غدار صحافی... قلم کمان ۔۔۔۔۔حامد میر
آج کل صحافیوں کو چاروں طرف سے حملوں کا سامنا ہے ۔ ایک طرف مذہبی انتہا پسند صحافیوں کو کفار کا ساتھی قرار دیکر دھمکیاں دے رہے ہیں اور بے گناہ میڈیا ورکرز کو قتل کرکے اپنی بہادری کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں ، دوسری طرف خفیہ اداروں میں موجود بے لگام عناصر ناپسندیدہ صحافیوں کی کردار کشی میں مصروف ہیں، تیسری طرف کچھ سیاسی جماعتیں بھی میڈیا کے خلاف کھلم کھلا جارحیت میں ملوث ہیں اور صحافیوں کے قاتلوں کو بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں، چوتھی طرف سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے محض ایک تیکھا سوال پوچھنے پر صحافیوں کو ہندوستانی ایجنٹ قرار دیدیا ہے ۔ پاکستان کے صحافی پچھلے کئی سال سے گولیوں، بموں اور دھمکیوں کے علاوہ بے بنیاد الزامات کی بھرمار کا بہادری سے مقابلہ کر رہے ہیں ۔ یہ طے ہے کہ سب سے زیادہ دھمکیاں اور سب سے زیادہ الزامات کا سامنا اس صحافی کو کرنا پڑتا ہے جو سب سے زیادہ سچ بولتا ہے ۔ جب کسی کے پاس سچ کا جواب نہیں ہوتا تو وہ صحافیوں پر کرپشن کا الزام لگا دیتا ہے یا انہیں غدار قرار دے دیتا ہے۔ پاکستان میں صحافیوں اور سیاست دانوں کو غدار قرار دینے کی روایت بہت پرانی ہے پہلی دفعہ ایک ریٹائرڈ آرمی چیف کو غداری کے مقدمے کا سامنا ہے ۔ اس ریٹائرڈ آرمی چیف کو کسی صحافی یا سیاست دان نے غدار قرار نہیں دیا بلکہ پاکستان کے آئین کی دفعہ چھ نے غدار قرار دیا ہے ۔ریٹائرڈ آرمی چیف اپنے خلاف الزام کا سامنا کرنے کی بجائے راولپنڈی کے ایک فوجی اسپتال میں قیام پذیر ہے ۔ عدالت بار بار اس مرد جرّی کو پیش ہونے کا حکم دے رہی ہے لیکنمرد جرّی کے وکلاء نے ناسازی طبع کا شور مچا رکھا ہے ۔ اس صورتحال میں ایک صحافی نے اس مرد جرّی کے وکیل احمد رضا قصوری سے یہ پوچھ لیا کہ آپ تو کہتے تھے کہ آپ کا موکل ایک کمانڈو ہے اور کمانڈو موت سے نہیں ڈرتا کمانڈو اپنے خلاف مقدمات کا بہادری سے مقابلہ کرے گا اب آپ کا کمانڈو عدالت میں کیوں نہیں آتا ؟ اس سوال کے جواب میں قصوری صاحب نے وہ لب ولہجہ اپنا لیا جو 2007ء میں خود باوردی جنرل پرویز مشرف کا ہوا کرتا تھا اور قصوری صاحب نے سوال پوچھنے والے صحافی علی شیر کو ہندوستانی ایجنٹ قرار دیدیا۔ معاملہ یہیں تک محدود نہیں رہا ۔ بعدازاں قصوری صاحب کو کہا گیا کہ وہ اپنے الفاظ واپس لے لیں تو وہ مزید دھمکیوں پر اتر آئے اور ایک ٹی وی پروگرام میں انہوں نے کہا کہ غدار صحافیوں کی ایک لمبی فہرست ہے اور انہوں نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کر رکھی ہے کہ غدار صحافیوں کے خلاف مقدمہ چلایا جائے ۔
