رانا
محفلین
آج 14 اپریل 2014 کے جنگ سے مظہر برلاس کا ایک کالم
آج کل وہ بھی مشرف کو غدار قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں جو خود آمریت کی پیداوار ہیں، اس سلسلے میں زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں، آپ سب جانتے ہیں کہ کون کون آمریت کی چھتری تلے جوان ہوا، آمریت کس کس کو سیاست میں لے آئی، ضیاء الحق کا دور ماضی سہی مگر یہ ماضی اتنا دور نہیں کہ نظر نہ آسکے، آج مجھے ایک پرانے جیالے اور موجودہ حکومت کے وزیراطلاعات سینیٹر پرویز رشید کا بیان پڑھ کر حیرت ہوئی جس میں پرویز رشید صاحب فرماتے ہیں کہ ’’آمریت میں پلنے والے نیا روزگار تلاش کرلیں‘‘ سب کو معلوم ہے کہ آج کل آمریت میں پلنے والے ہی برسرروزگار ہیں لہٰذا انہیں روزگار تلاش کرنے کی ضرورت نہیں، موجودہ کھیپ میں سوائے ایک آدھ کے تمام افراد کی پروش آمرانہ دور میں ہوئی، پاکستانی لوگ بڑے ذہین ہیں وہ اتنی جلدی کیسے فراموش کردیں کہ اس پر ضیا الحق کا آمرانہ دور آیا تھا اور اس عہد میں سیاستدانوں کی ایک پوری کھیپ تیار ہوئی تھی، نام لکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ تمام نام کالم میں نہیں سما سکتے۔ ایک دوسرے سینیٹر فروغ نسیم نے بھی کئی نئی بحثوں کو شروع کروا دیا ہے، پرویز مشرف کے وکیل فروغ نسیم نے چند ایک بیانات دے کر صورت حال کو نیا موڑ دے دیا ہے، انہوں نے خوشگوار انداز میں کہا ہے کہ’’وکلا‘‘ نے اپنے چیف کو بچالیا، ’’فوج اپنے چیف کو بچالے‘‘ فروغ نسیم کا یہ بھی فرمان ہے کہ فوج کے پاس بہت سے آئینی راستے ہیں جن کا تعین مناسب وقت پر کیا جائے گا، اس کا وقت پتہ نہیں کونسا مناسب ہے یہ تو وکیل صاحب ہی بہتر جانتے ہیں، ان کیلئے اچھی خبر یہ ہے کہ ان کے قائد الطاف حسین نے پاکستانی پاسپورٹ کیلئے درخواست دے دی ہے اگلے مقاصد نہیں بتائے، شاید اس کا اعلان بھی مناسب وقت پر ہو۔
پورے ملک میں اور ملک سے باہر پرویز مشرف کے حوالے سے مختلف بحثیں جاری ہیں، تبصرہ کرنے والے اس بات پر غور نہیں کررہے کہ مشرف نے عدالت میں کیا کچھ کہا تھا، ذرا مشرف کی گفتگو پر غور کرلیجئے۔ یہ گفتگو انہوں نے عدالت کے روبرو کی، ان کا موقف یہ تھا کہ ، میں نے جو بھی کیا ملک اور ملک کے لوگوں کے بہترین مفاد میں کیا مگر افسوس کہ مجھے’’غداار‘‘ کہا جارہا ہے، میں نے پاکستان کو دنیا میں باعزت مقام دلوایا، میں عدالت کی عزت کرتا ہوں، قانون کی حکمرانی کا احترام کرتا ہوں، مجھے ان کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، اسی لئے میں سولہ مرتبہ کراچی، اسلام آباد، اور پنڈی کی عدالتوں میں حاضر ہوا ہوں، میں نے45 سال فوج میں رہ کر ملک و قوم کی خدمت کی، میں 9 برس تک سپہ سالار رہا، میں نے بطور آرمی چیف ملک کی بہت خدمت کی، میں نے ملک کی خاطر دو جنگیں لڑیں، کیا یہ غداری ہے؟ مجھے حیرت ہے کہ مجھے ’’غدار‘‘ کہا جارہا ہے، حالانکہ میں غدار نہیں ہوں میں نے فوج میں رہ کر وطن کی مٹی کی حفاظت کی ہے، میرے نزدیک غدار وہ ہے جو لوگوں کا پیسہ لوٹ کر خزانہ خالی کردے، میں نے وطن کی خاطر کارگل میں بھی وقت گزارا، دشمن بھی ہماری صلاحیتوں کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکا، آپ ججز انصاف کے امین ہیں، میں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انصاف چاہتا ہوں، میری حکومت نے لوگوں کو ترقی دی، میری حکومت نے غریبوں کو خوشحالی دی، ہمارے آٹھ سالہ دور اقتدار میں ملک نے بے پناہ ترقی کی، ترقی کا یہ عمل مختلف شعبوں میں جاری رہا، یہی وفاداری کا ثبوت ہے اگر یہ ملک سے وفاداری نہیں تو کیا ہے؟ میرے نزدیک غدار وہ ہے جو ملکی راز بیچے، میں اپنی ماں اور بچوں کی قسم اٹھاکر کہتا ہوں کہ میرے اوپر کرپشن کا ایک پیسہ بھی حرام ہے اور میرے دور میں کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ وہ مجھے کرپشن کی پیش کش ہی کرسکتا، میں نے جب اقتدار چھوڑا تو ملکی خزانے میں سترہ ارب ڈالرز کا زرمبادلہ تھا، اب صرف تین ارب ڈالرز ہے، میرا سوال ہے کہ باقی کہاں گئے، کیا تمام اراکان اسمبلی صادق اور امین ہیں لیکن کورٹ میں تو اکیلا میں ہی کھڑا ہوں، لوگوں کو خوشحال کرنا میرا فرض تھا اب لوگ غربت کے خاتمے اور آمدنی میں اضافے کے طلب گار ہیں، لوگ صحت اور تعلیم کی سہولتیں مانگتے ہیں، میرے دور میں ملکی دفاع مضبوط تر ہوا، الخالد ٹینک، جے ایف17 تھنڈر طیارے اور مختلف میزائل تیار ہوئے، میرے دور میں اعلٰی عدالتوں میں میرٹ پر تقرریاں ہوئیں، میرے آٹھ سالہ دور میں بلوچستان میں وہ ترقی ہوئی جو پچھلےساٹھ برسوں میں نہ ہوسکی، گوادر پورٹ کے علاوہ وہاں سڑکیں بنیں، میرے دور میں بلوچستان میں 9 یونیورسٹیاں بنائی گئیں، میرے نزدیک غدار وہ ہے جو ملکی ترقی میں رکاوٹیں ڈالتا ہو، جیسا کہ 2007 میں ہوا، میں نے کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے وزیر اعظم اور کابینہ سے مشورہ کیا، میں نے کوئی آئین نہیں توڑا۔
عدالت کے روبرو مشرف کی تمام گفتگو پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پرویز مشرف نے اپنے اوپر لگنے والے تمام الزمات کا جواب دیا ہے، مثلاً انہوں نے سترہ ارب ڈالر کے زرمبادلہ کی بات کرکے ملکی خزانے کو بھرنے کا تاثر دیا ہے اور ساتھ ہی ساستدانوں پر سوال داغ دیا ہے کہ آخر چودہ ارب ڈالر کدھر گئے، انہوں نے صادق اور امین ہونے کی باتیں کرکے آئین کی شق 63,62 کا جائزہ لینے کی دعوت دی ہے اگر آئین کی ان شقوں کا اطلاق درست انداز میں پارلیمنٹ پر ہوگیا تو پھر کون کون بچے گا، بلوچستان کی ترقی کے تذکرے سے انہوں نے اکبر بگٹی کے قتل کا جواب دیا ہے اور ایک طرح