو دکھاتے اور میر کی رائے لے آتے؟ میر کی بیان کر دہ پیش گوئی کو ایک افسانہ شمار کیا جا سکتا ہے



حمید اللہ شاہ ہاشمی صاحب کی کتاب گفتہ غالب دیوانِ غالب (متن اردو ترجمہ اور مشکل الفاظ کے معنی ) سے اقتباس
 

سعدی غالب

محفلین
غالب کی اردو شاعری کے سلسلے میں ایک افسانہ مشہور ہے یعنی یہ کہ نواب حسام الدین حیدرخان نے غالب کا ابتدائی کلام لکھنئو میں میر تقی میر کو دکھایا تو میر صاحب نے کہا کہ اگر اس لڑکے کو استاد کامل نے سیدھے راستے پر ڈال دیا تو لاجواب شاعر بن جائے، ورنہ مہمل لکھنے لگے گا۔

1۔ میر تقی میر کی وفات 20 شعبان 1225ھ (20دسمبر 1810ء) کو ہوئی۔ اس وقت تو میرزا غالب 13 برس ایک مہینے اور چند دن کے تھے۔ اس عمر کے بچے کا کلام آگرہ سے لے کر لکھنئو میں میر تقی جیسے کہنہ مشق استاد کو دکھانے کا خیال کیسے ہوکتا ہے۔

2۔ حسام الدین حدر خاں دہلی میں رہتے تھے۔ مرزا غالب کے حسر نواب الہٰی بخش خاں معروف سے ان کے گہرے تعلقات تھے۔ اسی وجہ سے غالب کے ساتھ مراسم پیدا ہو گئے لیکن انہیں یہ کیوں کر معلوم ہوسکتا تھا کہ غالب کم سنی میں ہی حیرت انگیز شعر کہتے ہیں اور انہیں لکھنئو لے کر میر تقی کو دکھانا چائے۔ اس وقت غالب کی سکونت آگرہ میں تھی اور عمر بارہ تیرہ برس سے زیادہ نہ تھی۔

3۔ 8اگست 1810ء (7 رجب 1225ھ) کو مرزا غالب کی شدی ہوئی۔ اگر اس وقت دہلی میں آمد و رفت شروع ہوئی ہو اور حسام الدین حیدر خاں کو بھی غالب سے شعر سننے کا موقع ملا ہو تو یہ تعارف مہینے ڈیڑھ مہینے کی مختصر سی مدت میں اس پیمانے پر کیوں کر پہنچ سکتا تھا کہ حسام الدین حیدر خاں مرزا کے اشعار لکھنئو لے جا کر میر تقی میر کو دکھاتے اور میر کی رائے لے آتے؟ میر کی بیان کر دہ پیش گوئی کو ایک افسانہ شمار کیا جا سکتا ہے



حمید اللہ شاہ ہاشمی صاحب کی کتاب گفتہ غالب دیوانِ غالب (متن اردو ترجمہ اور مشکل الفاظ کے معنی ) سے اقتباس
یادگار غالبؔ کے مطابق غالبؔ کی ایک مثنوی جو انہوں نے تقریباً آٹھ نو برس کی عمر میں لکھی تھی
وہ اگر آپ ملاحظہ کریں تو اندازہ ہو جائے کا اگر آٹھ نو برس کا غالبؔ اتنی زبردست مثنوی کہہ سکتا ہے تو 13 برس کا غالبؔ کیا چیز ہوگا
نیز غالبؔ کا کلام لکھنؤ میں نہیں دلی میں میر صاحب کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا (جب میرؔایک بار دلی آئے تھے) اور تب غالبؔ کی عمر 11 سال تھی
اور رہی غالبؔ کی دلی میں آمد ورفت تو وہ ان کے چچا نصراللہ بیگ خان کی شادی سے پہلے شروع ہو چکی تھی
خود غالبؔ کے بقول وہ سات برس کی عمر سے ہے دلی میں آتے جاتے تھے
 

بانیاز خان

محفلین
یادگار غالبؔ کے مطابق غالبؔ کی ایک مثنوی جو انہوں نے تقریباً آٹھ نو برس کی عمر میں لکھی تھی
وہ اگر آپ ملاحظہ کریں تو اندازہ ہو جائے کا اگر آٹھ نو برس کا غالبؔ اتنی زبردست مثنوی کہہ سکتا ہے تو 13 برس کا غالبؔ کیا چیز ہوگا
نیز غالبؔ کا کلام لکھنؤ میں نہیں دلی میں میر صاحب کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا (جب میرؔایک بار دلی آئے تھے) اور تب غالبؔ کی عمر 11 سال تھی
اور رہی غالبؔ کی دلی میں آمد ورفت تو وہ ان کے چچا نصراللہ بیگ خان کی شادی سے پہلے شروع ہو چکی تھی
خود غالبؔ کے بقول وہ سات برس کی عمر سے ہے دلی میں آتے جاتے تھے


بہت عمدہ جواب دیا ہے جناب آپ نے
 
Top