سپریم کورٹ میں صحافیوں کے خلاف درخواست کے خالق زید حامد ہیں جن پر آئی ایس آئی سے 20لاکھ روپے ماہواری کا الزام کسی صحافی نے نہیں بلکہ ان کے اپنے سابقہ ساتھی عماد خالد نے لگایا ۔ پچھلے سال سپریم کورٹ میں میڈیا کمیشن کیس کی سماعت کے دوران جیسے ہی میں نے اور ابصار عالم نے مطالبہ کیا کہ سرکاری اداروں کے سیکرٹ فنڈز ختم کئے جائیں تو زید حامد نے ہمارے خلاف غداری کا شور مچا دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ زید حامد کیلئے وکالت کے فرائض وہ لوگ سرانجام دیتے ہیں جو لاپتہ افراد کے مقدمات میں خفیہ اداروں کے وکیل بنتے ہیں یا پھر پرویز مشرف کا دفاع کرتے ہیں ۔ احمد رضا قصوری اور زید حامد شوق سے صحافیوں پر غداری کے الزامات لگائیں ۔ ہم یقین دلاتے ہیں کہ ہم الزامات کا سامنا کرنے عدالت میں ضرور آئیں گے اور کسی اسپتال کو اپنی جائے پناہ نہیں بنائیں گے ۔ ہم جانتے ہیں قصوری اور زید حامد بہت طاقتور ہیں کیونکہ وہ اس ملک کے اصل حکمرانوں کے نمائندے ہیں ۔ قصوری صاحب تو کھلم کھلا کہتے ہیں کہ اگر مشرف کو کچھ ہوا تو بندوق والے خاموش نہیں بیٹھیں گے ۔ ہم صحافیوں کے پاس بندوق نہیں ہے ۔ہمارا ہتھیار ہمارا قلم اور کیمرہ ہے ۔ ہماری اصل طاقت ہمارا سوال ہے ۔ جس صحافی کا سوال طاقتور لوگوں کو نشتر کی طرح چبھنے لگے وہ صحافی غدار قرار پاتا ہے جو صحافی سوال کرنے کی بجائے خود سوالی بن جائے تو طاقتور لوگ اسے محب وطن قرار دیکر اپنے سیکرٹ فنڈ سے پیسے دینے لگتے ہیں یا پھر حکومت میں عہدہ دلوا دیتے ہیں ۔ جس طرح سب صحافی ایک جیسے نہیں ہوتے اسی طرح سب فوجی افسران بھی پرویز مشرف جیسے نہیں ہوتے ۔ کالی بھیڑیں ہر جگہ ہوتی ہیں لیکن احمد رضا قصوری نے مجھے مجبور کر دیا ہے کہ میں تاریخ کا ریکارڈ سامنے لاکر انہیں آئینہ دکھا دوں ۔ برصغیر پاک وہند میں غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ ملی بھگت کرکے اپنوں سے غداری کی روایت کسی صحافی نے نہیں بلکہ جرنیلوں نے ڈالی ہے ۔ قصوری صاحب آئیے میں آپ کے سامنے آئینہ رکھتا ہوں ۔
دور نہ جائیے ۔پاکستان کے ایک سابق صدر میجر جنرل سکندر مرزا کے برخوردار ہمایوں مرزا کی کتاب FROM PLASSY TO PAKISTAN پڑھ لیجئے ۔’’فرام پلاسی ٹو پاکستان ‘‘ میں ہمایوں مرزا نے لکھا ہے کہ وہ اس سید محمد میر جعفر علی خان کی اولاد میں سے ہے جس نے 1757ء میں جنگ پلاسی میں نواب سراج الدولہ کے ساتھ غداری کی اور متحدہ ہندوستان میں برطانوی راج کا راستہ ہموار کیا ۔ سید محمد میر جعفر علی خان عراق کے شہر نجف کے ایک سابق گورنر سید حسین نجفی کا پوتا تھا ۔ یہ خاندان اورنگزیب عالمگیر کے زمانے میں نجف سے ہندوستان آیا ۔ میر جعفر کا باپ سید احمد نجفی گوالیار اور اڑیسہ کا گورنر بنا ۔ میر جعفر بنگال کی فوج میں بھرتی ہو گیا اور جب فوجدار یعنی کمانڈر انچیف بن گیا تو سید جعفر نجفی سے سید محمد میر جعفر علی خان بن گیا کیونکہ اس زمانے میں ہر قبائلی سردار یا فوجی سربراہ اپنے نام کے ساتھ میر اور خان لگانا فخر سمجھتا تھا ۔ہمایوں مرزا نے اعتراف کیا ہے کہ اس کے پڑ دادا اور بنگال کے کمانڈر انچیف سید محمد میر جعفر علی خان نے قرآن پر حلف لیا تھا کہ وہ کبھی سراج الدولہ کا ساتھ نہیں چھوڑے گا لیکن انگریزوں نے ایک رقاصہ منی بیگم کے ذریعہ سراج الدولہ کی فوج کے افسروں کو خریدنا شروع کر دیا اور پلاسی کی جنگ میں کمانڈر انچیف نے اپنوں کے ساتھ غداری کی اور سراج الدولہ کی موت کے بعد انگریزوں کی مدد سے بنگال کا حکمران بن گیا ۔ پھر کیا ہوا؟انگریزوں نے اس وطن فروش کو کچھ عرصہ استعمال کرکے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا اور اس کے پڑ پوتے ہمایوں مرزا نے لکھا کہ میر جعفر واقعی ایک مفاد پرست تھا ۔ ہمایوں مرزا لکھتا ہے کہ جو میر جعفر نے سراج الدولہ کے ساتھ کیا وہی جنرل ایوب خان نے اس کے باپ سکندر مرزا کے ساتھ کیا ۔ ہمایوں مرزا نے ایوب خان کو میر جعفر کیوں قرار دیا؟ تفصیل کیلئے کتاب پڑھ لیجئے ۔
عالمی طاقتوں کے دبائو پر سندھ طاس معاہدے کے ذریعہ پاکستان کے دریائوں کا پانی بھارت کو کسی صحافی نے نہیں جنرل ایوب خان نے بیچا تھا ۔ محترمہ فاطمہ جناح کو امریکہ اور بھارت کا ایجنٹ کسی صحافی نے نہیں جنرل ایوب خان نے قرار دیا تھا ۔ 1971ء میں بھارتی فوج کے سامنے سرنڈر کسی صحافی نے نہیں بلکہ اس فوج کے جرنیلوں نے کیا جس کا سربراہ جنرل یحییٰ خان تھا ۔ ہاں سب جرنیل ایک سے نہیں ہوتے لیکن کیا کریں کہ جب بھارت نے سیاچن پر قبضہ کیا تو پاکستان پر کسی صحافی کی نہیں بلکہ جنرل ضیاءالحق کی حکومت تھی ۔ گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد پاکستان کے فوجی اڈے امریکہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کسی صحافی نے نہیں بلکہ جنرل پرویز مشرف نے کیا تھا ۔ اس پرویز مشرف کو پاکستانی فوج نے گارڈ آف دیکر 2008ء میں وطن عزیز سے رخصت کر دیا تھا لیکن وہ اپنی مرضی سے واپس آیا ۔اس نے کہا میں اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کروں گا لیکن اب ایک فوجی اسپتال میں چھپا بیٹھا ہے ۔ اقتدار میں نہ ہونے کے باوجود مشرف آج بھی اہل اقتدار سے زیادہ طاقتور نظر آتا ہے ۔ اس کے ساتھی صحافیوں کو غدار قرار دے رہے ہیں اور پاکستان کے ان بہادر فوجیوں کو متنازعہ بنا رہے ہیں جن کا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا اور جو اقتدار کے مزے نہیں لوٹتے بلکہ اپنی جانیں قربان کرتے ہیں ۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=165004