سے اہم نکتہ اٹھایا ہے کہ ملکی ترقی کے خواہاں لوگ غدار نہیں ہوتے بلکہ وہ سردار یا وہ لوگ غدار ہیں جو ملکی ترقی کے راستے میںرکاوٹ ڈالتے ہیں،دفاعی کارنامے گنوا کے مشرف نے خود کو سچا سپاہی اور محب وطن ثابت کیا ہے،عدالتوں میں سولہ حاضریوں کا ذکر کرکے مشرف نے عدلیہ کے احترام کی نوید سنائی ہے، اسی طرح جنگوں میں شرکت کا کہہ کر خود پر عائد ہونے والے الزامات کو دھویا ہے، آئین نہ توڑنے کی بات اہم ہے، ویسے آپس کی بات ہے کہ پرویز مشرف کے بارہ اکتوبر 1999 کے اقدام کو عدلیہ نے جائز قرار دیا تھا اگر بارہ اکتوبر کا اقدام آئین توڑنا تھا تو پھر عدلیہ نے اسے جائز کیوں قرار دیا، مشرف نے اعلٰی عدلیہ میں میرٹ پر تقرریوں کا تذکرہ کیا، ان کی بات درست ہے، عدلیہ میں تقرریاں میرٹ پر ہی ہونی چائیں، بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی جماعتیں اپنی اپنی مرضی کے جج نامزد کردیتی ہیں، اعلی عدلیہ میں ججوں کی تقرریوں کیلئے کوئی امتحان اور انٹرویو ہونا چاہئے۔ جیسا کہ پاکستان کی ابتدائی عدلیہ میں جسٹس کانیلئس اور جسٹس ایم آر کیانی جیسے لوگ تھے جنھوں نے آئی سی ایس کررکھا تھا اب بھی کوئی اسی طرز کا میرٹ ہونا چاہئے تاکہ سیاست کا راستہ رک سکے، اس میں عدلیہ کا بھی بھلا ہے، باقی رہ گئی بات مشرف کی تو اس کے حسب حال ایک شعر ہے کہ
خوف آیا نہیں سانپوں کے گھنے جنگل میں
مجھ کو محفوظ میری ماں کی دعا نے رکھا
آج کل وہ بھی مشرف کو غدار قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں جو خود آمریت کی پیداوار ہیں، اس سلسلے میں زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں، آپ سب جانتے ہیں کہ کون کون آمریت کی چھتری تلے جوان ہوا، آمریت کس کس کو سیاست میں لے آئی، ضیاء الحق کا دور ماضی سہی مگر یہ ماضی اتنا دور نہیں کہ نظر نہ آسکے، آج مجھے ایک پرانے جیالے اور موجودہ حکومت کے وزیراطلاعات سینیٹر پرویز رشید کا بیان پڑھ کر حیرت ہوئی جس میں پرویز رشید صاحب فرماتے ہیں کہ ’’آمریت میں پلنے والے نیا روزگار تلاش کرلیں‘‘ سب کو معلوم ہے کہ آج کل آمریت میں پلنے والے ہی برسرروزگار ہیں لہٰذا انہیں روزگار تلاش کرنے کی ضرورت نہیں، موجودہ کھیپ میں سوائے ایک آدھ کے تمام افراد کی پروش آمرانہ دور میں ہوئی، پاکستانی لوگ بڑے ذہین ہیں وہ اتنی جلدی کیسے فراموش کردیں کہ اس پر ضیا الحق کا آمرانہ دور آیا تھا اور اس عہد میں سیاستدانوں کی ایک پوری کھیپ تیار ہوئی تھی، نام لکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ تمام نام کالم میں نہیں سما سکتے۔ ایک دوسرے سینیٹر فروغ نسیم نے بھی کئی نئی بحثوں کو شروع کروا دیا ہے، پرویز مشرف کے وکیل فروغ نسیم نے چند ایک بیانات دے کر صورت حال کو نیا موڑ دے دیا ہے، انہوں نے خوشگوار انداز میں کہا ہے کہ’’وکلا‘‘ نے اپنے چیف کو بچالیا، ’’فوج اپنے چیف کو بچالے‘‘ فروغ نسیم کا یہ بھی فرمان ہے کہ فوج کے پاس بہت سے آئینی راستے ہیں جن کا تعین مناسب وقت پر کیا جائے گا، اس کا وقت پتہ نہیں کونسا مناسب ہے یہ تو وکیل صاحب ہی بہتر جانتے ہیں، ان کیلئے اچھی خبر یہ ہے کہ ان کے قائد الطاف حسین نے پاکستانی پاسپورٹ کیلئے درخواست دے دی ہے اگلے مقاصد نہیں بتائے، شاید اس کا اعلان بھی مناسب وقت پر ہو۔
پورے ملک میں اور ملک سے باہر پرویز مشرف کے حوالے سے مختلف بحثیں جاری ہیں، تبصرہ کرنے والے اس بات پر غور نہیں کررہے کہ مشرف نے عدالت میں کیا کچھ کہا تھا، ذرا مشرف کی گفتگو پر غور کرلیجئے۔ یہ گفتگو انہوں نے عدالت کے روبرو کی، ان کا موقف یہ تھا کہ ، میں نے جو بھی کیا ملک اور ملک کے لوگوں کے بہترین مفاد میں کیا مگر افسوس کہ مجھے’’غداار‘‘ کہا جارہا ہے، میں نے پاکستان کو دنیا میں باعزت مقام دلوایا، میں عدالت کی عزت کرتا ہوں، قانون کی حکمرانی کا احترام کرتا ہوں، مجھے ان کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، اسی لئے میں سولہ مرتبہ کراچی، اسلام آباد، اور پنڈی کی عدالتوں میں حاضر ہوا ہوں، میں نے45 سال فوج میں رہ کر ملک و قوم کی خدمت کی، میں 9 برس تک سپہ سالار رہا، میں نے بطور آرمی چیف ملک کی بہت خدمت کی، میں نے ملک کی خاطر دو جنگیں لڑیں، کیا یہ غداری ہے؟ مجھے حیرت ہے کہ مجھے ’’غدار‘‘ کہا جارہا ہے، حالانکہ میں غدار نہیں ہوں میں نے فوج میں رہ کر وطن کی مٹی کی حفاظت کی ہے، میرے نزدیک غدار وہ ہے جو لوگوں کا پیسہ لوٹ کر خزانہ خالی کردے، میں نے وطن کی خاطر کارگل میں بھی وقت گزارا، دشمن بھی ہماری صلاحیتوں کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکا، آپ ججز انصاف کے امین ہیں، میں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انصاف چاہتا ہوں، میری حکومت نے لوگوں کو ترقی دی، میری حکومت نے غریبوں کو خوشحالی دی، ہمارے آٹھ سالہ دور اقتدار میں ملک نے بے پناہ ترقی کی، ترقی کا یہ عمل مختلف شعبوں میں جاری رہا، یہی وفاداری کا ثبوت ہے اگر یہ ملک سے وفاداری نہیں تو کیا ہے؟ میرے نزدیک غدار وہ ہے جو ملکی راز بیچے، میں اپنی ماں اور بچوں کی قسم اٹھاکر کہتا ہوں کہ میرے اوپر کرپشن کا ایک پیسہ بھی حرام ہے اور میرے دور میں کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ وہ مجھے کرپشن کی پیش کش ہی کرسکتا، میں نے جب اقتدار چھوڑا تو ملکی خزانے میں سترہ ارب ڈالرز کا زرمبادلہ تھا، اب صرف تین ارب ڈالرز ہے، میرا سوال ہے کہ باقی کہاں گئے، کیا تمام اراکان اسمبلی صادق اور امین ہیں لیکن کورٹ میں تو اکیلا میں ہی کھڑا ہوں، لوگوں کو خوشحال کرنا میرا فرض تھا اب لوگ غربت کے خاتمے اور آمدنی میں اضافے کے طلب گار ہیں، لوگ صحت اور تعلیم کی سہولتیں مانگتے ہیں، میرے دور میں ملکی دفاع مضبوط تر ہوا، الخالد ٹینک، جے ایف17 تھنڈر طیارے اور مختلف میزائل تیار ہوئے، میرے دور میں اعلٰی عدالتوں میں میرٹ پر تقرریاں ہوئیں، میرے آٹھ سالہ دور میں بلوچستان میں وہ ترقی ہوئی جو پچھلےساٹھ برسوں میں نہ ہوسکی، گوادر پورٹ کے علاوہ وہاں سڑکیں بنیں، میرے دور میں بلوچستان میں 9 یونیورسٹیاں بنائی گئیں، میرے نزدیک غدار وہ ہے جو ملکی ترقی میں رکاوٹیں ڈالتا ہو، جیسا کہ 2007 میں ہوا، میں نے کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے وزیر اعظم اور کابینہ سے مشورہ کیا، میں نے کوئی آئین نہیں توڑا۔
عدالت کے روبرو مشرف کی تمام گفتگو پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پرویز مشرف نے اپنے اوپر لگنے والے تمام الزمات کا جواب دیا ہے، مثلاً انہوں نے سترہ ارب ڈالر کے زرمبادلہ کی بات کرکے ملکی خزانے کو بھرنے کا تاثر دیا ہے اور ساتھ ہی ساستدانوں پر سوال داغ دیا ہے کہ آخر چودہ ارب ڈالر کدھر گئے، انہوں نے صادق اور امین ہونے کی باتیں کرکے آئین کی شق 63,62 کا جائزہ لینے کی دعوت دی ہے اگر آئین کی ان شقوں کا اطلاق درست انداز میں پارلیمنٹ پر ہوگیا تو پھر کون کون بچے گا، بلوچستان کی ترقی کے تذکرے سے انہوں نے اکبر بگٹی کے قتل کا جواب دیا ہے اور ایک طرح سے اہم نکتہ اٹھایا ہے کہ ملکی ترقی کے خواہاں لوگ غدار نہیں ہوتے بلکہ وہ سردار یا وہ لوگ غدار ہیں جو ملکی ترقی کے راستے میںرکاوٹ ڈالتے ہیں،دفاعی کارنامے گنوا کے مشرف نے خود کو سچا سپاہی اور محب وطن ثابت کیا ہے،عدالتوں میں سولہ حاضریوں کا ذکر کرکے مشرف نے عدلیہ کے احترام کی نوید سنائی ہے، اسی طرح جنگوں میں شرکت کا کہہ کر خود پر عائد ہونے والے الزامات کو دھویا ہے، آئین نہ توڑنے کی بات اہم ہے، ویسے آپس کی بات ہے کہ پرویز مشرف کے بارہ اکتوبر 1999 کے اقدام کو عدلیہ نے جائز قرار دیا تھا اگر بارہ اکتوبر کا اقدام آئین توڑنا تھا تو پھر عدلیہ نے اسے جائز کیوں قرار دیا، مشرف نے اعلٰی عدلیہ میں میرٹ پر تقرریوں کا تذکرہ کیا، ان کی بات درست ہے، عدلیہ میں تقرریاں میرٹ پر ہی ہونی چائیں، بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی جماعتیں اپنی اپنی مرضی کے جج نامزد کردیتی ہیں، اعلی عدلیہ میں ججوں کی تقرریوں کیلئے کوئی امتحان اور انٹرویو ہونا چاہئے۔ جیسا کہ پاکستان کی ابتدائی عدلیہ میں جسٹس کانیلئس اور جسٹس ایم آر کیانی جیسے لوگ تھے جنھوں نے آئی سی ایس کررکھا تھا اب بھی کوئی اسی طرز کا میرٹ ہونا چاہئے تاکہ سیاست کا راستہ رک سکے، اس میں عدلیہ کا بھی بھلا ہے، باقی رہ گئی بات مشرف کی تو اس کے حسب حال ایک شعر ہے کہ
خوف آیا نہیں سانپوں کے گھنے جنگل میں
مجھ کو محفوظ میری ماں کی دعا نے رکھا