آج کل صحافیوں کو چاروں طرف سے حملوں کا سامنا ہے ۔ ایک طرف مذہبی انتہا پسند صحافیوں کو کفار کا ساتھی قرار دیکر دھمکیاں دے رہے ہیں اور بے گناہ میڈیا ورکرز کو قتل کرکے اپنی بہادری کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں ، دوسری طرف خفیہ اداروں میں موجود بے لگام عناصر ناپسندیدہ صحافیوں کی کردار کشی میں مصروف ہیں، تیسری طرف کچھ سیاسی جماعتیں بھی میڈیا کے خلاف کھلم کھلا جارحیت میں ملوث ہیں اور صحافیوں کے قاتلوں کو بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں، چوتھی طرف سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے محض ایک تیکھا سوال پوچھنے پر صحافیوں کو ہندوستانی ایجنٹ قرار دیدیا ہے ۔ پاکستان کے صحافی پچھلے کئی سال سے گولیوں، بموں اور دھمکیوں کے علاوہ بے بنیاد الزامات کی بھرمار کا بہادری سے مقابلہ کر رہے ہیں ۔ یہ طے ہے کہ سب سے زیادہ دھمکیاں اور سب سے زیادہ الزامات کا سامنا اس صحافی کو کرنا پڑتا ہے جو سب سے زیادہ سچ بولتا ہے ۔ جب کسی کے پاس سچ کا جواب نہیں ہوتا تو وہ صحافیوں پر کرپشن کا الزام لگا دیتا ہے یا انہیں غدار قرار دے دیتا ہے۔ پاکستان میں صحافیوں اور سیاست دانوں کو غدار قرار دینے کی روایت بہت پرانی ہے پہلی دفعہ ایک ریٹائرڈ آرمی چیف کو غداری کے مقدمے کا سامنا ہے ۔ اس ریٹائرڈ آرمی چیف کو کسی صحافی یا سیاست دان نے غدار قرار نہیں دیا بلکہ پاکستان کے آئین کی دفعہ چھ نے غدار قرار دیا ہے ۔ریٹائرڈ آرمی چیف اپنے خلاف الزام کا سامنا کرنے کی بجائے راولپنڈی کے ایک فوجی اسپتال میں قیام پذیر ہے ۔ عدالت بار بار اس مرد جرّی کو پیش ہونے کا حکم دے رہی ہے لیکنمرد جرّی کے وکلاء نے ناسازی طبع کا شور مچا رکھا ہے ۔ اس صورتحال میں ایک صحافی نے اس مرد جرّی کے وکیل احمد رضا قصوری سے یہ پوچھ لیا کہ آپ تو کہتے تھے کہ آپ کا موکل ایک کمانڈو ہے اور کمانڈو موت سے نہیں ڈرتا کمانڈو اپنے خلاف مقدمات کا بہادری سے مقابلہ کرے گا اب آپ کا کمانڈو عدالت میں کیوں نہیں آتا ؟ اس سوال کے جواب میں قصوری صاحب نے وہ لب ولہجہ اپنا لیا جو 2007ء میں خود باوردی جنرل پرویز مشرف کا ہوا کرتا تھا اور قصوری صاحب نے سوال پوچھنے والے صحافی علی شیر کو ہندوستانی ایجنٹ قرار دیدیا۔ معاملہ یہیں تک محدود نہیں رہا ۔ بعدازاں قصوری صاحب کو کہا گیا کہ وہ اپنے الفاظ واپس لے لیں تو وہ مزید دھمکیوں پر اتر آئے اور ایک ٹی وی پروگرام میں انہوں نے کہا کہ غدار صحافیوں کی ایک لمبی فہرست ہے اور انہوں نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کر رکھی ہے کہ غدار صحافیوں کے خلاف مقدمہ چلایا جائے ۔
سپریم کورٹ میں صحافیوں کے خلاف درخواست کے خالق زید حامد ہیں جن پر آئی ایس آئی سے 20لاکھ روپے ماہواری کا الزام کسی صحافی نے نہیں بلکہ ان کے اپنے سابقہ ساتھی عماد خالد نے لگایا ۔ پچھلے سال سپریم کورٹ میں میڈیا کمیشن کیس کی سماعت کے دوران جیسے ہی میں نے اور ابصار عالم نے مطالبہ کیا کہ سرکاری اداروں کے سیکرٹ فنڈز ختم کئے جائیں تو زید حامد نے ہمارے خلاف غداری کا شور مچا دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ زید حامد کیلئے وکالت کے فرائض وہ لوگ سرانجام دیتے ہیں جو لاپتہ افراد کے مقدمات میں خفیہ اداروں کے وکیل بنتے ہیں یا پھر پرویز مشرف کا دفاع کرتے ہیں ۔ احمد رضا قصوری اور زید حامد شوق سے صحافیوں پر غداری کے الزامات لگائیں ۔ ہم یقین دلاتے ہیں کہ ہم الزامات کا سامنا کرنے عدالت میں ضرور آئیں گے اور کسی اسپتال کو اپنی جائے پناہ نہیں بنائیں گے ۔ ہم جانتے ہیں قصوری اور زید حامد بہت طاقتور ہیں کیونکہ وہ اس ملک کے اصل حکمرانوں کے نمائندے ہیں ۔ قصوری صاحب تو کھلم کھلا کہتے ہیں کہ اگر مشرف کو کچھ ہوا تو بندوق والے خاموش نہیں بیٹھیں گے ۔ ہم صحافیوں کے پاس بندوق نہیں ہے ۔ہمارا ہتھیار ہمارا قلم اور کیمرہ ہے ۔ ہماری اصل طاقت ہمارا سوال ہے ۔ جس صحافی کا سوال طاقتور لوگوں کو نشتر کی طرح چبھنے لگے وہ صحافی غدار قرار پاتا ہے جو صحافی سوال کرنے کی بجائے خود سوالی بن جائے تو طاقتور لوگ اسے محب وطن قرار دیکر اپنے سیکرٹ فنڈ سے پیسے دینے لگتے ہیں یا پھر حکومت میں عہدہ دلوا دیتے ہیں ۔ جس طرح سب صحافی ایک جیسے نہیں ہوتے اسی طرح سب فوجی افسران بھی پرویز مشرف جیسے نہیں ہوتے ۔ کالی بھیڑیں ہر جگہ ہوتی ہیں لیکن احمد رضا قصوری نے مجھے مجبور کر دیا ہے کہ میں تاریخ کا ریکارڈ سامنے لاکر انہیں آئینہ دکھا دوں ۔ برصغیر پاک وہند میں غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ ملی بھگت کرکے اپنوں سے غداری کی روایت کسی صحافی نے نہیں بلکہ جرنیلوں نے ڈالی ہے ۔ قصوری صاحب آئیے میں آپ کے سامنے آئینہ رکھتا ہوں ۔
دور نہ جائیے ۔پاکستان کے ایک سابق صدر میجر جنرل سکندر مرزا کے برخوردار ہمایوں مرزا کی کتاب FROM PLASSY TO PAKISTAN پڑھ لیجئے ۔’’فرام پلاسی ٹو پاکستان ‘‘ میں ہمایوں مرزا نے لکھا ہے کہ وہ اس سید محمد میر جعفر علی خان کی اولاد میں سے ہے جس نے 1757ء میں جنگ پلاسی میں نواب سراج الدولہ کے ساتھ غداری کی اور متحدہ ہندوستان میں برطانوی راج کا راستہ ہموار کیا ۔ سید محمد میر جعفر علی خان عراق کے شہر نجف کے ایک سابق گورنر سید حسین نجفی کا پوتا تھا ۔ یہ خاندان اورنگزیب عالمگیر کے زمانے میں نجف سے ہندوستان آیا ۔ میر جعفر کا باپ سید احمد نجفی گوالیار اور اڑیسہ کا گورنر بنا ۔ میر جعفر بنگال کی فوج میں بھرتی ہو گیا اور جب فوجدار یعنی کمانڈر انچیف بن گیا تو سید جعفر نجفی سے سید محمد میر جعفر علی خان بن گیا کیونکہ اس زمانے میں ہر قبائلی سردار یا فوجی سربراہ اپنے نام کے ساتھ میر اور خان لگانا فخر سمجھتا تھا ۔ہمایوں مرزا نے اعتراف کیا ہے کہ اس کے پڑ دادا اور بنگال کے کمانڈر انچیف سید محمد میر جعفر علی خان نے قرآن پر حلف لیا تھا کہ وہ کبھی سراج الدولہ کا ساتھ نہیں چھوڑے گا لیکن انگریزوں نے ایک رقاصہ منی بیگم کے ذریعہ سراج الدولہ کی فوج کے افسروں کو خریدنا شروع کر دیا اور پلاسی کی جنگ میں کمانڈر انچیف نے اپنوں کے ساتھ غداری کی اور سراج الدولہ کی موت کے بعد انگریزوں کی مدد سے بنگال کا حکمران بن گیا ۔ پھر کیا ہوا؟انگریزوں نے اس وطن فروش کو کچھ عرصہ استعمال کرکے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا اور اس کے پڑ پوتے ہمایوں مرزا نے لکھا کہ میر جعفر واقعی ایک مفاد پرست تھا ۔ ہمایوں مرزا لکھتا ہے کہ جو میر جعفر نے سراج الدولہ کے ساتھ کیا وہی جنرل ایوب خان نے اس کے باپ سکندر مرزا کے ساتھ کیا ۔ ہمایوں مرزا نے ایوب خان کو میر جعفر کیوں قرار دیا؟ تفصیل کیلئے کتاب پڑھ لیجئے ۔
عالمی طاقتوں کے دبائو پر سندھ طاس معاہدے کے ذریعہ پاکستان کے دریائوں کا پانی بھارت کو کسی صحافی نے نہیں جنرل ایوب خان نے بیچا تھا ۔ محترمہ فاطمہ جناح کو امریکہ اور بھارت کا ایجنٹ کسی صحافی نے نہیں جنرل ایوب خان نے قرار دیا تھا ۔ 1971ء میں بھارتی فوج کے سامنے سرنڈر کسی صحافی نے نہیں بلکہ اس فوج کے جرنیلوں نے کیا جس کا سربراہ جنرل یحییٰ خان تھا ۔ ہاں سب جرنیل ایک سے نہیں ہوتے لیکن کیا کریں کہ جب بھارت نے سیاچن پر قبضہ کیا تو پاکستان پر کسی صحافی کی نہیں بلکہ جنرل ضیاءالحق کی حکومت تھی ۔ گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد پاکستان کے فوجی اڈے امریکہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کسی صحافی نے نہیں بلکہ جنرل پرویز مشرف نے کیا تھا ۔ اس پرویز مشرف کو پاکستانی فوج نے گارڈ آف دیکر 2008ء میں وطن عزیز سے رخصت کر دیا تھا لیکن وہ اپنی مرضی سے واپس آیا ۔اس نے کہا میں اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کروں گا لیکن اب ایک فوجی اسپتال میں چھپا بیٹھا ہے ۔ اقتدار میں نہ ہونے کے باوجود مشرف آج بھی اہل اقتدار سے زیادہ طاقتور نظر آتا ہے ۔ اس کے ساتھی صحافیوں کو غدار قرار دے رہے ہیں اور پاکستان کے ان بہادر فوجیوں کو متنازعہ بنا رہے ہیں جن کا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا اور جو اقتدار کے مزے نہیں لوٹتے بلکہ اپنی جانیں قربان کرتے ہیں ۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=165004